وہ ںیڈ پے لیٹے اشعر کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ جب ایک دم سے اٹھی اور پلوشہ کے پاس گئی ۔ وہ جو کچن میں اپنے لیے چائے بنا رہی تھی اسے دیکھتے چائے پیو گی ۔۔۔۔
ارشیا نے چائے کو دیکھتے نہیں چائے تو نہیں پینی کچھ کام تھا
پلوشہ کپ اٹھائے وہی کچن میں کرسی پر بیٹھتے ہاں بولو ۔۔۔۔
مجھے کوکنگ سیکھاؤ گئی ۔۔۔۔؟؟؟
کوکنگ ۔۔۔؟؟؟ چائے کا سیپ لیتے پلوشہ نے اسے دیکھا ۔۔
ہاں جو کل بنایا تھا یا اگے جو بھی تم بناو اپنی ڈشیز جو ٹرائی کرتی رہتی ہو وہ۔
تمہیں تو مجھ سے اچھی کوکنگ اتی ہے ۔۔۔ پلوشہ نے سیپ لیتے اسے جواب دیا۔
اتی ہے پر باقی سب جو نہیں اتا ۔۔۔ وہ اسے معصومیت سے دیکھتے ۔۔۔
اچھا اچھا ایسی مسکینوں والی شکل تو نہ بناؤ ۔۔۔ کرتے ہیں کچھ ۔۔
ارشیا بھی خوش ہوتی سچی وہی کرسی کھینچتی بیٹھ گئی ۔۔۔
پلوشہ جب مزید کچھ نہ بولی تو ویسے ابھی پکا سکتے کچھ جو میں کل لے جاؤں ۔۔۔۔؟؟ ارشیا نے اسے دیکھتے کہا ۔۔۔
پلوشہ نے حیرانی سے دیکھتے ہاں پکا سکتے ہیں لیکن پہلے تم مجھے بتاؤ کہ ماجرا کیا ہے ؟؟؟؟
ماجرا ؟؟ نہیں نہیں کچھ نہیں ہے بس علی کے لیے سوچا بناؤ ۔ وہ روز باہر سے کھاتا دن میں تو میں سوچا اپنا اور اسکا لنچ روز میں لے جایا کرو ۔۔۔ بس اور تو کچھ نہیں۔
پلوشہ نے اخری سیپ لیتے ۔۔۔۔۔ اس کے الفاظ دوہرائے ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے پھر آؤ مل کر بناتے ۔۔۔ اسنے اور کچھ نہ پوچھا اس سے ۔۔۔۔
ارشیا فورا کھڑی ہو گئی ۔ چلو ۔۔ پر بناؤ گی میں۔۔۔
پلوشہ اٹھتے ہاں تم ہی بنا لینا ۔۔۔
پھر دونوں نے مل کر کھانا بنایا ۔۔ اس دوران کافی دفعہ ارشیا کا سیل بجا ۔۔ وہ سیل دیکھتی پھر چھوڑ دیتی ۔ کہ بعد میں جواب دوں گی ۔۔۔
پلوشہ نے اس کے سیل کی بار بار ٹون بجتے دیکھا تو کون پے جو تنگ کر رہا ۔۔۔؟؟؟
رہا نہیں رہی ہے میری دوست ہے بچپن کی ۔ شاعری کا بہت شوق ہے اسے بس وہی بھیج رہی ہے ۔۔۔۔
پلوشہ اچھا دیکھاؤ مجھے ہم بھی تھوڑا شاعری کا ذوق رکھتے ہیں ۔۔۔
ارشیا اسے مسکراتے اچھا جی ۔ ساتھ ہی سیل اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنا سالن دیکھ رہی تھی جب دو منٹ میں ہی پلوشہ نے اسے سیل واپس کر دیا یہ کہتے کہ اسکا الگ ٹیسٹ مجھے ایسی شاعری پسند نہیں ۔۔۔۔ بڑی ہی چیپ لگتی یہ عشق محبت والی ۔۔۔۔
ارشیا نے سیل لے کر رکھتے اپنے اپنے ٹیسٹ کی بات ہی مسکراتے ۔۔۔۔۔
پلوشہ نے فورا تمہاری دوست کا عجیب لہجہ ہے اور پسند بھی ۔۔۔ ہانڈی میں ہلاتے ۔۔۔
پر ارشیا نے مذاق میں اڑاتے تمہیں تو شروع میں میں بھی بہت عجیب لگتی تھی ۔۔۔
تم مجھے عجیب کیوں لگتی تھی وہ پھر کبھی بتاؤں گی ۔۔۔۔ ویسے تم تھی بھی بہت عجیب ۔۔۔ تم پہلی عجیب مخلوق تھی جو میں نے اپنی لائف میں دیکھی تھی ۔۔۔
ارشیا ہنستی اچھا چلو اگے کوئی عجیب ملا تو مجھے یاد تو کرو گی ۔۔
پلوشہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے تمہیں میں بھولوں گی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔
ارشیا کا پھر سیل بجا تو دونوں نے سیل کو دیکھتے اس کو چین نہیں ہے ۔ پلوشہ نے فورا اگیا ایک اور عشق و محبت والا شعر ۔۔۔
دونوں کی ہنسی بلند ہوئی ۔۔۔۔۔
رات کا کھانا کھا کر دونوں لیٹ گئی ۔ ارشیا بھی تھک گئی تھی اس لیے بنا سیل چیک کیے سو گئی ۔۔۔۔۔
صبح وہ بہت خوش تھی ۔کچھ نیو بنایا تھا اسنے ۔ اشعر کے جانے کےبعد اسنے ایک لنچ بوکس علی کو دیا اور کہا کہ ائندہ وہی لائے گی ۔اس کا۔لنچ اسلیے وہ باہر سے آئندہ نہ کھائے ۔ علی نے کچھ کہنا چاہا تو ارشیا نے فورا پکڑو چپ چاپ ۔ اتنا بھی خراب نہیں بنا ۔۔۔
جس پر علی نے پکڑ لیا ۔ وہ ارشیا کی بہت عزت کرتا ۔۔اس کا ایک دفعہ کہہ دینا ہی بہت تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کا دن کام میں پورا بزی رہا وہ لنچ بریک میں بھی وہ فارغ نہ ہوئی ۔ کیونکہ ہانیہ کا کام بھی وہی کر رہی تھی ۔۔۔
اشعر اسے لنچ بریک میں اپنے ہی ڈسک پر کام کرتے دیکھتے ۔ ارشی لنچ نہیں کر نا ۔۔؟؟ ساتھ اپنی ریسٹ واچ پر انگلی مارتے ۔۔۔۔
ارشیا نے سر اٹھائے ۔۔۔ نہیں تھوڑا کام زیادہ ہے تو وہ کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لنچ کر لو ۔۔۔۔ یہ کام ختم ہونے والا نہیں لگتا ۔۔۔ ساتھ ہی لنچ بوکس سامنے رکھا ۔
اشعر نے اسے دیکھا پھر لنچ بوکس کو ۔۔۔۔
ارشیا اسکو کچھ نہ دیکھتا پاکر ۔ تمہارے لیے ہی لائی ہوں کل تم نے کہا تھا نا ۔۔۔ میرا پاس ہے میرا لنچ تم کھا لو ۔۔۔۔۔۔۔
اشعر نے کوئی جواب نہ دیا پاس پڑی ڈسک کی چیئر کھینچ کے ارشیا کے ڈسک کے پاس لایا ۔۔۔۔ پہلے تمہارا کام ختم کرتے ہیں پھر لنچ کرتے ۔۔۔۔۔
ارشیا اسے بیٹھتے رہنے دو اشعر میں کر لوں گی تم جاؤ
اشعر نے جیسے اسکی بات سنی ہی نہیں اسکے لیپٹوپ کی سکرین کو اپنی طرف کرتے ۔ ایک منٹ دیکھنے دو مجھے ۔
پھر بٹن پر ہاتھ مارتے ہوئے ۔ وہ کچھ کرتا رہا ارشیا جو فائل سے دیکھ کر لیپ ٹوپ میں سب کچھ انٹر کر رہی تھی
وہ فائل میں دیکھ کر کی بورڈ پر اپنی انگلیاں پھرتا رہا دس منٹ میں سارا کام کر کے وہ ڈان کہتے ہی سکرین ارشیا کی طرف موڑی ۔۔۔۔ اور خود لنچ بوکس کھولے کھانا شروع کیا ۔۔۔۔
ارشیا نے فائل اور سکرین کو دیکھا جہاں ہر چیز ایگزیکٹ درج کی گئی تھی ۔ سبکچھ دیکھتے تم نے تیس منٹ کا کام دس سے بھی کم منٹ میں کیسے کیا ۔۔
اشعر نے لنچ کھاتے پریکٹس مادام پریکٹس
چلو یہ تو ختم ہوا اب دوسرا ۔۔۔ اسنے دوسری فائل کھولی ۔
اشعر اسے کتنے دونوں کا پنڈگیں کام رکھا وا ہے ۔۔
ارشیا فائل کھولتے نہیں وہ ہانیہ کا تھا اب اپنا کرنے لگی ہوں ادھا کیا وا ہے بس تھوڑا سا ہے ۔۔۔
اشعر نوالا لیتے تم نے اسکا کام کیوں کیا ؟؟ وہ خود کہاں ہے
وہ لنچ کرنے گئی ہے ۔ مجھے کہا کر دو اس لیے ۔۔۔
ارشیا کو دیکھتے لاؤ میں کر دیتا ہوں ۔۔۔۔
ارشیا فائل پیچھے کرتے نہیں باکل۔نہیں میں اپنا کام ہمیشہ خود کرتی ہوں اور ہو گیا ہے تھوڑا سا ہی ہے ۔
ٹھیک ہے تمہاری مرضی ۔۔۔۔ ساتھ ہی لنچ ختم کر کے بوکس بند کیا ۔ اور اٹھ کے چلا گیا ۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے نہ شکریہ نہ الللہ حافظ کہا چلتا بنا ۔۔۔ پھر خود ہی سوچتے لنچ میں نے خود دیا تو وہ شکریہ کیوں کہتا ۔ پھر سب کچھ جھٹکتے وہ دوبارہ کم میں لگ گئی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا ۔۔۔ چائے کا کپ ٹیبل۔پر رکھتے ۔۔ ختم ہوا تمہارا کام ساتھ ہی ارشیا کی طرف دیکھا ۔۔
ارشیا نے کچھ ٹائپ کرتے نہیں ۔ تھوڑی دیر اور ۔۔۔۔۔۔
مجھے دو میں کر دیتا ہوں ۔۔ ارشیا نے لیپٹوپ اپنی طرف موڑتے بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے پر تم لنچ تو کر لو ۔۔۔ کرسی پر بیٹھتے ۔۔۔۔
لنچ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرا ہانیہ لے کر گئی ہے ۔۔۔ اس نے اسی مصروف انداز نیں بتایا ۔۔
اشعر نے ہانیہ کے نام سے زچ ہو تے ہانیہ کیوں لے کر گئی ؟
نہیں اس نے کہا کہ کام ختم کر کے ان کو جوائن کر لوں لنچ پر اسلیےوہ ساتھ لے گئی پر یہ کام ختم ہی نہیں ہوا رہا ۔ جب واپس لائی گئی تب کر لوں گی میں لنچ ۔
اشعر نے اسے دیکھا اگر وہ بے وقوف تھی تو بہت زیادہ جو اپنے لنچ ٹائم میں اسکا کام کر رہی تھی اور وہ لنچ میں سب سے گپیں مار رہی ہو گی
ارشیا نے کام کرتے اشعر کو چپ دیکھا تو چائے پینی ہے تم نے؟
اشعر نے چائے کا کپ اسکی طرف بڑھاتے نہیں تمہارے لیے لایا تھا
ارشیا چائے کو دیکھتے پھر اسے ۔۔۔۔
شکریہ ۔ بہت ضرورت تھی مجھے اسکی
اشعر نے اسے مسکرا کر دیکھتے تم پتہ ہے تم پاگل ہو ۔۔۔ ۔۔ ارشیا نے سنجیدہ ہوتے اسے دیکھا وہ۔کچھ اور کہتا کہ اسکا سیل بجا ۔۔۔۔ وہ سکرین پر نمبر کو دیکھتے ۔۔۔۔ میں چلتا ہو ۔ تم کرو اپنا کام ۔۔۔۔۔ کہتا چلا گیا ۔۔۔۔ ارشیا نے چائے پیتے ساتھ ساتھ اپنا کام کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
افس ختم ہوا تو وہ علی کے پاس ائی ٹیکسی میں بیٹھتے بسکٹ یا کچھ اور ہے کھانے کو علی ۔۔۔۔
علی نے اسے موڑ کر دیکھا ۔۔ نہیں اپی ۔۔۔ بھوک لگی ہے ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتے ہاں میرا لنچ ہانیہ کھا گئی ۔ ۔۔۔۔ تو صرف ایک چائے کا پیا ہے صبح سے ابھی تک ۔۔۔ علی کو شرمندہ ہوتے دیکھ جیسے اسکے پاس بسکٹ کا نہ ملنا اسکا جرم ہو ۔ رپنے دو علی اب ہوسٹل جا کر ہی کچھ کھاؤں گی ۔ اتنے میں اشعر ٹیکسی میں اکر بیٹھا اسنے سلام کیا ۔ دونوں نے جواب دیا ۔۔۔ پر ٹیکسی میں خاموشی رہی ۔۔ ارشیا کو اتر کر اشعر کو چھوڑنے گیا علی ۔۔۔۔
اشعر نے علی سے دو تین دفعہ بولا پر علی نے کوئی خاص جواب نہ دیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ارشیا نے ہوسٹل پہنچتے ہی سب سے پہلے دیکھا کہ کچھ کھانے میں ہے کہ نہیں پلوشہ جو چائے پینے لگی تھی ارشیا نے اسکی چائے کا کپ اٹھاتے ساتھ میں ہی بریڈ کا سلائس لیتے ۔ شکریہ یار بہت بھوک لگی تھی ۔ پلوشہ نے اسے دیکھا پر کچھ نہ کہا جب وہ کھا پی کر فارغ ہو گئی تو ۔۔۔۔ تمہاری حالت سے لگ رہا کہ سومالیہ سے ائی ہو تم ابھی افس میں کچھ نہیں کھایا ۔ لنچ نہیں کیا تم نے ؟؟؟
نہیں۔۔۔۔ ارشیا نے کرسی کی پشت سے سر ٹیکا دیا ۔۔۔
اج کے کام نے بہت تھکا دیا لنچ کرنے کا ٹائم بھی نہیں ملا
کیوں ۔۔۔۔ باقی سب کی بھی تمہارے جیسی حالت تھی ۔۔۔۔ ارشیا کے تھکے ہوئے چہرے پر نظریں جمائے ۔۔۔
نہیں باقی سب نے کیا میں نہیں کر پائی جب فارغ ہوئی تب تک ہانیہ نے میرا لنچ کھا لیا تھا ۔۔۔
تم نے خود دیا تھا کھانے کے لیے ۔۔۔۔پلوشہ نے سوال کیا ۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔ مجھے اپنی فائل پکڑائی کہ یہ کام کر دوں اور میرے ہاتھ سے لنچ لے لیا کہ میں لے جاتی ہوں بعد میں جوائن کر لوں انہیں ۔۔ وہ جو سب بتا رہی تھی
پلوشہ نے اسے افسوس سے دیکھتے ۔۔۔۔ تم نوکر ہو اسکی کہ اسکے کام کرو گی ۔۔۔
ارشیا نے ایسے الفاظ سنتے انکھیں کھولی ۔۔۔۔ نہیں وہ ہمیشہ کہتی ہے اور
پلوشہ نے اسکی بات کاٹتے اور تم اچھا ئی کا ثبوت دیتے کر دیتی ہو گی ہمیشہ ۔۔۔
ارشیا نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔
پلوشہ کپ اٹھاتے اور اسنے تھنکیو تک نہیں بولا ہو گا ۔ ارشیا نے دل۔میں سوچا ہانیہ کبھی اسے تھنکیو نہیں بولتی تھی ۔ ۔
ارشیا کو چپ دیکھ ۔۔۔ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسروں کی مدد کرنااچھی بات ۔۔۔۔ لیکن جب وہ اپکی اچھائی سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیں تو ان کی تب مدد نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔
ارشیا سے کوئی جواب نہ پاکر ۔۔۔۔۔ اج کچھ بناو گی یا اج باہر سے کچھ مانگوا لیں ۔۔۔لیکن پھر اسکی حالت دیکھتے ۔۔۔۔ تم ارام کرو ۔ مجھے کچھ کام ہے میں واپسی پر لے آؤں گئی کچھ مت بنانا ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہی وہ ٹائم دیکھتے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔ ارشیا بھی تھکی ہوئی تھی اس لیے اس کے جاتے ہی وہ لیٹ گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر ہوئی تھی کہ اس کے سیل پر کال ائی ۔۔۔۔
ارشیا نے ٹون سنتتے کس کی کال اگئی ۔۔۔۔ علی اس ٹائم اسنے ٹائم دیکھا تو ابھی سات بجے تھے ۔۔۔
احد کا سوچتے۔۔ ہاں علی کیا ہوا احد ٹھیک ہے ۔۔۔۔
علی مسکراتے جی اپی وہ ٹھیک ہے اپ باپر ائیں ہم باہر اپکا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
باہر کیوں وہ کچھ کہتی کہ فون کٹ ہو گیا ۔۔۔
وہ جلدی سے دوپٹہ اٹھائے باہر ائی تو احد نے اسے دیکھتے ہی اپی ۔۔۔۔ جلدی ائیں ۔۔۔ علی بھی ٹیکسی میں ہی بیٹھا رہا ۔۔۔
یہ اشعارہ تھا کہ وہ بھی ٹیکسی میں بیٹھ جائے ۔۔۔۔
ٹیکسی میں بیٹھتے ہی علی نے ٹیکسی چلا دی ۔۔۔
احد کو گود میں بیٹھاتے کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟
کچھ کھانے ۔۔۔۔۔علی نے ٹیکسی چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
ارشیا نے علی کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ۔۔۔۔ وہ اج کچھ پکانے کا دل نہیں تھا میرا تو سوچا باہر سے کھا لیتے ۔۔۔۔ احد نے فورا میں نے کہا اپ کو بھی ساتھ لے کر جائیں گے ۔۔۔۔۔
ارشیا احد کو بوسہ دیتے میرا پیارا بچہ ۔۔۔۔۔ پھر علی کو دیکھتے اچھا کیا میرا بھی کوئی پکانے کا موڈ نہیں تھا اج ۔۔۔۔۔ پلوشہ کہہ رہی تھی کہ واپسی پر کچھ لائے گی ۔۔۔ روکوں میں اسے بتا دوں ۔۔۔۔
اسنے سیل نکال کر پلوشہ کو جہان بتایا وہی ربیعہ کے مسیج دیکھتے ۔ یہ اتنے میسج کیوں کرتی ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔ ٹیکسی روکی تو وہ سیل بند کر کے نیچے اتری ۔۔۔
کھانا کھانے کا ویٹ کرتے ۔ارشیا احد کے ساتھ لگی تھی جب اسنے علی کو دیکھا جو مسلسل کسی کو گھور کر غصے ے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
ارشیا نے کافی دیر نوٹ کیا پر جب علی کا ری ایکشن نہ بدلہ تو ۔۔۔۔ علی وہ لڑکا دیکھو کب سے گھور رہا مجھے ۔۔۔
علی ایک فہم سے نکلا ۔۔۔ کون گھور رہا ۔۔ ؟؟؟
ارشیا نے اسکی چیئر کے پیچھے بیٹھے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔ علی نے دیکھا تو وہ سچ میں ان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔
وہ اٹھنے لگا کہ ارشیا نے اسکا ہاتھ پکڑتے ۔۔۔۔ ویٹ کرو ۔۔۔۔
علی نے اسے دیکھتے کس کا ویٹ کروں ۔۔۔۔ ؟؟؟
ارشیا نے اس لڑکی کی طرف اشارہ کرتے جب اسکے بھائی نے اکر تمہیں مارا تو پھر تم جا کر اس لڑکے کو مارنا ۔۔ علی نے ناسمجھنے والے تاثر دیے تو ۔۔۔ ہاں تو وہ لڑکا بھی وہی کر رہا جو تم کر رہے تھے ۔۔۔
علی بات سمجھ گیا ۔۔۔۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ اسے کیا سمجھانا چاہتی تھی ۔۔۔ اپی وہ اور یہ کیس ٹوٹل الگ ہیں ۔۔۔۔ اپ ہاتھ چھوڑیں میرا ۔۔
ارشیا نے ٹھیک ہے پہلے مجھے سمجھاوں اگر مجھے لگا الگ ہیں تو مل کر مارے گئے اسے ۔۔۔۔
۔۔
وہ شرمندہ ہوکر بیٹھتے وہ لڑکی میری کلاس فیلو اور بہت اچھی دوست تھی ا س نے دوست لفظ کافی غصے سے کہا ۔۔۔۔ لیکن پھر حالت بدلے میں ٹیکسی چلانے لگ پڑا اور اسنے دوستی ختم کر دی ۔ مجھ سے ۔
ارشیا اور احد جو پوری توجہ سے سن رہے تھے ۔۔۔
علی کے چپ ہوتے نہیں علی ایسا نہیں ہو سکتا کچھ اور ہو شاید تمہیں ایسا لگ رہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔اب ہر لڑکی پیسہ پاور اور سٹیٹس تھوڑی دیکھتی ۔۔۔۔۔۔
علی نے عجیب نظروں سے دیکھا تو ۔۔۔
ہاں مجھے دیکھو ۔۔۔۔ کیا تمہیں لگتا ہے سب پیسوں کی وجہ سے اکھٹے ہیں کل کو پیسے نہ ہوئے تو تم مجھے یا میں تمہیں چھوڑ دوں گی ۔۔۔ اسنے احد کو دیکھا ۔۔۔ احد فورا میں نہیں چھوڑوں گا اپکو ۔۔۔ اپ ہمیشہ میری اپی رہیں گی ۔۔۔
ارشیا نے اسکے گال کھنچتے تم ہمیشہ میرے گولو مولو رہو گے ۔۔۔۔
علی ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔ ہر کسی کو مالدار لائف پارٹنر چاہیے ۔۔۔۔
ارشیا جو احد کو کو تنگ کر رہی تھی ۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہے میں جسے پسند کرتی ہوں نارمل جاب والا بندہ ہے ۔۔۔ ارشیا جو فلو میں بول گئی بولنے کے بعد سمجھتے اس نے علی کو دیکھا ۔۔۔
علی اسے مسکراتے کون ہے اپی ۔۔۔ بتائیں پلیز وہ اپنی بات جیسے بھول گیا
ارشیا ہچکچاتے کوئی نہیں۔۔۔۔ کس کی بات کر رہے ہو تم ۔۔
پر علی جیسے اسے بات پر اٹک گیا ۔ نہیں نہیں کوئی تو ہے اب بتائیں ۔۔۔ بات کھول گئی تو نام تو بتا دیں ۔۔۔
ارشیا اس کے کان کھنچتے تم زیادہ چالاک مت بنو ۔۔۔۔
اپی چھوڑیں سب دیکھ رہے ہیں کیا کر رہی ہیں اپ ۔۔ پر ارشیا نے کان نہ چھوڑا ۔۔۔۔ ابھی بھی نام پوچھنا ہے ۔۔۔ اپی اور زور سے یہ کہنے والا احدتھا ۔۔۔
علی نے فورا نہیں نہیں ۔۔۔۔ بس کان چھوڑ دیں ۔۔۔ ۔ ارشیا نے کان چھوڑا ہی کہ ویٹر کھانا لے ایا ۔۔۔۔ علی کن مسلتے شکر ہے اپ ٹیچر نہیں ہے ورنہ بچوں کو ہر روز نیو ل کان لگوانے پڑتے ۔۔۔
ارشیا نے احد کی پلیٹ سیدھی کی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تمہاری ٹیچر تو ہوں میں کیوں احد ۔۔۔
احد فورا اپ میری بھی ٹیچر ہیں نا ۔ ۔۔۔۔
ارشیا نے احد کو پیار کرتے ہاں میں احد کی ٹیچر بھی ہو اور اپی بھی ۔۔۔
چلو اب کھانا کھاو ۔۔ یا کان ہی مسلتے رہنا ادھر بیٹھ کے ۔۔۔۔
تینوں نے کھانا کھایا ۔۔۔۔ سارے بہت خوش تھے ۔ ایک دوسرے کی پلیٹ میں خود ہی کچھ نہ کچھ ڈالتے رہتے ۔۔۔۔۔ ارشیا نے احد کو بھی ساتھ کھلایا ۔۔۔ احد خود کھاتا تھا پر ارشیا جب ساتھ ہوتی وہ خود اسے کھلاتی ۔۔۔۔
واپسی پر احد سو گیا ۔۔۔ کافی خاموشی تھی ۔۔۔ ارشیا نے علی کو دیکھتے ۔۔۔ تم اسے پسند کرتے تھے ۔۔۔؟؟
علی نے گاڑی چلاتے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔
ارشیا کو دو منٹ سمجھ نہ ایا کیا کہیے ۔۔۔۔ تم نے پھر اس سے بات کی ہو سکتا تمہاری غلط فہمی ہو ۔۔۔
علی نے سامنے دیکھتے ہی اس نے خود کہا مجھے یہ سب ۔۔۔۔۔۔ اسے شرم اتی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ اسکا
دوست ٹیکسی ڈرائیور ہے ۔۔۔۔
ارشیا کو اس لڑکی کی سوچ پر بہت غصہ ایا ۔۔۔ اور علی پر ترس ۔۔۔۔ پر علی نے فورا مجھے چھوڑیں ۔۔۔ اپ زرا نام بتائے نا ان کا ۔۔۔؟؟
ارشیا نے اسکی چہکتی اواز پر اسے مصنوعی غصہ دیکھاتے علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سے کان کھنچو ۔۔۔
علی نے سر ارشیا سے دور کرتے نہیں نہیں یہ ظلم نہیں ۔۔۔ ارشیا اسکی ایسا دور ہونے پر کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔
وہ ہوسٹل پہنچی تو احد کو سیٹ پر صحیح لیٹاتے ۔۔۔۔
اسے بتانے کے بعد سب سے پہلے تمہیں بتاوں گئی ۔۔۔ علی ۔۔۔
علی نے فورا ویسے مجھے پتہ ہے اپ کس کو پسند کرتی ہیں ۔۔۔
ارشیا نے دروازہ بند کرتے چلو اچھا ہے مجھے اب بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔۔۔ کہتے ہی موڑ گئی ۔۔۔ علی فورا ۔۔۔ مذاق کر رہا ہوں نہیں پتہ مجھے اپ بتائیں گی نا م ۔۔۔۔
پر ارشیا نے جاتے جاتے ہاتھ کے اشارے سے نہ کہا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
علی مسکراتے گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔ ایک پل لگتا ارشیا کو اس کا موڈ چینج کرتے اور اسے ارشیا کا ۔۔۔۔ کتنی اہم ہو گئی تھی وہ ان دونوں کے لیے ۔۔۔۔۔ علی ٹیکسی چلاتے مسکراتا رہا ۔۔۔ وہ خوش تھا ورنہ شام کو ارشیا کا چہرہ دیکھ پھر یہ سوچ کہ اسنے کچھ نہیں کھایا اسے کافی پریشان کر گیا تھا ۔۔۔ وہ بھی علی اور احد کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے ہی پریشان ہو جاتی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا اور پلوشہ کی دوستی پورے ہوسٹل میں مشہور ہونے لگی ۔۔۔
ہر کوئی ان کو ساتھ دیکھتے دوستی کر ہی لی تم دونوں نے۔۔۔۔۔رشیا کو داد ملتی پلوشہ سے دوستی کر نے پر ۔۔۔
پر اب ان دونوں ہنس دیتی جب کوئی ایسا کہتا ۔۔۔۔ پلوشہ اتنا ارشی کو چپ رہ کر نہیں جان پائی تھی جتنا اب اس سے دوستی کرنے کے بعد ۔۔۔۔ وہ ارشیا سے فیملی کے متعلق کچھ نہ پوچھتی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اسکی فیملی کیسی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ اکثر فون پر اس کی باتیں سنتی پھر جب وہ گھنٹوں بیٹھے وہی سب سوچتی رپتی ۔۔۔ ۔۔۔
ارشیا کی وجہ سے ہی وہ اپنی فیملی کی اپورٹنس سمجھ پائی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دیر سوچنے کے بعد پلوشہ نے کال ملائی ۔۔۔۔۔ پہلی بل پر ہی کال اٹھا لی گئی ۔۔۔ ہیلو بیٹا کیسی ہو ۔۔؟؟؟
پلوشہ ایک منٹ کچھ بول نہ پائی ۔۔۔ اس نے دو دن پہلے میسج کیا پر بات کی تھی تب ٹھیک تھا پر اج اپنے باپ کی اواز اتنے مہینوں بعد سنتے اس سے بولا نہ گیا ۔۔۔
کوئی جواب نہ پا کر ہیلو ہیلو پلوشہ حیدر نے سیل دیکھا کہیں کال بند نہیں ہو گئی ۔۔۔۔
پر کال ابھی جاری تھی ۔۔۔ پلوشہ بیٹا بات کرو پاپا سے ۔۔۔
۔۔۔ میں ٹھیک ہوں پاپا اسنے اپنے آنسوؤں صاف کرتے کہا ۔۔۔
اپ رو کیوں رہی ہیں بیٹا ۔۔۔
پلوشہ نے ناک کو رگڑتے نہیں وہ بس فلو ہے اس لیے
تو خیال رکھو اپنا ۔ ۔۔ میں کل ہی ماما کو بھیجتا ہوں تمہارے پاس ۔۔۔ ہوسٹل والوں کی بھی خبر لیتا ہوں ۔۔۔ کیتے ان کا لہجہ بھی بھیگ گیا ۔۔
پلوشہ آنسوؤں میں مسکراتے اپنے ملنے انا تو ویسے اجائیں بہانے کیوں ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔
حیدر نے فورا ہم کل آجائیں اپ سے ملنے ۔۔۔ پلوشہ سے جیسے اجازت چاہی ۔۔
پلوشہ شرمندہ ہو گئی کیوں اسنے۔مانا کر رکھا تھا کہ کبھی وہ اس سے ہوسٹل۔ملنے نہیں ائیں گے اسلیے حیدر ہمیشہ اس سے یونیورسٹی ملنے جاتے ۔۔
پاپا ۔۔۔ ماما کہا ں ہیں ۔۔۔
پاس بیٹھی ہیں میرے اواز سن رہی ہیں تمہاری ۔۔۔۔۔
پاپا اپ کل ماما کو بھی لے کر انا میں اپکو اپنی روممیٹ سے ملواوں گی ۔۔۔ بہت اچھی ہے ۔۔۔ اپ ائیں گے نا مجھ سے ملنے ۔۔ پلوشہ نے اہستہ سے پوچھا ۔۔ جیسے کہیں وہ اس کے پچھلے رویہ کی وجہ سےائیں ہی نہ ۔۔۔ ۔۔
حیدر نے اسکی اواز سنتے ہاں ہاں ۔۔۔ ہم ضرور ائیں گے ۔۔۔۔ اس کی ماں نے بھی ہامی بھری ۔۔۔
پھر پلوشہ ڈھیرو ں باتیں کرتی رہی حیدراور شازیہ دونوں سنتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان کو سببتاتی رہی اپنے اور ارشیا کے بارے میں ۔۔۔ اور وہ سنتے رہے کتنے مہینوں بعد وہ انسے کھل کر بات کررہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
سب ارشیا کی وجہ سے تھا ۔۔۔ وہ جو دوسروں کی زندگیوں میں رنگ بھر رہی تھی خود بہت بڑی مشکل۔میں پھنسنے والی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپ کو اپنا کام خود کرنا چاہیے مس ہانیہ وہ جو رپورٹ اپنی پیش کر رہی تھی وقار کے ایسا کہنے پر گڑبڑائی ۔۔۔ فور اسر۔میں خود ہی کرتی ہوں اپنا کام ۔۔۔
آئندہ دھیان رکھیے گا کہ اپ اپنا کام خود کریں ۔۔۔
وہ فورا سے افس سے نکلی ۔۔۔ اس کو کیسے پتہ لگا کہ یہ روپورٹ میں نے نہیں بنائی۔۔۔ کہیں اس ارشیا نے تو کمپلینٹ نہیں کی میری پھر۔۔۔۔۔ وہ۔نہیں کر سکتی اتنی ہمت اس میں نہیں ہے ۔۔۔۔
۔ وہ فورا اصف کے پاس گی اپنی فائل اسکے ٹیبل پر پٹکی ۔۔۔ اور غصے سے تم نے میری شکایت لگائی ہے
اصف فورا کیا بد تمیزی ہے ۔۔۔ تمیز نہیں ہے تم میں ۔۔۔
ہاں نہیں پے ۔۔۔ تم جواب دو ایک دن ہیلپ کی لے لی تم سے تم نے شکایت لگا دی جا کر ۔۔۔
آصف نے اسے غصے سے دیکھتے میں نے کوئی کمپلینٹ نہیں کی تمہاری ۔۔۔۔ اگر تمہاری ہیلپ۔نہ کرنی ہوتی تو تمہیں منہ پر مانا کرتا اتنی ہمت ہے مجھ میں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
ہانیہ ہنسی ہمت نہیں تھی تبھی کمپلینٹ کی ہے تم نے میری ۔۔۔۔
اصف اسے مزید غصے سے میں نے کوئی کمپلینٹ نہیں کی ۔ پانچ دن پہلے ہیلپ کی تھی میں نے تمہاری تو اج کمپلینٹ کیوں کروں گا ۔۔۔
ہانیہ کو کوئی جواب نہ سوجھا بات اسکی بھی ٹھیک تھی اس لیے چپ چاپ فائل اٹھائے اپنے ٹیبل پر اگی ۔۔۔
ارشیا جو ابھی روپورٹ دے کر اکر بیٹھی تھی اسے دیکھتے کہیں ارشیا نے تو کمپلینٹ نہیں کی ۔۔۔۔ کل اس نے ہی میری روپورٹ بنائی تھی ۔۔۔
ارشیا اپنا کام کررہی تھی ۔ اسے غصے سے دیکھتے ۔ بہت پچھتاؤ گی مجھ سے پنگا لے کر ۔ ۔۔۔۔ ساتھ ہی ارشیا کی طرف سمائل اچھالی ۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا اسے دیکھتے مسکرا دی اور اپنا کام کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے ہمیشہ دوستی نبھائی تھی پر کچھ لوگ سچ میں اس کی دوستی کے لائق نہیں تھے ۔۔۔۔