زوار خان نے بڑے سبھائو سے گل بی بی کو ساری بات بتائی۔ وہ فوراً صبا کے ہاں جانے کے لیے اُٹھیں۔
پشمینہ گل بی بی کو ہمراہ لیے صبا کے ہاں چل پڑی۔ صبا بڑے تپاک سے گل بی بی سے ملی۔
اس نے انہیں ٹی وی لائونج میں بٹھایا تو پشمینہ کے اشارہ کرنے پر انہوں نے موقع محل کا انتظار کیے بغیر فوراً تصویر اُٹھا لی۔
’’صارم!‘‘ اسد پر نگاہ پڑتے ہی وہ پکاریں۔ صبا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
’’یہ… یہ… کون ہے؟‘‘ انہوں نے تصویر پر اُنگلی رکھی۔
’’میرے شوہر ہیں اسد۔‘‘ اس نے سادگی سے بتایا تو گل بی بی فوراً بول اُٹھیں۔
’’نہیں یہ صارم ہے۔ میرے لالہ کی جوانی میں تو ایک نظر میں پہچان گئی ہوں۔ آج وہ ہمارے پاس ہوتا تو بالکل ایسا ہی ہوتا۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ صارم ہے۔ اس کے رُخسار کا یہ تل، ٹھوڑی کا یہ نشان… ہمارے صارم کا ہی تو ہے۔ اس کے والدین کون ہیں، کہاں ہیں۔‘‘
ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور صبا حیران و ششدر کھڑی تھی۔
’’اس کے والدین کون ہیں۔ کیا نام ہے اس کے باپ کا؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھیں اور صبا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیا بتائے۔ اپنے باپ کا نام تو اب شاید اسد کو بھی یاد نہ ہو۔ سب اسے مجتبیٰ حسن کے بیٹے کے نام سے ہی جانتے تھے۔
’’اسد… اسد مجتبیٰ حسن۔‘‘ اس کی زبان سے پھسلا۔ ’’دراصل…‘‘ اس نے کچھ کہنے کو لب وا کیے۔
’’نہیں… یہ صارم ہے۔ صارم کے والد کا نام خان ذکاء اللہ خان ہے۔ یہ پشمینہ کا بھائی ہے۔ میرے لالہ علاقے کے سردار ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ ہمارا بچپن کا کھویا ہوا صارم ہے۔ بھابی جان کو یقین ہے کہ صارم زندہ ہے۔ انہوں نے اس کے انتظار میں سالوں گزارے ہیں۔
میں کیسے مان لوں کہ یہ اسد ہے۔ میں پہلی نگاہ ڈال کر ہی کہہ سکتی ہوں کہ یہ میرا صارم ہے۔ ادھر علاقے میں لے جا کر کھڑا کروں تو لوگ قسم کھا کر کہہ دیں گے کہ یہ صارم ہے ہوبہو میرے لالہ کی جوانی ہے۔‘‘
وہ رو رہی تھی اور صبا کا دماغ اس انکشاف پر سائیں سائیں کر رہا تھا۔
’’اس کی ٹھوڑی کا یہ نشان تب پڑا تھا، جب ایک دن لالہ، صارم کو اپنے ساتھ گھوڑے کی سواری کروانے لے گئے تھے اور یہ گر پڑا تھا۔ ٹانکے لگے تھے وقت کے ساتھ ساتھ داغ مدھم ہو گیا ہے۔ مگر نشان برقرار ہے۔
وہ صبا کو بتاتے بتاتے آنکھیں صاف کر رہی تھیں۔
’’ہمارا مخالف قبیلے سے شروع سے ہی جھگڑا چل رہا تھا۔ اب تو یہ قصہ ہی ختم ہو گیا ہے، مگر اس وقت دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ ہمارے ایک ہی لالہ تھے اور صارم ان کا ایک ہی لخت جگر… انہوں نے سازش سے ہمارا صارم ہم سے چھین لیا۔ وہ ہمارے خاندانی ملازم کے ساتھ حویلی سے نکلا تھا۔ بھابی جان نے اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بھیجا تھا۔ پہاڑوں پہ دشمن نے حملہ کر دیا۔ ملازم کو مار ڈالا اور ہمارا صارم… لوگ کہتے تھے کہ وہ پہاڑ سے نیچے جا گرا ہے۔
ہم نے بہت کوشش کی مگر ہمارا صارم نہ ملا، لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں نہیں مگر ہمیں یقین نہیں آتا تھا۔‘‘
وہ صوفے پر بیٹھی سب بتا رہی تھیں۔ پشمینہ کی آنکھیں بھی سرخ ہو چکی تھیں، صبا بے دم بیٹھی تھی۔
’’آنٹی! اسد آپ کا صارم ہی ہے۔‘‘ اس کی زبان سے کیا نکلا پشمینہ اور گل بی بی شدت سے رو دیں۔
’’تم سچ کہہ رہی ہو نا؟ یہ صارم ہے نا میرے لالہ کا بیٹا! اس کی آنکھوں کا نور۔ میری بھابی کے دل کی ٹھنڈک، ہمارا صارم۔ یا اللہ کرم، تیرا شکر…‘‘ وہ اب اونچی آواز میں روتے ہوئے اسد کی تصویر چومے جا رہی تھیں۔
’’تم ہماری بہو ہو، ہمارے صارم کی بیوی۔‘‘
انہوں نے والہانہ پن سے صبا کو خود سے لپٹا لیا۔
پشمینہ نے آہستہ آہستہ صبا کو اسد کی پہلی نگاہ دیکھنے کے بعد سے اب تک تمام صورتحال بتائی۔
وہ چپ ہوئی تو صبا نے شروع سے لے کر آخر تک ساری حکایت بیان کر ڈالی۔
’’اللہ غارت کرے ان لوگوں کو، جنہوں نے میرے لالہ کی نسل ختم کرنا چاہی تھی مگر جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے، اللہ نے کیسے میرے صارم کو بچانے کا وسیلہ بنایا۔ بڑے نیک صفت تھے تمہارے تایا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ضرور عقیدت سے شکریہ ادا کرتی، انہوں نے ہماری امانت سنبھال کر رکھی۔ اپنا نام دیا، پڑھایا لکھایا شادی کی۔ ورنہ کسی بے نام و نشان کا سہارا کون بنتا ہے۔‘‘
وہ پھر آبدیدہ ہو گئی تھیں۔
’’بہت پیاری ہو تم۔ بھابی جان کو بڑا ارمان تھا کہ ان کا صارم زندہ ہوتا تو وہ اسے دولہا بناتیں، شادی کرتیں، اس کے بچوں کو گود میں کھلاتیں۔ اب تم دیکھنا، کیسے ہم تمہیں ارمانوں سے اپنے گھر لے کر جاتے ہیں۔ اپنے سارے ارمان پورے کرتی ہیں۔
اس کی پیشانی چومتے ہوئے بہت محبت سے کہا تو وہ مسکرا دی۔
’’پشمینہ! اپنا موبائل نکال کر زوار کو اطلاع تو دو۔ بڑا بے چین ہو گا، پھر حویلی فون کرتی ہوں۔ لالہ اور بھابی جان کو خوشخبری سناتی ہوں۔‘‘
’’مگر آنٹی وہ اسد۔‘‘ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسد کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ اس نے فی الحال انہیں روکنا چاہا تھا۔
’’مجھے مت روکو بہو! اس خوشخبری کے لیے ہم نے مایوسی اور اُمید و نا اُمیدی کے درمیان ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اب اس کے والدین کو بتانے دو۔ جب تک وہ اپنے کام سے لوٹے گا تب تک لالہ بھابی اور باقی لوگ بھی ادھر آ جائیں گے۔‘‘
انہوں نے اس قدر ملتجی انداز میں کہا کہ وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی تھی۔
وہ یہاں پہنچا تو گھر میں دو بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی دیکھ کر چونکا، ملازمہ سے صبا کا پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کچن میں ہے تو وہ سامان رکھ کر کچن میں ہی چلا گیا۔
وہ دروازے کی طرف پشت کیے روٹی پکانے میں مصروف تھی۔ دوپٹہ قریب ہی اسٹینڈ پر تھا۔ شاید نہائی تھی اس لیے لمبے بالوں کا آبشار پشت پر بہہ رہا تھا۔ محض ایک کیچر کی مدد سے ہلکا سا سمیٹا ہوا تھا۔
’’صبا…‘‘ وہ اس کے بالکل عقب میں آ کھڑا ہوا، وہ چونک کر پلٹی تو اس کے ساتھ ٹکرا گئی۔ اسد کو اس کی اس قدر گھبراہٹ پر ہنسی آ گئی۔
’’اتنی گھبراہٹ؟ اتنی بُری آواز تو نہیں میری کہ ڈر جائو۔‘‘
اس کے ساتھ بین لے کر سلیب پر رکھا اور دونوں کندھے تھامے کل سے وہ نظروں سے اوجھل تھی تو لگتا تھا کہ کچھ کھو گیا ہے اور اب سامنے آئی تھی تو لگتا ہے خود پر سارے اختیار ختم ہو گئے ہیں۔
صبا کے چہرے پر خوشگوار سی مسکان تھی جو یقینا اسد کی آمد کی وجہ سے ہونٹوں پر چمکی تھی۔ اسے یقین سا ہو گیا تھا کہ اگر وہ اس پر استحقاق جتاتے ہوئے دونوں کے درمیان حائل دیوار کو گرانے کی کوشش کرے گا تو صبا ناراض نہیں ہو گی۔
’’آپ نے تو رات میں آنا تھا؟ پھر اس وقت کیسے؟‘‘ اس کی گہری بولتی آنکھوں کا سحر ایسا ہی تھا کہ وہ اس کے حصار میں آتے ہی سب کچھ بھول گئی تھی۔
’’تمہارے بغیر دل ہی نہیں لگا۔ جلدی جلدی کام نبٹا کر بھاگا چلا آیا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ ’’تم نے مجھے یاد کیا تھا میری غیر موجودگی محسوس کی تھی؟‘‘
وہ نجانے کیا سننا چاہتا تھا، وہ دھیمے سے مسکرا دی، پھر شرارت سے بولی۔
’’نہیں…‘‘
صبا کے ہونٹوں پر ٹھہری مسکراہٹ نے اسے بے خود سا کر دیا تھا۔
’’سنو… میں دعویٰ نہیں کرتا مگر میرا یقین کر لو۔ بے شک وفا کا حلف سمجھ لو، میں تمہیں بہت چاہوں گا۔ بہت زیادہ… حماد کی جگہ نہیں لے سکتا مگر کوشش کروں گا کہ میری رفاقت میں تم خوش رہو۔‘‘
وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیے جذبے سے کہہ رہا تھا، صبا کا دل اس کے ہر ہر لفظ پر ایمان لاتا جا رہا تھا۔
’’پلیز چھوڑیں۔ کوئی آ جائے گا۔ ملازمہ باہر ہی ہے۔‘‘
’’صبا… صبا بیٹے کہاں ہو… صبا۔‘‘ یہ آواز بی بی جان کی تھی۔ اسد چونکا۔
’’یہ کون ہیں؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’بہو…‘‘ آواز دروازے سے آئی تو اسد نے حیرانی سے پلٹ کر دیکھا۔
دروازے میں جو خاتون تھیں، ان میں بلا کی تمکنت اور وقار موجود تھا۔ اسد پر نگاہ پڑتے ہی وہ دروازے پر منجمد ہو گئی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اسد ان کے اس طرح دیکھنے سے پریشان ہونے لگا۔
’’صارم! تم صارم ہو ناں۔‘‘ انہوں نے اسد کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیا تھا۔
’’صباح…‘‘ اس نے حیرانی سے صبا کو پکارا۔
’’اسد! یہ آپ کی بی بی جان ہیں۔ آپ کی ماں۔‘‘
صبا رندھی ہوئی آواز میں اسے ساری صورتحال بتانے لگی۔ اسد کی آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی تھیں۔ تینوں نفوس اپنی اپنی جگہ گم صم خاموش اور عجیب سے احساس میں گھرے کھڑے تھے۔ صبا نے بات ختم کر کے اسد کا کندھا ہلایا اور وہ جو اتنی دیر سے ضبط کیے کھڑا تھا، ایک دم ان سے لپٹ گیا، ماں بیٹے کے ملن کا یہ منظر صبا کی روح میں اُتر گیا تھا۔
وہ اسے دیوانہ وار چوم رہی تھیں۔
’’آپ اندر چلیں۔‘‘ اسد سہارا دے کر انہیں لائونج میں لیے چلا آیا۔
کچھ دیر بعد صبا لائونج میں اور بھی بہت سے چہروں کو بلا لائی۔ وہ سب بظاہر اس کے لیے اجنبی تھے۔ مگر اس کے اپنے تھے۔ بہت گہرا تعلق تھا اس کا ان سب سے۔ اس کی بہنیں، بہنوئی، کزنز، خالائیں، پھوپھیاں دیگر رشتہ دار وہ سب سے ملا، سب نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
’’یہ میرا بیٹا ہے، میرا خون، میری آن، میری شان، میرا بیٹا۔‘‘
خان ذکاء اللہ کتنی دیر تک اسے خود سے لپٹائے کھڑے رہے تھے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔
اس کی تینوں بہنیں اس کے گرد تھیں، بازوئوں کے حصار میں لیے سب کو پیار کرتے اس نے تینوں کے آنسو صاف کیے تھے۔
’’اب تم دونوں ہمارے ساتھ وادی چلو گے۔‘‘ خان ذکاء اللہ نے دونوں کو ساتھ لگا کر خواہش ظاہر کی تھی۔
’’بہت دھوم دھام سے اپنی بہو اور بیٹے کو لے کر جائوں گا، سارا علاقہ دیکھے گا کہ خان ذکاء اللہ کا بیٹا زندہ ہے۔‘‘ وہ بہت پُرجوش ہو رہے تھے۔
کھانے سے فراغت کے بعد وہ کمرے میں آئی تو اسد پہلے سے وہاں موجود تھا۔
’’تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ گھر میں اتنے سارے لوگ موجود ہیں۔‘‘
’’آپ نے موقع ہی کب دیا تھا۔ آتے ہی شروع ہو گئے تھے۔‘‘ اس نے اس کا سرخ چہرہ دیکھا، جو اندرونی و روحانی خوشیوں کا عکاس تھا۔
’’صبا! اس دن کے لیے میں نے ساری زندگی انتظار کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں گزشتہ زندگی کے وہ چار سال بھول چکا تھا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں؟ جو نام، جو مقام ابو جان نے دیا، وہی معتبر جانا، اور ان کی زندگی میں کبھی اپنوں کو تلاش کرنے کی کوشش نہ کی کہ کہیں وہ ہرٹ نہ ہو جائیں۔ یہاں آ کر بھی میں اُلجھتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ اس سے پہلے کہ میں باقاعدہ کوئی قدم اُٹھاتا یہ سب ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا صبا! کہ میں نے اپنوں کو پا لیا ہے۔ مجھے اپنی ذات کا اک نشان مل گیا ہے۔‘‘
وہ جذب سے کہہ رہا تھا اور صبا اس کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دُعا کر رہی تھی۔
یہ سب جس قدر عجلت میں ہوا تھا، اسی قدر دلچسپ تھا۔ بہت رومانوی اور خواب ناک… صبا کو لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی سلطنت کی مہارانی ہو۔ ایک ہفتہ پہلے وہ سب اس حویلی میں آئے تھے۔ بابا جان، بی بی جان اور تینوں بہنیں سب نے گویا انہیں ہاتھ کا چھالا بنا رکھا تھا۔ تینوں بہنیں اس کے آگے پیچھے یوں ہلکان ہو رہی تھیں جیسے وہ بڑی قیمتی شے ہے۔
صارم خان ذکاء اللہ کا اکلوتا بیٹا تھا جو برسوں نگاہوں سے اوجھل رہا تھا، یہاں لانے کے بعد انہوں نے اس کے ولیمہ کا اہتمام کر لیا تھا۔
نکاح کے وقت تو وہ خاص اہتمام سے تیار نہ ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی سنگھار کیا تھا۔ مگر اب ان لوگوں کے خاندانی رسم و رواج کے مطابق دونوں کو ایک دفعہ پھر پورے اہتمام سے تیار کیا گیا تھا۔ نہ جانے کیا کیا رسمیں ہوئی تھیں، صبا کو تو بعض سمجھ میں بھی نہ آئی تھیں، مگر وہ خوش بہت تھی۔
تمام رسموں سے فارغ ہو کر انہوں نے صبا کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا، اس کی کمر کے گرد تکیہ درست کر کے اسد کو بھیجنے کا کہہ کر وہ تینوں بہنیں باہر نکل گئیں۔
اسد آہستگی سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ صبا اس وقت مکمل دلہنوں والے انداز میں تھی۔ اسے اپنے لیے یوں اہتمام سے سجے دیکھ کر دل و نظر ایک احساس تفاخر سے دو چار ہوا تھا۔
ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جائوں ، وہ جواب بھول جائے
وہ کسی خیال میں ہو اور اسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں وہ گلاب بھول جائے
تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے
’’صبا!‘‘ اس کے ماتھے کی بندیا درست کرتے ہوئے اس نے بہت جاذبیت سے پکارا تھا۔
اس کی کلائی کے زیورات کو چھیڑتے وہ بچپن سے لے کر اب تک کے تمام واقعات یاد کرنے لگا۔ ہر لمحہ یادگار تھا، مگر اب لگتا تھا کہ اس نے بے نام و نشانی کا جو بھی دور گزارا تھا، اس کا انعام حویلی، محبت کرنے والے ماں باپ، جان چھڑکنے والی بہنوں اور صبا کی دلنشیں رفاقت کی صورت مل گیا تھا۔
’’اتنا انتظار کیا ہے اس وقت کا، اب تو رحم کر لو تھوڑا۔‘‘
وہ اس کے کان میں شرارت بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اسد کی بوجھل آواز صبا کو اپنے حواس بے خود ہوتے محسوس ہوئے۔ وہ مکمل طور پر موڈ میں تھا۔
بے باک نگاہوں کے تقاضے نظر انداز کیے جانے والے تو نہ تھے، اس کی قربت میں اسے اپنا آپ فراموش ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ محبت بھری جسارتوں پر وہ گھبرا جاتی تھی۔
’’تم نہیں جانتیں، صبا! تم میرے لیے کیا ہو؟
مجھے اپنی محبت کا اظہار کرنے سے مت روکا کرو، اتنے جتن سے تو میں نے تمہیں پایا ہے۔‘‘
اس کے ہاتھوں کو اپنے ہونٹوں کا لمس بخشتے وہ اسے اپنے دل کی تمام وارداتوں کی کہانیاں سنا رہا تھا اور وہ خود کو اس کے سپرد کیے اس کی اُلفت و محبت کی روداد سنتے اک احساس تفاخر سے دو چار ہوئی جا رہی تھی اور دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کیے جا رہی تھی۔
(تمت بالخیر)