رشتوں میں جب صفائی نہ دی جائے نہ مانگی جائے تو غلط فہمیاں کا راج ہوتا ہے پھر وہ بھی سنائی اور دیکھائی دیتا ہے جو نہ بولا گیا ہو نہ ہی سوچا گیا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
زندگی میں پہلی بار اسے کسی کی چپی سے اتنی تکلیف ہوئی تھی ۔۔ اشعر کا جواب نہ دینا اس کا ایسا رویہ اس کے لیے نیو تھا وہ سوچتی رہی کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ۔۔۔۔ وہ جیسے اس جگہ سے اٹھ ہی نہیں پائی ۔ سوچتے سوچتے کب وہ بیٹھے بیٹھے سو گئی اسے پتہ نہ چلا ۔۔۔
پلوشہ تھوڑا لیٹ ائی جب وہ پہنچی تو ارشیا کو ایسے بیٹھے بیٹھے سوتے دیکھ اسے ہلاتے ارشیا ۔ ایسے کیوں سو رہی ہو سیدھی ہو کر لیٹ جاؤ ۔۔۔۔۔
ارشیا نے ۔ادھی کھولی آنکھوں سے گھڑی کو دیکھ کر ملتے تم کب ائی ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
پلوشہ اسکا تکیہ ٹھیک سے رکھتے ابھی ائی ہوں ۔۔۔۔ پاس سوئے احد کا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتے احد کا بخار پہلے سے بہت کم ہے ۔۔۔ تم سو جاؤ ۔۔۔ میں بھی چینج کر کے سونے لگی ہوں ۔۔۔۔
ارشیا نے احد کو دیکھتے اسکے سر پر بوسہ دیا اور لیٹ گئی ۔۔۔۔
دوسرے دن پلوشہ کی چھٹی تھی اسلیے اس نے ارشیا کو افس بھیج دیا یہ کہہ کر وہ احد کا خیال رکھ لے گئی نیو نیو جاب ہے اسے کم چھٹیاں کرنی چاہیے ۔۔۔
ارشیا افس نہیں انا چاہتی تھی ۔ ۔۔ پر پلوشہ سے وہ نہ کہہ پائی اسلیے چپ چاپ افس اگئی ۔۔۔۔
افس اج وہ خود ائی تھی ۔ علی کو اس نے مانا کر دیا تھا ۔ اس نے ایسا کیوں کیا تھا وہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔۔ ایک چیز اسے کافی ایفکٹ کر گئی تھی باظاہر نہیں لیکن اندر سے وہ کافی کشمکش کا شکار تھی ۔۔۔
افس میں آج تھوڑ ماحول ٹھیک تھا پر اج ارشیا ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔۔ اقصیٰ اور اصف ہی سب سے پہلے اسے ملنے ائے اور احد کا پوچھا ۔۔۔۔ وہ دونوں اپس میں ابھی تک بات نہیں کررہے تھے ۔۔۔۔
ارشیا کو خود شرمندہ ہو گئی ۔ کل تک وہ ان پر رشک کر رہی تھی شاید اسی نے ان کو نظر لگا دی تھی ۔۔ آشعر صحیح کہتا وہ سچ میں ہی منحوس تھی ۔ ۔۔
اسے سر حیدر نے بھی افس میں بولایا اور احد کا پوچھا ۔۔۔ وہ پلوشہ سے وقتاً فوقتاً احد کا پوچھتے رہے تھے پر ارشیا سے بھی انہوں نے پوچھا ۔۔۔
ہانیہ اور صبیحہ نے بھی دنیاداری نبھاتے احد کا پوچھا ۔ ارشیا نے بھی نارمل جواب دیا۔ وہ اپنے کام میں مگن ہو گئی جیسے فئ حال وہ بات نہیں کرنا چاہتی
۔۔۔۔۔۔
ارشیا اپنے کل کا کام بھی اج پورا کرنا چاہتی تھی اسلیے لنچ ٹائم میں بھی لگی رہی ۔۔۔۔ لنچ ٹائم۔میں سب اسے بولانے ائے پر اسنے مانا کر دیا ۔
تمہارا کام ابھی تک ختم نہیں ہوا ۔۔۔۔ ہانیہ اور صبیحہ جو ابھی ابھی ہانیہ کے ڈسک پر ائی تھی پوچھا ۔۔۔ ارشیا نے ان کو دیکھتے نہ میں سر ہلا دیا۔۔۔۔اور اپنا کام کرنے لگی ۔۔۔۔
اتنے میں اعظم چاچا ائے صبیحہ اپکی گاڑی ٹھیک ہو کر اگئی ہے یہ اشعر نے چابی دی ہے اپکے لیے ۔۔۔ کہتا وہ چابی اسے دے کر چلے گئے ۔۔۔
ہانیہ تماری گاڑی کی چابی اشعر کے پاس کیوں تھی ۔۔۔؟؟؟
صبیحہ چابی کو ٹیبل۔پر رکھتے وہ کل ہم ڈنر پے گئے تھے تو واپسی پر گاڑی خراب ہو گئی میری ۔۔اشعر نے کہا کہ اسے دے دوں وہ کل ٹھیک کروا دے گا ۔ ٹھیک کروا دی اسنے ۔ مسکراتے ۔۔۔۔
او ہو بڑے ڈنر شنر چل رہیں ہیں ۔۔۔ ہانیہ۔نے اواز کو بلند کرتے جیسے وہ صبیحہ کے علاوہ کسی اور کو بتانا چاہتی ہو ۔ ۔۔۔
صبیحہ اسے گھورتے اہستہ بولو ۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے ہانیہ ۔۔۔۔
پر پانیہ تو جیسے سن ہی نہیں رہی تھی ۔ بار بار اس اشعر کا نام لے کر تنگ کرتی رہی ۔۔۔۔ ادھر ارشیا ضبط کیے بیٹھی رہی ۔۔۔ کیا سچ میں وہ صبیحہ کو پسند کرتا ۔۔۔۔
وہ اٹھ کر بھی نہیں جا سکتی تھی کہ ہانیہ یا صبیحہ کچھ سوچتی ۔۔۔۔
وہ کام میں خود کو مگن ظاہر کرتی رہی ۔۔۔۔ پر دھیان بار بار بھٹک جاتا ۔۔۔۔ لیکن جب اقصیٰ اسے پھر بکانے ائی تو شکر کرتے وہ اٹھ کر جانے لگی جب ہانیہ فورا اسکے راستے میں اکر کھڑے ہوتے ۔۔ ارشیا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ۔ اتنا منہ کیوں اترا ہوں ۔۔۔ جیسے اسے بڑی فکر ہو ۔۔۔ صبیحہ نے بھی ارشیا کا چہرہ دیکھا
ارشیا صبیحہ کو دیکھ جر ہنسنے کی کوشش کرتے نہیں ایسا کچھ نہیں رات کو سو نہیں پائی احد کی وجہ سے اور صبح سے کام کر رہی اسلیے ۔ بس تھک گئی ہوں ۔۔۔ اسنے بہانہ بنایا ۔۔۔
تو اج نہ اتی ۔ ارام کر لیتی ۔۔۔ چلو لنچ کرو جا کر ۔ بہت پریشان لگ رہی ہو ۔۔۔۔ کہتے ہانیہ نے چور آنکھیوں سے صبیحہ کو دیکھا ۔ ارشیا ہاں کرتے چلی گئی ۔۔۔
ہانیہ۔نے صبیحہ کو کوئی کام کی ٹیشن نہیں ہے برداشت نہیں ہو رہا اس سے تمہارا اور اشعر کا ساتھ ۔۔۔۔ تم نے دیکھا وہ اشعر کو اگنور کر رہی ہے ۔ ایک دفعہ جو اسنے صبح سے اب تک اشعر سے بات کی ہو ۔۔۔
صبیحہ نے اسے جاتے دیکھ کر لگتا اسنے اشعر کی دوستی کا غلط۔مطلب نکال لیا تھا اسلیے اب اسے مایوسی ہو رہی ۔۔۔۔
ہانیہ نے فورا مایوسی ۔ ۔۔۔ تم ہمدردی نہ۔کرو ایسا نہ ہو ۔ وہ ایسی شکل۔بنا کر اشعر کو چھین لے تم سے ۔ صبیحہ نے ہانیہ۔کا چہرہ دیکھا نہیں بالکل نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا بنا سانس لیے جھٹ سے بولی ۔۔۔
تو ہانیہ۔مسکراتے تو مائے ڈیئر فرینڈ ارشیا سے ہمدردی مطلب اپنی محبت سے ہاتھ دھونا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ارشیا اقصیٰ کے ساتھ چلتے چلتے سوچ رہی تھی ۔ اسکا چہرہ تو کبھی اسکی اندرونی کیفیت نہیں بتاتا تھا پھر اج ایسا کیوں ہوا کہ۔ہانیہ نے اسکی پریشانی بھاپ لی ۔ احد کا بیماری کو ا اسے اپنے لیےبہانہ بننا پڑا ۔ وہ ٹیبل پر جا۔کر بیٹھی تو اصف اسے ویلکم کرتے خود ٹیبل سے اٹھ گیا ۔ ارشیا نے اسے دیکھتے اقصیٰ کو دیکھا جس نے نظریں جھکا لی ۔
وہ ابھی تک نہیں بول رہا تم سے ۔۔۔۔
اقصیٰ نے نہ۔میں سر ہلا دیا ۔۔ ارشیا خاموش ہوگئی ۔۔۔ ۔۔۔۔ دومنٹ ہی گزرے وہ غصے سے اٹھی
اقصیٰ کا ہاتھ پکڑے چلو۔میرے ساتھ کہتے اسے اصف کے ڈسک کی طرف لے کر ائی جہاں صرف وہ اکیلا بیٹھا لیپٹوپ اوپن رہا تھا ۔۔۔
تم بات نہیں کر رہے اقصیٰ کے ساتھ ۔۔۔؟؟؟ اپنی لہجے کو تھوڑا سخت رکھتے ۔۔۔
اصف ایک دم گڑبڑا یا ۔ وہ ابھی ان کو کیفے میں چھوڑ کر ایا تھا اور ابھی وہ اتنی جلدی اسکے پیچھے کھڑی تھیں
تم سائیڈ مت لو اسکی ۔۔۔۔۔ اصف نے سنبھلتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارشیا نے فورا ۔۔۔ ہو کیا گیا ہے تم دونوں جو ایک بات بھول نہیں سکتے تم دونوں ۔ اس نے جو کیا اسکی انٹنشن سمجھو اصف ہر لڑکی انسکیور ہوتی ہے اپنے پارٹنر کو لے کر وہ کافی چیزوں سے اسے جج کرتی ہے ۔ لڑکی بھروسہ بہت جلدی کرتی ہے لیکن اپنے بھروسے کو قائم رکھنے کے کیے وہ بہت دفعہ اپنے پارٹنر کا ٹیسٹ لیتی ہیں اور جب وہ ٹیسٹ میں پاس ہوتا تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے کہ ا س نے صحیح شخص پر بھروسہ کیا ہے ۔۔۔۔اور یہ حق بھی تم نے اسے دیا ہے کہ وہ ایسا کرے ۔۔۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ وہ تم پر اپنا حق سمجھتی ہے۔۔۔ بھروسہ کرتی ہے کہ کبھی کچھ ہوا تو تم ہو گئے اسے بچانے تم ساتھ دو گے اس کا ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ خدا کا شکر کرنے کہ جگہ الٹا تم اسی بات کو لے کر ناراضگی پالے بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا بنا روکے بول رہی تھی ۔۔۔
اقصیٰ جہاں سر جھکائے سن رہی تھی وہی اصف بھی بنا بولے ارشیا کو دیکھ اور سن رہا تھا اس کی ہر بات کو سمجھ رہا تھا ۔۔۔
ارشیا نے اسے چپ دیکھا تو ۔۔۔۔ تم اب ناراضگی ختم کرو گئے یا میں اور بولوں تمہیں کنونس کر نے کے لیے ۔۔۔
ساتھ ہی ہلکا سا مسکرائی ۔
اصف اسے دیکھ کر ۔۔۔۔ہنسا ۔ کیا چیز ہو تم ایک سانس میں اتنا کیسے بول لیتی ہو ۔۔۔۔ تمہیں تو ڈیبیٹ میں حصہ لینا چاہیے ۔۔۔۔
ارشیا ہنستے چلو وہ بھی کر لوں گئی لیکن بعد میں پہلے تم اقصیٰ کو اگے کرتے اپنی ناراضگی اس سے ختم کرو ۔۔۔ آصف اقصیٰ کو دیکھ کرمسکرایا ۔۔۔
ارشیا اسے فورا تنگ کرتے مجھے یقین ہے سکون سے تو تم بھی نہیں بیٹھے ہو گے اس سے ناراض ہو کر ۔۔۔۔
آصف نے سر کو کجھایا جیسے وہ۔سچ کہہ رہی ہو ۔۔۔ ارشیا اب تم معافی شافی مانگو میں چلتی ہوں ۔۔۔۔ کہتی واپس چلی ائی ۔۔۔ لنچ بریک میں ٹائم تھا پر وہ اپنی ڈسک کی طرف اگئی ۔۔۔۔۔
اشعر کو صبح سے دو تین دفعہ۔دیکھ چکی تھی پر دونوں نے سلام کے جواب کے علاؤہ کوئی بات نہیں کی تھی ۔۔۔۔ سر حیدر کے پاس جب وہ گئی تب بھی وہ اسے مصروف لگا ۔۔۔۔
افس ختم۔ہونے پر وہ۔لیفٹ سے باہر نکلی تو اشعر کھڑا فون ہر بات کر رہا تھا ۔ ا یک دفعہ۔اسنے سوچا کہ جا کر بات کرے لیکن کل۔کے اسکے رویے کو یاد کرتی وہ جانے لگی جب اشعر نے اسے اواز دی ۔۔۔۔
ارشی ۔۔۔۔ فون بند کرتے وہ۔اسکی طرف ایا ۔۔۔۔۔۔۔
احد کیسا ہے ۔۔۔۔؟؟؟ ارشیا نے ٹھیک ہے کہتے ساتھ ہی میں چلتی ہوں الللہ حافظ ۔۔۔
اشعر اس سے کچھ اور کہتا وہ باہر کی طرف موڑ گئی ۔۔۔ ادھر صبیحہ اشعر کو جہاں سے وہ کھڑی ہوکر دیکھ رہی تھی وہ ارشیا کو نہیں دیکھ پا رہی تھی ۔۔۔ بس کرو ٹائم پاس کرنا ۔۔۔۔ اشعر ۔۔۔۔ وہ سکینڈ فلور سے کھڑے ہو کے اسے کہہ رہی تھی ۔۔۔ اشعر نےمنہ اوپر کیے صبیحہ کو دیکھتے کیوں ٹائم۔پاس کرنا مانا ہے ساتھ ہی مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔اس بات سے لاتعلق کے ارشیا اس چیز کا کیا مطلب لے رہی ۔۔۔۔
ارشیا۔نے باہر۔نکلتے صبیحہ اور اشعر دونوں کی باتیں سنی ۔۔۔ اس کا۔دماغ جیسے ٹائم۔پاس پے ہی اٹک۔گیا ۔۔۔۔
وہ بنا سوچے چلتی رہی ۔۔۔
ہوسٹل پہنچ کر احد اور پلوشہ روم میں نہیں تھے وہ انتظار کرتے سوچتی رہی ۔۔ ۔ ٹائم پاس پورے راستے یہ لفظ اسکے دماغ۔میں گھمتا رہا۔۔۔۔۔ اسے جیسے اس لفظ سے نفرت ہوگئی ۔ کیا سچ میں اشعر اسے ٹائم۔پاس سمجھتا تھا وہ ٹائم۔پاس نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچتے جیسے خود سے جواب مانگ رہی ہو ۔۔۔ اس نے اشعر کو اسے ٹائم۔پاس سمجھنے کیسے دیا ۔ اسے اشعر سے زیادہ خود پر غصہ تھا اسکے سر میںدرد ہونے لگا ۔۔۔ مگر دل۔میں اٹھنے والا درد کم نہ۔ہوا ۔
سوچتے سوچتے اس لگا جیسے اشعر کی نہیں ساری غلطی اسکی اپنی ۔۔۔۔۔ وہی اسکی دوستی کو غلط مطلب دے بیٹھی ہو گی ۔۔۔۔۔ اس کی فریکنس کو اسکی اپنائیت اور پسند سمجھ بیٹھی تھی ۔۔۔
وہ صرف دوستی نبھا رہا تھا پر شاید وہ اس سے بہت کچھ ایکسپکٹ کر بیٹھی تھی ۔۔ ۔۔۔۔۔۔اشعر کے لیے تو شاید وہ۔کچھ تھی ہی نہیں ۔۔۔۔ ایک سکینڈ میں اسنے اشعر کو ہر الزام سے بری کرتے ساری اپنی غلطی بنا ڈالی ۔۔۔۔
خود کو ملامت کرتے اسنے ڈیسائیڈ کیا کہ اب مزید وہ اشعر سے نہ۔کچھ ایکسپکٹ کرے گئی اور نہ ہی اسے ٹائم۔پاس کرنے دے گئی ۔ نہ ہی ۔ مزید اپنی غلط فہمی کی بنا پر وہ دکھ نہیں اٹھائے گی ۔۔۔ ۔ یک۔طرفہ۔محبت کا یہی انجام تھا ۔ کہ اسکا گلہ گھوٹ دیا جاتا ۔۔۔۔۔ خود سے تہیہ کرتے وہ اٹھی ۔ منہ ہاتھ دھو کر جب وہ واش روم سے نکلی تو ٹائم دیکھتے اسنے فورا احد اور پلوشہ کا خیال ایا ۔۔۔ موبائل نکال کر پلوشہ۔کو۔کال۔کی ۔ کہاں رہ گئے ہو تم دونوں ابھی تک واپس نہیں ائے ؟؟؟؟
پلوشہ اسے اتنی ہڑبڑاہٹ میں پوچھے سوال۔کا جواب دینے کی بجائے ۔ کیا ہو گیا نہ۔سلام۔نہ دعا ۔ ہم دونوں ٹھیک ہیں بہت بور ہو رے تھے تو میں احد کو اپنے ساتھ امی کی طرف لے ائی ۔۔۔ ابھی بس کھانا کھایا ہے ارہے ہیں ہم۔دونوں ۔۔۔
تم۔نے کھانا کھا لیا ہے ؟؟؟
ارشیا نے فورا جھوٹ بولتے ہاں کھا لیا ہے ۔۔۔۔ بس تم لوگ جلدی سے آؤ ۔۔۔۔۔
فون رکھتےاس نے سب کچھ جھٹک کر کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائے بنا کر پیتے ۔ اسے اشعر کی چائے یاد ائی جو وہ اسکے لیے لایا تھا ایک دن ۔۔۔ وہ۔مٹھی چائے بھی اسی کڑوی لگی وہ مزید نہ پی پائی اسلیے چائے سینک میں گراتے وہ وہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ سب کچھ ڈیسائیڈ کرنے کے بعد بھی وہ دماغ سے نہ نکا ل پائی سب ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اج علی نے چھٹی لی تھی اسلیے وہ احد کواپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔۔۔۔ علی کو بہت سی انسٹرکشن احد کے متعلق دیتے وہ بار بار اسے کہتی رہی بھولنا مت ۔۔۔۔۔۔ احد بالکل ٹھیک تھا پر ارشیا ابھی بھی اسے لے کر کافی پریشان تھی ۔۔۔۔
علی ارشیا کو افس اتار کر احد کو لے کر چلا گیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
ارشیا افس ائی تو سارے ہی کھڑے ایک دوسرے سے کچھ ڈسکس کر رہے تھے ۔۔۔۔ آصف اقصیٰ عفیفہ فیصل عدنان سب کھڑے تھے ۔ صبیحہ ہانیہ کو چھوڑ کر ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔ اج تم سب ایسے کیوں کھڑے ہو ۔۔۔
یار انوسمنٹ ہوئی ہے کہ افس کے بوس ارہے ہیں ۔۔
وہ بھی گیارہ سالوں بعد ۔۔۔۔۔۔
سارے سینیئر فئ حال میٹنگ میں ہیں کیا کر رہے پتہ نہیں ۔۔۔۔
تو تم سب کیوں پریشان ہو ۔۔۔ ارشیا نے اصف کو دیکھا جو سب بتا رہا تھا ۔۔
خدشہ ہے کہ وہ ہم سب انٹرن کو بھی نکال دیں گئے ۔ ہو سکتا ہے ٹوٹل نیو سٹاپ اپونٹ کریں ۔۔۔اور یہ بھی ہوسکتا کہ سینیئر کے فیصلہ کو اپورٹنس دیں ۔۔۔۔۔۔
سارے سن کر پھر سے پریشان ہو گئے ۔۔۔۔ پر ارشیا نے فورا ۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔
فیصل نے اسے دیکھتے تو کیا ۔ ہماری جاب خطرے میں ہے ۔ ایک مہینے سے زیادہ ہونے والا کام کرتے محنت کرتے اب ہو سکتا کہ وہ ہمیں نکال دیں ۔۔۔۔
ارشیا نے فیصل کو تو نہیں لیکن اصف کو دیکھتے ۔
ہم سب پہلے سے جانتے تھے کہ ہماری یہ جاب کنفرم نہیں ہے ۔ اگر ہو گئی تو ہماری محنت اور کامکو دیکھ کر ۔۔۔ ایک مہینے بعد ویسے بھی یا تو ہمیں اپونٹ کیا جاتا یا نکال دیا جاتا ۔۔۔ میرے خیال سے ہمیں پہلے ہی منٹلی پریپیئر ہونا چاہیے تھا اس کے لیے ۔ ۔۔۔ اور ہوسکتا وہ ہمارا کام دیکھیں تو ہم سے زیادہ کو ہی وہ ایز نیو سٹاف رکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں کھڑے سںب نے اس کی بات کا جواب بے شک نہ دیا پر سب کو اسکی بات ٹھیک لگی ۔۔۔۔۔
ہانیہ کو جیسے اسکا ایسے سب کو خاموش کروانا پسند نہ ایا ۔ اسنے فورا صبیحہ اشعر کہاں ہے ۔۔۔۔ اسے سے پوچھوں ۔۔۔
یار وہ بھی سر حیدر کے ساتھ میٹینگ میں ہے ۔۔۔۔ صبیحہ نے اسے سر سری سا بتایا ۔
یہ اجکل زیادہ ہی نہیں رہتا سر حیدر کے ساتھ
صبیحہ نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔
۔۔۔ ارشیا نے اقصیٰ کودیکھتے یہاں کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو بھی ہو گا وہ پتہ تو چل ہی جانا ہے ۔۔۔
وہ سب اٹھ کر اپنی ڈسک پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔۔ ہانیہ نے ارشیاکو غصے سے جاتے دیکھا ۔۔ صبیحہ اسے ارشیا کو دیکھ کیا ہوا ۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو اسے ۔۔۔
بہت اچھی ایکٹنگ کرتی ہے ۔۔۔ جتنا اچھا بولتی ہے اتنی اچھی ہے نہیں ۔۔۔۔
صبیحہ نے اسے دیکھتے کیوں ایسا کیا کیا اسنے ؟؟؟
اسنے میری شکایت لگائی ہے سر وقار اور سر حیدر کو ایک دفعہ اس سے ہیلپ۔کیا لی اسنے تو سب کو جا جا کر بتایا کہ اسنے میری ہیلپ کی ۔۔۔۔ وہ بھی تب جب ہیلپ کیے اسے اتنے دن ہو گے تھے ۔۔۔۔۔ جان بوجھ کے کر رہی ہے میرے ساتھ تمہاری دوست ہوں اسلیے ورنہ پہلے تو اسے مجھ سے کوئی پروبلم نہیں تھی پہلے تو خود کہتی تھی کہ وہ ہیلپ کر دے گی ۔۔ پر اب تو بات تک نہیں کرتی مجھ سے ۔۔
صبیحہ نے اسے ہمدردی سے دیکھا ۔ کیوں کہ وہ خود بھی دیکھ رہی تھی ارشیا ہانیہ سے بات نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔ تم فکر نہیں کرو میں پاپا سے بات کروں گئی ۔۔۔ تمہاری جاب کو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔
ہانیہ نے اسکا شکریہ ادا کرتے سکون کا سانس لیا جیسے اسکا کام تو بن گیا ۔۔۔۔
سینیئر ز کے بیچ کیا بات ہوئی کوئی نہیں جانتا تھا نہ ہی میٹینگ ختم کرتے کسی نے کچھ کہا ۔۔۔ باقی سب کو اپنا ریگولر کام دیا کرنے کو ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ اج ٹوٹل سینیئر ز کے ساتھ تھے ۔۔۔۔ سارے سینیئر خود تھوڑی بزی تھے ہر چیز کا ریکارڈ اکھٹا کرنے میں ۔۔۔۔
لنچ ٹائم میں اج زیادہ تر لوگ کام ہی کر رہے تھے ۔۔۔ اج کافی دونوں بعد وہ سب اکٹھے تھے ۔۔۔۔۔ اشعر کے پورے گروپ کو چھوڑ کر ۔۔۔۔
اشعر اور صبیحہ ائے تو اشعر نے صبیحہ کو کرسی کھینچ کر دی جیسے وہ ہمیشہ اسے دیتا تھا ۔ ۔۔۔۔
اشعر کے بیٹھے ہی ارشیا اٹھ گئی ۔۔۔۔
ہانیہ نے فورا تم کہاں چلی ۔ ارشیا نے اسے دیکھتے وہ اجکل اس سے بات نہ کرتی پر بہت سوال کرتی تھی ۔۔۔
وہ مجھے اپنا کام ختم کرنا ہے ۔۔۔۔ اصف کو دیکھتے تمہارا لنچ ہو گیا تو چلو میرا کام کر دو ۔۔ میں نے اج ہی سبمنٹ کروانا ہے ۔۔۔
اصف بھی ہاتھ ٹیشو سے صاف کرتا اٹھ گیا ۔۔۔
ہانیہ فورا ۔ خود سارا کام اصف سے کروائے گی اور ٹیگ اپنا لگا کر دے دے گی ۔۔۔
اشعر نے اسے دیکھتے اسے ارشیا کا جانا برا لگا پر ہانیہ کا ایسا کہنا اسے زیادہ برا لگا ۔۔۔ اسنے ہانیہ کو سخت لہجے میں کہا وہ تمہارے والے کام نہیں کرتی ۔۔۔ اپنا کام خود کرتی ہے وہ ۔۔۔۔ ہیلپ کی ضرورت کسی کو بھی پڑ سکرتی ہے ہم سب نیو ہیں کوئی کسی چیز میں پرفیکٹ نہیں ہے ۔۔۔۔
ہانیہ کے جیسے منہ پر تالہ لگ گیا ۔ صبیحہ نے ماحول کو کول ڈاؤن کرنے کے کیے فورا بات بدلی اشعر سے فورا کہ وہ سب چھوڑو میٹینگ کا ایجنڈا کیا تھا ۔۔۔؟؟؟
اشعر نے ہانیہ کو جہاں غصے سے دیکھ رہا تھا وہی صبیحہ کی بات کا اسنے نارمل لہجے میں جواب دیا ۔ ۔۔۔ جو چیز صبیحہ کو مزید خوش فہمی میں مبتلا کر گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ پانی کا گلاس لیے اپنے ڈسک کی طرف ارہی تھی تو ہانیہ نے اسکے راستے میں پاوں رکھ دیا وہ جو پہلے ہی چکرا رہی تھی ۔ منہ کے بل زمین پر گری ۔۔۔ کانچ کا گلاس ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں گھس گیا سب نے گرنے کے ساتھ اسے دیکھ اشعر اور اصف جو اسی ڈپارٹمنٹ کی طرف ارہے تھے ۔ ارشیا کو گرتے دیکھ دونوں بھاگے ۔
سارے اسکے اس پاس جمع ہو گے ۔ ہانیہ اپنی کرسی پر ہی بیٹھی اسکو تکلیف میں دیکھتے خوش ہوتی رہی ۔ اشعر کا اسے سب کے سامنے ایسا کہنا کہاں برداشت تھا بدلہ تو اسے لینا ہی تھا ۔۔۔ سب کچھ ارشیا کی وجہ سے ہورہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ خود ہی ارشیا سے دشمنی پالے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ ۔
اشعر نے ارشیا کا ہاتھ پکڑا ایک کانچ کا بڑا ٹکڑا اسکے ہاتھ میں پھنسا ہوا تھا ۔ اصف بھاگ کر فرسٹ ایڈبوکس لایا ۔ ۔۔۔
ارشیا کی تکلیف چہرے پر عیاں تھی لیکن اشعر کو اسکا ہاتھ پکڑتے دیکھ اسنے اشعر کی طرف دیکھا ۔۔۔ اشعر نے اسے دیکھتے دیکھ کے نہیں چل سکتی تم۔۔۔۔۔ اسے نہیں جیسے اشعر کو تکلیف ہو رہی ہو ۔ ارشیا ایک منٹ کے کیے اپنا درد اشعر کے پچھلے رویہ سب کو بھول گئی ۔۔۔
اب ہلنا مت یہ ارام سے نکل ائے گا کہتے اشعر نے اس کانچ کو اپنی انگلیوں سے پکڑا ۔
ارشیا نے سوچتے اب مزید وہ کوئی غلط فہمی نہیں پالے گی نہ ہی کسی کو حق دے گی کہ وہ اسے ٹائم پاس سمجھے ۔۔۔۔ ۔۔۔ اسنے اپنا ہاتھ آشعر کے ہاتھ سے کھنچ لیا کانچ ادھا ٹوٹ کر اشعر کے ہاتھ میں رہ گیا ۔۔۔۔ ارشیا نے قرب سے انکھیں بند کر لیں ۔۔۔ ۔۔ اشعر شوکڈ حالت میں اسے دیکھتا رہا اس کے ہاتھ سے اب تیزی سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ پر وہ انکھیں بند کیے اپنے درد سہہ رہی تھی ۔۔۔۔
سب نے ارشیا کی اس حرکت کو دیکھا ۔
وہ اپنا دوپٹہ ہاتھ ہر باندھتے اصف مجھے ہوسپٹل لے جاو گے ۔۔۔ اصف نے اشعر کو دیکھا پھر ارشیا کو دیکھتے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ وہ اور ارشیا چلے گئے وہاں سے ۔ اشعر نے ہاتھ میں اس کانچ کے ٹکڑے کو دیکھا تو غصے سے وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
ہانیہ بگ نیوز کہتے اپنی کرسی پر جھلتی رہی ۔۔۔۔
اشعر اپنے ڈسک پر بیٹھتے ارشیا کے اس عمل کو نہ سمجھ پایا ۔۔ اسے اندازہ تھا کہ کانچ ٹوٹنے کے بعد وہ کس تکلیف سے گزری ہو گئی جس قوت سے اسنے ہاتھ کھینچا تھا اشعر نے درد سے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ ۔
دوسری طرف اج پورے افس کو ایک ٹوپک مل گیا ڈسکس کرنے کا ۔۔۔ ۔۔۔
تین گھنٹے بعد وہ ہوسپٹل سے فارغ ہوئے ۔ ارشیا وہی سے سیدھا ہوسٹل چلی گئی ۔۔۔۔ ہوسٹل پہنچ کر انجکشن کی وجہ سے وہ بیڈ پے لیٹتے ہی فورا نیند کی وادی میں چلی گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر انوسمنٹ کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا کسی کے بھی بی ہیور میں ۔۔۔۔ سر ہم ایک مہینے سے زیادہ سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں پر کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اسفند اسکے سامنے کھڑا اسے بتا رہا تھا ۔۔۔
پر کوئی جواب نہ۔ایا تو ۔سر سٹاپ۔میں سے کوئی نہیں لگتا مجھے ۔۔۔ ہو سکتا کوئی باہر سے ہو جو کمپنی سے میٹیریل چوری کر رہا ہو اور کمپنی کا۔نام بند نام کر رہا ہو ۔۔۔
اسنے پہلی دفعہ اسے نظر اٹھا کر دیکھا ۔ ۔
نہیں کوئی کمپنی کے اندر سے ہی ہے جس طرح وہ سب پروسس جانتا سارا مال غائب کرتا ۔ وہ جانتا ہے سب افس کے بارے میں ۔۔۔ اگر کوئی باہر والا بھی ہے تو کوئی نہ کوئی اس سے ضرور ملا ہوا ہمیں بس اس کا پتہ چلانا ہے کہ کون اتنے سال سے بابا کے ساتھ غداری کر رہا ۔۔۔
سر سارے سینیئر سارے ورکرز نیو ہو یا پرانے ہم دیکھ رہے ۔۔۔ باقی اعظم اسلم کریم وہ سب تو بہت پرانے ہیں سر ۔۔۔
اس کا دماغ جیسے ٹھنکا تم ان سب پر نظر رکھ رہے ۔۔
سر کن پر ۔۔۔ وہ گڑبڑیا
اعظم وغیرہ پر ۔۔
نو سر ۔ ان پر تو نظر نہیں رکھی میں نے ۔۔۔ اسنے ڈرتے ہوئے بتایا ۔۔۔
اسفند میں نے تم سے پورا سٹاف کا کہا تھا کیا وہ سٹاف میں نہیں اتے ۔۔۔ اسنے تھوڑے رعب دار لہجے میں کہا ۔۔۔
سوری سر ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے اج سے ان پر اور باقی سب پر نظر رکھوں کوئی نہ۔کوئی غلطی کسی سے ضرور ہو گی ۔۔۔۔
اوکے سر کہتے وہ کھڑا رہا ۔۔۔
اسنے اسے کھڑا دیکھ کچھ اور کہناہے ۔ ایک فائل اٹھا کر دیکھتے جو ابھی اسفند لایا تھا ۔۔۔
سر ۔ اس مسئلے کی وجہ سے اپ کافی پریشان رہتے ہیں ۔ اپ گھر بھی نہیں جاتے ۔ اپکے گھر والے پریشان ہو گے ۔۔۔
اسنے اسفند کو دیکھا جو صحیح کہہ رہا تھا وہ بہت دنوں سے باقی سب سائیڈ پر کیے ہوئے تھا یہاں تک کہ۔اپنی پرسنل لائف بھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
سب نے بہت بھروسے سے بھیجا ہے مجھے یہاں ۔۔۔ جب تک پتہ۔نہیں چل۔جاتا کہ ہمارا نام کون خراب کر رہا مجھے سکون نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔
اسفند نے اسے دیکھ تو ضرور ملے گا سر ۔ ۔۔۔ اپ ارام کریں میں چلتا ہوں کہتا باہر چلا گیا ۔۔۔
اسفند نے صحیح کہا تھا اس مسئلے کی وجہ سے وہ اپنی توجوں بہت سی چیزوں سے ہٹا بیٹھا تھا جس کا نتیجہ بھی اج اسکے سامنے تھا ۔۔۔۔ اسنے ایک بار پھر آنکھیں بند کیے ان لمحوں کو سوچا ۔ اسے ایسا لگا جیسے اسکی زندگی ہاتھ سے چھوٹ رہی ہو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ کو ہانیہ۔نے جب بتایا تو پہلی دفعہ اسے ارشیا پر بہت غصہ ایا ۔ پہلے جہاں اسے ارشیا سے ہمدردی تھی اب وہاں غصے نے لے لی ۔۔۔۔ ہانیہ نے صبیحہ کے دل۔میں ارشیا کے لیے قطرہ قطرہ نفرت بھر ی تھی
صبیحہ کو اشعر کے لیے بہت برا لگا وہی ارشیا سے جیسے اشعر کی زندگی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔
ہانیہ اس سب میں اسکے ساتھ تھی ۔۔۔۔ ہانیہ۔ارشی سے ایک شکایت لگانے کا بدل لینا چاہتی تھی وہ ارشیا کی انسلٹ کروانا چاہتی تھی سب کے سامنے اسے شرمندہ دیکھنا چاہتی تھی اور یہ کام صبیحہ کے بنا ناممکن تھا۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی انکھ صبح چار بجے شور سے کھولی ۔ پلوشہ ساتھ ساتھ کسی سے فون پر بات کررہی تھی ساتھ ساتھ اپنا سامان پیک کر رہی تھی ۔۔۔۔
ارشیا نے اپنا ہاتھ چادر کے اندر کیا ہوا تھا ۔۔۔ فون بند کرتے کیا ہوا کہاں جا رہی ہو ۔۔۔؟؟؟
پلوشہ نے اپنی چیزیں بیگ میں رکھتے امریکہ جا رہی ہو ۔ پھو پھو کے پاس کوئی مسئلہ ہو گیا ہے پراپرٹی کا ۔ کافی ایشو بنا ہو ا پھو پھو کے دو بیٹے جیل۔میں ہیں وجہ جو وہ بتا رہے وہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔
تم اکیلے جا رہی ہو ۔۔۔؟؟؟
ہاں پاپا اجکل افس میں بہت بزی ہیں ۔ اور ماما کی طبیعت صحیح نہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ اسلیے ۔۔۔۔ میں اکیلے جا رہی ۔۔۔۔۔۔ پاپا فارغ بھی ہوتے تو مجھے ہی جانا طڑتا کیونکہ وہ پراپرٹی میرے نام پے ۔۔۔۔۔
کب تک واپس آؤ گئی ۔۔۔۔۔
پلوشہ اپنے بیگ کی زپ بند کرتے پتہ نہی یہ تو وہاں جا کر حالت دیکھ کر ہی پتہ چلے گا کہ کتنا وقت لگے گا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پریشان نہ ہو میں جلدی آجاؤں گئی ۔۔۔ کہتی ہی ہارن سنائی دیا تو ۔۔۔ پاپا اگے ہیں ۔۔ میں چلتی ہوں ۔۔ وہ بیڈ سے اٹھنے لگی تو اسے گلے ملتے بیٹھی رہو ۔۔۔ میں چلی جاوں گئی ۔۔۔ تمہاری نیند بھی ڈسٹرب کر دی میں نے ۔۔۔۔
میں چلتی ہوں تمارے ساتھ ۔۔ ۔۔۔۔
اسے بیگ اٹھاتا دیکھ نہیں نہیں کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
پر ارشیا ڈوپٹہ سیٹ کرتے تاکہ وہ ہاتھ نہ دیکھے اسے گاڑی تک چھوڑنے ائی ۔۔۔۔۔
واپس روم میں اکر اس عجیب تنہائی کا احساس ہوا ۔۔۔۔
بچپن سے اکیلے رپتی تھی پر اج اسے وہ تنہائی کافی بری لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکلیف تھی جو کم ہی نہیں ہو رہی تھی ایک لفظ ٹائم پاس اسکا دل۔توڑنے کے لیے کافی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن وہ افس گئی تو ہر کوئی اسے دیکھ کر ایک دوسرے کے کان میں گھس جاتا وہ سمجھ گئی کہ کل کی بات کو لے کر ابھی تک گوسپ چل رہے ۔ ۔۔۔۔۔
وہ بھی بنا کسی سے کچھ بولے اپنے ٹیبل پر چلی گئی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جب ہانیہ اور صبیحہ اپنی پلان پر کام کرتے ہوئے اسکے پاس ائی ۔۔۔۔ وہ اپنا ہاتھ دیکھ رہی تھی ۔۔۔