اشعر اور اصف نے موڑ کر دیکھا دونوں کو ان کی چپی بر وقت چبھی پر وہ ہوتی تو بولتیں ۔۔۔۔
موڑ کر دیکھنے پر دونوں نے شوکڈ حالت میں ایک دوسرے کو دیکھا ۔ کہاں ہے یہ دونوں ۔۔۔۔
اشعر اور اصف ایک دوسرے کو دیکھتے واپسی کی دوڈر لگا دی ۔۔۔۔ ۔ دونوں کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ وہ کہاں جا سکتی ہیں وہ بھی ابھی ۔۔۔۔ ۔بھاگتے بھاگتے اشعر نے اصف تم یہ گلی چیک کرو میں اگلی دیکھتا ہوں کہتا اگے بھاگا ۔ ۔۔۔۔۔
ادھر ارشیا اقصیٰ سے کچھ اور کہتی اسنے تین لڑکوں کو اپنی طرف اتے دیکھا جو دیکھنے سے ہی لوفر لگ رہے تھے ۔۔۔۔ اس نے اقصیٰ کا ہاتھ پکڑا اور گلی سے باہر کی طرف چلنا شروع کر دیا ۔۔۔
ساتھ ساتھ اپنے بیگ سے کچھ ڈھونڈتی رہی ۔۔۔ اقصیٰ اسے تیز تیز قدم اٹھاتے دیکھ تم کر کیا رہی ہو ۔ روکوں تو ابھی اجائیں گے وہ ہمیں پر وہ کچھ کہتی کہ کسی نے اقصیٰ کے کندھے پر ہاتھ رکھا کر اسے روکا ۔
ہم تو اگے ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی ۔
اقصی نے اسکا فورا ہاتھ ہٹایا ۔۔۔ اور ڈرتے ارشیا کے پیچھے جا چھپی ۔ ۔۔۔ وہ لڑکا بہت ہی خباثت نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
ارشیا کے ہاتھ بیگ سے کچھ لگا ۔۔۔ وہ لڑکا اگے بڑھا پر ارشیا نے اسکے منہ پر پرفیوم سپرے کر دیا ۔ جس سے اس لڑکے کی آنکھیں جلنے لگی ۔ جب باقی دونوں نے دیکھا تو فورا ارشیا کی طرف پلکے اس سے پہلے وہ ارشیا کا پرفیوم والا ہاتھ پکڑتے اشعر فورا سے ان اور ارشیا کے درمیان اگیا ۔۔۔
ارشیا نے اشعر کو پیچھے سے ہی پہچانتے جہاں سکھ کا سانس لیا وہی اس کے منہ سے اشعر کا نام نکلا ۔
اشعر اپنی ریڈ آنکھیں کیے ان لڑکوں کو دیکھ رہا تھا ۔
وہ لڑکا اپنے انکھوں کی جلن کی وجہ سے چیخ رہا تھا اس کی اواز سنتے اشعر اسی گلی کے پاس تھا فورا ان تک پہنچا تھا ۔۔
تم ہٹ جاؤ سامنے سے ہمیں بس یہ لڑکی چاہیے ۔۔۔۔ اسنے ہاتھ سے ارشیا کی طرف اشعارہ کیا ۔
اشعر بہ مشکل اپنی غصہ پر قابو کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔
اس لڑکی کی طرف انکھ بھی اٹھا کر دیکھا تو کچھ اور دیکھنے کے لائق نہیں چھوڑوں گا ۔ اپنی غصیلے لہجے کو بے حد درجے کنٹرول کرتے اسنے اس لڑکے کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
لیکن جب وہ پھر بھی اگے بڑھانے لگا تو اشعر نے اپنے کوٹ کو پیچھے کرتے ان لڑکوں کو اپنی گن دیکھا ئی جو وہ اپنی پروٹیکشن کے لیے رکھتا تھا ۔ یہ گن ہمیشہ اسکی گاڑی میں ہوتی تھی پر اج وہ اس وقت ارشیا کے ساتھ ارہا تھا اسلیے اسے اپنے ساتھ لے ایا تھا ۔
لڑکا مزید اگے بڑھتا گن کو دیکھتے دیکھ لوں گا میں تمہیں ۔۔۔ اشعرکو کہتے اپنے دوست کو لیے بھاگ گیا ۔۔۔۔
اشعر نے غصے سے اپنی مٹھیاں بیچ لیی وہ اپنا غصہ پر جیسے کنٹرول کر رہا ہو ۔۔۔
اس نے موڑ کر دیکھا تو اقصیٰ بری طرح ڈری ہوئی تھی وہ ارشیا کے گلے لگے رورہی تھی
اشعر۔نے ارشیا کو دیکھا جو اپنا ڈر بھولائے اقصی سے کہہ رہی تھی کچھ نہیں ہوا اقصیٰ سب ٹھیک ہے ۔۔۔ بس کرو اب رونا ۔۔۔۔ پر اقصیٰ نہیں چپ ہو رہی تھی
ارشیا خود بھی اتنا ہی ڈری ہوئی تھی پر اپنے سے زیادہ اس کی فکر تھی ۔۔۔۔ ارشیا نے اقصیٰ کو لیے گلی سے باہر چلنا شروع کر دیا ۔۔
اشعر نے ارشیا کو فکر ، ناراضگی سلامتی ، حیرانی سے دیکھا ۔۔۔ ایک پل میں وہ ارشیا کے لیے بہت سے احساس سے گزرا تھا ۔ وہ خوش تھا ان کو محفوظ دیکھ کر ۔ ۔ پر اس کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلتے چلتے وہ گلی سے باہر ائے تو اصف بھاگتا ہوا ارہا تھا ۔ اقصیٰ کو دیکھتے کیا ہوا اسے ۔۔۔۔۔ اقصیٰ نے مزید رونا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔
اشعر اور ارشیا کو دیکھتے ۔۔۔۔ ارشیا کچھ نہیں ہوا وہ بس وہ تھوڑا ڈر گئی ہے ۔۔۔ ڈری وی تو وہ خود بھی تھی پر اپنے ڈر کو قابو کیے وہ اقصیٰ کو سنبھال رہی تھی ۔۔۔
اصف پر کیوں ڈری ہوئی کیا ہوا اسے اور تم دونوں غائب کہاں ہو گئی تھی پتہ ہے ہم کتنا پریشان ہوئے ۔ ایک پل کو زمین کھسک گئی ہمارے پاؤں کے نیچے سے ۔۔۔۔
کچھ ہو جاتا تو ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اشعر نے غصے سے دونوں کو دیکھتے پوچھا ۔ کس کا پلان تھا یہ ۔۔۔۔؟؟؟
ارشیا نے سر اٹھائے اسے دیکھا پر اس کے غصے کو دیکھتے کچھ بول نہ پائی ۔ اصف نے فورا کیا پلان ۔۔۔؟؟؟
پر پھر اشعر کی بات سننے کے بعد اقصیٰ کیوں کرتی ہو یہ سب ۔۔۔۔ ۔۔ اصف نے غصے سے پوچھا ۔ ۔۔۔۔ اصف کو جس بات کا خدشہ تھا وہ سچ میں اس سے گزر کر ارہی تھیں ۔۔۔
ارشیا نے اقصیٰ کا الزام اپنے سر لینے کی کوشش کی پر اصف اچھی طرح جانتا تھا اقصیٰ کو ۔۔ اس لیے ارشیا پلیز اس کا الزام خود پر مت لو ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں اسے ۔ ۔ ایسے بے وقوفوں والے کام یہی کر سکتی ہے ۔
اقصیٰ ایک بنچ پے بیٹھی سن رہی تھی اصف اسکے سامنے چلتے پھرتے اس ہر ایک سکینڈ بعد کچھ نہ کچھ بولا رہا تھا ۔۔۔ ارشیا اور اشعر پیچھے کھڑے اصف کو بولتے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
اشعر اپنے نظریں ارشیا پر مرکوز کیے ۔ سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ اسے۔۔۔۔۔وہ بھی اقصیٰ کے ساتھ تھی پر ایک آنسو نہیں بہا تھا جیسے وہ اس لڑکے کے سامنے بہادری سے کھڑی تھی ۔ اسے بہادری کہیے یا بے وقوفی وہ سمجھ نہ پایا ۔ اور اب ایسے پرسکون کھڑے دیکھ وہ سچ میں ارشیا کو نہیں سمجھ پاتا تھا ۔۔۔۔ اس کی ہر حرکت اسے ارشیا کے ایک نیو روپ سے ملواتی ۔۔۔
آصف اقصیٰ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ۔۔۔ رونا بند کرو پہلے غلطی کرتی ہو پر اب روئے جا رہی ہو ۔۔ تم جانتی پو کیا کیا ہے تم نے اپنے ساتھ ارشیا کی زندگی کو بھی مشکل میں ڈالا ہے تم نے ۔ اور تم ارشیا کو دیکھتے مجھے تم سے یہ امید بالکل نہیں تھی ۔ میں تمہیں اتنا سمجھدا ر سمجھتا تھا تم نے اس گھٹیا پلان میں اس کا ساتھ کیسے دے دیا۔۔۔
وہ کچھ کہتی ۔۔۔۔ اقصیٰ روتے ہوئے تمہیں فکر ہی نہیں ہے میری ۔
اصف نے غصے سے اسے دیکھتے ہاں مجھے فکر نہیں ہے کزن تھا تب مجھے فکر نہیں تھی دوست بنا تب مجھے فکر نہیں تھی اب منگیتر ہو تب مجھے فکر نہیں ۔۔۔۔۔۔ تم چاہتی کیا ہو ۔۔۔۔ تمہاری ایک بے وقوفی تم دونوں کو کس مشکل۔میں ڈال سکتی تھی تمہیں انداز ہ ہے اس چیز کا ۔ اشعر نہ پہچتا تو جانتے ہو وہ تم دونوں کے ساتھ کیا کرتے ۔۔۔۔ وہاں کھڑے کوئی بھی وہ سب سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے آصف بس کرو وہ پہلے ہی رو رہی ہے ڈری ہوئی ہے ۔ تم اسے مزید مت ڈراؤ مجھے پتہ ہے تمہیں فکر ہے اسکی پر ۔ کچھ ہوا تو نہیں پھر جو ہوا نہیں اسکا بارے میں کیوں سوچنا ۔۔۔۔۔۔۔
اشعر کھڑے سب کو دیکھتا رہا۔۔۔۔۔ وہ بھی ارشیا کے لیے پریشان تھا ۔ اسے بھی ایسے ڈانٹنا چاہتا تھا اپنی فکر ظاہر کرنا چاہتا تھااس کے صحیح سلامت ہونے پے اپنی خوشی دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ پر اسکے پاس حق نہیں تھا جیسے اصف کے پاس تھا اقصیٰ کو ڈانٹنے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اصف پر بہت رشک ہوا اس وقت ۔۔۔۔
آصف چپ۔کر گیا وہی اقصیٰ کی رونے کی اواز بند ہوئی ۔۔۔۔
ایک دم خاموشی چھا گئی کوئی بھی نہ بولا ۔ اس خاموشی کو ٹیکسی ڈرائیور نے یہ پوچھتے ہوئے توڑا کہ کہیں جانا ہے ۔۔۔۔ اشعر نے اصف کو دیکھتے تم اقصیٰ کو لی کر جاؤ ہم کوئی اور ٹیکسی کر لیں گئے ۔ اصف کچھ کہتے کہ ارشیا نے بھی اشعر کی بات سے اگری کرتے ۔ اقصیٰ اور تم چلے جاو ۔۔۔ اصف اشعر کے گلے لگ کر ملا اسے ایک اور دفعہ شکریہ کہا ۔۔۔۔
ارشیا نے اقصیٰ کو گلے لگاتے جن سے محبت کرتے ہیں ان کا امتحان نہیں لیتے تم بہت لکی ہو اصف سچ میں بہت محبت کرتا ہے تم سے ۔ وہ اگر تمہیں کچھ کہتا ہے تو صرف اسلیے کہ اسے تمہاری فکر ہے ۔۔۔۔۔ اقصیٰ مسکرائی ۔ وہ ارشیا کی باتیں بہت جلدی سمجھ جاتی وہ باتیں جو اصف بھی اسے نہ سمجھا پاتا ۔۔۔۔ وہ لوگ چلے گئے ۔۔۔۔ ارشیا اب بنچ پر بیٹھ گئی ۔ اصف اور اقصیٰ کے لیے خوش ہوتی رہی ۔ اسے اقصیٰ پر رشک ایا ۔۔۔۔۔ ہر لڑکی ایسا ہی لائف پارٹنر چاہتی جسے اسکی فکر ہو ۔ جو اسکی قدر کرے ۔۔۔۔ اقصیٰ کے لیے ارشیا بہت خوش تھی ۔۔۔۔۔۔
اشعر کھڑا سڑک پر دیکھتا رہا ۔۔۔۔ ارشیا نے اشعر کی طرف موڑ کردیکھا ۔۔۔ اسے اتنا خاموش دیکھا پر کچھ نہ بولی ابھی تک وہ اشعر کے غصیلی انکھیں بھولی نہیں تھی ۔ ۔۔۔۔ جنہیں دیکھ کر وہ ایک دفعہ اقصیٰ کا رونا اور اپنا ڈر وہ بھول گئی تھی ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد ان کو ایک ٹیکسی ملی وہ دونوں بیٹھ گئے پر کوئی کسی سے نہ بولا ۔۔۔۔۔ پورا سفر خاموشی سے گزرا ۔ارشیا کو اتر وہ اس کے ہوسٹل کے اندر جانے تک کھڑا رہا ۔۔۔۔ کس خوف نے اسے گھیرے ہوا تھا وہ نہیں جانتا تھا بس ضروری تھا تو صرف ارشیا کا محفوظ ہونا ۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی۔لیٹ پہنچی تھی ارشیا۔۔۔۔۔ پلوشہ ابھی جاگ رہی تھی اسکے لیے ۔۔۔۔ اسے دیکھتے شکر خدا کا تم ائی ۔ کب سے کال کر رہی ہوں اٹھا کیوں نہیں رہی تھی ۔۔۔
ارشیا نے اپنے لیے اتنی فکر دیکھتے مسکرا ئی ۔۔ کال مجھے تو کوئی کال لیکن سیل دیکھتے سوری سوری یہ سئلنٹ پے تھا مجےے پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔ ۔۔۔
تم ایک دفعہ خود کال کر کے بتا نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔ پتہ۔میں کتنی پریشان تھی ۔۔۔ پلوشہ کو اسکی لاپرواہی بہت ہی بری لگی ۔۔۔
ارشیا نے موڑ کر دیکھتے سوری ائندہ دھیا ن رکھو گئی ۔
پلوشہ نے فورا سوری پاس رکھو اب جاو فریش پو کر سو جاو صبح افس بھی جانا ہے تم نے ۔ پہلے ہی لیٹ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا فریش ہو کر ائی تو پلوشہ تب تک سو چکی تھی ۔ وہ بہت جلدی سوتی تھی پر اج وہ اس کے لیے اتنے دیر جاگتی رہی تھی ۔۔۔
اسنے سیل اٹھائے صرف علی کو میسج کیا کہ وہ ٹھیک ہے واپس اگئی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہوا اسکے اتنے سارے میسجز کا جواب ایک میسج۔میں دیتے اسنے سیل سائیڈ پر رکھ دیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ بیڈ پرلیٹتے ایک دفعہ پھر سب یاد کیا ۔ سب کچھ یاد گار تھا اج اسکے لیے ۔۔۔۔ سپیشلی اشعر کا اسکے سامنے دیورا بن کے کھڑا ہونا ۔۔۔ اشعر آہستہ آہستہ اسکے دل۔میں اپنی جگہ بنا رہا تھا ۔۔ وہ سب سوچتے سوچتے کب سوئی اسے اندازہ نہ ہوا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ کا بھائی اسے لاوئچ میں دیکھتے ۔ کیا ہوا کیا سوچ رہی پو وہ جو اشعر کا گیفٹ لیے ابھی تک بیٹھی تھی ۔۔۔۔ فرحان کو دیکھتے نہیں کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔
ہمم کافی اچھی لوکیگز ہیں تمہارے ۔۔۔ اسنے سیل پر کچھ کرتے اسے کہا۔۔۔۔۔
صبیحہ مسکرائی ۔ کیونکہ فرحان بہت کم تعریف کرتا تھا ۔۔۔ کسی کی ۔۔۔۔
وہ دونوں کپلز تھے جو ٹیبل کی دوسری طرف بیٹھے تھے ۔۔۔
صبیحہ اس بات پر گڑبڑائی وہ۔سمجھ گئی کہ دوسری سائیڈ پر کون بیٹھا تھا۔۔۔ نہیں بالکل نہیں ۔۔۔۔ لیکن پھر اقصیٰ اور آصف کا سمجھتے ہاں اقصیٰ اور اصف کی انگیجمنٹ ہوئی وی ہے ۔۔۔
فرحان نے پہلی دفعہ سر اٹھائے اسے دیکھا ۔۔۔ ہممم اور وہ ساتھ بیٹھے تھے ان دونوں کی؟؟؟
ساتھ اشعر اور ارشیا ؟؟؟ نہیں تو ۔۔۔۔ وہ جس بات سوچنا نہیں چاہتی تھی اس کا بھائی وہ بات کر رہا تھا ۔۔۔
ہممم تم۔نے شاید دھیان نہیں دیا ۔۔۔ مجھے تو وہ کپل لگے ۔۔۔ سیدھے ہو۔کر بیٹھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبیحہ کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ فرحان نے اسکی خاموشی کو نوٹس لیے بنا ۔۔۔
کافی کیئر کرتے ہیں ۔۔اپنے عمل سے ظاہر بھی کرتے ہیں دیکھا نہیں تھا ٹیبل۔پے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے لگتے ہیں ۔۔۔ ۔۔ تم کیا کہتی ہو اس بارے میں ۔۔۔ ۔۔۔ ؟؟؟
وہ کچھ کہتی کہ ہانیہ ٹپک پڑی ۔۔۔ فرحان نے ہانیہ کو دیکھا ۔ صبیحہ نے فورا میری دوست ہے ہانیہ۔ اج رات یہی روکے گئی ۔
فرحان کو کیا مسئلہ ہو سکتا تھا ۔ کون سا پہلی دفعہ اسکی کوئی دوست روک رہی تھی ۔۔ ۔۔۔ اسے اس بات کا جواب دیے بنا ۔ میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ۔ سٹڈی ٹیبل۔پے ایک فائل۔رکھی ہے وہ پلیز پاپا کو دے دینا ۔۔۔۔ کہتا اپنے روم کی طرف چلا گیا ۔۔۔
ہانیہ نے صبیحہ کا اوف موڈ دیکھتے ۔۔۔۔ اشعر کا گیفٹ اٹھا کر کھولنا شروع کر دیا صبیحہ جس کا دھیان ابھی فرحان کی باتوں میں اٹکا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔ غائبدماغی سے سوچتے ۔۔۔۔
تمہیں اشعر پسند کرتا ہے ۔۔۔۔ ساتھ ہی گیفٹ کھول کر اسکے سامنے کیا ۔۔۔ جس میں ایک بہت ہی نفیس لیکن اچھی خاصی منہگی انگوٹھی تھی ۔ صبیحہ نے اسکی بات سنی پر انگوٹھی کو دیکھتے وہ جیسے باقی سب بھول گئی ۔۔ انگوٹھی کو دیکھتے ہی اسکے منہ سے ۔ بیوٹفل نکلا ۔۔۔۔۔
اشعر تمہیں پسند کرتا ہے اس نے ایک دفعہ پھر اپنی بات دوہرائی ۔۔۔۔
صبیحہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ہاں سچ کہہ رہی ہوں کوئی کسی کو پسند کرتا تب ہی تو اسنے رنگ دیتا
رنگ کا مطلب تو تم جانتی ہو گئی ۔۔۔ جب کوئی لڑکا لڑکی کو رنگ دءیتا ساتھ ہی اسنے صبیحہ کے بدلتے رنگ اور خوشی کے جذبات ابھرتے دیکھا ۔۔۔۔
صبیحہ جہاں پریشان ہوئی وہ چاہتی تھی بس کوئی اسے اکر کہہ دے کہ اشعر اسے پسند کرتا ۔کوئی ایک چھوٹا سا چراغ تھما دے یہ کام ہانیہ۔نے کر دیا تھا ۔ اسے چھوٹی سے جھوٹی امید دلا دی تھی ۔۔۔
صبیحہ تمہیں لگتا وہ شرمائی ۔۔۔
ہانیہ۔نے محظوظ ہوتے ہاں ۔ یار ۔ ہم لڑکیوں کی یہ والی حس کچھ زیادہ ہی شرپ ہوتی ساتھ ہی انکھ ماری ۔۔۔ اور مجھے لگتا نہیں یقین ہے ۔۔۔۔
صبیحہ نے خوشی سے میں ۔۔۔ میں بھی بہت پسند کرتی ہوں اسے ۔۔۔۔۔
ہانیہ مسکرائی وہ جو اسکے دل۔میں جگہ بنانا چاہتی تھی اسکی پہلی اینٹ اسنے اشعر کی جھوٹی محبت کا دلاسہ دے کر صبیحہ کے دل میں رکھ دی تھی ۔۔۔
صبیحہ کو جیسے اندھرے میں اشعر کی محبت کا جگنو مل گیا تھا۔۔۔
ہانیہ اسے دیکھتے پر ایک پروبلم ہے ؟؟؟
صبیحہ کی مسکراہٹ سیمٹ گئی ۔۔۔
تم اکیلی نہیں جو اس سے محبت کرتی کوئی اور بھی ہے ۔۔۔۔۔
صبیحہ نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ارشیا کی بات کر رہی ہو۔۔۔۔
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔
اسنے تمہیں خود بتایا ۔۔؟؟؟ صبیحہ نے ہانیہ سے پوچھا۔۔۔
بتایا تو نہیں پر میں خود محسوس کیا کہ وہ اشعر کو پھنسا رپی اپنی باتوں میں ۔۔۔ دوستی ہے ہماری اتنا تو جانتی ہوں گی اسے میں کہ وہ جیسے دیکھتی ہے ویسے ہے نہیں ۔۔۔۔ وہ اشعر کو پھنسا رہی ہے ۔ اسکے لیے لنچ لا کر ۔۔۔اسکے ساتھ ا جا کر ۔ اسکی باتوں کے الٹے جواب دے کر ۔۔۔
صبیحہ نے فورا اور اشعر کیا وہ بھی ۔۔؟؟ وہ اگے نہ بول پائی ۔۔
ہانیہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے نہیں نہیں بالکل نہیں اسکا رویہ تو ہمیشہ نارمل۔ہوتا جیسے ہم سب دوستوں اور۔ لوکیگز کے ساتھ ۔ اس کا الگ رویہ تو تمہارے ساتھ دیکھنے کو ملتا ۔ بہت عزت کرتا ہے وہ۔ تمہاری ۔ اور محبت کی ابتدا بھی عزت ہے اور اتنہا بھی عزت ہے ۔۔۔۔
صبیحہ نے اسکی باتوں کو سوچتے وہ سچ میں اسکی بہت عزت کرتا تھا بہت امپورٹنس دیتا تھا اسے ۔۔۔۔ جب وہ بات کرتی پوری سنتا پھر کچھ کہتا ۔۔۔۔ زیادہ تر اسکی بات ہی مانتا ۔۔۔۔
لیکن ارشیا کا سوچتے ۔۔۔ ارشیا کا کیا کریں ۔۔۔۔
میرے پاس ایک پلان ہے اگر تم چاہو تو بتا سکتی ہوں جس سے ارشیا کو یہ پتہ بھی چل۔جائے کہ اشعر تمہیں پسند کرتا اسے نہیں ۔۔۔۔ ہانیہ نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔
صبیحہ نے فورا کیا پلان ہے؟؟؟
ہمیں بس ہر بات پے ارشیا کو یہ احساس دلانا ہے کہ وہ کون ہے اور اشعر کی زندگی میں اسکی ایک دوست سے زیادہ اہمیت نہیں ۔۔۔ تم پرفیکٹ ہو اس کے لیے ۔۔۔۔ ہانیہ۔نے ڈھکے ہوئے لفظوں میں کہا ۔ وہ صبیحہ کی دوستی کی اڑ میں ارشیا پر سے اپنا غصہ نکال رہی تھی ۔۔۔
وہ کیسے ۔۔۔۔ صبیحہ نے سوچتے پوچھا جیسے وہ ہانیہ۔کی بات سمجھ نہ۔پائی ہو ۔۔۔
وہ تو کل صبح تمہیں میں بتاوں گی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تم فکر مت کرو اشعر اور تمہیں ملوانا اب میرا کام ۔۔۔۔
صبیحہ نے اسکی مشکور ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ تھنکیو مجھے سمجھنے کے لیے ۔۔۔۔۔
ہانیہ نے موقع پر چوکا مارتے یار دوست ہوں تمہاری میں نہیں سمجھو گئی تو کون سمجھے گا۔۔۔۔
صبیحہ مسکرائی ۔۔۔۔
ہانیہ نے اسے مسکرا کر دیکھتے صبیحہ کی گڈ بوکس میں انے کے لیے وہ ایک ساتھ تین لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والی تھی ۔۔۔
اشعر کو ارشیا سے دور کر کے صبیحہ سے قریب کر کے جہاں وہ اشعر سے اپنی انسلٹ کا بدلہ لیتی وہی ارشیا کا دل دکھا کر وہ اسے مزا چکھانے کا سوچ رہی تھی کہ اس کی شکایت لگانے کا کیا انجام ہوتا پے ۔۔۔۔۔ اس بیچ اگر کچھ بھی ہوتا صبیحہ کے ساتھ تو صبیحہ کی سپورٹ اسے پورا ملتی کیونکہ اسنے تو اسکی مدد کی تھی ۔۔۔۔
۔ وہ انگوٹھی کو کافی دیر دیکھتی رہی ۔۔۔ پھر ہانیہ کو دیکھتے ۔۔۔۔ چلو سونے چلتے ہیں ۔۔۔ گیفٹ اٹھائے ۔۔ ہانیہ بھی اپنی جگہ سےاٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگی ۔ ہانیہ کو اسکے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنی کمرے میں اکر پھر سے اس گیفٹ کو دیکھنے لگی اور آشعر اور اپنی لیے عجیب سپنے بوننے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن اشعر صبح ان کے ساتھ افس نہ ایا ۔ وجہ نہیں جانتی تھی نہ ہی علی سے اشعر کے بارے میں پوچھ پائی کیونکہ وہ ا احد کے کل کی سپورٹس ڈے کی کہانیاں علی سے سنتی رہی اور کچھ اپنی بتاتی رہی ۔۔۔۔
افس میں روز کی طرح ہی چہل پہل تھی پر ایک الگ محسوس کی جانے والی خوشی بھی تھی ۔۔۔
اصف بہت خاموش تھا وہ اقصیٰ سے بات نہیں کر رہا اور اقصیٰ بھی اسکے اتنا ڈانٹنے پے اس سے ناراضگی جتا رہی تھی ۔۔۔ ۔ دونوں ارشیا سے بول رہے تھے ۔ پر کل تک والا جوش کچھ نہیں تھا ۔۔ ادھر وہ اشعر کو صبح سے نہ دیکھنے پر کافی بچین تھی ۔ ۔
لنچ پر اج کوئی بھی محو گفتگو نہ تھا۔ جہاں اصف اشعر کے ساتھ الگ بیٹھے لنچ کر رہا تھا وہی اقصیٰ عفیفہ اور ارشیا الگ بیٹھی تھی ۔۔۔ ارشیا کو اشعر کا رویہ سمجھ نہیں ارہا تھا ۔۔۔ وہ اس واقعے کے بعد ٹوٹل خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا ۔ یہاں تک کے اسنے اج ارشیا سے لنچ بھی نہیں لیا تھا۔ اقصیٰ جہاں اصف سے ناراضگی قائم کیے ہوئے تھی پر اج اسکے رویہ اسے ثکلیف دے رہا تھا اج تک وہ اس سے کبھی ایک گھنٹے سے زیادہ ناراض نہ ہوا تھا غلطی اقصیٰ کی ہوتی پر وہ ہمیشہ سوری بولتا ۔۔۔ لیکن اج رات سے صبح اور صبح سے دوپہر ہو گئی تھی پر وہ اس سے نہ بولا تھا ۔۔۔۔
ارشیا بار بار اشعر کو دیکھتی ۔ ۔۔۔ دل میں سوچتے وہ کیوں بات نہیں کر رہا اس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر اشعر اپنی ہی کشمکش میں تھا ۔ اسے یہی بات بے چین کیے ہوئے تھی کہ اسکے پاس حق نہیں ارشیا کو اپنی فکر محبت یا اسکے لیے اپنی فیلنگز دیکھانے کا۔ ۔۔۔۔۔ رات بھر وہ سویا نہیں تھا یہ اسکی انکھیں بتاتی تھی ۔ جب سوتا رات کا وہ منظر یاد کر کے ارشیا کے لیے ڈر جاتا ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس چیز کا حل جیسے اسے سوج ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔
عفیفہ نے سب کو دیکھا اج کوئی لنچ نہیں کر رہا تھا کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔ اسنے بھی لنچ نہ۔کیا ۔ وہ وہی کرتی جو سب کر رہے ہوتے ۔۔۔۔
اقصیٰ نے جب مزید برداشت نہ ہوا تو وہ وہاں سے اٹھ کر واش روم چلی گئی ۔۔۔
ارشیا نے اسے اواز دی پر تبھی ہانیہ ٹپک پڑی کہ سر وقار کوئی فائل۔مانگ رہے ہیں ۔۔۔ وہ اس کے پیچھے جانا چاہتی تھی ۔ پر سر وقار کا کام تھا فائل بھی اسکے پاس تھی اسلیے عفیفہ کو اسکے پیچھے بھیج کر وہ خود ہاینہ کے ساتھ اگئی ۔۔۔۔
ارشیا اپنی ٹیبل سے فائل نکال رپی تھی جو وہ سامنے رکھ کر گئی تھی پر اب وہ وہاں نہیں تھی ۔۔۔
صبیحہ نے ہانیہ کو اکر کہا تم۔نے دونوں لنچ نہیں کرنا ۔۔۔
ہانیہ نہیں وہ سر وقار کو فائل چاہیے وہ دینی ہے ارشیا نے پتہ نہیں کہاں رکھ دی ہے ۔ صبیحہ ارشیا کو دیکھتے جو فائل ڈھونڈ رہی تھی ارشیا ایک فائل نہیں سنبھالی جاتی تم سے ۔ مسکراتے اس پر طنز کیا ۔۔۔ ارشیا نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ اسے فائل کی زیادہ ٹینشن تھی ۔۔۔۔
ہانیہ فورا یہ اشعر والی رنگ ہے نا ۔ صبیحہ کا ہاتھ پکڑتے ۔۔۔۔۔
ارشیا کا ہاتھ ایک دم روکا۔۔۔۔۔
صبیحہ مسکرا کر شرماتے ہاں وہی ہے کل جو دی اسنے مجھے ۔۔۔۔
ارشیا اسکا شرمانہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔۔
اس نے عجیب عالم میں دوبارہ سے فائل۔ڈھونڈنی شروع کر دی ۔۔۔۔ دماغ صبیحہ اور ہانیہ۔کی باتوں پر تھا
ہانیہ نے ارشیا کو دیکھتے ۔ بہت مہنگی لگتی ۔۔ کوئی اتنا مہنگا گیفٹ ایسے ہی نہیں دیتا کچھ تو چل۔رہا ہے تم دونوں کا ۔ صحیح کہا نا ۔۔۔۔ ۔ صبیحہ اس بات کو محسوس کیے بنا کہ ہانیہ یہ سب ارشیا کو سنانے کے لیے کر رہی ۔
وہ سمجھی کہ وہ اسے چھیڑ رہی ہے ۔۔۔ مسکراتے ہاں یہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔۔ ارشیا نے صبیحہ کو دیکھا جو اپنی ہی دھن میں تھی ۔ جو اج سچ میں اس انگوٹھی کو پہنچ کر بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ ارشیا کو کم از کم اسے دیکھ کر یہی لگا ۔۔۔
فائل اسکے ڈسک پر پڑی فائلز میں سب سے اخر پر رکھی ہوئی تھی ۔۔۔ اسنے نکال کر ہانیہ۔کو دی فائل ۔۔۔۔
اسکے چہرے سے کچھ عیاں نہ تھا کہ اسنے ان کی باتیں سنی یا نہیں ۔۔۔۔ ہانیہ اندازہ نہ۔کر پائی ۔۔۔ اسلیے اس کا بازوں پکڑے ۔ روکوں روکوں کہاں جا رہی ہو ۔ صبیحہ کی انگوٹھی تو دیکھو چہکتے ہوئے اسنے ارشیا کو روکا ۔۔۔
صبیحہ نے بھی مسکراتے اپنا ہاتھ اگے کیا ۔۔ اسنے انگوٹھی لیفٹ ہاتھ کی رنگ فینگر میں پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔
ارشیا نے انگوٹھی دیکھتے بہت اچھی ہے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔۔
وہ۔کچھ اور کہتی ارشیا کا سیل۔بجا وہ ایکسیوز کرتے چلی گئی ۔۔۔
ہانیہ اسے جاتا دیکھو شو تو ایسے کر رہی ہے جیسےاسے فرق نہیں۔پڑا ۔۔ صبیحہ نے بھی موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔ ہو سکتا واقع ہی اسے فرق نہ پڑا ہو ۔ ہانیہ کو کہا ۔۔۔
ادھر ارشیا نے کال اٹینڈ کرتے احد کی رونے کو اواز سنتے کیا ہوا علی اسے یہ رو کیوں رہا ہے ۔۔۔
علی نے پریشانی سے اپی بخار ہے اسے کل رات سے پر ابھی بہت رو رہا ۔ اپکو بار بار بولانے کا کہہ رہا ۔۔ بتایا ہے اپ افس میں ہے پر مان نہیں رہا ۔۔
ارشیا سنتے ہی اچھا پریشان نہ ہو ۔۔۔ کوشش کرتی ہوں انے کی تم ۔۔۔ تم نے ڈاکٹر کو دیکھایا ۔۔۔۔
علی نے جی دیکھایا تھا صبح پر ارام نہیں ایا ۔ ۔۔۔۔ تیز ہو گیا ہے بخار ۔۔۔
اچھا تم رکھوں فون ۔ اسے لے کر ہوسپٹل چلو میں وہی اتی ہوں ۔۔۔۔
وہ وہی سے واپس موڑی ہانیہ اور صبیحہ ابھی بھی وہی تھی ۔۔ ہانیہ میں یہ فائل لے کر چلی جاؤں سر کے پاس مجھے کچھ کام ہے سر سے ۔۔۔۔
ارشیا کو پریشان دیکھتے کیا ہوا ؟؟؟
کچھ نہیں ۔۔۔۔ کہتے وہ فائل لے کر چلی گئی ۔۔۔۔
ہانیہ نے فورا صبیحہ جو دیکھتے فرق تو پڑا اسے دیکھ لو ۔ اج کے دن وہ تمہیں دوبارا نظر نہیں انے والی ۔۔۔۔ دیکھ لینا ۔۔۔۔ اس سے برداشت نہیں ہوا تمہارے ہاتھ میں اشعر کی رنگ دیکھنا ۔۔۔۔۔ اب وہ اشعر سے بات بھی نہیں کرے گئی ناراضگی جتائے گی ۔۔۔
ارشیا نے سر وقار کے پاس گئی لیکن وہ نہیں تھے اسلیے وہی سے سر حیدر کے پاس چلی گئی ۔ سر حیدر نے اسے چھٹی دی وہی وہ فائل اپنے پاس رہھ لی کہ وہ سر وقار کودے دیں گے ۔۔۔۔ سر حیدر کے افس سے نکلتے ہانیہ اور صبیحہ دونوں نے دیکھا اسے ۔۔۔۔۔
ارشیا فورا علی کو کال کرتے کہ اسے بھی راستے سے پک کر لے ۔۔۔ افس سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ بیماری میں بچے چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور احد تو ایک دفعہ پہلے بھی وہ دیکھ چکی تھی وہ اس کے علاوہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔۔۔۔
وہ احد کو گود میں لیے علی سے رات کی اس کی کنڈیشن ٹمپریچر اور دوائیوں کے بارے میں پوچھتی رہی ۔۔۔۔ وہ علی سے کافی خفا تھی اسے صبح اسکے پوچھنے پر بھی احد جی حالت کے بارے میں نہ بتانے پے ۔ پر فئ حال اسے صرف احد کی فکر تھی ۔۔۔۔۔۔
ہوسپٹل پہنچ کر انہیں پتہ چلا کے اسے ننانوے بخار ہے ۔۔۔۔ اس لیے اسے ہوسپٹل میں ہی رکھا تاکہ بخار کم ہو تو پھر وہ اسے گھر جانے دیں گئے ۔۔۔۔۔۔
ارشیا احد کو سلا کر باہر آکر بینچ پے بیٹھی جہاں پہلے ہی ایک عورت بیٹھی تھی ۔۔۔ ارشیا کو دیکھتے ۔۔۔۔
پریشان نہ ہو ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ ارشیا پریشانی میں مسکرائی ۔ اتنے میں علی ایا تو وہ اٹھ کر اس کی بات سننے لگی جو اسے کچھ رپورٹس دیکھا رہا تھا ۔ جو ٹیسٹ ڈاکٹر نے کروانے کو کہے تھے ان کی رپورٹس تھی ۔۔۔ ارشیا روپورٹس لیے واپس اکر بیٹھے روپورٹس دیکھنے لگی ۔ یہ کون ہے اس بوڑھی عورت نے پو چھا ۔۔۔۔
ارشیا کا دھیان روپورٹس کی طرف تھا جس کی اسے کھک سمجھ نہیں ارہی تھی ۔۔۔ جی دونوں بھائی ہیں میرے ۔۔ اس عورت نے اس کے بعد وقتاً فوقتاً س والوں کی بوچھاڑ کرتی رہی ارشیا بھی جواب دیتی رہی ۔۔۔۔۔ کہاں رہتی ہو کیا کرتی ہو کون کون ہے گھر میں ایسے بہت سے سوالوں کے جواب دینے کے بعد بھی وہ عورت اس کے پاس سے نہ
پلوشہ بھی ہوسپٹل اگئی احد کو پوچھنے ۔۔
ارشیا اسے احد کی حالت کے بارے میں بتاتی رہی ۔۔۔ علی ایا ڈاکٹر کے ساتھ تو ارشیا اس عورت سے ایکسیوز کرتے پلوشہ کے ساتھ احد کے پاس چلی گئی
ڈاکٹر کو جس چیز کا خدشہ تھا وہ نہیں تھا ۔۔۔ روپورٹس دیکھنے کے بعد احد کو چیک کیا اس کا بخار پہلے سے کم تھا اسلیے انہیں گھر جانے کی اجازت مل گئی
ارشیا اور پلوشہ احد کو اپنی ساتھ ہوسٹل لے آئیں ۔۔
احد کے لیے پلوشہ بھی پریشان تھی ۔۔۔۔ احد نے اس دن پلوشہ کا جیسے خیال رکھا تھا اپنی اپی کے ہر حکم کو مانا تھا پلوشہ حیران ہوئی تھی اس بچے کو دیکھ کر اس دن ۔۔۔۔ اور اج اسے دیکھتے اسے بہت دکھ ہوا ۔۔۔ جو ایک دن میں مرجھا گیا تھا ۔۔۔
ہوسٹل اکر پلوشہ اور ارشیا نے احد کا بہت خیال رکھا
اس دوران بھی ارشیا کا فون وقتاً فوقتاً بچتا رہا وہ جو علی کا سوچ کر سیل چیک کرتی پر ربیعہ کا نام دیکھ کر چھوڑ دیتی ۔۔۔
ربیعہ سے اس کی ابھی تک صحیح بات نہ ہوئی تھی لیکن وہ اسکی مستقل مزاجی دیکھ کر حیران تھی جو ہر منٹ کے ایک ایک سکینڈ اسے میسج کرتی تھی ۔۔ لیکن اج اسے بار بار میسج کرنے پے بہت غصہ ارہا تھا۔ پر کیا کہتی اسے کہ میسج نہ کرے وجہ کیا بتاتی ۔
پلوشہ نے بہت ہیلپ کی اسکی احد کو سنبھالنے میں ۔ دوسرے دن یونیورسٹی میں پلوشہ کا کوئی ایونٹ تھا اسلیے ارشیا نے اسے زبردستی بھیج دیا ۔۔۔ احد کی طبیعت پہلے سے بہت بہتر تھے ۔۔۔ وہ احد کے ساتھ تھی ۔۔۔۔ اسے اقصیٰ اصف کی کال ائی تھی جو اسکے کل ایسے جانے اور چھٹی پر پریشاں تھے پر اشعر نے نہ اسکا کسی سے پوچھا تھا اور نہ ہی ابھی تک خود اسے کال کی تھی ۔۔۔۔ اب وہ علی کے ساتھ بھی نہیں جاتا تھا افس ۔۔۔۔ وجہ کیا تھی وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسے سوچ کر بھی کوئی وجہ نہ ملی جس سے ایک رات میں اس کا رویہ بدلا تھا ۔۔۔
ادھر سے صبیحہ اور ہانیہ کی باتیں اسکے دماغ میں اور بہت سے وسوسے پیدا کرتی رہی ۔۔۔
__________
وہ ابھی سوچ رپی تھی کہ کسی نے اکر بتایا کہ باہر اس سے کوئی ملنے ایا ہے ۔۔۔۔ ارشیا کو لگا شاید سننے میں غلطی ہوئی کیونکہ علی سے سب واقف تھے اور علی کے علاوہ کوئی اس سے وہاں ملنے نہ اتا تھا ۔ اسلیے کنفرم کرتے کہ اسی سے کوئی ملنے ایا وہ باہر ائی ۔۔۔۔ اشعر کو باہر کھڑا دیکھ وہ حیران ہوئی ۔۔۔۔۔
آسلام وعلیکم اشعر نے اسے دیکھتے ہی کہا ۔
وعلیکم اسلام تم یہاں ۔کوئی کام تھا ۔۔۔۔ ؟؟؟
نہیں علی سے بات ہوئی تو اس نے احد کا بتایا میں سوچا پوچھ اوں اسے ۔۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے ہاں آجاؤ وہ اندر ہی ہے ۔۔۔
وہ کافی دیر احد کے پاس بیٹھا رپا اس دوران وہ اسے دہکھتی رہی پر وہ جیسے سچ میں صرف احد کے لیے ہی ایا تھا ۔۔۔
وہ چائے بنا کر لائی تبتک احد سو چکا تھا ۔ اسے چائے دیتے وپاں بیٹھ جاوں میں اسے سیدھا کر دیتی ۔۔۔
اشعر نے چپ چاپ چائے لے کر دوسرے بیڈ پر بیٹھ گیا
چائے پیتے وہ اسے دیکھتا رہا ۔ ۔
وہ احد کو لیٹا کر وہ وہی بیٹھ گئی ۔۔۔ اشعر کو چائے پیتے دیکھ چائے اچھی ہے اشعر نے بات چیت کی ایک کوشش کی ۔۔۔
ارشیا مسکرائی ۔۔۔ وہ کیوں اج الفاظ ڈھونڈ رپا تھا وہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔ جب وہ کچھ نہ کہہ پایا تو تم ٹھیک ہو اشعر کل رات کے بعد تم مجھے کافی خاموش لگ رہے ہو ۔
اشعر مسکرا دیا ۔ اسنے اسکی چپی محسوس کی تھی
مجھے پتہ ہے تم بھی ڈر گئے تھے پر میں اور اقصیٰ ٹھیک تھے کچھ نہیں ہوا ہمیں ۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو ادھر اصف بات نہیں کر رہا ادھر تم ۔ چلو اصف کا سمجھ اتا وہ اقصیٰ سے کیوں ناراض ۔پر تمیں کیا ہو ا۔۔۔۔؟؟؟ وہ اس سے پوچھ رہی تھی شکوہ کررہی تھی یا چپ رہنے پر ڈانٹ رہی تھی وہ سمجھ نہ پایا ۔۔۔
اشعر اسے دیکھتے ۔۔۔ میں چلتا ہوں ۔۔۔۔
ارشیا کو حیرانی ہوئی اج کے اسکے رویے پر ۔۔۔۔
چائے کے لیے شکریہ کہتے وہ روم سے نکل ایا ۔ ارشیا نے اسے جاتے دیکھے ۔۔۔۔ وہ وہی بیٹھی رہی ۔۔۔۔ اسکی غلطی کیا تھی ۔ وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔
اشعر اپنی گاڑی میں بیٹھتے کافی خوش تھا ۔ ارشیا نے اسکی چپی محسوس کی تھی یہی اس کے لیے کافی تھا
اسکے بنا روکے بولے الفاظ سن کر جیسے اسنے اسکی سماعتوں کو نئی زندگی بخشی تھی
اس لڑکی سے وہ شادی کی خواہش رکھتا تھا کل رات اب تک وہ یہی حل۔نکال پایا تھا ۔ اسی پاک رشتے کی بدولت وہ اپنی فکر اپنی محبت اسے دیکھا پاتا ۔ اسکا تحفظ کر پاتا ۔۔
___________
سر کمپنی کا کوئی ورکراس کام میں ملوث نہیں یہ کوئی اور ہی ہے جس کا ایک مہینے کے بعد بھی پتہ نہیں چل پایا ۔ پر ہوسکتا کل کی انوسمنٹ کے بعد کوئی پیش رفت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اسے یہ سب کال پر بتا رپا تھا ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔ کہ اس کی آنکھ سے ایسا کیا اوجھل ہے جس کو وہ نہیں دیکھ پا رہا ۔۔۔ کمپنی کے کرتے شیئرز کی وجہ کیا ہے ۔۔۔ کچھ سوچتے اسنے اسے نیو انسٹرکشن دی ۔ تم کل تک اس بارے میں مجھے روپورٹ کرو ۔۔۔ کہتے اسنے کال بند کر دی ۔
وہ اس سب میں صرف ایک بندے پر بھروسہ کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔ کام کے ساتھ ساتھ وہ کسی اور کو بھی نہیں بھولا تھا ۔۔
ہم نے مانا کے تغافلِ نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک