ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺌﮯ
ﺑﮯ ﺣﺪ ﮨﻮﮞ، ﺑﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﮨﻮﮞ، ﺑﮯ ﺍِﻧﺘﮩﺎ ﮨﻮﮞﻣﯿں
صبح اسکی انکھ کھولی تو پلوشہ سامنے کھڑی تھی ۔ ناشتہ بنا دیا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔ فریش ہو کر آجاؤ ۔۔۔پلوشہ ارشیا کے اٹھتے ہی اسے بتا کر چلی گئی ۔۔۔ ۔۔
ارشیا نے حیرانی سے اسے دیکھا اسکے جانے کے بعد اسنے اپنی انکھوں کو رگڑا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ۔۔۔۔ پر خواب نہیں تھا اسکا ۔۔۔۔ لیکن پلوشہ اسکے ساتھ ایسا سلوک ۔ نہ نہ یہ ضرور اسکی کوئی نیو ٹرک ہو گی مجھے تنگ کرنے کی ارشیا سنھبال کے بیٹا ۔۔ بخار سے اٹھی ہے یہ کہیں بخار دماغ پے تو نہیں چڑھ گیا ۔ ٹائم دیکھتے مر گئے اج تو لیٹ نہیں ہونا اسر حیدر سے پھر ڈانٹ کھانا افورڈ نہیں کر سکتی میں ۔۔۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھی اور تیار ہو کر ائی تو پلوشہ اسکا ویٹ کر رہی تھی اسے اتا دیکھ اسنے اپنی پلیٹ سیدھی کی ۔۔۔
تم نے شروع نہیں کیا ارشیا اسے ابھی پلیٹ سیدھے کرتے دیکھ کر کہا
ہاں تمہارا ویٹ کر رہی تھی ۔ آؤ ناشتہ کرو ۔۔۔۔۔
ارشیا بیٹھ گئی اسے شرمندگی ہوئی کیوں کہ وہ لیٹ تھی کافی ٹائم لگ گیا تھا اسے ۔۔
ناشتہ دیکھ کر اس کے منہ میں پانی اگیا اس کا من پسند ناشتہ تھا پراٹھے املیٹ اور چائے ۔۔۔ وہ جو طہ کر کہ ائی تھی کہ ناشتہ نہیں کرے گی پر ناشتہ دیکھتے ہی اسکے منہ میں پانی اگیا ۔۔۔۔ دل دماغ کی جنگ میں دل جیتا اور ارشیا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورا ناشتہ ختم کر ڈالا
چیئر سے اٹھتے ۔ بہت شکریہ اتنے اچھے ناشتے کے لیے ۔۔۔ ساتھ ہی مسکرا کر اپنے برتن سینک پر رکھ کر ائی اسنے پلوشہ کو دیکھا ۔۔
پر پلوشہ نے کوئی ری ایکشن نہ دیا ۔ ۔ ارشیا نے اسے دیکھا تو دل میں اسے ہر پانچ منٹ کے بعد کیا ہو جاتا ہے ا بھی تو ٹھیک تھی ۔۔۔ الللہ حافظ کہہ کر وہ باہر کی طرف جانے لگی ۔۔۔
جب اسنے پلوشہ کو کہتے سنا گڈ لک ۔ ۔۔۔
ارشیا نے موڑ کر اسے دیکھا تھنکیو ۔۔۔ اور مسکراتے چلی گئی ۔ پلوشہ بھی اپنا ناشتہ ختم کر کے سینک پے اپنے برتن رکھے ۔ ارشیا کےبرتن کو دیکھتے یہ کبھی نہیں سدھرے گئی ۔۔ کہتے اسکے برتن بھی دھونے لگی ۔۔۔
ٹیکسی میں بیٹھتے اس پھر سے اسی نمبر سے میسج وصول ہوا ۔ اس نے کچھ سوچتے کال ملائی ۔ پہلی نہیں دوسری نہیں تیسری بل پر کال اٹھا لی ۔
اسلام وعلیکم بھابھی ۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔ کچھ خیال کیا کرو جب دل کرتا ہے منہ اٹھا کر کال کر لیتی ہو ۔ ٹائن دیکھا ہے تم نے ۔ ابھی ہی لیٹی تھی میں بچوں کو بھیج کے پر ادھر کسی کو احساس ہی نہیں ۔۔۔
ارشیا شرمندہ ہو گئی ۔ سوری بھابھی ۔ میں بعد میں کال کر لیتی ہوں ۔ ۔
ہاں شام کو پھر تم جان بوجھ کر میرے ارام کے ٹائم کال کرو گی اب کر لیا ہے تو بتاو کیوں کال کی تھی ورنہ پھر بتاؤ جی اپنی ماں کو کہ میں نے کال کی اور بھابھی نے بات تک نہیں کی ۔۔۔۔ بتاؤ کیا کام ہے ۔
وہ ربیعہ کو میرا نمبر آپ نے دیا ہے ۔ ؟؟؟
تم نے پوچھنے کے لیے اتنی صبح میری نیند خراب کی ہے ۔۔
سوری بھابھی پر مجھے اسکا میسج ایا تو ۔۔
اسکی بات کاٹتے ہاں میں نے ہی دیا ہے کہتے ہی ثمرہ نے فون ٹھک سے بند کر دیا ۔۔۔
ارشیا کے ساتھ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا ۔ اس لیے بنا کچھ اور سوچے اس نے اس کا نمبر سیو کیا اور اسے ریپلائے کیا ۔
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ؟؟؟ سینڈ کر کے اسنے سیل بیگ میں رکھ دیا ۔۔۔۔ وہ خوش تھی ۔ اتنے ٹائم بعد اسکا اپنی دوست سے رابطہ ہوا تھا وہ ارشیا کی سکول کی سہیلی تھی ۔ وہ اکلوتی تھی پھر بھی اس پر کافی پابندیاں تھی ارشیا کو حیرت ہوئی پہلے اس کا نام پڑھ کر ۔۔۔ لیکن پھر ثمرہ کے کہنے کے بعد اسے ہوا کہ اسنے سیل لے ہی لیا ہو گا ۔۔ تبھی کونکیکٹ کیا ہے ۔۔۔۔ اج سب کچھ بہت اچھا ہو رہا تھا اس کے ساتھ ۔۔
ارشیا آفس پہنچی تو اسکے ڈسک پر چائے کا کپ اور ایک کارڈ رکھا تھا اسنے حیران ہوتے ادھر ادھر دیکھا پر سب ہی اپنے اپنے کام میں لگے تھے ۔ اسکے گروپ کے لوگ تو ابھی تک ائے ہی نہیں تھے ۔۔۔ اسنے کرسی پر بیٹھتے کارڈ کھولا جس میں لکھا تھا گڈ لک ۔۔۔۔ نہ نام نہ کسی کی طرف سے ایا تھا ۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔
اسنے کارڈ کے اوپر نیچے سب دیکھا پر ان دو لفظوں کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔۔۔۔ ارشیا نے کارڈ بیگ میں رکھا ۔۔۔ اور چائے کا سیپ لیا ۔۔۔ جس نے بھی چائے بھیجی ہے الللہ اسکی ہر دلی مراد پوری کرے ۔۔۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ دل۔میں دعا کر رہی تھی اس شخص کے لیے ۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ اشعر کی انٹری ہوئی ۔ ۔۔ اسے چائے کی چسکیوں کے مزے لیتے دیکھ اشعر نے اس کے ٹیبل کو انگلیوں سے بجایا ۔۔۔
اووو دنیا جہان سے بیگانی لڑکی ۔ واپس اجاو چائے ہی پی رہی ہو کسی بادشاہ کے تخت پر نہیں بیٹھی ہو ۔۔
ارشیا جو مزے لے لے کر چائے پی رہی تھی اسکی اواز سن کر اسکا دل کیا باقی کی چائے اسکے اوپر پھینک دے ۔ ۔۔۔
پر اسے گھورتے ۔ ہاں تو میری چائے ہے میں جیسے مرضی پیوں ۔۔۔۔
اچھا جی یہ اپ کی چائے ہے ۔ اپ نے منگوائی ہے ۔۔۔۔اشعر اسکےکپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔
نہیں منگوائی میں نے نہیں ہے لیکن میرے ڈسک پر پڑی تھی تو میری ہوئی نہ کوئی ایسے ہی اپنی چائے کیوں چھوڑ کر جاتا ۔۔۔۔۔۔ ارشیا نے اپنا دفاع کیا ۔۔۔
اشعر نے اپنے دونوں ہاتھ باندھے اسی سنجیدگی سے دیکھتےہوئے ۔۔۔۔ مطلب تمہارے ڈسک پے کوئی کچھ بھی رکھ جائے گا تو وہ چیز تمہاری ہو جائے گی؟؟؟
ارشیا جو مسلسل چائے پی رہی تھی پتہ لگنے کے بعد بھی کہ وہ اسکی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔
اشعر نے دل میں کیا لڑکی ہے یہ ۔۔ کبھی جو عقل سے کام لے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک دم سوچنے والے انداز میں ہو سکتا کسی کی اس چائے میں مکھی گر گئی ہو۔۔۔۔۔۔
ارشیا جو سپ لینے لگی ایک دم اچھلتے کیا ؟؟؟
پر چائے کم ہونے کی وجہ سے وہ چھلکی نہیں ۔۔۔۔ اس میں مکھی گری وی تھی ۔۔۔۔ حیرانی کے عالم میں
اشعر نے معصوم بنتے ۔۔۔۔ نہیں نہیں پر ہو بھی سکتا ۔۔۔۔ یا یہ بھی کہ کوئی جھوٹی کر کے چھوڑ گیا ہو ۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔
ارشیا نے اسے ڈرتے ہوئے دیکھا تم مذاق کر رہے ہو نا۔۔۔۔
اشعر نے مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہاں ۔۔۔۔۔
ارشیا نے بہت ہی برے ہو تم ابھی میرا سب کھایا پیا باہر اجاتا ۔
اشعر نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہاں ایک تو تمہارے لیے چائے لایا تمہیں گڈ لک کہا اور میں ہی برا ہو گیا ۔۔۔اچھی تو اپ ہیں نا صرف ارشی میڈم جو دوسروں کی غلطی کا بیڑا بھی خود اٹھا لیتی ۔۔۔۔۔۔
اسکی اخری بات پر دھیان نہ دیتے ارشیا جو چائے کا کپ رکھ رہی تھی ٹیبل پے اشعر کو شرمندہ ہوکر دیکھتے ۔۔۔۔۔ تھوڑا ہچکچاتے یہ تم لائے تھے ۔۔۔؟؟؟؟۔
جی مادام ۔ اج سر حیدر کے سامنے جانا تھا میں نے سوچا اپنی نیک وشیز دے دوں۔۔۔۔ کام ائے گی تمہارے اور چائے سے کوئی دماغ چلے گا تمہارا ۔۔۔۔ پر ادھر تو شکریہ تو دور الٹا مجھے برا کہا جا رہا
ارشیا نہیں وہ ۔۔۔۔ سوری ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈسک پر تھی تو میں بس پی گئی ۔۔۔۔
اشعر اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ۔۔۔ اسے مصنوعی غصہ دیکھاتے پینے کے لیے ہی لایا تھا ۔۔۔۔
ارشیا ۔ ہاں پر ۔۔۔ روکوں تم نے اس میں کچھ ملایا تھا ۔ ڈرتے ہوئے ۔۔۔۔ کیا ڈالا ہوا تھا اس میں تم نے ؟؟؟؟
اشعر نےپہلے اس کے سوال پر اسے ہکا بکا ہو کر دیکھا لیکن پھر سکون سے مسکراتے ہاں چینے ملائی تھی ۔ میں نے ۔۔۔ دودھ بھی تھا اس میں اور ہاں پانی بھی ۔۔۔ اپنے دئے جواب کے اخر میں مزید مسکرا کر اسے دیکھا
ارشیا اسے دیکھتے ایک قدم اسکی طرف بڑھاتے تم نے میرے لیے چائے کیوں لائے سچ بتا دو ۔ ایک طرف تم مجھے منحوس کہتے ہو اس دن لفٹ نہیں روکی سیڑھیاں چڑنی پڑی مجھے کل میری انسلٹ کروا دی اور اج تم چائے لے کر ائے میرے لیے ۔۔۔۔؟؟؟ بتاؤ کیا ڈالا تھا ۔
اشعر اسے غلطی ہو گی ارشی جو اپکے لیے چائے لایا میں ۔۔۔۔۔ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے
ارشیا اسکے جوڑے ہاتھوں کو دیکھتے تھوڑا ریلکس ہوئی ۔۔۔
کل میری غلطی کی وجہ سے تمہیں سزا ملی اس لیے میں سوچا کچھ ازالہ کر دوں ۔۔۔۔ اور سوری بول دوں ۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھا تو ۔۔۔۔ بولو پھر ۔۔۔
اشعر نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے کیا؟
ارشیا نے فورا سوری اور کیا وہی بولنے ائے تھے نا ۔۔۔۔
سوری ۔۔۔۔۔۔ مجھے کل وہ فائل پہلے ہی تمہیں واپس کر دینی چاہیے تھی ۔۔۔
کمال کی اندازے بے نیازی دیکھاتے اٹس اوکے ۔۔۔۔ اور لفٹ نہ روکنے پر
ہاں اسکے لیے بھی سوری ۔۔ سب کے لیے سوری ۔۔۔۔۔
ارشیا فاتحانہ مسکرائی چلو معاف کیا تمہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر اپنی مسکراہٹ سمیٹتے اشعر کو دیکھتے میں بھی سوری ہوں ۔۔۔ اس دن جان بوجھ کر میں نے کچھ نہیں کیا تھا میرے سمجھنے تک لفٹ بند ہو گئی تھی ۔۔۔
اشعر وہ تو دیکھ کے ہی پتہ لگتا ۔۔۔۔۔
وہ کیا؟؟ ۔۔۔ارشیا نے فورا سے پوچھا ۔۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔؟؟؟
ارشیا مزید کچھ کہتی کے ہانیہ کو اتے دیکھا اپنے ڈسک کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کیا ہو رہا ۔۔۔ اوہو مسٹر اشعر اج ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں کیا کر رہے ہیں اپ ۔۔۔ ۔۔۔۔؟؟
ہیلو مس ہانیہ ۔۔۔۔ اس کی دوسری بات کو مکمل اگنور کرتے ہوئے ساتھ ہی ارشیا کو دیکھتے میں چلتا ہوں ۔ ۔۔۔۔
ارشیا نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔ وہ چلا گیا تو ہانیہ نے اسے دیکھتے یہ کیوں ایا تھا یہاں ۔۔۔؟؟؟
ارشیا نے دل میں سوچتے کیا جواب دوں وہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ سوری بولنے ایا تھا ۔۔۔ ۔۔اس لیے جھوٹ بولتے ۔پتہ نہیں میں تو ابھی ائی ہوں اپنا ڈرور کھولتے بولا ۔ساتھ ہی اصف کو اتے دیکھا تو ۔۔۔ اسلام وعلیکم آصف ۔۔۔۔۔
پر آصف بنا سلام کا جواب دیے اپنے ڈسک کی طرف چلا گیا ۔ ارشیا اسے سلام کا جواب دیے بنا جاتا دیکھ کر شرمندہ ہو گئی ۔۔۔ ہانیہ نے فورا یار وہ تم سے غصہ ہے کل تمہاری وجہ سے ہم سب کی کتنی انسلٹ ہوئی ارشیا نے اسے موڑ کر دیکھا تو ۔۔۔۔
تم فکر نہیں کرو اج تم سب ٹھیک سے کرنا پھر دیکھنا وہ خود با خود تم سے بولیں گئے ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے پریشان نہ ہو ۔۔۔۔ کہتی اسے حوصلہ دیتی چلی گئی ۔۔۔۔
ارشیا کا موڈ تھوڑا خراب ہوا لیکن دماغ سے سب جھٹکتے وہ اپنی بنائی ہوئی فائل ایک بار پھر سے چیک کرنے لگی ۔۔۔ وہ چاہتی تھی اج کوئی گڑ بڑ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ گڑ بڑ کا سوال ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
ارشیا نے بہت محنت کی تھی باقی اج بہت سے لوگوں کی یا یوں کہیے بہت سے دوشمنوں کی دعائیں ساتھ تھی اسکے ۔ ۔۔۔۔۔
اسکا پیپر ورک بہت اچھا تھا ۔۔۔۔ اور سر حیدر کا اج موڈ بھی بہت اچھا تھا ۔ اج سب نے انہیں مسکراتے دیکھا تھا ورنہ تو وہ ہر ٹائم سیریس یا غصے میں رہتے
لنچ میں اس کے گروپ کے تمام لوگ اس کےساتھ تھے آصف نے اسے صبح کے لیے سوری بھی کہا ارشیا نے فورا ہی اسے معاف کر دیا ۔۔۔ جہاں وہ دونوں ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے وہی گروپ کی لڑکیوں میں کوئی اہم ڈسکشن چل رہی تھی ارشیا نے ان سب کو دیکھتے کیا ہوا ۔۔۔۔ کس بارے میں بات کر رہے ہو ؟
ہانیہ ،اقصی اور عفیفہ تینوں نے ایک ساتھ اسےدیکھا ۔ اقصیٰ فورا تم دونوں کو پتہ ہے صبیحہ کون ہے ۔؟؟
ا آصف نے نہیں کیوں ؟؟؟کون ہے ؟؟ کسی سینیئر کی بیٹی ہے کیا ۔۔۔۔؟؟
اصف نے اپنی طرف سے مذاق کیا ۔
اقصیٰ کچھ بولتی کہ ہانیہ تم چپ کرو میں بتاتی ہوں ۔۔۔ کل آفس سے نکلتے میں نے اسے دیکھا وہ سر عمران کے ساتھ جا رہی تھی اور بار بار بابا کہہ رہی تھی انکو ۔۔۔ بعد میں ایک سینئر ہے فہیم اس نے بتایا کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔ جاب سے پہلے بھی وہ ادھر اتی رہتی تھی۔۔۔۔ بہت امیر ہے یار ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔
سب ایسے دلچپسی سے سن رہی تھی جیسے کیا ہی انکشافات ہو رہے تھے صبیحہ کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ جوس کا سیپ لیتے تبھی وہ اشعر اس کے اگے پیچھے گھمتا ہے ۔۔۔
سب نے اسکی اس بات پر اسے دیکھا ۔۔۔ وہ مزے سے ہاں تو امیر ہے سینیئر کی بیٹی ہے اپنی جاب کنفرم کروا کے لیے اسے اور کیا چاہیے ۔۔ بندہ بنا کر رکھے صبیحہ سے شاید کبھی کام اجائے ۔۔۔۔
آصف فورا سے میرا نہیں خیال کے اتنا کافی ۔۔۔۔ اور ویسے بھی انسان اپنا بیسٹ دے تو پھر ایسے چیپ طریقوں کی ضرورت ہی نہ پڑھے ۔۔۔ دوستی کا رشتہ غرض سے پاک ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
ہانیہ نے آصف تم کون سے دور میں رہتے ہو اجکل سبھی رشتے خود غرضی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اصف کھڑے یوتے میں نہیں مانتا ایسا ۔۔۔ ہر رشتہ پاک پے اگر کوئی رکھنا چاہے ۔۔ کہتے چلا گیا ۔۔۔
ارشیا اصف کی بات سے اگری کرتی تھی ۔ ہانیہ سب کو دیکھتے اسے چھوڑوں یو تو پتہ نے اپنے ابا کے زمانے کے اصول لے کر بیٹھا ہے ۔۔۔۔ بیسٹ کی بات کرتا ۔ اجکل ہر جگہ سفارش چلتی ۔۔۔۔ کوئی ہنر اور قابلیت نہیں دیکھتا ۔۔۔ اور دوستی وہ سارے اجکل مطلب سے کرتے مطلب ختم تو کوئی پوچھتا تک نہیں ۔۔۔۔
سبھی خاموش اسے سنتی رہی ۔ لنچ ٹائم ختم ہوا تو وہ لوگ واپس اپنے اپنے کام میں لگ گئے ۔۔۔
اشعر اسکا ویٹ کر رہا تھا وہ جیسے ہی افس سے نکلی تو اشعر اسکے ساتھ ساتھ چلتے ۔۔۔۔ کیسا گیا دن تمہارا ؟؟
ارشیا اسے باکل ٹھیک گیا ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ اج مجھے لفٹ مل سکتی ہے ۔۔
ارشیا اسے روک کردیکھتے کیوں ؟؟
وہ میری بائیک خراب ہے گیرج میں ہے اس وقت ٹیکسی کے لیے کون خوار ہو اس وقت اسلیے تم سے ہیلپ۔مانگ رہا ہوں ۔۔۔پلیز ۔۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے ٹھیک ہے وہ پارکنگ ایریا کی طرف گئے جہاں علی کھڑا ویٹ کر رہا تھا السلام وعلیکم چھوٹے ۔۔۔۔
علی نے موڑ کر وعلیکم اسلام کہا ساتھ اشعر کودیکھا تو ۔۔۔ کیسے ہو علی ساتھ ہی اپنا ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ مصافحہ کے لیے ۔ علی نے میں ٹھیک ہوں اپ کیسے وہ بولتے ہوئے ارشیا کو دیکھ رہا تھا کیوں ارشیا کی کل کی خفگی وہ نہیں بھولا تھا اسے تھا وہ برا نہ مانا جائے ۔۔۔
اپ اشعر بھائی اج ۔۔۔۔
ارشیا ٹیکسی میں بیٹھتے تم دونوں بیٹھ کے بات کر لو پورا راستہ ہے تم دونوں کے پاس ۔۔۔۔۔
علی فورا اشعر بھائی ائیں بیٹھیں ساتھ ہی خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
راستے میں باتوں باتوں میں اشعر نے علی سے پوچھ لیا
کہ وہ اسے روز ایسے پک اینڈ ڈروپ کر سکتا جس پر علی نے کہا ۔
کہ سوچ کربتاوں گا ۔۔۔ اصل میں اسے ارشیا کا تھا کہ کہیں اسے مسئلہ نہ ہو اشعر سے ۔۔ پر یہ اسکا غلط خیال تھا ۔۔۔
ارشیا بیٹھے اشعر اور اسکی باتیں سنتی رہی سوچتی رہی اشعر کا لہجہ بہت ہی پرسکون نرم اور دھیما تھا وہ سبسے ایسے ہی بات کرتا ۔ وہ اپنی باتوں سٹائل سے باکل ویسا نہ لگتا ۔۔۔ کسی اچھے تمیز گھرانےکا لگتا ۔۔۔۔۔
ارشی کا ہوسٹل پہلے تھے اس لیے اسے اتار کر علی اشعر کو چھوڑنے گیا ۔
علی نے ارشیا سے پوچھا تو اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا اور اشعر سےکون سی اسکی جدی پوشتی دشمنی تھی کہ جو ختم ہی نہ ہوتی اور صبح کے بعد تو کافی حد تک ارشیا کی نظر میں امینج ٹھیک ہو گیا تھا اسکا ۔ ۔۔وہ۔نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے علی کا کوئی نقصان ہو ۔۔۔۔
اسی طرح دن گزرتے گئے ۔ کام کے ساتھ ساتھ اشعر علی اور ارشیا کی کافی بات چیت ہونے لگی جس میں زیادہ تر ارشیا اور اشعر کی بحث کی چلتی رہتی اور علی کبھی ارشیا کا ساتھ دیتا اور کبھی اشعر کا ۔۔۔ اشعر کا ساتھ دینا اسے بہت دفعہ مہنگا پڑتا کیونکہ ارشیا اس سے ناراض ہو جاتی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی امی سے بات کیے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا پروہ ایسے ہی بیٹھے اپنی ماں کی باتوں کو سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کی ماں کی باتیں سلام دعا کے بعد ایان سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی پچھلے دو سال سے وہ یہی سن رہی تھی ۔ ایان اجکل کیا کرتا کیسے سب مینج کر رہا کیسے اپنے باپ کی سب جائیداد زمینے سنبھال رہا ۔۔ارشیا کا بہت دل کرتا کہ ماں اس کے بارے میں بھی ایسے ہی فکر کرے پر وہ ہمیشہ ایان ایان کرتی رہتی ۔۔۔ اسے اپنے بیٹے سے بہت امیدیں تھی ۔۔۔۔۔ نسرین کو تھا کہ ایان اپنے باپ جیسا بالکل نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔ پر یہ اسکی خام خیالی تھی ۔۔۔ بہت جلدی ان کی یہ غلط فہمی دور ہونے تھی ۔۔۔۔۔
ارشیا کا ۔۔۔دل کرتا وہ ماں کو کہے کے اسے نہیں سنانا پر اس کی ماں کی بھی واحد جگہ تھی جہاں وہ بات کرتی جو دل میں اتا کہتی پر ثمرہ تو گھر کم میکے زیادہ پائی جاتی اوراتی بھی تو ساس کو نہ پوچھتی ۔ اسکے لیے ساس صرف کام کے وقت یاد اتی ۔۔۔ ایسے میں ارشیا یہ سب کہہ کر اپنی ماں کا دل نہیں دکھا سکتی تھی اس کی ماں نے اس کے لیے بہت کچھ برداشت کیا تھا ۔۔۔ صرف اس کے لیے وہ اپنے شوہر سے مار کھاتی گالیاں سنتی طعنے سب کچھ برداشت کرتی رہی تھی ۔۔۔
اسلم کا ایک بیٹا ایان اور بیٹی ارشیاتھی ۔۔۔ وہ ایک جاہل کم عقل مردتھا جس کی نظر میں عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔۔۔ وہ شروع سے ہی اسکا نسرین پر ہاتھ اٹھانا عام تھا لیکن ایان کے پیدا ہونے کے بعد اسلم کا رویہ تھوڑا نرم ہوا ۔۔۔۔ لیکن یہ نرمی بہت کموقت کے لیے تھی ۔ ارشیا کے پیدا ہوتے ہی اسلم کا رویہ پھر سے نسرین کے لیے جارہانہ ہو گیا ۔ اسے ارشیا سے نفرت تھی اپنی بیٹی ہونے کہ باوجود وہ اسے نہ دیکھتا نہ اٹھاتا ۔۔۔۔ ارشیا اپنی ماں کی مکمل زمہداری بن گئی ۔ ایان کو ہر جگہ ساتھ رکھتا چھٹیوں میں گھمانے لے کر جاتا جو وہ مانگتا اسے ملتا
اسلم ہمیشہ اسے کہتا کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اسکے بیٹے کا ہے ۔۔۔۔ ایان ارشیا نے بچپن سے ہی ماں کو پیٹتے دیکھا تھا ۔۔۔ ایان کو ایک دن بہت برا لگا جب اسنے باپ سے کہا تو اسلم نے بیٹے کے دل میں اسکے لیے نفرت نہ پیدا ہو جائے سوچتے نسرین کواسکے سامنے مارنا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔ پر جب وہ سامنے نہ ہوتا تو نسرین کو بے وجہ مار کا سامنا کرنا پڑتا ۔۔۔
زیادہ تر وجہ ارشیا ہوتی ۔۔۔ جس کو بچاتے بچاتے اسکی ماں کو مار پڑ جاتی ۔۔۔
ایان ارشیا کے لیے وہ اپنے باپ کی مار سے
بچنے کازریعہ تھا ۔ وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی کیونکہ ایک وہی تھا جو اسکی ذات سے نفرت نہیں کرتا تھا ۔۔۔ وہ اسے اپنا نیا کھیلونا بھی دیتا جب بھی باپ کچھ لاتا کھانے کو تو ایان ارشیا کو بھی دیتا ۔۔۔۔ لیکن گزرتے دن کے ساتھ ایان کا رویہ بدلتا گیا اسکی صحبت اور باپ کی بے جا چھوٹ کیوجہ سے ۔۔۔۔ پر ارشیا کے لیے ابھی بھی وہ اسکا بھائی تھا ۔۔۔۔
اسلم کے بول کہ جو کچھ اس کا ہے وہ سب ایان کا ہے ۔ ایان کے دماغ میں یہ جملہ گھر کر گیا ۔۔۔ باپ کی محبت سے زیادہ اسے باپ کی دولت میں انٹرسٹ تھا ۔۔۔۔ ایان واحد گاوں کا بچہ تھا جس نے انگلش میڈیم سے اپنی ساری تعلیم مکمل کی تھی ۔ وہی ارشیا گورنمنٹ کے ایک سکول میں پڑھا تھا ۔۔۔ بعد میں ارشیا نے انٹرمیڈیٹ بھی گورنمنٹ کے کالج سے ہی کیا تھا ۔
اسلم کا لہجہ رویہ وقت کے ساتھ ساتھ بالکل نہ بدلا وہ ایان کو بھی اپنے جیسا بناگیا تھا بے حس اور عورتوں کو پاوں کی جوتی سمجھنے والا ۔۔۔ ایسے میں ایان کو ثمرہ جیسی بیوی ملی۔۔۔۔ جو اسسے زیادہ احساس سے عاری اور لالچی عورت تھی ۔۔۔۔ثمرہ کے انے کےبعد حالت نہ بدلے نسرین کے لیے تو بالکل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔
ایک دن اسلم کی طبیعت خراب ہو گئی جلدی میں انہیں ہسپتال لےجایا گیا ۔ ایان کا کچھ اتا پتہ نہ تھا ۔۔۔ اور ارشیا کبھی گئی بھی نہیں تھی باہر ۔ گاوں والوں اور رشتے داروں نے بہت مدد کی پر ایان دو دن غائب رہا ۔۔۔ تیسرے دن جب وہ ایا تب تک اسکا باپ دنیا چھوڑ چکا تھا ۔۔۔ باپ کے مرنے کے بعد ایان کو ایک چپ لگ گئی ۔۔۔۔ اس نے جلدی سے ارشیا کا ایڈمیشن گریجویشن کے لیے کروایا اور ہوسٹل کا انتظام کرتے اسے سب سے دور کراچی بھیج دیا ۔۔۔۔۔۔ اشعر کے چپ رہنے اور ارشیا کی زندگی کے لیے اتنا بڑا فیصلے پر نسرین کی امیدیں بند ھ دی اسے ۔۔۔۔۔
ثمرہ کو یہ فیصلہ بہت برا لگا ۔۔۔ پر ایان کی بات سنتے اسے بھی لگا کہ اسکا فی حال سب سے دور رہنا زیادہ فائدے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ پلوشہ اور ارشیا کی دوستی ہو گئی ۔۔۔اب وہ اکثر باتیں کرتی رہتی تھی ۔۔۔ قسمت بہت مہربان ہوئی وہ تھی ارشیا پے اس کے دشمن دوست بنتے جا رہے تھے اور دوست دشمن۔۔۔۔۔ ۔۔۔
پلوشہ نے اسے دیکھا تو ۔۔۔ کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔۔
ارشیا اسے ا چانک دیکھ کر گڑ بڑائی ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔
پلوشہ اسے دیکھتی رہی پر جب ارشیا مزید کچھ نہیں بولی تو چلو او کھانا بناتے ہیں مل کر ۔۔۔۔ ارشیا کو یہ آئیڈیا اچھا لگا کیونکہ فی حال وہ مزید اس بارے میں نہیں سوچنا چاہتی تھی ۔۔۔ ۔
آئیڈیا کافی فائدہ مند ثابت ہوا ۔ وہ دونوں باتیں کرتی رہی ارشیا افس کا بتاتی اور پلوشہ یونیورسٹی کا ۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن لنچ پے سب اپنا اپنا لنچ کھولے بیٹھے تھے جب اشعر اور صبیحہ کی ائی ۔۔۔۔
اشعر سب کو ہیلو کہتے صبیحہ کو چیئر کھینچ کر دی ۔ اشعر ایک دفعہ پہلے بھی ان کے ساتھ لنچ کر چکا تھا ۔ پر صبیحہ اج پہلی دفعہ ان سب کے درمیان ایسے ائی تھی ۔۔۔
صبیحہ کو بیٹھا کر وہ ارشیا کے پاس پڑی خالی چیئر پر بیٹھ گیا ۔ وہ لوگ بھی اپنا لنچ ساتھ نہیں لائے تھے ۔۔۔ ہانیہ نے سب سے پیلے صبیحہ کی طرف اپنا لنچ کی اوفر کی ۔ جسے اس نے قبول کر لیا ۔۔۔
اشعر نے خود ہی ارشیا کے لنچ سے کھانا شروع کر دیا ۔
ارشیا کو کافی عجیب لگا سب کے سامنے پر ہر کوئی دوسرے کے لنچ سے کھا رہا تھا ارشیا نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا ۔
کھانے کے دوران کافی گپ شاپ کرتے رہے جس میں زیادہ تر ایک دوسرے کی ٹانگ ہی کھینچی جا رہی تھی ۔ پر ارشیا کا کوئی نام لیتا تو اشعر اسکا جواب دیتا ہنستے ہوئے وہ ہر بات کسی اور کی طرف موڑ دیتا ۔
وہاں بیٹھے ارشیا کے علاوہ صبیحہ نے بھی یہ نوٹ کیا ۔۔۔ لنچ ختم کر کے وہ سب اٹھ ۔۔۔ صبیحہ پہلے ہی جا چکی تھی ۔۔۔ وہ اٹھنے لگی جب اشعر نے اسے تھنکیو ارشی ۔۔ کہا ۔۔
اسنے موڑ کر دیکھا تو اقصیٰ جس نے ان دونوں کو دیکھا پر مسکراتے چلی گئی ۔ کس لیے ؟؟
تمہارا اج کا لنچ میں ہی کھا گیا تم دو دو لنچ لایا کرو ۔۔ ایسے تو تمہیں روز بھوکا رہنا پڑے گا ۔
ارشیا نے اسے معصومیت سے دیکھا جو ایک طرف شکریہ بول رہا تھا اور دوسری طرف اسے روز اسکا لنچ لانے کا کہہ رپا تھا ۔۔۔۔۔
ویسے یہ تم نے خود بنایا تھا ۔۔؟؟؟
ارشیا نے لنچ بوکس اٹھاتے نہیں پلوشہ کی زیادہ محنت ہے ۔ میں نے بس اسکی مدد کی تھی ۔۔۔۔ وہ نظریں جھکائے بولی جیسے شرمندگی چھپا رپی ہو ۔
اشعر اسے ایسے دیکھتے ۔ کہ اشعر کا سیل بجا تو ٹھیک ہے افس کے بعد ملتے کہتا چلا گیا ۔۔۔
ارشیا بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف اگئی ۔۔۔
افس ختم ہوا تو ارشیا نے پارکنگ میں دیکھا تو ابھی تک علی نہیں ایا تھا ۔۔۔۔ وہ وہی پارکنگ میں بنے بینچ پر بیٹھ گئی اشعر بھی ۔ علی نہیں ایا کیا ؟؟؟
ارشیا نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔
اشعر نے اسے چپ دیکھا تو ۔۔۔ تمہیں کیا ہوا کسی نے کچھ کہا ۔۔؟؟؟
نہیں ۔۔۔ کسی نے کیا کہنا ۔۔۔۔ ارشیا نے سامنے دیکھتے جواب دیا ۔۔
اشعر بھی چپ کر گیا ۔۔۔
تم کھانے کے شوقین ہو کیا ؟؟؟ اسنے اشعر کو حیرانی سے پوچھتے دیکھا ۔۔۔
نہیں اتنا نہیں ۔۔۔۔ پھر تمہارا اشارہ اپنے لنچ کی طرف تو نہیں ۔۔۔۔
ارشیا نے نہیں ۔ بس ویسے ہی پوچھا ۔۔۔۔
اشعر مسکراتے تم پاگل ہو ۔۔۔۔
ارشیا بھی مسکرا دی اج کوئی جواب اسے نہ دیا ۔۔۔
کافی دیر خاموشی ائی دونوں کے درمیان ۔۔۔۔
ایک بات پوچھوں ارشیا نے اپنے اپ کو مصروف ظاہر کرنے کے لیے سیل فون پر کچھ دیکھنے لگی ۔۔۔۔
اشعر نے اسے ایسا کرتے دیکھا تع مسکراتے ہاں پوچھوں ۔۔۔۔۔
تم نے لنچ پے جب کوئی میرا مذاق اڑاتا تم اسے دوسروں کی طرف کیوں موڑ دیتے تھے ۔ مجھے کیوں ڈیفنڈ کرتے رہے ۔۔۔ ارشی نے موبائل کی سکرین کو ٹچ کرتے کہا ۔۔۔اشعر جس نے ٹیکسی اتے دیکھ لی تھی ۔ کھڑا ہوتے ۔ کیوں تم مذاق نہیں ہو نہ میرے لیے نہ کسی اور کے لیے ۔۔۔۔تم میرے لیے قابل عزت ہو ۔ میرے خیال سے ہر اچھی عورت قابل عزت ہے
علی ٹیکسی سے اتر کر اشعر کو دیر سے انے کی وجہ بتا رہا تھا ۔ پر ارشیا کا دھیان نہیں تھا وہ تو بس اشعر کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔۔۔
عزت احترام سب شامل تھا اسکے جواب میں ۔۔۔۔
اشعر نے اسے موڑ کر دیکھا تو تم نہیں انا یااج یہی رہنے کا پلان ہے ۔۔۔۔ علی نے بھی بیٹھتے ہوئے ارشیا کو دیکھا ۔ تو وہ دونوں کے ایسے دیکھنے پہ فورا سے اٹھی اور اکر ٹیکسی میں بیٹھی جس کا دروازہ اشعر پہلے ہی اس کے لیے کھول چکا تھا ۔۔ .