ہر چند ہم ایسے بھی جہاں تاب نہیں تھے
کب ماتھے پہ روشن کبھی مہتاب نہیں تھے
بے نام اُداسی تو ہمیشہ رہی لیکن
ہم اُس سے بچھڑکر کبھی بے تاب نہیں تھے
یہ خواب بھی تیرے تھے اِنہیں ساتھ ہی لے جا
یہ بجھتے ہوئے خواب مِرے خواب نہیںتھے
کردارِ فقیہاں مِری آزادہ روی بھی
”گمراہی“ کے لیکن یہی اسباب نہیں تھے
اُس بزم میںہر جھوٹ پہ بول اٹھتے تھے فوراً
نادان تھے ہم واقفِ آداب نہیں تھے
ہر گوہرِ نایاب کی تذلیل بجا ہے
پر ہم تو کوئی گوہرِ نایاب نہیں تھے
احباب کے تِیروں کے تو ہم عادی تھے حیدر
اِس بار مگر بھائی تھے احباب نہیں تھے
٭٭٭