ساری رات گھن گرج کے ساتھ بجلی چہکتی رہی اور پھر مینہ ایسے ٹوٹ کے برسا، جیسے برسوں بعد اسے برسنے کا موقع ملا تھا اور اب وہ صبح سویرے نماز کے بعد صحن میں چہل قدمی کرتے ہوئے رات ہونے والی بارش کے بعد کے اثرات کا جائزہ لے رہی تھی۔
اسے ہمیشہ بارش کے بعد کے مناظر سے وحشت ہونے لگتی تھی۔ بارش کا موسم اکثر اس کے اندر کے کھرنڈ اُتار دیتا تھا اور اس کے اندر کا درد آنسوئوں کی صورت اس کے چہرے پر بکھر جاتا تھا، کیسا دردناک تھا یہ موسم… اس موسم سے اس کی اچھی بُری بہت سی یادیں وابستہ تھیں، جنہیں وہ کوشش کے باوجود فراموش نہیں کر پا رہی تھی۔
بارش کے بعد اسے سب سے زیادہ وحشت اس حبس سے ہوتی تھی جو اس کے اندر باہر اپنا بسیر ا کر لیتا تھا۔ اب بھی ہر طرف بکھرے پتے، گرد اور مٹی سے اٹا صحن… اسے سخت اُلجھن ہو رہی تھی۔
’’سکول جانے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے، اتنی دیر میں باہر کی صفائی ہو جائے گی۔‘‘
اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے سوچا اور جھاڑو لے کر صحن کی تفصیلی صفائی میں جت گئی۔ صحن کی اچھی طرح صفائی کر کے فارغ ہو کر برآمدے اور ڈرائنگ روم کی ہر چیز کو کپڑے سے جھاڑ کر صاف کیا۔
’’توبہ… بارش کے اثرات بھی کیسے انمٹ ہوتے ہیں۔‘‘
رگڑ رگڑ کر فرش پر پونچھا لگاتے وہ بڑبڑائی۔
’’صبح… صبح بیٹا۔‘‘ ابھی پونچھا لگا کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ تایا ابو کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ اس نے جلدی جلدی منہ پر چھپاکے مارے اور دوپٹے سے چہرہ پونچھتے ہوئے اندر بھاگی۔ وہ بستر سے اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ فوراً آگے بڑھی۔ سہارا دے کر انہیں بٹھانے کی کوشش کی اور ان کی کمر کے پیچھے تکیہ درست کر کے سیدھی ہوئی۔
’’اسد کہاں ہے؟‘‘ دوسری چارپائی کو خالی پا کر انہوں نے پوچھا تو وہ کمرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے چونکی۔
’’میں نماز پڑھ رہی تھی، جب نکلے تھے۔ روز اس ٹائم تک آ جاتے ہیں مگر… ابھی تک نہیں لوٹے۔‘‘
اسد کے پلنگ کی چادر اُٹھا کر جھاڑ کر دوبارہ بچھا دی۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس کی کتابیں ترتیب سے رکھ دیں۔
’’تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں، آٹھ بج رہے ہیں۔‘‘ اسے مسلسل کمرے میں مصروف دیکھ کر انہوں نے پوچھا۔ ’’کیا سکول نہیں جانا؟‘‘
’’جی… جائوں گی، مگر ذرا دیر سے۔ رات کی آندھی اور بارش سے سارا گھر گرد مٹی سے اٹا اور بکھرا پڑا ہے۔ ہر طرف اتنی گرد ہے، چھت پر بھی پانی جمع ہو گیا ہے۔ شاید پرنالے کے سوراخ میں کچھ کچرا اٹک گیا ہے، سارا پانی سیڑھیوں سے بہتا رہا ہے رات بھر برآمدے کی ہر چیز گیلی ہو گئی ہے۔ صحن کی بھی بڑی بُری حالت ہو رہی تھی۔ اب فارغ ہوئی ہوں۔ ساڑھے نو بجے تک چلی جائوں گی، کون سی اتنی اہم نوکری ہے، جو چلی گئی تو غم ہو گا۔ وقت گزاری کے لیے کر رہی ہوں، صرف آپ کی وجہ سے ورنہ دل نہیں کرتا۔‘‘
پوری تفصیل بتا کر آخر میں اس نے سکول کی نوکری کی طرف سے ہمیشہ کیا جانے والا شکوہ دہرایا۔
وہ خاموشی سے اس کے ملیح چہرے کو دیکھے گئے۔ پھرتی سے چلتے ہاتھ لمحوں میں سارے کمرے کی بے ترتیبی کو ایک ترتیب میں لے آئے تھے۔ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔ ان سے بہتر بھلا کون جانتا تھا کہ وقت گزاری کس قدر گھٹن اور مشکل کام ہے۔
’’آپ کو واش روم لے جائوں؟‘‘ اس نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئے۔
’’میں اسد آئے گا تو چلا جائوں گا، مگر وہ گیا کہاں ہے؟ روز صبح نماز پڑھ کر تو فوراً آ جاتا تھا۔‘‘
ان کے پوچھنے پر اس نے صرف کندھے اچکا دئیے پھر کمرے سے نکل آئی، اپنے کمرے کو سمیٹ کر وہ واش روم چلی گئی۔
تیار ہو کر کچن میں آئی تو کھانے کو کچھ بھی دستیاب نہ تھا۔ اسے ایک دم یاد آیا، کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا رات کو اس نے اسد سے کہا تھا کہ وہ صبح کھانے پینے کو کچھ لائے گا تو ناشتہ تیار ہو پائے گا، مگر اب اسد ہی غائب تھا۔
’’نہ جانے یہ اسد کہاں رہ گیا ہے۔‘‘ صبح صبح سارا گھر صاف کرنے کے بعد اسے اب زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ دودھ بھی نہیں تھا۔ رات کو اس نے آٹا گوندھ کر فریج میں رکھ دیا تھا۔ جلدی جلدی اس نے پراٹھے بنائے۔ ابھی پراٹھا قہوے کے ساتھ نگل ہی رہی تھی کہ اسد چلا آیا۔
’’ایم سوری… صبح صبح دکانیں کھلی ہوئی نہیں تھیں۔ رات ہونے والی بارش سے تمہیں سڑکوں کی حالت کا اندازہ تو ہو گا۔ اگر تم شام کو ہی بتا دیتیں، میں رات کو لے آتا۔ ابھی تو اتنا ہی سامان لایا ہوں، شام کو باقی بھی لا دوں گا۔‘‘
اس نے تمام شاپرز کھانے والی ٹیبل پر رکھ دئیے۔ دوسری طرف وہ پراٹھے اور قہوے کا ناشتہ کر رہی تھی۔
’’تم ابھی تک سکول نہیں گئیں؟‘‘ اسد کو وقت گزرنے کا احساس ہوا تو پوچھنے لگا۔ وہ آخری لقمہ منہ میں ڈال کر قہوے کا ایک بڑا سا گھونٹ لے کر اُٹھ گئی۔
’’میں نے پراٹھے بنا دئیے ہیں، انڈے ہوتے تو آملیٹ بھی بنا دیتی۔ رات والا سالن بھی گرم کر دیا ہے، میں نے لیٹ جانا تھا اس لیے ابھی تک ہوں۔ تایا ابو آپ کا پوچھ رہے تھے۔
مگ دھو کر وہ پلٹی تو اسے اپنی طرف متوجہ پا کر سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ پھر بھی خاموشی سے دیکھے گیا تو اسے کوفت ہوئی۔
وہ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے پہلے اپنے کمرے میں آئی، چادر اور بیگ لے کر وہ تایا ابو کے کمرے میں گئی۔
’’اچھا تایا ابو! میں جا رہی ہوں۔‘‘
’’اچھا بیٹا! اللہ حافظ۔‘‘ انہوں نے لیٹے لیٹے جواب دیا۔
ابھی وہ گیٹ سے نکل کر چند قدم ہی چلی تھی کہ اسد بھی گیٹ بند کر کے اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے قدم اُٹھاتا چلنے لگا۔ صبا نے سر اُٹھا کر ایک نظر اپنے ساتھ چلتے ہوئے اسد کو دیکھا اور پھر سیدھی چلنے لگی۔
اسد کا یہ روزانہ کا معمول تھا۔ وہ اسے سکول کے گیٹ تک چھوڑنے جاتا تھا اور وہ ہر روز اس کے ساتھ چلتے چلتے اُلجھ جاتی تھی۔ یہ چند منٹ کا سفر صبا کے لیے بڑا دشوار ہوتا تھا۔ چلتے چلتے اچانک اسے یاد آیا تو سر اُٹھا کر بولی۔
’’تایا ابو کو آج ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے، آپ اکیلے مت لے جائیے گا میں سکول سے آ جائوں تو پھر ساتھ چلیں گے۔‘‘
اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا تھا مگر اسد کے ہونٹ ایک دم مسکرا اُٹھے تھے۔
’’جی اچھا… اور کچھ۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ بظاہر سادہ سی مسکراہٹ تھی مگر صبا کے دل پر بڑا بُرا اثر چھوڑا تھا۔ وہ جواب دے کر مزید تیز تیز قدم اُٹھانے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی، ساتھ چلتے اسد نے بروقت اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ صبا کو لگا، اس کے ہاتھ کو جیسے شعلہ سا چھو گیا ہو۔
’’دھیان سے آگے پتھر ہے، ابھی گر جاتیں تو۔‘‘
اس نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے انداز میں ایسی سرد مہری تھی کہ اسد ایک پل کو ساکت رہ گیا تھا۔
’’صبا! ہمیں دو سال ہو گئے ہیں ایک گھر میں رہتے ہوئے، تمہارا میرے ساتھ یہ اجنبیوں والا رویہ کیوں ہے؟ اتنا عرصہ ساتھ رہنے سے اجنبی، نا آشنا لوگوں میں بھی انسیت اور مروت پیدا ہو جاتی ہے، ہم تو پھر بھی بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، پھر اتنی بے اعتباری کیوں؟‘‘
وہ ہمیشہ صبا کے سرد رویے کو نظر انداز کر جاتا تھا مگر آج جیسے اس کا ضبط چٹخ سا گیا تھا۔ اسے صبا کے یوں تنفر سے ہاتھ کھینچ لینے سے تکلیف ہوئی تھی۔
صبا خاموشی سے لب بھینچے بڑے بڑے قدم اُٹھا رہی تھی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کا سکول نزدیک تھا، وہ جلد از جلد اس ہم سفر سے جان چھڑا لینا چاہتی تھی۔ جیسے ہی اس کا سکول آیا، وہ بغیر پلٹ کر دیکھے، اندر داخل ہو گئی۔
اسد اس کے اس ردعمل پر ششدر سا کھڑا رہ گیا۔
صبا کو دو سال ہو گئے تھے، تایا ابو کے ہاں آ کر رہتے ہوئے اور ان دو سالوں میں اس کے اور اسد کے درمیان اس قدر مختصر گفتگو رہی تھی کہ وہ اُنگلیوں پر گن کر بتا سکتی تھی، اس کا اسد کے ساتھ رویہ ایسا ہی ہوتا تھا، بے لچک سخت اور کھردرا۔
بہت کم ایسا ہوا تھا کہ اس نے اسے خود سے مخاطب کیا ہو۔ اگر کبھی وہ مخاطب کرتا تو اس کا رویہ ہمیشہ خراب ہوتا۔
اس کی امی کا انتقال دو سال پہلے ہوا تھا، جب طوفانی موسم میں انہیں ابو اور حماد کی اچانک ناگہانی موت کی خبر ملی تھی۔ ان کے اعصاب پر یہ خبر بجلی بن کر ٹوٹی تھی۔ وہ تو ہوش و حواس ہی کھو چکی تھیں اور پھر کئی ماہ تک ہسپتالوں میں خوار ہونے کے بعد وہ اس زندگی سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ گئی تھیں۔
اور حماد… حماد کے ساتھ اس کی زندگی کے خوشگوار دن صرف چند ماہ پر محیط تھے، مگر صبا کو لگتا تھا کہ ان چند ماہ میں حماد کے ساتھ وہ اپنی ساری زندگی جی گئی تھی۔
حماد، تایا ابو کا بیٹا تھا۔ انتہائی ذمہ دار اور سلجھا ہوا۔
ڈھائی سال پہلے اس کی شادی حماد سے ہوئی تھی۔ وہ کراچی سے بیاہ کر لاہور آ گئی تھی۔ بچپن سے ہی وہ تایا ابو اور ان کے گھر والوں سے بہت مانوس رہی تھی یہ ہی اسد تھا، جس کے ساتھ اس کی بڑی بے تکلفی تھی اور یہ سنجیدہ و بردبار شخص اس کی ہر اوٹ پٹانگ بات کا جواب انتہائی سلجھے ہوئے طریقے سے دیا کرتا تھا۔
اس کی چھٹیاں ہر سال تایا ابو کے ہاں لاہور میں گزرتی تھیں۔ تایا ابو اسے چاہتے بھی تو بہت تھے۔ اس کے امی، ابو ہمیشہ ان سے شکوہ کرتے تھے کہ انہوں نے صبا کو بگاڑ دیا ہے، ضدی بنا دیا ہے، مگر وہ ہر بار اس کی ڈھال بن جاتے تھے۔
حماد سے اس کا تعلق بے تکلف ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا محبوبانہ سا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بے پناہ چاہتے تھے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو پا کر بے پناہ خوش تھے مگر یہ خوشی صرف ایک ماہ تک رہی۔ شادی کے بعد پہلی بار وہ اور حماد کراچی گئے تھے، امی ابو سے ملنے۔ امی، ابو، بیٹی اور داماد کو خوش و خرم دیکھ کر بے حد خوش تھے۔ روز سیر و تفریح کے پروگرام بنتے تھے۔ صبا، ماں، باپ کی اکلوتی اولاد تھی، سو وہ خوش تھے۔ مگر اس خوشی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی۔ ابو اور حماد یونہی باہر گئے تھے گھومنے پھرنے، پھر وہ دونوں اپنے قدموں پر چل کر واپس نہ آ سکے تھے۔ ایک شدید کار ایکسیڈنٹ نے ان کا ناتا زندگی سے ہمیشہ کے لیے توڑ دیا تھا۔
اگلے کئی ماہ تک وہ بے یقین رہی تھی۔ اوپر سے امی کا اچانک حواس کھو دینا، اس سانحے نے ان کے دماغ پر بڑا بُرا اثر چھوڑ دیا تھا۔ کئی ماہ تک تایا ابو اپنا گھر بار چھوڑ کر اس کے پاس کراچی ٹھہرے رہے تھے۔
راجیہ باجی حماد کی جوان موت کی خبر سن کر پاکستان آ گئی تھیں۔ انہوں نے بڑی مشکلوں سے اس کو سنبھالا تھا۔
امی کی روز بروز بگڑتی حالت نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد تو اسے لگتا تھا جیسے اس کے پاس جینے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا۔ وہ گھنٹوں خود فراموشی میں گزار دیتی تھی۔ پھر ہوش آتے ہی بلک بلک کر رونا شروع کر دیتی تھی۔ تایا ابو اسے اپنے ساتھ لاہور لے آئے تھے۔ راجیہ باجی واپس چلی گئی تھیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسے صبر آتا چلا گیا تھا۔ تایا ابو کے کہنے پر اس نے سکول میں ملازمت کر لی تھی۔ اسے بھی سکول کی ملازمت میں اپنے غم سے چھپنے کا ایک آسرا مل گیا تھا۔ ورنہ حماد کو بھول جانا اس کے اختیار میں نہ تھا۔
اسد کا مجتبیٰ حُسن سے کوئی خونی رشتہ نہ تھا۔ تقریباً پچیس سال پہلے کی بات ہے، مجتبیٰ حسن کا شمالی علاقہ جات جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ تفریح کے دوران ایک جگہ انہیں انتہائی زخمی حالت میں تین، چار سال کا ایک بچہ ملا، نبض دیکھنے پر اس کے اندر زندگی کے آثار نظر آئے تو وہ اسے فوراً قریبی ہسپتال لے گئے۔ اس کی زندگی تھی جو وہ موت کی سرحد سے لوٹ آیا تھا۔ اسے خطرے سے باہر آنے اور صحت یاب ہونے میں چند دن لگ گئے تھے۔
نہ جانے کس بدبخت نے اس خوبصورت سے بچے کو پہاڑوں کے دامن میں کسی درندے کا لقمہ بننے کو پھینک دیا تھا۔ اس پر اس حادثے کا اس قدر اثر تھا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا پا رہا تھا۔ وہ خوفزدہ اور سہما ہوا بچہ ہر کسی کو دیکھ کر رونے لگتا تھا۔ اس کے لبوں پر صرف بابا جان اور بی بی جان کے الفاظ تھے۔
انہوں نے اس کے وارثوں کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی اُمید افزا راہ دکھائی نہ دی۔ انہوں نے اپنے تمام ذرائع استعمال کر لیے۔ حتیٰ کہ اخبارات میں بھی بچے کی تصویر اور گمشدگی کی اطلاع دی گئی، مسلسل کوشش کے باوجود بھی جب اسد کے اصل ورثا کا کوئی پتا نہ چل سکا تو وہ پولیس تھانے میں اطلاع کر کے اور اپنا ایڈریس وغیرہ دے کر ان کی اجازت سے بچے کو اپنے ساتھ لاہور لے آئے تھے۔
چار سالہ اسد نفسیاتی طور پر اس قدر خوفزدہ ہو چکا تھا کہ جس کو دیکھتا دہشت زدہ ہو جاتا تھا۔ مجتبیٰ حسن کی بیگم نے اسے بڑی محبت و شفقت سے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ تایا ابو کا خیال تھا کہ اسد کے والدین ایک دن ضرور ان تک آئیں گے، مگر دن، ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے تو وہ بھی ناامید ہو گئے۔ اسد کے وارثوں کا پتا لگانے میں تمام کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔ شاید قدرت نے اسد کی پرورش مجتبیٰ حسن کے ہاتھوں لکھی تھی۔
بچے کا اصل نام معلوم نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اسے ’’اسد مجتبیٰ حسن‘‘ کی حیثیت سے پہچان دی، بلکہ اسے معاشرے کا ایک فعال اور توانا مرد بنانے کے لیے اپنی تمام کوششیں بھی صرف کر دیں۔
مجتبیٰ حسن صاحب نے کبھی اس سے اس کی اصلیت نہیں چھپائی۔ وہ اچھی طرح باخبر تھا کہ وہ مجتبیٰ حسن کاحقیقی بیٹا نہیں، مگر اس نے ہر موقع پر حقیقی بیٹا ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ اور وہ بھی برملا کہا کرتے تھے۔ ’’میرے دو بیٹے ہیں، اسد اور حماد۔‘‘ انہوں نے بھی ایک باپ ہونے کے تمام فرائض نبھائے تھے۔
انہوں نے اسد اور حماد میں کبھی کوئی فرق نہ کیا۔ جب صبا، حماد کے ہمراہ بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی تو اسد سے بڑے خوشگوار تعلقات رہے تھے مگر جب اُجڑ کر دوبارہ اس گھر میں آئی تو اس نے بہت سی حدود اپنے اور اسد کے درمیان قائم کر لی تھیں۔
مجتبیٰ صاحب جب بھی اسے دیکھتے، ان کے اندر اپنے بیٹے کی جدائی کا صدمہ اور گہرا ہونے لگتا۔ اب وہ اکثر بیمار رہنے لگے تھے۔ اُٹھنے بیٹھنے میں اب انہیں دقت ہونے لگی تھی۔ چند قدم چلتے ہی ہلکان ہو جاتے تھے۔ یہ اعصابی و جسمانی تھکاوٹ انہیں دن بدن کمزور بناتی جا رہی تھی۔
صبا دوبارہ اس گھر میں آنے کے بعد ذہنی طور پر بہت مضطرب ہو چکی تھی۔ جب ہی تایا ابو کے اصرار پر بلکہ مجبور کرنے پر اس نے قریبی سکول میں ملازمت کر لی، اس کی توجہ کا ارتکاز بٹنے لگا تو اس کی ذہنی حالت بھی بہتر ہونے لگی۔ آدھا دن سکول میں گزار کر آنے کے بعد گھر کی مصروفیات نے اسے بڑا سنبھالا دیا تھا۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات تھی کہ اسے اسد کی طرف سے عجیب سا احساس ہونے لگا تھا۔ اس کے محسوسات اسے اسد کی طرف سے مشکوک کر چکے تھے۔ بے شک اسد نے کبھی کوئی نازیبا حرکت تو ایک طرف کوئی ناپسندیدہ لفظ بھی نہ کہا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں وہ اپنے دل میں اس کے لیے اچھے جذبات برقرار نہ رکھ پا رہی تھی۔ وہ یہ یقین کرنے پر بھی راضی نہ تھی کہ اسد جو حماد کو سگا بھائی سمجھتا تھا، اب اس کی بیوہ کے لیے بدل رہا ہے، پھر بھی وہ اس کی طرف سے خاصی محتاط ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جان بوجھ کر تلخ نہیں ہوتی تھی، مگر اسد کو دیکھتے ہی اس کو اپنے احساسات و جذبات پر قابو نہیں رہتا تھا۔
وہ کوشش کرتی تھی کہ کم سے کم اسد سے مخاطب ہو، مگر کبھی کبھار مخاطب کرنے پر اس کے لب و لہجے میں خودبخود تلخی سی سمٹ آتی تھی۔ جسے ابھی تک مجتبیٰ صاحب نے محسوس نہیں کیا تھا۔ مگر وہ نہ صرف بہت اچھی طرح محسوس کر گیا تھا بلکہ اس کا پس منظر بھی جان گیا تھا اور شاید آج اس کا اس طرح سختی سے ٹوک دینا بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔ مگر وہ خود کو پھر بھی حق بجانب سمجھ رہی تھی۔
’’خان آ گئے۔‘‘ خان ذکاء اللہ خان نے جیسے ہی حویلی میں قدم رکھا، خبر یہاں سے وہاں تک پھیلتی بی بی جان کے کمرے میں بھی پہنچ گئی۔
’’بی بی جان! بابا جان آ گئے ہیں۔‘‘
پشمینہ نے کمرے میں داخل ہو کر بستر پر دراز بی بی جان کو اطلاع دی تو ان کے چہرے پر ایک دم سکون سا سرایت کر گیا تھا۔ خان جی دو دن کے لیے شہر سے باہر گئے تو بی بی جان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ بہت وہمی ہو گئی تھیں۔ کوئی ان کی نظروں سے ذرا بھی اوجھل ہوتا تو ان کو طرح طرح کے وہم ستانے لگتے تھے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انہیں دمے کا مرض بھی لاحق ہو گیا۔
’’السلام علیکم!‘‘ ذکاء اللہ خان نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا۔ بی بی جان اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔
’’و علیکم السلام۔‘‘ انہیں اپنے ساتھ دیکھ کر وہ بالکل مطمئن ہو گئی تھیں۔
’’طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘ انہوں نے تشویش سے پوچھا۔
’’نہیں بابا جان! رات سے بی بی جان کو پھر سانس کا پرابلم شروع ہو گیا تھا۔ بی بی جان دن بدن وہمی ہوتی جا رہی ہیں۔ نہ جانے کیوں ان کے دل میں یہ شک جڑ پکڑ چکا ہے کہ جو بھی گھر سے نکلے گا واپس نہیں آئے گا۔ زرمینہ آپی اور بھائی جان رات کو آ گئے تھے، ابھی گئے ہیں۔‘‘
پشمینہ نے اپنے بابا جان سے ادب سے سر جھکا کر پیار لیا اور فوراً بی بی جان کی شکایت کی تو وہ مسکرا دیں۔
خان صاحب نے ایک سنجیدہ نگاہ اپنی شریک حیات پر ڈالی تو وہ خفت سے مسکرا کر سر جھکا گئیں۔
’’پشمینہ بیٹا! میراں سے کہو کھانا لگائے، تمہارے بابا جان سفر سے لوٹے ہیں، کچھ پینے کو بھی لائو۔‘‘ بی بی جان نے پشمینہ سے کہا تو وہ فوراً سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔
’’کتنی دفعہ آپ سے کہا ہے کہ بھول جائیں اس واقعے کو، اپنے آپ کو مطمئن اور پُرسکون رکھا کریں، مگر آپ…‘‘
’’کیا آپ بھول گئے ہیں اس سانحے کو؟‘‘ انہوں نے تڑپ کر کہا اور خان ذکاء اللہ کو لگا ان کے زخموں سے خون رسنے لگا ہو، وہ ایسا ہی گہرا زخم تھا جو بھرتا ہی نہ تھا، بلکہ اب تو ناسور بن گیا تھا۔
’’کوئی حادثہ ہو جاتا تو دل کو قرار بھی آ جاتا، مگر اس طرح نہیں خان صاحب! اس کی جدائی تو میرے دل کا ناسور بن گئی ہے۔ وہ بھو لتا ہی نہیں، آج وہ ہوتا تو اس کی شادی ہو چکی ہوتی۔ بیوی بچے ہوتے۔ میرے آس پاس میری سب اولادیں ہیں، بچے ہیں، مگر وہ نہیں ہے۔ میرا دل روتا ہے خان صاحب! اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے میں نے اسے باہر کھیلنے کو بھیجا تھا۔ پھر وہ کبھی واپس ہی نہیں آیا۔ میں تو اس کی صورت دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔
لوگ کہتے ہیں کوئی بھیڑیا، کوئی جانور کھا گیا ہو گا، مگر… مگر کوئی نشان تو ملتا؟‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھیں۔ انہیں تو اپنے بیٹے کو یاد کر کے رونے کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا۔
’’بس کریں بیگم! بس کریں، میرا دل بھی خون خون ہو جاتا ہے، وہ میرا بازو تھا، میرے وجود کا حصہ، میری طاقت تھا، میرا اکلوتا بیٹا تھا، سب کچھ آپ کے سامنے ہے، کیا کچھ نہ کیا میں نے۔ پولیس، ٹی وی، اخبار، کھوجی ہر ذریعہ اختیار کیا، مگر اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔‘‘
وہ بی بی جان کے پاس صوفے پر ڈھے سے گئے تھے۔ اب تو ان کی بھی ہمت ٹوٹنے لگی تھی۔ اپنے تمام بچوں کے درمیان اپنے صارم کو نہ پا کر ان کے دل سے ہُوک اُٹھتی تھی۔ دل غم سے بھر جاتا تھا۔ مگر صبر و ضبط سے سب سہہ جاتے تھے کہ یہی رب کی مرضی تھی۔ مگر اس پاگل، دیوانی ماں کو کیسے سمجھاتے جو آج بھی آس لگائے بیٹھی تھیں کہ وہ زندہ ہو گا اور انہیں ملے گا۔
’’خان صاحب! پتا نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے۔ مجھے راتوں کو خواب آتے ہیں، وہ مجھے پکارتا ہے، بی بی جان، بی بی جان… اس کے ننھے منے ہاتھ میرے قریب آتے ہیں اور جب میں اسے پکڑنے لگتی ہوں تو وہ غائب ہو جاتا ہے، وہ یقینا زندہ ہے، کہیں موجود ہے۔ میرا صارم، میری زندگی، میری آنکھوں کا نور۔ وہ زندہ ہو گا۔‘‘
اتنا وقت گزر گیا تھا، مگر ان کی آس نہ ٹوٹی تھی۔ خان صاحب کی آنکھوں میں بھی نمی سی اُتر آئی تھی۔
پشمینہ شربت کا جگ اور گلاس ٹرے میں رکھے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوئی تو بی بی جان کی سسکیاں اسے اذیت دے گئیں۔ اس نے خاموشی سے گلاس بھر کر بابا جان کو تھمایا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ انہوں نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا، بی بی جان کو بھی ایک گلاس تھما کر وہ ان کی دوسری طرف بیٹھ گئی۔
’’بی بی جان! پھوپھی گل خانم کا فون آیا ہے، وہ لوگ شام کو آ رہے ہیں آپ کی عیادت کے لیے۔‘‘ بی بی جان کی بھیگی آنکھوں سے اسے بڑی تکلیف ہو رہی تھی اور یہ تکلیف اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔
’’اچھا میراں سے کہو، کھانے پینے کا اچھا سا انتظام کر لے۔ میں بھی آتی ہوں اور ابھی دوپہر کا کھانا لگوائو۔‘‘ آنسو صاف کر کے انہوں نے کہا۔
’’جی… میں میراں سے کہتی ہوں۔‘‘ اثبات میں سر ہلاتی وہ کمرے سے نکل گئی۔
کھانے کی میز پر وہ تینوں ہی تھے۔ پلوشے اور زرمینے کی شادی کے بعد اب گھر میں صرف وہ ہی تھی۔ خان ذکاء اللہ خان دیگر خاتون کی طرح روایتی نہ تھے۔ انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں بے شک خاندان میں ہی کی تھیں، مگر تعلیم انہیں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق دلوائی تھی۔ ان کی تینوں بیٹیاں یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ پشمینہ ایم اے کے امتحان دے کر چند ماہ قبل ہی فارغ ہوئی تھی۔
شام ہوتے ہی گل خانم اپنی شہری بہو راشدہ اور دونوں بیٹوں کے ہمراہ چلی آئیں۔ آتے ہی انہوں نے حسب عادت پشمینہ کو لپٹا کر پیار کیا۔ زوار، سجاول بھائی اور راشدہ بھابی کے سامنے وہ پھوپھی بیگم کے اس مظاہرے پر سرخ سی ہو گئی تھی، پھر اسے چھوڑ کر وہ بی بی جان سے ان کی طبیعت کا احوال دریافت کرنے لگیں۔