ابھی تک کی تحقیق کے مطابق قمر جلال آبادی اردو ماہیے کے بانی تھے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمت رائے شرما جی اردو ماہیے کے بانی ہیں۔ سہ ماہی ”کوہسار جرنل“ بھاگل پور کے شمارہ اگست ۱۹۹۷ءمیں انہوں نے اپنی تحقیقی کاوش ”اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمت رائے شرما کی وضاحت“ کے زیر عنوان پیش کی ہے۔ یہی تحریر ماہنامہ ”صریر“ کے شمارہ جون جولائی ۹۷ءمیں بھی چھپی ہے لیکن ”صریر“ میرے پاس نہیں آتا (چونکہ مطلوبہ مضمون کوہسار ہی میں مل گیا تھا اس لئے ”صریر“ کا تراشہ منگانے کی ضرورت نہیں سمجھی) ایک تقریب جس میں ڈاکٹر مناظر شریک تھے، وہاں ایک گیت کے بول سن کر وہ چونکے۔
اک بار تو مل ساجن
آ کر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوا دل ساجن
یہ تو ماہیا ہے.... بس یہیں سے انہوں نے ان ماہیوں کے بارے میں اتہ پتہ معلوم کرنا شروع کیا اور ہمت رائے شرما جی تک جا پہنچے۔ ان سے خط و کتابت ہوئی اور وہ خط و کتابت انہوں نے یکجا کر دی۔ ڈاکٹر مناظر نے تحقیق کا بنیادی نوعیت کا کام تو کر دیا ہے لیکن اس پر ابھی مزید کام کرنے کی خاصی گنجائش ہے لیکن ”طے شدہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے والے“ محققین (معترضین) نے اسے علمی انداز میں لینے کی بجائے مناظرانہ رنگ میں پیش کر کے اعتراضات کرنا شروع کر دیئے۔ میں یہاں ہمت رائے شرما جی کی اولیت پر ہونے والے اعتراضات کے جواب بھی دوں گا اور اردو ماہیے کے بانی کے سلسلے میں تازہ تحقیق کی روشنی میں اپناموقف بھی واضح کروں گا۔
یہاں یہ ضروری وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ہمت رائے شرما جی ممتاز فلم میکر کیدار شرما کے چھوٹے بھائی ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے کتنے ہی مقبول فنکاروں اور ممتاز ٹیکنیشنز کو متعارف کرایا۔ ہمت رائے شرما جی بھی فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔ نغمہ نگار، کہانی کار، آرٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر تک ان کا اپنا طویل فلمی کیریئر ہے.... ان کی پیدائش ۱۹۹۱ءمیں ہوئی۔ ۱۹۹۰ءمیں ان پر لقوہ اور فالج کا حملہ ہوا۔ جان بچ گئی مگر ابھی تک چل پھر نہیں سکتے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق چھپتے ہی دو طرح کے ردعمل سامنے آئے۔
۱۔ پروفیسر آل احمد سرور نے کوہسار کے شمارہ دسمبر ۹۷ءمیں اپنے خط میں چراغ حسن حسرت کی بطور ماہیا نگار نفی کی اور ان کے مبینہ ”ماہیوں“ کو ایک نظم قرار دیا۔ انہوں نے اپنے بیان کو حمید نسیم کی خود نوشت ”ناممکن کی جستجو“ سے اثبات فراہم کیا کہ اس میں حمید نسیم نے اسے نظم قرار دیا ہے اور پوری نظم درج کر دی ہے۔
۲۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے کوہسار کے اسی شمارہ میں ”اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمت رائے شرما کی وضاحت“ کو حاصل مطالعہ قرار دیا۔
۳۔ میں نے کوہسار کے مذکورہ شمارہ میں ہمت رائے شرما کی اولیت پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ دوسری طرف مخالفین نے اس طرح کے اعتراض کئے۔
۱۔ ڈاکٹر مناظر نے اردو ماہیے کے بنیاد گزاروں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ چراغ حسن حسرت کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔
۲۔ اولیت کا سہرا پھر بھی حسرت کے سر بندھتا ہے کیونکہ شرما جی کہتے ہیں فلم خاموشی ۱۹۳۹ءمیں آئی جبکہ فلم ”باغباں“ میں حسرت کے ”ماہیے“ ۱۹۳۷ءمیں آ گئے تھے۔
پہلے اعتراض کی بنیاد مناظر عاشق کے ان الفاظ پر ہے۔ ”اردو ماہیا کے بنیاد گذاروں میں ابھی تک کی تحقیق کے مطابق چراغ حسن حسرت، ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی کے نام آتے ہیں لیکن میری حالیہ تحقیق یہ ہے کہ اولیت کا سہرا ہمت رائے شرما کے سر ہے۔ (کوہسار اگست ۱۹۹۷ء) اس سلسلے میں بحث کے دوسرے منسلکہ پہلوﺅں پر غور کر لینا بھی مناسب ہوگا۔ علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، سیدہ حنا اور دیپک قمر نے ماہیے کی موجودہ تحریک سے پہلے جو ثلاثی ”ماہیے“ کے عنوان سے پیش کئے تھے وہ بھی حسرت ہی کی طرح تھے۔ میرے نزدیک حسرت کی طرح علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، سیدہ حنا اور دیپک قمر بھی ماہیے کی موجودہ تحریک کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔ ان کی بنیادی خدمات کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے ابتدا نہ کی ہوتی تو شاید ماہیے کی موجودہ تحریک کا وجود ہی نہ ہوتا کیونکہ اصلاح احوال کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ تاہم حسرت سے لے کر دیپک قمر تک ان سارے ”بنیاد گزاروں“ کا ماہیے کے لئے اتنا ہی کردار ہے کہ انہوں نے ماہیا نما ثلاثی لکھ کر اصل ماہیے کے لئے راہ ہموار کر دی۔ بعینہ جیسے سرسید احمد خان سے لے کر علی اکبر قاصد تک ادیبوں نے انشائیہ کے لئے راہ ہموار کی لیکن انہوں نے جو مضامین لکھے ان میں کوئی بھی مکمل انشائیہ نہیں مانا جاتا.... یہی حقیقت ڈاکٹر مناظر عاشق کے پیش نظر تھی وگرنہ وہ اس سے پہلے وضاحت سے لکھ چکے تھے۔
”ماہیا کہنے والوں نے بقول سعید شباب نئے تجربے کو آزمانے سے پہلے اس کے تمام پہلوﺅں پر غور کرلینے کی بجائے اور ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی کے مثالی نمونوں سے استفادہ کرنے کی بجائے، حسرت والی غلطی دہرائی یعنی تین ہم وزن مصرعوں میں ماہیے کہنے شروع کر دیئے۔“
(حرف اول۔ کتاب ”رم جھم رم جھم“ ص ۸۱۔ مطبوعہ ۱۹۹۶ءناشر معیار پبلی کیشنز ۔ دہلی)
لہٰذا ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مضمون میں محض ”بنیاد گزاروں “کے الفاظ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا مناسب نہیں کیونکہ اصل حقائق تو اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
ہمت رائے شرما جی کے جو خطوط ”کوہسار“ میں شائع ہوئے ہیں ان کی روشنی میں مزید تحقیق کر کے اصل حقیقت تک تو پہنچا جا سکتا ہے لیکن ان پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمت رائے شرما جی گذشتہ آٹھ برسوں سے لقوہ اور فالج کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ویسے تو طویل عمر کے بعد پچاس ساٹھ برس پہلے کی باتیں پوری طرح یاد نہیں رہ پاتیں۔ ان کا ایک تاثر سا باقی رہتا ہے جبکہ فالج تو ایسی بیماری ہے جو یادداشت کو متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فلم ”خاموشی“ کے ماہیے لکھنے کا سن کبھی ۱۹۳۹ءبتایا ہے کبھی ۱۹۳۶ءاور کبھی اسے پچاس ساٹھ سال کے اندازے سے ظاہر کیا ہے۔ ان تاریخوں میں جو تضاد ہے اس کا سبب صرف بیماری کی وجہ سے یادداشت کا متاثر ہونا ہے۔ وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمت رائے شرما جی نے فلم ”خاموشی“ کے لئے اردو ماہیے ۱۹۳۶ءمیں لکھے تھے۔ اس حقیقت کی تصدیق دو شواہد سے ہوتی ہے.... یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ ماہیے کی موجودہ تحریک کا نکتہ آغاز تو بے شک ۱۹۹۰ءتھا لیکن اس کا باقاعدہ آغاز ۱۹۹۲ءمیں ہوا۔ تب بھی یہ ایک دبی دبی سی آواز تھی.... اب ۱۹۹۲ءسے پہلے کے دو ادبی ثبوت دیکھیں۔
۱۔ ہمت رائے شرما ۱۹۹۱ءمیں پنجاب کے مردم خیز ضلع سیالکوٹ کے مشہور قصبے نارووال میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے.... صرف ۱۷سال کی عمر میں ”خاموشی“ نامی فلم کے گیت لکھ ڈالے (مضمون۔ ”ہمت رائے شرما اور ان کی تین کتابوں کا خصوصی تعارف، مضمون نگار۔ رئیس الدین فریدی۔ مدیر ’روزانہ ہند‘کلکتہ۔ مطبوعہ ماہنامہ ’انشائ‘ کلکتہ شمارہ ۔ اکتوبر، نومبر ۱۹۹۱ء)
۲۔ ۱۹۸۴ءمیں ہمت رائے شرما جی کا شعری سرمایہ ”شہاب ثاقب“ کے نام سے شائع ہوا۔ کتاب کے فلیپ پر ”شرما جی کا تعارف“ اور ان کی شاعری پر فراق گورکھپوری کی رائے درج ہے۔ شرما جی کے تعارف میں یہ الفاظ ہماری تحقیق کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔
”ہمت رائے شرما ایک باکمال فنکار ہیں.... ۲۳نومبر ۱۹۹۱ءکو شرما صاحب نارووال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.... ۱۷سال کی عمر میں فلم ”خاموشی“ کے گیت لکھے“....
اس کتاب کی اشاعت کی وقت ہمت رائے شرما جی ۶۵سال کے تھے۔ بیمار نہیں تھے۔ اس لئے اس وقت ان کے تعارف میں جو سن لکھے گئے وہ زیادہ مستند اور اہم ہیں۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ ۱۹۸۴ءمیں نہ تو ان کے تعارف نگار کو اور نہ ہی خود انہیں کوئی ایسی غرض لاحق تھی کہ ماہیے کی تاریخ میں اولیت کا اعزاز حاصل کرنا ہے۔
ان دونوں شواہد کی روشنی میں جو خود ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، ۱۹۹۱ءمیں ۱۷سال جمع کئے جائیں تو فلم ”خاموشی“ کے ماہیے لکھنے کا سال ۱۹۳۶ءبنتا ہے۔ جب تک کوئی نیا تحقیقی ثبوت نہیں ملتا تب تک فلم ”خاموشی“ کے لئے شرما جی کے اردو ماہیے لکھنے کا سال ۱۹۳۶ءثابت ہے۔
ہمت رائے شرما جی نے فلم ”باغباں“ میں چراغ حسن حسرت کے مبینہ ماہیوں کا اپنے خطوط میں تذکرہ کیا ہے تو یار لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ شرما جی نے حسرت کے ماہیوں سے متاثر ہو کر ماہیے لکھے تھے۔ شرما جی کی اولیت تو ویسے بھی ثابت ہو چکی ہے تاہم شدید علالت کے گہرے اثرات کے باوجود ان کے کسی خط سے حسرت کے ماہیوں سے متاثر ہونے کا تاثر نہیں ملتا۔ سہ ماہی کوہسار کے اگست ۹۷ءکے یہ دو حوالے پہلے دیکھ لیں۔
O”ہماری فلم خاموشی ۱۹۳۹ءمیں تیار ہوئی تھی اور فوراً ہی ریلیز ہوگئی تھی۔ باغباں بھی اسی وقت دیکھی تھی.... عبدالرشید کاردار کا باغباں اس کے بعد (فلم ”ہیر سیال“ کے بعد .... ناقل) ریلیز ہوا۔ ”خاموشی“ بھی اسی زمانے میں ریلیز ہوئی تھی“ (ص ۷۱)
O ”۱۹۳۹ءمیں میں نے پہلی بار اردو ماہیا پر فلم خاموشی میں گانا لکھا۔ اس وقت میری عمر کوئی سولہ سترہ برس کی ہوگی۔ خاموشی کے مکالمہ نگار اور کہانی کار امتیاز علی تاج صاحب تھے۔ باغباں بھی ان ہی دنوں ریلیز ہوئی تھی۔ پہلے کون سی فلم ریلیز ہوئی یہ یاد نہیں“ (ص ۸۱)
ان دونوں حوالوں سے شرما جی کی سادگی اور نیک نیتی تو ظاہر ہے لیکن کہیں یہ شائبہ تک نہیں ہے کہ انہوں نے حسرت کے مبینہ ماہیوں سے متاثر ہو کر ماہیے لکھے تھے۔ اب ایک اور حوالہ دیکھیں۔ شرما جی لکھتے ہیں۔
”ایک دن خان صاحب برکت علی خان جو مشہور گلوکار خاں صاحب بڑے غلام علی صاحب کے چھوٹے بھائی خان صاحب برکت علی خان صاحب کے نام سے پہچانے جاتے تھے، ان سے سنا تھا۔
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
اب اور نہ تڑپاﺅ
ہم کو بلا بھیجو
یا آپ چلے آﺅ
یہ ٹھمری نما پہاڑی (راگ) بہت ہی سر میں گاتے تھے کوئی بھی آج تک ان کی نقل نہیں کرسکا۔“ ص (۱۸۔۱۷)
اس میں جو تعریف کی گئی ہے وہ حسرت کے مبینہ ماہیوں کی نہیں بلکہ خان صاحب برکت علی خان صاحب کی کلاسیکل گائیکی کی تعریف ہے۔ اس کی مزید تصدیق میرے نام لکھے گئے شرما جی کے ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔ ۱۸فروری ۱۹۹۸ءکے تحریر کردہ اس خط کا حوالہ ذرا آگے چل کر پیش کروں گا۔ ہمت رائے شرما جی کے کوہسار میں مطبوعہ ایک خط میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ”میاں کاردار کی فلم باغباں کا ایک گانا بھی اردو ماہیے میں تھا۔ اس کے بول بھی ساتھ ہی ارسال کر رہا ہوں۔“ (ص ۵۱) شرما جی کے بیان کردہ حسرت کے وہ بول یوں ہیں۔
باغوں میں پڑے جھولے ساون کا مہینہ ہے تم بھول گئے ہم کو تم سے جدا ہو کر ہم تم کو نہیں بھولے جینا کوئی جینا ہے
اب اور نہ تڑپاﺅ
ہم کو بلا بھیجو
یا آپ چلے آﺅ
اس حوالے کو بنیاد بنا کر تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی کو ماہیا منوانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں میری پہلی گذارش یہ ہے کہ اگرچہ شرما جی مذکورہ گیت کو ماہیے سمجھنے کے مغالطے میں مبتلا ہوئے لیکن ماہیے کے سلسلے میں اصلی وزن ان کے شعور میں موجود تھا جو لاشعوری طور پر آخری دو ماہیوں میں آ گیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تب بھی محض شرما جی کے مغالطے کو بنیاد بنا کر ثلاثی کو ماہیا نہیں قرار دیا جا سکتا۔ دوسری گذارش یہ ہے کہ حسرت کے ثلاثی کو پروفیسر آل احمد سرور نظم بیان کرتے ہیں۔ خود حسرت اسے ”ایک گیت“ لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق بھی اسے گیت قرار دیتے ہیں تو پھر خود اصل شاعر کی بات مان کر اسے صرف ایک فلمی گیت ہی کیوں نہیں مان لیا جائے؟ تیسری عرض یہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون مطبوعہ ”صریر“ دسمبر ۹۲ءمیں قمر جلالوی کو ماہیا نگار لکھا تھا۔ اب ایک کرم فرمانے اوراق جنوری فروری ۹۸ءصفحہ ۲۷۲پر اصرار کے ساتھ قمر جلالوی کو ماہیا نگار قرار دیا ہے حالانکہ مجھے بھی مغالطہ ہوا تھا اور مذکورہ کرم فرما کو بھی مغالطہ ہوا ہے تو کیا محض اس بنیاد پر کہ حیدر قریشی نے بھی اور اس کے مخالفین نے بھی قمر جلالوی کو ماہیا نگار تسلیم کیا ہے ۔ قمر جلالوی کو ماہیا نگار مان لیا جائے گا؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں۔ چوتھی گذارش یہ ہے کہ ماہنامہ ”تجدید نو“ لاہور کے ہائیکو نمبر میں منظر نقوی کے جو ہائیکو شائع ہوئے تھے ان میں ہائیکو تو ایک بھی نہیں تھا البتہ دو ماہیے ان میں ضرور موجود تھے۔
تصویریں بناتا ہوں جو درد کے مارے ہیں
رنگ نہیں ملتے نام انہیں کیا دیں
خوں اپنا بہاتا ہوں ٹوٹے ہوئے تار ے ہیں
بظاہر یہ ماہیے، ماہیے کے طور پر نہیں، ہائیکو کے زیر عنوان چھپے ہیں لیکن جب یہ حقیقتاً ماہیے ہیں تو ماہیے ہیں۔ میں نے یہ دونوں ماہیے اپنی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ میں بطور حوالہ درج کئے ہیں۔ سیدھی سی اور سادہ سی بات ہے جو ماہیا سہولت کے ساتھ اپنے فطری بہاﺅ میں ماہیے کی پنجابی دھنوں پر گایا، گنگنایا جا سکتا ہے وہ ماہیا ہے جو اس معیار پر پورا نہیں اترتا وہ کلاسیکل موسیقی کا شاہکار ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ ادبی فن پارہ ہوسکتا ہے لیکن ماہیا نہیں ہوسکتا۔ پانچویں اور آخری گذارش یہ ہے کہ تین ہم وزن مصرعوں میں احباب نے من چاہی بحریں ایجاد کر لی تھیں۔ اس کی چند مثالیں ”اردو میں ماہیا نگاری“ کے صفحہ نمبر ۲۵پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر مناظر نے بھی اوراق جنوری، فروری ۹۸ءمیں ”تجرباتی ماہیے“ پیش کئے ہیں۔ اگرچہ ان پرتجرباتی کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے تاہم ظاہر ہے یہ ماہیے نہیں ہیں۔اب اگر کوئی دوست اصرار کریں کہ چونکہ مناظر صاحب نے اس بحر میں ماہیے ہیں لہٰذا یہ ماہیے ہیں تو یہ بات غلط ہوگی۔ سو ہمت رائے شرما جی نے اگر حسرت کے ثلاثی کو ماہیے لکھ دیا ہے (بلکہ ماہیے کر بھی دیا ہے) تو اس سے وہ ماہیے نہیں ہو جائیں گے۔
فلم باغباں اور چراغ حسن حسرت کے ”ماہیوں“ کا ذکر چل نکلا ہے تو یہاں ممتاز موسیقار نوشاد کی یادداشتوں سے ایک حوالہ پیش کر دینا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ نوشاد صاحب لکھتے ہیں۔
”انہوں نے (مشہور اداکار اشرف خان نے ۔ ناقل) فلم باغباں میں اپنی رسیلی آواز میں ایک گیت گایا تھا جو فلم میں بھی ان ہی پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کی طرز مشتاق حسین صاحب نے بنائی تھی اور ان دنوں میں مشتاق صاحب کے ساتھ ہارمونیم بجایا کرتا تھا۔ اس گیت کے بول تھے۔
رو رو نین گنواﺅں
سجنوا آن ملو
یہ گیت بلکہ باغبان کے تمام نو گیت اپنے وقت کے کامیاب کامیڈین مرزا اشرف نے پنجاب کے لوک گیتوں کی بنیاد پر لکھے تھے اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان نو گیتوں کا معاوضہ مرزا صاحب کو صرف نوے روپے دیا گیا تھا یعنی دس روپے فی گیت۔“
(نوشاد کی کہانی۔ مطبوعہ ماہنامہ شمع نئی دہلی۔ شمارہ اکتوبر ۱۹۸۹ءص ۳۳)
اگر باغباں کے سارے گیت مرزا اشرف نے لکھے تھے تو چراغ حسن حسرت کے مبینہ ”ماہیوں“ کی گیت کاری کا معاملہ ہی گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود میرے نزدیک حسرت کے مقام و مرتبے پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔ اسے زیادہ سے زیادہ نوشاد صاحب کا مغالطہ سمجھا جا سکتا ہے۔ سو مغالطہ ہمت رائے شرما جی کا ہو یا نوشاد صاحب کا، کسی مغالطہ کی بنیاد پر حقائق کو مسخ کرنے کی کاوش نہیں ہونی چاہئے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق سامنے آنے کے بعد میں نے ہمت رائے شرما جی سے براہ راست رابطہ قائم کیا۔ ان سے تھوڑی بہت خط و کتابت بھی ہے۔ دو بار میں نے ان سے ٹیلیفون پر بات کی ہے۔ ان کی آواز میں لقوہ کے حملہ کا واضح اثر ہے تاہم ہماری محبت کے کسی انجانے جذبے نے ان کی گویائی کی قوت بڑھا دی.... انہوں نے فون پر بتایا کہ میں پنجابی ہوں، پنجابی ماہیا (اور بولیاں بھی) میرے اندر بسے ہوئے ہیں۔ ابھی میں کم عمر تھا، امرتسر میں گرمیوں کے ایام تھے رات کے وقت میں گھر کی چھت پر چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ ایک درد بھری آواز سنائی دی۔ یہ ہمارے گھر سے کچھ دور رہنے والے ایک نوجوان کی آواز تھی جو اپنے درد میں مگن پنجابی ماہیا گا رہا تھا۔ (بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ نوجوان اپنی محبت میں ناکام ہو چکا تھا)۔ گرمیوں کی رات، کھلی چھت اور گہری خاموشی سے ابھرتی ہوئی ماہیا گانے کی درد بھری آواز.... مجھ پر سحر طاری ہوگیا۔ یہی سحر تھا جس نے بعد میں مجھ سے فلم خاموشی کے ماہیے لکھوائے۔
یہ باتیں ہمت رائے شرما جی نے مجھے ٹیلیفون پر بتائی تھیں۔ ان سے بھی ظاہر ہے کہ پنجابی ماہیا براہ راست ان کے اندر اترا ہوا تھا۔ اگر ان پر کسی کا اثر تھا تو وہ امرتسر کا وہ ناکامِ محبت نامعلوم شخص تھا جس کے د رد کی سچائی نے پنجابی ماہیے کو دو آتشہ کر کے ہمت رائے شرما جی کو باندھ لیا تھا۔ فلم ”خاموشی“ میں ہمت رائے شرما جی کے تمام ماہیے یہاں درج کر دینا مناسب ہے۔
۱۔ اک بار تو مل ساجن ۲۔ سہمی ہوئی آہوں نے
آ کر دیکھ ذرا سب کچھ کہہ ڈالا
ٹوٹا ہوا دل ساجن خاموش نگاہوں نے
۳۔ کچھ کھو کر پائیں ہم ۴۔ یہ طرز بیاں سمجھو
دور کہیں جا کر کیف میں ڈوبی ہوئی
اک دنیا بسائیں ہم آنکھوں کی زباں سمجھو
۵۔ تارے گنواتے ہو ۶۔ سرمست فضائیں ہیں
بن کر چاند کبھی پیتم پریم بھری
جب سامنے آتے ہو پھاگن کی ہوائیں ہیں
۷۔ اشکوں میں روانی ہے ۸۔ کچھ کھو کر پاتے ہیں
آنسو پی پی کر یاد میں ساجن کی
مدہوش جوانی ہے یوں جی بہلاتے ہیں
۹۔ کیا اشک ہمارے ہیں ۱۰۔ دو نین چھلکتے ہیں
آنسو مت سمجھو ساجن آ جاﺅ
ٹوٹے ہوئے تارے ہیں ارمان مچلتے ہیں
یہ ماہیے ہمت رائے شرما جی نے خود گائے تھے۔ شاید یہ برصغیر کی فلمی تاریخ کا ریکارڈ بھی تھا کہ کسی گیت کار نے اپنا لکھا ہوا ماہیا گیت آپ گایا تھا۔ گلوکار کے طور پر ان کا نام ہمت رائے دیا گیا تھا۔ شرما جی نے اپنے گائے ہوئے ماہیے خود پہلی بار کیسے سنے.... اس سلسلے میں انہوں نے میرے نام اپنے خط محررہ ۹۸۔۲۔۱۸میں یہ دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔
”مجھے یاد ہے جب میں اپنی سگائی کے سلسلے میں امرتسر گیا تو ہال بازار میں گراموفون ریکارڈ ڈیلر کی دکان کے آگے کچھ آدمیوں کو کھڑے دیکھا۔ اس وقت جب کوئی نیا ریکارڈ بازار میں آتا تھا تو لوگ اسے سننے کے لئے دکان کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ میں بھی تانگے سے اتر کر وہیں جا کھڑا ہوا اور پھر غور سے جو سنا تو حیران رہ گیا۔ وہ میری ہی آواز میں گا رہا تھا۔ مجھے اپنی آواز بڑی عجیب سی لگی۔ گانا بہت سر میں گایا تھا لیکن مجھے اپنی آواز بالکل پسند نہیں آئی۔ میری آواز مائیکرو فون کے لئے بالکل ناموزوں ہے“.... اس واقعہ کی دلچسپی اپنی جگہ .... تاہم اپنی آواز کے بارے میں شرما جی کے احساس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک سترہ سالہ لڑکے کی آواز کے مقابلے میں انہیں استاد برکت علی خاں جیسے پختہ گائیک کا فلم باغباں کے لئے گایا ہوا کلاسیکی طرز کا گیت کیوں اچھا لگا ہوگا۔
ان تمام شواہد اور حقائق کی بنیاد پر یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قمر جلال آبادی اور ساحرلدھیانوی سے بھی پہلے اردو ماہیے کے درست وزن کا اولین اظہار ہمت رائے شرما جی نے ۱۹۳۶ءمیں کیا تھا۔ تحقیقی اور تاریخی لحاظ سے انہیں چراغ حسن حسرت کے ثلاثی گیت پر بھی اولیت اور فوقیت حاصل ہے۔ سو بلاشک و شبہ ہمت رائے شرما جی اردو ماہیے کے بانی ہیں۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اس انکشاف اور دریافت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
مطبوعہ : Oماہنامہ انشاءکلکتہ شمارہ ستمبر، اکتوبر ۱۹۹۸ئ
O”اوراق“ لاہور شمارہ جنوری، فروری ۱۹۹۹ئ
٭٭٭٭