اگلے روز سنڈے تھا۔ اس نے نہا کر کپڑے پہنے اور سر پر اسکارف اوڑھ کر چرچ چلی آئی۔
کیتھڈرل کے باہر خوب رش لگا ہوا تھا۔
ایسٹر کے حوالے سے آج کیتھڈرل میں خصوصی بیان تھا۔ جس کے لیے امریکا سے بشپ آیا ہوا تھا۔ کچھ لوگ چرچ کے اندر موجود تھے۔ اس نے جا کر ایک شمع جلائی۔ سینے پر صلیب بناتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ خاموشی سے جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔
پوری ہو رہی ہیں سوچیں سبھی
ٹھنڈی پڑ رہی ہیں محبتیں سبھی
کیے وعدے توڑ نبھایا یسوع آنے والا ہے
لوگ ہاتھوں میں مشعل لیے ہوئے گیت گا رہے تھے۔ وہ اس گیت پر الجھ رہی تھی۔ پھر سر جھٹکتے ہوئے بشپ کا ویٹ کرنے لگی۔ آخر اکیس منٹ کے جان لیوا انتظار کے بعد ان کی آمد ہوئی۔
اور پہلے دس بار کا سنا ہوا بیان دہرا دیا گیا۔
وہ انجیل کا وہ باب سنا رہا تھا۔ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے خلاف سازش کی اور ان کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ آگے تین روز بعد ان کے دوبارہ جی اٹھنے کا ذکر تھا وہ اٹھ کر باہر نکل آئی۔ شدید سردی کے باعث اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور ناک سرخ ہو چکی تھی۔ آسمان کو سرمئی بادلوں نے نگل لیا تھا اور قطرہ قطرہ بوندیں برسنے کو بے تاب تھیں۔
یہاں کا موسم ہی ایسا تھا۔ دو روز میں ایک پہر بارش ضرور ہوتی تھی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی کیب کا انتظار کر رہی تھی۔ جب سامنے اوپن ریسٹورنٹ میں وہ بیٹھا بلیک کافی سے لطف اندوز ہوتا دکھائی دیا۔
ٹپ … ٹپ … ٹپ
موٹی موٹی بوندیں ٹپکیں اور وہ بھاگ کر چھجے کے نیچے آن کھڑی ہوئی۔
وہ مبہوت سا بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کافی میں بوندیں گر رہی تھیں۔
وہ بھیگ رہا تھا۔
بیلا نے نظروں کا زاویہ بدل لیا۔
اس کی کافی چھلک رہی تھی۔ بال پیشانی سے چپک گئے تھے۔ مگر وہ جیسے ہر احساس سے عاری ہو چکا تھا۔ سارے جذبے سمٹ کر آنکھوں میں چھلک آئے تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے ساری دنیا میں بس اس کی آنکھیں ہیں۔ جو زندہ ہیں … یا پھر وہ اک چہرہ تھا۔
وہ اک چہرہ جو اس کے لیے ساری کائنات تھا۔
وہ گھر آئی تو وہ بھول چکی تھی کہ اس نے کتاب میں کیا پڑھا۔ بشپ نے کیا کہا۔ وہ بھول گئی، اسے کیا کرنا تھا۔ کیا سوچنا تھا۔
بس اگر کچھ یاد تھا۔
تو وہ دو آنکھیں
جو اتنی گہری تھیں
اسے لگ رہا تھا، اس کا وجود ڈوب رہا ہے۔ وہ خود کو بچانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ ڈوب رہی تھی۔
٭٭٭
’’کھانا لاؤ۔‘‘ جم سے آتے ہی وہ اس کے قریب صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ ساتھ آرڈر بھی جاری کر دیا گیا اور اس کی گود میں رکھا کشن اچک کر سر کے نیچے رکھ لیا۔
’’ابھی صبر کرو۔‘‘ وہ ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ اس کے فیورٹ ڈرامے کا آخری سین چل رہا تھا۔
’’بندہ چاہے بھوک سے مر جائے۔ تم ڈراما دیکھتی رہنا۔‘‘ اس کے دوپٹے سے پسینہ پونچھتے ہوئے وہ بھنایا۔ مہک نے ایک پل کے لیے گردن ترچھی کر کے اسے گھورا تھا۔
’’ذرا جو میرا خیال ہو۔‘‘ اس کی بڑبڑاہٹیں عروج پر تھیں۔
’’ہاں ! تمہارا خیال کیوں ہو گا۔ ابھی جب میں چکن بنا رہی تھی تو بھونی ہوئی بوٹیاں کس نے دی تھیں ؟ اور دوپہر جو پکوڑے میں نے اپنے لیے بنائے تھے تو تمہارے لیے کس نے رکھے تھے ؟ ایک پراٹھا تھا بس۔ وہ بھی میں نے تمہیں دے دیا۔‘‘ وہ ریموٹ پٹخ کر شروع ہو چکی تھی۔
’’وہ تو میری نظر پڑ گ ئی تھی پراٹھے پر۔ ورنہ تم تو صاف انکار کر دیتیں اور آدھی بوٹیاں کھا کر جب دل بھر گیا تو مجھے لا کر دے دیں … باقی تین پکوڑوں کا احسان نہ جتاؤ مجھ پر۔‘‘ اسے بھی ساری خبر تھی۔
’’ اُف! کس قدر ندیدے ہو تم دونوں۔ جیسے کبھی کچھ کھایا ہی نہ ہو۔‘‘ در نایاب نے ملامتی نظروں سے دونوں کو گھورا۔ مگر مجال ہے، جو کوئی ذرا بھی شرمندہ ہوا ہو۔ وہ دوبارہ سے ٹی وی کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
زریاب نے بے ساختہ پہلو بدلا۔
’’ریموٹ ادھر لاؤ۔ مجھے کارٹونز دیکھنے ہیں۔‘‘ وہ محض پانچ منٹ ہی ضبط کر سکا تھا۔
’’ہاں ! اسی لیے تو مجھے کچن میں بھیج رہے تھے۔‘‘ وہ بھی اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
’’تم ڈراما رپیٹ میں دیکھ لینا۔‘‘ وہ عاجزی سے بولا تو مہک اس کی جانب رخ موڑ کر گویا ہوئی۔
’’شکریہ! آپ نے مجھے اپنے قیمتی مشورے سے نوازا۔ مگر عمل کرنے کا میرا کوئی موڈ نہیں ہے۔‘‘
’’پھوپھو! دیکھیں اسے۔‘‘ وہ تلملا کر در نایاب کی سمت مڑا اس نے جو اسائنمنٹ لکھتے ہوئے ان کی چونچیں لڑاتے دیکھ رہی تھی، اٹھ کر ٹی وی کی لیڈ ہی نکال دی۔
’’ارے یہ کیا۔‘‘ وہ چلاتے رہے۔ مگر اس نے کان نہ دھرا۔
٭٭٭
’’کیا یار! تم بھی نا! رومیو بنے بیٹھے ہو۔ اس کا ہاتھ پکڑو اور کہہ دو، آئی لو یو۔‘‘ کلارک نے اسے گم صم اداس بیٹھے دیکھا تو ڈپٹ کر بولا۔
’’اور نہیں تو کیا۔ اس ایک لڑکی کی خاطر ہمیں کس بات کی سزا مل رہی ہے ؟ نہ پارٹیز، نہ کلب اور نہ ہی کوئی نیا ایڈونچر، بور کر دیا ہے تم نے۔‘‘ رالف تو پہلے ہی اس سے خار کھائے بیٹھا تھا۔ موقع ملتے ہی خوب بھڑاس نکالی۔ وہ دونوں اس کے بہترین دوست تھے۔
’’میں کہنے سے نہیں ڈرتا۔‘‘ وہ زچ ہو اٹھا۔
’’تو پھر؟‘‘ دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’میں اس کے انکار سے ڈرتا ہوں۔‘‘ بالآخر اس نے اپنے خدشے کو زبان دے ڈالی۔
’’پاگل ہو گیا ہے کیا؟ وہ تجھے ریجیکٹ کرے گی؟‘‘ کلارک نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ رالف کی بھی کم و بیش یہی حالت تھی۔
مانیک خاموش رہا۔ وہ انہیں نہیں سمجھا سکتا تھا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔ وہ اسے مسترد کر چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چھلکتا ناگواری اور ناپسندیدگی کا تاثر وہ بارہا دیکھ چکا تھا۔
اسے یاد تھا، وہ دن جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔
ساحل پہ کھڑی وہ بادنسیم جیسی لڑکی جس کے وجود میں چڑھتا ہوا سمندر ہلکورے لے رہا تھا اس کے دل میں مد و جزر کی مانند اتھل پتھل مچا چکی تھی۔
اس کے ہر ہر عضو پہ کانسی کے مجسمے کا سا گماں ہوتا تھا۔ جیسے برسوں کی ریاضت کے بعد کسی سنگ تراش نے اپنا شاہکار تخلیق کیا ہو۔ وہ جہاں قدم رکھتی تھی، وہاں بھنور پڑتے تھے۔
وہ دم بخود سا اسے دیکھ رہا تھا۔ ملائی کی رنگت کے مومی نازک ہاتھوں کی انگلیاں کس قدر آرٹسٹک بناوٹ کی تھیں۔
غرور سے اٹھی ہوئی صراحی دار گردن
سیدھے آبشاروں جیسے بال اور بڑی بڑی سرمئی بادلوں جیسی آنکھیں
شفاف اتنی، جیسے نور کے ہالے میں لپٹی ہوئی چاندنی سادگی جس کا سنگھار تھی اور حیا اس کا وقار
’’میرے یار! وہ اپنی قسمت پہ رشک کرے گی۔ جسے تم مل جاؤ، اسے بھلا اور کیا چاہیے ؟‘‘ رالف نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی سے نوازا۔
بلاشبہ وہ بہت خوب صورت تھا اعلا تعلیم یافتہ دولت مند خاندان سے تھا دونوں نے مل کر اس پر اتنا زور دیا کہ اگلے روز یونیورسٹی میں صبح کے وقت جب ابھی کلاسز اسٹارٹ نہیں ہوئی تھیں اور اسٹوڈنٹس سیڑھیوں پہ، ٹیرس پہ، لان میں کھڑے خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ مانیک نے قریب سے گزرتی بیلا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
وہ بل کھا کر پلٹی۔ اس کے ابرو تن گئے اور پیشانی شکن آلود ہو گئی۔ رخسار سرخ اور لب بھنچے ہوئے، لیکن آنکھوں میں ہنوز بے یقینی تھی۔ وہ اس کی جرات پر حیران تھی۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اگرچہ یہ کافی عجیب حرکت تھی۔ لیکن وہ ساری دنیا کے سامنے اسے پروپوز کرنا چاہتا تھا۔ پاس سے گزرتے، دور، قریب کھڑے تقریباً سب اسٹوڈنٹس ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ کچھ من چلوں نے تو ہوٹنگ تک شروع کر دی تھی۔
اس کا ہاتھ ابھی تک مانیک کے ہاتھ میں تھا۔
’’ول یو میری می؟‘‘
تالیوں کا شور، سیٹیوں کی گونجتی فضا اور مانیک کی اس کی جانب اٹھی منتظر نگاہیں۔
’’واؤ۔ لڑکیاں بیلا کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں۔
’’نو۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر سیڑھیوں کی سمت بڑھ گئی اس کے جاتے ہی ہر سو جیسے سناٹا چھا گیا۔
مانیک اپنی جگہ ساکت سا بیٹھا تھا۔
رالف اور کلارک حیرت زدہ بے یقینی کا شکار بھلا کوئی لڑکی مانیک کو بھی انکار کر سکتی تھی۔
یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔
٭٭٭
’’بیلا! آئی ڈونٹ بلیو کہ تم نے اتنے اچھے لڑکے کا پروپوزل ریجکیٹ کر دیا۔ آئی تھنک ہی از اے پرفیکٹ چوائس فار یو۔‘‘ کھانے کی میز پر رابرٹ نے اس کے فیصلے پر اعتراض کرنے کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔
’’ایم سوری انکل! بٹ آئی ڈونٹ وانٹ ٹو میری۔‘‘
اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے۔
’’یس ڈیڈ! کیونکہ اسے نن بننا ہے۔ تم چرچ کیوں نہیں جوائن کر لیتیں ؟‘‘ کیتھرین کا انداز استہزائیہ تھا۔
مانیک اسے بہت پسند تھا اور وہ یہ جان کر بے حد پر جوش تھی کہ وہ بیلا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
’’کیتھرین! بی ہیویور سیلف۔‘‘ رابرٹ نے اسے گھورا۔ جس پر وہ سر جھٹکتے ہوئے فرنچ فرائز کو کیچپ میں ڈبو کر کھانے لگی۔ اس نے رابرٹ اور جنیفر سے کسی بھی معاملے میں بحث کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک سال بعد وہ اٹھارہ کی ہو جائے گی تو اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارے گی۔ اس خیال کے تحت وہ سب چپ چاپ سن لیتی تھی۔
’’میرا مطلب تھا، مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔ میں پہلے خود کو اسٹیبل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ ٹیبل سے اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مانیک کا سر پھاڑ دے۔ اس نے سمجھ کیا رکھا تھا۔ کیا وہ اتنی بے وقوف تھی کہ اس کے شادی کے جھانسے میں آ جاتی اور وہ اپنی نفسیاتی تسکین کی خاطر اسے استعمال کرتا۔
٭٭٭
ان کے تھیوری کے ایگزامز اور پریکٹیکل ہو چکے تھے۔ بس کیمسٹری کا وائیوا رہ گیا تھا۔ لیکن ابھی اس میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ مگر کیتھرین نے آؤٹنگ کے پروگزامز بنانا شروع کر دیے تھے۔
وہ اسے شاپنگ پر چلنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ بیلا نے چائے کا مگ حلق میں انڈیل کر سرتاپا کمبل تان لیا تھا۔
’’باہر اتنے گھنے بادل چھائے ہیں۔ کسی بھی وقت بارش ہو سکتی ہے۔ ٹھنڈ بہت زیادہ ہے۔ پھر میں چائے بھی پی چکی ہوں اور اب نرم گرم کمبل میں دبک کر سونے کی خواہش ہو رہی ہے۔ سوری کیتھی! میرا موڈ نہیں ہے جانے کا۔‘‘ اتنی طویل معذرت پر وہ جھلا اٹھی۔
’’پہلے ہی پھوٹ دیتیں کہ نہیں جانا۔ دس منٹ برباد کر دیے۔‘‘
’’پھر تم وضاحتیں طلب کرتیں۔‘‘ وہ کمبل سے منہ نکال کر بولی۔
’’سوتی رہو پورا ہفتہ۔‘‘ اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور سیڑھیاں اتر گئی۔ خریدنا تو اسے بھی کچھ نہیں تھا۔ یوں ہی ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے اس کی نگاہ مانیک سے ٹکرا گئی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔
کیتھرین نے اسے اس روز کے بعد آج دیکھا تھا۔ وہ اسے کچھ پژمردہ سا لگا حالانکہ اس بات کو دو ماہ ہو چکے تھے۔
’’ہیلو کیتھی!‘‘ وہ اپنی جگہ رکی ہوئی تھی۔ مانیک ہی پاس آیا تھا۔
’’ہائے۔‘‘ وہ بدقت تمام مسکرائی۔
بیلا نے جو اس کے ساتھ کیا تھا۔ اس پر اسے خوامخواہ شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو؟‘‘
’’ہمیشہ کی طرح حسین۔‘‘ اس نے بشاشت سے کہا اور پھر اس کا احوال دریافت کرنے لگی۔ ’’اور تم۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ ہلکے سے مسکرایا۔
’’لگ تو نہیں رہے۔‘‘ اس کا انداز مشکوک تھا۔
’’بیلا کیسی ہے ؟‘‘ اس نے بات بدل دی۔
’’اچھی ہے۔‘‘ وہ سنجیدہ ہوئی۔
’’وہ تمہارے ساتھ نہیں آئی؟‘‘ مانیک نے غیر محسوس انداز میں اس کے عقب میں جھانکا۔
’’اس کا موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ بہت سپاٹ انداز میں جواب دے رہے تھی۔
’’پلیز کیتھرین! اسے سمجھاؤ۔ میں اس کے بغیر مر جاؤں گا۔‘‘ وہ بے بس سا ہوا۔
’’تم کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو مانیک! یونیورسٹی میں ہزاروں لڑکیاں ہیں۔ جس کو بھی اشارہ کرو گے، تمہارے ساتھ چل پڑے گی۔‘‘
’’ہاں ! مگر میری یہ مجبوری ہے کہ میں اسے چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔
’’تمہیں کیا واقعی اس سے محبت ہے ؟‘‘ وہ متاثر ہو گئی۔ اسے بیلا کی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے خفگی سے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی۔ ’’میں شوق میں رومیو بنا گھوم رہا ہوں۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔ دونوں ساتھ چلتے ہوئے کافی شاپ پر چلے آئے۔
’’پہلے تو یہ حلیہ بدلو۔ ’’کیتھرین کا اشارہ اس کے لمبے بالوں، کانوں میں جھولتی بالی، آنکھوں میں پہنے اسٹونز اور گلے میں جھولتی ڈوری کی سمت تھا۔
’’بدل لیا … آگے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا۔ اسے اصل ہدف تک پہنچنے کی جلدی تھی۔
’’وہ سگریٹ سے الرجک ہے۔‘‘
’’چھوڑ دی۔‘‘
’’ہاں ! یہ سب تو تم چھوڑ سکتے ہو۔ روزمرہ روٹین سے ہٹنا اور برسوں کی عادتوں کو چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، لیکن تم اس کی خاطر اپنا عقیدہ تو کبھی نہیں بدل پاؤ گے۔‘‘ وہ پست آواز میں بڑبڑائی۔
’’ٹھیک ہے ! میرا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے ہے۔ بٹ نو پرابلم، میں اس کی خاطر کیتھولک ہو جاؤں گا۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔
’’وہ یسوع کو گاڈ(God) کا بیٹا نہیں مانتی۔‘‘
کیتھرین نے اس کے سر پر جیسے دھماکا کیا تھا۔ کتنی ہی دیر تو وہ جیسے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔
’’واٹ؟‘‘ اسے لگا، اسے سننے میں مغالطہ ہوا ہے۔
’’ہاں !‘‘ کیتھرین اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’سنو! اس نے پیچھے سے پکارا اور پھر خود بھی اٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔
’’تم اسے سمجھاؤ۔‘‘
’’میں بات کروں گی۔‘‘ وہ اسے تسلی سے نوازتے ہوئے گھر لوٹ آئی۔ بیلا پر اسے نئے سرے سے غصہ آ رہا تھا۔
٭٭٭