سیدہ حنا سہ ماہی ”ابلاغ“ پشاور/نوشہرہ کی مدیرہ ہیں۔ پاکستان میں جب میرا ان سے اولین رابطہ ہوا تو یہ بے شک ایک لکھاری اور ایک ایڈیٹر کا تعلق تھا لیکن یہ کسی ایسے لکھاری کا تعلق نہیں تھا جو اپنی تحریریں چھپوانے کے لئے رسالہ کے ایڈیٹر کی بے جا تعریف بلکہ خوشامد پر اتر آتا ہے اور نہ ہی یہ ایسی ایڈیٹر کا تعلق تھا جو خوشامد پسندی کے نشے میں سرشار ہر لکھاری سے اپنی تعریف کرانا چاہے۔ وہ میری صاف گوئی سے خوش تھیں اور میں ان کی وسیع القلبی سے۔ جب سیدہ حنا اور حامد سروش سے پشاور میں ملاقات ہوئی تو شاید ہم پل بھر میں ذہنی اور قلبی طور پر بہت قریب آ گئے۔ یہاں تک کہ سیدہ حنا اپنے نام آنے والے بعض ”دلچسپ“ خطوط کا احوال بھی بتانے لگیں۔ ایک ”دلچسپ“ خط کے مندرجات سن کر میں نے انہیں کہا صرف شہر کا نام بتا دیں میں شاعر کا نام بتا دوں گا۔ انہوں نے مجھے بے یقینی سے دیکھا اور کراچی کہہ دیا۔ میں نے فوراً شبنم رومانی کا نام لیا۔ تب سیدہ حنا اور حامد سروش دونوں کے چہروں سے جو حیرت اور مسرت ظاہر ہوئی اس کی معصومانہ چمک آج بھی میرے دل اور دماغ میں محفوظ ہے۔
پھر یوں ہوا کہ ممتاز عارف نے ”اوراق“ کے شمارہ اگست ۱۹۹۰ءمیں ماہیے کے درست وزن کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ مجھ سے درست وزن میں ماہیے بھی ہونے لگے۔ یہ ماہیے میں نے ادب لطیف، تجدید نو اور ابلاغ میں اشاعت کے لئے بھیجے۔ میرا خیال تھا کہ سیدہ حنا اور حامد سروش کی وسیع القلبی اس ادبی مسئلے کو ادبی رنگ میں قبول کرے گی لیکن معاملہ برعکس نکلا۔ ابلاغ کے خطوط کے صفحات پر میرے خلاف شدید ردعمل شائع کیا گیا۔ (قارئین ادب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ادبی جرائد کے مدیران کو ان کے کسی خاص ”نظریۂ ضرورت“ کے تحت حسب پسند خطوط آسانی سے مل جاتے ہیں) میں نے ابلاغ کے صفحات پر جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے وضاحت کرنا چاہی تو بے جا حاشیہ آرائی کر کے بلکہ میرے خط کے ایک حصہ کو حذف کر کے میرے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تب میں نے مناسب سمجھا کہ ماہیے کی ادبی بحث کو ابلاغ سے ہٹ کر پوری ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ایسا کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ماہیے کے خدوخال نکھر کر سامنے آ گئے۔
سیدہ حنا کے ثلاثی کا مجموعہ ”سیدہ حنا کے ماہیے“ کے نام سے ۱۹۹۴ءمیں شائع ہوا۔ میں اس عرصہ میں جرمنی آ چکا تھا۔ میں نے مذکورہ کتاب حاصل کرنے کے لئے یہاں سے حامد سروش کو خط لکھا۔ ابلاغ کے حصول کے لئے رابطہ کیا لیکن ایک برہم خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملا۔ اب کہ ۱۵دسمبر ۱۹۹۷ءکو محمود ہاشمی صاحب کی عنایت سے مذکورہ کتاب مجھے ملی ہے تو اس کے صفحہ نمبر ۵پر لکھی نثر کے جواب میں حقیقت کو واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیدہ حنا لکھتی ہیں۔
٭ ”ماہیا میری پہچان نہیں ہے۔ میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں آئی۔“ مجھے ان کی اس بات سے کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل اتفاق ہے۔
٭ ”میرے ماہیوں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ بھارت کے معروف شاعر دیپک قمر کو ان ماہیوں سے تحریک ملی اور انہوں نے ہزارہا ماہیے لکھ ڈالے“ سیدہ حنا سے پہلے علی محمد فرشی اور نصیر احمد ناصر نے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی کو بطور ماہیا پیش کیا تھا۔ انہیں کی تقلید میں سیدہ حنا نے بھی مساوی الوزن مصرعوں کے ثلاثی ماہیے کے عنوان سے پیش کر دیئے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دیپک قمر نے اپنے ”ماہیوں“ کے کسی مجموعے میں سیدہ حنا سے متاثر ہونے کا اعتراف نہیں کیا حالانکہ ان کے مجموعے میں ایسا اعتراف ہونا مناسب ہوتا جبکہ میں نے اپنی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ کے صفحہ نمبر ۴۲پر برملا طور پر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
”نصیر احمد اور علی محمد فرشی کے مقابلے میں سیدہ حنا کی ”ماہیا نگاری“ زیادہ مقبول ہوئی۔ بھارت کے دیپک قمر براہ راست ان سے متاثر ہوئے۔ وصی محمد وصی نے اثر قبول کیا پھر یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ یوں علی محمد فرشی کی اولیت کے باوجود غلط وزن کے ماہیوں کو سیدہ حنا کے ذریعے فروغ حاصل ہوا۔ ماہیوں میں تین یکساں وزن کے مصرعوں کی غلط روش بے خبری کے باعث عام ہوئی۔“
٭ میرے اس آخری جملہ کی تصدیق سیدہ حنا نے بالواسطہ طور پر کر دی ہے۔ لکھتی ہیں : ”میں اس جھگڑے میں کبھی نہیں پڑی کہ ماہیا کیسے لکھا جائے کیونکہ ماہیا نگاری میری شعوری کوشش نہیں تھی یہ جس طرح آئے میں نے اسی طرح لکھا۔ اب اگر کوئی بنئیے کی ترازو لے کر ناپ تول کرتا ہے تو کرتا رہے۔“
سیدہ حنا کے اس اعتراف سے حقیقتاً میرے اس موقف کی توثیق ہوتی ہے کہ ”ماہیوں میں تین یکساں وزن کے مصرعوں کی غلط روش بے خبری کے باعث عام ہوئی۔“ ڈاکٹر انور سدید نے بھی غالباً اس ”شعوری کوشش نہ ہونے“ کو بعض شعراءکی ”بے شعوری“ غلطی قرار دیا ہے۔ (”کچھ وقت ضمیر اظہر کے ماہیے کے ساتھ“ بحوالہ ”پھول کہانی“ ص ۸)
جہاں تک بنئیے کی ترازو لے کر ناپ تول کرنے کے طنز کا تعلق ہے، ہم تو کل بھی ماہیے کی لَے کو بنیاد مانتے تھے اور آج بھی اسی کو ماہیے کی بنیاد مانتے ہیں۔ اس لَے سے جو وزن نکلے ہمیں قبول ہے۔ لیجئے اب تو ترازو ہی آپ کے ہاتھ میں ہے۔
٭ ”جاپانی صنف ہائیکو کو اردو میں جس قدر مسخ کیا گیا اس پر کسی نے واویلا نہیں کیا لیکن ماہیے کے سلسلے میں لوگ ڈانگ سونٹا لے کر کھڑے ہوگئے۔“ سیدہ حنا کی یہ بات درست نہیں ہے۔ جاپانی صنف ہائیکو کو علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور سیدہ حنا تین ہم وزن مصرعوں میں لکھ رہے تھے۔ جب ہائیکو کے اس وزن کو غلط قرار دیا جانے لگا تب فرشی صاحب اور ناصر صاحب نے تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ کو سمجھے بغیر تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھنے شروع کئے۔ لہٰذا یہ بات غلط ہے کہ ہائیکو کے سلسلے میں کوئی واویلا نہیں ہوا۔ اسی واویلا کے نتیجہ میں تو آپ لوگوں نے ”ماہیے“ کی طرف توجہ کی تھی۔ ماہیے کے سلسلے میں کسی نے ڈانگ سونٹا نہیں اٹھایا۔ میں نے تو اپنے پہلے خط ہی میں ”ماہیا نگاروں“ کو یہ مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔
”ممتاز عارف نے اپنے خط میں ماہیے کے وزن کا مسئلہ اٹھایا ہے جو خاصا وزن رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ماہیا نگاروں کو باہم طے کر لینا چاہئے کہ انہیں اردو ماہیے کو اصل پنجابی ماہیے کی طرح رکھنا ہے یا اس کا حشر بھی ہائیکو جیسا کرانا ہے۔“ (اوراق دسمبر ۱۹۹۰ء)....افسوس میرے اس مخلصانہ مشورے پر اس وقت کسی ثلاثی نگار نے دھیان نہیں دیا۔
٭ ”ذاتی سطح پر ادبی غنڈہ گردی کا آغاز گمنام خطوط سے کیا گیا“ .... سیدہ حنا کا یہ الزام میرے لئے حیران کن ہے۔ انہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ ادبی غنڈہ گردی والے خطوط ”ماہیے“ کے حوالے سے لکھے گئے یا کسی اور حوالے سے؟.... ہم جو کیس ادبی زبان میں وقار کے ساتھ جیت سکتے تھے اس کے لئے نہ تو ہمیں ”غنڈہ گردی“ کی ضرورت تھی نہ گمنام خطوط لکھنے کی۔ اس کے باوجود میں یہاں موکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میری طرف سے یا میرے اشارے پر کسی اور کی طرف سے کبھی بھی کوئی گمنام خط سیدہ حنا کے لئے یا ادارہ ابلاغ کے لئے نہیں لکھا گیا۔ میں اس بات کی بھی قسم کھاتا ہوں کہ ایسے کسی خط کے بارے میں مجھے معلوم بھی نہیں تھا، پہلی بار سیدہ حنا کی اس تحریر سے اس کا علم ہو رہا ہے اور میں اس گندگی سے اپنی بریت کا اظہار کرتا ہوں .... ویسے یہ تو گمنام خطوط کی بات ہے جبکہ میرے خلاف تو دھونس جمانے والے خطوط ابلاغ میں سرعام چھپے۔ ماہیے کی بحث کی آڑ میں تجدید نو نے میرے خلاف ایک نہایت غلیظ خط شائع کیا اور اس کے جواب میں میرے مدلل ادبی موقف والے خط کو شائع نہیں کیا۔ سو ہمارے خلاف تو کھلے خطوط میں سرعام غنڈہ گردی ہوئی ہے اس کے باوجود ہم خوش ہیں کہ ہمارا ادبی کیس مضبوط ہے اور ایسی مخالفانہ گالیاں ہمارے لئے ، ماہیے کے لئے ”دیسی کھاد“ کا کام کر گئی ہیں۔
٭ ”سفارتی گماشتے دوڑائے گئے بلکہ ایک صاحب تو بہ نفس نفیس میرے خلاف ”عالمی رائے عامہ“ ہموار کرنے کے لئے بیرون ملک تشریف لے گئے“.... اگر یہ میرا ذکر خیر ہے تو میں اس پر افسوس کا اظہار ہی کرسکتا ہوں کیونکہ یہ ”لندن پلان“ جیسے سیاسی شوشے کا سا انداز ہے یا پھر اس معصوم دیہاتی کا سا جس کا کمبل میلے میں کھو گیا تھا۔ جرمنی آنے کے بعد ۱۹۹۷ءکے آخر میں صرف ایک دوست سے سیدہ حنا کے بارے میں بات ہوئی ہے۔ اس میں بھی میں نے صرف اس دکھ کا اظہار کیا کہ ایک ادبی مسئلے کے باعث دو اچھے دوست گنوا بیٹھا ہوں۔ اردو ادب کی کون سی ”عالمی رائے عامہ“ ہے جسے ہموار کرنے کے لئے مجھے یہاں آنا تھا؟ لگتا ہے ”ماہیا نگاری“ کی طرح سیدہ حنا نے یہ الزام لگاتے ہوئے بھی تھوڑا بہت ”شعور“ سے کام لینے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ میرے جرمنی آنے کے بعد بھی ماہیے کی بیشتر بحث تو پاکستان کے ادبی رسائل اور اخبارات کے صفحات پر ہی ہوئی ہے.... سفارتی گماشتے دوڑانے والا الزام بھی عجیب ہے۔ ہمارے پاس تو کوئی ادبی رسالہ بھی نہ تھا جس کی کشش سے ہم لوگوں کو اپنا ہمنوا بناتے.... ٹھوس دلائل اور واضح موقف کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ البتہ فریق ثانی نے اس انداز کی چال ضرور چلی ہے.... صرف ایک مثال.... راولپنڈی کے خوش فکر اور نوجوان شاعر عارف فرہاد پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ کہتے رہے جب انہیں دھن کی بنیاد پر ماہیے کے وزن کا اصول سمجھ میں آ گیا تو انہوں نے درست وزن کو اپنا لیا۔ تب فریق ثانی کے دوستوں کا ایک گروپ انہیں سمجھانے بجھانے کے لئے آیا۔ جب عارف فرہاد نے موقع پر گنگنا کر ماہیے کے وزن کو واضح کیا تو دلیل کا جواب دینے کی بجائے مذکورہ دوست خفا ہو کر چلے گئے۔ سو گماشتے دوڑانے کا الزام بھی فریق ثانی پر ثابت ہوتا ہے۔
سیدہ حنا کو محسوس ہوا کہ ان کے ”ماہیوں“ کے مصرعے کے مصرعے دوسروں کے ہاں آنے لگے ہیں۔ پنجابی میں ایسا ہے کہ پہلا مصرعہ بار بار دہرایا جاتا ہے اور ماہیے گانے میں سوال و جواب اور بیت بازی کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔ سو اگر پہلے مصرعہ کی تکرار ہوئی ہے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ویسے میری رائے یہی ہے کہ ہمارے ماہیا نگاروں کو ایسی تکرار سے بھی بچنا چاہئے لیکن اگر ان کے ”ماہیوں“ کے خیال دوسروں کے ہاں در آئے ہیں تو وہ ان کی واضح نشاندہی کریں۔ میں خود ایک مضمون لکھ دوں گا’ حنایئے کے اثرات ماہیے پر‘۔ سیدہ حنا آج بھی درست وزن کو اپنا لیں تو آنے والے ادبی مورخ ان کی عالی ظرفی کی مثال دیں گے۔ اردو ماہیے میں وہ ایک محترم نام ہوں گی بصورت دیگر میں ان کے ثلاثی کو ماہیے سے قریبی مماثلت کے باعث اور ان کی قابل ذکر تخلیق کاری کے باعث حنایئے کا نام دیتا ہوں۔ یوں وہ ثلاثی نگار جو سیدہ حنا کی خدمات کو دھندلا کر اس انداز کے ثلاثی میں خود ہی مقام اولیت حاصل کر بیٹھے ہیں۔ ان کی بھی تردید ہو جائے گی اور سیدہ حنا کی اس ضمن میں خدمات کے اعتراف کے ساتھ حنایئے کا نام ماہیے سے قربت کا احساس بھی دلاتا رہے گا۔
(مطبوعہ : ویکلی ”ہوٹل ٹائمز“ اسلام آباد، اشاعت ۸مئی ۱۹۹۸ء)