ارشیا کی حالت کافی خراب تھی ۔ نسرین کا پتہ لگنے کے بعد جیسے وہ ہوش میں ہی نہیں تھی ۔ احد علی اشعر سب اسے سنبھالنے والے تھے ضبط کی انتہا کا چھو رہی تھی وہ ۔۔۔۔ بنا اواز, سسکی , کے آنسوؤں گرا رہے تھے اسکی انکھوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ اشعر سمجھ نہیں پا رہا تھا اسکی حالت کو۔۔۔۔۔
اسنے خبر سننے کے بعد ایک سوال کیا تھا ہم کب جائیں گے ۔؟؟؟؟ وہ اسکے سامنے کھڑی تھی پر اسے لگا کہ ارشیا کی اواز اسے کسی کھائی سے ائی ۔ اتنی گہری کھائی سے کے اشعر مشکل سے اسکے الفاظ سمجھ پایا ۔۔۔۔ اس کے بعد سے پورا راستہ بھی وہ نہ بولی تھی ۔۔۔۔ احد بھی اسکے ساتھ لگ کر بیٹھا رہا ۔۔۔۔
۔علی سمجھ سکتا تھا ارشیا کا غم۔۔۔۔۔۔۔ اسنے بھی اپنے ماں باپ کھوئے تھے وہ جانتا تھا کہ ماں باپ ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ۔۔۔اور ارشیا نسرین سے کتنی محبت کرتی تھی ۔۔۔۔۔
۔۔۔ ارشیا کی خاموشی اسکی تکلیف گاڑی میں بیٹھا ہر شخص بآسانی محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔ ارشیا کی درد سے بھرے آنسوؤں کو دیکھ کے ۔ پر تسلی کے بول کوئی نہ بول پایا۔۔۔۔۔
۔ وہاں پہنچ کر ارشیا کا سن ایک قہرام مچ گیا ۔ سارے جاننے والے سارے رشتہ دار ارشیا سے تعزیت کے لیے ائے۔۔۔۔ جب کچھ شور کم ہوا ۔۔۔۔ ثمرہ نے ڈرامہ شروع کر دیا۔۔۔ روتے روتے بول بول کر سب کو جتا رہی کہ نسرین کے مرنے کا سب سے زیادہ اسی کو ددکھ ۔ نسرین کے بنا وہ اب پتہ نہیں کیا کرے گی ۔
ارشیا خاموش روتی اپنی ماں کے پاس بیٹھی رہی ۔۔۔۔ اسکی ملاقات ایان سے ابھی تک نہیں ہوئی تھی وہ مردوں والے پورشن میں تھا ادھر ابھی تک نہیں ایا تھا۔ علی اور اشعر بھی ادھر تھے ۔ ایک احد تھا جو آ جا رہا تھا دونوں طرف ۔۔
چیک اپ کے بعد بھی نسرین کا بخار کم نہ ہوا تھا۔ نیم بے ہوشی میں وہ بار بار ارشیا کا نام لیتی رہی پر ایان کا دل نہ پگھلا اسے اپنی ماں کی حالت کا بھی خیال نہ رہا ۔ رات گئے تک نسرین کی طبیعت نہ سنبھلی ۔۔۔۔ رات کے کس پہر وہ خالق حقیقی سے جا ملی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ صبح جب نرس ائی اس کو دیکھنے تب اسے پتہ چلا ۔۔ فجر کے ٹائم ایان کو پتہ چلا۔
ایاں نہیں چاہتا تھا کہ ارشیا ائے پر ثمرہ کے سمجھانے پر کہ لوگ باتیں بنائیں گے اسلیے اسے آنے دو
تببھی ثمرہ کو لوگوں کی فکر تھی۔۔۔۔ یہ نہیں کہ وہ نسرین کی بیٹی حق رکھتی اپنی ماں کے آخری دیدار کو ۔۔۔
ظالم لوگوں کی خدا رسی ہمیشہ دراز کرتا رہتا۔۔۔۔۔ کہ وہ کس حد تک انسانیت کے معیار سے گرتے ۔۔۔ کب تک خود کو دھوکہ دیتے کہ میں ان کے کیے کا بدلہ نہیں دوں گا انہیں
ارشیا کا ضبط سعدیہ کے انے پر ٹوٹ گیا ۔۔ سعدیہ کے گلے لگے وہ بہت روئی ۔ جیسے نسرین ہو وہ اس سے لپٹ کر رو رہی ہو ۔۔
سر حیدر انکی بیوی پلوشہ اصف اقصیٰ ۔ سب بھی ارشیا کے گھر ائے ۔۔۔۔ نسرین کے جنازہ میں شامل ہونے اور ارشیا کے غم میں اسکا ساتھ دینے ۔۔۔۔۔
ایسا لگا نسرین کی فیملی بانٹ گئی ثمرہ کے میکے اور ارشیا کے سسرال والوں کے بیچ ۔۔۔۔ ارشیا کو وہ سنبھالے بیٹھے تھے اور ثمرہ کا میکہ اسے ۔
جنا زہ کے بعد پلوشہ اور اقصیٰ چاہتی تھی کہ وہ ارشیا کے پاس روک جائیں پر ارشیا نہیں جانتی تھی ثمرہ کیا کر دے یا ایان کیسا سلوک کرے اسلیے اسنے سب کو واپس بھیج دیا۔ صرف اشعر اور سعدیہ اسکے ساتھ وہاں رہے ۔
اشعر نے سعدیہ اور ارشیا کو سامنے بیٹھائے کھانا کھلایا ۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ دونوں کھانا نہیں کھائیں گی ۔۔۔ ارشیا نہیں چاہتی تھی کچھ کھانا ۔۔۔۔پر سعدیہ اور اشعر کے باربار اسرار پر اسنے کچھ نوالے لے لیے ۔۔۔۔۔۔
ارشیا کی حالت دیکھ اشعر اور سعدیہ دونوں پریشان تھے ۔۔۔۔۔ اسکا غم بڑا تھا پر اپنے لیے صبر نسرین کے لیے دعا کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔
ارشیا کی حالت اور لوگوں کا رویہ سب
اشعر وہاں رہتا دیکھتا رہا ۔ ثمرہ ایان سب رشتہ داروں کو ارشیا کا ہونا کھٹک رہا تھا ۔ ان کا رویہ ارشیا سے نفرت امیز تھا یہ خیال کیے بنا اسکی ماں ابھی مری۔۔۔۔۔۔ سب جیسے ارشیا کے معاملے میں انسانیت ہی بجول جاتے ۔۔۔۔۔ اور ثمرہ تو جیسے اگلے ہی دن اپنے روپ میں واپس اگئی تھی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ ارشیا اور اشعر کے بہت سے جاننے والے ائے ۔ سر حیدر انکی بیوی پلوشہ اصف اور اقصیٰ کے۔ماں باپ سب ہی دوسرے دن بھی ائے ۔ ان کے لہجے میں ارشیا کے لیے اتنی محبت اور احترام تھا کہ ثمرہ سے یہ بات ہضم نہ ہو رہی تھی کہ سب ارشیا کو اتنی عزت اتنی ہمدردی کیوں دے رہے اسلیے وہاں اپنے جاننے والوں سب کو اسنے ارشیا اور عرفان کے بارے میں بتانا شروع کر دیا ۔
ہر کوئی ارشیا کو دیکھ ایک دوسرے کے کان میں گھس جاتا ۔۔۔۔
سعدیہ سب دیکھتی اور سنتی رہی کہ اسکے اس پاس کیا ہو رہا ۔۔۔۔ لیکن اس نے بنا ارشیا کو کوئی تاسب دیے سعدیہ نے ایک ماں کی طرح ارشیا کا ہر پل خیال رکھا ۔ ۔۔۔ پلوشہ اقصیٰ نے بہنوں کی طرح اس کے دکھ میں ساتھ دیا۔۔۔۔۔ ایک ماں کے جانے سے وپاپنے بہت سے قریبی رشتوںسے اشنا ہوئی تھی جو اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔۔۔
۔ خوشی میں تو ہر کوئی اپکے ساتھ دیتا ۔۔۔۔ سچا وہی جو غم۔میں بھی اپکی ڈھارس بنے ۔۔۔۔
ارشیااشعر کے ساتھ سب کو الللہ حافظ کہنے باہر ائی ۔ سب کے جانے کے بعد وہ واپس جانے لگی تو اشعر نے اسے آواز دی ۔۔۔
ارشی ٹھیک ہو تم ۔۔۔؟؟
ارشیا نے اسکا چہرہ دیکھا جو اسکی فکر میں کل سے گھل رہا تھا۔ بہ مشکل مسکراتے اسنے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔ آنٹی کی اتنی ہی زندگی تھی موت برحق ہے ارشیا تم دعا کرو انکے لیے اسنے اسے تسلی دیتے اسکے کندھے ہر پاتھ رکھا ۔۔
دو آنسوؤں ٹوٹ کر اسکے گلوں کو بھگو گئے ۔۔۔ اشعر نے اسکے آنسوؤں صاف کیے ارشیا نے نظر اٹھا کر دیکھا پر پیچھے سے انے والے شخص کو دیکھتے اس کی آنکھیں خوف اور غصے سے پھیل گئی ۔۔۔ اشعر نے اسکی انکھوں میں انجانہ خوف دیکھا تو ارشیا نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے اشعر کو بنا دیکھے ہاتھ مت چھوڑنا اشعر ۔۔۔۔
اشعر کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اسنے اس شخص کو دیکھنا شروع کر دیا جو ابھی ان کے پاس اکر کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
اشعر نے اسکی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا تو سامنے کھڑا شخص وائٹ شلوار قمیض میں ملبوس اسے اور ارشیا کو دیکھا رپا تھا۔۔۔
اسنے سلام کرتے مصافحہ کے لیے اشعر کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ اشعر نے ہاتھ ملایا ۔ اشعر ارشیا کا ہاتھ اپنے دوسرے پاتھ میں پکڑے کھڑا رہا ۔۔۔۔ اسنے ارشیا کو دیکھتے نسرین آنٹی کا سنا بہت افسوس ہوا الله ان کو جنت میں جگہ دے ۔۔
ارشیا سے کچھ نہ بولا گیا ۔۔۔۔۔ نا چاہتے انجانہ خوف نے اسے گھیر لیا ۔۔۔۔ اشعر کو دیکھتے ۔۔۔ جو اسکے خوف کا بھانپ رہا تھا جو اسکے ساتھ کے باوجود کم نہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
اشعر نے ارشیا کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے دونوں پاتھوں میں پکڑ لیا ۔۔۔۔
باروعب انداز میں الللہ امی کو جنت میں جگہ دے ۔۔۔ اشعر نے عرفان کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔اپنے لہجے کو بے حد درجے نرم رکھا ۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو شاید وہ عرفان کا منہ توڑ دیتا پر موقع ایسا نہ تھا۔
اشعر کی پرسنلٹی ہی باروعب تھی پر اسکا سخت لہجہ پر کسی کو اپنی حد میں رہ کر بات کرنے کا بتا جاتا ۔۔۔۔ عرفان جو ارشیا کو گھور رپاتھا ۔۔۔ اشعر کو دیکھ نظریں جھکا گیا ۔۔۔وہ کچھ اور کہتا ۔
کہ طلال نے اکر فورا اشعر کو سلام کیا ۔ سر اپ یہاں کیسے مسکراتے ۔ اور ارشیا کو دیکھتے۔ جس کا ہاتھ اشعر نے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔
۔ عرفان جو طلال کو دیکھ کر خوش تھااشعر کو سر کہنے پر اسکی ہنسی سیمٹ گئی ۔۔۔۔
اشعر طلال کو جانتا تھا ۔۔۔ اسکی کپمنی کے ساتھ وہ۔کام۔کر چکا تھا ۔۔۔۔۔ارشیا کو دیکھ میری بیوی ارشیا اشعر ۔ اسنے ارشیا کو مسکرا کر دیکھا ۔۔۔۔
طلال کے لفظ جیسے اسکی بات سنتے ہی دم توڑ گئے ۔
اسنے پہلے اشعر اور اسے دیکھا پھر عرفان کو ۔۔۔۔ لیکن خود کو کمپوز کرتے ۔۔۔۔میم۔۔۔۔ اپکی امی کا سن کر بہت افسوس ہوا ۔۔۔۔۔ اسنے ارشیا سے نسرین کی تعزیت کی ۔۔۔۔ عرفان نے حیرانی سے طلال کو۔دیکھا جو پہلے اشعر کو سر اور اب ارشیا کو میم بول رپا تھا۔ ۔
طلال۔نےعرفان کا تعارف کروایا ۔ اورعرفان کواشعر کے بارے میں بتایا عرفان نظریں جیسے اشعر کے رتبے کے نیچے دب گئی ۔۔ اسنے نظریں جھکا لی ۔۔۔ ۔۔
ارشیا ۔نے اندونوں کو دیکھا جو اشعر کے سامنے رعب اپنے مقام کی وجہ سے انہیں زیر کر بیٹھا تھا ۔۔۔
اشعر کو دیکھا اسے لگا اسکا محرم اسکا شریک سفر ، اسکی ڈھال بنے ہر بری نظر کو اسکے سامنے جھکانے والا، سب کو اسکی عزت کرنے پر مجبور کر دیتا ۔۔۔
اشعر ان سے بات کر نے کے بعد ارشیا کو اندر لے آیا ۔۔۔۔
ارشیا نے ابھی تک اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ وہ جو نظریں زمین پر جمائے بس اشعر کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔۔۔ اشعر اسے اندر لایا تو اسے دیکھ ۔ نظریں جھکا کر مجھے مجرم مت بنایا کرو ارشی ۔۔۔۔ تمہاری جھکی ہوئی نظریں مجھے احساس دلاتی کہ میں کتنا کمزور ہوں ۔۔بھروسہ کرو مجھ پے ۔۔۔ تمہاری طرف اٹھنے والی ہر بری نظر کو جھکا دوں گا ۔۔۔۔۔ اپنی بیوی کا مقام۔میں سب سے منوا کررہوں گا ۔۔۔ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے وہ بولا ۔۔۔
ارشیا کے بہتے آنسوؤں میں روانی اگئی ۔۔۔۔ ہر پل وہ اسے احساس دلاتا وہ ہمیشہ ہو گا اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔ اگر وہ کہتی کہ وہ اشعراس سے زیادہ محبت کرتا ہے تو غلط نہ تھا پر اشعر محبت کے راستے پر ارشیا سے بہت اگے تھا۔ اس نے ارشیا کو محبت کےساتھ ساتھ اعتبار مان بھروسہ ،تحفظ ،عزت نام مقام سب کچھ دیا تھا اسے ۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھا رہا ۔۔۔ پھر اسے سعدیہ کے پاس چھوڑ کر باہر چلا گیا۔۔۔۔۔
سعدیہ نے ارشیا کو دیکھ تو اس کا ہاتھ پکڑے صبر کرو ارشیا ۔۔۔ تمہاری ماں نے ہمیشہ تمہاری خوشی چاہی ہے ایک ماں کے کیے فیصلے کو کبھی غلط۔مت سمجھنا ۔۔۔۔۔تم دعا کرو اپنی ماں کے لیے ۔۔۔۔
ارشیا نےسعدیہ کو دیکھا جو کیا کہنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔۔۔۔
کہ ربیعہ اور اسکی امی اگئی کمرے میں ۔۔۔ ربیعہ کی امی نے ارشیا کو اوپر سے نیچے تک دیکھا بنا اس سے بات کیے وہ سعدیہ کے پاٹڈ بیٹھ کراس سے باتیں کرنے لگی ۔ عرفان بتا چکا تھا امی کو ۔۔۔ اشعر کے بارے میں ۔ تبھی وہ بھی اج سعدیہ سے ملنے ائے تھی جب کہ کل کسی نے انہیں سلام تک نہیں کیا تھا ۔۔ ربیعہ بھی اج ائی تھی اس کے انداز ہی بدلے ہوئے تھے اسنے بھی ماں کی تقلید کرتے ارشیا کو بالکل اگنور کیا ہوا تھا ۔۔۔
سعدیہ نے ان دونوں کا سلوک ارشیا کے ساتھ دیکھا جو بالکل اسے اگنور کر رہی تھیں ۔۔۔۔ تو اسنے ارشیا کو دیکھ بیٹا تم جاؤ تھوڑا ارام کر لو ۔۔۔ کل رات بھی نہیں سوئی ہو ۔۔۔۔ ارشیا سعدیہ کے کہنے پر سونے چلی گئی ۔
۔ وہ ماں بیٹی کافی دیر بیٹھی رہی ۔ ربیعہ کی ماں طلال اور ربیعہ کے رشتے کے بارے میں بتاتی رہی ۔ سعدیہ کو ان کو دیکھ یہی لگا کہ رتبے کو سلام ۔ وہ صرف اسلیے اس کی اج عزت کر رہی کیونکہ اج وہ اشعر کی ماں ۔ کل تک وہ ارشیا کی ساس تھی تو کسی نے اسے سلام نہ کیا ۔۔
سوئم کے بعد اشعر چاہتا تھا کہ ارشیا ساتھ چلے پر وہ کیسے کہتا اگر وہ روکنا چاہتی تو وہ مانا کیسے کرتا اسے ۔۔۔۔وہ اسے وپاں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔۔۔۔
پر یہ مسئلہ بھی ارشیا نے حل۔کر دیا تھا جو سوئم۔کے بعد ہی علی کے ہاتھوں اپنا سامان گاڑی میں رکھوا چکی تھی ۔۔۔ ایان نے اس دوران ارشیا سے کوئی بات نہیں کی تھی اشعر اور سعدیہ سے پھر بات کر لیتا۔ پر ارشیا تو جیسے اس گھر میں تھی ہی نہیں ۔۔۔
______________
ارشیا انکھ بند کیے اپنی ماں کے ساتھ گزارے ہر پل کو یاد کرتی رہی ۔ جس میں زیادہ تر ایسے تھے کہ اسے اپنی ماں کی برادشت اور اپنے باپ کے ظلم دیکھ کر رونا اجاتا ۔۔۔۔۔ احد اسکی گود میں لیٹا پوا تھا ۔۔۔ اسنے آنکھیں کھولی تو وہ سو چکا تھا ۔ علی سامنے بیٹھا بس اسے دیکھ رہاتھا۔۔۔ ارشیا نے آنسوؤں صاف کرتے تم کب ائے ۔۔۔۔ساتھ ہی بیڈ سے اٹھی ۔۔۔۔۔
علی نے ا اس سے آنکھیں چورائی ۔۔۔۔۔ اپنی بہن کے غم کو کیسے کم کرے نہیں سمجھ پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر اسکے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ اپ رویا مت کریں ۔۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔
ارشیا جو آنسوؤں صاف کررہی تھی اپنا ہاتھ روکے علی کو دیکھا جو اسے پانچ سال کا بچہ لگا جو سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔ اسکی بات میں جیسے چھوٹے بچے کی ضد ہو ۔۔
ارشیا نے مسکراتے نہیں روں گی آئندہ ۔۔۔۔ بس تم اور احد کبھی مجھے چھوڑ کر مت جانا ۔۔
علی نے فورا اپی ہم کبھی نہیں جائیں گے اپکو چھوڑ کر ۔۔۔ ہمیشہ اپکے ساتھ رپیں گے ۔۔۔۔ یقین سے بھر لہجے سے اسنے کہا جیسے وہ ہمیشہ اسکے اس سوال پر کہتا بس پر دفعہ علی کا اور یقین شامل۔ہو جاتا ۔۔۔
ارشیا نے اسکا پاتھ پکڑتے ۔۔ تم پر بھروسہ ہے پر اپنے نصیب پر نہیں ایسا لگتا پے جس رشتے کی طرف میں ہاتھ بڑھاؤ ں گی وہی رشتہ مجھے سے دور ہو جائے گا۔
علی نے اسکے ہاتھ پر اپنا پاتھ رکھتے ایسا مت سوچیں اپی ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ جتنی آزمائش اپ نے دینی تھی دے دی ۔ جتنا اپ نے برا وقت دیکھنا تھا دیکھ لیا ۔ ہم سب اپکے اپنے ساتھ ہیں اپکے ۔۔۔۔ ہم سب کو اپکی فکر ہے ۔ اپکی ایک مسکراہٹ کے لیے ہم سب فکرمند رہتے ہیں ۔۔۔ میرا رب اپ کے ساتھ کبھی برا نہیں کرے گا اپ نے مجھے رشتوں پر بھروسہ کرنا سیکھایا ہے ۔۔ میں ہمیشہ اپکے لیے دعا کروں گا ۔ میری اور احد کی فیملی اپ کے بنا بالکل ادھوری ہے ۔ اپکے بنا ہماری فیملی فیملی ہی نہیں ۔۔
ارشیا نے مسکرا کر اسے دیکھتے میری فیملی بھی تم دونوں کے بنا مکمل نہیں ۔۔۔ میں دعاکروں گی ہم سب ہمیشہ ایسے ہی ایک فیملی بن کر رہیں ۔۔۔۔۔۔۔
علی نے فورا آمین کہا ۔۔ ارشیا اسکے آمین کے انداز پر ہنسی ۔۔۔ تین دن کے بعد اج وہ ارشیا کی ہنسی دہکھ پا رہا تھا ۔۔۔۔ ارشیا نے اٹھتے ۔۔ سو جاؤ ۔ کل سے تمہاری پڑھائی پھر سے شروع کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔۔۔۔
علی نے ہنستے اوکے ٹیچر ساتھ ہی سلوٹ والے انداز میں ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔ ارشیا اسکے سر پر پاتھ رکھتے شبخیر کہہ کر چلی گئی ۔۔۔
ارشیا کو جاتا دیکھ کر علی نے دل میں تم بہت بدبخت ہو ایان جو اتنے پیارے رشتے اور اپنی بہن کی کبھی قدر نہیں کر پائے ۔۔
_____________
ارشیا سعدیہ امی کے کمرے میں ائی تو وہ ابھی تک تسبیح پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ ارشیا چپ باپ جا کر سعدیہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔۔۔ سعدیہ نے ایک ہاتھ سے تسبیح پڑھتے دوسرا ہاتھ ارشیا کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔
تسبیح ختم کی پر ارشیا تب تک سو چکی تھی ۔۔۔۔ سعدیہ نے اسکے سر کے نیچے تکیہ رکھا اور خود اشعر سے بات کرنے اسکے پاس چلی گئی ۔
سعدیہ ارشیا کے گھر سے ہی فیصلہ کر کے ائی تھی کہ وہ اب یہاں نہیں رہیے گے ۔ ایان اور ثمرہ سے جتنا دور رہیں سب کے لیے بہتر خاص کر ارشیا کے لیے ۔۔۔۔ ایک ماں ہونے کے ناطے سعدیہ کو ان کا رویہ انکی نفرت دیکھ ارشیا اوت اشعت کے لیے یہی بہتر لگا ۔۔
__________
ارشیا صبح اٹھی تو سعدیہ امی کمرے میں نہیں تھی وہ باہر ائی تو سعدیہ کی اواز اسے چکن سے ائی ۔۔ وہ اج تھوڑا لیٹ اٹھی تھی ۔۔۔ سعدیہ کو کام کرتےدیکھ فورامی اپ چھوڑیں میں کردیتی ہوں ۔۔۔۔سعدیہ نے اسے دیکھ ۔۔کوئی بات نہیں بیٹا میں کر لوں گئی میں سوچا اتنے دن بعد سکون سے سوئی ہو تو میں خود بنالیتی ناشتہ ۔۔۔ ارشیا نے چمچ لیتے ۔۔۔ اپنے علی یا اشعر سے کہہ دیتی امی ۔۔۔۔
سعدیہ کرسی پر بیٹھتے ان سے کیا کہتی وہ تو اج صبح ہی جلدی کہیں نکل گئے کہہ رہےتھے کوئی کام ہے ۔۔
ارشیا نے موڑ کر دیکھتے سب کو کام تھا ۔۔
سعدیہ۔نے ہاں میں سر ہلاتے کہہ رہےتھے احد کو چھوڑ دیں گے سکول اور وہی سے جائیں گے کام پر ۔۔۔۔ باقی تو کچھ بتا کرنہیں گے مجھے ۔۔۔ چلوتم کمرے میں ہی ناشتہ لے آؤ میرااور اپنا بھی ۔۔۔ میں جاتی ہوں ۔۔۔ ارشیا نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔
اسنے ناشتہ بناتے علی اور اشعر دونوں کو کال کی پر کسی نے فون نہ اٹھایا ۔۔۔ اسنے یہ سوچ کرچھوڑ دیا کہ بزی ہو گے بعد میں دیکھ کر کال بیک کر لیں گے ۔ پر دن گزرتا گیا شام ہو گئی دونوں کی کوئی خبر نہ ائی ۔۔۔۔۔۔
اسنے شام کواحدسے پوچھا کہ اسے شاید پتہ ہو پر وہ بھی نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔ کہ وہ دونوں کہاں گے ۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کے ٹائم دونوں واپس ایا ۔۔۔
ارشیا نے دونوں کوصحیح سلامت دیکھتے۔۔۔۔۔۔ الللہ کا شکر تم دونوں ٹھیک ہو ۔ ایک بار کال نہیں کرسکتے تھے تم دونوں ۔۔۔۔ وہ وہی دروازے پر کھڑے ان دونوں کو ڈانٹ رہی تھی ۔۔۔ ارشیا کی ڈانٹ ان پر جیسے اثر ہی نہیں کر رہی تھی وہ دانت نکالتے اسکی ڈانٹ سن رہے تھے ۔ ۔۔ ارشیا نے غصے سے میں تم دونوں کو لطیفےسنارہی ہوں ۔۔۔۔
علی نے اگے بڑھتے نہہں اپی بس بہت دونوں بعد اپکی ڈانٹ سنی تو مزا ارہا ڈانٹ کھا کر ارشیا نے اسلا کان کھینچا مزا ارہا تمہیں یہاں مجھے کیسے کیسے خیال آرہے تھے ۔۔۔
بس کرو ارشیا ۔ اب اگے نا ۔بے وجہ پریشان ہوتی رہی ۔۔۔۔میں نے کہا تھا کہ آجائیں گے ۔۔۔۔۔ اشعر اب پیچھے کھڑا بس ارشیا کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشیااسکی نظریں خود پر محسوس کرتے اسے دیکھا پر وہ جیسے نظریں چورا گیا۔۔۔
کھانے پر علی نے سب کو گڈ نیوزدی کہ اسکے چاچا نے احد اور اسے اسکا حصہ دے دیا ہے ۔۔۔۔۔۔
۔ارشیا نے حیران ہوتے یہ کب ہوا ؟؟؟۔۔۔
علی نے بھی نوالا لیتے یہ تو اشعر بھائی سے پوچھیں ۔ انہوں نے ہی کیس کیا تھا اور اج ہم وہ ۔کیس جیت گئے
ارشیا نے اشعر کو دیکھا۔ جو صرف مسکرایا۔۔۔۔ میں نے تو کبھی تمہیں نہیں بتایا علی کی بروبلم کے بارے میں
اشعر نے سعدیہ کو دیکھتے امی نے بتایا تھاتو میں سوچا کیوں نا اپنے سالے کی تھوڑی مدد کر دوں ۔۔۔ ساتھ ہی علی کو آنکھ ماری ۔۔۔۔۔۔
احد نے فورا میں بھی سالا ہوں پر میری کوئی نہیں سنتا ۔۔ اشعر کو دیکھتے آپ بھی نہیں ۔۔۔۔ ساتھ ہی ناراض ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔
علی نے اشعرکو دیکھتے اب سنبھالیں ۔۔۔۔ اشعر نے مسکراتے اپکی بات بھی سنی ہے میں نے اس پر بھی عمل کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ احد اپنی جگہ سے اٹھ کراشعر کےپاس جاتے اپ سچ کہہ رہے
اشعر نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں بیٹھایا ہاں بالکل ۔۔۔۔۔
ارشیا کودیکھتے اور ابھی یہ اپکا اور میراسیکرٹ ہے ٹائم آنے پے سب کو بتائیں گے ۔۔ احد نے بھی ہاں میں سر ہلایا ۔
ارشیا سب کو دیکھا پھر مشکور ہوتے اشعر کو دیکھا جو اسکے ہر رشتہ اسکے ساتھ سنبھالے بیٹھا تھا۔ دنیا کے انمول رشتے تھے اسکے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کرنے والی ماں ۔ بھائی جو اس پر جانثار کرنے کو تیار رپتے اور تحفظ ۔ مان دینے والا شوہر ۔۔۔
____________
چار مہینے ہو گئے تھے انہیں آسلام آباد ائے ہوئے ۔۔۔۔ سعدیہ کے کہنے اور احد کی فرمائش پر وہ سب یہاں شفٹ ہو گئے تھے ۔۔۔۔
علی ایک مہینے بعدایا تھا ان کے۔۔۔۔۔ اپنے پیپرزسے فارغ ہو کر ۔ وہ دونوں بھی اشعر ارشیا اور سعدیہ کے ساتھ رہتے تھے ۔۔۔۔وقت بہت تیزی سے گزرا تھا۔۔۔
ارشیا نے سامنے بیٹھے سعدیہ اور احد کو دیکھا احد سعدیہ سے کچھ لکھوا رہا تھا ۔۔۔ احد اور سعدیہ دونوں کی بہت بنتی تھی کہ جہاں سعدیہ ہوتی وہاں احد مسٹ پایا جاتا۔۔۔۔
ارشیا نے سعدیہ کو دیکھ اسے ہمیشہ نسرین یاد آجاتی ۔۔۔۔۔ نسرین نے اپنی بیٹی کے لیے بہت اچھے اور کھرے رشتوں کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔۔سعدیہ کو دیکھ اسے وہ دن یاد ایا جب ایک رات ارشیا نے رو روکر اسے خواب سنایا تھا جس میں نسرین نے اس سے معافی مانگی تھی خواب سنتے ہی سعدیہ نے ارشیا کا ہاتھ پکڑ کر بیٹیاں ماں سے ناراض ہوتی اچھی نہیں لگتی ارشیا نے ان کا ہاتھ لیتے میں ناراض نہیں ہوں ان سے پر انہوں نے ۔ وہ روک گئی جیسے الفاظ ڈھونڈ رپی پو اپنی بات بولنے کے لیے ۔۔۔۔۔ سعدیہ۔نے ارشیا کے بولنے کا انتظار کیا
ارشیا کو جب کچھ سمجھ نہ ایا تو ۔۔۔ امی اپ نہیں جانتی شادی کن حالت میں ہوئی ہے آپ سے امی نے بہت کچھ چھپایا ہےڈر لگتا ہے ۔ اگر کبھی پتہ چلا گیا تو شاید آپ۔۔۔
وہ اتنا ہی بولی کہ سعدیہ نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے نسرین نے کچھ نہیں چھپا یا مجھ سے ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔عرفان اور ثمرہ۔نے جو تمہارے ساتھ کیا تھا وہ سب بتایا تھا مجھے ۔۔۔ وہ بہت محبت کرتی تھی تم سے اپنے اپ سے زیادہ ۔ اسکا طریقہ غلط تھا پر نیت نہیں اگرمجھے بھی اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں ڈر ہوتا تو میں بھی نہ دیکھتی کہ راستہ صحیح ہے یا غلط بس جو اس وقت سمجھ اتا میں کر گزرتی ۔۔
ارشیا کے بدلتے رنگ کو دیکھتے ۔۔۔ اسکا چہرہ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے یہ۔کبھی مت سمجھنا کہ تمہاری ماں کو تم پر بھروسہ نہیں تھا ۔۔۔۔ بہت بھروسہ تھا پر وہ تمہیں کوئی امید نہیں دینا چاہتی تھی کہ تم واپس پلٹ کر اس گھر آؤ ۔۔۔۔۔نہیں چاہتی تھی کہ تم اسکی طرح کی زندگی گزارو ۔۔ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھو ں میں لیتے ۔۔۔۔۔اسنے کچھ نہیں چھپایا تھا مجھ سے ارشیا۔۔۔۔ بہت ہی عظیم عورت تھی تمہاری ماں پوری زندگی سکھ کو ترس گئی۔ اپنی بیٹی کے حق کے لیے لڑتی رہی ۔۔۔
پر نہیں دلوا پائی تمہیں تمہارا حق ۔۔
ارشیا کے آنسوؤں ٹوٹ کر سعدیہ کے ہاتھ بھیگو گئے ۔۔۔
ارشیا کی انکھوں کو اپنی انگلیوں سے صاف کرتے ۔
میں نے کبھی تم سے سوال نہیں کیا اس بارے میں نہ کبھی کروں گی ۔تمہیں اپنے بیٹے کے لیے میں نے خود چنا ہے اور مجھے اپنے چناؤ پر ناز ہے ۔۔۔۔۔ اگر نسرین مجھے نہ بھی بتاتی تو تب بھی۔میں تم پر یقین کرتی ۔ تمہاری معصومیت تمہاری سچائی تمہاری پاکیزگی تمہاری انکھوں سے دیکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے یا میرے بیٹے کو تمہاری پاکیزگی کا سرٹیفیکیٹ کسی سے نہیں لینا ۔ ہمیں اپنی بہو پر اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے ۔۔
ارشیا نے سعدیہ کو دیکھا مضبوط لہجہ ، اپنے باتوں پر یقین ہر لفظ سے جھلکتا ارشیا کے لیے محبت اور اعتماد ۔۔۔۔۔ ارشیا نے سعدیہ کو گلے لگایا کتنا سکون پہنچایا تھا سعدیہ۔کے الفاظ نے اسے ۔ اسکے کردار پر لگا داغ جیسے ہوا میں محلول ہو گیا ۔۔ کوئی کچھ بھی کہتا اب اسکے بارے میں پر اسکی ماں کو اس پر یقین کو پے ۔۔۔ وہی آنکھیں بند کیے اپنی ماں کو یاد کیا جو سچ میں اسکے لیے بہترین کا انتخاب کر گئی تھی ۔۔۔۔ جس نے اپنی بیٹی کے لیے صحیح رشتے چنے تھے ۔۔۔ بہنتے آنسوؤں میں وہ اپنے رب کا اپنی ماں کو شکر ادا کرتی رہی ۔
اسکی ماں نے ارشیا کو خود کی نظر۔میں سر خرو کر دیا تھا۔ کتنے دنوں بعد دل۔میں سکون سا تھا۔ ایک ڈر، جو ہر پل اسے خوف میں رکھتا تھا جیسے اس ڈر کا ایک ذرہ بھی نہ رہا ۔۔
خدا اپنے بندوں پر کی ہمیشہ سنتا ہے ۔ ارشیا کی بھی سنی گئی تھی پر صحیح وقت پر ۔۔سب کچھ اسکے سنے آتا گیا ہر شکوہ ہر ڈر ہر آزمائش جیسے ختم۔ہوتی گئی ۔۔۔اور ایک صاف شفاف مستقبل نظر انے لگا ۔۔۔۔۔
سعدیہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ جیسے واپس سے اپنے حال میں ائی ۔۔۔ سعدیہ اسے دیکھتے ایسے کیوں بیٹھی ہو ارشی ۔۔ ایسی حالت میں زیادہ بیٹھا مت کرو بیٹا۔۔۔۔ کمر میں درد ہو جائے گا ۔۔۔
ارشیا نے مسکرا کر سعدیہ کا ہاتھ پکڑتے ۔۔۔ ائیں میرے پاس بیٹھیں ۔۔۔۔۔ سعدیہ اسکے سر پر بوسہ دیتے اسکے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ سعدیہ نے اسکا پاتھ پکڑتے بہت بڑی خوشی دے رہی ہو مجھے تم ۔ خدا کرے یہ ننھی جان خیر سے اس دنیا میں ائے ۔ ہماری زندگی کو مزید خوشیوں سے بھر دے ۔ ارشیا نے مسکراتے امین کہا ۔۔
سعدیہ نے اپنی بہو جیسی بیٹی کو دیکھا جس کی صاف دلی نیک نیت محبت اور۔معصومیت اسے سب سے الگ بناتی تھی ۔۔۔ جب سےوہ ان کی زندگی میں ائی تھی ان کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دیا تھا ۔۔
احد کو دیکھتے ۔۔۔۔ اج اس کی سکول میں لڑائی ہوئی ہے ۔۔۔ اس نے کسی بچہ کو مارا ہے ۔۔۔تمہیں بتانے سے ڈر رپا ۔۔ تم اسے ڈانٹنا مت پر سمجھانا ۔۔۔۔ اتنا غصہ کرنا اچھا نہیں ہوتا ۔۔۔ وہ ارشیا کو احد کے بارے میں بالکل آہستہ اواز میں بتا رہی تھی تا کہ وہ نہ سنے ۔۔۔
احد اور سعدیہ کی اتنی دوستی ہو گئی تھی کہ وہ ارشیا سے زیادہ سعدیہ سے اپنی ہر بات شیئر کرتا ۔۔
ارشیا نے ہنستے ٹھیک ہے میں بات کروں گی ۔۔۔۔
اسے مت بتانا کہ میں نے بتایا ۔۔۔۔ یہ اسکا اور میرا سیکرٹ تھا۔۔۔۔
ارشیا نے سعدیہ کا ہاتھ پکڑے اپ فکر نہیں کریں ۔۔پھر اسے دیکھتے اپکی چھوٹ کی وجہ سے وہ اب ایسا کرتے ۔۔۔ آپ ڈانٹنے سے پہلے ہی روک دیتی ۔۔۔
سعدیہ نے ہنستے تو اتنے چھوٹے بچے کو میں تو نہ ڈانٹنے دوں ۔
۔ارشیا کو سعدیہ۔کی بات سن ڈھیروں پیار آیا ۔۔۔۔ جو احد سے سچ میں بہت محبت کرتی تھی کہ اگر اسے ارشیا کبھی کچھ کہتی تو وہ پہلے اسے چپ کرواتی اور بعد میں ارشیا کو کہ اتنا زیادہ کیوں ڈانٹا ۔۔۔ اتنی غلطی نہیں تھی جتنا ڈانٹ دیا اسے ۔۔۔۔۔۔ پر احد کے سامنے کبھی ارشی کو نہ روکتی نہ ہی احد کو بڑھاوا دیتی ۔۔
ارشیا نے اٹھتے میں جوس بنانے جا رہی اپ لیں گی ۔؟؟
ہاں مجھے بھی بنا دو اور اسے بھی کب سے پڑھ رہا ہے ۔۔۔۔ اسنے احد کی طرف اشارہ کیا جو ابھی ابھی پھر سے سعدیہ کے پاس اپنی کاپی لے کر پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔
ارشیا نے ہنستے ٹھیک ہے سب کے لیے بناتی ہوں علی بھی یونیورسٹی سے انے والا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کے گھر میں تین کوک تھے لیکن اس کے باوجود ارشیا زیادہ تر سب کے لیے خود کھانا بناتی تھی ۔۔۔۔ سب کو ارشیا کے ہاتھ کے کھانے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ جب پریگننسی کے شروع میں وہ نہ بنا پا تی اپنی خراب طبیعت کے بنا پر تو ہر کوئی کھا لیتا پر جتاتا ضرور کہ اج کھانا ان کے ٹیسٹ کا نہیں تھا ۔۔
__________
وہ کچن کی طرف جا رہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی ۔۔ دو طرف سے با یک وقت فون اٹھایا ۔
اشعر بولتا کہ ارشیا کی ہیلو کی آواز ائی ۔۔۔ اشعر مسکرایا ۔وہ فون رکھنے والا تھا پر اگلے کی بات سنتے اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔۔۔ساتھ ہی اسکا ہاتھ روک گیا°
دیکھا دی نا تم نے اپنی اوقات بے غیرت ۔۔۔۔۔۔ ایان دھاڑا اسکی اواز فون سے باہر آرہی تھی ۔۔۔
ارشیا نے پہچانتے ۔۔ بولو ایان ۔۔۔کتنے مہینوں بعد وہ اسکی اواز سن رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اتنی نفرت انتے بے ہودہ الفاظ ایان کے علاوہ کوئی نہیں بول سکتاتھا اسے ۔۔۔۔ اس کے لیے کچھ نیا نہیں تھا پر اشعر کے لیے تھا ۔۔۔۔۔ ارشی کے لیے یہ الفاظ سنتے جیسے اسکا خون کھول گیا ۔۔۔۔۔ پر ارشیا پر پر سکون لہجے میں جواب سن کر وہ حیران ہوا ۔۔۔۔
ایان پھر سے دھاڑا بے غیرت میں نے تیری شادی کروائی اور تم۔نے میری جائیداد پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔ تو نے اور امی نے دھوکہ دیا ہے مجھے ۔۔۔ دونوں چال بازعورتیں ۔۔۔
ارشیا کا پرسکون لہجہ یک دم اپنی ماں کے لیے نکلنے والے الفاظ وہ بھی اسکے غیرت مند بیٹے کے منہ سے سنتے زبان سنبھالو اپنی ۔۔۔۔۔ امی تھی وہ تمہاری بھی تھوڑی تو عزت کر لو ۔۔۔
پر ایان کا غصہ جیسے ساتویں اسمان پر تھا۔۔۔۔۔ تم جیسی بے غیرت ۔۔۔
ارشیا نے اسے اپنی بات پوری کرنے نہ دی ۔۔۔۔ غیر ت مند تو صرف تم ہو نا ایان ۔۔۔ جس کے رشتوں سے زیادہ جائیداد کی اہمیت ہے ۔۔۔۔ اورکون سے جائیدادوں پے ہاتھ صاف کیا ابو کی ؟؟؟؟میں اس شخص کی جائیداد میں حصہ لوں گئی جس شخص نے پوری زندگی میرے سر پر کبھی پیارسے ہاتھ نہیں رکھا تو تم غلط ہو ایان اسلم ۔۔۔۔ ارشیا اشعر اتنی گری ہوئی نہیں ۔۔اور رہی امی کی بات تو ۔۔۔ انہوں نے مجھے نانا ابو کا حصہ دیا تھا جب میں میٹرک میں تھی سمجھے ۔۔۔۔۔ لیکن میں نے وہ تمہارے بچوں کے نام کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ پیپرز تمہیں بھیجوا دوں گی ۔۔
احسان نہیں کیا تم۔نے امی ابو کا جو کچھ بھی ہے وہ سب میرا تھا ۔۔تمہارا کوئی حق نہیں کسی چیز پر ابو نے کچھ نہیں دیا تھا تمہیں یاد ہے وہ۔جیسے اس کی اسلم۔کی نظر میں اوقات یاد دلا کر اسے شرمندہ کرنا چاہتا تھا۔
ارشیا نے ضبط کرتے ۔۔۔۔۔ سب یاد پے مجھے ۔۔مال۔دولت سے۔تمہیں فرق پڑتا ہو گا ایان مجھے نہیں ۔ میرے شو ہر اور میرے بھائیوں کے پاس الللہ کا اتنا کرم ہے کہ ہمیں تمہارے جیسوں کے پیسوں کی ضرورت نہ پڑے ۔۔۔۔ وہ شرمندہ ہونے کی جگہ اب اسے سنا رپی تھی اسی کی ٹون میں بولی ۔۔۔
بہت اترا رہی ہو اپنی شوہر کے پیسوں پر اور بھائی وہ بھائی نہیں پے تمہارے ۔۔۔
بھائی ہیں وہ میرے ۔۔۔۔ احساس اور احترام کا رشتہ ہے ہمارا ۔۔۔ پھر طنزیہ ہنستے یہ۔میں تمہیں کیوں بتا رہی تم تو ان دونوں لفظوں سے بالکل واقف ہی نہیں ۔۔
جس بھائی اور شوہر کی بات کر رہی ۔ایک دفعہ سبکو پتہ چلا تمہارے کرتوتوں کا یہی منہ اٹھا کر آؤ
گی میرے پاس ۔۔۔ وہ اپنی بات کے اخر امیجن کر کہ محظوظ ہوا ۔۔۔
ارشیا نے ہنستے ۔۔کرتوت ۔۔۔۔ ہا۔۔ ایک اہ چھوڑی ۔۔۔۔ مجھے اپنے رشتوں پر پورا بھروسہ مسٹر ایان اسلم ۔ اور میرا شوہر کو اگر پتہ بھی چلا تو وہ کبھی یقین نہیں کرے گا ۔ اتنا بھروسہ ہے مجھے اپنےشوہر پے ۔۔۔۔۔ اور کبھی پوچھا بھی تو مجھے ۔ تمہاری طرح ایک شخص کی بات سنتے نہ۔مجرم سمجھے گا نہ ہی مجھے جانوروں کی طرح مارے گا ۔۔
وہ بے غیرت ہو سکتا میں نہیں ؟؟؟
ارشیا نے ضبط کرتے ۔۔۔ ایکلڑکی کو اس کی غلطی کے بنا بیٹنا غیرت ہے ایک انجان کی بات سنتے مجھے مجرم قرار دینا اگر غیرت ہے تو ایان اسلم ۔۔۔۔۔معاف کرنا مجھے میرا بے غیرت شوہر ہی مبارک۔۔
پھتائے گا وہ ۔۔۔۔ عورت ذات کو اتنا سر چڑھا رہا۔ تمپین ۔کھلی چھوٹ دے رکھی کل کو کون کون سے گل کھیلاو گی کون سے چاند چڑھاؤ گی اسکی عزت کو داغ دار کرو گی ۔
اشعر نے ضبط کیے اپنی مٹھیاں بیچ لی ۔۔۔۔ ایان اج سچ میں اسکی نظر۔میں اپنا۔مقام کھو رہا تھا ۔۔۔۔ ایک بھائی اپنی بہن سے جتنا بھی خار کھا لے پر اتنی نفرت اور ایسے الفاظ ۔۔۔۔۔
ایان بولتا رہا ۔۔ ارشیا نے ضبط کیے اپنے لیے نکلنے والے الفاظ اسکےمنہ سےسنتی رہی ۔۔۔۔
وہ بالکل اسلم جیسا تھا اسی کا لہجہ اسی کے الفاظ ۔۔۔۔۔ اتنی ہی حقارت ارشیا کے لیے ۔۔۔
ایان سنبھال جاؤ ۔ اس سے پہلے کہ خدا تمہارے دل پر مہر لگا دے ۔۔۔۔ اپنے پاتھوں سے اپنے بچوں کا مستقبل برباد نہ کرو کہہ کر اسنے فون رکھ دیا ۔۔
ایان کا سوچ کر اسکے آنسو ٹوٹ کر گالوں سے بہتے ہوئے اسکے کپڑوں میں جذب ہو گئے ۔۔۔۔
کچھ لوگوں کے پاس پچھتاوا بھی نہیں ہوتا
ہم سوچتے رپتے ہیں کہ شاید انکو احساس ہو گا اپنے منفی رویے کا پر ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ پچھتاوے بھی ظرف والوں کے لیے ہوتے ہیں ۔۔۔ بے حس لوگوں کے پاس صرف اپنا آپ ہوتا ہے ۔۔۔
اشعر نے بھی فون رکھتے دکھ سے انکھیں میچ لی۔۔۔ آسلام اباد انے سے پہلے سعدیہ نے اسے سب بتایا تھا ۔ پر اشعر ہمیشہ سوچتا تھا کہ ایان اتنی نفرت نہیں کرسکتا ارشیا سے کہ اسے انسان ہی نہ سمجھے پر اج ایان نے اسکے سامنے سب صاف کردیا تھا ۔۔۔۔ منہ اوپر کیے یاخدا اسنے سب کیسے برداشت کیا ہو گا ۔
___________
طلال ربیعہ پے چلا رہا تھا۔ وہ ڈر کر آنسو صاف کرتے اپنے بھائی کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھی تھی ۔۔۔ وہی الزام وہ لفظ وہی لہجہ سب کچھ وپی تھا بس اج ارشیا کی جگہ ربیعہ تھا اور الزام لگانے والا اسکا شوہر تھا ۔۔۔۔۔ ربیعہ کے چہرے کے ایک طرف طلال کے انگلیوں کے نشان تھے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں تھا جب اسنے ربیعہ ہاتھ اٹھایا تھا ۔ عرفان اپنی بہن کو دیکھ سر جھکا گیا ۔۔ کچھ بھی اسکا کیا ہوا نہیں تھا وہ تو بس اپنے بھائی کا کیا بھگت رہی تھی ۔۔
عرفان نے ارشیا کی زندگی خراب کر کے طلال کو ربیعہ کے لیے چنا تھا ۔۔۔۔ربیعہ کا نصیب طلال تھا پر اسکے بھائی نے راستہ غلط چنا تھا ۔۔۔۔ ایک لڑکی کی زندگی برباد کر کے ۔۔۔۔ ۔ وہ یہ بھول گیا کیا اسکی طرف بھی لوٹ کر ا سکتا ۔۔
طلال ایک سطحی مرد تھا ۔ جو خود کچھ بھی کرے اور بیوی اسکے سامنے آواز تک نہ اٹھائے ۔۔۔۔ ایک مہینہ بھی سکون سے نہیں گزرا تھا ان کی شادی کے بعد ۔ طلال کی بہت سی لڑکیوں سے دوستی تھی ۔ یہ بات ربیعہ بہت جلدی جان گئی تھی ۔ پر خوش تھی کہ بیوی تو صرف وہی ہے اسکی ۔۔۔۔ پر اسکا یہ وہم تھا ۔۔۔۔ وہ طلال کی دوسری بیوی تھی ۔۔ جس وجہ سے اکثر انکی لڑائی کی وجہ بنتی طلال اس پر پاتھ بھی اٹھا دیتا اسکا منہ بند کرنے کے لیے ۔۔۔جب ربیعہ نے طلال سے طلاق مانگی تو طلال نے بہت معافی مانگی ۔۔۔ یہ تک وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا ۔۔۔ کچھ دن سکون سے گزرے۔۔۔
ربیعہ کو روز ایک نمبر سے میسج اتے ۔ یہاں تک کہ وہ کہیں بھی جاتی اسکی پکس کلک کر کے اسے سینڈ کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ اسنے رشتہ بھیج دیا ۔۔
ربیعہ اسکا نام شکل کچھ نہیں جانتی تھی پر اسکی ایمج طلال کے سامنے اتنی مشکوک کر دی کہ پہلے طلا ل جو بند کمرے میں اس پر پاتھ اٹھاتا تھا اسنے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ اور اسکی ماں کچھ نہ بول پائی کیونکہ سارے ثابوت ربیعہ کے خلاف تھے ۔
طلال نے اسکے بھائی اور ماں کو بلایا تاکہ وہ بھی اپنی بیٹی کے کرتوت دیکھیں ۔۔۔
۔ عرفان کو لگا وقت تو ارشیا کے ٹائم ہی روک گیا تھا ۔ اج پھر سے وقت وہی سے شروع ہوا ہے۔۔ وہ سر جھکائے طلال کے سارے الزام سہتا رہا ۔ کیوں نا سہتا۔۔۔۔ اسکا خود کا کیا اسکے سامنے ا رہا تھا
اج وہ شرمندہ تھا اپنے کیے پر ۔
طلال نے ربیعہ کا سر بھی جھکا دیا تھا اپنے سامنے اور احسان کر کے اسے اپنے گھر میں بھی جگہ دے دی تھی
طلال نے سب اپنے دوست کی مدد سے کیا تھا ۔ اگر کل کو کوئی جان لیتا کہ اس کی پہلی شادی کا تو وہ کہہ دیتا کہ اسکی یہ دوسری شادی اور ربیعہ اسے مجبور کیا یہ سب کرنے پر ۔۔۔۔
ربیعہ ارشیا نہیں تھی جو سب کچھ برداشت کر لیتی اپنے اوپر لگے الزام کے ساتھ ذندگی گزارتی اسنے زندگی نہیں اپنی موت کو چنا تھا۔ دوسرے دن ہی عرفان کو خبر ملی کہ اسنے اپنی نبز کاٹ کر اپنی ذندگی ختم کر لی ہے ۔۔۔۔۔ عرفان کو لگا اگلے پل وہ سانس نہیں لے پائے گا۔۔۔ پر وہ سانس لیتا رہا اسی بے سکت وجود کے ساتھ اسنے اپنی بہن کا جنازہ دیکھا ۔ اسے قبر میں اترتے دیکھا ۔۔ سب کچھ اسکی انکھوں کے سامنے چلتا رہا ۔۔۔۔ زبان جیسے کچھ بولنے کے قابل نہ رہی ۔۔۔۔ پر اسے زندہ رہنا تھا اپنے کیے پر نادم ہونے کے لیے ۔ ذندگی بھر پچھتاوے کے لیے ۔
__________
شام سے وہ سٹیڈی ٹیبل پر بیٹھا تھا ۔۔۔ اب رات ہونے کو ائی تھی ۔۔۔ وہ بیٹھا ارشیا کے بارے میں سوچتا رہا۔۔وہ خوش تھا کہ ارشیااسکے پاس ہے ۔۔۔اسکے سچے اور قدر کرنے والے رشتےاسکے پاس ہیں ۔۔ ۔۔۔ ارشیا کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے مجھے اپنے شوہر پر پورا بھروسہ ہے ہنسی کی ایک لہر اسکے ہونٹوں پر دوڑ گئی ۔۔۔ میں کبھی تمہارا بھروسہ نہیں توڑوں گا ۔۔۔ارشی ۔۔۔۔ الللہ سے یہی دعا کروں گا کہ مجھے تمہارے بھروسے پر ہمیشہ پورا اتاریں ۔ تمہیں اتنی خوشیاں دوں تمہیں کہ سارے غموں کا مدوا کر پاؤ ں۔۔ خود سے جیسے عہد کرتے وہ اٹھا ۔۔۔ کچن کی طرف آیا ارشیا اسے کچن میں کھڑی نظر ائی ۔۔۔
اشعر کے اتے ہی سب خود ہی باہر نکل گئے ۔۔
۔ارشیا نے موڑ کر اسے دیکھ کر مسکرائی ۔۔۔۔۔۔ اشعر کے لیے اسکی مسکراہٹ مرہم تھی ہر درد کی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی سکون تھی اسکا ۔۔۔۔اسکی پہلی محبت۔۔۔ اسکی بیوی ۔۔۔۔
اشعر نے اسکو پیچھے سے پکڑتے۔۔۔۔۔ کیا کر رہی ہو؟؟؟کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔کھانے کی تیاری کر رہی ہوں ۔۔۔۔ کام ختم ہو گیا تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے چمچ ہلاتے اس سے پوچھا
اشعر نے اسکے گال پر اپنی۔محبت کی مہر ثبت کرتے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ہاں ہو گیا ختم ۔۔۔۔۔۔
کھانے کو دیکھتے ۔۔۔ اج بہت اچھی خوشبو ارہی ہے ؟؟؟
ارشیا نے ہنستے ۔۔۔۔۔ ہمممم اج میں بیت خوش ہوں ۔۔۔
آشعر نے اسکی چمکتی انکھوں کو دیکھتے ۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔ اور خوشی کی وجہ ؟؟؟
ارشیا نے اسکی انکھیں میں دیکھتے ۔۔۔ اج اپنے بھروسے پر بھروسہ کیا ہے میں نے ۔۔۔۔۔
اشعر نے اسکی خوشی کو اس انکھوں دیکھا ۔۔ اسے اپنی باہوں میں بھرتے الللہ ہماری خوشی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے ۔۔۔۔
ارشیا نے مسکراتے اسکے سینے پر سر رکھا ۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ بھی خوش ہے کیونکہ جب وہ خوش پوتا یا اسے ارشیا پر پیار اتا وہ اسے اپنی باہوں میں بھر لیتا ۔۔۔۔۔
اشعر نے اسکے سر پر بوسہ دیتے ۔۔۔ تم مان ہو میرا ۔۔۔ اور میں تمہارا بھروسہ ۔۔۔۔ میں دونوں کبھی نہیں ٹوٹنے دوں گا۔۔۔۔۔۔ یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔ارشیا جانتی تھی یہ صرف الفاظ نہیں یہ اسکی زندگی کی ابدی حقیقت ہےجو اشعر اور اسکی چلتی سانسوں تک رہے گی اور اس حقیقت پر وہ ہمیشہ اپنے رب کی شکر گزار ہے اور رپے گی ۔۔
_________
ارشیا نے بہت کچھ برداشت کیا تھا پر اسنے اپنے رب سے اچھے کی امید کبھی نہیں چھوڑی تھی نہ ہی بھروسہ کرنا چھوڑا تھا ۔خدا نے بھی اسے وہ رشتے اور لوگ دیے تھے جو اسکی قدر کرتے اور اسکا بھروسہ کبھی نہ توڑتے ۔۔۔۔۔اسنے ہمیشہ اپنی ذندگی میں امید کی بہار جگائے رکھی تھی کبھی بھی اس امید کو بجھنے نہیں دیا تھا ۔۔
ختم شد ۔۔