کراچی شفٹ ہونے کے بعد اسد نے صبا کا بھرپور خیال رکھنے کی کوشش کی تھی۔ آفس کے بعد سارا وقت وہ گھر پر ہی گزارتا تھا۔ اس کا رویہ اسد کے ساتھ قدرے بہتر ہوا تھا۔ مگر درمیان میں ایک ان دیکھی دیوار اب بھی حائل تھی جسے نہ اس نے عبور کیا تھا اور نہ ہی اسد نے ایسی کوشش کی تھی۔ صبا کی ایک بار کی بے یقینی کے بعد اس نے آہستہ آہستہ صبا کے ساتھ اپنے سلوک کو اس قدر نرم کر لیا تھا کہ صبا خود اس کی محبت اس کے احساسات و جذبات کو سمجھ جائے۔ شاید اسی طرح اس کے دل تک رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔ اس وقت بھی وہ دوپہر کو لوٹا تو وہ گھر پر نہیں تھی، آج اسے کوئی کام تھا، جسے نپٹا کر وہ دوبارہ آفس جانے کے بجائے گھر آ گیا تھا۔
’’کہاں گئی ہیں بیگم صاحبہ!‘‘ اس نے ملازمہ سے دریافت کیا تھا، صبا کی تنہائی کا احساس کرتے ہوئے اس نے یہاں شفٹ ہونے کے فوراً بعد ایک کل وقتی ملازمہ کا انتظام کیا تھا کہ صبا کو اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔
’’وہ جی ساتھ والے بنگلے کی راشدہ باجی آئی تھیں، وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئی ہیں۔‘‘
ملازمہ بتا کر چلی گئی تھی۔ اسد کو خوشی ہوئی کہ یہاں آ کر گھر کی چار دیواری میں مقید ہونے کے بجائے صبا نے باہر کی دنیا میں بھی دلچسپی لینا شروع کی تھی۔
وہ وقت گزاری کے لیے ٹی وی دیکھنے لگا تھا جب صبا کے ہمراہ راشدہ (جسے اسد بارہا اپنے گھر دیکھ چکا تھا) اور ایک اجنبی چہرے کو… داخل ہوتے دیکھ کر وہ سیدھا ہوا۔
’’السلام علیکم!‘‘ صبا اسے خلاف معمول گھر میں دیکھ کر چونکی۔
’’و علیکم السلام!‘‘ راشدہ اور دوسری لڑکی دروازے پر ہی رُک گئی تھیں۔
اسد احتراماً کھڑا ہو گیا تھا۔ پشمینہ نے اپنی چادر اپنے چہرے پر درست کی۔ وہ کوئی باقاعدہ شرعی پردہ نہیں کرتی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی اس نے پردہ نہیں کیا تھا۔ مگر چادر اس نے ہمیشہ اس انداز میں لی تھی کہ اس کا آدھے سے زیادہ چہرہ چادر کی اوٹ میں آ جاتا تھا۔ یہی ان کی بی بی جان کی تعلیم تھی۔
’’راشدہ اور پشمینہ آئو پلیز بیٹھو نا۔‘‘ صبا کے کہنے پر پشمینہ اسد کی طرف دوسری نظر ڈالے بغیر صوفے پر راشدہ کے ہمراہ ٹک گئی تھی۔
’’پشمینہ! یہ اسد ہیں میرے ہزبینڈ اور اسد! یہ پشمینہ ہے۔ راشدہ کی دیورانی اور راشدہ کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘ صبا نے اسد کو اسی طرح کھڑے دیکھ کر تعارف کروایا۔ اسد سلام کر کے وہاں سے نکل گیا۔
’’بڑا پیارا گھر سجایا ہوا ہے۔‘‘ پشمینہ کی نگاہوں میں ستائش تھی۔ اسد کے چلے جانے کے بعد وہ آرام سے بیٹھ گئی تھی۔
کراچی میں اسد کو راشدہ کے برابر میں گھر ملا تھا۔ پہلی بار راشدہ ان کے گھر آئی تھی دوسری بار وہ خود آ کر صبا کو ساتھ لے گئی تھی۔ راشدہ سے صبا کی کافی دوستی ہو گئی تھی۔ اب اسے پشمینہ بھی بہت پسند آئی تھی۔
پشمینہ ستائشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس کی نگاہ ٹیلی فون اسٹینڈ پر رکھی بڑی سی تصویر پر ٹھہر گئی۔
مجتبیٰ حسن کے ساتھ کھڑے دائیں بائیں بھرپور دلکش مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اسد اور حماد کا بڑا خوبصورت انداز تھا۔ اسد کو یہ تصویر بہت پسند تھی۔ لاہور میں بھی یہ تصویر اس کے کمرے میں سائیڈ ٹیبل پر سجی ہوئی تھی اور اب یہاں بھی۔
’’یہ کون ہیں؟‘‘ پشمینہ نے تصویر ہاتھ میں لے لی تھی، نہ جانے تصویر میں ایسی کون سی بات تھی کہ پوچھ بیٹھی۔
’’یہ میرے تایا ابو ہیں، ساتھ میں یہ حماد اور یہ اسد ہیں۔ اسد سے تو تم ابھی ملی ہو نا۔ تایا ابو اور حماد اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔‘‘ وہ اب بھی اس ذکر پر آزردہ سی ہو جاتی تھی۔ دُکھ خودبخود آواز میں گھل گیا تھا۔
’’اوہ… ایم سوری۔‘‘ وہ شرمندہ سی ہو گئی، مگر نظریں تصویر پر جیسے جم سی گئی تھیں۔ تصویر میں اسد اور حماد دونوں تھے، مگر پشمینہ کی نظریں اسد کے مسکراتے چہرے میں اُلجھ گئی تھیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس نے پہلے بھی یہ چہرہ کہیں دیکھا ہے، یہ چہرہ اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
’’صبا! کیا تمہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی کہیں ملے ہیں؟‘‘ اس نے صبا سے ہی پوچھ لیا تھا۔
’’ہو سکتا ہے میں یہیں کراچی میں ہی پلی بڑھی ہوں، شادی کے بعد لاہور شفٹ ہو گئی تھی۔ مگر اب اسد کی پھر یہاں شفٹنگ ہو گئی ہے۔‘‘
’’لیکن میں پہلی دفعہ کراچی آئی ہوں، تمہیں تو میں نے پہلی بار ہی دیکھا ہے، مگر لگتا ہے تمہارے شوہر کو کہیں دیکھا ہوا ہے، مگر کہاں؟ یاد نہیں آ رہا۔‘‘ صبا نے حیران ہو کر دیکھا۔
’’ہو سکتا ہے تمہیں وہم ہوا ہو، اسد اور صبا ابھی چند دن پہلے ہی یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔‘‘ راشدہ نے ٹوکا تو اس نے مزید کچھ کہنے کے بجائے تصویر دوبارہ اسٹینڈ پر رکھ دی تھی۔ مگر اس کا ذہن اُلجھ چکا تھا۔
تھوڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد راشدہ اور پشمینہ چلی گئیں تو وہ اسد کے پاس آئی۔
اسد کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’اسد! کھانا لگائوں؟‘‘ راشدہ کے ہاں جانے سے قبل وہ کھانا تیار کر چکی تھی۔ اس نے کہا تو اسد نے چونک کر اسے دیکھا۔ اسد کا انداز کچھ ایسا تھا کہ صبا کو لگا وہ اس ماحول سے بالکل کٹا ہوا ہے۔
’’میں کھانے کا پوچھ رہی تھی؟‘‘ اس کی کیفیت پر حیران ہوتے اس نے پھر سوال دہرایا تھا۔ پہلے تو نہیں مگر اب وہ اسد پر توجہ دینے لگی تھی۔ وہ اس پر غور کرنے لگی تھی۔ جہاں اس کی شخصیت کے بہت سے راز اس پر عیاں ہوئے تھے۔ وہاں اسے یہ احساس بھی شدت سے ہونے لگا تھا کہ اکثر وہ سوچتے سوچتے کہیں کھو جاتا ہے۔ وہ اس کیفیت کا محرک نہیں جانتی تھی، سو اُلجھ جاتی تھی۔ اپنی کنپٹیاں مسلتے اس نے سر ہلا دیا تھا۔
’’کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘ ایک تو اس کا جلدی آ جانا اور اوپر سے یہ گم صم انداز، وہ متفکر سی پوچھ ر ہی تھی۔
’’ہاں… ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ ہی اُلجھا انداز۔
’’مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ سارا دن آفس میں بزی رہتے ہیں اسی لیے تھکن ہو جاتی ہے۔ اتنا کام کا لوڈ کیوں ڈالتے ہیں خود پر، اس طرح تو آپ کی صحت خراب ہو جائے گی۔‘‘
وہ سمجھی تھی کہ شاید کام کی زیادتی ہے۔ اس نے ہلکے سے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اسد نے حیران ہو کر صبا کا متفکر انداز دیکھا۔ خاص طور پر یوں پیشانی چھونا اس کے اندر خوشگوار سا احساس جاگا تھا۔ ایسے لگا جیسے حبس زدہ ماحول میں دل کو معطر کرنے والا ایک جھونکا دل میں اُتر گیا ہو۔ ورنہ وہ ہمیشہ عجب سرد احساسات لیے ہوتی تھی، مگر اب یہ مہربانی…
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے دل کی خواہش پر اس کے سبک نرم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیے تھے۔
صبا کی گردن میں اپنا دیا گیا لاکٹ دیکھ کر اسد کے اندر عجب سرمستی چھائی تھی۔ شادی کے بعد اس نے بظاہر یہ لاکٹ پہن لیا تھا، مگر تایا کی وفات کے بعد اس نے اُتار دیا تھا اور اب پھر یہ اس کی گردن میں تھا۔ یعنی وہ بدل رہی تھی۔ یہ خوشگوار احساس تھا۔
اسد نے تو صرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ مگر صبا کو لگا وہ لمحوں کی قید میں جکڑی گئی ہے۔ اسد کی نظروں کا ارتکاز تھا یا اس کے ہاتھ کا لمس، جو اس کی گردن پر لپٹے لاکٹ کو چھیڑ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹ سی گئی۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس کا ہاتھ جھٹک نہ سکی تھی۔
اسد کی نظروں میں ایسی لپک تھی کہ اس کا دل اتھل پتھل ہونے لگا۔ اسد کی موجودگی میں اس پر ایسی کیفیت پہلے کبھی طاری نہ ہوئی تھی۔
’’صبا‘‘ اس نے اس کے مقابل کھڑے ہوتے بڑی محبت سے پکارا۔ اس نے چہرہ موڑنا چاہا، مگر اسد نے ایسا نہ کرنے دیا۔
’’پلیز صبا! تم نہیں جانتیں تم میرے لیے کیا ہو؟ میں تمہیں دیکھتا ہوں تو زندگی کا مقصد یاد آنے لگتا ہے اور تم ایک پل کو نظر نہ آئو تو لگتا ہے میں اندر سے خالی ہو گیا ہوں۔‘‘
بے حد جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے استحقاق سے اسد نے اسے بازوئوں میں بھر لیا تھا۔
اسد کی نظروں کا والہانہ پن اور مسلسل تنگ ہوتی گرفت۔ ہر چیز چیخ چیخ کر اعتراف کر رہی تھی کہ وہ اس کے لیے کس قدر خاص ہے۔ وہ اس کی زندگی میں کیا مقام رکھتی یہ۔ صبا کو اپنا آپ پگھلتا محسوس ہو رہا تھا۔ دل تھا کہ سینہ توڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب۔
اس نے کچھ کہنا چاہا۔ مزاحمت کرنا چاہی، مگر سارے حوصلے بھربھری مٹی کی طرح ڈھے گئے۔
’’صبا آئی لو یو، رئیلی آئی لویو، میں جانتا ہوں میں بے نام و نشان وجود ہوں۔ مگر حالات کیسے بھی ہوں پلیز مجھے کبھی تنہا نہ چھوڑنا۔ میری ذات کو نہ جھٹلانا۔ مجھے کبھی خود سے دور نہ کرنا۔ میں جانتا ہوں کہ میں تمہاری محبت نہیں، ترجیح بھی نہیں ہوں، پھر بھی میرا ساتھ دینا، میں برسوں تڑپا ہوں۔ صرف تمہارے وجود کا سہارا ہے ورنہ…‘‘
اس کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔ آواز رندھ گئی تھی، جبکہ بازوئوں کی گرفت لمحہ بہ لمحہ تنگ ہو رہی تھی۔ اس کے حصار میں مقید صبا کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا۔
’’اسد! پلیز ہوش کریں، کوئی آ جائے گا۔‘‘ وہ روہانسی ہو گئی تھی۔ سانس تک لینا محال تھا۔ وہ بمشکل کہہ پائی تھی، اسد چونک گیا۔ وہ دونوں ٹی وی لائونج میں تھے۔ ایک دم اسے اپنے بازوئوں کے حصار سے الگ کیا۔ وہ اس قدر پُرجوش اور بے باک پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔
’’ایم سوری صبا! رئیلی سوری۔‘‘ وہ رُخ موڑ گیا تھا۔ صبا خود حیران تھی۔ ایک نگاہ اس کی چوڑی پشت پر ڈالی۔
’’آپ بیٹھیں… میں کھانا لاتی ہوں۔‘‘ اپنی لڑکھڑاتی ٹانگوں سمیت لرزتی آواز میں کہہ کر وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔
وہ کئی دنوں سے اس کی کیفیت نوٹ کر رہا تھا۔ جب سے وہ لوگ کراچی سے آئے تھے تب سے اسے لگ رہا تھا کہ پشمینہ کچھ کہنا چاہتی ہے، مگر کہہ نہیں پاتی۔ اب بھی رات کے اس پہر وہ بظاہر کتاب پڑھ رہا تھا۔ مگر بستر پر دراز پشمینہ کو ہی نوٹ کر رہا تھا۔
’’پشمینہ! کیا بات ہے، پریشان ہو؟‘‘ پشمینہ نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر سر نفی میں ہلا گئی۔
’’اگر راشدہ بھابی نے کوئی بات کہہ دی ہے تو مجھ سے کہو۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ہے، آپ کو خوا مخواہ فیل ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے پھر ٹال دیا تھا۔
’’مرضی ہے تمہاری… ویسے کہتے ہیں کہ کہنے سننے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘
کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے مکمل توجہ سے پشمینہ کو بازو کے حصار میں لے لیا تھا۔
’’کہا نا کوئی بات نہیں، آپ کو تو بس موقع چاہیے۔‘‘ اپنے بالوں میں چلتا زوار کا ہاتھ روکتے اس نے چڑ کر کہا اور زوار خان ہنس پڑا۔
’’ہماری پیاری سی بیگم صاحبہ خوا مخواہ ڈسٹرب نہیں ہوئیں، کوئی بات ہوئی ضرور ہے، شاباش جو مسئلہ ہے مجھ سے کہو۔‘‘ پشمینہ نے لب دانتوں میں دبا لیے، وہ بھلا زوار سے کیا کہتی اور کیونکر، وہ تو خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا چیز اُلجھا رہی ہے۔
’’زوار میں بہت اُلجھی ہوئی ہوں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ سے کس طرح شیئر کروں۔ وعدہ کریں، مجھے غلط نہیں سمجھیں گے۔‘‘
زوار نے بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھا اور پھر گردن ہلا دی۔
’’اس کا نام اسد ہے، اسد مجتبیٰ حسن مکمل نام ہے۔ اس کی بیوی کا نام صبا ہے۔ بہت پیاری لڑکی ہے۔ راشدہ بھابی کے ساتھ والا گھر ہے ان کا۔ وہ اصل میں لاہور کا رہنے والا ہے، مگر کمپنی کی وجہ سے کراچی شفٹ ہو چکا ہے۔ میں نے پہلی بار اسے اس کے گھر میں دیکھا تھا۔ اور پھر میں جتنے دن وہاں رہی لاشعوری طور پر میں اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ وہ بہت پیارا اور اچھا انسان ہے۔ براہِ راست گفتگو نہیں ہوئی، مگر میں ہر روز اس کے گھر خصوصاً اسے دیکھنے جاتی رہی۔ نہ جانے اس کے اندر کون سی کشش تھی کہ میرے قدم خودبخود اس کے گھر کی طرف اُٹھنے لگتے تھے اور یہاں آ کر مجھے لگ رہا ہے کہ نہ جانے میں کیا کچھ کھو آئی ہوں۔‘‘
زوار کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پشمینہ فوراً بولی۔
’’زوار! مجھے غلط نہ سمجھئے گا، بس اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی چیز ہے جو مجھے اس کی طرف کھینچتی ہے۔ میں بہت پریشان ہوں زوار بہت۔‘‘
وہ بتاتے بتاتے آخر میں ایک دم رو پڑی تھی۔ اس کے سینے پر سر رکھے آنسو بہاتے ہوئے وہ زوار خان کو پتھر کر گئی تھی۔
’’پشمینہ۔‘‘ زوار کو اپنی آواز بھی اجنبی لگی تھی۔
’’زوار! میں صرف آپ سے محبت کرتی ہوں، میں نے ہر پہلو سے سوچا کہ وہ میرے دل کو کیوں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مگر ہر بار خاموشی ملتی ہے۔ مگر اتنا جانتی ہوں یہ کشش بہت مقدس جذبات میں لپٹی ہوئی ہے۔
وہ بہت اچھا ہے، آپ اس سے ملیں گے تو آپ کو بھی اچھا لگے گا۔‘‘ زوار کچھ نہ بولا۔ اگر میرے دل میں کوئی غلط بات ہوتی تو کبھی آپ سے شیئر نہ کرتی۔‘‘
وہ یقین دلا رہی تھی۔ زوار نے بمشکل خود پر قابو پایا۔
’’ہوتے ہیں بعض انسان ایسے جن کو دیکھ کر دل خودبخود ان کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔ ڈونٹ وری یار! پریشان نہیں ہوتے۔‘‘ وہ مسکرا کر اسے دلاسہ دے رہا تھا۔
’’گل بی بی کچھ دنوں کے لیے راشدہ بھابی کی طرف جا رہی ہیں۔ میں بھی ساتھ چلی جائوں؟ بلکہ آپ بھی چلیے، اس سے مل لیجیے گا۔‘‘
’’اوکے… کوئی مضائقہ نہیں چلیں گے۔‘‘
پشمینہ عام طور پر یوں کسی سے متاثر ہونے والی نہیں تھی۔ وہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ اس شخص میں ایسی کیا بات ہے جو پشمینہ جیسی لڑکی گھائل ہو گئی ہے۔ وہ اس سے مل کر ہی کوئی حتمی رائے قائم کر سکتا تھا۔
’’اچھا… اب آرام سے سونے کی کوشش کرو۔ صبح میں گل بی بی سے ساتھ چلنے کی بات کروں گا۔‘‘ اس نے اسے بھرپور تسلی دی اور لائٹ بند کر دی۔
گل بی بی سے بات کی تو انہوں نے فوراً ساتھ چلنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اس طرح وہ پھر کراچی پہنچ گئے تھے۔ راشدہ بھابی دوبارہ پشمینہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد جب گل بی بی آرام کرنے لیٹ گئی تھیں وہ زوار کو لے کر صبا کے گھر چلی گئی۔
صبا بھی پشمینہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اسے بھی پشمینہ بہت اچھی لگی تھی۔ زوار کو دیکھنے کے بعد اسے ان کی جوڑی بہت بھائی تھی۔
’’معاف کیجیے گا زوار بھائی! اسد کراچی میں نہیں ہیں، وہ صبح ہی لاہور کے لیے نکلے ہیں۔ کل رات تک واپس آ جائیں گے۔‘‘
زوار نے جب اسد سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو صبا نے بتایا۔
زوار کے ساتھ ساتھ پشمینہ کے چہرے کی بھی جوت بجھ گئی تھی۔
’’میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘ وہ اُٹھ کر چلی گئی تو پشمینہ نے اسٹینڈ پر رکھی تصویر تھام کر زوار کو تھمائی۔
’’یہ ہیں صباح کے شوہر اسد مجتبیٰ حسن، یہ سسر ہیں اور یہ اسد کے بھائی۔‘‘
زوار نے اسد کی تصویر پر نگاہیں جما دیں۔ وہ کئی ثانیے بغیر پلک جھپکائے دیکھے گیا۔
وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر واپس آ گئے تھے۔
’’پشمینہ! مجھے اس کو دیکھ کر ایسا لگا کہ میں اس سے پہلے کہیں مل چکا ہوں، دیکھ چکا ہوں۔ مگر کہاں، یاد نہیں آ رہا۔‘‘ اپنی کنپٹیاں مسلتے وہ کہہ رہا تھا اور پشمینہ ایک دم پُرجوش ہو گئی۔
’’بالکل میرے جیسی کیفیت ہے۔ سچ زوار! مجھے بھی یہی لگا کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہوا ہے، ملی ہوئی ہوں اس سے۔‘‘
زوار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پشمینہ! مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس شخص کی شکل ماموں جان سے ملتی جلتی ہے۔ شاید یہی اٹریکشن ہے، جو ہمیں اس کی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ وہ چونک گئی تھی۔
’’اگر اس کے چہرے پر بھی داڑھی ہو اور چہرے پر کچھ بڑھتی عمر کا عکس ہو تو بالکل ماموں جان کا چہرہ لگے۔‘‘
وہ پُر سوچ اندازا میں کہہ رہا تھا اور پشمینہ کو لگا اس کے ذہن میں کوئی دھماکہ سا ہوا ہے۔
’’صارم لالہ!‘‘ وہ سرسراتی آواز میں بولی اور زوار چونک پڑا۔
’’زوار! وہ صارم لالہ تو نہیں۔ ہمارے لالہ! یہ ہمارے خون کی کشش تو نہیں جو مجھے ان کی طرف کھینچ رہی ہے۔‘‘
’’مگر ان کا نام تو اسد ہے۔ مجتبیٰ حسن کے بیٹے حماد حسن کے بھائی، وہ لاہور سے آئے ہیں پھر وہ ہمارے لالہ کیسے ہو سکتے ہیں۔‘‘ زوار نے اُلجھ کر کہا۔
’’زوار! دُعا کریں یہ ہمارے صارم لالہ ہی ہوں۔ ہمارے لالہ بی بی جان نے ایک عمر انتظار کیا ہے۔ وہ ساری ساری رات سجدے میں گزار دیتی ہیں اس اُمید پر کہ ان کا صارم زندہ ہے۔‘‘
وہ شدت سے رو پڑی تھی۔