بے خبر ہوگئے ہیں کچھ لوگ ہم سے
ہماری ضرورت اب محسوس نہیں کرتے
کبھی بہت باتیں کیا کرتے تھے ہم سے
اب خیریت تک معلوم نہیں کرتے...😢😢
.................................
احد علی کا چھوٹا بھائی تھا ۔ چار سال کا تھا ۔ ارشیا اسے جانتی تھی احد سے اسکی بہت بنتی تھی۔۔۔۔۔۔
اگر اسے ارشیا پارٹ ٹو بولیں تو غلط نہ ہو گا ارشیا کی طرح اس کے پاس بھی ہر سوال کا جواب ہوتا پر وہ چپ نہ رہتا سب سوال پوچھتا جو اس کے دماغ میں اتا اور سب کو اس کے سوال۔کا جواب مسٹ دینا پڑتا اور جو جواب دیتا وہ مشکل۔سے ہی بچ پاتا کیوں کہ وہ اس کے جواب سے مزید سوال نکال لاتا ۔
ارشیا اور وہ جب ساتھ ہوتے تو عجیب سوال کے عجیب عجیب جواب ہی دریافت ہوتے رہتے ۔۔۔۔ جس کا نہ سر ہوتا نہ پیر پر وہ اپنی اپنی موجو ں میں لگے رہتے ۔۔۔۔۔اس کی اپی میں جان تھی۔ اسے پلے گروپ میں ارشیا نے ہی داخل کروایا تھا وہ جانتی تھی کہ وہ کتنا ذہین ہے اسلیے اسکو پروپر گائیڈنس ملنا ضروری تھا۔۔۔۔۔
وہ احد کا بہت خیال رکھتی چھٹی کے دن تو وہ ہوتا ہی ارشیا کے پاس ۔ اور سکول کی ساری روپورٹ ارشیا لیتی تھی اسکی ۔۔۔ارشیا علی کے ادھے کام کر دیتی اور ارشیا کے سارے باہر کے کام علی کر دیتا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے کام کر کے اپنا حق جتاتے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ علی کے سب جانے والے سمجھتے تھے "ارشیا" علی اور احد کی بڑی بہن ہے اور ہوسٹل۔میں رہتی ہے ۔۔۔ اور ہوسٹل والے سب علی اور احد کو ارشیا کے بھائی سمجھتے ۔۔۔
کتنا عجیب تھا دونوں کے ماب باپ بھائی رشتے سب الگ الگ تھے پر اپنے رشتوں سے دور وہ اپنی ہی الگ دنیا بسا بیٹھے تھے ۔ اپنے انہی رشتوں میں دنیا جہاں کی محبت سمیٹے بیٹھے تھے ۔۔
علی ایف ۔ایس سی کر رہا تھا پرائیویٹ ۔ اور ساتھ پورا دن ٹیکسی چلاتا تھا ۔۔۔۔ ارشیا اسکی بھی ہیلپ کرتی پڑھنے میں ۔۔۔۔۔۔ایک طرح کی وہ ان دونوں کی ٹیچر تھی ۔ وہ پڑھتے وقت بہت مستی بھی کرتے ۔ ۔۔
علی تم شروع سے یہاں رہتے ہو ۔ مطلب اس سکھ کے ساتھ ۔۔۔
علی جو سر گرائے پڑھ رہا تھا ۔ اسنے ارشیا کی طرف دیکھا ۔ جو احد کی کوئی کاپی لیے بیٹھی تھی ۔ وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہی تھی
علی نے بھی سر نیچے کر کے ۔۔۔ نہیں پہلے ہم سب لاہور میں رہتے تھے ۔ میرے بابا وہاں ایک کمپنی میں منیجر تھے ۔ جب میں میٹرک میں تھا تو ایک حادثے میں ماما بابا کی ڈیتھ ہوگئی ۔ میرے بابا کا گاوں ملتان میں تھا ۔ ہم انکی ڈیڈ باڈیز لے کر ملتان گئے وہاں انکو دفن کیا ۔ بابا ماما کے بعد ایک چاچا رہ گیا نہ کوئی اور بھائی نہ بہن ۔۔۔۔۔
کمپنی نے کچھ پیسے دیے اس کے بعد پوچھا تک نہیں ۔ چاچا کے پاس رہے تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے اپنے باپ کا حصہ چاہیے تو مجھے وہاں رہ کر کھیتوں میں کام کرنا پڑے گا ۔ اسلیے مان گیا ۔ احد کو لے کر جاتا بھی کہاں ۔۔۔۔افسردہ ہوتے۔
چاچا چاچی ماما بابا کے مرنے کے بعد ایسے بدلے کہ ہم سے کیا رشتہ ہے وہ بھول گئے ۔بہت کام کرواتے تھے مجھ سے ۔ محنت سے نہیں بھاگتا تھا میں بس ان کی باتیں اور طعنے برداشت نہ ہوتے پر احد کے لیے وہ بھی کیے ۔۔۔۔ لیکن ایک دن میں کھیت سے واپس ایا تو احد کا جلا ہاتھ دیکھا ۔۔۔ اس سے پوچھا پر وہ روتا رہا ۔ چاچا کے بیٹے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ چاچی نے اسکا ہاتھ جلایا کیونکہ اس نے کھانا مانگا ۔۔۔ مجھے بہت غصہ ایا ۔ پر پھر کسی سے کچھ نہ کہا ۔۔۔ احد میری زمہ داری تھا ۔۔۔۔ اس لیے چپ چاپ احد کو لے کر یہاں اگیا ۔ احد کے لیے میں وہ سب کر رہاتھا جب وہی وہاں محفوظ نہیں تو اس زمین کے ٹکڑے اس دولت کا میں کیا کرتا ۔ یہاں ایا تو سکھ پاجی نے بہت مدد کی اپنوں سے زیادہ خیال رکھا ۔ جگہ دی رہنے کے لیے کام دیا ۔۔۔۔ دھوپ چھاؤں میں ساتھ دیا ۔۔
ارشیا جو اپنا کام چھوڑے اسے سن رہی تھی ۔ اس کے چپ کرنے پر۔۔۔۔ ہر جگہ ہر کسی کی سٹوری سیم دولت کی وجہ سے بدلتے رشتے ۔۔۔ دولت کے پیچھے میں نے بہت سے رشتوں کو بدلتے اور بے حسی برتے دیکھا ہے ۔۔۔ وہ علی کو نہیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔
علی جانتا تھا کہ جب وہ سنجیدہ کوئی بات کرتی تو اسکے پیچھے ایک پوری کہانی ہوتی ۔ پر وہ اپنا دکھ اپنی کہانی کبھی کسی سے نہ کہتی علی نہیں جانتا تھا ارشیا کہاں سے ہے اس کے گھر کون کون ہوتا وہ کبھی کچھ کہتی ہی نہیں تھی ۔ اور نہ ہی علی نے کبھی اس سے پوچھا تھا ۔ ہاں وہ علی اور احد کے بارے میں سب جانتی تھی ۔۔۔۔۔ ان کے چھوٹی سی فیملی کا حصہ بن گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے خاموش دیکھتا پاکر ۔۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو ۔ پڑھوں دل لگا کر پھر کامیابی تمہارے قدم چومے گئی ۔ ساتھ ہی ایک ادا سے ہاتھ بلند کیا ۔ علی ہنس دیا اسکی اس حرکت پر ۔۔۔
وہی احد جو ابھی اندر ارہاتھا بات سن کر ۔ اپی ۔ کامیابی صرف قدم کیوں چومتی ہے ؟؟؟ اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ۔۔۔
ارشیا اور علی دونوں اسکا سوال سن کر ہنسنے لگے ۔۔۔۔
احد ان کو ہنستا دیکھ کرسوچا کہ شاید بڑا ہی جینیئس سوال کیا ہی اسنے ۔۔۔
ارشیا نے اسے اپنے پاس بولاتے اس لیے کہ ہم ہر کام کی طرف سب سے پہلے قدم بڑھا تے ہیں اس لیے ۔ پر ارشیا کا جواب اسکے سر کے اوپر سے گزرگیا ۔ علی جو بیٹھا ہنس رپا تھا احد نے اسے دیکھا علی تمہیں سمجھ ایا ۔۔۔۔
علی نے ہنسی روکتے ہاں مجھے تو سمجھ اگیا ۔۔۔۔
احد نے ارشیا کودیکھا جیسے ہیلپ مانگ رہا ہو ۔جواب سمجھنے میں ۔۔۔۔
ارشیا نے فورا بندوقوں کا رخ علی کی طرف موڑا ۔۔۔۔ علی کو سمجھ ا گیا نہ تو وہ اپ کو اچھے سے سمجھائے گا ۔ ہاں نہ علی ۔۔۔
علی کی ہنسی وہی دم تھوڑ گئی ۔ احد کے سوال کا جواب مطلب دماغ کی دہی پکی ۔۔۔۔۔ 😋😋😋
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ اج صبح سے ٹھیک نہیں تھی ارشیا کی بھی اج چھٹی تھی اسنے پلوشہ کو دیکھا تو سمجھ نہیں پائی اسکی حالت۔۔۔۔۔
وہ نہ واک کے لیے اٹھی نہ ہی ناشتہ کیا ۔۔۔۔ ارشیا اور وہ کم ہی بات کرتے تھےبلکہ نہ کرنے کے برابر۔۔۔
پر جب وہ نہ اٹھی تو ارشیا اسکے پاس ائی ۔ اسے پکارہ
پلوشہ ۔۔۔ تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔ ناشتہ نہیں کیا ۔ ۔۔۔۔۔
وہی کھڑے کھڑے ۔۔ ایک ساتھ سارے سوال کر ڈالے پر جواب میں اس کے جسم میں کوئی حرکت نہ کی ۔۔۔۔۔
اس نے نزدیک ہوتے ڈرتے ڈرتے اسے ہاتھ لگایا پلوشہ کو وہ بلا سمجھتی تھی بلا کو کون ہاتھ لگاتا ۔۔۔۔
پر جب اسے اسنے ہاتھ لگایا تو اسے فیل ہوا کہ اسے بخار ہے ۔۔۔۔ اسنے اسکےماتھا چیک کیا وہ بخار میں تپ رہی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں کب سے وہ اس حال میں تھی اسے خود پر بھی بہت غصہ ایا ۔ لیکن وہ وقت غصہ کرنے کا نہیں تھا ۔ اسنے فورا ہوسٹل کی ایک روم میٹ جو ڈاکٹر تھی ۔۔۔۔ اسے فورا بلایا وہ تو شکر تھا اج وہ تھی ہوسٹل میں اس وقت ۔۔۔ ورنہ کبھی اس کی رات کی شیفٹ ہوتی کبھی صبح کی ۔۔۔۔۔ کچھ میڈیسن لکھ کر چیک اپ کر کے یہ کہہ کے وہ ہوسپٹل جانے سے پہلے وہ ایک دفعہ پھر اکر اسے دیکھ لے گئی ۔ ارشیا نے سب سے پہلے میڈیکل سٹور جاکر دوائیاں لے کر ائی تو احد اور علی کھڑے اسکا ویٹ کر رہے تھے ۔۔
علی احد کو چھوڑ کر چلا گیا وہ احد کو لے کر ائی وہ اتے ہی اپنے کھیلونے اٹھاکر کھیلنا شروع ہو گیا ۔ ارشیا نے اس کے لیے ہلکا پھلکا ناشتہ۔بنایا ۔ اور پلوشہ کے پاس لے کرائی ۔
وہ اپنی جگہ شرمندہ ہو رہی تھی کہ اس کی غصے میں نکالے گئے الفاظ شاید اسے لگ گئے ۔۔۔۔ پلوشہ کی اٹھنے میں مدد کی اسے ناشتہ کروا کر میڈیسن دے کر اس سے پوچھا ۔
لیٹو گئی تم یا تھوڑی دیر بیٹھو گی پر پلوشہ نے لیٹنے لگی تو ارشیا سمجھ گئی کہ وہ۔لیٹے گی اسنے اسکی مدد کی لیٹنے میں اور احد کو لے کرباہر اگئی ۔۔۔۔۔
دن۔میں وہ بار بار پلوشہ کا سے پوچھتی رہی کہ اسے کچھ چاہیے تو نہیں ۔ ڈاکٹر نے جانے سے پہلے چیک کیا تو بخار پہلے سے کم تھا ۔۔۔۔
ارشیا اور احد پورا دن اس کے اس پاس ہی رہے ۔۔۔۔۔۔ احد ارشیا کی انسٹرکشن کو پوری طرح سنتا اور فولو کر تا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی پلوشہ کا بہت خیال رکھا ۔۔۔
شام کو احد واپس چلا گیا ۔ ارشیا نے کچھڑی بنائی اس کے لیے اسے کچھ اور سمجھ میں نہ ایا پلوشہ سے پوچھا تو اسنے کہا جو مرضی بنا لو ۔۔۔۔
وہ کچھڑی بنا کر اسکے سامنے لائی پلوشہ اب وہ خود تکیے کا سہارا لے کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
پلوشہ نے ارام۔سے کھانا کھایا ۔۔۔۔ ارشیا نے اسے میڈیسن دی اور خود برتن لے کر باہر اگئی ۔
اسے کل افس کی تیاری بھی کرنی تھی اور کچن بھی سنبھالنا تھا ۔ کچن سنبھالتے سنبھالتے اور افس کی تیاری کرتے اسے کافی ٹائم۔لگ گیا ۔ لیکن جب وہ واپس ائی تو پلوشہ ابھی تک سوئی۔نہیں تھی ۔۔۔۔
پلوشہ۔کو دیکھتے ۔۔۔ کیاہوا طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ۔۔۔۔۔ کیا نیند نہیں ارہی ۔۔۔
پلوشہ جو چھت کو گھور رہی تھی ۔ سامنے کھڑی ارشیا کو دیکھا ۔۔۔۔ پر کوئی جواب نہ دیا ۔
ارشیا اس کے ایسے دیکھنا سمجھ نہ۔سکی تو اسکے پاس سے ہٹ گئ اپنے بیڈ پر چلی گئی ۔۔۔۔
کمرے میں لائٹ اون ہی تھی پر مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔۔۔۔
رات خاموشی میں ہی گزر گئی ۔۔۔۔۔
ارشیا صبح اٹھی ۔ اسنے سب سے پہلے پلوشہ۔کا رخ کیا
وہ جو ارام سے سوئی تھی ۔ ارشیا نے اسکے ماتھے پر ہاتھ لگایا تو اسنے چونک کر آنکھیں کھولی ۔
ارشیا بھی ایک دم سوری وہ تمہارا بخار چیک کر رہی تھی ۔۔۔
میں ناشتہ بنانے لگی ہوں تمہارے لیے بناوں ؟؟؟
پلوشہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
ارشیا نے اپنا اور اس کا ناشتہ بنایا مل کر ناشتہ کیا انہوں نے ۔ پھر وہ تیار ہو کر پلوشہ کو میڈیسن دے کر اس کہتے خیال رکھنا اپنا ۔ اور اپنا نمبر اس کے پاس سائیڈ ٹیبل کر لکھ کر رکھ دیا اگر ضرورت پڑے تو مجھے کال کر لینا ۔۔۔ اسنے ایک اور روم میٹ کو بھی پلوشہ کی دیکھ بھال کا کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ اسے کتنا نا سمجھ لاپرواہ سمجھتی تھی پر وہ جیسی نظر اتی ویسی نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پلوشہ سے وہ تین سال چھوٹی تھی۔ پر وہ بہت زیادہ زمہ دار تھی ۔۔۔۔ جو بھی تھا اس بیماری نے پلوشہ کے دل۔میں ارشیا کے لیے جگہ بنا دی تھی۔
ارشیا افس پہنچی تو پتہ چلا کہ اج ان کا سار ا پپیر ورک سب سر حیدر کو سبمنٹ کروانا ۔ سر حیدر نام سن کر ہی سب نیو کمرز کے رنگ اڑ جاتے ۔۔۔
پر ارشیا اج خوش تھی کیوں وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ پلوشہ۔کے لیے فکر مند تھی پر وہ اب کافی حد تک ٹھیک تھی ۔۔۔۔
اسنے اپنے گروپ کے ساتھ مل کر سارا پیپر ورک بہت جلدی بنا لیا ۔۔۔۔ پیپر ورک سبمنٹ کرنی کی زمہ داری ارشیا کو ملی۔۔۔۔۔ ابھی کافی ٹائم۔تھا اس لیے وہ اور ہانیہ دونوں پیپر لیئے سر حیدر کے ڈپارٹمنٹ کی طرف ا گئیں ۔۔۔ ۔۔۔۔
ہانیہ نے جیسے ہی اشعر اور صبیحہ کو دیکھا تو روکوں روکوں ۔۔۔۔ وہ دیکھو ۔۔۔۔۔ ارشیا نے سامنے دیکھا تو اسے اشعرنظر ایا ۔ وہ فورا چلو چلو یہاں سے بڑا ہی۔منحوس بندہ ہے چلو۔۔۔۔
ہانیہ نے نہیں اوے روک چلو بات کرتے ہیں ان سے جاکر ۔ پر ارشیا اسے روکتے نہیں ۔۔۔۔۔نا جب ملتا نقصان کرواتا میرا ۔۔۔۔
ہانیہ اسکی بات نظر انداز کرتے یار اسکا اور صبیحہ کا چکر چل رہا ۔
ارشیا ۔۔کیا واقعی ۔۔۔۔ ۔۔۔ حیران ہوتے اسنے دونوں کی طرف دیکھا وہ دونوں ابھی بھی اپنے کام میں لگے وے تھے
تمہیں کس نے بتایا ۔۔؟؟ ارشیا ابھی بھی حیران ان کو دیکھ رہی تھی
ہانیہ نے بس پتہ چل جاتا جب سے ان کا گروپ بنا ہے دونوں کی بڑی دوستی ہو گئی ہے ۔۔۔۔ اور میری خبر ہمیشہ پکی ہوتی۔
یہ بات تو ارشیا بھی مانتی تھی
کہتے ہی ارشیا کا ہاتھ پکڑے وہ وہاں لے گئی
ہیلو ۔۔۔۔ ہانیہ نے جاتے ہی کہا وہ دونوں جو کام میں مصروف تھے انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا
صبیحہ نے مسکراتے ہیلوکہا
ارشیانے مسکراتے اسے دیکھا
اشعر نے فور صبیحہ اس سے دور رہو۔۔ یہ خطرہ ہے ۔
صبیحہ جو ارشیا سے کچھ کہنے لگی تھی کہ اشعر کی طرف موڑتے کیوں ۔کیا ہوا ؟
اشعر نے اپنی ہنسی دبائی وہی ارشیا نے اسے انکھیں نکالنا ضروری سمجھا ۔۔۔ دل میں وہ دعا کرتی رہی کہ اشعر اس لال رنگ کے بارے میں کچھ نہ بولے ۔۔۔۔
ہانیہ نے اس سب میں بولنا اپنا حق سمجھتے ۔ بچنا تو اپ سے چاہیے اشعر جب سےائے ہو سر حیدر کی ڈانٹ کھا رہے ہو اپ کا تو ریکارڈ اب تک بن گیا ہو گا ۔۔۔ اس نے فورا اشعر پر کمنٹ مارا ۔۔۔ اپنی طرف سے اسنے مذاق میں جواب دیا ۔
پر صبیحہ فورا مائنڈ یو ۔۔۔۔ اشعر نے پر ہنستے ۔۔۔ جی مس ہانیہ ریکارڈ تو اپ کے بھی بہت بنے وے ادھر کی بات ادھر کرنےمیں ۔۔۔۔ اشعر نے مسکراتے نارمل لہجے میں جواب دیا
پر ہانیہ کو سچ برداشت نہ ہوا اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل ان کے ٹیبل پر دےماری غصے سے کہنا کیا چاہتے ہو تم ۔؟؟؟
صبیحہ بھی فورا اپ کے مزاق کا جواب دیا ہے ہانیہ اس میں غصہ ہونے والی کون سی بات۔۔۔۔۔۔
پر ہانیہ کو بہت برا لگا تم دونوں کو دیکھ لوں گی کہتے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔ ارشیا کیا کرتی وہ تو بس منہ اٹھائے سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔
صبیحہ بھی اسے جاتا دیکھ اپنی جگہ سے باہر نکل کر گڈ لک ہانیہ اونچی اواز میں بولی ۔ ارشیا بھی واپس جانے کے لیے پلٹی تو اشعر نے اسے ارشی ہانیہ سے دور رہا کرو ۔۔۔۔۔
ارشیا نے موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ وہ اپنا کام کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ صبیحہ نے اسے ایسا اشعر کو دیکھتا پاکر سوالیہ نظروں سے دیکھا لیکن ارشیا کچھ کہے بنا چلی گئی ۔۔۔۔
صبیحہ نے فائل اٹھائی تو یہ فائل ہماری تو نہیں ہے اشعر نے فائل اسکے ہاتھ میں دیکھی تو اسے یاد ایا کہ ہانیہ نے یہ فائل اسکے ٹیبل پر ماری تھی ۔ اسکو اب مزا ائے گا سوچتے اسنے صبیحہ سے کہا کہ اسے نہیں پتہ ۔۔۔۔ اور اپنا کام کرنے لگ گیا ۔۔۔۔
صبیحہ نے بھی فائل کےسارے پیپرز ڈسٹ بن میں پھینک دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ہانیہ کافی غصے میں تھی اس لیے ارشیا بھی اس سے فائل کے متعلق نہ پوچھ سکی اسے لگا فائل اس کے پاس ہے وہ دونوں سر حیدر کے افس کےباہر بیٹھی تھیں ۔۔۔
جب انکی باری ائی تو ہانیہ اور وہ دونوں اندر چلی گئی ۔ پر دونوں کے پاس کوئی فائل نہ تھی ۔ ہانیہ نے سارا الزام ارشیا پے ڈال دیا ۔ پھر وہی ہوا پورے افس نےسنا ارشیا کی انسلٹ ہوتے جیسے سب اس دن اپنا کام چھوڑ کر آوازوں پر کان لگائے بیٹھے تھے اج بھی سب وہی کررہے تھے ۔ پر اج وہاں ارشیا تھی ۔۔۔۔۔
ارشیا اور وہ دونوں باہر نکلی تو ہانیہ کےچہرے پر کوئی شرمندگی نہ تھی
ارشیا واپس اپنے ٹیبل پراکر دوبارا سے سارا کام کرنے لگی اس کے پورے گروپ کو اسکی لاپرواہی پر غصہ تھا ہانیہ نے سارا الزام ارشیا کو دیا کہ اس نے فائل گھم کی.......
سر حیدر نے سزا کے طور پر ارشیا کوسارا کام اکیلے کرنے کو دے دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اشعر اس کے پاس وہ فائل۔ لے کر ایا تو اس نے وہ فائل ارشیا کی طرف بڑھائی ۔ تمہاری فائل
ارشیا نے فائل دیکھی بنا کچھ کہے اس کے ہاتھ سے لے لی ۔۔۔۔
سوری وہ ۔۔۔۔۔
اشعر کی بات کو کاٹتے ۔۔۔۔۔ اٹس اوکے اشعر تم نے بدلہ لینا تھا لے لیا ۔ اسے اشعر پے نہیں ہانیہ پے غصہ تھا جو اب اشعر پے نکلا تھا ۔۔۔ سنجیدہ لہجے میں بول رہی تھی ۔۔۔
اشعر نے حیران ہوتے بدلہ کون سا؟؟؟؟
اس دن میری وجہ سے سبکے سامنے تمہیں سر حیدر سے ڈانٹ پڑی اور اج سر سے مجھے حساب برابر ورنہ فائل تمہاری پاس تھی۔۔ تو تم پہلے دے دیتے ۔۔۔۔۔
اشعر جانتا تھا فئ حال۔وہ اچھے موڈ میں نہیں ہے ۔۔۔ غصہ اسکے چہرے پرایاں نہ تھا نہ ہی لہجہ ایسا بے رخی والا تھا نارمل سے لہجے میں اس نے کہا ۔۔۔۔۔
اشعر چلا گیا ۔۔۔۔
ارشیا نے دوبارہ وہ پپیرز تیار کیے پہلے پیپرز کو دیکھتے ۔۔۔چار بندوں کا کام اسے اکیلے کرنا تھا اس کو وہ سب تیار کرتے کافی ٹائم۔لگ گیا ۔ سب لوگ افس سے چلے گئے ۔ وہ اکیلی رہ گئی ۔
اسنے بس ایک دفعہ علی کو کال کر کے بتایا کہ اسے ٹائم لگے گا وہ جا کر پلوشہ سے پوچھ لے ۔ اسے کسی چیز کی ضرورت تو۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ باقی ٹائم وہ کام ہی کرتی رہی ۔۔۔۔
کام ختم کر کے وہ اٹھی ۔ پتہ نہیں علی اس وقت ہوتا بھی یا نہیں احد کو اکیلا چھوڑ کر وہ نہیں اسکتا تھا اور ٹیکسی بھی اسکے پاس اس وقت نہ۔ہوتی ۔۔۔ فائل ڈور میں رکھ کر اسنے اپنا بیگ اٹھایا اور۔لفٹ کی طرف ائی ۔۔۔ وہ بہت خوش تھی کیونکہ اس نے سارا کام کسی کی ہیلپ کے بنا خود کیا تھا ۔۔۔۔۔
افس سے باہر نکلی تو علی کھڑا تھا اپنی ٹیکسی کے پاس ۔۔۔۔
ارشیا اتے ہی ۔۔ اس وقت تم ۔ احد کو کس کے پاس چھوڑا ہے ۔۔۔
علی نے فورا اپی ۔۔۔۔ ریلکس وہ پاجی کے پاس ہے ۔ ٹیکسی بھی انہوں نے ہی دی ہے اس ٹائم ورنہ تو دوسرا لڑکا جو رات کو چلاتا تھا اگیا تھا لینے پر پاجی نے اسے اج چھٹی دے دی ۔۔۔۔۔
ادھر اشعر جو افس سے باہر ہی اسکا ویٹ کر رہا تھا ۔ کیونکہ ارشیا کو سزا اج اسکی وجہ سے ملی تھی اسکی فائل۔نہ دینے کی وجہ سے ۔ وہ تو ہانیہ کو مزا چھکانا چاہتا تھا ۔ اسے بہت برا لگا سر حیدر ڈانٹتے ہی ایسے تھے وہ حیران تھا لڑکیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنا روتی ہیں اور ارشیا کو اتنی ڈانٹنپڑی پر وہ سنجیدہ تھی لیکن اس کے چہرے پر کوئی غصہ نہ تھا ۔۔۔۔
علی نے ارشیا کو دیکھتے چلیں اپی یا کچھ اور بھی پوچھنا ہے ۔۔۔؟؟؟
اشعر نے علی اور ارشیا کو دیکھا تو ارشیا کا موڈ فریش کرنے کے لیے وہ سیدھا علی کی طرف ایا ۔۔۔۔۔ تم ۔۔
۔ تم وہی ہو نہ اس دن ۔۔۔۔۔ اچھا اچھا سمجھ گیا میں تم دونوں بھائی بہن کو ۔۔۔۔ مل کر لوٹتے ہو ۔ اس۔دن جان بوجھ کر ٹیکسی ماری تھی نا تم۔نے اور ۔ تم بہن ہو اس کی تبھی اس دن اتنا بول رہی تھی ۔
ارشیا کا فی حال بحث کا موڈ نہیں تھا ۔پر اشعر کے ایسا کہتے موڈ کی نہ مانتے لڑنے کو تیار ۔۔۔۔۔ وہ علی کے اگے کھڑے ہوتے تم میرے سے بات کرو ۔۔۔۔ جو دل میں اتا ہے بولتے جاتے ہو ۔ لوٹتے ۔۔۔۔ والڈ وار۔۔۔ منحوس۔۔۔ افت ۔۔۔۔۔ڈرائکولہ کی بہن۔۔۔
ساتھ ساتھ وہ انگلیوں پر وہ گن رہی تھی
ارشیا اج سارے حساب کلیئر کرنا چاہتی تھی ۔
اشعر اسے دیکھتے ایک بھول گئی تم "خطرہ "۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھا تم منحوس گدھے کی اولاد
اشعر نے اسے سنجیدہ ہوتے منہ دوسری طرف کرتے میرے بابا کی ڈیتھ ہوئی وی ۔۔۔
ارشیا کو دو۔منٹ سانپ سونگھ گیا ۔۔۔ پھر خود کو کمپوز کرتے سوری مجھے پتہ ۔نہیں تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ساتھ ہی فورا ۔۔۔ تو۔پھر تم الو کے پٹھے۔۔۔
اشعر نے ایک قدم اس کی طرف اگے بڑھا تے گالی ضرور دینی ہے تم نے
ارشیا ہاں تو میں گالی کے بنا کیسے لڑائی کروں ۔۔۔۔۔۔
اشعر نے اسے دیکھتے مجھے پتہ چل گیا
ارشیا اسے سنجیدہ ہوتے دیکھ کیا؟؟
کہ تم پاگل ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنجیدہ لیکن ہنسی اڑانے والے انداز میں بولا
ارشیا نے سنا تو تم پاگل تمہارا پورا خاندان پاگل تمہارے اگے پیچھے سب پاگل تمہارے ابو کو چھوڑ کر ۔۔۔
ارشیا نے اپنی طرف سے اس کے ابو کو اس لسٹ سے نکال کر جیسے ان پر بہت بڑا احسان کیا تھا ۔۔۔
علی نے ہنسنا شروع کر دیا ۔ اور اشعر بھی اس کے اخری جملے پر خوب ہنسا۔۔ ہنستے ہنستے تم سچ میں بہت بڑی پاگل۔ہو ۔۔۔
ارشیا کو۔سمجھ نہ ایا کیا۔کہے اس لیے علی کو کہتے علی ۔۔۔چلو ۔۔۔ اس کا اپنا سکروہ ڈھیلا ہے ہمیں پاگل کہہ رہا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔
وہ ٹیکسی میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔
علی جو ہنس رہا تھا ہنسی کنٹرول کرتے ۔۔ ٹیکسی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ٹیکسی سٹارٹ کی ۔۔۔۔تو اشعر نے ارشیا والی سائیڈ کی طرف اتے ارشی بتا کر تو جاو کہاں سے علاج کروا رہی ہو اپنا ۔۔۔۔ پر ٹیکسی اگے بڑھ گئی ارشیا نے منہ میں بولتے ۔۔۔۔ مجھے پاگل۔کہتا خود سڑک پے کھڑا ہو کر چلا رہا ۔۔۔ پاگل۔کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی راستہ علی کچھ نہ بولا کیونکہ ارشیار پورا راستہ منہ پھولا کر بیٹھی رہی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ۔کی طبیعت پہلے سے کافی بہتر تھی پر ارشیا جب ائی تبتک وہ سو چکی تھی ارشیا نے خود اسکے ماتھے کو۔ہاتھ لگا کر چیک کیا ۔۔۔۔ ساتھ ہی دوسری روم کی لڑکی سے پلوشہ۔کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔
اج کا دن اس کے لیے بہت تھکا دینے والا تھا اس لیے ۔۔۔ وہ چینج کر کے بنا کچھ کھائے فورا لیٹی اور سو گئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر کرسی۔پر بیٹھے اپنی یادوں میں کھویا ہوا تھا ارشیا ہمیشہ بنا سر پیر کے بات کرتی ۔اشعر کو اسکی یہی عادت بہت پسند تھی اور یہی عادت اشعر نے بھی اپنا لی وہ جان بوجھ کر بات بڑھاتا اور ارشیا عجیب عجیب جواب دیتی رہتی ۔۔۔۔ ارشیا پہلی لڑکی تھی جس سے اشعر نہ صرف پہلے خود پنگا لیا بلکہ ہمیشہ ایک بات پکڑ کر اس سے تنگ کرتا ۔۔۔ اسے ارشیا کی بات تم پاگل ۔تمہارا پورا خاندان پاگل تمہارے اگے پیچھے سب پاگل تمارے ابو کو چھوڑ کر ۔ اسنے جیسے ابو کو پاگلوں کی لسٹ سے نکال کر انکو کوئی شرف بخشا تھا ۔ وہ انکھیں بند کیے ہی ہنس دیا ۔
ارشیا کی یہی باتیں یاد کر کر کے وہ اپنا وقت گزارتا تھا ۔ ایک مہینہ ہونے کو ایا تھا پر اس کی ارشیا سے بات نہیں ہوئی تھی کبھی وہ فون اٹھا بھی لیتی تو سلام کا جوابدے کر وہ فون امی کو دے دیتی پھر جب تک وہ بات کرتا ارشیا کی کوئی اواز نہ اتی۔۔۔۔۔
کتنا بدل گئی تھی وہ ۔ افس میں ہمیشہ اس کی بات کا الٹا جواب دینے والی اب باکل خاموش ہو گئی تھی ۔ وہ ارشیا جیسے کھو سی گئی یا صرف اس کے سامنے وہ نہ بولتی ۔۔۔۔ ارشیا سے کی گئی ہر فائٹ کے بعد ہمیشہ اسے اپنی اخری لڑائی یاد اتی تو دل میں ایک درد سا اٹھتا ۔ کتنی اہم تھی وہ اس کے لیے پر ارشیا اسے سچ میں ہی اپنا دشمن سمجھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
دل ہمیشہ ارشیا کے حق میں گواہی دیتا کہ کچھ تو ہو گا ورنہ وہ ایسا کچھ نہ کہتی یا کرتی ۔ پر ارشیا نے نہ خود کبھی صفائی دی اور نہ ہی اشعر سے صفائی مانگی ۔۔۔ اشعر سے لڑائی کے بعد اس نے اگلے دن سے ہی افس آنا چھوڑ دیا ۔ کچھ دن بعد اشعر کو علی سے پتہ چلا کہ وہ واپس چلی گئی ہے ۔۔۔
۔۔ اسے ارشیا کا وہ۔لہجہ اور باتیں یاد ائی ۔ تو ایک دم اس کے اس پاس اداسی چھا گئی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کا اج پورا دن بہت تھکا دینے والا تھا ۔۔۔۔۔ وہ جو فورا لیٹی تھی سونے کے لیے ۔ لیٹتے ہی سو گئی ۔ پھر اسکی انکھ فون بجنے پر کھولی ۔۔۔۔۔۔ اسنے اٹھا کر دیکھا تو ایک نمبر سے میسج تھا ۔۔۔ جس میں اسے بتایا گیا تھا کہ وہ کون ہے ۔۔۔ اسنے انکھیں پوری کھول کر میسج پڑا توخود کلامی کرتے اس کو کہاں سے نمبر مل گیا ۔ کیا کروں ۔۔۔ پھر کچھ سوچتے صبح دیکھوں گئی۔۔۔ ایک نظر پلوشہ کو دیکھتے ۔۔جو سکون سے سو ہو ئی تھی ۔۔۔۔۔ ارشیا بھی دوبارا لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اگر اسے پتہ ہوتا ایک میسج اسکی زندگی برباد کر دے گا تو وہ اس میسج کو کبھی نہ کھولتی ۔ اگر کھولتی تو رپلائی نہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔