’’کیا کر رہی ہو آج کل۔‘‘ ذکاء اللہ، سجاول اور زوار تینوں باہر بیٹھک میں چلے گئے تھے۔ وہ راشدہ بھابی کے پاس بیٹھی تو اس نے اپنائیت سے پوچھا۔
سجاول لالہ کو یونیورسٹی میں دوران تعلیم راشدہ پسند آ گئی تھی۔ سب کی بے پناہ مخالفت کے باوجود سجاول لالہ نے راشدہ سے شادی کر لی۔ خوش قسمتی سے راشدہ ایک اچھی اور سلجھی ہوئی بہو ثابت ہوئی، سو سب کی مخالفت توڑ گئی مگر گل خانم کا ملال نہیں جاتا تھا۔ وہ سجاول کے لیے پشمینہ کو سوچے بیٹھی تھیں مگر جب سجاول نے راشدہ سے شادی کر لی تو انہوں نے زوار کو پکڑ لیا۔ وہ اپنے بھائی کی بیٹی کو کسی طور چھوڑنے پر راضی نہ تھیں اور اپنی اس چاہت کا وہ برملا اظہار بھی کرتی رہتی تھیں۔
’’کچھ خاص نہیں، ایگزیمز کے بعد فارغ ہی ہوں، بس رزلٹ کا انتظار ہے، اور بابا جان کا تو آپ کو علم ہے ماسٹر انہوں نے کروا دیا ہے، مزید کچھ کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’زرمینے اور پلوشے کیسی ہیں؟‘‘ راشدہ بھابی نے پوچھا۔
’’سب ٹھیک ہیں، زرمینے رات کو آئی تھی، دوپہر کو چلی گئی اور پلوشے تو روز فون کرتی ہے خوش ہے۔‘‘
کھانا سب نے اکٹھے ہی کھایا۔
کھانے کے بعد وہ راشدہ کے ساتھ لان میں چلی آئی۔ چاندنی رات میں تالاب کے پاس بیٹھے ہوئے ماحول میں اک عجیب سا فسوں طاری تھا، جس سے وہ دونوں محظوظ ہو رہی تھیں۔
’’تم تو ایگزیمز کے بعد ایسے غائب ہوئی ہو کہ تمہیں ڈھونڈنے کے لیے لگتا ہے شہر میں منادی کروانا پڑے گی۔‘‘
اپنے عقب میں زوار کی بھاری دلکش آواز پر وہ فوراً پلٹی۔ راشدہ بھابی مسکراتی ہوئی دونوں کو دیکھنے لگی۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے تیوریاں چڑھا کر زوار کو گھورا تو وہ مسکراتا ہوا راشدہ اور اس کے درمیان خالی جگہ پر ٹک گیا۔ دونوں تالاب کی دیوار پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
’’تمہیں دیکھے بڑے دن ہو گئے ہیں، تمہاری کڑوی کسیلی سنے۔‘‘ اس نے جواباً اسے گھور کر جواب دیا۔
’’دیکھ رہی ہیں بھابی! یہ ہمیشہ لڑائی کی ابتدا کرتا ہے اور اگر میں کچھ کہتی ہوں تو بابا جان تک شکایت پہنچ جاتی ہے۔ میں تو دن رات شکرانے کے نفل پڑھتی ہوں کہ تم جیسے باڈی گارڈ سے جان چھوٹی۔ یونیورسٹی میں برداشت کرنا تو مجبوری تھی کہ بابا جان اکیلے آنے جانے نہیں دیتے تھے۔‘‘ اس نے بھی فوراً حساب چکایا تھا۔
’’تمہیں اتنا ہینڈسم، وجیہ اور خوبصورت لڑکا باڈی گارڈ لگتا ہے۔‘‘ اس نے فوراً اس کے الفاظ پر گرفت کی تھی۔
’’میرے لیے تو باڈی گارڈ ہی تھے۔ بابا جان نے تمہیں یہی تو بتایا تھا۔‘‘
’’خیر باڈی گارڈ کا بڑا خوبصورت مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے، کیوں بھابی جان!‘‘
اس نے فوراً راشدہ کو ساتھ ملایا، اس نے فوراً مسکراتے ہوئے گردن ہلا دی۔
’’بکواس نہیں کرو، میں گل بی بی سے شکایت کر دوں گی۔‘‘ وہ جل کر بولی۔
’’بصد شوق! اس طرح تو میرا کام اور آسان ہو جائے گا۔‘‘ سرخ سرخ چہرے والی پشمینہ اسے شروع سے ہی بڑی پسند تھی۔
سجاول کی شادی کے بعد زوار کی راہ کھل گئی تھی۔ پہلے پشمینہ سے تعلق وہ اپنی ہر سوچ چھپا کر رکھتا تھا، مگر اب کھلے عام اظہار کرتا تھا اور پشمینہ اسی بات سے بدکتی تھی۔ اب بھی اسے گھورا تھا۔
’’ظالم نظروں سے تم نہ مجھ کو دیکھو، مر جائوں گا او جان جاناں۔‘‘ وہ بڑی شوخی سے گنگنایا۔
’’بھابی۔‘‘ اس نے بے اختیار ہنستی ہوئی راشدہ کو پکارا۔
’’بُری بات زوار! تم خواہ مخواہ بیچاری کو تنگ کر رہے ہو۔‘‘
’’خواہ مخواہ؟‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔
’’میں تمہیں تالاب میں دھکا دے دوں گی، خبردار اب تم ایک لفظ بھی بولے تو۔‘‘ اس نے دھمکی دی تھی۔
زوار اور وہ ینیورسٹی میں اکٹھے ہی تھے۔ بابا جان نے ان سب بہنوں کے تعلیمی سلسلے میں کہیں بھی آنے جانے کی تمام تر ذمہ داری سجاول اور زوار پر ہی ڈالی ہوئی تھی۔ بلکہ صارم کی گمشدگی کے بعد پھوپھی بیگم نے بی بی جان کی حالت دیکھتے ہوئے زوار کو ہمیشہ کے لیے ادھر ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ ایک طرح سے بابا جان کا منہ بولا بیٹا بنا ہوا تھا۔ اسی لیے اس کی سب کے ساتھ ایسی ہی بے تکلفی تھی۔ وہ تو اب گل بی بی نے رشتے کا جو شوشہ چھوڑا تھا، اس وجہ سے پشمینہ اس سے ہچکچانے لگی تھی، ورنہ ہم عمر ہونے اور ایک جیسے مشاغل رکھنے کی وجہ سے دونوں کی خوب بنتی تھی۔ جتنا لڑتے تھے، پیار بھی اتنا ہی تھا، مگر جونہی زوار کے تیور بدلے، وہ اس سے پہلو بچانے لگی تھی۔
’’توبہ… لڑتے ہی رہتے ہو تم دونوں، میں اندر ممانی جان کے پاس جا رہی ہوں، لڑو آرام سے۔‘‘ راشدہ دونوں کو ٹوک کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بھی منہ پھلا کر اسے کینہ توز نظروں سے گھورتے ہوئے جانے لگی تو زوار نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام کر روک لیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی۔
’’کبھی پیار سے بھی پوچھ لیا کرو، ہر وقت لڑاکا طیارہ بنی رہتی ہو۔‘‘ الفاظ کے برعکس زوار کی آنکھوں کے تیور ایسے تھے کہ وہ ایک دم سٹپٹا گئی۔
’’ہاتھ تو چھوڑو۔‘‘ اسے گھبراتے دیکھ کر وہ محظوظ ہوا تھا۔
’’بی بی جان آج ماموں جان سے ہمارے رشتے کی باقاعدہ بات کرنے آئی ہیں۔‘‘ اس نے بڑے آرام سے انکشاف کیا تو وہ گھبرا گئی۔
’’ماموں جان تم سے پوچھیں تو منہ پھاڑ کر اعتراض کرنے مت بیٹھ جانا۔‘‘ اس نے ڈپٹ کر تنبیہ کی۔
’’وہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں صاف صاف منع کر دوں گی، تم میں تو کوئی خوبی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنے والی، تو کیا بابا جان اپنی لاڈلی بیٹی کی قسمت پھوڑ دیں گے۔‘‘ وہ آنکھوں میں شرارت لیے کہہ رہی تھی۔
’’اچھا… یہی بات ذرا میری آنکھوں میں دیکھ کر کہنا۔‘‘ اس نے مصنوعی غصہ سے کہا، پھر اس کے گھبرا جانے پر ہنس دیا۔
’’خبردار… اگر تم نے کوئی اُلٹی سیدھی بکواس کی؟ تمہیں کیا پتا میری برسوں کی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے، کتنی منتیں مرادیں مانی ہوئی ہیں میں نے۔‘‘ اسے بھاگنے کو پر تولتے دیکھ کر اس نے دوبارہ تنبیہ کی تھی۔ پشمینہ کے ہونٹوں پہ بڑی پیاری سی مسکان اُبھری تھی۔
’’سب جانتی ہوں میں۔‘‘ جلدی سے کہہ کر وہ ایک دم اندر کی طرف بھاگی تھی۔ زوار مسکرا کر ادھر ہی دیکھے گئی۔
وہ جو اسد سے کہہ کر گئی تھی کہ وہ اس کے ساتھ تایا ابو کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے، مگر اسد کا رویہ دیکھ کر گھر جلدی نہ آ سکی تھی۔ چھٹی کے بعد اسے گھر آتے ہوئے ڈھائی بج گئے تھے۔ دیکھا تو دروازہ مقفل تھا۔ اس کے پاس اضافی چابی تھی، گھر کی ایک چابی اسد کے پاس ہوتی تھی اور ایک اس کے پاس۔ دروازہ کھول کر وہ اندر آ گئی۔ کپڑے بدل کر نماز ادا کی، پھر کچن میں گھس گئی۔ اسد اس کی غیر موجودگی میں کچن کا باقی سامان بھی لے آیا تھا۔ فریج بھرا ہوا تھا۔
سالن بھی تیار تھا۔ صبا نے دیکھا ذائقہ اچھا تھا۔ اسد اکثر کوئی نہ کوئی سالن بنا کر رکھ دیتا تھا۔ صبا نے دل ہی دل میں اسد کے سگھڑاپے اور ہاتھ کے ذائقے کی داد دی۔
تائی بیگم کا انتقال کافی سال پہلے ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد راجیہ باجی نے گھر سنبھالا ہوا تھا۔ مگر تایا ابو نے ان کی شادی بھی بڑی کم عمری میں کر دی تھی۔ راجیہ کے بعد ساری ذمہ داریاں ان تینوں مردوں پر آ گئی تھیں۔ حماد اور اسد کسی سلیقہ مند عورت کی طرح گھریلو امور میں ماہر تھے۔ پھر بھی اس گھر کو ایک عورت کی ہر حال میں ضرورت تھی اور یہ کمی صبا نے پوری کر دی تھی۔
کتنے دنوں سے ایک ایک کر کے کچن کا سامان ختم ہو رہا تھا، مگر وہ اپنی انا کی وجہ سے اسد کو بتا نہیں پا رہی تھی۔ اب فریج بھرا ہوا تھا۔ اسے اندر ہی اندر شرمندگی بھی ہو رہی تھی کہ خوا مخواہ اتنے دن چپ رہی، اس سے قبل تو اس کے کہنے سے پہلے ہی اسد سب سامان لا کر دے دیا کرتا تھا۔ پتا نہیں اس دفعہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا، شاید بھول گیا تھا یا شاید جان بوجھ کر۔
روٹیاں پکا کر وہ دونوں کا انتظار کرنے لگی۔ تقریباً ساڑھے تین بجے وہ دونوں لوٹے۔
’’اتنی دیر کر دی تایا ابو آپ نے، مجھے فکر ہو رہی تھی۔‘‘
دروازہ کھولتے ہی اسد کو نظر انداز کر کے اس نے فوراً تایا ابو سے کہا تھا۔ اسد اس کے یوں راستہ روکنے پر خفا ہوا تھا۔
’’اندر تو آنے دو، یہ باز پرس اندر جا کر بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
سنجیدہ اور بے مروت انداز میں اس نے ٹوکا تو وہ فوراً سامنے سے ہٹ گئی۔
اسد، تایا ابو کو ان کے کمرے میں لے گیا تو وہ بھی پیچھے پیچھے چلی آئی۔ اسد نے ان کو بستر پر لٹا دیا تھا۔
’’کیا کہہ رہا تھا ڈاکٹر؟‘‘ وہ بھی تایا ابو کے بستر پر ٹک گئی۔ وہ جتنے نڈھال لگ رہے تھے، اسے تشویش لاحق ہو گئی تھی، تاہم اسد چپ ہی رہا تھا۔
’’اسد بیٹے سے ہی کچھ نہ کچھ کہتا رہا تھا۔ مجھے تو صرف اتنا ہی کہا کہ میں روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ ضرور ورزش کروں بلکہ واک کیا کروں، دوائیاں اور پھل بھی استعمال کروں۔‘‘ انہوں نے تکیے سے ٹیک لگا لی۔
’’میں کھانا لاتی ہوں۔‘‘
’’ابو کو کھلا دو، مجھے بھوک نہیں ہے، مجھے آفس بھی پہنچنا ہے۔‘‘
صبا کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر اس نے کہا تو وہ پلٹ کر اسد کو دیکھنے لگی۔ سنجیدہ انداز لیے وہ کافی روکھا پھیکا سا لگ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اس سے بڑی مروت سے مخاطب ہوتا تھا۔ آج شاید اس کے احساس کو کچھ زیادہ ہی بے دردی سے اس نے کچلا تھا کہ اس کے لہجے میں کچھ تلخی در آئی تھی۔ وہ صبا کے دیکھنے پر اُٹھ کھڑا ہوا۔
صبا خاموشی سے پلٹ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔
کھانا نکال رہی تھی کہ آہٹ پر پلٹ کر دیکھا اسد دروازے کی دہلیز پر کھڑا ہوا تھا۔
’’یہ میڈیسن لے لو، ڈاکٹر بہت تشویش کا اظہار کر رہا تھا، ابو نے تو جیسے زندہ رہنے کی خواہش ہی اپنے اندر سے ختم کر لی ہے، تم ان کو سمجھانے کی کوشش کرو، ساری ہدایات اور میڈیسن کے اقات اس پرچے پر درج ہیں۔ تم دیکھ لینا۔
اس کے قریب ہی میز پر دوائیاں رکھ کر وہ پلٹ گیا تھا۔
صبا ایک گہرا سانس لے کر کھانا اور دوائی لیے تایا ابو کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
رات کو اسد گھر لوٹا تو صبا، تایا ابو کے کمرے میں تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔
وہ سو رہے تھے۔ چہرے پر نقاہت و تکلیف کے آثار واضح تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ ان کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگائے وہ جس اذیت سے گزر رہی تھی، یہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔
’’ٹیک اٹ ایزی صبا! ان شاء اللہ ابو جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
اسے یوں بے آواز روتے دیکھ کر اسد کا دل پسیجا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تھی۔ وہ اور شدت سے سسک اُٹھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ امی، ابو اور حماد کے بعد اب تایا ابو بھی اسے چھوڑ جائیں گے۔ پھر وہ کہاں رہے گی؟ کیسا کرے گی؟ کون تھا اس کا؟ کسی طور بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔
تایا اس کے لیے ایک مضبوط تناور درخت کی مانند تھے۔ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو وہ کدھر جائے گی، جبکہ راجیہ باجی بھی پاکستان میں نہیں ہیں۔
’’صبا پلیز! صحت و تندرستی، زندگی و موت سب عمر کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اگر انسان یوں ایک دم حوصلہ ہارنے لگے تو زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اسد اسے سمجھا رہا تھا۔ اس نے بمشکل خود پر ضبط کیا۔
’’تایا ابو ٹھیک تو ہو جائیں گے نا اسد؟‘‘
اس وقت اس کی کیفیت ایک چھوٹے سے بچے کی طرح ہو رہی تھی۔ آس و نراس میں ڈوبا بچہ جس کا چہرہ بے یارو مددگار رہ جانے کے خوف سے زرد پڑ گیا ہو۔ وہ بے یقین سی تھی۔ آنکھوں میں بے پناہ پانی لیے اس نے اسد کو دیکھا تھا۔ اس کے دل میں اس کے آنسوئوں نے ایک تلاطم برپا کیا تھا۔ وہ ان آنکھوں میں کبھی بھی نمی نہ دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا۔
’’یقین مضبوط رکھو، ابو ٹھیک ہو جائیں گے۔ مگر ان کو ٹھیک کرنے کے لیے ہم دونوں کو ہی کوشش کرنا ہو گی۔ اپنے آپ کو سنبھالنا ہو گا۔ اگر ہم ہی ہمت ہار گئے تو ان کو کون سنبھالے گا۔ یہ زندگی کی چاہ بھول گئے ہیں اور ہمیں مل کر ان کو زندگی کی طرف لانا ہے۔‘‘
وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ صبا نے اپنے تمام آنسو سمیٹ کر سر ہلاتے ہوئے اسے دیکھا۔
اسد سے اس کا رویہ خودبخود بہتر ہو گیا تھا۔
گزرنے والے دنوں میں اسے بخوبی احساس ہو گیا تھا کہ تایا ابو کے علاوہ اسد کا وجود اس کے لیے ایک مضبوط پناہ گاہ ہے۔ اس کی یہ سوچ دنیا داری کی حد تک تھی، اس سے بڑھ کر اس نے کچھ نہ سوچا تھا اور نہ ہی وہ سوچنا چاہتی تھی۔ اسد اور اس کے اندر ایک محسوس کیا جانے والا خلا اب بھی تھا۔ بے شک وہ اب اسے برائے ضرورت مخاطب کرنے لگی تھی۔
وہ تایا ابو کا ہاتھ تھامے باہر لے آئی تھی۔ برآمدے کی سیڑھیوں پر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ دھوپ ڈھل چکی تھی۔ مغرب کی طرف پھیلی سرخی کو بغور دیکھتے اس نے محسوس کیا کہ ہلکی ہلکی ہوا چلنے کی وجہ سے موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔
’’تایا ابو! موسم کتنا اچھا ہو گیا ہے نا۔‘‘ یونہی ادھر اُدھر دیکھتے اس نے پوچھا آسمان پر آہستہ آہستہ ہلکی ہلکی بدلیاں چھا رہی تھیں وہ مسکرائے۔
’’ہوں…‘‘ ان کے جھریوں زدہ چہرے پر تھکی تھکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’تایا ابو! چھٹیوں میں جب بھی میں چھٹیاں گزارنے یہاں آتی تھی نا تو مجھے یہ گھر بہت متاثر کرتا تھا اور ہر بار یہاں آنے کے بعد میرا واپس جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔‘‘ وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کھو سی گئی تھی۔
’’اور پھر ہم تمہیں ہمیشہ کے لیے اس گھر میں لے آئے تھے۔ مگر جس کے ساتھ لے کر آئے تھے وہیں چھوڑ گیا ہمیشہ کے لیے۔‘‘ ان کی آواز رندھ گئی تھی۔ اسے افسوس ہوا کہ اس نے یہ موضوع ہی کیوں چھیڑا؟
تایا ابو نے اپنا لرزتا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا۔
’’تم میری ایک بات مانو گی صبا!‘‘ کچھ سوچتے اس کا سر تھپتھپاتے انہوں نے کہا تو اس نے دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کرتے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا۔
’’آپ کہیے؟‘‘ تایا ابو کے چہرے پر گہری سوچ اور تفکر کا عکس واضح تھا، وہ اُلجھی۔
’’میں چاہتا ہوں کہ تم اب شادی کر لو، ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ صرف چوبیس سال، تمہاری عمر کی لڑکیاں تو ہر غم، ہر ذمہ داری سے بے نیاز، آزاد ہیں اور تم۔‘‘ ایک دفعہ پہلے بھی انہوں نے اس سے یہ ذکر چھیڑا تھا اور اب پھر… وہ خاموش رہی۔
’’میں آج ہوں کل نہیں، مجھے اپنی زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں، مرتے مرتے زندگی ایک دفعہ پھر مہلت دے دی ہے۔ حماد زندہ رہتا تو تم ہی سے میرے گھر کی ساری رونقیں تھیں۔ اب بھی تم میرے گھر کی رونق ہو، مگر وہ نہیں تو مجھے بھی کوئی حق نہیں کہ میں تمہیں بٹھائے رکھوں، تمہارے ماں باپ زندہ ہوتے تو یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ تمہارے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ راجیہ کا بھی فون آیا تھا وہ بھی خاصی پریشان ہو رہی تھی۔ اس نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔‘‘ وہ اسے بتا رہے تھے، وہ اب بھی سر جھکائے چپ چاپ بیٹھی رہی۔
’’یہ مستقل بیماری… اب دل بہت گھبرا گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے جلد از جلد تمہارے فرض سے سبکدوش ہو جائوں۔‘‘
’’پلیز تایا ابو! میں اب دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ حماد زندہ تھا تو سب کچھ تھا، اب وہ نہیں تو ایسی کوئی حسرت نہیں رہی، میں اس کی بیوی ہوں اور اسی کے نام پر ساری زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ مجھے دوبارہ شادی نہیں کرنا، آپ یہ ٹاپک میرے سامنے مت چھیڑا کریں پلیز۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے رو دی۔
’’دیکھو صبا بیٹی! مجھ بوڑھے کو اب مزید مت لٹکائو۔ ورنہ مرتے دم تک یہ دُکھ رہے گا کہ تمہیں کس کے سہارے چھوڑے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ دلگرفتہ سے خاموش ہو گئے تھے۔ دونوں کے درمیان خاموشی کے یہ پل طویل ہوتے جا رہے تھے۔
’’اندر چلیں۔ آندھی آنے والی ہے، کتنی تیز ہوا ہو گئی ہے۔‘‘
آسمان پر بدلیاں گہری ہو گئی تھیں۔ مغرب میں ڈوبتا سورج مزید اوجھل ہو گیا تھا۔ ہوا کا زور تیز تر ہوا تو اس نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ انہوں نے بڑی اذیت و بے بسی سے اسے دیکھا تو وہ چپ چاپ سر جھکا گئی۔
انہیں کمرے میں پہنچا کر وہ کچن میں آ گئی تھی۔ چیزوں کو اِدھر اُدھر کرتے ہوئے بھی ذہن تایا کی باتوں میں اُلجھا رہا تھا۔
’’یہ ممکن نہیں تایا ابو! پلیز مجھے معاف کر دیں، جو آپ چاہ رہے ہیں، ایسا اب ممکن نہیں، میں حماد کی سنگت میں ساری خوشیاں حاصل کر چکی ہوں، اب اس تار تار دل میں کسی اور کے لیے قطعی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
اس خیال سے ہی کہ اس کی زندگی میں حماد کی جگہ کوئی اور بھی لے سکتا ہے، وہ بے پناہ اذیت کا شکار ہو گئی تھی۔
اسد آیا تو اسے کھانا دے کر وہ عشاء کی نماز پڑھنے کمرے میں چلی آئی۔ نماز پڑھ کے واپس کچن میں آئی تو اسد کھانا کھانے کے بعد برتن بھی دھو کر جا چکا تھا۔ اس کی آواز تایا ابو کے کمرے سے آ رہی تھی۔ دونوں کسی موضوع پر بات کر رہے تھے۔ اس نے کچن سمیٹ کر چائے بنا لی تھی۔
’’میں نے اس سے پھر بات کی تھی، مگر وہ انکار کر رہی ہے۔‘‘ چائے بنا کر وہ تایا ابو کے کمرے میں آئی تو دروازے پر ہی رُک گئی۔ موضوع بحث شاید اس کی ذات تھی۔
’’تو پھر اب آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ یہ اسد کی آواز تھی۔ وہ پوری طرح متوجہ ہوئی۔
’’تم جانتے ہو کہ میں کیوں تم دونوں پر بار بار زور دے رہا ہوں۔‘‘ تایا ابو کی نروٹھی آواز سنائی دی۔
’’صبا ایسا کبھی نہیں چاہے گی۔‘‘ اسد نے پُرسکون انداز میں کہا تھا۔ صبا اُلجھی۔
’’حماد کو گزرے دو سال ہو گئے ہیں، سنبھل گئی ہے وہ کافی۔ آہستہ آہستہ حالات سے سمجھوتا کر لے گی۔ تھوڑی جذباتی ہو رہی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘
’’پھر بھی میرا خیال ہے وہ ایسا کبھی نہیں چاہے گی، میں اسے اچھی طرح سمجھتا ہوں۔‘‘
’’اسد! میں سمجھوں کہ تمہارے نزدیک میری خواہش کی کوئی اہمیت نہیں؟‘‘ تایا ابو کی بھیگی آواز پر اسد تڑپ اُٹھا۔
’’پلیز ابو جان! کیوں مجھے گناہگار کرتے ہیں، ساری صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ حماد اور صبا کی اٹیچمنٹ سے آپ بے خبر تو نہیں۔ حماد کو اللہ نے عمر ہی اتنی دی تھی ورنہ میں تو ایسا سوچنا بھی اپنے لیے گناہ تصور کرتا ہوں۔‘‘
’’اسد بیٹے! یہ میری خواہش ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، یہ شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ میں دل سے چاہتا ہوں تم صبا سے شادی کر لو، اسے تحفظ دو۔‘‘ انہوں نے ذرا توقف کیا۔
’’حماد کی اگر خواہش نہ ہوتی تو تب بھی میں نے سوچ رکھا تھا کہ صبا کو تمہارے لیے اس گھر میں لائوں گا، مگر پھر حماد نے خواہش کا اظہار کر دیا پھر صبا کا رجحان دیکھتے میں نے بھی چپ سادھ لی، وہ اب نہیں مگر تم تو ہو نا؟ تم سے بہتر صبا کو کوئی اور نہیں سمجھ سکتا، وہ خاموش طبع سنجیدہ مزاج جذباتی سی لڑکی ہے۔ مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں اسے ایسی ویسی جگہ بیاہ کر اس کے ساتھ زیادتی نہ کر بیٹھوں۔ میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ وہ حماد کو نہیں بھولی، اب بھی ذکر کرتا ہوں تو رو دیتی ہے، مجھے تم پر بھروسہ ہے، تمہارے ساتھ بیاہتے ہوئے مجھے یہ تکلیف نہیں ہو گی کہ تم اسے اس کی پچھلی زندگی کا حوالہ دو گے۔ مجھے یقین ہے تم دونوں بہت خوش رہو گے۔ تم اسے اسی طرح عزت اور مان دو گے جیسے حماد دیتا تھا۔‘‘
ٹرے صبا کے ہاتھوں میں لرز گئی تھی۔
اسے لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچ لیا ہو۔
’’تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں اسد! اگر ہے تو کہہ دو، جو بھی دل میں ہے بتا دو۔‘‘
اس سے پہلے کہ اسد کچھ کہتا وہ واپس پلٹ گئی، ٹرے کچن کی سلیب پر رکھ کر وہ اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔
حویلی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ دلہن کی طرح سجی حویلی دور سے ہی دیکھنے سے نمایاں ہو رہی تھی۔
آج خان ذکاء اللہ خان کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی پشمینہ خان کی منگنی زوار خان سے ہو رہی تھی۔ بی بی جان مطمئن سی اِدھر سے اُدھر ملازمائوں کو ہدایات دیتی خاصی مصروف تھیں۔ پلوشے اور زرمینے تو ہفتہ پہلے ہی حویلی میں ڈیرا جما چکی تھیں۔ ان کے ہاں شادی بیاہ کی رسمیں بڑی روایتی سی تھیں۔ خان ذکاء اللہ نے بے شک تینوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا تھا۔ مگر اپنی اقدار نہ بھولے تھے۔
’’ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔‘‘ زرمینے نے اسے مسکرا کر دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔
’’لگنا بھی چاہیے، آخر میرے پیارے سجیلے بھیا کے نام کا سنگھار ہے۔‘‘ زوار کی بہن لیلیٰ سے رہا نہ گیا۔
بھاری خوبصورت لباس اور زیورات میں وہ کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔
بی بی جان کی اجازت سے گل بیگم نے اسے خاندانی انگوٹھی پہنا کر رسم کا آغاز کیا تھا۔
’’تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ذرا دل تھام کے رکھنا۔‘‘ لیلیٰ نے ہنس کر کہا تو اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ مگر لیلیٰ ہنستے ہوئے نکل گئی۔ کچھ دیر بعد جب خان ذکاء اللہ خان نکاح خواں کو لیے ہوئے اورآئے تو وہ حیران ہی رہ گئی۔
پشمینہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ منگنی کے ساتھ نکاح بھی ہو جائے گا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے دستخط کیے تھے۔ لیلیٰ خوب چہکتی پھر رہی تھی۔ ’’میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ دل تھام کے رکھنا، یہ تمہارے لیے سرپرائز تھا۔ کہو کیسا لگا ہمارا سرپرائز؟‘‘ وہ ابھی تک حیرت زدہ تھی، محض مسکرا کر سر جھکا گئی تھی۔
کچھ دیر بعد مہمانوں کا رش کم ہوا تو پلوشے اور لیلیٰ کی ہمراہی میں وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
’’میں نے زوار بھیا سے وعدہ کیا تھا کہ تم دونوں کی ملاقات کا بندوبست کر دوں گی۔ تم بس کچھ دیر ایسے ہی رہنا میں بھیا کو اطلاع کرتی ہوں۔‘‘
وہ پریشان ہو اُٹھی۔
’’نہیں لیلیٰ… سنو تو… کسی کو خبر ہو گئی تو؟‘‘
’’جناب! میں نے انتظام کر رکھا ہے، تم آرام سے ادھر بیٹھو، پلوشے اور بھابی ہمارے ساتھ ہیں بس دو منٹ کی تو بات ہو گی۔‘‘ وہ گھبرائی سی اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو اس کا دل کانپا۔
’’السلام علیکم!‘‘ پُرجوش، کھنکھناتی، جذبات سے بھرپور آواز پر وہ سمٹ سی گئی۔
’’کیا حال ہیں؟ ماشاء اللہ بڑی خوبصورت لگ رہی ہو۔ خیر ہے نا۔‘‘ بڑے والہانہ انداز میں اس کے بنے سنورے سراپے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس نے گھورنے کو سر اُٹھایا، مگر اس کے تیور دیکھ کر گھبرا کر پھر سر جھکا لیا۔
’’کیسا لگا سرپرائز؟‘‘ پشمینہ کو اپنے جذبات ریشم کی طرح نرم محسوس ہوئے، سر اُٹھا کر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں جذبوں کا ایک جہاں آباد تھا۔
’’اچھا تو یہ ساری کارستانی آپ کی تھی؟‘‘
’’کیا کارستانی؟‘‘ اس کی محبت کے اس انداز کو اس نے کارستانی کہا تو وہ چیخ پڑا۔