کبھی یہ قرب کے لمحوں میں
فرقت کی سزا مانگے
کبھی یہ ہجر کے عالم میں
وصلِ جاوداں چاہے
کبھی یونہی اُداسی میں گھر اہو
اور یونہی ہنس پڑے....پھر
پاگلوں کی طرح بس ہنستا چلاجائے
ہنسے اتنا کہ میری آنکھ سے
آنسوڈھلک آئیں
مِری آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہی
آپ بھی بے ساختہ رونے لگے
روتا چلاجائے
میں ہنسنے اور رونے کا سبب
کیا جان پاؤں گا
تمہارے ہجر کی ساعت ہوچاہے وصل کا لمحہ
مگر یہ دل،
یہ پاگل دل، سمجھ میں ہی نہیں آئے
یہ دل ہے یا کوئی کردار اگلی داستانوں کا!
بے فیض موسم کا دکھ
اَسیرِ انا سے کوئی بھی
توقع عبث ہے
وہ صرف اپنی جھوٹی اَنا،
خود پسندی کاقائل
مگر میں کہ اپنی اَنا کا بھی منکر
مِرے عشق میں جسم سے رُوح تک جذب ہوکر
فنا میں بقا کی حقیقت کے مفہوم ومعنی نہاں
خوشبوئیں
جذب ہوکے ہواؤں میں
اپنا سبھی کچھ
ہواؤں کو جب سونپ دیتی ہیں
پھیلی ہوئی وسعتوں میں
مہکتی فضاؤں کی صورت
”نہ ہونے “ میں”ہونے“ کا عرفان کرتی ہیں
لیکن جو ا پنی سبھی خوشبوئیں
اپنے اندر سمیٹے
خود اپنی ہی خوشبو میں سرشار ہے
جانتا ہی نہیں ہے
کہ خوشبو جو اندر ہی سمٹی رہے
توپھر آخر وہ گہرے تعفّن میں ڈھل کر
دلوں کی معطر فضائیں بھی مسموم کرتی ہے
اب اس اسیرِ انا کو جب اس کی خبر بھی نہیں ہے
تو پھر اس سے حیدر
کوئی بھی توقع عبث ہے!