ارشیا ڈر کر اٹھی تو اشعر پاس ہی سو رہا تھا۔۔۔ ماتھے پر ائے پسینہ کو انگلیوں کی پوروں سے چھوتے کیسا عجیب خواب تھا۔۔۔۔ وہ وادی ، سبزہ ۔ وہ عورت۔ میں کیوں بھاگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ معافی وہ۔مجھ سے معافی۔۔۔۔ کیا کیا ہے اسنے ۔ اتنی خوبصورت عورت کون ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ اپنا سر ہاتھوں میں گرائے وہ خواب کے ایک ایک پل کو یاد کر کے خود سے سوال کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
اشعر نے کروٹ بدلی تو ارشیا کو بیٹھے دیکھا ۔۔۔ کیا ہوا ارشی ۔۔۔۔ ایسے کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔ اٹھ کر بیٹھتے ۔۔۔۔
ارشیا جیسے جو آنکھیں بن کیے ایک بار پھر جیسے اس خواب میں اس عورت کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔۔۔ اشعر کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے وہ چونک گئی ۔۔۔
اشعر نے اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوتے فورا اسے خود کے قریب کیا ۔۔۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ ادھر دیکھو ۔۔ کوئی خواب دیکھا ہے ۔۔۔
ارشیا نے اسکے سینے پر سر رکھتے ایک خواب دیکھا تو ڈر گئی ۔۔ اشعر نے اسکے گرد اپنا حصار باندھتے میں ہوں نہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک عورت دیکھی بہت خوبصورت سفید لباس پہنے۔ پرسکون شاداب چہرہ پر وہ رو کر مجھ سے معافی مانگ رہی تھی ۔۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو وہ اٹھ کر چلی گئی ۔ میں بھاگی اسکے پیچھے پر وہ چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اشعر نے اسکا پورا خواب سنا پر سمجھ اسکی بھی نہ ایا کہ اسے کیا کہے۔۔۔
اس عورت کو پہلی دفعہ دیکھا ہے میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عورت کون ہو گی اشعر ۔۔۔؟؟؟ اسنے سر اٹھائے اشعر سے سوال کیا ۔۔۔۔
اشعر مسکرایا۔۔۔۔ مجھے کیسے پتہ ہو گا تم۔نے۔مجھے اپنے خواب میں انے ہی نہیں دیا کہ میں اس عورت کو دیکھتا ۔۔۔۔۔۔
ارشیا اسکی بات سنتے اشعر حد ہے میں یہاں سیریس بات کر رہی اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ۔۔۔وہ مسکرائی ۔۔۔۔۔
۔ اشعر نے اسکی مسکراہٹ دیکھتے مسکراتی رہا کرو ۔۔۔۔ زندگی خوبصورت لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ارشیا کا شرماتا چہرہ دیکھ ۔۔۔۔۔
آؤ لیٹو میں اج تمہیں لوری سناتا ہوں ۔۔۔
ارشیا ہاں میں سر ہلاتے اسکے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی ۔۔۔۔ اشعر نے "چندا ہے توں" اتنا ہی گایا کہ ارشیا نے ایک ہاتھ کان پر رکھتے ۔۔۔اشعر ۔۔ مجھے لوری سنا رہے ہو یا پورے محلے کو ۔۔۔
اشعر نے اپنا ہاتھ روکا جو وہ اسکے بالوں میں مار رہا تھا ۔۔ اچھا سوری اب میں آہستہ لوری سناتا ہوں ۔۔۔۔
ارشیا فورا دونوں ہاتھ کانوں پر رکھتے بالکل نہیں ۔۔۔ مجھے نہیں سننی ۔۔۔
اشعر نے لہجے میں مصنوعی ناراضگی لاتے اتنا برا گاتا ہوں میں ۔۔۔۔
ارشیا نےسر اٹھائے اسکے سینے پر اپنی تھوڑی رکھتے برا نہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔صرف برا ۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تم بہت برا گاتے ہو ۔۔۔۔ مجھے سلانے کے چکر میں پورے محلے کو نیند سے جاگاؤ گے ۔۔۔۔۔۔
اب ایسا بھی نہیں ۔۔۔۔ تم بس تعریف نہیں کرنا چاہتی میری ۔۔۔۔
تعریف۔۔ اشعر تمہارے گانے کی کوئی تعریف کیسے کرسکتا ۔۔۔ اتنا تو پھٹے ہوئے ڈھول بھی برا سونڈ نہ ۔کرے ۔۔۔ جتنا برا تم گا رہے ہو ۔۔۔۔ بنا سوچے سمجھے اسنے بولا ۔۔۔۔
اشعر نے اسکی صاف گوئی پر اسے دیکھا جو اب اپنا منہ اس کے سینے میں چھپا رہی تھی اشعر اسے اپنے بازوؤں میں لیتے اچھا میں برا گا رہا ۔ تم نے صرف ایک لائن سنی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔ اگر تم پوری لوری سنتی تو اتنا بھی برا نہ لگتا ۔۔۔۔ وہ بھی پیچھے کہاں ہٹنے والا تھا ۔۔۔۔
ارشیا آنکھیں اٹھائے اتنے برے دن نہیں ائے میرے کہ تمہاری پوری لوری سنو ۔۔۔ بیوی کا پتہ نہیں چڑیلیں ضرور عشق ہو جانی تم پے ۔۔۔۔ اسکی اپنی بات پر شرارت سے آنکھیں چمکی۔۔۔۔۔
اشعر نے اسکی بات کا جواب نہ دیتے۔۔۔۔اسکی مسکراہٹ کو دیکھتے ۔۔۔۔۔ ایسے مت دیکھو ورنہ۔میرا ارادہ بدل جائے گا ۔۔۔
ارشیا نے سر نیچے کر کے آنکھیں بند کر لی تم اپنے ارادے اپنے پاس رکھو ۔۔۔ مجھے بہت نیند آرہی ۔۔۔۔۔
اشعر نے ہنستے ۔۔۔ اسکے سر پر بوسہ دیا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا وہ ابھی نہیں سوئی ۔۔۔ اسکی خاموشی بھاپتے ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے تم چڑیلوں کے ساتھ گزارہ کر لو گی ۔۔۔۔
ارشیا نے اپنی ہنسی دباتے میں کیوں ۔۔؟؟؟؟۔ تمہیں میں مار دوں گی پھر تم رہنا ان سب کے ساتھ ۔۔۔۔
(اسنے سمجھا تھا اسنے شاید اسکی بات نہیں سنی تھی )
اشعر اٹھ کر اسے دیکھا پر وہ آنکھیں بند کیے ہوئے مسکرا رپی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تم سچ میں پاگل ہو ۔۔۔۔ کیا کروں میں تمہارا ۔۔۔۔۔
ارشیا کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ سکون کا سانس لیتے آنکھیں بند کیے وہ اشعر کے ساتھ اپنی خوش حال زندگی کا سوچتی رہی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی طبیعت کیسی ہے تمہاری بیٹا۔۔۔۔؟؟؟
یہ پوچھنے والی صبیحہ کی ماں تھی ۔۔۔۔ صبیحہ نے ماں کی انکھوں کو دیکھا جو رات بھر رونے سے سوجی ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔
عمران نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے ۔۔۔ بہت ڈر گئے تھے ہم ۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر ۔۔۔ اپ گر کیسے گئی تھی بیٹا ۔۔؟؟؟
صبیحہ نے دونوں کو دیکھا جن کی جان تھی وہ اج تک ہر تکلیف سے بچا کر رکھا تھا انہوں نے ۔۔۔ ماں باپ کی محبت دیکھ اسکا دل بھر ایا ۔۔۔ اسنے اٹھ کر بیٹھتے ۔۔۔ وہ کھانا کھانے کے لیے باہر ارہی تھی تو پاؤں پھسل گیا تھا میرا سیڑھیوں سے ۔۔۔۔
عمران نے اسے بیٹھایا تو ثمینہ نے کتنی دفعہ کہا ہے دھیان سے سیڑھیاں اترا کرو پر تم سنتی ہی نہیں ۔۔۔۔ وہ جو اسے ڈانٹ رہی تھی عمران کے دیکھنے پر چپ کر گئی
میں ٹھیک ہوں ماما ۔۔۔۔ وہ کافی دیر بیٹھے رہے اسکے پاس ۔۔۔۔۔
جب وہ باہر گئے تو فرحان اندر ایا ۔۔۔۔ مسکراتے ۔۔۔ ابھی کیسی طبیعت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی چاہیے تھی تو مانگ لیتی پاپا سے ۔۔۔ایسے گر کر کیا ہوسپٹل کے بیڈ پر لیٹ گئی تم ۔
صبیحہ نے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔۔ پر مسکرا نہ پائی ۔۔۔۔
فرحان اسکے پاس بیٹھتے ۔۔۔۔۔ تم۔نے بے ہوش ہونے سے پہلے اشعر کا نام لیا تھا ۔۔۔۔ تم پسند کرتی ہو اسے۔۔۔۔
صبیحہ نے اسکی بات سنی پر جواب دیے بنا چھت کو گھورنے لگی ۔۔۔۔۔ فرحان اسکا چہرہ دیکھتا رہا جو جانے کس سوچ میں گھم تھی ۔۔۔
وہ اٹھ کر جانے لگا تو مجھے اپنا سیل دوں گے مجھے ایک کال کرنی ہے ۔۔۔۔صبیحہ نے چھت کو گھورتے ہی اسے کہا ۔
فرحان نے اسے سیل دیا اور باہرچلا گیا ۔۔۔۔
صبیحہ نے آفس کال کی ۔۔۔۔۔۔
ارشیا جو اشعر کے ہی آفس میں بیٹھے پلوشہ سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی ۔۔ وانیہ کے اسے بتانے پے کہ صبیحہ کی کال ہے اسکے لیے اسنے دل۔میں سوچا اسے مجھے سے کیا بات کرنی ۔۔۔۔ وہ پلوشہ کو دومنٹ کا کہہ کر صبیحہ کی کال سننے باہر ائی ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔ ارشیا کی آواز فون سے ائی ۔۔۔
صبیحہ نے کیسی ہو ۔۔۔ نمی اس کے لہجے سے صاف جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
ارشیا نے اسکا لہجہ محسوس کرتے ۔۔۔ صبیحہ تم ٹھیک ہو ۔۔۔
صبیحہ کی انکھوں سے آنسوؤں بہے ۔۔۔ بہتے آنسوؤں سے ہاں ٹھیک ہوں میں تم مجھ سے ملنے اسکتی ہو ۔۔۔
ارشیا ابھی کچھ کہتی کہ صبیحہ نے فورا پلیز مانا مت کرنا ارشیا ۔۔ ایک دفعہ مجھ سے ملنے آجاؤ ۔۔۔۔
ارشیا نے ہانی بھر لی ۔۔۔ کہاں ملنا ہے ۔۔۔؟؟؟ تم اشعر کے کیبن میں آجاؤ یا میں تمہاری طرف اجاتی ہوں؟؟
صبیحہ ہنسی ۔ ۔۔۔
ارشیا کو اسکے ہنسنے کی وجہ نہ سمجھ ائی ۔
میں ہوسپٹل۔میں ہو ارشیا ۔۔۔ یہاں کا ایڈریس دیتی ہوں تم یہاں ا سکتی ہو پلیز ۔۔۔
ارشیا نے ایڈریس لے کر فون رکھا ۔۔۔۔ وہ سمجھ نہ پائی کہ اسے اس سے کیوں ملنا یا وہ ہوسپٹل کیوں ہے اگر ہے تو اشعر یا کسی اور نے اسے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔ ہانیہ کو بھی کیا نہیں پتہ اسکے ہوسپٹل ہونے کا ۔۔۔
وہ واپس ائی تو اسنے پلوشہ کو بعد میں بات کرنے کا کہہ کر وہ اشعر کے میٹنگ والے روم کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔
اشعر کو بنا بتا کر نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔۔
اسنے میٹنگ روم کا دروازہ کھولا ۔۔۔۔
اشعر جو کچھ بول رہا تھا ارشیا کو دیکھ کر روکا اور مسکرا یا
اپنے سامنے بیٹھے شخص کو مخاطب کرتے ۔۔ ایڈم مائے وائف مسزارشیا اشعر ۔۔۔
ایڈم نے ارشیا کی طرف دیکھتے ہیلو کہا ۔۔۔
ارشیا نے بھی وہی سے ہیلو کہا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اگے جائے یا وہاں ہی کھڑی رہے ۔۔۔ یہ مسئلہ اشعر نے حل کر دیا ۔۔ وہ خود ہی ارشیا کی طرف اگیا ۔۔۔
ارشیا شرمندہ ہوتے سوری وہ
اشعر نے مسکرا کر اسکا ہاتھ پکڑتے ۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھا جو ہمیشہ اسکی چھوٹی چھوٹی باتوں کی پریشانیوں کو ختم کردیتا تھا ۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ کتنا بھی بزی ہوا ایسے اسکے میٹنگ روم میں انے پر کبھی اسے کچھ نہیں کہے گا ۔۔۔۔
ارشیا کو کچھ نہ بولتا پاکر کیا ہوا ؟؟؟؟
ارشیا کو فورا یاد ایا کہ وہ اصل میں کس لیے ائی تھی ۔۔۔ وہ مجھے ایک کام سے کہیں جانا ہے تو میں وہی تمہیں بتانے ائی تھی ۔۔۔۔
اشعر نے فورا کس کے ساتھ جاؤ گی ۔ بنا پوچھے کہ کیا کام ہے اسے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ٹیکسی سے ۔۔۔۔ میں خود ہی چلی جاؤں گی بس تمہیں بتانے ائی تھی ۔۔۔۔
اشعر نے فورا واپس موڑا ٹیبل سے سیل اٹھا کر اسکے پاس لایا ۔۔۔ ڈرائیور بولادیتا ہوں میں تم اسکے ساتھ جانا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
ارشیا نے مانا کرنے کی کوشش کی پر وہ اسکا نمبرملا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر کے کہنے پر ہی وہ ڈرائیور کے ساتھ صبیحہ کے ہوسپٹل ائی ۔۔ ریسپشن سے صبیحہ کے روم کا نمبر پوچھتے وہ ادھر ائی تو وہاں فرحان اس روم کے دروازے کے باہر کھڑا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔
فرحان کو دیکھتے صبیحہ سے ملنے ائی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔
فرحان راستے سے ہٹ گیا وہ اندر چلی گئی ۔۔۔
صبیحہ جو ابھی تک چھت کو گور رہی تھی ۔۔۔ اسکے دروازہ کھولنے پے اسنے ارشیا کی طرف دیکھتے زخمی درد سے بھر ی مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔
اسکی مسکراہٹ ارشیا کے دل پے لگی نہ چاہتے شرمندہ ہو گئی ۔۔ جیسے اس حالت کی زمہ دار ہی وہی ہو۔۔۔۔
صبیحہ نے اسے قریب اتے دیکھ اٹھنے کی کوشش کی تو ارشیا اگے بڑھتے ۔۔۔ لیٹی رہو اٹھو مت صبیحہ ۔۔۔۔
صبیحہ لیکن پھر بھی بیٹھنے کی کوشش کرتی رہی ۔۔ اسنے صبیحہ کے لیے لایا پوں پھولوں کا گلدستہ سائیڈ پے رکھتے ۔۔۔۔ اسکا تکیہ سیٹ کیا ۔۔۔ صبیحہ کو بیٹھا کر اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ۔۔۔
صبیحہ نے اپنی مخصوص سمائل دیتے ٹھیک ہوں ۔۔۔ آؤ بیٹھو کھڑی کیوں ہو ۔۔۔۔
ارشیا پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ اسکے بیٹھتے ۔۔۔۔
تم آئی ہو مجھ سے ملنے مجھے بہت خوشی ہوئی ۔۔۔۔۔
سوچا نہیں تھا کبھی ایسے ملاقات ہو گی تم سے ۔۔۔
ارشیا نے اسکی حالت دیکھتے رحم بھری نظر سے دیکھا ۔۔۔ یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔؟؟؟
صبیحہ نے اپنی حالت کی طرف اشارہ کرتے ۔۔۔۔۔۔"یہ"
پھر خود ہی طنزیہ ہنستی بہت بری ہوں نا میں ۔۔۔۔ خدا کے ایک بندے کو بہت دکھے دیے اسکی سزا ملی مجھے ۔۔۔۔
ارشیا نے فورا ایسا مت کہو صبیحہ انسان کوئی برا نہیں ہوتا حالت کبھی ہمارے حق۔میں نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔
صبیحہ نے گمبھیر لہجے۔میں اتنے پیار سے بات مت کرو میرے سے ۔۔۔۔میں تمہاری اتنی نرمی کی بھی حق دار نہیں ہوں ۔۔۔۔
میں تو اچھی دوست بھی نہیں ہوں شاید دوست لفظ سے ہی میں واقف نہیں تھی ۔۔۔ یا دوستی کے معنی ہی نہیں سمجھ پائی ورنہ جو میں نے اشعر کےساتھ کیا ۔ وہ روکی ۔۔۔۔۔
آنسو اسکی انکھوں سے بہے رہے تھے ۔۔۔۔ ۔۔
ائے ایم سوری ۔۔۔ ارشیا ۔۔۔۔ میں نے جھوٹ بولا تھا تم سے ۔ اشعر کے بارے میں ہمارے بارے میں۔۔۔۔ اشعر نے ایسا کبھی کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ میں نے اور ہانیہ نے جھوٹ بولا تھا تم سے جان بوجھ کر تمہارے سامنے وہ سب باتیں کی تھی ۔۔۔
ارشیا دم سادھے سنتی رہی ۔۔۔۔
اشعر ہمیشہ اچھا دوست سمجھتا ہے مجھے اور میں اسکی دوستی کو غلط سمجھتی رہی ۔۔۔ ہانیہ کی باتیں سننے کے بعد مجھے لگا تم اسکی دوستی کو غلط سمجھ رہی تم اسکے پیچھے پڑی ہوئی ۔۔۔ پر تم نہیں تھی وہ میں خود تھی جو ۔۔۔۔ وہ روکی ۔۔۔۔۔ اپنے آنسوؤں صاف کرتے ۔۔۔۔
فرحان نے کہا تھا کہ آشعر تمہیں پسند کرتا اسکی انکھوں میں دیکھتا ۔۔۔ پر میں فرحان اپنے بھائی کو چھوڑ ہانیہ کی باتوں میں اگئی ۔۔۔۔۔ ارشیا کو دیکھتے تم یہ مت سمجھنا میں سارا الزام ہانیہ کو دے رہی ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ہانیہ تو دوستی نبھانے کے چکر میں سب کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔ اسی نے مجھے سپورٹ کیا ہر چیز میں مجھے ہر بار یقین دلایا کہ اشعر مجھے پسند کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کب انسانیت سے نیچے گر گئی میں خود بھی سمجھ نہیں پائی ۔۔۔۔۔۔ کہ جس شخص نے مجھے دوست کہا میں نے اسکے بارے میں وہ سب باتیں پھیلا جو وہ ہے ہی نہیں ۔۔۔ ایسا تو کوئی دشمن کے خلاف بھی نہ بولے ۔۔۔۔۔۔ اپنی جیلسی نفرت میں اتنی بڑھ گئی کہ ایک لڑکی کے ایموشنز ، اسکی فیلگز کو مذاق بنا دیا ۔ ایک لڑکی کی عزت تک کا خیال نہ کیا ۔۔۔
وہ بیڈ سے اٹھی ۔ ارشیا اسے دیکھا کر اٹھنے لگی تو صبیحہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ مشکل سے کھڑے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ اشعر کی ناراضگی برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں ۔۔۔۔ جب اشعر کو پتہ چلا گا تب کیا سوچے گا وہ میرے بارے میں۔۔۔ میں نے دوست ہوتے ہوئے اسکی محبت کو ٹائم پاس بنا دیا ۔۔۔ اسکی پسند کے سامنے اسکی ایمج کو پلے بوئے بنا دیا ۔ بہت کوشش کی۔میں نے تم سے اشعر کوچھینے کی پر نہیں کر پائی میں اسے تم سے دور تم دونوں کو ملنا تھا وہ میرا نصیب ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
ارشیا کے قدموں میں بیٹھتے ۔۔۔ بہت بڑا بوجھ ہے میرے دل پر اج تمہیں سب بتا رہی ہوں ۔۔۔۔ میں اپنی ہر غلطی کو مانتی ہوں ۔۔۔ غلطی نہیں اپنے گناہ کو ۔۔۔۔ میں نے دل دکھایا ہے تمہارا اشعر کے کردار کو تمہاری نظر میں مشکوک بنایا ہے مجھے معاف کر دو پلیز ارشیا میرے لیے میری انے والا کل اسان بنا دو مجھے معاف کر دو ۔۔۔میرا رب بھی مجھے تب تک معاف نہیں کرے گا جبتک تم نے نہ کیا ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ ارشیا کے سامنے ہاتھ باندھے روئی ۔۔۔
ارشیا نے اسکے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔۔ ایسا مت کرو صبیحہ ۔۔۔۔۔۔۔جو گزر گیا اسکو مت یاد کرو ۔۔۔ اشعر نہیں ہو گا ناراض ۔ اسے کبھی بھی نہیں پتہ چلے گا ۔ میں کبھی نہیں بتاؤں گی اسے ۔۔۔۔ تم پہلے بھی دوست تھی اگے بھی رہو گی ۔۔۔۔۔۔ صبیحہ نے اسکے ہاتھوں کو پکڑے دیوانہ ور تم نے مجھے معاف کردیا۔ نا ۔۔۔۔ ارشیا نے ہاں میں سرہلایا ۔۔۔ا ٹھو پلیز اوپر بیٹھو ۔۔۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔۔
وہ اسے اٹھا کر بیڈ کی طرف لائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا کو لگا اسکے الفاظ ہی ختم ہو گے کیا کہے وہ اس سے۔۔۔۔ اپنے شوہر کے لیے ایک لڑکی کی محبت کو دیکھ وہ دکھی ہو یا وہ شخص صرف اس سے محبت کرتا اس بات کی خوشی مانائے ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے بیڈ پے لیٹا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکو دیکھتے ۔۔۔ ارام کر و تم ۔۔ میں بعد میں آؤں گئی پھر تم سے ملنے ۔۔۔۔ اشعر بھی ائے گا تم سے ملنے ۔۔۔۔۔
صبیحہ اسکا پاتھ پکڑتے وعدہ کرو تم پھر آؤ گی ۔۔۔۔
ارشیا نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے تسلی دیتے ۔۔۔۔میں ضرور آؤں گی ۔۔۔ وہ مزید کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں چلتی ہوں ۔۔۔۔۔ کہتی وہ باہر نکل گئی ۔۔ وہ صبیحہ کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی پر ضبط تو اسکا بھی جواب دے گیا تھا۔۔۔۔اس وقت آنسوؤں اشعر کے ٹائم پاس کرنے پے بہے تھے اور اج خود کے غلط۔ہونے پر ۔ اشعر نے کبھی اسے غلط۔نہیں سمجھا تھا ہمیشہ و ہی اشعر کو کھڑا کر دیتی تھی اپنی شکوں شبہات کے ساتھ سوال جواب کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
افس پہنچ کر وہ سیدھا آشعر کے افس میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔
اپنے خیالوں میں گم راستےمیں اسے ٹھوکر لگی ۔۔۔ اسکے انگھوٹے سے خون نکلنے لگا پر اسے جیسے اس خون سے زیادہ فکر صبیحہ کے آنسوؤں کی تھی ۔۔۔
صوفے پر بیٹھے وہ سوچتی رہی ۔۔۔ ہر طوفان اسے نقصان پہنچانے اتا پر نقصان کی بجائے اسکے لیے خوشی کی نوید بن جاتا ۔۔۔ ہر دھندلی چیز صاف ہونے لگی ۔۔۔۔
اشعر افس میں ایا تو وہ سر جھکائے بیٹھی تھی آشعر اسکے قریب آیا تو اسکی نظر فورا ارشیا کے پاؤ ں پر پڑی ۔۔۔
زمین پر بیٹھتے یہ کیا ہوا تمہیں ؟؟؟؟۔۔۔۔
ارشیا نے ایک بار اسے پھر اس کے ہاتھو ں میں اپنے پاؤں کو دیکھا جس کے انگھوٹے سے خون ابھی بھی نکل رپاتھا ۔۔۔
دھیان سے کیوں نہیں چلتی تم ارشیا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر دوائیوں لگانے کی بجائے تم بیٹھی ہو ایسے ۔۔۔۔ وہ اب اٹھ کر واشروم سے فرسٹ ایڈ بوکس لے کر ایا ۔۔۔
دوبارہ اسکے سامنے زمین ہر بیٹھتے اسکا پاؤ ں اپنی گود میں رکھا ۔۔ پہلے خون کو صاف کیا ۔۔ ارشیا اسے سب کرتا محویت سے دیکھتے رہی ۔۔۔۔ کیسے لگا یہ ۔۔۔؟؟؟
اسنے اس پر دوائیوں لگاتے پوچھا ۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتےانکھیں دھندلا گئی تھیں ۔۔۔ ایک ٹھوکر لگنی ضروری تھی ۔۔ ورنہ سب کچھ صاف کیسے ہوتے ۔۔۔
۔ اشعر نے اپنا ہاتھ روکے اسکی بات سنتے اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔ جو اتنی صاف تھی کہ اشعر انہیں پڑھ نہ
پڑھ نہ پایا ۔۔۔۔۔
اشعر نے کچھ کہنا چاہا تو ارشیا نے اسکی چہرہ کو چھوتے اتنی محبت کیوں کرتے ہو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے نصیب پر شک ہوتا ہے ۔۔۔
اشعر نے اسکے لمس کو اپنے چہرے پر محسوس کیا ۔۔۔۔ ارشیا نے اسکو دیکھتے ایک۔بات مانو گے میری ۔۔۔۔۔۔ صبیحہ سے ملنے چلے جاؤ ۔۔۔۔ وہ۔ہوسپٹل۔میں ہے ۔۔۔
اشعر نے بوکس بند کرتے ہاں پتہ چلا۔مجھے ۔۔۔۔ شام۔کو چلیں گے ۔۔۔۔ کہتا وہ۔بوکس اٹھا کر اٹھ گیا۔۔۔
میں ابھی اسی سےملنے گئی تھی۔۔۔۔
اشعر نے بنا موڑے ۔۔۔ اچھا کیا۔۔۔۔ مجھے بتاتی تو۔میں شام۔کو لے جاتا ۔۔۔۔۔ اسنے کچھ کہنا چاہا کہ
دروازہ نوک ہوا ہانیہ۔اندر ائی ۔۔ جس کے ہاتھ میں ایک فائل۔تھی۔۔۔
ارشیا کی طرف ۔مسکراہٹ اچھالتے سر اپ نے جو فائل مانگی تھی ۔۔۔۔
ارشیا غصے سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔ صبیحہ کا حال اج اسکی غلط۔بیانی کی وجہ سے تھا۔۔۔۔ اج اسکی وجہ سے وہ۔کس حال۔میں تھی اور اسے فکر ہی نہیں ۔۔۔۔۔
اشعر نے اسے کھڑا دیکھا تو اپ۔جا سکتی ہیں مس ہانیہ ۔۔۔۔
ہانیہ۔ارشیا۔کو مسکرا کر دیکھتے جانے لگی ۔۔ جب ارشیا نے اسے پیچھے سے اواز دی ۔۔۔۔
ہانیہ مڑی ۔۔۔۔ اشعر فائل دیکھتا رہا جیسے اس نے سنا ہی نہیں ۔۔۔
ارشیا نے وہی بیٹھے ۔۔۔ ہانیہ ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ خود غرض دوست سے ایک نفرت کا اظہار کرنے والا بہتر ۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کی مسکراہٹ سیمٹ گئی پر ارشیا کی بات اسے سمجھ نہ ائی کہ اسنے ایسا کیوں کہا ۔۔۔ وہ کنفیوژ سوچ لیے باہر نکلی ۔۔۔
اشعر نے ارشیا کا چہرہ دیکھا جو غصے سے بھرا تھا۔۔۔ اشعر کو سمجھ نہ ایا اسکا ہانیہ کو۔کہنا۔۔۔۔۔
ارشیا نے اٹھتے مجھے گھر جانا ہے پلیز ڈرائیور کو بولوا دو ۔۔۔
اشعر اٹھتے ۔۔۔ روکو میں بھی چلتا۔ہوں ۔۔۔۔ ویسے بھی کام ہو۔ہی گیا ہے میرا۔۔۔۔۔ باقی اسفند سنبھال لے گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر سفر خاموش گزرا ۔۔۔۔۔۔اشعر موبائل۔پر بزی رہا۔۔۔ اور ارشیا اپنی سوچ میں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ارشیا نے شام ہوتے ہی اشعر کو لیے ہوسپٹل ائی جیسا اس نے صبیحہ سے وعدہ کیا تھا۔۔۔۔ وہ۔کافی دیر اسکے پاس بیٹھے رپے ۔۔۔۔۔۔۔۔صبیحہ بہت خوش تھی اشعر کے انے سے ۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کو بتانے کے بعد بھی دل پر بوجھ تھا۔۔۔۔ اشعر کو بنا بتائے اسے لگا اسکا یہ بوجھ کبھی نہیں اترے گا۔۔۔ اسنے میسج میں سںب اشعر کو بتا دیا تھا ۔۔ اسکے باوجود اشعر اس سے ملنے ایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
رات ارشیا کمرے میں ائی تو آشعر روم۔میں نہیں تھا ۔۔۔ ۔
وہ چھت پر ائی تو وہ کھڑا اسمان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
ارشیا نے اسکے ساتھ کھڑا ہوتے پہلے اسے پھر آسمان کو دیکھا اسے لگا جیسے وہ اسکی موجودگی سے ناواقف ہے اب تک ۔۔۔
پر اشعر نے اسمان کو ہی دیکھتے ۔۔۔ تمہیں کب لگا میں تمہارے ساتھ ٹائم۔پاس کر رہا تھا۔۔۔۔
ارشیا کو کرنٹ لگا اسکی یہ بات سن کر ۔۔۔ اسنے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
اشعر نے آسمان کو ہی دیکھتے ۔۔۔ کس بات سے تمہین ایسا لگا ۔۔۔۔ اسکی اواز جیسے کسی دور کہیں سے ارہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا لہجہ ارشیا کو مزید شرمندگی کی کھائی میں گرا گیا ۔۔۔
ارشیا نے آنکھیں جھکا لی ۔۔۔
اشعر نے اسے دونوں بازوؤں سے تھامتے ایسا مت کرو ۔۔۔
تمہاری جھکی ہوئی نظریں مجھے مجرم بنا رہی ۔۔۔۔
ارشیا کو لگا شاید اج کے بعد وہ اشعر سے نظریں نہ ملا پائے ۔۔۔
اشعر نے اسکی ٹھوڑی سے منہ اوپر کرتے ۔۔ میری طرف دیکھو ارشی ۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیوں لگا کہ میں سب کروں گا تمہارے ساتھ ۔۔۔ اتنا بھروسہ نہیں تھا مجھ پے ۔۔۔
ارشیا نے اسکی آنکھوں کو دیکھا جیسے اس بات کا یقین اسے نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے دوبارہ سر جھکائے لیا ۔۔۔
ارشیا پلیز بولو ۔۔ میں صفائی نہیں مانگ رہا ۔۔۔۔۔پر مجھے لگ رہا میں ۔محبت تو کر بیٹھا پر تمہیں خود پر یقین نہیں دلا پایا ۔۔۔۔ تم نہیں جا تی تم کیا ہو میرے لیے ۔۔۔ ۔۔۔ اس لڑائی کے بعد کتنا مشکل تھا تمہارے سامنے ہونے پر بھی تم سے بات نہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں صرف خود کے سامنے دیکھ کر ہی میں خوش ہوتا رہتا ۔۔ ایسا لگتا سب کچھ خدا نے دے دیا ہے مجھے ۔۔۔ جس کی خواہش کی وہ سب ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے اسکی طرف دیکھتے تمہاری محبت میں کوئی کمی نہیں اشعر ۔۔۔ میں ہی اپنے اپ پر ،تم پر ,اپنی محبت پر یقین نہیں کر پائی ۔۔۔۔ کرنا بھی چاہتی تو حالت نہ۔کرنے دیتے ۔۔۔۔ ۔ پھر وہ بھی سنامیں نے جو تم۔نے بولا بھی نہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔
میں صفائی نہیں دے رہی ۔۔۔ پر میں مجبور تھی۔۔ ایک لڑکی جس کی پوری زندگی رشتہ کی ہاتھوں کٹپتلی بنی ہوئی گزری ہو جہاں وہ رحمت کم زحمت ہو ۔ جہاں سب کو اسکی ذات سے نفرت ہو ایسے میں سچی محبت ملے تو شاید انسان اسے بھی باقیوں کی طرح جج کرتا رہے ۔ اتنا جج کرے کہ ۔ اپنے ہاتھوں سے گنوا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ یا ہانیہ کی کوئی غلطی نہیں ۔۔۔ غلطی ساری میری ہے ۔۔۔۔ جو تمہاری خاموشی کو غلط۔رنگ دیتی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر نے اسے گلے لگاتے ۔۔۔۔ میں چاہا کربھی تمہارے لیے ایسا نہیں سوچ سکتا ۔ امی کے ںعد میں نے صرف تمہیں اپنے سچے دلسے چاہا ہے ۔۔۔ تمہاری عزت کو ہمیشہ اپنی نظر۔میں مقدم رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہزار بار ناراض ہو لو ۔ پر ائندہ ایسا کچھ مت سوچنا ۔ ۔۔ میرے لیے تم۔بہت انمول ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکےماتھے پر بوسہ دیتے محبت کی ہے اشعر سے جنون کی حک تک ۔۔۔۔ اورمیں نبھاؤں گا ہمیشہ ۔۔۔ اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا محبت دوں گا کہ آئندہ ایسے خیال بھی تمہارے دل۔میں چاہ کر بھی جنم نہیں لے پائے گا ۔۔۔ اسنے ارشیا کو گلے لگائے اپنی اور اسکی ایک دنیا بسائے حسین خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔
ارشیا نے سر اٹھائے اسے دیکھا جو ناراض ہونے کی جگہ اسے اپنی محبت کے حسارے میں لیے ۔ جو اسے شرمندہ ہونے بھی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔ اسے اپنی نئی دنیا میں بوننے خواب دکھا رہا تھا ۔۔۔
____________
صبح اشعر کی اواز فون بجنے پر کھولی ۔۔۔
فون سننے کے بعد وہ ہڑ بڑا کر اٹھا ۔۔۔۔ ارشیا نے اسے ایسے اٹھتے دیکھا تو پریشانی سے اٹھی ۔۔۔۔ پر اشعر فون سنتے سنتے کمرے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا اسکے پیچھے باہر ائی تو اسنے فون پر اشعر کو
انا لللہ وانا الیہ رجعون بولتے سنا ۔۔