تماشہ بن گئے معتوب ہوتے جا رہے ہو
مگر پھر بھی اسی پتھر سے ہی منسوب ہوتے جا رہے ہو
تم اس میں جذب ہی کب ہو سکے ہو
تو پھر کیوں عشق میں مجذوب ہوتے جا رہے ہو
کوئی تو حد ہوا کرتی ہے آخر بے لحاظی کی
نرے غالب کی غزلوں والے ہی محبوب ہوتے جا رہے ہو
ستم گاری و دلداری کی سب حدیں مٹا ڈالیں
بہت ہی خوب ہوتے جا رہے ہو
محبت میں بھی بزنس مائنڈڈ ہے وہ
یہ تم پاگل ہو جو جذبوں سے یوں مغلوب ہوتے جا رہے ہو
تصوف عشق میں لے آئے حیدر
محبت کرتے ہو،محبوب ہوتے جا رہے ہو