لنچ ٹائم۔میں وہ سارے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے ۔ ارشیا اقصیٰ اور آصف کا کوئی مسئلہ سلجھا رہی تھی ۔۔۔ ہانیہ جب دیکھو صبیحہ کا دم چھلا بنی رہتی ۔ وہ ہر ٹائم صبیحہ کو امپرس کرنے میں لگی رہتی اور عفیفہ جو نہ تین میں نہ تیرا میں ان دونوں کو دیکھتی رہتی ۔
آصف نے ارشیا کی طرف موڑتے مجھے بتاؤ میں کچھ غلط کہا ہے اسے جو یہ برا مان کے بیٹھ گئی ہے ۔ ارشیا جو پوری بات سن چکی تھی وہ اصف کی ہربات سے اگری کر تی تھی۔ ارشیا نے اقصیٰ کو دیکھتے جو ااسکے جواب کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔ جیسے اس کا جواب اسکے حق میں ہو گا ۔۔۔
مجھے لگتا اصف ٹھیک کہہ رہا ۔ تمہیں اسکی بات ماننی چاہیے ۔۔ وہ کہہ رہا کہ شادی کے بعد بھی تم جاب کرسکتی ہو ۔ میرے خیال سے وہ ۔تمہاری ی ساری باتیں مان رہے ۔۔۔ اقصیٰ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
ارشیا نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے جن کو اپکی فکر ہو انکی نیت پر شک نہیں کرتے ۔۔۔۔ اصف اس دوران جوس کے سیپ۔لیتے لاتعلقی ظاہر کرتا رہا ۔۔۔۔
اقصیٰ مسکرائی ۔۔۔۔ جیسے وہ اسکی اس بات سے اتفاق کرتی ہو
اشعر نے اتے ہی واہ بڑی رونق لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔ صبیحہ نے اشعر کو دیکھتے ہی اسکی کرسی کی طرف پہلو بدلا ۔۔۔ آؤ تم بھی جوائن کرو ۔۔۔
اصف نے اقصیٰ کو مسکراتے دیکھا سکھ کا سانس لیا ورنہ کل اسکے انکار پر اس کا دماغ ماوف ہوگیا تھا جس کی ہر بات ماننے کے بعد بھی وہ شادی سے انکار کر رہی تھی ۔۔۔
اشعر نے بیٹھتے ہی صبیحہ کو مجھے بھی بتاتی میں بھی اجاتا ساتھ ۔۔۔ خود محفل جما کر بیٹھے ہو سب ۔۔۔
صبیحہ نے فورا سوری مجھے پتہ ہوتا تم فری ہو گئے ہو تو میں ویٹ کر لیتی ۔۔۔ چلو کل تمہیں ساتھ ہی لے کر اوں گئی ۔۔۔ اشعر نے سر خم کیا جیسے شکریہ کہہ رہا ہو
ارشیا انکی دیکھتے انکی گفتگو سن رہی تھی ۔۔ اشعر نے اسےمادام زمین پر واپس اجائیں ۔۔۔۔ ساتھ ہی لنچ بوکس اپنی طرف کر لیا ۔ لنچ بوکس کھولتے ۔۔۔تم سب نے لنچ کر لیا
صبیحہ فورا نہیں ابھی سب نے کرنا ہے ۔ سب نے اپنے اپنے لنچ کھولے۔۔۔۔۔ ارشیا نے اپنا لنچ بوکس بیگ سے نکالا
صبیحہ اشعر کو ارشیا کا لنچ بوکس کھولتا دیکھ ۔۔ اشعر بس کرو اس بیچاری کا لنچ چھوڑ دو و ہ کیا کھائے گی ۔۔۔
ارشیا جو دوسرا لنچ بوکس کھول رہی تھی ۔ اشعر اشارہ کرتے وہ یہ کھائے گی ۔۔۔۔ میرا لنچ ارشی ہی لاتی ہے ۔۔۔
صبیحہ کی مسکراہٹ سمیٹ گئی ۔ صبیحہ نے اپنا لنچ بوکس کھولے اگے کیا تو ۔ اشعر نے فورا دیکھتے نہیں یار مجھے یہ چکن اتنا پسند نہیں ۔ کہتے ہی اقصیٰ جو اسے سبزی کی پیشکش کر رپی تھی اسنے اسکا ایک نوالا لیا ۔۔۔ ارشیا ہمیشہ کھانا کھاتے زیادہ خاموش رہتی ۔
اشعر ارشیا کے لنچ سے ایک نوالا لیتے وہ زیادہ مزے کا ۔۔۔۔ ارشیا نے پہلے اسکے لنچ پھر اپنے لنچ کو دیکھا دونوں سیم تھے پر اشعر کو دیکھتے جیسے تم پاگل ہو ۔ ایک۔منٹ دونوں کی انکھیں ملی ۔ صبیحہ نے غصے سے دونوں کو دیکھا ۔ ہانیہ جو صبیحہ کے ایکسپریشن دیکھ رہی تھی ہانیہ سمجھ گئی کہ اسے اب کیا کرنا ہے صبیحہ کی دل۔میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وہ مسکراتی ہوئی اپنا پلان ترتیب دیتی رہی اسنے سیب کا ٹکڑا منہ میں ڈالا ۔۔۔
اشعر ابھی بھی ارشیا سے بات کر رہا تھا ۔۔۔
صبیحہ کو اپنا اپ بےمعنی لگا ۔
اس نے خود کو کمپوز کرتے میں تم سب کو کل اپنے گھر انے کی دعوت دینا چاہتی ہوں ۔۔۔ سب نے اسے بیک وقت صبیحہ کی طرف دیکھا تو ۔
وہ ایک مہینہ ہونے والا ہے پھر کسی کی جاب کہاں ہو کسی کا کون سی کمپنی میں ٹرانس فر کیا جائے اسلیے میں نے سوچا کل سارے مل کر ڈنر کرتے میرے گھر ۔ سب سے پہلے اشعر بو لا ڈینر پر کافی لیٹ ہو جائے گا ۔۔۔
صبیحہ نے اتنا لیٹ نہیں ہو گا میں شیور کرتی ہوں ۔۔۔
اشعر نے صبیحہ پلان تو اچھا ہے میں ضرور اوں گا
ہانیہ وہ تو پہلے سے تیار تھی اسے پہلے ہی صبیحہ کا گھر دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔
اصف نے بھی اقصیٰ کو دیکھتے جس کا جانے کو دل تھا ہاں کر دی ۔ رہ ارشیا اور عفیفہ گئی ۔ عفیفہ نے تو معزرت کر لی ۔ پر ارشیا نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اشعر نے اپنی ساری توپوں کا رخ ارشیا کی طرف کرتے تم نہیں اوں گی ارشیا نے اسے دیکھا جیسے نہ کر رہی ہو پر صبیحہ اور باقی سب کو دیکھتے کچھ نہ بولی۔۔۔ اشعر نی فورا اسے میں لے آؤں گا ۔ تم لوگ فکر مت کرو ۔
ارشیا نے گھور کر اسے دیکھا جو اس سے مدد مانگ رہی تھی نہ میں ہییلپ کرنے کی پر ادھر اسنے ارشیا کے بی ہاف پے ہامی بھی بھر لی ۔۔۔
لنچ ختم ہوا تو صبیحہ بہت ناخوش تھی پر اشعر اسکے سامنے چٹکی بجاتے تم نے نہیں انا یا باقی کا کام یہاں بیٹھ کر کرو گی ۔۔۔
اسنے جیسے اسکی بات ہی نہیں سنی اس پاس دیکھتے سب جا چکے تھے ۔۔۔۔ اب چلو ۔۔۔ ورنہ سر حیدر سے اج دونوں کی کلاس لگے گئی ۔۔ میں تو کہہ دوں گا تمہاری وجہ سے لیٹ ہوں میں ۔۔
صبیحہ مسکرائی ۔ اشعر کی ٹوٹل اٹنشن پاکر وہ جیسے لنچ والی بات بھول گئی ۔ صبیحہ اٹھتے کتنے برے ہو تم اپنی دوست کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اسے سر کی ڈانٹ سے بچا لو ۔
اشعر اسے دیکھتے کر تو سکتا ہوں پر سر حیدر کی ڈانٹ زیادہ منگی پڑتی اسلیے دوست کی مدد پھر کی جا سکتی ہے صبیحہ چلتے چلتے کوئی جو جواب نہ ہو تمہارے پاس ۔ وہ۔دونوں اسی طرح باتیں کرتے ا اپنے ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے
___________
ارشیا واپس ائی افس سے تو اسنے روم سے ہنسنے کی آوازیں سنی ۔۔۔ اسے لگا شاید ہوسٹل میں سے کوئی ان کے روم میں ایا ہوا ۔ وہ روم کے اندر جانے لگی تو سامنے سر حیدر کو دیکھ فورا پیچھے ہٹی ۔۔۔۔ اسے جیسے اپنی آنکھوں پے یقین نہ ہوا ۔ پلوشہ جو باہر سے ارہی تھی اسے پریشان دیکھتے کیا ہوا یہاں کیوں کھڑی ہو ۔
پلوشہ میرے سر ائے ہوئے ہیں ۔ پلوشہ نے اگے ہو کر اندر دیکھا تو بابا کو دیکھ وہ سمجھ گئی کس کی بات کر رہی ۔ ہنسی سمیٹتے اچھا تو ملتے ہیں ان سے وہ اسے کھنچنے لگی اپنے ساتھ ارشیا ہاتھ چھوڑاتے نہیں میں نہیں جاوں گئی ان کے سامنے تمہیں پتہ انہوں نے اس دن مجھے کتنا ڈانٹا تھا جب کہ فائل ہانیہ کے پاس تھی ۔۔۔ پلوشہ نے اسے دیکھتے پھر سے ہانیہ ۔۔۔۔ مجھے لگتا تمہارے لائف کی ویلن ہانیہ ہے ۔۔۔۔ ارشیا نے اسکی بات کو ٹالتے میں نہیں جاوں گی اندر میں علی کے گھر جا رہی ہوں ۔۔۔ وہ جانے لگی کہ پلوشہ اسے کھنچتے ایسے کیسے تم سے ملنے کے لیے ائے ہیں اور تم بھاگ رہی ہو ۔ ارشیا نے ہاتھ چھوڑاتے نہیں پلوشہ پر پلوشہ کھنچ کر اندر لاتے پاپا اپ نے میری دوست کی انسلٹ کی وہ جو خوش ہوتے اپنی بیوی سے کچھ رہے تھے پلوشہ اور ارشیا کو دیکھتے ۔
پلوشہ نے انوسٹیگیٹر افیسر کی طر ح ہاتھ باندھے ۔
اسلام وعلیکم سر ۔۔
سر حیدر نے وعلیکم اسلام کہا
یہ تمہاری دوست ہے مجھے نہیں پتہ تھا ۔۔۔ ارشیا کو دیکھتے ۔۔۔ پلوشہ کی ماں اٹھ کر ارشیا سے گلے ملی ۔۔۔ اور اپنی پاس بیٹھایا ۔۔۔
پلوشہ ابھی بھی حیدر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔حید راپنی بیٹی کو دیکھتے بیٹا یہ مجھے بتا دیتی کہ اپ کی دوست ہیں تو میں ان کو نہ ڈانٹتا ۔۔۔ ساتھ میں مسکرائے ۔۔۔ پلوشہ انکی ہنسی دیکھتے ۔ اب پتہ چل گیا نہ آئندہ مت ڈانٹیے گا ۔۔۔ ارشیا کو سمجھ نہ ایا کہ کیا کہے ۔۔
پلوشہ ارشیا کو اٹھا کر اپنے ساتھ کھڑا کرتے چلیں ایک دفعہ پھر سے پلواتی ہوں یہ ہے ارشیا میری دوست
ارشیا یہ ہیں میرے پاپا اور میری ماما ۔۔ مسٹر اینڈ مسز حیدر ۔۔
سر حیدر نے ارشیا کو دیکھتے ہیلو بیٹا ۔۔۔ کیسی ہیں اپ ۔۔
ارشیا ان کے ایسا لہجہ دیکھ شو کڈ رہ گئی بہ مشکل گلا سے لفظ نکالتے میں ٹھیک ہوں سر ۔ پلوشہ اسے دیکھتے ڈرو نہیں یہ سر نہیں ہے تمہارے یہاں میرے پاپا ہیں میرے ہوتے ۔ہیں کچھ نہیں کہیے گے ۔۔۔۔ ارشیا نے پلوشہ کو دیکھا جو سچ میں شاید اسکی پوزیشن نہیں سممجھ پا رہی تھی
پھر اسے اپنے ساتھ بیٹھاتے وہ ان سے باتیں کرنے لگی جس میں پلوشہ کی ماما ارشیا سے کافی کچھ پوچھتی رہی ۔
پلوشہ انسب کے لیے کچھ کھانے کو لینے گئی تو سر حیدر نے ارشیا کو دیکھتے ۔ ہم یہاں تم سے بھی ملنے ائے تھے ۔
ارشیا کو جیسے غلط سنائی دیا مجھ سے ملنے ۔
ہاں پلوشہ تمہاری بہت تعریف کرتی ہے تمہاری وجہ سے وہ ہمارے پاس لوٹی ہے ۔۔۔۔۔ ہم تو امید چھوڑ چکے تھے کہ کبھی وہ ہماری فیلنگز کو سمجھے گی پر تم نے انجان میں ہی سہی ہم پر بہت احسان کیا ہے ۔۔۔۔۔ سر حیدر جہاں اسکے مشکور تھے وہی اسنے پلوشہ کی ماں کو اپنی آنکھیں صرف کرتے دیکھا ۔۔۔۔ ایک لوتی بیٹی ہے ہماری ۔ اسلیے فکر زیادہ رہتی تھی پر وہ ہماری فکر کو کچھ اور سمجھ بیٹھی تھی ۔ تمہاری وجہ سے اب وہ سمجھ پائی پے ہمیں ۔۔۔۔ تم ہمارے لیے فرشتہ بن کر ائی ہو ۔
ارشیا نے ان دونوں کو دیکھا جو اس کے اتنے مشکور تھے پر اسنے کیا کیا تھا ان کے لیے وہ جان نہ پائی تھی ۔۔۔ وہ کچھ کہتی کہ پلوشہ کہ ا واز ائی ۔۔۔ وہ اتے ہی تم نے لنچ کیا ۔ ارشیا کا دھیان نہیں تھا پلوشہ کیا پوچھ رپی ۔۔۔ وہ نہ بول پائی ۔۔
پھر ہانیہ تمہارا لنچ کھا گئی ۔۔۔ حید رکو دیکھتے پاپا بہت ہی عجیب لڑکی ہے اسکے گروپ میں ۔۔ وہ اس کا۔لنچ کھا جاتی ہے اپنا سارا کام بھی اس سے کرواتی ہے اور تواور جس دن اپ نے اسے ڈانٹا وہ فائل اسنے گم کی تھی ۔ حیدر نے ارشیا کو دیکھا جو پلوشہ کے ایسے کہنے پر شرمندہ ہو رہی تھی
انہوں نے مجھے بتایا نہیں جب میں نے پو چھا تھا وہ کچھ کہتی ارشیا نے فورا نہیں سر ایسی بات نہیں ۔۔۔
پلوشہ چھوڑو ان باتوں کو وہ تم سے ملنے ائے ہیں تم کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو ۔۔۔ پر پلوشہ نے ناک سے مکھی اڑاتے دوست ہوں مجھے پتہ تم نے تو کبھی بولنا نہیں تو میں ہی کیوں نہ تمہاری مدد کر دوں ارشیا نے غلط کیا تھا اسے بتا کر وہ سمجھ گئی تھی ۔۔۔ ہانیہ نامہ ختم کرتے پلوشہ حیدر کو بتاتی رہی کہ کس کس طریقے سے اس نے ارشیا کو تنگ کیا تھا ارشیا نے شکر کیا جہاں ہانیہ نامہ بند ہونے پر وہی اپنی اوپر ہوئے ظلم کا سن کر وہ زیادہ شرمندہ ہوتی رہی پر پلوشہ بولتی رہی ۔
وہ پلوشہ کے ساتھ سرحیدر کو باہر چھوڑنے ائی حیدر نے پلوشہ کو دیکھتے اب گھر او گئی نا ۔۔۔ پلوشہ نے مسکراتے ضرور لیکن ایک دو دن تک ۔۔۔ انہوں نےاسکے سر پر بوسہ دیتے جیسے تمہاری مرضی ارشیا کو بھی لے کر انا ۔۔۔۔ پلوشہ نے ہامی بھر لی ۔۔۔ وہ لوگ اس سے مل کر دعائیں دیتے چلے گئے
ارشیا فریش ہو کر کچن میں پلوشہ کی ہیلپ کرنے ائی پر وہ سب کچھ کر چکی تھی ۔۔
تمنے اکیلے کیوں کیا میں اجو رہی تھی ۔۔۔
پلوشہ نے بچا ہوا سامان فیرج میں رکھتے نہیں تھوڑا سا تھا کر لیا میں نے ۔۔۔۔ چائے پیوں گئی ۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے ہاں پر چائے اب میں بناؤ ں گئی تم بیٹھو
پلوشہ ٹھیک ہے۔ کہتے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔۔۔
وہ چائے کا پانی رکھتے ۔۔۔ تمہارے ماما بابا بہت اچھے ہیں بہت فکر کرتے ہیں تمہاری ۔
پلوشہ نے مسکراتے ہاں میں بہت لکی ہوں کہ۔مجھے ایسے پیرنٹس ملیں ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا جو میں ان کی ویلیو سمجھ پائی ۔۔۔
ارشیا نے چائے کی پتی ڈالتے میں نے ایسا کیا کر دیا ۔۔۔ انٹی اور سر بھی مجھے کہہ رہیے تھے ۔ میں نے ایسا کیا کیا ہے
بتا ہی دو مجھے واپس موڑ کر اسے دیکھتے ۔۔
پلوشہ یہ کیا سر لگا رکھی ہے انکل بولو ۔ سر وہ تمہارے افس میں ہو گئے ۔۔۔
ارشیا نے اسے مسکراتے ا چھا ۔۔۔ اب بات کو بدلو مت بتاؤ ۔
پلوشہ نے اسے دیکھتے تمہاری فیملی تم سے محبت نہیں کرتی نا ۔۔۔
ارشیا کا ہاتھ ایک۔منٹ روک گیا ۔۔۔ لیکن پھر خود کو سنبھالتے نہیں ایسا کچھ نہیں ۔۔۔۔
پلوشہ نے اسکے روکتے ہاتھ دیکھے تو مجھ سے جھوٹ مت بولو ۔۔۔ سات مہینوں سے ساتھ ہوں تمہارے ۔۔۔
پر ارشیا فورا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ وہ خود کا بہرم رکھ رہی تھی یا پلوشہ کا وہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔
پلوشہ نے اپنی بات کرتے پتہ ہے میں بچپن سے ماما بابا کے لاڈ پیار میں پلی بڑھی تھی ۔ ہر وقت ماما بابا ساتھ ہوتے ۔ مجھے گائیڈ کرنے کے لیے ۔۔۔ پاپا ماما میرے ائیڈیل۔تھے ۔
پاپا مجھے لے کر کافی محتاط رہتے ۔۔۔ شروع میں مجھے ان کا اپنے لیے اتنا کنسرن دیکھنا بہت اچھا لگتا ۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ۔مسکرائی ارشیا نے اسے چپ ہوتے موڑ کر دیکھا تو وہ کچھ سوچ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔
پلوشہ نے ارشیا کو دیکھتا پاکر ۔۔۔۔ پھر میں بڑی ہو گئی کالج شروع کیا تو۔پاپا مجھے روز چھوڑ کر اتے تھے ۔پاپا اور کبھی تو ماما بھی ساتھ اتی تھی ۔۔۔ میری روپورٹ لیتے ہر روز میرے ٹیچر سے ملتے ۔
مجھے اچھا لگتا تھا پر کالج میں مجھے ممی ڈیڈی بچہ سمجھا جانے لگا میں نے اگنور کیا کیونکہ میرے لیے ماما بابا کے فکر اور جزبات اہم۔تھے ۔۔ پر وقت کے ساتھ لوگوں کی باتیں اثر کرنے لگیں ۔۔۔ کوئی مجھے اپنا دوست۔نہ۔بناتا ۔ سب چڑاتے مجھے اوپر سے نیو کالج نہ فرینڈز پڑھائی کا برڈن ۔ ایسے میں میں اپنی وہ حالت ماما بابا سے شیئر نہیں کر پائی ۔سب کچھ اپنے اندر رکھا ۔۔۔ ماما بابا بہت پوچھتے پر ان کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ کالج میں اکثر بورڈ پر کچھ بھی بنا کر ساتھ مجھے منشن کر دیا جاتا پورے کالج مجھے ممی ڈیڈی بچہ بولاتا ۔ ایسے میں میں نے بھی وہی کیا جو ایک بے وقوف کرتا میں لوگوں کی باتوں کو سن کر ماما پاپا کو ہرٹ کر دیا ۔
کافی بدتمیزی کی تھی۔میں نے اور ضدکی تھی کہ۔مجھے ہوسٹل میں رپنا ہے ۔ پاپا نے اس دن بہت غصے سے مجھے ڈانٹا تھا ۔ پر مجھ پر جیسے بھوت سورا تھا لوگوں کو یہ پروف کرنے کا کہ میں ممی ڈیڈی بچہ نہیں ہوں ۔۔۔
دو دن میں نے کچھ نہیں کھایا نہ ہی کالج گئی تیسرے دن
مامانے بتایا کے انہوں نے میرا داخلہ ہوسٹل۔میں کروا دیا ہے ۔
میں بہت خوش ہوئی اتنی کہ اپنی ماں کے چہرے پر پھیلی اداسی نہ۔دیکھ سکی وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی پر ۔۔ وہ روکی ۔ اسنے جیسے اس دکھ کو پھر سے محسوس کیا ۔۔۔
ارشیا نے چائے کا چولہا کم کیا اور منہ۔موڑکر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
ہوسٹل چلی گئی میں پر وہاں جا کر پہلے کچھ دن سٹل ہونے میں لگے پر پاپا روز اتے کالج بھی مجھ سے ملنے اور شام کو پوسٹل ۔۔ سارے ہوسٹل والے عجیب نظروں سے دیکھتے جب میں ماما پاپا سے ملنے جاتی ۔ مجھے لگتا سب کو مجھ پر غصہ اتا کہ ان کےاں باپ ان سے ملنے ایک ویک کچھ کہ تو مہینوں بعد اتے اور۔میرے روز ۔ میں نے وہاں بھی دنیا کو ترجیح دیتے ماما پاپا کو مانا کردیا کہ وہ مجھسے ملنے نہ ایا کریں۔ہ ہوسٹل۔اور نہ۔ہی کالج ۔۔۔۔ ماما پاپا نے بہت اعتراض کیا ۔ انکی جان تھی مجھ میں پر مجھے دنیا کی زیادہ فکر تھی وہ۔طنزیہ ہنسی ۔ پاپا نے سب مانا پر کالج اکر صبح مجھے بیسٹ اوف لک کہنا ۔ہی چھوڑا ۔
مجھے ہوسٹل میں سٹل ہونے میں بہت مسئلہ ہوا پر میں نے ہار نہ۔مانی ۔ ماما پاپا کی بہت یاد اتی میں نے اپنے اپ کو پڑھائی میں بزی رکھنا شروع کر دیا ۔ دوست بنے وقت گزرتا گیا ۔ پر ماما پاپا کی عادت ان کی فکر کرنا سب بہت یاد اتا ۔ میں دوست بناتے بناتے سمجھ گئی کہ میرا صرف ایک دوست وہ تھے پاپا جہنوں نے مجھ سے بے لوث محبت کی تھی اس میں کوئی خود غرضی شامل۔نہیں تھی ۔
اکیلے رپتے رہتے لوگوں کا رویہ پاپا ماما سے دوری چڑچڑا پن اگیا تھا مجھ میں ۔۔۔۔۔۔ جب میں خود تکلیف سے گزرتی تو دوسروں کوتنگ کرتی اسلیے میرے ساتھ کوئی روم میٹ نہ رہتا ۔۔۔مسٹر حیدر کی بیٹی تھی اسلیے کوئی کچھ کہہ ھی نہیں سکتا تھا ۔۔
پھر تم ائی میری لائف میں ۔۔۔۔ ارشیا مہک ۔۔۔ تم مجھے بہت عجیب لگی سپیشلی تب جب تم نے میرے پروفیشن کا مذاق اڑایا ۔ میں نے سوچ لیا کہ دو دن میں تمہیں بھاگا دوں گئی پر تم دو دن کیا دو ہفتے گر
زر گے سب برداشت کرتی رہی میں روز کچھ نیو کرتی تمہیں تنگ کرنے کے لیے پر تم چپ رپتی تم ایک چیلنج بنتی گئی مجھے ہوتا کبھی تو تم جوابدو گئی پر تم تو پتپ۔نہیں کیا مخلوق تھی ۔
۔ منحوس ماری کہتی تھی نہ تم مجھے ارشیا کو مسکرا کر دیکھتے ۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی چولہا اوف کر کے چائے ڈالی کپوں میں ۔۔
ارشیا بھی شرمندہ ہوتے ہنسی اسے تھا پلوشہ۔نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ ارشیا اسے اس نام سے بولاتی
پلوشہ نے چائے ڈال کر ایک ارشیا کو دی اور ایک خود لے کر پھر بیٹھ گئی ۔۔۔ ارشیا کو دیکھتے
تم میں بہت برداشت تھی ۔۔ نا چاہتے تم اپنے ہر عمل سے مجھے سکھا جاتی ۔ میں اندر ہی اندر تم سے امپرس ہوتے جارہی تھی ۔
جب بھی تم گھر کال کرتی پھر گھنٹوں بیٹھ لے سوچنا کسی کا تمسے ملنے نہ انا ۔ لیکن پھر بھی اپنے رشتوں سے لویل رہنا ۔ ان کی فکر کرنا ۔ ان کو سو چنا ۔ میں تمہیں دیکھتی تو مزید احساس شرمندگی میں دھستی جاتی تمہارے پاس ایسے رشتے نہیں تھے اور۔میں اپنے ہاتھوں سے گنوارہی تھی احد اور علی کی فکر کرنا ۔ ان کا تمہاری طرف محبت۔۔۔ تم صحیح کہتی تھی ا
جن کو اپکی فکر ہو انکی نیت پر شک نہیں کرتے ۔
بہت پہلے ہی سمجھ گئی تھی۔میں سب ۔ بس خود ماما پاپا کی طرف قدم نہ بڑھا پاتی انا یا شرمندگی قدم روک لیتے ۔۔۔ پریشانی میں پھر تمہیں تنگ کرتی ۔۔۔ ہنس کر چائے کا سیپ لیا ۔۔
جس دن میں بیمار تھی میں جو کچھ کر چکی تھی تمہارے ساتھ اسکے باجود تم نے ایک سیکنڈ لگا کر وہ دیوار ختم کردی جو میں نے بنا کر بیٹھی تھی ۔۔۔ بیماری اور کچھ نہیں پر یہ سکا گئی کہ جب تم مجھے معاف کرسکتی ہو تو وہ تو۔میرے ماما پاپا جو مجھسے بے لوث محبت کرتےہیں۔۔۔ اسے دن میں نے پاپا کا میسج کیا ۔ میرے پاپا کا فورا رپلائی ایا تم یا میں شاید ہی انکی خوشی بھاپ پائیں ۔۔
اپنے ماما بابا کے بعد تم ہو جس سے میں نے اتنے دونوں کھل کر باتیں کی تمہارے ساتھ مسکرائی ۔ اسنے ارشیا کو دیکھا ۔ ۔۔۔۔ جو اسے بنا پلکے جھپکے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جس کی چائے بھی ایسی ہی پڑی تھی ۔
سوری میری وجہ سے تمہاری چائے ٹھنڈی ہو گئی ۔۔۔
ارشیا نے چائے کا کپ اٹھاتے نہیں نہیں گرم تھی میں نے خود نہیں پی ۔۔۔۔ ساتھ ہی ٹھنڈی چائے پینی شروع کر دی ۔
پلوشہ نے اپنا کپ سنیک پر رکھا ۔۔۔ اس کے پاس ائی ۔۔۔۔ اسکے سامنے بیٹھتے ۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تمہارا اور تمہاری فیملی کا کیا مسئلہ ہے لیکن میں ہمیشہ تمہارے لیے دعا کروں گی ۔ تم بہت اچھی ہو ۔۔۔تم بہت اچھا لائف پارٹنر ملے جو تمہاری قدر کرے ۔ تمہیں سمجھے ۔۔۔
ارشیا چائے پی چکی تھی ۔۔۔ اسنے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ ۔ وہ سمجھ نہ پائی پلوشہ سے کیا کہیے ۔۔۔۔
پلوشہ اسکی شرمندگی کو بھانپتے چلو ارام کرو ۔۔ جب سے ائی ہو ارام نہیں کر پائی تم ۔۔۔۔ ارشیا اٹھی اور کپ سنیک پر رکھتے چائے کے لیے شکریہ کہتے وہ چلی گئی ۔۔۔۔ پلوشہ کو ارشیا کے لیے دکھ ہوا وہ اسکی زندگی تو سنوار گئی تھی پر ارشیا ابھی بھی وہی کی وہی کھڑی تھی
___________
ارشیا صبح اٹھی علی اسکو کہی بار کال کر چکا تھا اسنے علی کی کال دیکھتے سوئی اواز میں ہی ہاں علی
علی نے ارشیا کی اواز سنتے ۔ اپی اپ اٹھی نہیں نو بج رپے ہیں ۔۔ اپکی طبیعت ٹھیک ہے ۔۔
ارشیا فورا نو بج رہے ۔۔ سوری اج انکھ نہیں کھولی ۔۔۔ تم احد کو لے کر ائے ہو ۔
نہیں اج اس کے سکول میں سپورٹس ڈے ہے وہ ادھر گیا ہے ۔
ارشیا اٹھ کربیٹھتے سوری دماغ سے نکل گیا تھا میرے ۔۔۔ تم نے کال کیوں کی تھی ۔۔۔
وہ اشعر بھائی نے کہا کہ شام کو اپ نے جانا صبیحہ کے گھر تو ایکدفعہ اپکو یاد کروا دو ۔۔۔
ارشیا سوچتے صبیحہ کے گھر ۔ نہیں میں نے تو نہیں جانا
پر اشعر بھائی تو کہہ رہے تھے کہ اپ نے جانا ہے ۔۔۔
ارشیا دیکھو گئی علی فئ حال میرا موڈ نہیں ہے ۔۔
علی نے فورا بات بدلی اچھا اپ کو کچھ چاہیے ؟؟؟
کچھ نہیں چاہیے ۔۔۔ چاہیے ہوا تو میں کال کر لو گی ۔۔۔ احد کو تم واپسی پے میرے پاس چھوڑ دینا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے اپی کہتے اسنے کال رکھ دی ۔
پلوشہ جو ارشیا کی اواز پے ہی اٹھی تھی کہاں جانے سے ا نکار کر ر ہی ہو؟
ارشیا بیڈ سے اٹھتے ۔۔۔ صبیحہ کے گھر اسنے ڈنر پے سب کو انوائیٹ کیا ہوا تھا ۔۔۔ پر میرا دل نہیں ۔۔۔
پلوشہ فورا بیڈ سے اٹھتے کیوں ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں دل ۔۔۔۔
ارشیا اسکے ری ایکشن کو دیکھتے بس نہیں دل ۔۔۔۔
پلوشہ تم جاو گئی ۔۔۔ اورضرور جاؤ گی کہتی اس سے پہلے واش روم میں گھس گئی ۔۔۔۔
ارشیا نے پلوشہ اونچا سا بولا پر تب تک دروازہ بند ہو چکا تھا ۔
پورا دن پلوشہ اسے ماننے میں لگی رہی کہ اسے جانا چاہیے ۔۔۔۔
وہ جانے کے لیے مان گئی اسے تھا علی کے ساتھ جائے گی اور تھوڑی دیر روک کر اجائے گی ۔۔۔
وہ تیار ہو کر علی کا ویٹ کرنے لگی جو صبح سے اسے تین دفعہ کال کر کے اسے اشعر کا پیغام دے چکا تھا ۔
اشعر کو اتا دیکھ ۔ علی کے ساتھ نہیں جانا تھا تم نے ۔۔ ۔ اشعر ٹیکسی سے نکلتے علی نہیں ا پائے گا اسلیے میں ایا ہوں ۔۔۔۔
علی نے مجھے تو نہیں بتا یا ۔
تم کال کر لے پوچھ لو اشعر نے فورا کہا
علی کو فون کرنے پر پتہ لگا کہ احد کی ابھی سپورٹس سے فارغ نہیں ہوا اسلیے وہ نہیں اپائے گا ۔ ارشیا کا پہلے ہی دل نہیں تھا ۔ لیکن اب اشعر اچکا تھا اسے لینے ۔۔۔ اس لیے بنا کچھ بولے وہ ٹیکسی میں بیٹھ گئی
اشعر اسکی خاموشی محسوس کرتے ۔۔۔ تم ٹھیک ہو ۔۔۔ کچھ ہوا پے کیا؟؟
ارشیا جو باہر دیکھ رہی تھی اسکے سوال پر اسے دیکھتے ۔ ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔
مجھے نہیں لگتا ۔ اشعر نے ہوا میں بات کی ۔؟؟؟
اور تمہیں ایسا کیوں نہیں لگتا ۔۔ارشیا نے اسی کے الفاظ دہرائے ۔۔۔
کیونکہ میرے پاس غائب کا علم ہے ۔۔۔
ارشیا نے فورا طنز کرتے کون کون سے چیلے کاٹ کاٹ کر یہ علم حاصل کیا ہوا تم نے ۔
اشعر اسکی بات ہر کھکھلا کر ہنسا
ارشیا نے اسے ہنستے ہوئے گھورا تو ۔۔۔۔۔ نہیں الللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ میرا پالا ارشی سے پڑنا تو انہوں نے یہ کرم کیا
ارشی کو کوئی جواب نہ سوجھا تبھی تمہارا یہ حال ہےکہتی پھر سے باہر دیکھنے لگ پڑی پر اس دفعہ اسکا موڈ چینج ہو چکا تھا
اشعر اسے چھیڑتے کیسا ہے حال۔میرا ؟؟بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھا پر کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔
دل میں سوچتے پتہ نہیں وہ ایک دم اتنا سنجیدہ کیسے ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
وہ لوگ کراچی کے ایک امیر ترین علاقے میں اترے ۔ ٹیکسی سے اترتے ہی ارشیا نے وہ صاف ستھری جگہ دیکھی ۔ بڑے ںڑے احاطے کور کیے ہوئے گھر ۔ اپنے گاؤں کے بعد اسنے جو کراچی دیکھا تھا اسے لگا یہ کراچی اسکا شاید حصہ ہی نہیں ہے ۔ ڈھلتے سورج کے ساتھ اسے اورزیادہ وہ خوبصورت علاقہ لگا اشعر کسی سے فونپربات کر رہا تھا۔
فون رکھتے اسنے چلنے کا اشارہ کیا تو اس کے ساتھ ہو لی ۔ تمہارے بھائی کو بہت فکر رہتی تمہاری ۔۔۔۔
ارشیا کا دماغ تمہارے بھائی پر اٹک گیا ۔۔۔
اشعر ارشیا کو روکتے دیکھتے ۔ ہاں تین دفعہ کال کر چکا کہ میں خیال رکھوں تمہارا
ارشیا سمجھ گئی وہ کس کی بات کررہا تو ہاں ابھی سے علی کافی زمہدار ہے
چلتے چلتے لگتا ہے وہ تمہارا بھائی بالکل تم پر گیا ہے تم دونوں ایک جیسے ہو ۔۔۔۔
ارشیا مسکرا دی
اشعر ایک بنگلے کے سا منے روکا چوکیدار کو کچھ بتایا ۔ ارشیا اس پاس بنے بنگلوں کو دیکھتے رہی جو سچ میں بہت ہی شاندار تھے جیسے فلموں یا ڈراموں میں نظر اتے تھے ۔۔۔
ارشی چلو۔
ارشیا اشعر کی تقلید کرتے اندر ائی ۔ تو وہ صبیحہ کے گھرکو دیکھ کر ماشاءاللہ کہے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔ اشعر کے ساتھ ساتھ چلتے وہ لان کو دیکھتی رہی جیسے بہت محنت کے ساتھ سیٹ کیا ہوا تھا ۔ پھولوں کی کانٹ چھانٹ ان پر کھلے پھول بتا رہے تھے کہ ان پر وقت صرف کیا جاتا ۔۔۔۔
لان میں لگی کرسیوں پر اسے اقصیٰ اور اصف نظر ائے ۔ باقی سب کی کمر ان کی طرف تھی ۔۔۔
وہ اور اشعر سب سے ملے ۔ اقصیٰ ارشیا کے انے سے بہت خوش پوئی ۔ صرف عفیفہ نہیں ائی تھی ۔
صبیحہ نے سب کا بہت اچھے سے ویلکم کیا ۔ اشعر کے ساتھ تو وہ جیسے چپکی رہی ۔ ہانیہ اس دوران کافی بور ہوئی صبیحہ کا دھیان ٹوٹل اشعر پے تھا اور عفیفہ بھی نہیں تھی جو اسکی ساری باتیں بنا کوئی جواب دیے سنتی تھی ۔۔۔
جوسز پینے کے بعد سب اپنی اپنی گپوں
میں مصروف تھے جہاں ارشیا آصف اور اقصیٰ کے ساتھ بیٹھ انکی باتیں سن رپی تھی وہی بار بار اسکا دھیان ان پھولوں کی طرف جاتا ۔۔۔ جن کو چھو نا چاہتی تھی
صبیحہ کے موم ڈیڈ کسی پارٹی پے گئے تھے ۔ایک بھائی تھا اسکا فئ حال وہ گھر پے نہیں تھا ۔۔۔
اشعر کھڑا عدنان ۔ فیصل اور صبیحہ کے ساتھ تھا یہ انکا گروپ تھا ۔۔۔ پر اسکا دھیان ارشیا پر تھا ۔ جو بار بار پھولوں کو دیکھ رپی تھی ۔ ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہی کھانا لگ گیا کیونکہ سب کو جلدی جانا تھا کراچی کے حالت سے سب واقف تھے ۔صبیحہ نے اس چیز کا خیال رکھا تھا ۔
صبیحہ نے سب کو بیٹھاتے اشعرکی سیٹ اپنے ساتھ رکھی پر ہانیہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس جا بیٹھی اور اشعر اسی وقت اکر ارشیا کے پاس بیٹھ گیا ۔
صبیحہ نے ہانیہ کوبیٹھتے دیکھا اسے کافی غصہ ایا پر وہ میزبان تھی اس لیے ہانیہ کو کچھ نہ کہہ پائی
کھانا شروع کیا سب نے۔۔۔۔ کھانے پر بھی سب کی ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہی اس دوران صبیحہ کا بھائی بھی اگیا جس نے ان سب کو ڈنر پر جوائن کیا ۔۔۔۔
۔ اشعر جو خود ڈالتا ارشیا سے بنا پوچھے اسکی پلیٹ میں ڈال دیتا اور اصف کو پاس کر دیتا ۔۔۔۔ ارشیا بھی چپ چاپ سب کھاتی رہی ۔۔۔۔ کھانے کے بعد سب نے صبیحہ
سے کہا کہ وہ چلتے لیکن صبیحہ نے سب کو یہ کہہ کر روک لیا کہ ابھی ٹائم ہے ایک گیم کھلتے پھر سب کو اجازت ۔۔۔۔
پر سب نے الگ الگ گیم کا نام لیا اس لیے دس منٹ کی بحث کے بعد گیم نہ کھیلنے اور شعروں شاعری سنانے کا فیصلہ کیا ۔
سب نے ایک ایک شعر سنانا تھا ۔ جس کی ابتدا عدنان نے کی ۔
میں دھنک رنگ لے کے اتری ہوں
مجھ پہ رکتا نہیں کسی کا رنگ
سرمئ شام جس نے دیکھی ہے
اس نے دیکھا ہے شاعری کا رنگ
واہ واہ بہت خوب کے نعرے بلند ہوئے ۔۔۔ سب نے داد دی عدنان کو
فیصل کی باری ائی اسنے کچھ سوچتے
اتنے برسوں کی جدائی ھے کہ اب
تم کو دیکھیں گے تو مر جائیں گے
اسکے شعر کو سنتے کسی نے داد دی تو کسی نے اسے چھڑ ا ۔۔۔۔ کس کی یاد میں وہ یہ سنا رہا ۔ عدنان نے تو باقاعدہ اسکی ٹانگ کھینچی
جس پر سب نے اقصیٰ اور پھر اصف کو دیکھا
سب کو دیکھتا پاکر اصف نے فخریہ انداز میں کیا ہوا منگیتر پے میری ۔۔۔
سب شوکڈ رہ گئے ۔ کیونکہ ایک مہینے سے وہ سب ا
ساتھ تھے پر ارشیا کے علاوہ کوئی یہ نہیں جانتا تھا ۔۔۔
سب ان کو تنگ کرتے رہے ۔۔۔ جب ماحول تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو
صبیحہ کی باری ائی ۔۔۔ اس نے اشعر کو دیکھتے ۔۔۔۔ جو اسکے ساتھ ہی بیٹھا تھا ۔
ہمارا ان سے تعلق بھی مثالِ شمس و قمر ہے
اک رابطہ مسلسل ۔۔۔۔ اک فاصلہ مسلسل
کسی نے بہت خوب کہا کسی نے لاجواب ۔ اشعر نے بھی سر کو خم کرتے اسکے شعر کو سہراہا ۔۔۔۔
اصف نے فورا اشعر کی باری اب ۔۔
اشعر کی باری پر اس نے ارشیا کو دیکھتے جو اقصی کی کسی بات پر ہنس رہی تھی ۔۔
سنو تم ۔۔۔۔جیت۔۔۔ ھو میری!!
تبھی تو ہارجاتا۔۔۔۔۔۔ ہوںُ۔
ارشیا۔نے موڑ کر دیکھا تو اشعر مسکرا دیا وہی صبیحہ نے اسے اپنے شعر کا جواب سمجھتے رشک کیا خود پر ۔
اشعر سب کی واہ واہی وصول کرتا رہا ۔۔۔۔
ارشیا کی باری پر سب نے اسے گھورا کیونکہ وہ بالکل خاموش ہوگئ تھی جیسے اپنی باری بھول گئی ہو ۔۔۔ ۔۔۔۔ سب کو دیکھتا پاکر سوری مجھے شاعری نہیں اتی ۔ اصف یہ۔کیا بات ہوئی ایک شعر بھی نہیں آتا تمہیں ۔۔۔
عدنان نے فورا ڈبے میں ڈبہ میں کیک میرا بیسٹی لا کھوں میں ایک والا بھی نہیں اتا ۔۔۔۔ سب عدنان کی مثال پر خوب ہنسے ۔۔۔۔
ارشیا مزید پزل ہو گئی ۔ اقصیٰ اور آصف اسے بار بار کہنے پے کہ ایک شعر ہی سنانا ۔۔۔کوشش تو کرو ۔۔۔۔ ہار ماننے والی انداز میں اسنے اچھا ٹھیک ہے ۔ سناتی ہوں ۔۔۔۔۔سب ایسے خاموش ہوئے جیسے وہ پتہ نہیں کیا سنانے لگی ۔۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی ۔۔۔
نہیں وصل میسر تو آرزو ہی سہی
____________
اسنے بھی مسکراتے اشعر کو دیکھا ۔ اقصیٰ نے تو اسے گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔ وہی اصف نے سر پر چیت لگاتے بہت خوب کہا
شعروںشاعری کی محفل ختم کر کے جہاں عدنان اور فیصل سبسے پہلے نکل گئے وہی ہانیہ نے اج صبیحہ کے گھر رہنے کی اجازت لے لی صبیحہ کو بھی کوئی مسئلہ نہ تھا اسکے رہنے سے
ارشیا کھڑے باہر لان کودیکھ رہی تھی اصف اور اقصیٰ لان سے گھوم کرواپس ارہے تھے ۔۔۔ بہت خوبصورت لگ رہا ہے نہ ۔ ارشیا نے بنا موڑے اسکی اواز پہچانتے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔ ۔۔۔۔ سکون ہے بہت یہاں اشعر نے ارشیا کی بات سے اگری کیا ۔۔
اصف اور اقصیٰ آئے اب چلنا چاہیے پھر ٹیکسی نہیں ملے گی ۔۔۔۔ اشعر نے بھی ٹھیک ہے صبیحہ سے اجازت لیتے ۔
وہ صبیحہ کے پاس گیا جہاں وہ فون پر کسی سے بات کررہی تھی ۔ اسنے اسکی طرف ایک گیفٹ بڑھایا ۔ صبیحہ نے گیفٹ دیکھا تو فون بند کرتے تھنکیو اشعر پر اسکی ضرورت نہیں تھی تم ائے یہی بہت تھا میرے لیے
پر اشعر نے مسکراتے نہیں پہلی دفعہ ایا تھا ۔
ارشیا نے اپنے موبائل کی اوازسنتے بیگ میں دیکھا پر وہاں نہیں تھا ہانیہ اتنا میں اسکا ۔موبائل اٹھا کر لائی تمہاری کسی دوست کی کال تھی میں نے اٹھائی پر شاید لائن کٹ گئی کہتی ہی پلٹ گئی ارشیا جو اسے تھنکیو بولنے لگی تھی اسے واپس جاتے دیکھ اسے کیا ہوا ۔ وہ اجکل ارشیا سے نہیں بولتی تھی نہ ہی رعب جماتی نہ ہی اپنا کام اس سے کرواتی ۔۔۔ بہت عجیب رویہ ہو گیا تھا اسکا ۔۔۔ پر ارشیا نے دھیان نہیں دیا اج پارٹی میں بھی وہ صرف صبیحہ یا اسکے گروپ سے بات کرتی رہی اپنے گروپ کو پوچھا تک نہیں ۔۔۔ آصف اسے دیکھتے چھوڑوں اسے ۔۔۔ صبیحہ سے اجازت لیتے ۔
اصف نے صبیحہ اب ہمیں اجازت کافی دیر ہو رہی ۔۔صبیحہ نے گیفٹ ہاتھ میں ہی پکڑے ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جو تم سب ایک دفعہ کہنے پے ائے ۔
ارشیا نے ۔۔ تم نے بلایا ہی اتنے پیار سے تھا انا تو تھا ۔ بہت اچھا ٹائم گزرا ۔ یادگار دن تھا ۔ مسکرا کر کہا ۔۔ ۔۔۔ اشعر نے فورا صبیحہ اسکی باتوں پے مت جانا ا ہی نہیں رہی تھی میڈم میں زبردستی لایا ہوں اسے ۔۔۔۔ ارشیا نے جہاں اشعر کو گھورا وہی صبیحہ کی سمائل سمٹ گئی ارشیا کے ہوتے اسے ہمیشہ لگتا کہ اشعر کی پہلی پرائیورٹی وہ ہوتی ۔۔۔
اصف ان کودیکھتے تم دونوں بعد میں لڑ لینا لیٹ ہو جائیں گے ۔۔۔
اچھا صبیحہ بہت شکریہ اب ہم چلتے کہتے ہی سب چل دیے ۔۔ اشعر نے صبیحہ کو مسکراتے الللہ حافظ کہا جو پھر اسکے چہرے پر ۔سکراہٹ لے ایا
____________
راستے پر اشعر اور اصف اگے اگے چل رہے تھے ارشیا اور اقصیٰ انکے پیچھے تھیں ۔
ایک چھوٹے محلے سے گزر کر انہون نے مین روڈ پر انا تھا جہاں سے انکو ٹیکسی ملتی۔
اقصیٰ نے ارشیا کو کھنچتے ایک چھوٹی سی گلی کے اندر کیا ۔ کیا کررہی ہو ۔۔۔ ارشیا نے اسکے ایسے کھنچنے پر خوف سے پوچھا ۔۔۔
دیکھو ان کو اپنی باتوں میں مگن ہمارا خیال ہی نہیں کوئی پیچھے سے ہمیں پکڑ کر لے جائے ان کو پتہ نہ چلے روکوں دیکھنے دوں کیا کرتے جب ہمیں ساتھ نہیں دیکھے گئے تو کیا کرتے پتہ تو چلے سچ میں فکر ہے یا بس ۔۔۔۔ ۔ اقصیٰ جو اہستہ اواز میں اسے بتارہی تھی
ارشیا نے اس چھوٹی گلی کو دیکھتے اقصیٰ یہ وقت نہیں اس سب کا اور ہم اس جگہ کو بھی نہیں جانتے ۔ دیکھو چلتے ہیں وہ زیادہ دور نہیں گئے ۔
پر اقصیٰ ایک سننے کو تیار نہیں تھی ۔۔۔۔ ادھر اشعر اور اصف باتیں کرتے کرتے مین روڈ پر نکل ائے ۔