وہ ہنسنے لگی، اسے مسکراتے دیکھ کر وہ بے خود سا آگے بڑھا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی خوشنما سی حرکت کرتا پشمینہ نے پکارا۔
’’زوار! میں ہمیشہ اسی حویلی میں رہنا چاہتی ہوں۔ میں بی بی جان اور بابا جان کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔‘‘
زوار نے اسے ایک پل بغور دیکھا۔
’’بی بی جان نے تمہیں اپنا بیٹا بنایا ہوا ہے۔ تم شروع سے ہی اس حویلی میں رہے ہو۔ بابا جان اور بی بی جان نے تم سے بہت سی اُمیدیں باندھ رکھی ہیں۔ بابا قبیلے کی وجہ سے ایسا نہیں سوچتے، مگر تم ہمیشہ اس حویلی میں رہو، یہ ان کی بھی خواہش ہے۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے دل کی بات کہہ دی تھی۔
’’ویسے ہے تو یہ مردانگی کے خلاف کہ میں گھر داماد بن کر رہوں مگر گھر داماد سے پہلے میں اس حویلی کا بیٹا ہوں اور بیٹے ہمیشہ اپنے گھروں میں ہی جچتے ہیں بیگم!‘‘ اس کی سنجیدگی کو اس نے ہنسی میں اُڑایا تو اس کے ہونٹوں پر بڑی خوبصورت سی مسکان سمٹ آئی تھی۔ ’’زوار! تم… تم بہت اچھے ہو۔‘‘
’’بس ٹائم از اوور، بی بی جان اور دیگر لوگ ادھر آ رہے ہیں۔ زوار لالہ، جلدی سے بھاگنے کی راہ لیں۔‘‘
اس سے پہلے کہ زوار جواباً کوئی خوبصورت سی کارروائی کرتا لیلیٰ کی آمد نے اسے گڑبڑا دیا تھا۔ زوار بی بی جان کا خیال کرتے ہوئے سے باہر کی طرف لپکا اور پشمینہ نے سکھ کا سانس لیا کہ زوار نے اس کی اتنی بڑی خواہش کو اتنی آسانی سے پورا کر دیا۔ اگر وہ بھی بیاہ کر اس حویلی سے چلی جاتی تو بی بی جان اور بابا جان کو صارم کی جدائی مزید تڑپانے لگتی۔
اگلی صبح وہ نو بجے تک بھی کمرے سے نہ نکلی تو اسد کو تشویش لاحق ہوئی۔
رات کو وہ جب مجتبیٰ حسن سے بات کر کے کمرے سے نکلا تو کچن میں پانی پینے کی غرض سے گیا تھا، مگر وہاں سلیب پر ٹرے میں چائے کے تین کپ دیکھ کر چونک گیا۔ اس کے لیے یہ انکشاف ہی بڑا اذیت ناک تھا کہ وہ ان کی گفتگو سن چکی ہے اور اس کے بعد اس نے کیا اندازہ لگایا ہو گا۔ وہ سوچ سوچ کر اُلجھتا رہا۔ دل تو چاہا کہ ابھی جا کر صورتحال واضح کر دے۔ مگر پھر اس کے مزاج اور تیوروں کا خیال کر کے رُک گیا تھا، لیکن اب نو بجے تو وہ صبر نہ کر سکا۔
’’صبا…‘‘ اس نے دروازے پر دستک دی۔
’’صبا…‘‘ اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو وہ قدرے پریشان ہو گیا۔
وہ مسلسل اسے آوازیں دیتے دروازہ بجاتا چلا گیا تھا۔
’’صبا…‘‘ اس کا نام ہونٹوں میں ہی اٹک گیا۔ جب ایک دم دروازہ کھل گیا تھا۔ اسد کا دستک کے لیے اُٹھا ہوا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا۔
’’دستک دینے کا یہ کون سا انداز ہے۔ بہری نہیں ہوں میں۔‘‘ اس نے اسد کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔ چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی منہ دھو کر باتھ روم سے نکلی ہے۔
’’تم ابھی تک کمرے سے باہر نہیں نکلیں تو…‘‘ اس کا غصہ سے سرخ چہرہ اور بدلحاظی دیکھتے اوراسد نے وضاحت کرنا چاہی تھی مگر اس نے درشتی سے بات کاٹ دی تھی۔
’’مر نہیں گئی تھی میں۔‘‘
’’ابو تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کچھ کہے بغیر اس کے گیلے چہرے پر ایک نگاہ ڈالتے سامنے سے ہٹ گیا۔ صبا لب بھینچے اس کی چوڑی پشت دیکھے گئی۔
وہ تایا ابو کے پاس جانے کے بجائے گھر کی صفائی ستھرائی میں لگ گئی۔ دو گھنٹے بعد جب بھوک لگی تو ہاتھ دھو کر وہ کچن میں آئی اسد کو چولہے کے سامنے کھڑے دیکھ کر رُک گئی۔
تو ابھی تک اس نے اور تایا ابو نے ناشتہ نہیں کیا تھا ایسا پہلے بھی ایک بار ہوا تھا۔ وہ بیمار تھی تو اسد نے خود ہی ناشتہ تیار کر لیا تھا اور پھر آج… اسے رات کی تمام گفتگو یاد آئی تو پھر اس کا غصہ بڑھنے لگا۔
اسد روٹی بیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ دونوں توس کھا لیتے تھے، مگر تایا ابو صرف روٹی کا ہی ناشتہ کرتے تھے۔ صبا کو شرمندگی سی محسوس ہوئی۔
’’پیچھے ہٹیں، میں بناتی ہوں۔‘‘ وہ اپنے غصے کو پس پشت ڈالے آگے بڑھی تھی۔
اسد نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر روٹی بیل کر توے پر ڈال دی۔ صبا کو بڑی سبکی کا احساس ہوا، اگر تایا ابو کی بھوک کا خیال نہ ہوتا تو پلٹ جاتی مگر…
’’میں نے کہا نا کہ ہٹیں پیچھے، میں بنا لیتی ہوں۔‘‘ اسد کو دوبارہ آٹے کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر اس نے فوراً آٹے والا برتن اُٹھا لیا۔ اسد نے ایک سنجیدہ نگاہ اس پر ڈالی۔
’’رہنے دیں، آپ جائیں یہاں سے، ہمیں عادت ہے یہ سب کرنے کی۔ خوا مخواہ ہماری عادتیں خراب مت کریں۔‘‘ اس کے لہجے میں پل بھر میں اجنبیت در آئی تھی۔
’’تو پھر اپنے لیے بنا لیں میں اپنے اور تایا ابو کے لیے بنا لوں گی۔‘‘ اس نے بھی اجنبیت سے کہا تو وہ خاموشی سے روٹی کی طرف متوجہ ہو گیا۔
اپنے لیے روٹی بنا کر پلیٹ میں رکھ کر چولہا بند کر کے تو ایک طرف رکھنے کے بعد وہ آرملیٹ، جو وہ شاید پہلے ہی تیار کر چکا تھا، لے کر کھانے کی میز پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگ گیا۔
اس کا یہ روپ پہلی بار صبا کے سامنے آیا تھا، وہ ایک پل کو حیران کھڑی ہو گئی تھی۔ اسے ناشتہ کرتے دیکھ کر اس نے سر جھٹکا پھر دوبارہ چولہا جلا کر توا رکھا، اپنے لیے پراٹھا اور تایا ابو کے لیے سادہ پھلکا بنایا، پھر ٹرے لے کر تایا ابو کے کمرے میں چلی آئی۔
وہ قرآنی تفسیر سے متعلق کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، اسے دیکھ کر سر اُٹھایا۔
’’آج بہت سوئیں تم؟‘‘ اس نے جیسے ہی میز پر ٹرے رکھی تو انہوں نے کتاب بند کر کے تپائی پر رکھ دی۔
’’بس رات اچھی طرح نیند نہیں آئی، اس لیے صبح جلد آنکھ نہیں کھل سکی۔‘‘
ان کے سامنے کھانا رکھتے اس نے بتایا تو وہ مسکرا دئیے۔
’’رات نیند کیوں نہیں آئی تھی۔‘‘ وہ خوش دلی سے پوچھ رہے تھے جبکہ صبا کا چہرہ ستا ہوا تھا۔
’’بس پچھلی زندگی کی باتیں یاد آتی رہیں، امی، ابو، حماد۔‘‘
تایا ابو نے اس کو بغور دیکھا تو اس کی آنکھوں کے سوجے پپوٹے واضح دکھائی دئیے۔
’’کیا تم حماد کو بھول نہیں سکتیں۔‘‘ ان کے لہجے میں آزردگی سی سمٹ آئی تھی۔
اس کے سامنے ناشتہ رکھا تھا، مگر ابھی تک اس نے ایک لقمہ بھی نہ لیا تھا۔ تایا ابو اس کا چہرہ دیکھتے رہ گئے۔
’’مگر میں تمہیں ساری زندگی یوں گزارنے کی حماقت بھی نہیں کرنے دوں گا۔‘‘ انہوں نے ٹرے کھسکا کر خاصی برہمی سے کہا تو وہ بے بسی سے انہیں دیکھنے لگی۔
’’تایا ابو! یہ دل کے معاملات ہیں، آپ زبردستی مت کریں پلیز۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی تھی۔ مجتبیٰ حسن صاحب دُکھ سے اسے دیکھنے لگے۔
’’صبا بیٹے! یہ زبردستی نہیں ہے، تم ابھی کم عمر ہو، جذباتی ہو، تم نہیں سمجھ سکتیں کہ تمہیں مستقبل میں کن مسائل اور حالات کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ فیصلہ تن تنہا زندگی گزارنے سے ہزار درجے بہتر ہے، میں نے اسد سے بات کر لی ہے۔ وہ راضی ہے، میں نے سوچ لیا ہے کہ اس سے پہلے کہ موت آ پہنچے میں تم دونوں کے فرض سے سبکدوش ہو جائوں۔‘‘ ان کا انداز و لہجہ فیصلہ کن تھا۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھے گئی۔
’’تمہارے ماں، باپ زندہ ہوتے تو میں کبھی زبردستی نہ کرتا، راجیہ یہاں ہوتی تو بھی کوئی پریشانی نہ ہوتی کہ میرے بعد وہ تمہارا اچھا بُرا سوچنے والی ہے۔ اسد تمہارے لیے ایک غیر محرم ہے۔ وہ کب تک تمہیں تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ کل کو اس نے بھی شادی کرنا ہے اور آنے والی نہ جانے کیسی ہو، وہ تمہیں برداشت کرے یا نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ تمہیں کہیں اور بیاہتے ہوئے مجھے خود بھی خوف آتا ہے۔ اسد اچھا انسان ہے۔ کوئی کمی، خامی نہیں، میں نے راجیہ سے رات فون پر تفصیلی بات کی تھی، اسے میرے فیصلے سے خوشی ہوئی ہے۔‘‘ وہ لب بھینچے بیٹھی رہی۔
’’صبا بیٹے! یقین کرو اسد بہت اچھا انسان ہے، ان دو سالوں میں تم نے اسے اچھی طرح دیکھا ہے، ان کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اگر تم اس وجہ سے خوف زدہ ہو کہ نہ جانے وہ کس خاندان کا خون ہے تو بیٹا اس چھوٹی سی بات کو ذہن میں جگہ مت دو۔ اس کے انداز و اطوار، مزاج و شباہت سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی عام گھرانے کا چشم و چراغ نہیں ہے۔ نہ جانے کیا حالات تھے کہ وہ مجھے اس حالت میں ملا۔ نہ جانے کس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور کس کے دل کا ٹکڑا ہے۔ خدانخواستہ غلط ہاتھوں میں پڑ جاتا تو کیا مستقبل ہوتا۔ میں نے اسے اپنا نام دیا۔ لکھایا، پڑھایا، معاشرے میں ایک مقام دیا۔ لوگ اسے میرا بیٹا ہی کہتے ہیں۔ وہ میرے لیے دوسرا حماد ہے۔ اور ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے ایسا ہی بر جاہتا ہے۔‘‘
وہ نہ جانے اسے کیا کیا سمجھا رہے تھے، وہ ایک دم اُٹھی تھی اور ان کے کمرے سے نکل آئی تھی۔
اس کے اور تایا جان کے درمیان اک خاموشی سی جنگ جاری تھی اسد کو صورتحال کا اندازہ تھا۔ مگر وہ خاموش تھا۔ مجتبیٰ حسن صاحب نے اپنا فیصلہ منوانے کے لیے اس سے بات چیت بند کر دی تھی۔ انہیں لگتا تھا کہ اس طرح وہ صبا کو قائل کر لیں گے۔ مگر اندر ہی اندر اس خاموش پالیسی پر تینوں ہی دلگرفتہ اور پریشان تھے۔
صبا عجب آزردگی کی کیفیت میں گھری ہوئی تھی۔ رات میں اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو باہر نکل آئی تھی، کچھ دیر تو برآمدے کی سیڑھیوں پر گم صم بیٹھی رہی، پھر اچانک برآمدے کی سیڑھیوں پر گم صم بیٹھی رہی، پھر اچانک تایا ابو کے کمرے سے دھڑام سے کوئی چیز گرنے اور ٹوٹنے کی آواز آئی تو وہ چونک گئی، اُٹھ کر کمرے کی طرف بھاگی۔ دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو اوسان خطا ہو گئے۔ تایا ابو شاید پانی پینے کے لیے اُٹھے تھے، سنبھل نہ سکے اور گر پڑے۔ گلاس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
اس نے دوسرے بستر کی طرف دیکھا، وہ خالی تھا، اسد بستر پر نہ تھا۔ تایا ابو کی طبیعت کی وجہ سے اسد زیادہ تر اسی کمرے میں سوتا تھا۔ مگر جس دن اس کے آفس کا کام ہوتا تو وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا کہ مجتبیٰ حسن ڈسٹرب نہ ہوں۔
وہ دوڑ کر ان کے قریب پہنچی اور پوری قوت لگا کر ان کو اُٹھانے کی کوشش کی، مگر جب وہ انہیں سنبھال نہ پائی تو اسد کے کمرے کی طرف بھاگی۔ دروازہ بند نہیں تھا۔ تیزی سے اندر داخل ہوتے ہی اس نے بستر پر دراز اسد کے اوپر سے چادر کھینچ لی۔
وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ وہ کبھی بھی اس کے کمرے میں داخل نہیں ہوئی تھی اور اب رات کے اس پہر، اس کی حیرت یقینی تھی۔
’’وہ اسد! تایا ابو۔‘‘ باقی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کام نپٹا کر لیٹا تھا۔ فوراً بستر سے اُترا اور تایا ابو کے کمرے کی طرف بھاگا۔
تایا ابو بیہوش ہو چکے تھے۔
’’ابو…‘‘ اس نے سیدھا کیا، مگر کوئی حرکت نہ ہوئی تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر وہ رو پڑی تھی۔
’’اسد پلیز ڈاکٹر کو بلوائیں یا ان کو ہسپتال سے جائیں۔‘‘ اس نے وحشت سے اسد کا بازو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ اسد نے انہیں بستر پر لٹا دیا تھا۔
’’میں انکل امتیاز کی طرف جاتا ہوں۔ اس وقت ڈاکٹرز کا تو ملنا مشکل ہی ہے۔ میں ان کے ساتھ ابو کو لے کر جاتا ہوں۔‘‘
وہ عجلت میں کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد لوٹا تو اس کے ساتھ انکل امتیاز تھے۔
وہ انکل امتیاز کے ساتھ مجتبیٰ حسن کو لے کر ہسپتال چلا گیا۔ ساری رات وہ پریشانی میں ٹہلتی رہی۔ صبح اس نے ہسپتال سے صبا کو خیریت کا فون کر دیا۔
دوپہر میں اسد اسے لینے گھر آیا تو کافی تھکا ہوا اور نڈھال لگ رہا تھا۔ ساری رات کی بھاگ دوڑ اور بے آرامی نے اسے کافی متاثر کیا تھا۔ اسد کو اس حالت میں دیکھ کر صبا شرمندہ سی ہو گئی۔
’’بہت تھک گئے ہیں۔ کھانا کھائیں گے۔‘‘ اس نے بالوں میں اُنگلیاں چلاتے چلاتے رُک کر اسے دیکھا۔ تھکے تھکے اعصاب لیے اس نے آنکھیں موند لیں۔
’’ہوں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا تھا۔
وہ کچن میں آ گئی، اس کے لیے کھانا بناتے ہوئے وہ عجب سے احساسات کا شکار ہوئی۔ کھانے کی ٹرے اس کے سامنے میز پر رکھی۔ آواز پر اسد نے آنکھیں کھولیں۔ ٹرے اپنی طرف کھسکاتے اس نے صبا سے بھی کھانے کو کہا تھا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔
’’صبا… ابو جان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ ڈاکٹرز مکمل طور پر ناامید ہیں، کہہ رہے ہیں کہ اس اٹیک کے بعد ان کی حالت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔ دراصل وہ خود بھی اپنی دل پاور ختم کر چکے ہیں۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ گھر میں ان پر خصوصی توجہ دیں۔ انہیں ایسا ماحول فراہم کریں کہ یہ ٹینشن سے دور رہیں۔ انہیں انجائنا کا دورہ پڑا تھا۔
کھانا کھاتے دھیمے لب و لہجے میں اس نے ساری صورتحال بتائی۔ صبا کا ضبط بکھر کر رہ گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
’’رونے کا کوئی فائدہ نہیں صبا! آپ کو یہ ساری صورتحال اس لیے بتا رہی ہوں کہ آپ کا ان سے دہرا رشتہ ہے۔ میرا بے شک ان سے خون کا کوئی رشتہ نہیں، مگر میں نے انہیں ہمیشہ باپ ہی تسلیم کیا ہے۔ جتنا آپ ان کے قریب رہی ہیں، اتنا میں بھی نہیں ہوں۔ میں جانتا ہوں آپ ان سے بہت محبت کرتی ہیں، مگر پلیز آپ ان کو اس ٹینشن سے نکال دیں۔ اپنے لیے کوئی بہتر فیصلہ کر لیں۔ زندگی کبھی تنہا نہیں گزرتی، آپ کو زندگی میں ابھی نہیں تو آگے ضرور سہارے کی ضرورت پڑے گی۔ میں اپنے لیے فورس نہیں کر رہا۔ آپ بے شک کسی اور کے لیے ہی سہی، پر ہاں کہہ دیں، وہ اس دنیا سے جانے سے پہلے آپ کی فکر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ آپ کو اپنے گھر میں پھر سے آباد دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے ساری صورتحال واضح کر دی تھی۔ وہ گم صم سی بیٹھی رہ گئی تھی۔ وہ جتنا مرضیٰ جھٹلاتی لیکن تایا ابو کے اس اٹیک کی وجہ وہ خود بھی تھی، جس طرح وہ ان سے قطع تعلق کیے ہوئے تھی، یہ صورتحال تو پیش آنا ہی تھی۔
’’آپ اچھی طرح سوچ لیں، آپ پر کوئی زبردستی کوئی دبائو نہیں، خاص طور پر میری طرف سے تو قطعی نہیں۔ شادی بیاہ بچوں کا کھیل نہیں، یہ عمر بھر کی بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دل آمادہ نہ ہوں تو ایسا بندھن باندھنے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘
اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسد یوں اسے یہ سب سمجھا رہا ہو گا۔
’’میں ذرا چینج کر لوں۔ آپ بھی تیار ہو جائیں پھر ہسپتال چلتے ہیں۔‘‘
وہ کھانا ختم کر چکا تھا۔ برتن سمیٹتے ہوئے تایا ابو کے لیے پرہیزی کھانا بناتے ہوئے تیار ہوتے ہوئے وہ عجب کشمکش کا شکار تھی۔
امتیاز انکل ہسپتال میں تایا ابو کے پاس ہی تھے۔ اسد ان کی ہی گاڑی لے کر آیا تھا۔ صبا اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھی تھی۔
اسد نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بغور دیکھا۔ اس کی آنکھیں مزید سرخ ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ وہ پھر خوب روئی ہے۔
’’اسد! آپ اچھی طرح جانتے ہیں، میری اور حماد کی اٹیچمنٹ ایک دو دن کی بات نہ تھی۔ اس کی محبت توجہ اور پیار نے مجھے کبھی کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ میں حماد کے ساتھ بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی اور حماد کے بعد کسی اور کا تصور… چاہے وہ کوئی بھی ہو…‘‘
وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر سسک اُٹھی تھی۔ اسد لب بھینچے گاڑی چلاتا رہا تھا۔
’’آپ تایا ابو سے کہہ دیجیے کہ میں آپ سے نکاح کے لیے تیار ہوں۔‘‘ روتے روتے اس نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا تھا اور اسد بس اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
مجتبیٰ حسن چند دن ہسپتال میں رہے تھے۔ ان کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ڈسچارج کر دئیے گئے تھے۔ وہ گھر لوٹے تو بہت زیادہ لاغر ہو چکے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر صبا مزید وحشت زدہ ہو جاتی تھی۔ اسد کے کیا جذبات تھے۔ وہ بے خبر تھی، اس روز کے بعد براہِ راست ان دونوں کی کوئی بات چیت نہیں ہو سکی تھی۔
وہ رات کو انہیں دوا کھلانے آئی تھی۔ دوا کھلا کر اس نے تایا جان کے ہاتھ تھام لیے۔ آج ان کی طبیعت گزشتہ دنوں سے قدرے بہتر تھی۔
’’تایا ابو مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے، میں اسد سے نکاح کے لیے راضی ہوں۔‘‘ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اس نے کہا تو اس کی آواز رندھ گئی تھی۔
پہلے تو وہ حیران ہوئے، پھر خوش ہو کر انہوں نے اسے والہانہ انداز میں اپنے سینے سے لگا لیا تھا اور صبا کو لگا اسے دل کھول کر رونے کا موقع مل گیا ہے۔
’’تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ تم میری ہی بہو رہو گی، چاہے حماد کی صورت یا اسد کی۔ یقین رکھنا بیٹا! اسد تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ کوئی اور نہ جانے کیسا ہوتا۔ میرا باہر دل ہی نہیں مانا۔ بہت عقلمندی کا فیصلہ کیا تم نے۔ اللہ تم دونوں کو سدا خوش رکھے۔‘‘ وہ اسے سینے سے لگائے مسلسل دُعائیں دے رہے تھے۔
اس کی خواہش تھی کہ نکاح وغیرہ کی تقریب سادگی سے ہو، خود اسد بھی شور ہنگامے کا قائل نہ تھا۔ مگر تایا ابو تو ہر طرح سے خوشی منانا چاہتے تھے دل کھول کر۔ نہ نہ کرتے بھی اچھا خاصا انتظام کر لیا گیا تھا۔ وہ نکاح کے دن بہت خوش تھے۔ بغیر کسی سہارے کے وہ مہمانوں میں چل پھر، اُٹھ بیٹھ رہے تھے۔ زندگی کے بھرپور قہقہے لگا رہے تھے۔
نکاح کے بعد اسد پہلے مجتبیٰ حسن کے پاس ان کے کمرے میں آیا۔
’’تم ادھر؟‘‘ اسد کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئے تو اسد جھینپ گیا۔
’’آج تو مجھ بوڑھے کو تنہا چھوڑ دو، جائو بیٹا! صبا انتظار کر رہی ہو گی۔ تم میری فکر نہ کرو، مجھے بس تم دونوں کی فکر تھی، بڑے عرصے بعد سکون محسوس کیا ہے، اب اگر موت بھی آ جائے تو کوئی غم نہیں۔ ایک خلش تھی دل میں کہ میں دونوں بیٹوں میں انصاف نہیں کر پایا، تم بے شک منہ سے کہو، مگر باپ ہوں تمہارا، تمہارے دل کی خواہش مجھ پر آشکار نہ ہوتی تو کس پر ہوتی۔ آج میں سرخرو ہو گیا ہوں۔ جائو بیٹا! اپنی خوشیاں سمیٹو، میری ساری دُعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
انہوں نے اسد کا چہرہ تھام کر پیشانی چومی، پھر اسے اپنے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا تو وہ باہر نکل آیا تھا۔
اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اسد کے عجب سے احساسات ہو رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھی روتی صبا کی وہ ہاں اور الفاظ… وہ بھولا تو نہ تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ صبا نے صرف مجتبیٰ حسن کی خاطر ہاں کی ہے۔ اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانا اس کی سرشت میں نہ تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو صبا کہیں بھی نظر نہ آئی، البتہ باتھ روم کا دروازہ بند تھا، وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
صبا باتھ روم سے نکلی تو اس نے دیکھا وہ سادہ سوتی لباس میں ملبوس تھی۔ اس نے نظریں چرائیں۔
اسد نے صبا کو چند پل بغور دیکھا اور ایک گہری سانس خارج کی۔
’’صبا! یہ میں تمہارے لیے لایا تھا۔ پہن لینا۔‘‘ اسد اس کے قریب آیا۔ پینٹ کی جیب سے ایک ڈبیہ نکال کر اس کی طرف بڑھائی تھی۔ ’’کیا ہے؟‘‘ ہاتھ بڑھا کر لینے کے بجائے اس نے صرف پوچھا تھا۔ اسد کے اندر سارے لطیف احساسات سرد سے ہو گئے تھے۔
’’دیکھ لیں۔‘‘ اسد نے ڈبیہ اس کے قریب رکھ دی۔ ’’ابو ضرور پوچھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف ہو۔ تمہارا دل نہ بھی چاہے، تب بھی ضرور پہن لینا۔ مجبوراً ہی سہی، جہاں تک بات ہے تمہارے احساسات کی، میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں تکلیف نہ ہو۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم نے کن حالات میں اور کیونکر اس رشتے کے لیے رضامندی دی ہے۔ کم از کم میری طرف سے تمہیں کوئی شکایت نہ ہو گی۔‘‘ اسے کہہ کر وہ الماری سے لباس لے کر باتھ روم میں گھس گیا اور وہ لباس اور زیور وغیرہ لیے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کچھ دیر بعد وہ اسد کے کمرے میں آئی تو وہ لیٹا ہوا تھا۔ ایک لمحہ کو دونوں کی نگاہ ملی وہ نظر جھکا گئی۔ خاموشی سے بستر پر آ کر لیٹ گئی۔