"اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ آپ بے ہوش ہو گئی تھیں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں۔ آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے گا۔ کیوں پریشان ہوتی ہیں؟ اللہ جی بہتر کریں گے سب۔"
نرس کچھ کہہ رہی تھی مگر مجھے صرف اپنی دوست یاد آرہی تھی اور شدت سے یاد آ رہی تھی۔
"ہاں معلوم ہے۔ مگر انسان ہوں نا۔ کبھی کبھار تکلیف برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے سسٹر۔"
"ارے ڈاکٹر ادیان بہت اچھے ہیں۔ آپ کے بیٹے کا اچھے سے علاج ہو گا یہاں۔ دیکھیے گا وہ گھر چلا جائے گا آپ کے ساتھ چار پانچ دن تک۔"
"اور جو لوگ مر جائیں، اُن کو کیسے واپس اپنے پاس لا سکتے ہیں سسٹر؟"
نرس میری طرف دیکھنے لگی مگر مجھے ہوش کہاں تھا۔ مجھے تو اپنے کانوں میں وہ ہنسی سنائی دے رہی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔
"آپ ریسٹ کریں۔"
"نہیں کرنا مجھے ریسٹ۔ میری بہن کہاں ہے؟ لاؤ اُسے۔ میری انیا کو لے کر آؤ۔ وہ کیسے مر سکتی ہے۔ مجھے، مجھے کیسے چھوڑ کے جا سکتی ہے وہ؟ پہلے بھی وہ گئی تھی۔ ناراض ہے وہ مجھ سے۔ میں منا لوں گی اُسے۔ بولو اپنے ڈاکٹر کو میری دوست کو میری بہن کو مجھے واپس لا کے دے۔ وہی لے کر گیا ہے۔ لاؤ واپس۔"
نرس باہر کو بھاگی
"سر وہ مس عقیدت کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ وہ چیخ رہی ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا بول رہی ہیں کہ میری بہن کو لاؤ۔ وہ نہیں مر سکتی۔ سر مجھے تو لگتا ہے وہ پاگل ہیں۔"
"سسٹر"
ادیان نے غصے سے کہا اور روم کی طرف گیا
'یہ سر کو کیا ہو گیا'
ادیان کمرے میں میں آیا تو میں بیڈ سے اتر کر اُس کے سامنے آئی اور اُس کا گریبان پکڑ لیا۔
"آپ، آپ کی وجہ سے میری دوست مجھ سے دور گئی ہے۔ آپ کی وجہ سے ناراض ہوئی تھی وہ مجھ سے۔ آپ کو تو کوئی بھی لڑکی مل جاتی۔ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے تھے آپ۔ مجھے تو اور دوست نہیں ملنی تھی نا۔ وہ میری بہن تھی۔ میری بہن چھین لی آپ نے۔ آپ کو ذرا ترس نہیں آیا؟ میرے پاس تھا ہی کیا سوائے چند رشتوں کے؟ آپ نے میرے ساتھ بہت برا کیا یے۔ وہ اتنی تکلیف میں رہی اور میں اُس کے پاس نہیں تھی۔ اُس کی ایک اور بار آواز بھی نہیں سن سکتی۔ آپ بہت برے ہیں۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں۔"
میری آواز اتنی اونچی تھی کہ باقی ڈاکٹرز بھی وہاں آ گئے۔ مگر دروازہ لاکڈ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اندر نہ آ سکے۔ میں رو رہی تھی اور غصے میں بولتی جا رہی تھی مگر اُس شخص نے مجھے بولنے سے روکا نہیں کیونکہ اگر میں ابھی بھی نہ کہتی تو سب کچھ اندر ہی سہہ کر مزید دکھی ہوتی رہتی۔ کچھ دیر بولنے کے بعد میں پھر اپنے حواس کھو بیٹھی۔
__________________________________________
انیا کو بھلانا ممکن نہیں تھا مگر مجھے خود کو موحد کے لیے سنبھالنا تھا۔ اُس دن کے بعد میرا ادیان سے سامنا نہیں ہوا۔ موحد کو وہ اُس وقت چیک کرنے آتا جب میں نماز پڑھنے جاتی تھی۔ چار دن بعد موحد بہت بہتر تھا اور اُسے ڈسچارج کر دیا گیا۔ میں ڈیوز کلیئر کروا کر موحد کو لینے کے لیے روم کی طرف جا رہی تھی کہ کوریڈور میں میرے سامنے ادیان آ گیا.
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی کہیے؟"
"عقیدت پلیز۔ یہاں کھڑے ہو کر تو میں بات نہیں کر سکوں گا۔ پلیز آپ میرے روم میں۔۔۔"
"نہیں ڈاکٹر۔ آپ یہیں کہیے جو کہنا ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنے بیٹے کو اب گھر لے کر جانا ہے۔"
"ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔"
"آئی ڈو۔ بٹ یو ڈونٹ۔ میں یہاں اپنا تماشا بنوانے نہیں آئی۔ آپ کو جو کہنا ہے یہیں پہ کہہ سکتے ہیں۔"
"آپ مجھے میری ہی نظروں میں مزید کتنا گرائیں گی؟"
"آپ کو بس یہی کہنا تھا؟"
"اگر میں آپ سے وہی پہلے والی درخواست کروں تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟"
میرے لیے یہ بہت ان ایکسپکٹڈ تھا۔
'کیا وہ شخص ابھی بھی آگے نہیں بڑھا تھا؟ نہیں مجھے نہیں سوچنا کچھ بھی۔'
"میری آپ سے انیا کی دوست کی حیثیت سے کبھی بھی پہچان نہیں رہی۔ میں آپ کو عقیدت ہونے کے حوالے سے جانتا ہوں اور آپ بھی یہ اچھے سے جانتی ہیں۔ پھر بھی آپ نے میرا سوال حل کیے بغیر چھوڑ دیا۔ وجہ میں جانتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتا۔ یقین کریں دکھ اِس بات کا بھی نہیں ہوا مگر آپ نے مجھے اعتبار کے قابل بھی نہیں سمجھا، اِس بات کا مجھے ضرور دکھ ہوا تھا۔"
"آپ نے غلط راہ چنی ہے ڈاکٹر ادیان۔ میری زندگی میں ایسا آپشن ہے ہی نہیں۔"
"زندگی آپشنز پہ نہیں چلا کرتی، یہ آپ مجھ سے زیادہ اچھے سے جانتی ہیں۔"
"جانتی ہوں اسی لیے آپ سے کہہ رہی ہوں کہ آپ ابھی بھی اپنے لیے بہتر فیصلہ کریں اور لوٹ جائیں۔"
"ایسا ممکن نہیں ہے۔ خیر آپ گھر جائیے۔ رات ہو رہی ہے۔ موحد کو ون ویک کے بعد چیک اپ کے لیے لے آئیے گا۔"
وہ کہہ کر چلا گیا اور میں موحد کے پاس چلی گئی۔ پھر تھوڑی دیر میں ہم گھر چلے گئے۔
__________________________________________
"ماما"
"جی ماما کی جان؟"
موحد میری گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
"ماما اب تو ون منتھ ہو گیا ہے۔ میں سکول کب جاؤں گا؟"
"میرا بیٹا تھری ڈیز کے بعد منڈے کو جائے گا سکول"
"ماما"
"جی؟"
"ماما ڈاکٹر انکل بہت اچھے ہیں"
"آپ کو اچھے لگے؟"
"یس۔ وہ بہت سویٹ ہیں۔ مجھ سے بہت اچھی باتیں کرتے ہیں جب بھی چیک کرتے ہیں۔"
"کیا باتیں کرتے ہیں؟"
"بہت سی۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھی ہیں۔"
"کیا؟؟؟؟؟؟ انہوں نے آپ سے یہ کہا کہ میں بہت اچھی؟"
"یس ماما انہوں نے کہا کہ سب کی ماما بہت اچھی ہوتی ہیں۔ بچوں کو ماما کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے میں بھی آپ کو تنگ نہ کیا کروں۔"
"اوہ اچھا تو یہ کہا انہوں نے۔"
"جی ماما اور یہ بھی بتایا کہ اُن کے پاس ماما نہیں۔ اُنہیں اپنی ماما بہت یاد آتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ میری ماما شیئر کر لیں۔"
"اوہ گاڈ۔۔ موحد آپ نے یہ کہا؟؟؟"
"جی لیکن ماما وہ بہت ہنسے۔"
"ماما کے بچے، آپ نے یہ کیوں کہا؟ آپ اپنی ماما کیوں شیئر کرو گے کسی سے؟ آپ کی ماما صرف آپ کے لیے ہی ہے اِس دنیا میں۔ آئندہ ایسی بات نہ سوچنی ہے اور نہ ہی کسی سے کرنی ہے۔ از دیٹ اوکے؟"
"یس باس"
"ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔ چلو اب اٹھ کے بیٹھو۔ پھر ہم نے چیک اپ کے لیے جانا ہے۔"
__________________________________________
میں موحد ریعان اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اُس عظیم عورت کے ساتھ گزار کر بھی اُس کو سمجھ نہیں سکا اور ڈاکٹر ادیان اُن سے دور رہ کر بھی اُنہیں مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور آج بھی اُن کے ایک وعدے کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔ میں آج پھر سے بے آسرا ہونے کے قریب ہوں مگر اٹھارہ سال پہلے مجھے اپنے آنچل میں چھپانے والی وہ سترہ سالہ لڑکی آج میری ہچکیوں کو نہیں روک سکتی۔ آج پھر سے میری وجہ سے وہ تکلیف میں ہیں اور میں، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کاش وہ مجھے نہ ملی ہوتیں کیونکہ عقیدت ہی موحد کو موحد بناتی ہے۔ عقیدت کے بغیر موحد کچھ نہیں۔ اِس دنیا میں کوئی بھی عقیدت کے بغیر موحد نہیں بن سکتا۔ وہ میری ماں جیسی نہیں، میری ماں ہیں اور مجھے اپنی ماں سے عشق ہے۔
__________________________________________
غالیہ نے جمائی روکتے ہوئے ایک نظر اپنے ساتھ بیٹھی اریج کو دیکھا جس کا دیہان وائٹ بورڈ کی جانب تھا جہاں ریعان ایک تصویر بنا کر کوئی آرٹیکل سمجھا رہا تھا۔
"یار کب جانا ہے اِس نے۔ میرا سر دکھنے لگ گیا ہے۔"
"شش۔۔۔ آہستہ بولو۔ سر نے آج پھر کلاس سے نکال دینا یے۔"
"ہاں تو میں کونسا اکیلے جاؤں گی۔ تمہیں بھی ساتھ ہی گھسیٹوں گی۔ ویسے بھی آج زیادہ دیر کے لیے لیکچر اٹینڈ کر لیا ہے میں نے۔ کہیں الٹی نہ ہو جائے۔"
"اُف۔"
ریعان اُن سے عمر میں صرف سال بڑا تھا اور انہی کی یونیورسٹی کا گریجوئٹ تھا۔ غالیہ پہ وہ تب بھی آتے جاتے رعب جھاڑتا تھا جب وہ اُن کا سینیئر تھا اور اب تو ٹیچر بن کر اُسے پرمٹ مل گیا تھا غالیہ کو ڈانٹنے کا۔ غالیہ کو کبھی سمجھ نہ آتی کہ وہ اُسے ہی کیوں ہر بات میں ٹوکتا ہے۔
"ویسے جیری ایک بات ہے۔"
"کیا؟"
"اگر یہ ہمارا ٹیچر نہ ہوتا اور مجھے بات بات پہ جھاڑتا نہ ہوتا اور اِس کے یہ اتنے لمبے جھاڑیوں جیسے بال نہ ہوتے تو میں نے اِس سے شادی کر لینی تھی۔"
غالیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
"کیا؟؟؟؟"
اریج کے چیخنے پہ ریعان اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوا۔ دیکھ تو وہ پہلے بھی رہا تھا مگر اب اُسے ان دونوں کو باہر نکالنے کا موقع ہاتھ لگا تھا تو بھلا وہ کیسے آرام سے لیکچر جاری رکھتا۔ اُن دونوں کے فرنٹ سیٹ پہ موجود ہونے کی وجہ سے وہ غالیہ کی بات بھی سن چکا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ غالیہ نے یہ سب اسے سنانے اور خود کو باہر نکلوانے کے لیے ہی بولا تھا۔ ورنہ وہ ایسی دل پھینک بالکل بھی نہیں تھی۔ وہ بہت پیاری، چلبلی سی مگر ٹیڑھی کھیر تھی۔ پڑھائی سے اُس کی جان جاتی تھی مگر وہ بلا کی ذہین تھی اسی لیے صرف ایگزامز سے کچھ دن پہلے پڑھ کر بھی ٹاپ کرتی تھی۔ شرارتوں میں گویا اُس نے پی۔ایچ۔ڈی کر رکھی تھی۔ کوئی اُس کی حرکتیں دیکھ کر یہ نہیں مان سکتا تھا کہ وہ اپنا آدھا دن بے گھروں کو ماں بن کر پالنے میں گزار دیتی ہے۔
"سٹینڈ اپ مس غالیہ"
غالیہ نے جلدی سے اپنے بیگ کو ٹٹولا
'لو جی آج تو کاٹن بھی رکھنا بھول گئی ہوں۔ اب اِس کی بارودی زبان کو کون سنے گا اتنی دیر۔'
"جیری اپنا بیگ چیک کرو۔ کاٹن ہو گی۔ جلدی کرو۔"
"مس غالیہ مجھے لگتا تھا کہ آپ کو صرف لیکچر سنائی نہیں دیتا مگر آپ تو پوری کی پوری بہری ہیں۔"
"جیری میں سر پھاڑ دینا ہے۔ جلدی نکال۔"
"آئی سیڈ سٹینڈ اپ۔"
اب کے ریعان اُس کی سیٹ کے پاس آ کر بولا۔ بولا بھی کیا، چیخا تھا اور غالیہ کو لگا اُس کے کان کا پردہ آج ضرور پھٹ جائے گا۔
وہ سیدھی کھڑی ہو گئی۔
"آج آپ ذرا مجھے بتا ہی دیں کہ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ میری کلاس میں ایسی بد حواس ہوتی ہیں یا سب کے لیکچرز میں یہ ریت قائم رکھتی ہیں؟"
"سب"
اُس نے اپنی زبان کاٹی
'اُف مر گئی'
"اوہ کونگریٹس آپ کی تو سماعت بحال ہو گئی ہے۔"
'پتہ نہیں کیا مصیبت ہے یہ۔ اللہ جانے کس نے اِسے یہاں جاب دی ہے'
"مس غالیہ آئی کین ہیئر یو۔"
"مگر میں تو بولی نہیں"
ریعان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
"آپ کے چہرے کے بگڑتے زاویوں اور مجھے گھورتی ہوئی آنکھوں کے ہوتے ہوئے آپ کی زبان کو کچھ بھی زحمت کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔"
'کیا ہے یہ بندہ۔ مجھے باتیں سنائے بغیر تو جیسے اِس کی تنخواہ حلال نہیں ہونی۔'
"اب جبکہ آپ سن بھی سکتی ہیں اور خیر سے بولنا تو ویسے ہی خوب آتا ہے آپ کو، تو کیوں نہ اب تک کا جو میں نے لیکچر دیا ہے، وہ آپ ریپیٹ کر کے کارِ خیر کریں۔"
'اُردو دان نہ ہو تو'
"میں نے لیکچر نہیں سنا"
"تو آپ کلاس میں کرنے کیا آتی ہیں جب لیکچر نہیں سننا ہوتا؟ کیا کہہ رہی تھیں آپ اریج کو؟"
اب کے ریعان کی آواز اونچی تھی۔ غالیہ گھبرا گئی۔
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔"
" یہ کیا وہ وہ لگائی ہوئی ہے آپ نے؟ تمیز نہیں سکھائی آپ کو کسی نے؟"
وہ اتنا تلخ لہجہ سننے کی عادی نہیں تھی مگر ریعان اُسے ہر روز کسی نہ کسی بات پہ ڈانٹ کر کلاس سے باہر نکال دیتا مگر آج تک وہ اُس پہ یوں چیخا نہیں تھا۔ غالیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اُس کے آنسو بہنے لگے۔وہ باہر کی طرف بھاگی۔
'اوہ گاڈ۔ ریعان کیا ضرورت تھی اتنے ڈرامے کی۔'
ریعان کو اب اپنے لہجے پہ افسوس ہو رہا تھا۔
اریج کو غالیہ کی فکر تھی مگر وہ ریعان کے ڈر سے اپنی جگہ سے نہ ہلی۔
"اریج آپ جاؤ دیکھو اُسے۔"
ریعان نے اپنا لہجہ نرم کرتے ہوئے اریج سے کہا
اس کے بعد ریعان بھی لیکچر جاری نہ رکھ سکا اور باہر نکل گیا۔
__________________________________________
اریج کو معلوم تھا کہ وہ ہوسٹل گئی ہو گی اس لیے وہ سیدھا وہیں گئی۔
"سوری نا۔ اگر میں اونچا نہ بولتی تو سر اتنا نہ ڈانتے۔"
غالیہ اب تک آنسوؤں کا ٹب بہا کر چپ بھی کر چکی تھی۔
"بس میں نے نہیں جانا آئندہ اُس ہٹلر کی کلاس میں۔"
"مگر"
"کوئی اگر مگر نہیں۔ مجھے نہیں پروا اٹینڈینس کی۔"
"اور اگر بابا کو پتہ چل گیا تو؟"
"تم بتا کر تو دیکھو ذرا اُنہیں"
"میں کب۔۔۔"
"ہاں جیسے پہلے میری شکایتیں خود اُڑ کر پہنچ جاتی ہیں نا۔ تم کبھی نہ مانو مگر مجھے پتہ ہے کہ تم ہی بتاتی ہو۔ بابا کو نہ سہی، قاشی بھائی کو تو تم ہی بتاتی ہو۔ ویسے تم لوگوں کے پاس کوئی رومانوی باتیں نہیں ہوتیں کرنے کے لیے جو مجھے ڈسکس کرنے بیٹھ جاتے ہو۔ تمہارے بچوں کو تو۔۔۔"
اریج بلش کرنے لگی۔
"اُف ایک تو تمہاری مشرقی ادائیں ختم نہیں ہوتیں۔"
اریج کا نکاح سال پہلے غالیہ کے بھائی شائق سے ہوا تھا۔ابھی اُن دونوں کا بی۔ایس کا سیکنڈ لاسٹ سمسٹر چل رہا تھا جس کے بعد اریج کی رخصتی متوقع تھی۔
"میں تو خود نہیں بتاتی۔ وہ پوچھتے ہی ایسے ہیں کہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے۔"
"ہاں گن پوائنٹ پہ پوچھتے ہیں نا۔ چمچی نہ ہو تو۔"
غالیہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔
"غالیہ"
"اب کیا ہے؟"
"وہ نیکسٹ کلاس"
اس نے کمبل میں سے منہ نکالا
"جیری کی بچی میں نے یہ گلدان تمہارے سر پہ مار دینا ہے"
غالیہ نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھے گلدان کی طرف اشارہ کیا۔
"اچھا میں نے تو ویسے ہی کہا تھا۔"
غالیہ واپس کمبل میں گھس گئی
"غالیہ"
"اب کیا ہے میری ماں؟"
"میں سوچ رہی تھی۔"
"یار یہ سوچنے والا کام تو قاشی بھائی کے لیے چھوڑ دو۔ انہیں بہت آتا ہے۔"
"یار۔۔۔ میری بات تو سن لو۔"
اریج نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ غالیہ کو تشویش ہوئی کہ جانے کیا بات ہے۔ وہ کمبل ہٹا کر اٹھ بیٹھی۔
"کیا بات ہے؟"
"وہ۔۔۔ تم غصہ تو نہیں ہو گی؟"
"یہ بعد کی بات ہے۔ تم بولو۔"
"وہ میں سوچ رہی تھی کہ"
"اور کتنا سوچو گی؟ بول بھی چکو اب۔"
"سر نے کبھی اتنے برے طریقے سے بات نہیں کی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پریشان ہوں اور اس لیے انہیں کلاس میں ڈسٹربنس ہونے پہ زیادہ برا لگ گیا ہو اور اسی لیے ایسے بی ہیو کر گئے ہوں۔ میرا خیال ہے ہمیں ان سے ایپولوجائز کر لینا چاہیے"
اریج نے آنکھیں بند کر کے ایک ہی سانس میں بات کہہ ڈالی۔ جب غالیہ آگے سے کچھ نہ بولی، جو کہ ایک انہونی تھی تو اریج نے آنکھیں کھولیں اور غالیہ کو خود کو گھورتے پایا۔ اس نے ساتھ ہی پھر سے آنکھیں بند کر لیں۔
"جیری"
"ہاں؟"
"آنکھیں کھولو۔"
اریج نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔
"اٹھو۔"
"کیا؟"
"میں نے کہا اٹھو ابھی۔"
اریج فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
"غالیہ وہ سر"
"چپ۔ بالکل چپ۔ تم نے مجھے بستر سے اُس کارٹون سے معافی مانگنے کے لیے اٹھایا۔ ٹھیک ہے۔ بھابی ہو۔ ایک بار تو معاف کر ہی سکتی ہوں تمہیں مگر آج کے بعد اگر کبھی تم نے میرے سامنے اس کا نام بھی لیا تو پھر میں نے سچ میں تمہارا سر پھاڑ دینا یے۔ اب جاؤ تم کلاس لینے۔ میں نے سونا ہے۔"
غالیہ واپس اپنے بیڈ پہ جا کر لیٹ گئی تو اریج بھی کلاس لینے کے لیے چلی گئی۔
__________________________________________
غالیہ کے بابا شاہمیر کا تعلق گاؤں سے تھا۔ شہر سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس گاؤں چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد اُن کے والد نے اُن کی شادی زبردستی اپنے بھائی کی بیٹی نبیرا سے کر دی۔ شادی کے تین سال بعد اُن کے ہاں بیٹی ہوئی جس کا نام غالیہ رکھا۔ زبردستی کی گئی شادی کتنا عرصہ چل سکتی تھی؟ شاہمیر کو غالیہ سے تو محبت تھی مگر نبیرا سے اس کے اختلافات بڑھتے گئے۔ بالآخر اُن کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ اُس وقت غالیہ ڈیڑھ سال کی تھی۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں کے رشتے میں دراڑ آ گئی۔ شاہمیر نے غالیہ کو نبیرا کے حوالے صرف اس شرط پہ کیا کہ وہ غالیہ کے پانچ سال کے ہو جانے کے بعد شاہمیر کو دے دے گی۔ اس کے بعد وہ جب چاہے غالیہ سے مل سکتی ہے مگر غالیہ ہمیشہ شاہمیر کے پاس رہے گی۔ اس وقت تو نبیرا نے کچھ نہ کہا کہ ابھی تو بیٹی اُسکے پاس ہی رہنے والی تھی مگر جب غالیہ پانچ سال کی ہوئی تو شاہمیر نے بیٹی کا مطالبہ کیا۔ نبیرا ماں تھی کیسے اولاد سے جدائی برداشت کر سکتی تھی۔ اُس نے احتجاج کیا مگر اُس کے باپ نے اُس کی ایک نہ سنی۔ بیٹی کو شاہمیر کے حوالے کر دیا گیا اور پھر سال بعد نبیرا کے باپ نے نبیرا کی شادی اپنے دوست کے بیٹے معاذ سے کر دی۔ نبیرا کی شادی سے پہلے تک شاہمیر گاؤں میں ہی رہا تھا۔ تب وہ روز غالیہ سے ملتی رہی مگر شادی کے بعد نبیرا معاذ کے ساتھ کراچی آگئی۔ شاہمیر کی شادی اُس کی کلاس فیلو ماحسا سے ہو گئی۔ وہ وڈیرا سسٹم سے تنگ آ چکا تھا۔ اس لیے غالیہ اور ماحسا کے ہمراہ لاہور چلا گیا اور پھر کبھی واپس گاؤں کا رخ نہ کیا۔