درد جتنا بھی ترے در سے عطا ہوتا گیا
کاسۂ دل درد مندوں کا دعا ہوتا گیا
برہمی میں وہ نجانے کیا سے کیا کہتے رہے
بے خودی میں ہم سے جانے کیا سے کیا ہوتا گیا
جسم وجاں پر اک عجب مستی سی ہے چھائی ہوئی
اک نظر کے لُطف سے اتنا نشہ ہوتا گیا
پھر مِری شہ رگ سے بھی آتا گیا نزدیک تر
مجھ سے کیا بچھڑا ہے وہ گویا خدا ہوتا گیا
آنکھ میں، دل میں، لہو میں رقص فرمانے لگا
کس ادا کے ساتھ وہ مجھ سے جدا ہوتا گیا
گونج اُٹّھیں گنبدِ جاں میں مِری تنہائیاں
کوئی خط خاموش لفظوں سے صدا ہوتا گیا
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میںجذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
جس قدر ہوتا گیا اُس کی محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر رِہا ہوتا گیا
٭٭٭