اے وائے مقدر حق سے ابھی آویزشِ باطل ہے کہ جو تھی
دیوانوں کو زنداں اب بھی وہی تعزیرِ سلاسل ہے کہ جو تھی
طوفاں کے تھپیڑے ہیں کہ جو تھے نومیدیِ ساحل ہے کہ جو تھی
انجامِ سفینہ ہو شربا آزردگیِ دل ہے کہ جو تھی
وہ خارِ مغیلاں ہیں کہ جو تھے اف دورئ منزل ہے کہ جو تھی
اے رہرو منزل تیرے لئے اب تک وہی مشکل ہے کہ جو تھی
ہو آنکھ اگر دل کی روشن تو حسن کے جلوے ہیں ہر سو
اندازِ جنونِ قیس ہو گر تو لیلٰئ محمل ہے کہ جو تھی
خونیں کفِ قاتل ہے کہ جو تھا چیخیں سرِ مقتل ویسی ہی
نظارہ الم انگیز وہی جاں سوزئ بسمل ہے کہ جو تھی
وہ مصحفِ قرآں ہے کہ جو تھا پر عاشقِ قرآں اب وہ نہیں
پروانۂ شیدا ہے غائب گو شمعِ محفل ہے کہ جو تھی
منزل کے لئے چلتے تو رہے منزل نہ قریب آئی لیکن
تقدیر، نظرؔ تدبیروں سے اُف مدِ مقابل ہے کہ جو تھی
٭٭٭