اسے اس کمرے میں ائے ہوئے کافی ٹائم ہو چکا تھا وہ صوفے پر بیٹھے پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کمرے کو دیکھتے اس کی نظر بیڈ پر پڑی ۔ گلاب کے پھولوں سے سجا۔ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا کسی نے بہت ہی محنت کی تھی اسے سجانے میں ۔ گلاب کی خوشبو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ۔ تازہ گلاب تھے اس اندھیرے میں کوئی بھی بآسانی اندازہ لگا سکتا تھا ۔ لیکن وہ خود کا عکس نہیں دیکھنا چاہتی تھی اسلیے کمرے میں اکر اسنے سب سے پہلے لائٹ اوف کی تھی اسکی کوئی غلطی نہیں تھی پھر بھی وہ اپنے اپ سے چھپ رہی تھی شاید اپنے رشتوں کی چوٹ اپنی روح پر نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔
۔۔۔
سب کہتے رہے کے اس پرہر رنگ کھل رہا ہے پر اسنےشادی کی تیاری سے لے کر اب تک ایک دفعہ بھی ائینہ نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ابھی تک اس نے خود کو اس شادی کے جوڑے میں دیکھا تھا ۔ دیکھ کر کرتی بھی کیا ۔۔۔۔۔۔ اس شادی سے کون سی اسکی امیدیں وابستہ تھیں نہ کوئی خواب ۔ نہ کوئی خواہش نہ کوئی امید۔۔۔ کچھ بھی نہیں لے کر ائی تھی اپنی اس زندگی کے لیے ۔۔۔
وہ بس بے مقصد اس کمرے کو دیکھ رہی تھی خود کے وہاں ہونے کا مقصد ڈھونڈتی رہی ۔۔۔۔۔
اتنے میں دروازہ کھولا ۔ بلیک کلر کی شروانی پہنے بالوں کو اچھی طرح سیٹ کیے کسی اور کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا۔ ارشیا نے اس کی طرف دیکھا پر وہ تو آنکھیں جھکائے بنا اس پاس دیکھے وہ ایا اور بیڈ کے سائیڈ ڈرور سے ایک خوبصورت سا بوکس نکالا اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ۔ ۔۔۔۔ وہ ارشیا کے سامنے کھڑا ہوا ۔ ارشیا نے سر جھکا لیا ۔۔
اس نے ارشیا کی طرف ایک نظر دیکھتے یہ امی نے دیے تھے تمہیں دینے کے لیے ۔۔۔میں نے یہ شادی امی کے کہنے پر کی ہے ۔ اس سے زیادہ مجھے سے امید مت رکھنا ۔ یہ کمرہ تمہارا ہے تم اس کمرے میں رہ سکتی ہو ۔۔ کہتے ہی بنا ایک منٹ ضائع کیے وہ کمرے سے نکل گیا
ارشیا نے کمرہ بند ہونے کے ساتھ اپنا چہرہ اٹھاکر اس
دروازےے کو دیکھا کتنی خوبصورتی سے وہ اسے اس کی اوقات بتا کر یہ کمرہ اس کے منہ پرمار گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ کتنی دیر اس دورازے کو دیکھتی رہی جہاں سے وہ ابھی گزر کر گیا تھا ۔۔۔۔ دل نے جیسے سرگوشی کی ۔۔۔ختم ہوا ڈرامہ۔۔۔۔۔
اس ڈرامے کے لیے اس کی ذات کو اتنا مجروح کیا گیا تھا ۔ اس کی روح کو تار تار کیا تھا ۔ ۔۔۔ کس بات کی سزا تھی یہ اس کی ۔۔۔
عورت ہونے کی۔۔۔۔ ایک کم ظرف بھائی کی بہن ہونے کی یا ایک۔ماں جس نے اپنے بیٹے کی محبت میں اسے سب کچھ ماننے ،اور ہر بات کو سچ ثابت کرنے پر مجبور کردیا ۔
اور وہ سب زخم لیے نا چاہتے بھی اس گھر اگئی تھی جہاں وہ شخص اس سے نفرت کے علاوہ کوئی جذبہ نہ رکھتا تھا ۔۔۔۔ ارشیا نے اسکے ساتھ کیا بھی تو ایسا تھا غلطی دونوںکی تھی پر سزا صرف ارشیا کے حصے میں ائی تھی ۔۔۔۔۔۔ کب تک سوگ مانتی اس سب کا وہ ۔ اور کس کس چیز کا سوگ مانتی ۔۔۔۔ اس لیے اٹھی ۔۔۔۔ فریش ہو کر وہ سو نے کے لیے لیٹ گئی ۔ پر نیند تو انکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ نیند اتی بھی تو کیسے ۔ ۔۔۔۔
۔ جو طوفان ایا تھا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا بس گزرتے گزرتے اس کا سب کچھ تباہ کرتا جا رہا تھا اس کی ذات پر ایک داغ چھوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
ادھر اشعر جب روم میں ایا وہ بھی بنا چینج کیے صوفے پر بیٹھا سوچتا رہا ۔ کہاں وہ اس لڑکی سے شادی کے خواب دیکھتا تھا اور اج جب یہ خواب پورا ہوا تھا پر اسے اس سب کی کوئی خوشی نہیں تھی ۔ وہ ارشیا کو سزا دے رہا تھا اس کی جو اس نے غضے میں کیا تھا ۔۔۔ وہ اپنے انا میں بہت کچھ گنوا رہا تھا ۔ جو سزا اسنے ارشیا کے لیے مقرر کی تھی اس کی غلطی اتنی بڑی نہیں تھی پر غصے میں کیے گئے فیصلہ نہیں دیکھتے کے اگلا سزا کا حقدار ہے بھی یا نہیں ۔ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں پر اشعر دوسرے پہلو کو جانے بنا اس کی سزا مقرر کیے بیٹھا تھا ۔۔۔۔
۔۔ پر سزا کبھی بھی ایک کی نہیں ہوتی وہ تو ہمیشہ دونوں کے حصے میں اتی ہے سزا دینے اور سزا کاٹنے والا دونوں ہی سزا سے گزرتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
,نفرت تو کہیں نہیں تھی معاملہ انا کا تھا
وہ شخص اپنی ضد میں مجھے گنوا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی جاب کل ہی کنفرم ہوئی تھی ۔ وہ سب نیو ٹیلنٹ کو موقع دے رہے تھے ۔ سب نے اسے کہا تھا کہ اسے جاب نہیں ملے گئی بی۔ایس۔سی والوں کو کون جاب دیتا پر کمپوٹر کا استعمال اچھے سے اتا تھا جو اس کی نوکری کے حق میں ماون ثابت ہوا ۔ اج اس کا پہلا دن تھا پر وہ لیٹ تھی ۔ کیونکہ جاب تو ملی پر اسے لیڈی ہوسٹل میں روم میٹ بالکل اچھی نہ ملی ۔ اسے ارشیا سے کیا مسئلہ تھا وہ سمجھ نہیں پائی ۔ پر دن با دن اس کا رویہ ٹھیک ہونے کی جگہ اور ہی الٹا ہوتا جا رہا تھا ۔ نہ وہ سلام کا جواب دیتی نہ کوئی بات کرتی ۔۔۔
وہ ٹیکسی کے لیے سڑک پر چل کم دوڑ زیادہ رہی تھی ۔ پر ٹیکسی تھی جو اسے مل ہی نہیں رہی تھی اگر کوئی ملتی تو کوئی پہلے سے بیٹھا ہوتا ۔ وہ ٹیکسی ڈھونڈ تے ہوئے ساتھ ساتھ منہ میں بڑبڑا رہی تھی ۔ بیڑا غرق ہو اسکا اللہ پوچھے ۔ قتل کیا وا ہے میں نے اسکے خاندان والوں میں سے کسی کا یا قرضہ دینا ہے میں نے اسکا جو ایسا جرتی ہے میرے ساتھ ہمیشہ ۔۔۔۔پتہ نہیں کس چیز کا بدلہ لیا ہے مجھے سے ۔۔۔۔ اج میں لیٹ ہوئی تو دیکھنا واپس جا کر میں اسکا کیا حال کرتی ہوں ۔ خود سے تہیہ کرتے وہ بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ پر پہلے ٹیکسی تو ملے ۔۔۔۔۔۔
الللہ الللہ کر کے اسے ایک ٹیکسی ملی ۔ وہ پہلے ہی لیٹ تھی اس لیے ٹیکسی والے کو احمد ٹیکسٹائل افس کا بتا کر بھیا پلیز جلدی چلو ۔۔۔۔ جب وہ تھوڑا پر سکون ہوئی تو سوری الللہ جی اس پلوشہ کے لیے جو میں ابھی کہا سوری ہاں۔۔۔۔۔۔۔ بس غصے میں بولا ہے میں نے ۔۔ ۔۔۔۔کروں گئی کچھ بھی نہیں اسکے ساتھ ۔ اپ تو جانتے ہیں نا پھر روکی اؤر شرمندہ ہوتے سوری ۔۔۔۔۔ اپ بس اور کوئی گڑ بڑ مت کرنا ۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھے دل میں الللہ سے دعا کر رہی تھی ساتھ ہی اپنے غصے میں بولنے پر شرمندہ تھی ۔ وہ ایسی ہی تھی وہ غصے میں بولتی تھی وہ بھی منہ میں یا دل میں پر کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی تھی ۔۔ کوئی اسے کچھ بھی کہہ جاتا وہ نہ جواب دیتی ۔۔۔ پر جب بات ہو کسی اور کی پھر تو ارشیا کی زبان کو پر لگ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لیے تو وہ صرف الللہ تعالیٰ سے دل ہی دل میں بہت کچھ کہہ جاتی وہ سب بھی جو اس کی زبان سے الفاظ بن کر نہ نکل پاتے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ نیو افس کا سوچ رہی تھی کہ ٹیکسی کسی کی بائیک کے ساتھ جا لگی ۔ اگلا بندہ بھی جلدی میں تھا اس لیے ٹیکسی کو ٹھوک دیا اسنے ۔ اوہ بھیا سنبھال کر ۔۔ پر ٹیکسی لگ گئی اور ہو گیا نقصان ۔۔۔۔
ٹیکسی ڈرائیور میری ٹیکسی کہتے ہی صدمے میں چلا گیا ارشیا نے دیکھا تو ٹیکسی ڈرائیور کی حالت دیکھ کر اسے اس بائیک عالے ہر بہت غصہ ایا ۔۔۔۔ پھر ٹائم دیکھ کر اس کا اج کا دن ہی خراب تھا اس نے خود سے سوچا ۔۔۔۔ غصے سے وہ ٹیکسی سے باہر نکلی ۔۔۔
اندھے ہو تم؟؟؟؟؟؟
اگلا بندہ اپنی بائیک اٹھارہا تھا اسنےبنا دیکھے جی نہیں ۔۔۔اس نے سادہ الفاظ میں جواب دیا ۔
ارشیا کو اس کا نارمل جواب دینا شدید غصہ دلا گیا اس نے اواز میں تھوڑا رعب پیدا کرتے تمہارے باپ کی سڑک ہے جو تم ایسے چلا رہے تھے بائیک ؟؟؟؟
اس نے نظر اٹھاکر اسے دیکھا نہیں یہ سڑک میرے باپ کی نہیں پر جو ٹیکس میں پے کرتا ہوں اس سے یہ سڑک بنی تو میری ہی ہوئی کمال کا سنجیدہ لہجہ تھا اسکا ۔۔۔۔
ارشیا کو اس کا سنجیدہ لہجہ اسکی ڈھٹائی لگا اسے اتنا پرسکون دیکھ ارشیا کو اسکی دماغی حالت پر شک پوا ۔ ۔۔۔۔ سڑک تمہاری ہےپر یہ ٹیکسی نہیں اس کا ۔نقصان کون بھرے گا ۔
نقصان تو میرا بھی ہوا یہ دیکھو ساتھ ہی بائیک ارشیا کی طرف کی
ارشیا نے اسکی بائیک کو دیکھتے تم ہی اور ٹیک کررہے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے اورٹیک کی وجہ سے بائیک اور ٹیکسی کا یہ حال ہوا ہے
اس ڈرائیور کو ٹیکسی چلانی ہی نہیں اتی رینگ رینگ کے چل رہا تھا ۔ جب۔میں نے سپیڈ لگائی تو اسے بھی سپیڈ لگانا یاد اگیا ۔
وہ تم سے پوچھ کے سپیڈ لگاتا ۔۔۔ ارشیا فورا غصیلے لہبے میں بولی ۔
وہ کچھ کہتا کے ڈرائیور صدمے سے نکل کر گاڑی سے باہر ایا بھائی یہ کیا کیا ۔ میرا اتنا نقصان کر دیا ۔
اس لڑکے نے ڈرائیور کو دیکھا جو لگ بھگ اٹھارہ انیس سال کا تھا ڈرائیور کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ بحث کرتا اسلیے اسے چپ۔چاپ ڈرائیور کو اس کے نقصان کے پیسے دیے اور بائیک لے کر چلا گیا۔
ارشیا نے بھی سکھ کا سانس لیا اور افس کی راہ لی ۔
۔۔۔۔۔۔ پر کچھ بلائیں پیچھا نہیں چھورتی ۔۔۔۔
وہ لفٹ میں تھی لفٹ بند ہونے لگی تو وہ لڑکا چلاتا ہوا لفٹ روکوں پلیز کہتا بھاگ بھاگ کر ا رہا تھا ۔ ارشیا نے دیکھا تو اس کے سمجھنے اور سٹاپ کا پریس کرنے سے پہلے ہی لفٹ بند ہو گئی ۔
ارشیا کو بہت برا لگا اس لڑکے کے لیے ۔ پر غلطی ارشیا کی بھی نہ تھی اس نے کون سا جان بوجھ کے کیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی خیال نہیں ہے اسے ایک بار اکر ماں کو ہی دیکھ جائے ازادی جو ملی وی اسے کہاں اب اتی وہ گاؤں شہر کی ہوا لگ گئی اسے ۔ اباپ امید چھوڑ دیں امی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر خود ہی ساس کا منہ دیکھتے ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں نے اجازتِ لے کر دی ہے اسے پر مجھے تو کال کر کے حال چال بتا دے ۔۔۔۔ پر میں تو بھابھی ہوں نہ مجھے کہا ں وہ کسی کھاتے میں ڈالتی ۔۔۔۔ پر امی میں تو بہت خیال کرتی ہوں اسکا ۔ ایک ہی تو نند ہے میری
نہ کوئی بہن نہ بھائی ۔۔۔۔
پر ارشیا تو مجھے اپنے بچوں سے بڑھ کر ہے ۔ دیکھیں امی اس کو پہلے میں نے پڑھنے بھیجا شہر اور اب تو وہ جاب کرتی ہے ۔ماشااللہ سے کمانا شروع کر دیا ہے اپنے پیروں پے کھڑی ہو گی ہے ۔ ساتھ ہی اسکی آنکھیں چمکی ۔۔۔
نسرین بیگم سمجھ گئی تھی کہ اصل بات کیا ہے ۔ کیوں ثمرہ خود انکے پاس اکر بولنا شروع ہو گئی ورنہ تو کام کے علاوہ وہ اپنی ساس کو یاد تک نہ کرتی ۔۔۔ انہیں ارشیا سے کوئی غرض نہیں تھی انکا فائدہ یہ تھا وہ اسے ہمشیہ گھر سے کاروبار اور جائیداد کے معاملے سے دور رکھنا چاہتی تھی اسلیے باپ کے مرنے کے بعد ہی اسے ہوسٹل بھیج دیا ۔۔۔ اس کی پڑھائی یا مہینے کا خرچا بھیجوایا جاتا وہ بھی اتنا کے وہ چاہ کر بھی فضول خرچی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔ اب تو وہ بھی نہیں دینا پڑتا ۔۔۔۔ کیونکہ اسنے خود کمانا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔۔
ثمرہ تو بس بولے جا رہی تھی ۔ خوشی میں جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ ارشیا کو جاب مل گئی ہے ۔
نسرین کوسب سمجھ اتی تھی پر کیا کہتی ۔ ایک بیٹا تھا اسے کیسے چھوڑتی ۔ بیٹی نے تو ایک دن اپنے گھر چلا جانا تھا اپنی بیٹی پر بوجھ کیسے بنتی ۔ اوپر سے بیٹی نے بچپن سے ہی اتنے دکھ دکھےتھے مزید اپنی زمہ داری ڈال کر وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ یہ نسرین کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی وہ تو جی ہی اپنی ماں کے لیے رہی تھی ۔۔۔۔۔
نسرین یہی سوچ کے سب کچھ سن لیتی اور انجان بنی رہتی ۔۔۔ کیونکہ اسے رہنا تو ثمرہ اور ایان کے ساتھ ہی تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب نیو کمرز روپورٹ کر رہے تھے ۔۔۔ سب کو اس کا کام سمجھایا جا رہا تھا سارے سینیئر بہت ہی سخت تھے اپنے کام کو لے کر ارشیا کے ساتھ دو لڑکیا ں اور ایک لڑکا تھا جن کو ایک ہی کام سمجھایا جا رہا تھا فی حال ۔۔۔۔ ......
وہ سینیئر دو منٹ روکا ۔۔۔۔ سب نے اواز کی سمت نظریں گھمائی کسی کو لیٹ روپورٹ کرنے پر بہت ہی سخت ڈانٹ پڑھ رہی تھی ۔ ارشیا کی گروپ کی لڑکی نے آہستہ آواز میں یہ سر حیدر ہیں یہاں کے موسٹ سینیئر اور غصے والے ۔۔۔۔ میں تو شکر کر رہی ہوں ہمارا گروپ انکے پاس نہیں ہے ۔ ارشیا نے اس لڑکی کودیکھا پھر اس روم کی طرف جہاں ابھی بھی کسی کی کلاس لگ رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص باہر نکلا ارشیا نے اسے دیکھا تو شرمندہ ہو گئی
کیونکہ وہی بائیک اور لفٹ والا لڑکا تھا وہ لٹکے منہ کے ساتھ اپنے گروپ کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا ۔ سر حیدر بھی باہر نکلے تو ان کو دیکھتے سب فوراً اپنے اپنے کام میں لگ گئے ۔ باقی سینیئر بھی ان سے ڈرتے تھے یہ تو سب جان گئے تھے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
پورا دن کام میں ایسا گزرا کے اسے کچھ یا د ہی نہ رہا دو لڑکیا ں اور ایک لڑکا یہاں تک ارشیا کا سینیئر انکو سمجھانے والا سب ہی بہت اچھے تھے ۔ اج کا کام ان کا ہر فائل کو سیو کرنا فوررڈ کرنا اپائنٹمنٹس دیکھنا سب تھا ۔۔۔۔ وقت بہت جلدی گزر گیا تھکا دینے والا دن وہ افس سے نکلی تو اسے وہ لڑکا اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑانظر ایا ارشیا نے سوچا اسے سوری بول دوں صبح کے لیے ۔۔ اس کے لفٹ نہ روکنے کی وجہ سے وہ لیٹ ہوا ۔ وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ وہ لڑکا اس کے پاس آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔والڈ وار ٹو کا سنا ہے تم نے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ارشیا کے باکل سامنے کھڑے ہو کر وہ اس سے سوال کر رہا تھا ۔۔۔۔
سوال عجیب تھا لیکن ارشیا کو فنی لگا ۔۔۔ پر اس لڑکے کا لہجہ اتنا سنجیدہ تھا ورنہ ارشیا مذاق سمجھتی اس سوال کو
ارشیا نے کوئی جواب کوئی ری ایکشن نہ دیا ۔۔۔۔
اب والڈ وار تھری ہو گئی تمہارے اور میرے بیچ ایکچولی شروع ہو گئی ۔۔۔ پورا افس دیکھے گا ۔ یادرکھنا تمہاری وجہ سے میں لیٹ ہوا ہوں ۔ بہت ہی منحوس ہو تم جب سےملی ہو میرے ساتھ برا ہی ہو رہا ۔۔۔۔۔ یاد رکھنا اشعر نام ہے میرا ۔ بھولنا مت ۔۔۔۔۔۔
اج پہلی دفعہ اسنے کسی سے پنگا لیا تھا وہ بھی جان بوجھ کر ۔۔۔۔ جب کے لیٹ وہ اپنی وجہ سے ہوا تھا ۔۔۔۔ پر ارشیا سے پنگا لینے کی وجہ کچھ اور تھی وہ مسکراتا ہوا افس سے باہر نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا کہاں اسے سوری بولنے لگی تھی اور وہ والڈ وار تھری شروع کر چکا تھا اسکے ساتھ
اسے جاتا دیکھ خود ہو گا منحوس مارا ۔۔۔۔ میں بھی دیکھ لوں گئی ڈرتی ہوں تم سے میں ۔۔۔ اسنے دل میں اسے اپنی طر ف سے نہ صرف خوب سنائی بلکہ ہر بات کا جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسٹل پہنچ کر وہ فریش ہوئی ساتھ میں بھوک بھی لگی بہت تھی اس لیے افس واپسی پر لایا ہوا برگر کھا کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئی ۔۔۔ پر سونا کہاں اس کے نصیب میں تھا جب روم میٹ ہی پلوشہ جیسی ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ بہت ہی خوبصورت پھٹانی تھی ۔۔۔ پر وہ پھٹانی نہیں تھی لیکن اپنے حسن اور نام سے سب اسے پھٹانی سمجھ لیتے جیسے ارشیا نےبھی سمجھ رکھا تھا ۔۔۔
۔ پلوشہ ایمٹولوجی کی سٹوڈنٹ تھی ۔۔ وہ انسیکٹس کے بارے میں سٹڈی کر رہی تھی ۔۔۔ جب اس نے ارشیا کو بتایا تو ارشیا نے اچھا اچھا تم کیڑے مکڑوں کے بارے میں پڑھ رہی ہو ۔ انسان ۔مر گئے ہیں جو تم کیڑے کو پڑھ رہی ہو ۔ ارشیا نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا ۔ ۔۔۔ جس پر پلوشہ کا بڑا ہی عجیب ری ایکشن تھا ۔۔۔ وہ دن تھا اور اج کا دن ہے پلوشہ اسے بتاتی کہ مذاق اڑانے کی سزا کیا ہوتی ہے ۔
وہ سونے لیٹی پلوشہ کی کاروائیاں شروع ہو گئی ۔ سب سے پہلے اونچی اوازمیں گانے لگا دیے ۔ وہ جو سوئی تھی ہڑبڑا کر اٹھی سامنے پلوشہ کو دیکھا تھا خون کھول گیا اسکا پر پلوشہ نے اسے ایسے دیکھا جیسے ارشیا کوئی آسمانی مخلوق لگ رہی ہو ۔۔۔۔ ارشیا نے دو دفعہ کہا اواز کم کرو پر اس شور میں پلوشہ نہیں سن سکتی تھی ۔۔۔۔۔ سنا بھی ہو تو کون سا اس نے بند کرنا تھا
پلوشہ نامی بلا سے ہر کوئی بچتا تھا ہوسٹل کی واڈن بھی اس سے پنگا نہ لیتی تھی یہ تو ارشیا کی ہی قسمت خراب تھی ۔۔۔
ارشیا دوبارہ لیٹ گئی ۔ جانوروں کا پڑھ پڑھ کے خود بھی جانور بن گئی ہے اخلاقیات نام کی چیز ہی نہیں کوئی سو رہا یہ خیال ہی نہیں اسکو ۔۔۔۔۔
کبھی۔میرا ٹائم انے دو بچو دیکھ لوں گئی ۔ پھر سوچتے پچھلے چار مہینے سے اب تک اس کا ٹائم نہیں ایاتھا ۔ مایوس ہوتے آنکھیں بند کرلی اس بلا سے کوئی تو بچا لومجھے ۔۔ منحوس ماری ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دماغ تھا پلوشہ کے پاس ہر روز نیو طریقہ ہوتا اس کے پاس ارشیا کو تنگ کرنے کا۔۔۔۔۔
جیسے صبح اس نے ارشیا کے سارے جوتوں میں سیائی ڈال دی ماشاءاللہ سے ارشیا کو واش روم سلیپز میں افس جانا پڑا تھا ۔ اور جو ڈرائنگ پاؤں کے نیچے بنی تھی سیائی سے اسے اترتےارشیا کو بہت ٹائم لگا تھا سیائی اترتے پلوشہ کو بہت سے القابات سے نوازہ گیا تھا جو اسنے سن لیے تھے اب اس کی سزا کتنے دن ارشیا کو ملنی تھی یہ تو اللہ جانے یا خود پلوشہ ۔۔۔۔
کہتے ہیں برا وقت کبھی بھی ا سکتا ہے ۔۔۔۔بالکل صحیح کہتے ہیں ارشیا کا برا وقت پلوشہ نامی بلا کی صورت میں آیاتھا ۔۔ پلوشہ نامی بلا کبھی بھی ارشیا کے سر پر ٹپک جاتی ۔ وہ بنا بولے اپنا کام کرتی اور پوچھنے پرایسے دیکھتی جیسے اسے تو اس سب سے کوئی سروکار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ ارشیا کو لگتا اس کا برا وقت پلوشہ کی صورت میں ایا ہے
پر پلوشہ تو کچھ نہ تھی اصل بلا تو کوئی اور تھا جو ابھی اس کی زندگی میں آیا تھا ۔۔۔۔۔ اشعر نامی بلا ۔۔