آج کی رات کس قدر ظالم اور وحشت ناک تھی۔ سلیپنگ پلز نگلنے کے باوجود بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر پورا وجود دکھنے لگا وہ چت لیٹی چھت پر لٹکے فانوس کو گھور رہی تھی۔ پھر اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا۔
رات کے تین بج رہے تھے۔
وہ دوپٹا اوڑھتی دروازے پر چلی آئی۔ آہستگی سے دروازہ کھولا۔ باہر کوئی نہیں تھا۔ راہ داری ویران پڑی تھی۔ ہر کمرے کا دروازہ بند تھا۔
وہ شال اوڑھ کر باہر نکل آئی۔ بند کمرے میں اب تو دم گھٹنے لگا تھا۔
رت جگے تو اب ہمارا مقدر ہیں دوست
تم کیوں جاگتے ہو اجاڑ راتوں میں
نیم تاریکی میں وہ اسے دیکھ نہیں پائی تھی۔ سامنے آیا تو اس کی پوروں میں جلتا ہوا شعلہ تھا۔ جس کا ایک کش لے کر اس نے دھواں مہک کے منہ پر چھوڑ دیا۔ وہ بے ساختہ کھانس کر رہ گئی۔
’’کیا بدتمیزی ہے یہ؟‘‘ اشتعال سے زیادہ اسے صدمہ ہوا تھا۔ اس نے سگریٹ کیوں پینی شروع کر دی۔
’’بدتمیزی …‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’بدتمیزی ابھی تم نے میری دیکھی کہاں ہے۔‘‘
ایک جھٹکے سے اس کا بازو جکڑتے ہوئے وہ غرایا۔ اس کی سرخ آنکھوں سے مہک کو خوف آنے لگا۔
’’بازو چھوڑو میرا۔‘‘ اس کی آواز میں نمی گھل گئی۔ آج سے قبل اس نے زریاب کو کبھی اس قدر ٹوٹی بکھری حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ شکستگی، لاچاری اور جنوں کی جس انتہا پر تھا مہک کو لگا، ابھی وہ اس کا گلا دبا کر سارے حساب بے باق کر ڈالے گا۔
’’کیوں کیا تم نے ایسا میرے ساتھ مہک … کیوں ؟‘‘
نیم دیوانگی میں اس نے مہک کو پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔ پھر اگلے ہی پل پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’زریاب! یہ کیا پاگل پن ہے۔‘‘ وہ بوکھلا کر رہ گئی۔
’’میں نہیں جی سکتا تمہارے بغیر۔‘‘
’’اب تمہاری زندگی فاطمہ سے وابستہ ہے زریاب … اور یہ کبھی مت بھولنا کہ فاطمہ میری بہن ہے۔‘‘
٭٭٭
’’اماں جی، بابا جان کے ساتھ بیڈ روم میں ہی ناشتا کیا کرتی تھیں۔ اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر حسب معمول وہ چاروں موجود تھے۔
فاطمہ کو مہک کچھ دنوں سے بہت بدلی ہوئی اداس اور گم صم سی لگ رہی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تو اسے خیال آیا کہ شاید دونوں میں کوئی جھگڑا چل رہا تھا۔ بات چیت تو تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ دونوں کو ایک ہی اسپتال جانا ہوتا تھا۔ مگر دونوں الگ الگ گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔
’’چائے اتنی پھیکی کیوں ہے۔‘‘ زریاب نے ایک گھونٹ بھر کر کپ واپس رکھ دیا۔ مہک خاموش رہی تھی۔ کیونکہ چائے وہی بنا کر لائی تھی اور وہ ہمیشہ سے ہی پھیکی چائے پیتا تھا۔
’’فاطمہ! میرے لیے چائے تم بنایا کرو۔ تم چائے بہت اچھی بناتی ہو۔‘‘ اگلے ہی پل پیار بھرے لہجے میں فاطمہ سے فرمائش کی گئی اور فاطمہ کو یاد نہ آیا کہ اس نے کب زریاب کے لیے چائے بنائی تھی۔
اپنے سب کام جو وہ پہلے مہک سے کروایا کرتا تھا۔ اب فاطمہ سے کروانے لگا تھا۔ سب کے سامنے ایسے ظاہر کرتا تھا۔ جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش حال زندگی گزار رہے ہوں اور تنہائی میں مکمل لاتعلق اور اجنبی بن جاتا۔
٭٭٭
سردیوں کی نرم گرم دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ پہاڑوں پر سورج سردیوں میں شاذ و نادر ہی جلوہ گر ہوتا تھا۔ فاطمہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم لے کر اوپر ٹیرس پر چلی آئی تھی، جہاں زریاب پہلے سے موجود کسی کیس ہسٹری میں مکمل طور پر محو تھا۔
’’آج کل اپنا زیادہ وقت مذہبی کتابوں کے مطالعے اور عبادت کو دے رہی تھی۔ جس سے نہ صرف اس کا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ بلکہ ایک روحانی سکون بھی ملتا تھا۔ وہ مانیک کو کبھی نہیں بھلا سکتی تھی۔ مگر اتنا ضرور چاہتی تھی کہ زندگی کو نئے رخ سے جینا سیکھ لے۔
’’یار! میں سوچ رہا ہوں۔ ہمیں کہیں ہنی مون کے لیے چلنا چاہیے۔‘‘
ٹیرس کی خاموش لاتعلق فضا میں اچانک زریاب کی پر جوش آواز ابھری۔ انداز ایسا تھا۔ جیسے گھنٹہ بھر سے وہ اس کے ساتھ ہی باتیں کر رہا ہو۔ مہک ابھی ابھی ٹیرس سے کپڑے اتارنے آئی تھی۔
’’ہنی مون۔‘‘ اس کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے سوئٹزر لینڈ کی وہ فلک بوس پہاڑیاں اور پھولوں سے مہکتی وادیاں یاد آ گئیں۔
’’بیلا! ہم سال میں ایک بار ہنی مون ضرور منایا کریں گے۔ میں تمہیں لے کر ملکوں ملکوں گھومنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اچھا! اس سے کیا ہو گا؟‘‘ اس کی جذبے لٹاتی والہانہ نظروں سے شرما کر اس نے بے تکا سا سوال پوچھا تھا۔
’’ہمارا پیار ہمیشہ جوان رہے گا۔‘‘ مانیک نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
’’پیار کبھی بوڑھا یا جوان نہیں ہوتا۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’تم کبھی بدل تو نہیں جاؤ گی نا؟ دیکھو! وعدہ کرو کہ ہمیشہ مجھے یوں ہی چاہو گی۔‘‘
’’انسان بھی کبھی بدلا ہے ؟ آج جیسی ہوں، کل بھی ویسی ہی رہوں گی۔ گھبراؤ مت۔ میرے سر پہ سینگ نہیں نکلیں گے اور نہ ہی …‘‘ اپنی بات کا حظ اٹھاتی وہ خود ہی ہنسے جا رہی تھی۔
’’تم ہنستی ہوئی کتنی اچھی لگتی ہو۔ میں چاہتا ہوں، تمہاری ہنسی کا ترنم کبھی پھیکا نہ پڑے۔ جب بھی تمہیں دیکھوں۔ تم یوں ہی کھلکھلاتی رہو۔‘‘ وہ اب اسے گدگدا رہا تھا اور وہ ہنستے ہوئے اس سے دور بھاگ رہی تھی۔
’’مانیک! اسٹاپ اٹ۔‘‘
’’بتاؤ نا! کس ملک کی سیر کرنا چاہتی ہو؟‘‘ زریاب نے اسے خاموش دیکھ کر اس کا ہاتھ دبایا۔
فاطمہ کی ہتھیلی سلگنے لگی۔ اسے آج تک کبھی مانیک کے سوا کسی نے نہیں چھوا تھا اور وہ ہمیشہ اس کی ہو کر رہنا چاہتی تھی۔
اس نے غیر محسوس انداز میں اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا وہ جتنا بھی خود کو آمادہ کرتی، یہ پل صراط اس سے پار ہونے والا نہیں تھا۔
مہک چپ چاپ سیڑھیاں اتر گئی اور اس کے جاتے ہی زریاب واپس اپنے خول میں سمٹ گیا۔
٭٭٭
’’ہاتھ دکھاؤ اپنا۔‘‘ وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی، جب وہ تن فن کرتا اس کے سر پہ اپنا حکم نامہ لیے آن کھڑا ہوا۔
مہک نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کے تاثرات خاصے برہم تھے۔ خشمگیں نظریں اس پہ جمائے وہ اسے مسلسل گھور رہا تھا۔
’’سنا نہیں تم نے ؟ اپنا ہاتھ دکھاؤ۔‘‘ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آتے دیکھ کر وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ مہک بے اختیار سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔ پھر خاموشی سے اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھا دیا۔
اس نے نہایت درشتی کے ساتھ اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی سے انگوٹھی اتار کر کھڑکی سے باہر اچھال دی۔
مہک ششدر سی رہ گئی اسے زریاب سے ایسی حرکت کی اُمید نہیں تھی۔
’’تم صرف میری ہو اور میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔ یاد رکھنا۔‘‘ اس کے بازو کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑے ہوئے ایک جھٹکے سے پیچھے دھکیلتا جس طرح آندھی کی طرح آیا تھا۔ ویسے ہی واپس لوٹ گیا۔
وہ رونے لگی تھی۔ زریاب کا یہ جارحانہ روپ اس کے لیے بالکل نیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس معاملے میں اس قدر جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کرے گا۔
٭٭٭
’’فاطمہ! زریاب آ چکا ہے۔ تم ایسا کرو اس کی چائے بیڈ روم میں ہی لے جاؤ۔‘‘ در نایاب کچن میں ٹرالی سیٹ کر رہی تھی۔ اپنے اور مہک کے لیے چائے نکال کر اس نے باقی لوازمات اس کی سمت بڑھا دیے۔
’’بھئی بڑی خاطریں ہو رہی ہیں میاں صاحب کی۔‘‘ راستے میں شایان ایک کپ اور سموسوں کی پلیٹ لے اڑا۔
فاطمہ سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے کمرے میں چلی آئی۔
پہلے تو اسے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ دبی پردوں کے باعث سورج کی شعاعیں کھڑکیوں میں کھڑی جیسے محو انتظار میں تھیں کہ کوئی ان کو اندر جھانکنے کا راستہ فراہم کرے۔ اس نے سب سے پہلے ان کی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پردے ہٹائے تو جیسے ہر منظر نکھر سا گیا۔
بستر پر اوندھا لیٹا زریاب ایک ٹانگ جھلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا میں عجیب ناگوار سی بو رچی ہوئی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ایش ٹرے ڈسٹ بن میں جھاڑی، جو سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسے یاد آیا کبھی وہ کہا کرتی تھی۔
’’آئی ہیٹ اسموکر۔‘‘
مانیک کو بھی اسی وجہ سے وہ کتنا عرصہ ناپسند کرتی رہی تھی مگر اس نے بیلا کی خاطر سب چھوڑ دیا تھا۔ پھر اب کیوں نہیں۔
اس کے دماغ میں سوال اٹھا اور پھر کیتھرین کی فون کال یاد آ گئی۔ پہلے تو وہ اس پر خوب ناراض ہوئی تھی۔ پھر واپسی پر اصرار کرنے لگی۔ اس نے مانیک کا پوچھا تو اس نے بتایا تھا کہ ایک گیٹ ٹو گیدر میں وہ زبردستی مانیک کو ساتھ لے گئی تھی۔ وہاں سوزین نے سب کے سامنے اس کا خوب مذاق اڑایا کہ تمہاری بیوی تمہیں چھوڑ کر اپنے کسی آشنا کے ساتھ پاکستان چلی گئی ہے۔ بس اسی روز کی فلائٹ سے وہ برمنگھم چلا گیا ہے۔ اسے سن کر بہت دکھ ہوا تھا۔
ڈر، خوف، وہم بعض اوقات انسان کے دل و دماغ پر اتنے حاوی ہو جاتے ہیں کہ پھر حقیقت کا روپ دھار کر ہی جان چھوڑتے ہیں اور جو رسوائی قسمت میں لکھی جا چکی ہو، وہ ہزار تدبیروں سے بھی موخر نہیں ہو سکتی۔
اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
زریاب اس کی موجودگی کو محسوس کرتا اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
’’چائے۔‘‘ فاطمہ نے کپ اس کی جانب بڑھایا۔
تب ہی زریاب کی نظر اٹھی۔ وہ سی گرین رنگ کے لباس میں ہمیشہ کی طرح فریش اور خوب صورت لگ رہی تھی۔ سیدھے بال چٹیا میں مقید تھے۔ سرمئی آنکھوں میں کتنی حیا اور پاکیزگی تھی۔
مگر کوشش کے باوجود بھی اس کا دل فاطمہ کی جانب ملتفت نہیں ہوتا تھا۔
’’یہ مٹھائی کہاں سے آئی ہے ؟‘‘ پلیٹ پر نظر پڑتے ہی وہ اچھا خاصا بدمزہ ہوا تھا۔
’’جلیل انکل کے گھر سے …‘‘ نبیل شاہ کے نام کی انگوٹھی آج ہی ذکیہ آنٹی مہک کی انگلی میں پہنا کر گئی ہیں۔‘‘ اس نے تو اپنی جانب سے خوش خبری سنائی تھی اس کے چہرے کے زاویے جانے کیوں بگڑ گئے۔
’’اٹھا کر پھینکو اس کو باہر۔‘‘ وہ کپ واپس پٹختے ہوئے ٹرالی کو ٹھوکر مارتا باہر چلا گیا اور فاطمہ کے ذہن میں اتنے دنوں سے جو کھٹک رہا تھا۔ وہ جیسے اس پر یقین کرنے میں ابھی تک متامل تھی۔
٭٭٭