برائے ”آپس کی باتیں“
”اوراق“ کے شمارہ جنوری فروری ۱۹۹۸ءمیں ظہیر غازی پوری صاحب کا مضمون میں نے توجہ سے پڑھا ہے۔ ظہیر صاحب داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے برملا طور پر اقرار کیا ہے کہ وہ اردو رسم الخط میں لکھی پنجابی پڑھ نہیں سکتے اور پنجابی ماہیے کی لَے سے ویسے بھی آشنا نہیں ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے بڑی دلیری سے اور جرات سے تحکمانہ فیصلے بھی صادر کر دیئے ہیں۔ ایں سعادت بزور بازو است۔ اگر اس مضمون کی غلطیوں یا غلط بیانیوں کی نشاندہی کی جائے تو موصوف کے مضمون سے دگنا مضمون بن جائے گا۔ یہاں میں ان کی چند اہم اغلاط کی نشاندہی کئے دیتا ہوں۔
٭ میں نے اپنے اولین مضمون (صریر دسمبر ۹۲ء) میں فلم پھاگن کے ماہیا نگار کا نام قمر جلال آبادی کی جگہ بے خیالی میں قمر جلالوی لکھا تھا۔ بعد میں سعید شباب نے اپنے ایک مضمون (صریر سالنامہ ۹۳ء) میں اصل نام کی تصحیح کر دی تھی تب سے اب تک پھر کسی نے قمر جلالوی کا نام نہیں لیا لیکن ظہیر صاحب، مناظر عاشق پر چوٹ کرنے کی دھن میں قمر جلالوی کو ماہیا نگار قرار دے کر غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔
٭ ص ۲۷۰پر انہوں نے مجھ سے یہ بات منسوب کی ہے کہ میں نے ”تم روٹھ کے مت جانا“ کے دو وزن دریافت کئے ہیں۔ خود ہی ایک جھوٹ مجھ سے منسوب کر کے پھر اس پر حیرت کا اظہار کرنے کے ساتھ اپنی عروض دانی کا سکہ بھی جمایا ہے.... جبکہ میں نے مذکورہ ماہیوں کا ایک ہی وزن بیان کیا ہے۔ فعلن والا، ہاں پنجابی ماہیے کے (تب تک) لَے کی بنیاد پر دو اوزان ضرور بیان کئے تھے جو اب تک پانچ ہو چکے ہیں۔ میں نے اپنے تازہ مضمون ”ماہیا پابندِ لَے ہے“ میں ان متبادل اوزان کو بھی پیش کیا ہے۔
٭ میں نے مذکورہ ماہیے کا وزن فعلن فعلن فعلن ہی بیان کیا تھا لیکن ظہیر صاحب نے از خود اسے مفعول مفاعیلن قرار دے کر میری تضحیک کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود ہی ایک وزن غلط طور پر مجھ سے منسوب کر کے تنقید کر دینا صریحاً بددیانتی ہے۔
٭ ساحر لدھیانوی کے معاملے میں ہمارے مخالفین کا رویہ عجیب رہا ہے۔ پہلے پہل بڑے زور کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ ساحر نے تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے کہے ہیں اور اسے سند کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب ہم نے وضاحت کی کہ یہ ماہیے تو ہمارے موقف کی تصدیق کرتے ہیں تب یار لوگ ساحر پر برس پڑے اور طنزاً کہا گیا کہ پنجابی ادب میں ساحر کی حیثیت ہی کیا ہے اور اب کہ ظہیر صاحب کو ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی طرح ان کے ایک ماہیے سے عروضی کاری گری دکھانے کا موقع ملا ہے تو ان کا جوش و خروش دیدنی ہے لیکن میرا دعویٰ ہے کہ ساحر کے دونوں ماہیے زحافات کی رعایت کے ساتھ ماہیے کے دونوں اوزان میں آئے ہیں۔ پہلے ماہیے کا وزن مفعول مفاعیلن۔ فعل مفاعیلن۔ مفعول مفاعیلن اور دوسرے ماہیے کا وزن فعلن فعلن فعلن۔ فعلن فعلن فع۔ فعلن فعلن فعلن ہے۔
٭ ظہیر صاحب نے ص ۲۷۳پر ہمت رائے شرما جی کے ماہیوں کو ”ماہیا نما گیت“ لکھا ہے جو بددیانتی ہے کیونکہ انہوں نے تو ماہیے کی موجودہ بحث سے چھ دہائیاں پہلے درست وزن کے ماہیے پیش کئے تھے۔ ”ماہیا نما گیت“ یا ”ماہیا نما ثلاثی“ تو وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے بے خیالی میں تین ہم وزن مصرعوں کو اپنایا تھا اور اب اپنی غلطی کو حق بجانب ثابت کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔
٭ اولین ماہیا نگار کے طور پر ہمت رائے شرما جی کی دریافت ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مناظر عاشق کی تحقیق پر یقیناً مزید کام کرنے کی گنجائش ہے۔ ہمارے مخالفین میں یہ خبرنہایت رنج و غم سے پڑھی جائے گی لیکن اہل ادب کے لئے عمومی طور پر دلچسپی کا باعث بنے گی کہ میں نے اب تک جو ٹھوس شواہد جمع کر لئے ہیں ان سے ثابت ہوگیا ہے کہ ہمت رائے شرما نے ۱۹۳۶ءمیں ماہیے لکھے تھے۔
ظہیر صاحب نے ماہیے کے مجموعوں میں دیپک قمر، سیدہ حنا اور نثار ترابی کی کتابوں کے ساتھ ازراہ شفقت میرے مجموعے کا بھی ذکر کیا ہے لیکن وہ درست وزن کے ماہیوں کے باقی مجموعوں کے نام چھپا گئے ہیں۔ درست وزن کے ماہیوں کے اب تک یہ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ محبت کے پھول (حیدر قریشی)، باد سبز (قمری ساحری)، پھول کہانی (ضمیر اظہر) ، ریگ رواں (نذیر فتح پوری)، یادوں کے سفینے (امین خیال).... ان کے علاوہ ”رم جھم رم جھم“ مناظر عاشق کا مرتب کردہ انتخاب.... ”اردو ماہیے“ سعید شباب کا مرتب کردہ انتخاب، پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کا اردو ماہیا نمبر اور سب سے بڑھ کر دو ماہی گلبن احمد آباد کا تاریخی اور دستاویزی حیثیت کا حامل ماہیا نمبر (گلبن کا ماہیا نمبر اس سال آیا ہے) اس برس ”دل حجرہ“ (یوسف اختر) اور ”روپ نگر“ (انور مینائی) کی اشاعت کی خبر بھی آ چکی ہے.... ظہیر صاحب کے بقول ہندوستان میں قابل ذکر ماہیا نگار ناوک حمزہ پوری، نذیر فتح پوری، پروین کمار اشک اور انور مینائی وغیرہ ہیں.... تو صاحب ! یہ سارے ماہیا نگار تو ہماری تصدیق کرنے والے ہیں۔ یہ سب ماہیے کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم رکھنے والے ماہیا نگار ہیں۔ ان قابل ذکر ماہیا نگاروں میں کوئی بھی ماہیا نما ثلاثی نگار نہیں ہے۔
ظہیر صاحب کی مار دھاڑ کے بعد ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ ماہیے سے وزن اور مزاج کی پابندیاں ختم کر دی جائیں جہاں تک وزن کی پابندی کا تعلق ہے، ماہیے کا وزن اس کی لَے سے مشروط ہے اور ماہیا اسی وقت لَے میں آئے گا جب اس کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی ہوگی۔ ہمت رائے شرما، قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ماہیے تو اوراق کے گذشتہ شمارہ میں بھی آ چکے ہیں اور بیشتر قارئین ان سے آگاہ ہیں۔ یہاں چند مزید ماہیا نگاروں کے ماہیے بھی بطور ثبوت حاضر ہیں جو لَے کی بنیاد پر لکھے گئے اور جو ہمارے موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔
باغوں میں بہار آئی پھولوں پہ نکھار آیا
مہکی ہوئی رت میں چوم کے ذات تری
دل لیتا ہے انگڑائی مرے دل کو قرار آیا
یہ ماہیے کسی پرانی پاکستانی فلم کے ہیں۔ فلم اور شاعر کے نام تحقیق طلب ٭ ہیں۔ یہ گانا غالباً صبیحہ اور سنتوش پر فلمایا گیا تھا۔
میری چھت پر آیا کرو آنچل میں ستارے ہیں
ٹیچر بن کے تم جب سے تمہیں دیکھا
مجھے پیار سکھایا کرو اس دن سے تمہارے ہیں
(فلم ۔ اف یہ محبت (پاکستانی فلم ۔ کانٹا
شاعر ۔ وپن ہانڈا) شاعر ۔ نذیر قیصر)
لڑکی سائیکل والی
دے گئی رستے میں
اک پیار بھری گالی
(فلم پتی، پتنی اور وہ ....شاعر ۔؟)
گویا اس وقت تک کم از کم سات ماہیا گت سامنے آ چکے ہیں جو ماہیے کی لَے پر گائے گئے اور جو ہمارے موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسی لئے ماہیے پر اس کی لَے کی پابندی کی صورت میں وزن کی پابندی بے حد ضروری ہے۔ کسی غزل کے لئے ایک ہی بحر اور قافیہ ردیف کی پابندی ضروری ہوتی ہے جو یہ پابندی نہیں کر سکتے۔ نظم سے نثری نظم تک ان کے لئے اظہار کی کئی اصناف موجود ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ماہیے کی لَے کے مطابق وزن کی پابندی نہیں کرسکتے وہ کسی اور سہ مصرعی صنف میں ”مشق ناز“ کر سکتے ہیں۔
ظہیر صاحب کا پیش کردہ مزاج کے سلسلے میں میرا اقتباس سیاق و سباق سے الگ ہو گیا ہے (اوراق ص ۲۷۷) میں مزاج کے سلسلے میں مکمل چھوٹ کا حامی نہیں ہوں۔ نئے تجربات میں تھوڑی بہت آزادی کی گنجائش ہے تاہم اس کے لئے میں نے بعض تجربات کے ”کچے“ رہ جانے کی بات بھی کی تھی۔ یہ لفظ توجہ طلب ہے۔ ماہیے کے موضوع (مزاج) اور ہیئت (وزن) سے اس کی شناخت بنتی ہے۔ اسے شکنجہ کہنا فن کی سطح پر اپنی بے بسی کا اقرار کرنا ہے.... جہاں تک ”خاص و عام کو گرویدہ بنا لینے“ کی بات کا تعلق ہے، پنجابی ماہیے کی لَے والا اردو ماہیا تو ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بناتا جا رہا ہے۔ میں نے اوپر جن کتابوں اور ماہیا نمبروں کا ذکر کیا ہے وہی اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ درست وزن کا ماہیا قبول عام حاصل کر گیا ہے۔ تین ہم وزن مصرعوں کو ”ماہیے“ کے نام سے پیش کرنے والے تو اب قابل رحم حالت میں ہیں۔
(مطبوعہ : اوراق لاہور، شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۸ء)
٭ فلم حسرت، شاعر قتیل شفائی
٭٭٭٭٭