۱۹۹۰ءمیں پنجابی ماہیے کے وزن کی بنیاد پر اردو میں ماہیے کے وزن کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ۱۹۹۲ءمیں اس مسئلے پر مضامین کی صورت میں بحث شروع ہوئی اور پھر تین چار برسوں کے اندر ہی ماہیے کے درست وزن کو اپنانے کا رویہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ ماہیے کی ہیئت اور مزاج کے موضوعات پر کھل کر بحث ہوئی۔ اختلافی نکات پر ہماری طرف سے اپنے موقف کو مدلل طور پر پیش کیا گیا۔ ایسا بھی ہوا کہ ہمارے مدلل موقف کے جواب میں فریق ثانی نے خاموشی اختیار کرلی۔ مثلاً
O ایم اے تنویر کے مضمون ”اردو ماہیے پر اوزان کی پابندی“ (”صریر“ کراچی، جون، جولائی ۱۹۹۳ء) کے جواب میں ”صریر“ (نومبر ۱۹۹۳ء) ہی میں وحید انور کا موقف شائع ہوا۔ میں نے بھی اپنے ایک دو مضامین اور ایک آدھ خط میں اس مضمون کے نفس مضمون کا تجزیہ کیا تھا۔
O ”اوراق“ شمارہ اگست ستمبر ۱۹۹۵ءمیں نثار ترابی کا ماہیے کے مسئلے پر تفصیلی خط شائع ہوا۔ اس کے جواب میں ”اوراق“ شمارہ جنوری، فروری ۱۹۹۶ءمیں میرا مدلل جواب شائع کیا گیا۔
O ڈاکٹربشیر سیفی کا مضمون ”اردو ماہیا۔ تحقیقی مطالعہ ”صریر“ شمارہ جون جولائی ۱۹۹۶ءمیں شائع ہوا۔ اس کے جواب میں میرے مضمون ”ماہیے کے حوالے سے چند معروضات“ کو ایڈیٹر ”صریر“ نے تو دیدہ دانستہ مسخ کر کے شائع کیا، تاہم یہ جواب درست طور پر روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی کی اشاعت ۹۷۔۴۔۲۲میں ادبی صفحہ پر شائع ہوا۔
O پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کے ماہیا ایڈیشن (اپریل ۱۹۹۷ء) میں غلام مصطفی بسمل کا اختلافی نوٹ شائع ہوا۔ اس کے نتیجہ میں ”بھنگڑا“ اخبار کے جولائی کے شمارہ میں میرا وضاحتی اور مدلل جواب شائع ہوا۔
یہ صرف چار موٹی موٹی مثالیں ہیں کہ ہمارے مضبوط موقف کے سامنے فریق ثانی کو پھر کوئی مدلل بات کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا ہے کہ کسی رسالے میں زیر بحث نکات کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور کسی اور صاحب کے ذریعے اسی رسالے میں یا کسی اور رسالے میں کسی اور نکتے کو اشو بنا لیا گیا، جب اس کا مدلل جواب دیا گیا تو پھر بات آگے بڑھانے کی بجائے کسی اور نکتے کو ایشو بنا لیا گیا۔ اختلاف رائے جرم نہیں ہے، خود ہمارے اپنے ہم خیال دوستوں میں بھی بعض نکات پر الگ الگ رائے پائی جاتی ہے لیکن یہ اختلاف رائے نیک نیتی اور مخلصانہ جستجو کا مظہر ہے جبکہ ہمارے بعض ”کرم فرماﺅں“ نے محض خلط مبحث کر کے شوشے چھوڑے اور وقتی جملہ بازی سے ماہیے کی نمایاں ہوتی ہوئی تحریک کو دھندلانے کی کوشش کی۔ ایسے ”مہربانوں“ سے قطع نظر بعض ادباءنے پورے خلوص سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی اور نیک نیتی سے اپنا اختلافی موقف پیش کیا۔ ایسے ادباءکا ماہیے کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم کردار رہا ہے۔
ماہیے کی ہئیت کی بحث کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ ماہیے کے وزن سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ ماہیے کو تحریری صورت میں پیش کرنے کا ہے.... فریق ثانی کی طرف سے عام طور پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پنجابی میں دونوں طرح کے ماہیے ملتے ہیں یعنی دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم وزن والے بھی اور تینوں مصرعے مساوی الوزن والے بھی۔ لہٰذا اردو میں دونوں طرح کے ماہیے جائز ہیں۔ یہ موقف درست نہیں ہے کیونکہ اردو کے عروضی نظام کی رو سے تو پنجابی ماہیے کا دوسرا مصرعہ مساوی الوزن ہونے کی بجائے ایک سبب زائد بھی ہو جاتا ہے۔ ماہیے کا دوسرا مصرعہ صرف ایک سبب کم یا زیادہ نہیں ہوتا بعض اوقات ایک سبب سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تنویر بخاری کی کتاب ”ماہیا۔فن تے بنتر“ کے صفحہ نمبر ۲۲۲سے ایک ماہیا دیکھیں۔
چاہ پیتی پوستیاں
مطلب کڈھے
ہور نہ رہ گئیاں دوستیاں
پنجاب الفاظ کو اردو کے عروضی حساب سے پرکھیں تو دوسرے مصرعہ کا وزن ”فعلن فعلن“ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہاں دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم رکھنے اور تینوں مصرعوں کو مساوی الوزن کہنے کے دونوں موقف اردو کے عروضی حساب سے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اب ایسے ماہیے دیکھیں جن کے دوسرے مصرعے پہلے اور تیسرے مصرعوں سے مساوی الوزن ہونے کی بجائے ایک سبب زائد ہونے سے بھی زیادہ بڑے ہوئے جا رہے ہیں۔
انگریز یزید ہوئے کوئی خیر دی خبر آوے
قصہ خوانی دی گولی وچ ترکی دا غازی ساڈا
کتنے بچڑے شہید ہوئے انگریزاں تے فتح پاوے
(بحوالہ انگریزی اخبار روزنامہ ”ڈان“ لاہور، ۵۹۔۴۔۱۹ ”پنجابی بکس“ ماہیا ان پنجابی، اردو اینڈ انگلش ۔ از شفقت تنویر مرزا)
ان مثالوں اور سابقہ مضامین کے حوالوں کے بعد ماہیے کے وزن کے سلسلے میں یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ اگر پنجابی ماہیے کے حروف کو اردو عروض کے ضابطوں سے پرکھنے کی کوشش کریں تو دوسرے مصرعوں میں اس قسم کے متضاد وزن ملیں گے۔
(۱) دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن سے دو حروف کم ہوگا۔ (۲) چار حروف کم ہوگا (۳) مساوی الوزن ہوگا (۴) دو حروف زیادہ ہوگا (۵) چار حروف زیادہ ہوگا۔
یہ صرف دوسرے مصرعہ کی صورتحال ہے۔ ریاض احمد نے نشاندہی کی تھی کہ ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کا وزن بھی اسی طرح کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ سو بظاہر ایسی الجھی ہوئی صورتحال میں محض یہ کہہ دینا مناسب نہیں ہے کہ پنجابی ماہیے میں چونکہ دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم وزن والے ماہیے بھی ملتے ہیں اور مساوی الوزن بھی۔ لہٰذا اردو میں دونوں طرح کے ماہیے جائز ہیں کیونکہ پنجابی حروف کو اردو عروض کے گھیرے میں لینا مناسب نہیں وگرنہ پھر مذکورہ بالا پانچوں قسم کے ماہیے جائز قرار دینا پڑیں گے اور یہ ماہیے کے ساتھ سنگین مذاق ہوگا۔ ماہیے کے وزن کے سلسلے میں جتنا الجھاﺅ ہے وہ اس وقت ایک دم ختم ہو جاتا ہے جب ہم ماہیے کو اس کی لَے سے سمجھتے ہیں۔ پنجابی ماہیے کی لَے کو آسانی سے اردو عروض کے گھیرے میں لیا جاسکتا ہے اور اس لَے کی رو سے ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ تو مساوی الوزن ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مصرعہ کا وزن ایک سبب کم ہوتا ہے۔
ماہیے کی ہیئت کی بحث کا دوسرا حصہ اس کی تحریری صورت سے متعلق ہے۔ ابھی تک میرے ذہن میں ماہیے کی دو تحریری صورتیں تھیں۔
۱۔ کوٹھے اتوں اڈ کانواں
سد پٹواری نوں
جند ماہیے دے ناں لانواں
۲۔ کوٹھے اتوں اڈ کانواں
سد پٹواری نوں جند ماہیے دے ناں لانواں
تھوڑا عرصہ پہلے عاشق حسین عاشق نے اپنے ایک مضمون میں ماہیے کو ”ایک مصرعی“ قرار دیا تھا تو مجھے خاصی حیرت ہوئی تھی۔ اب امین خیال نے بھی اپنے مضمون ”پنجابی ماہیا“ میں ذکر کیا ہے کہ پورے ماہیا کو ایک ہی سطر میں یوںلکھا جاتا رہا ہے۔
کوٹھے اتوں اڈ کانواں ۔ سد پٹواری نوں جند ماہیے دے ناں لانواں
ایک سطری ہیئت تو اب صرف مضامین میں تذکرے کی حد تک رہ گئی ہے۔ ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں بھی یہ بہت کم لکھا گیا ہے۔ خود پنجابی ماہیوں کی بیشتر کتب سہ مصرعی روپ میں ہیں تاہم پنجابی ماہیے کا بطور لوک گیت مجموعی وزن یہی بنتا ہے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
(دوسرے متبادل اوزان میں بھی اسی طرح ایک سبب کی کمی رہے گی) اب اسے چاہے ایک مصرعہ بنا کر لکھ لیں، ڈیڑھ مصرعے بنا کر لکھ لیں یا تین مصرعوں کی مقبول صورت کو اپنا لیں، ماہیے کا مجموعی وزن بہرحال وہی رہے گا جو ماہیے کی لَے کے مطابق ہے۔ مجھے ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم اب بصری لحاظ سے سہ مصرعی ماہیا زیادہ اچھا لگتا ہے.... ایک دفعہ توتا اور طوطا کے درست املا کی بحث چل نکلی تھی۔ محققین نے ”ت“ سے توتا ثابت کر دیا، تب ایک ادیب نے یہ مزے کی بات لکھی کہ قدیم اردو میں توتا بے شک ”ت“ سے ہی ہو لیکن ”ط“ سے لکھا ہوا طوطا زیادہ ہرا ہرا لگتا ہے.... سو اب ماہیے کی تحریک جس مقام پر آ گئی ہے، یہاں ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو غلط کہے بغیر میں یہ ضرور کہوں گا کہ سہ مصرعی صورت میں ماہیا زیادہ ہرا بھرا لگتا ہے۔
ماہیے کے مزاج کے سلسلے میں مختلف خیالات سامنے آئے ہیں۔ اس مسئلے پر ابھی مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ بعض ثلاثی نگار جب ماہیے کے وزن کے مسئلے سے جان چھڑانے کے لئے مزاج کی اہمیت پر زور دینے لگتے ہیں تو وہ دراصل ماہیے کے وزن کی بحث میں اپنے کمزور موقف کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے قطع نظر بعض دیگر اہل ادب نے بھی ماہیے کے پنجابی مزاج کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ ماہیے کا مزاج اصلاً ان بنیادی موضوعات سے مرتب ہوتا ہے جو عشق و محبت سے متعلق مختلف مضامین (محبوب کے حسن کی تعریف، بے وفائی، گلے شکوے، جدائی، وصال کی آس، ظالم سماج، وصال وغیرہ) اور دھرتی سے وابستگی پر مبنی ہیں۔ پنجابی ماہیے سے نا آشنا اردو کے ماہیا نگار اگر ایسے موضوعات کے دائرے میں اعلیٰ تخلیقی کارکردگی دکھاتے ہیں تو بڑی حد تک وہ پنجابی ماہیے کے مزاج کے قریب ہی ہوتے ہیں۔ تاہم ادب کی سطح پر آنے کے بعد ماہیے کو محض چند موضوعات تک محدود رکھنا بھی مناسب نہیں ہے۔ خود پنجابی ماہیے کو تفصیل سے دیکھا جائے تو یہ پنجابی معاشرے کے تمام مسائل اور معاملات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اپنے مخصوص موضوعات کو اپنی پہچان بنانے کے باوجود زندگی کے بیشتر پہلوﺅں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ انگریزی اخبار ”ڈان“ میں شفقت تنویر مرزا کے درج کردہ دو ماہیے جو میں اس مضمون میں پیش کر چکا ہوں، بذات خود اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ ماہیے میں زندگی سے متعلق سارے موضوعات سموئے جا سکتے ہیں.... سو ماہیے کے داخلی رس اور مٹھاس کو برقرار رکھتے ہوئے یا اسے برقرار رکھنے کی ممکنہ حد تک کوشش کرتے ہوئے، نئے موضوعات کا اردو ماہیے میںلایا جاناعیب نہیں ہوگا۔ایسے ہو سکتا ہے کہ ایسے موضوعاتی تجربات میں سے بعض آگے چل کر کامیاب ہوں اور ماہیے کے مزاج کا حصہ بن جائیں اور بعض تجربات ناکام رہیں۔ میرے خیال میں اس ابتدائی دور میں اردو ماہیے کے مزاج کی اہمیت تو واضح کرنی چاہئے لیکن نئے موضوعات پر پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ ماہیے کے مزاج کے سلسلے میں سنجیدہ ادبائے کرام کا موقف تب بہتر طور پر واضح ہو سکے گا جب وہ خود ماہیے کی عملی تنقید کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اب کہ ماہیا نگاری اردو شاعری کا ایک معتبر حصہ بنتی جا رہی ہے۔ ماہیا نگاروں کی ایک بڑی تعداد درست وزن کو سمجھنے کے بعد تخلیق کاری میں مگن ہے.... مناسب ہوگا کہ ان کے ماہیوں کے حوالے سے ماہیے کے مزاج کی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سے ماہیے کے مزاج کی احسن طور پر نشاندہی بھی ہو سکے گی اور اس کے موضوعات میں متوازن وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔
گذشتہ چند برسوں میں تمام تر بحث کے ساتھ اردو ماہیے نے نہ صرف اپنے خدوخال کو واضح کیا ہے بلکہ شعرائے کرام میں ایسی مقبولیت حاصل کی ہے جو حیرت انگیز ہے۔ ماہیے کی اسی مقبولیت نے اسے ایک تحریک بنا دیا ہے۔ اس مقبولیت کا بالکل سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو خوش کن حقائق سامنے آتے ہیں۔ ۱۹۹۶ءمیں میرے ماہیوں کا مجموعہ ”محبت کے پھول“ شائع ہوا۔ اسی برس پروفیسر قمر ساحری کے ماہیوں کا دیوان ”بادسبز“ شائع ہوا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی مرتب کردہ کتاب ”رم جھم رم جھم“ بھی ۱۹۹۶ءمیں شائع ہوئی۔ یہ گیارہ ماہیا نگاروں کا ایک نمائندہ انتخاب ہے۔ ۱۹۹۲ءسے ۱۹۹۶ءتک اس بحث سے متعلق۱۹مضامین شائع ہوئے۔ مضمون نگاروں میں مجھ سمیت افتخار احمد، عرش صدیقی، خاور اعجاز، زاہد عباس، ناصر عباس نیئر، سعید شباب، ایم اے تنویر، غزالہ طلعت، ریاض احمد، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر بشیر سیفی اور ڈاکٹر انور مینائی کے نام شامل ہیں ۔جبکہ ۱۹۹۷ءمیں ماہیے کی بحث کے ضمن میں ۱۲مضامین اور ماہیے کے مختلف مجموعوں پر ۵۱مضامین/تبصرے .... گویا ۲۷مضامین صرف ایک برس میں شائع ہوئے۔ اس برس کے مضمون نگاروں میںڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، مشتاق احمد، نصرت یاسمین، یوسف علی لائق، عاشق حسین عاشق، طیب احمد، ارشد محمود ناشاد، سید ظفر ہاشمی، سعید شباب، مقصود الٰہی شیخ، ثریا شہاب، اجمل پاشا، ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری (پرانا پنجابی مضمون قند مکرر کے طور پر شائع ہوا)، محمد وسیم انجم اور حیدر قریشی کے نام شامل ہیں۔ تخلیقی سطح پر اس برس ضمیر اظہر کے ماہیوں کا مختصر سا مجموعہ ”پھول کہانی“ شائع ہوا۔ نذیر فتح پوری کے ماہیوں کا مجموعہ ”ریگ رواں“ منظر عام پر آیا، امین خیال کے ماہیوں کا مجموعہ ”یادوں کے سفینے“ شائع ہوا۔ اس برس سعید شباب کا مرتب کردہ ایک انتخاب ”اردو ماہیے“ شائع ہوا جس میں ۳۵ماہیا نگاروں کو شامل کیا گیا۔ ۱۹۹۷ءمیں گوجرانوالہ کے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ نے اردو ماہیا ایڈیشن شائع کیا اور اسی برس میری یک موضوعی تحقیق و تنقید کی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ بھی منظر عام پر آئی۔ ۱۹۹۷ءمیں جہاں ایک طرف بحث چٹخ رہی تھی اور ماہیے کے خدوخال واضح ہوگئے تھے، دوسری طرف تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد ماہیا نگاری کی طرف مائل ہوگئی تھی، تیسری طرف تحقیق کے میدان میں بھی پیشرفت ہوئی۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے انکشاف کیا کہ آج سے لگ بھگ ساٹھ سال پہلے ہمت رائے شرما نے سب سے پہلے درست وزن میں اردو ماہیے کہے تھے جو فلم ”خاموشی“ کے لئے ریکارڈ کئے گئے تھے۔ اس انکشاف سے اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما قرار پائے ہیں (میں نے اپنی تحقیق سے ہمت رائے شرما کے اردو ماہیے کہنے کا سال ۱۹۳۶ءثابت کیا ہے۔)
اور اب کہ ۱۹۹۸ءکی پہلی ششماہی مکمل ہو چکی ہے اس مختصر مدت میں بھی ماہیے کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوسف اختر کے ماہیوں کا مجموعہ ”دل حجرہ“ شائع ہوگیا ہے۔ انور مینائی کے مجموعہ ”روپ نگر“ اور اشعر اورنیوی کے ماہیوں کے مجموعوں کے جلد ہی شائع ہونے کی خبریں بھی ملی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں فریق ثانی کے بے جا اعتراضات کا بروقت تعاقب کر کے جواب دینے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، عارف فرہاد اور پروین کمار اشک خاصے فعال دکھائی دیئے ہیں۔ اس سلسلہ میں مجھے بھی تھوڑا بہت کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ فریق ثانی کے اعتراضات ”صریر“ کراچی، ”عوامی منشور“ کراچی، ”تخلیق لاہور“ اور ادبی صفحہ روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی میں شائع ہوئے اور وہیں ان کے جواب دیئے گئے۔
اس برس کی پہلی سہ ماہی اور ماہیے کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہوا ہے کہ ادبی جریدہ دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد (انڈیا) نے نئے سال کا پہلا شمارہ (جنوری تا اپریل ۱۹۹۸ء) ماہیا نمبر شائع کیا ہے۔ اس ادبی رسالہ کے مدیران سید ظفر ہاشمی اور ثریا ہاشمی ہیں۔ گذشتہ ۲۰برسوں سے یہ ادبی رسالہ کسی سرکاری امداد کے بغیر اپنے محدود دائرے میں اردو زبان اور ادب کی خدمت کر رہا ہے۔ اپنی اشاعت کے اکیسویں برس کا پہلا شمارہ ماہیا نمبر لا کر اس ادبی رسالہ نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس نمبر کی ترتیب کے سلسلے میں پاکستان سے امین خیال، انڈیا سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور جرمنی سے میں نے ممکنہ حد تک کام کیا ہے۔ ”گلبن“ کے ماہیا نمبر میں ۹۵ماہیا نگاروں کے تازہ ماہیے شامل ہیں۔ ہر ماہیا نگار کے ماہیوں کے ساتھ اس کے مختصر سوانحی اور ادبی کوائف بھی شائع کئے گئے ہیں۔ ان ۹۵ماہیا نگاروں میں انڈیا سے ۴۷، پاکستان سے ۳۷، جرمنی سے ۶، انگلینڈ سے ۲اور امریکہ اور جاپان سے ایک ایک ماہیا نگار شامل ہیں۔
پہلے سے ماہیا نگاری میں فعال تخلیق کاروں میں احمد حسین مجاہد، امین خیال، عارف فرہاد، انور مینائی، پروین کمار اشک، مناظر عاشق ہرگانوی، سعید شباب، سجاد مرزا، صابر آفاقی، ذوالفقار احسن، شاہدہ ناز، قاضی اعجاز محور، طفیل خلش، مشتاق احمد، نذیر فتح پوری، خاور اعجاز، یوسف اختر اور یونس احمر کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ان ناموں کے ساتھ اس بار کئی اہم شعراءنے پہلی بار اردو ماہیے کو محبت کی نظر سے دیکھا ہے اور عمدہ ماہیے کہہ کر ماہیے کو مزید وقار اور اعتبار عطا کیا ہے۔ ایسے شعراءمیں اعزاز احمد آذر، سلطان سکون، شاہد جمیل، شرون کمار ورما، شوکت ہاشمی، سلیم انصاری، زہیر کنجاہی، امداد نظامی، حسن عسکری کاظمی، شباب للت اور احمد رئیس شامل ہیں۔ پھر ناوک حمزہ پوری، شارق جمال، اجمل جنڈیالوی، علقمہ شبلی، محی الدین غنی، مقیم فتح پوری اور نادم بلخی جیسے کہنہ مشق شعراءکی ماہیے کی طرف آمد خود ماہیے کے لئے تبرک ہے تو عذرا اصغر، ثریا شہاب، سلطانہ مہر، شبہ طراز، یاسمین سحر، اختر بانو ناز، پرزرق صنم اور کوثر بلوچ کی ماہیا نگاری ہوا کے خوشبودار جھونکوں کا احساس دلاتی ہے۔ کلیم شہزاد، عاصی کاشمیری، سلیم احمد سلیم، انور شمیم فیروز آبادی، نیاز احمد صوفی، نیاز بلوچ، ہارون الرشید، ایم این اے ریحان، نوید اعظم، محمد وسیم عالم، فرحت قادری، محمد ارباب بزمی، جوثر ایاغ، ڈاکٹر امریندر، عارف حسن خان، رمیش کنول، زبیر الحسن غافل، شاداب رضی، محمد ضیاءالاسلام رضوی اور محمد ظفیر الدین ظفر کے ہاں تازہ کاری کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں جبکہ اسلم حنیف، اشراق عالم، اشعر اورینوی، امتیاز شاہین، انوار فیروز، امان اﷲ امان، اجمل پاشا، تنویر خیال، جاوید خان، بشارت احمد بشارت، نیئر حسن نیئر، رافق زمان، رﺅف خیر، ساحر شیوی، سلطان کھاروی، شارق عدیل، شمیم یوسفی، ضمیر یوسف، ظفر ہاشمی، فراغ روہوی، فیض الرحمٰن فیض، فیض سمبلپوری، قربان آتش، قمر الزمان قمر، محمد وسیم انجم، محسن باعش حسرت، نسیم عزیزی اور نورالحسن میکش کے ماہیوں میں ان کے انفرادی تخلیقی اوصاف کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کے فلم ”خاموشی“ والے دس ماہیوں کے ساتھ قمر جلال آبادی کے فلم ”پھاگن“ والے اور ساحر لدھیانوی کے فلم ”نیا دور“ والے ماہیے ”اردو ماہیے کے ابتدائی نقوش“ کے زیر عنوان الگ سے شائع کئے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کے تازہ ماہیے بھی اس ماہیا نمبر کی زینت بنے ہیں جو اس نمبر کے لئے تبرک اور اردو ماہیے کے لئے نایاب تحفہ ہیں۔
مطبوعہ ماہیوں سے ایک مختصر سا انتخاب بھی گلبن کے ماہیا نمبر میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں ضمیر اظہر مرحوم اور رشید اعجاز مرحوم کی ماہیے کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے پندرہ پندرہ ماہیے دیئے گئے ہیں۔ نذیر قیصر، فرحت نواز، غزالہ طلعت، مخلص وجدانی اور قمر ساحری کے تازہ ماہیے دستیاب نہ ہونے کے باعث ان کے پانچ پانچ مطبوعہ ماہیے شامل کئے گئے ہیں.... افتخار شفیع، منزہ اختر شاد، صدف جعفری، ارشد نعیم، وپن ہانڈا، نوید رضا، مشتاق شاد، بسمہ طاہر، غلام شبیر رانا، شجاعت علی راہی، آل عمران، تنویر نوازش اور عبدالجلیل عباد کے تازہ ماہیے نہ ملنے کی وجہ سے ان کے دو دو مطبوعہ ماہیے شامل کئے گئے ہیں۔ ندیم شعیب، کندن لاہوری، طاہر مجید، نذر عباس، وقیع منظر، بقا صدیقی نیاز احمد مجاز اور یاسمین مبارک کا صرف ایک ایک ماہیا نمونے کے طور پر دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بعض ایسے شعراءکو بھی شامل کیا گیا ہے جو غالباً باقاعدہ ماہیے نہیں لکھتے یا بعض ایسے ثلاثی نگار بھی شامل ہیں جن سے اتفاقاً ایک دو ماہیے درست وزن میں سرزد ہوگئے ہیں۔ ایسے شعراءمیں ایم اے تنویر، حسن عباس رضا (دو ماہیے) جان کاشمیری، محمد اقبال، نجمی، بشیر عابد، نازیہ رحمن، سیما شکیب، رستم نامی، منظر نقوی، امجد حمید حسن اور دلشاد علی (ایک ایک ماہیا) شامل ہیں۔ یوں اس ماہیا نمبر میں تمام ماہیا نگاروں کے ساتھ ان ثلاثی نگاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کبھی بے خیالی میں درست وزن کے ایک دو ماہیے بھی لکھ گئے ہیں۔ اتنی احتیاط اور اتنے اہتمام کے باوجود چند اہم ماہیا نگاروں کی اس نمبر میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان اہم ماہیا نگاروں میں منور احمد منور، ناصر نظامی، مسعود ہاشمی، اختر رضا کیکوٹی، مطلوب بی بی شامل ہیں۔
مضامین کے حصہ میں تیرہ مضامین شامل ہیں۔ ان میں سے پانچ مضامین انفرادی تجزیئے کے زمرے میں آتے ہیں۔ میری ماہیا نگاری کے بارے میں اکبر حمیدی اور مناظر عاشق کے دو مضامین، اشعر اورینوی کی ماہیا نگاری پر مناظر عاشق ہرگانوی کا مضمون.... پروین کمار اشک کا ”رم جھم رم جھم“ کے بارے میں مطالعاتی اور تنقیدی مضمون اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ماہیا نگاری پر میرا ایک مضمون....یہ پانچ مضامین انفرادی طور پر کسی کتاب یا ماہیا نگار کے فن کے تجزیہ پر مبنی ہیں۔ میری رائے تھی کہ اس نمبر میں اس نوعیت کے مضامین شامل نہ کئے جائیں لیکن دوسرے احباب بالخصوص سید ظفر ہاشمی کا خیال تھا کہ ان مضامین کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ سو یہ مضامین بھی اس نمبر میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ یہ آٹھ مضامین ”گلبن“ کے ماہیا نمبر میں شائع ہوئے ہیں۔ ”اردو ماہیے کا ارتقائی جائزہ“ از ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ”پنجابی ماہیا“ از امین خیال ”ماہیے کی کہانی“ از حیدر قریشی ”ماہیا اور اس کے وزن کا تعین“ از ”شارق جمال“ ”اردو ماہیے میں موضوعات کا تنوع“ از ناصر عباس نیئر۔ ”ماہیا ایک مطالعہ“ از گوہر شیخپوری۔ ”ماہیے کی تحریک کی قابل قدر پیشرفت“ از سید اقبال حیدر اور ”ماہیے کی بحث کا منظر نامہ“ از شاہدہ ناز.... ان میں سے شاہدہ ناز نے ۱۹۹۲ءسے ۱۹۹۷ءتک ماہیے کی بحث کے سلسلے میں شائع ہونے والے اور ماہیے کے مجموعوں پر شائع ہونے والے مضامین کی فہرست پورے حوالوں کے ساتھ تیار کر دی ہے۔ یہ حوالہ جاتی نوعیت کا ایک مفید مضمون ہے۔ اس میں ایک سہو کی نشاندہی ضروری ہے۔ فہرست میں شامل سب سے آخری مضمون جو اجمل پاشا صاحب کا ہے، ماہنامہ ”عبادت“ کے نومبر کے شمارہ میں نہیں بلکہ پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کے نومبر ۱۹۹۷ءکے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح محمد وسیم انجم کا تحریر کردہ مضمون ”حیدر قریشی کی اردو میں ماہیا نگاری“ جو میری تحقیق و تنقید کی کتاب کا تجزیہ ہے، ماہنامہ ”نیرنگ خیال“ راولپنڈی کے شمارہ نومبر ۱۹۹۷ءمیں شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون اس فہرست میں مذکور نہیں ہے۔ سید اقبال حیدر نے اپنے مضمون میں ۱۹۹۷ءتک شائع ہونے والے ماہیے کے مجموعوں کا، ماہیوں کے انتخاب پر مبنی کتب کا اور ماہیا سے متعلق شائع ہونے والی کتب اور ماہیا ایڈیشنوں کا اختصار کے ساتھ مگر عمدہ تعارف کرایا ہے۔ ناصر عباس نیئر نے اپنے خاص انداز نظر سے ماہیے کے موضوعات پر ایک عالمانہ مضمون پیش کیا ہے۔ بعض جہات سے یہ مضمون ماہیا نگاروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ امین خیال نے پنجابی ماہیے کا اس کے ثقافتی پس منظر سمیت عمدگی سے اور تفصیل سے اپنے مضمون میں تعارف کرایا ہے اور معترضین کے بعض اعتراضات کے جواب پنجابی شاعری کے مستند حوالوں سے دیئے ہیں۔ گوہر شیخپوری نے اپنے مضمون میں بعض دلچسپ نکات پیش کئے ہیں۔ ماہیے کی تفہیم میں ان کے بعض نکات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ ”اگر حضرت شیرانی کی تحقیق حرف آخر کے طور پر تسلیم کی جاسکے تو اردو کی ولادت باسعادت کا شرف بھی پنجاب کو حاصل ہوتا ہے اس لئے کہنا چاہئے کہ ماہیا تو اردو کی اپنی میراث ہے۔“
۲۔ ”اردو میں ماہیے کو پنپانا اور جمانا ہے تو اسے اصل پنجابی آہنگ کے مطابق رکھنا چاہئے.... عروضی زبان میں خواہ آپ کوئی بحر استعمال کریں، یا جی چاہے تو مخلوط بحر بھی استعمال کریں لیکن خیال رکھنا چاہئے کہ .... مصرعوں کی روانی مجروح نہ ہو۔ روانی کی بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ صرف اوزان یا ماتراﺅں کی گنتی کی پیروی سے بات نہیں بنتی اگر زبان کا فطری بہاﺅ مجروح ہوتا ہو تو ماہیے اپنا اثر چھوڑنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔“
جناب گوہر شیخ پوری کے برعکس شارق جمال اپنے مضمون میں تمام تر اخلاص کے باوجود ماہیے کے فطری بہاﺅ کو سمجھنے کی بجائے عروضی زبان میں الجھ گئے ہیں۔ میں علم عروض میں ان کی مہارت کا معترف بھی ہوں اور قدر دان بھی.... اور اس وجہ سے بھی ان سے محبت رکھتا ہوں کہ انہوں نے ماہیے کے غلط وزن کو ترک کر کے، درست وزن کو اپنا کر عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم اپنے مضمون میں انہوں نے عروضی قاعدے کی بنیاد پر ماہیے کا جو وزن تجویز کیا ہے وہ ماہیے کے فطری بہاﺅ میں نہیں آ رہا۔
مفعول مفاعیلن یہ خوب ہے افسانہ
مفعول فعولن وہ کہتے نہیں ہیں
مفعول مفاعیلن دیوانے کو دیوانہ
جناب شارق جمال کے پیش کردہ اس ماہیے کے دوسرے مصرعہ کو اگر ”کہتے نہیں ہیں وہ“ کر دیا جائے تو یہ پنجابی ماہیے کی فطری روانی میں آ جائے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جناب گوہر شیخ پوری نے اپنے مضمون میں (صفحہ نمبر۷۶پر)ایسی ہی ایک مثال دے کر ماہیے کے فطری بہاﺅ کو واضح کیا ہے۔ بہرحال شارق جمال صاحب کی تجویز ماہیے کے سلسلے میں ان کے اخلاص کی مظہر ہے اور یہ بڑی بات ہے کہ گلبن کے ماہیا نمبر میں بحیثیت ماہیا نگار انہوں نے جو ماہیے دیئے ہیں وہ پنجابی لَے کے مطابق ہیں۔
شارق جمال صاحب اور دیگر تمام دوست بھی جو ماہیے کو عروضی گھیرے میں لانے کے لئے مخلصانہ تگ و دو کر رہے ہیں ان کی کاوشوں سے مجھے مولانا جلال الدین رومی کی ایک مشہور مثال یاد آ گئی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ شکاری ایک وقت تک تو ہرن کے نقوش پا سے اس کا تعاقب کرتا ہے لیکن پھر مشک نافہ اس کی رہبر بن جاتی ہے، نقوش پا کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ ماہیے کی بحث اس مثال سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ ماہیے کو عروضی گھیرے میں لینے کی کاوش عروضی قواعد کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ ماہیے کی لَے کی بنیاد پر ہونی چاہئے پھر چاہے بقول گوہر شیخپوری مخلوط اوزان بھی اس روانی پر پورے اتریں تو انہیں بھی قبول کرلینا چاہئے تاہم یہ عروضی ”نقوش پا“ تو ایک حد تک کام آ سکتے ہیں۔ اصلاً تو ماہیے کی لَے کی خوشبو ہی تخلیق کار کی رہنمائی کرے گی تب ہی وہ ماہیے تک صحیح معنوں میں پہنچ پائے گا۔ چنانچہ یہ سامنے کی بات ہے کہ جن ماہیا نگاروں کو ماہیے کی دھن کا علم تھا اور انہوں نے اسے ذہن نشین رکھا، ان کے ہاں ماہیے بے ساختگی سے ہوتے گئے، وزن کا کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوا۔ اس کے برعکس جن ماہیا نگاروں نے عروضی اوزان (نقوش پا) کو مدنظر رکھا وہ کہیں نہ کہیں لڑ کھڑا ضرور جاتے ہیں۔ ایسے ماہیا نگار بہت کم ہیں جو عروضی اوزان میں ہی ماہیے کی لَے تک پہنچ کر دونوں حساب سے پورے بھی اترتے ہیں اور کھرے بھی۔
گلبن کے ماہیا نمبر کا ایک اہم مضمون ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا تحریر کردہ ہے۔ ”اردو ماہیے کا ارتقائی جائزہ“ اس مضمون میں ماہیے سے اپنی محبت کی دھن میں مناظر عاشق نے چند نئے اوزان متعارف کرائے ہیں۔ انہوں نے ان اوزان میں یہ اہتمام کیا ہے کہ ہر وزن کے دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم رہے تاہم جو اوزان انہوں نے تجویز کئے ہیں وہ ماہیے کی پنجابی لَے سے میل نہیں کھاتے اسی لئے انہیں بطور ماہیا قبول نہیں کیا جاسکتا۔
نئے اوزان کی تجاویز سے ہٹ کر .... ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اردو ماہیے کا ارتقائی جائزہ عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ساختیات/مابعد ساختیات کے دو مختلف نظریات میں ساسیئر کلام یا تقریر کو اہمیت دیتا ہے جبکہ دریدا کتاب یا تحریر کو اہمیت دیتا ہے ۔ ماہیا.... اس لحاظ سے اہم شعری صنف ہے جو کلام یا تقریر (گائی جانے والی شاعری) بھی ہے اور (لکھی جانے والی) ادبی تحریر بھی۔ دوسرے لوک گیتوں کے تھوڑے بہت تجربے تو اردو میں ضرور ہوئے لیکن تاحال مقبولیت صرف اور صرف ماہیے کو نصیب ہوئی ہے۔ ماہیے اور ڈھولنے کے سلسلے میں ڈاکٹر فہیم اعظمی نے ساختیاتی حوالے سے صحت مند امید جتائی ہے۔ ڈھولنے کو تو ابھی بالکل ہی ابتدائی تجربہ کہنا چاہئے البتہ ماہیے کے بارے میں اعتماد کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق نے ڈاکٹر فہیم اعظمی سے اتفاق کرتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے کہ ”اردو ماہیے نے اسے ثابت بھی کر دیا ہے اور نئی پیشرفت کے امکانات روشن کئے ہیں۔“ ڈاکٹر مناظر نے حسرت اور اختر شیرانی کے گیتوں سے لے کر آج کے ثلاثی نگاروں تک کے حوالے دے کر ثلاثی اور ماہیے کے فرق کو واضح کیا ہے۔ ہمت رائے شرما جی سے لے کر آج کے ماہیا نگاروں تک.... اردو ماہیے کے مختلف نمونے پیش کئے ہیں اور اب تک کی پیشرفت کا شاندار خلاصہ کیا ہے۔
ان مضامین کے علاوہ اس بار گلبن نے مضامین کے آخر میں بچ رہنے والی جگہ کو ماہیے کے بارے میں دیگر دانشوروں کے مطبوعہ مضامین کے بعض اہم اقتباسات سے آراستہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مظہر امام، انور سدید، ریاض احمد، ناصر عباس نیئر اور سعید شباب کے قیمتی خیالات کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس ماہیا نمبر میں تازہ اور غیر مطبوعہ ماہیوں کی تعداد گیارہ سو سے کچھ زیادہ ہے۔ عام طور پر ہر شاعر کے بارہ بارہ ماہیے شامل کئے گئے ہیں جبکہ مطبوعہ ماہیوں سے جو انتخاب شامل کیا گیا ہے ان کی تعداد ایک سو سے کچھ زیادہ ہے۔ یوں اس نمبر میں ۱۲۰۰سے زائد ماہیے شامل ہیں۔ ۲۵، ۳۰کے لگ بھگ ایسے ماہیے موجود ہیں جن میں ماہیا نگار وزن کے معاملے میں لڑ کھڑا گئے ہیں۔ وہی عروضی چکر میں الجھ جانے والی بات....لیکن ظاہر ہے جن لوگوں نے ماہیے سنے نہیں ہیں ان کے لئے عروضی نظام سے استفادہ کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مسلسل ریاضت سے ان کے ہاں وزن پر گرفت مضبوط ہو جانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اردو ماہیے کی تحریک گلبن کے ماہیا نمبر کی صورت میں ایک نئے موڑ تک آ گئی ہے۔ فریق ثانی کے تمام اعتراضات کے مدلل جواب دیئے جا چکے ہیں اور ہمارے دلائل کے جواب میں ان کے پاس اب صرف بہتان طرازی، ذاتی حملے اور گالی کی زبان رہ گئی ہے۔ یہ بہتان طرازی، ذاتی حملے اور گالی کی زبان کے الفاظ میں نے تحریر کی روانی میں نہیں لکھے۔ واقعتا اب فریق ثانی اس سطح پر اتر آیا ہے لیکن یہ رویہ بجائے خود مخالفین کی بوکھلاہٹ اور علمی بے بسی کا ثبوت ہے۔ بعض ”اہل ایمان“ نے تو اردو ماہیے کی تحریک کو کفر اور اسلام کا مسئلہ تک بنا دیا ہے۔ میرے لئے مخالفین کا یہ تازہ ترین رویہ اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ یہ برملا طور پر علمی میدان میں ان کا اعتراف شکست ہے لیکن ادب کے لئے یہ رویہ، یہ طرز عمل کس حد تک مفید ہے؟ اہل ادب کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
(مطبوعہ : ماہنامہ ”سخنور“ کراچی، شمارہ : نومبر ۱۹۹۸ء)