وہ یونیورسٹی پہنچی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ اس شخص سے کچھ بھی ایکسپکٹ کر سکتی تھی مگر یہ سب کبھی نہیں۔ ساری گراؤنڈ سٹوڈنٹس سے بھری تھی۔ سٹیج پہ کھڑا ریعان اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ غالیہ کی ہونق شکل دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ در آئی۔ سٹیج کے پاس غالیہ کے سنٹر کے سارے بچے بھی موجود تھے اور ان سب کے ہاتھوں میں غبارے تھے۔
"وہ سراپا سامنے ہے استعارے مسترد
چاند، جگنو، پھول، خوشبو اور ستارے مسترد
تذکرہ جن میں نہ ہو ان کے لب و رخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں، وہ شمارے مسترد"
(ظفر اقبال)
ریعان نے مائیک میں اشعار پڑھے اور غالیہ کو سٹیج پر بلایا۔
غالیہ مارے حیرت کے اپنی جگہ سے ہل نہ پائی۔
"غالیہ۔۔۔"
اریج نے اسے پکارا جو ابھی بھی بت بنی کھڑی تھی۔
"جیری ذرا مجھے ایک تھپڑ لگانا۔"
"تھپڑ تو ویسے ہی پڑ گیا ہے تمہیں۔ اب جاؤ وہاں۔"
اریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ بے یقینی سے چلتی ہوئی سٹیج تک آئی۔ ریعان نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسے اوپر کھینچا۔
"سو آر یو ریڈی مس غالیہ؟"
غالیہ کو سانس لینا محال ہو رہا تھا۔ وہ سب لوگ جن کے سامنے اس نے پچھلے تین سال اس کی درگت بنائی تھی، ان سب کے سامنے وہ اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ وہ اسے سٹیج کے درمیان لے کر گیا اور خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ ابھی بھی اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔
"میں ریعان احمد پوری یونی کے سامنے غالیہ شاہمیر سے اپنی تمام کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہوں۔"
غالیہ ارد گرد دیکھنے لگی۔ سب ان دونوں کی طرف متوجہ تھے۔ سب سٹوڈنٹس جانتے تھے کہ ریعان نے اپنی یونی لائف میں اور اب ٹیچر بن کر بھی غالیہ کو بہت تنگ کیا تھا۔
"کیا تم غالیہ شاہمیر سے غالیہ ریعان بننا پسند کرو گی؟ میں تمہیں ہمیشہ چاہتا رہوں گا اور تمہیں کبھی ذرا برابر بھی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا۔ یقین کرو تمہارے لیے یہ جھاڑیوں جیسے بال بھی کٹوا لوں گا۔"
اس کا لہجہ شرارت سے بھرپور مگر محبت سے چور تھا۔
غالیہ کا دل چاہا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے۔
"بولو غالیہ کیا تمہیں اس بندر کا ساتھ قبول ہے؟"
'اف یہ بندہ۔'
"غالیہ آپی سے یس۔"
ایک بچے نے کہا تو سب ہی شروع ہو گئے۔ ہر طرف سے یہی آواز آنے لگی۔ غالیہ شرم سے لال ہو چکی تھی۔ اس نے اریج کی طرف دیکھا تو اس کے ساتھ شائق کھڑا نظر آیا۔ اسے وہاں اریج نے ہی بلایا تھا۔ شائق نے سر اثبات میں ہلانے کا اشارہ کیا تو بالآخر وہ بول اٹھی۔
"یس۔"
جیسے ہی اس نے کہا، سب بچوں نے غبارے ہوا میں بلند کر دیے۔ ریعان کھڑا ہو گیا اور ذرا آہستہ آواز میں غالیہ سے کہا
"میں ڈیل جیت گیا۔"
وہ جو شرم سے کچھ بول نہ پا رہی تھی اب اس نے غصے سے ریعان کی طرف دیکھا جو کہ ہنس رہا تھا۔
__________________________________________
"ماما اب بابا تو اس دنیا میں نہیں مگر کیا آپ کے پاس بابا کی کوئی پکچر نہیں؟
"نہیں۔"
"کیوں ماما؟"
"موحد ماما کو تنگ نہیں کرتے۔ رات کافی ہو گئی یے۔ اب سو جاؤ۔"
"ماما آپ کو اپنے ماما بابا یاد آتے ہیں؟"
"ہاں اکثر یاد آتے ہیں مگر میرے پاس اتنا پیارا بیٹا ہے نا تو اس لیے کم ہی یاد آتے ہیں۔"
میں نے موحد کو گلے لگایا اور پھر سونے کے لیے کمرے میں بھیج دیا۔
__________________________________________
بابا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ جب وہ گیارہ سال کے تھے تو دادو کا انتقال ہو گیا۔ دادا ابو بھی بابا کی شادی کے چھ سال بعد وفات پا گئے تھے۔ بابا کی طرح امی بھی اکلوتی تھیں۔ نانا ابو کا تعلق گاؤں سے تھا۔ وہ ہر سال کسی نہ کسی تہوار پہ ہمیں ملنے آیا کرتے تھے۔ نانی اماں میری پیدائش سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ نانا ابو بہت اچھے تھے مگر پتا نہیں کیوں امی ان سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھیں۔ میں نے کبھی امی کو گاؤں جاتے نہیں دیکھا۔ نہ ہی انہوں نے کبھی مجھے نانا ابو کے ساتھ جانے دیا۔ نانا ابو دل کے مریض تھے۔ جب میں آٹھ سال کی تھی تو ہارٹ اٹیک سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ تب ہم پہلی اور آخری بار صرف چند گھنٹوں کے لیے گاؤں گئے۔
__________________________________________
علیشہ اور موحد آخری پیپر سے ایک روز پہلے لائبریری میں بیٹھ کر تیاری کرتے رہے۔ پڑھنے کے بعد علیشہ گھر چلی گئی۔ موحد اٹھ کر جانے لگا تو اس کی نظر علیشہ کی بک پر پڑی۔ اسے علیشہ کے گھر کا ایڈریس معلوم تھا مگر وہ کبھی اس کے گھر نہیں گیا تھا۔ اسے بک دینا بھی ضروری تھا۔ اس نے علیشہ کو کال کی تو اس نے کہا
"زایان تو گاؤں گیا ہوا ہے اور چاچو کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تم مجھے بک دینے نہیں آ سکتے؟"
"میں؟"
"ہاں آ جاؤ نا پلیز۔ آنٹی سے میں پوچھ لوں؟"
"نہیں ماما سے میں خود ہی پوچھ لیتا ہوں۔"
"اوکے۔"
کچھ دیر بعد موحد علیشہ کے فلیٹ کے باہر تھا۔ بیل بجنے پر علیشہ نے دروازہ کھولا۔
"السلام علیکم۔ یہ تمہاری بک۔"
"وعلیکم السلام۔ تھینک یو موحد۔"
موحد بک دے کر جانے لگا تو اس نے اسے اندر آنے کو کہا۔
"نہیں علیشہ پھر کبھی سہی۔ ابھی میں نے ہوسپٹل جانا ہے انکل سے ملنے۔"
"چلو سہی ہے۔"
دروازہ بند کر کے وہ چاچو کے پاس آئی تو انہیں دیکھ کر اس کے دماغ میں کچھ کلِک ہوا۔ پہلے بھی بہت بار اس نے اس بارے میں سوچا تھا مگر ہمیشہ اسے یہ اپنی غلط فہمی ہی لگتی تھی مگر آج۔۔۔
__________________________________________
ادیان کی اب مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں ہوتی مگر موحد اکثر اس سے فون پہ بات کر لیتا ہے۔ کبھی کبھار اس سے مل بھی لیتا ہے۔
__________________________________________
اس وقت وہ اپنے پرانے سکول فیلو علی کے ساتھ اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔
"میں نے بہت بار انہیں بتانا چاہا مگر وہ مجھ سے بات کرنے کو ہی تیار نہیں تھیں۔ عقیدت سے بات کیے بغیر آنٹی انکل سے کہنا مجھے مناسب نہ لگا۔ پھر مجھے ایم۔بی۔بی۔ایس کے لیے باہر جانا پڑا۔ انیا کی ان سے دوستی ہو گئی۔ وہ مجھے اکثر عقیدت اور موحد کے بارے میں بتاتی رہتی تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ انہیں بہت عزیز ہے۔ پھر بھی میں نے انہیں اس بارے میں بتا دینا تھا۔ جب میرا پاکستان چکر لگا تو پھر سے میں نے انیا سے کہا کہ وہ عقیدت سے میرے لیے پوچھے۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ پھر اچانک سے انیا کی بیماری کا پتا چلا تو ہم انگلینڈ چلے گئے۔ جب میں واپس آیا تو میں یہی سوچ کر آیا تھا کہ اب ضرور بتا دوں گا مگر تب تک وہ اپنے سب رشتوں کو کھو چکی تھیں۔ اب ان کے پاس صرف موحد تھا۔ میں نے انہیں ہوسپٹل میں اس بچے کے لیے تڑپتے دیکھا ہے۔ وہ ایک ماں کی مامتا تھی۔ میں ایک ماں سے اس کی مامتا نہیں چھین سکتا تھا اور ویسے بھی موحد کی اصل ماں اس دنیا میں نہیں تھی۔ اس کی پیدائش کے کچھ دیر بعد ہی اس کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔ ہاں اس کے باپ سے مجھے ہمدردی ہے مگر مجھے عقیدت کی عقیدت کے آگے کچھ نظر نہیں آیا۔ میں ان سے موحد کو الگ نہیں کر سکتا تھا۔ میں اب بھی انہیں کبھی کچھ نہیں بتا سکوں گا۔"
"پھر بھی آدی تم نے نہ بتا کر غلط کیا ہے۔ تمہیں بتا دینا چاہیے تھا کہ موحد کا باپ زندہ ہے۔ وہ بچہ تمہارے اندر اپنے باپ کو تلاش کرتا ہے۔ اگر تم بتا دیتے تو نہ تم اتنا سفر کرتے اور نہ ہی کوئی اور۔"
دروازہ کھلنے کی آواز پہ ادیان نے اندر آنے والے کو دیکھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ موحد نے کچھ دیر پہلے فون کر کے اسے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔
"موحد بیٹا تم؟ اتنی جلدی؟ مجھے لگا۔۔۔"
موحد کی آنکھوں میں غصہ، تڑپ، بے چینی اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
"کیا لگا آپ کو؟ آپ کو لگا کہ آپ مجھے کبھی پتا نہیں لگنے دیں گے؟ اور ماما؟ ماما سے میں ہمیشہ پوچھتا رہا مگر انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا۔ حیدر نے مجھے بہت دفعہ کہا مگر مجھے اس کے سامنے اپنی ماں سچی لگتی تھی۔"
موحد کی بات سے ادیان کو لگا کہ اس نے صرف علی کی بات سنی ہے۔
"موحد عقیدت کو اس بات کا۔۔۔"
"آپ نے بہت غلط کیا ہے۔ میں آپ کو اپنا سمجھتا تھا اور آپ سے زیادہ ماما نے مجھے نہ بتا کر ظلم کیا ہے۔ میں آپ دونوں کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔"
موحد کہہ کر باہر کو بھاگا۔
"موحد رکو۔ میری بات سنو۔ موحد۔"
ادیان اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کے پیچھے باہر تک گیا مگر اس کے پہنچنے سے پہلے وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
ادیان واپس اندر آیا اور موحد کو کال کرنے لگا مگر اس نے فون نہ اٹھایا۔
"علی یہ بہت برا ہوا ہے۔ وہ اب عقیدت سے جا کر پوچھے گا۔ میں کیا کروں؟"
"اس وقت وہ تمہاری بات نہیں سنے گا۔ تم ایسا کرو کہ عقیدت کی طرف ہی چلے جاؤ۔"
"مگر"
"آدی کبھی نہ کبھی تو یہ ہونا ہی تھا۔ جاؤ اب دیر نہ کرو۔"
ادیان گاڑی کی چابی اور فون لیے باہر کو بھاگا۔
__________________________________________
اس دن کے بعد غالیہ نے نکاح کے دن تک کے لیے چھٹیاں لے لیں اور ہوسٹل سے ضروری چیزیں لے کر گھر چلی گئی۔ اگلے ہفتے جمعہ کے دن ان دونوں کا نکاح تھا۔ نکاح سے دو روز پہلے ریعان نے اسے شاپنگ پہ ساتھ لے جانے کے لیے اسے کال کی۔ غالیہ نے اس کی کال رسیو نہ کی تو اس نے شائق کے نمبر پہ کال کر کے اس سے بات کروانے کو کہا۔
"گڑیا یہ لو ریعان ہے۔ تمہارا نمبر شاید ملا نہیں تو اس نے میرے فون پہ کال کی ہے۔ لو بات کر لو۔"
شائق نے اسے فون پکڑاتے ہوئے کہا۔ اب مجبوراً اسے اس سے بات کرنا پڑی۔
"السلام علیکم۔ جی؟"
ریعان نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا۔
"وعلیکم السلام۔ یہ تم غالیہ ہی ہو نا؟"
"جی۔"
"نہیں مطلب سچ میں؟"
"جی میں غالیہ بات کر رہی ہوں۔"
"یہ جی جی کرنے والی شکل ہے تو نہیں تمہاری تو پھر یہ ڈرامہ کس لیے؟"
"قاشی بھائی کو فون چاہیے ہو گا۔ آپ نے جو کہنا ہے کہیے۔"
"اوہ مطلب قاشی بھائی کے سامنے اتنی عزت سے تم بات کر رہی ہو۔"
شائق نے اسے ایک روز پہلے ہی اپنے پاس بلا کر سمجھایا تھا کہ اب اس کا ریعان سے جو رشتہ جڑنے جا رہا یے اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے رویے کو اس کے ساتھ درست کرے اور اس کی عزت کیا کرے۔
"جی یہی وجہ ہے۔"
"ہا ہا ہا ہا ویسے شرم تو نہیں آتی تمہیں اعتراف کرتے ہوئے۔"
"جی بالکل بھی نہیں۔"
"اچھا سنو میں نے کہنا تھا کہ میں تھوڑی دیر میں تمہیں لے جانے کے لیے آ رہا ہوں۔"
"وہ کیوں؟"
"کیونکہ ہم شاپنگ پہ چل رہے ہیں۔"
"ہرگز نہیں۔"
اس نے تھوڑا دھیمی آواز میں مگر زور دے کر کہا۔
"کیوں تمہیں میرا سامنا کرنے سے شرم آ رہی ہے؟"
"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"
"تو بس پھر میں آرہا ہوں اور اگر تم پانچ منٹ میں باہر نہ آئی تو میں نے نکاح کے ساتھ رخصتی بھی پرسوں ہی کروا لینی ہے۔"
"ایسا کچھ نہیں ہو گا۔"
"ایسا ہی ہو گا اور تم جانتی ہو کہ اگر میں نے قاشی بھائی یا چاچو سے کہا تو وہ انکار نہیں کریں گے۔"
'چالاک لومڑ۔'
"آپ آ جائیں۔ میں تیار ہوں۔"
غالیہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"یہ ہوئی نہ بات۔ اوکے سی یو۔"
بات کر کے اس نے فون شائق کو واپس کیا۔
"کیا ہوا ریعان آرہا ہے؟"
"جی کہہ رہے تھے کہ شاپنگ پہ جانا ہے۔"
"ہاں مجھے کل کہا تھا اس نے۔ میں نے کہا تھا کہ جب مرضی لے جائے تمہیں۔ مجھے تمہیں بتانا یاد ہی نہیں رہا۔ جاؤ تم تیار ہو جاؤ۔ آتا ہی ہو گا وہ۔"
"جی