احمد وہ ناشتہ بنا کر آئی تو احمد ابھی تک بستر میں سویا ہوا تھا وہ ایک پل کو ٹھٹھک گئی پھر پریشانی میں آگے بڑھ اسکا ماتھا چھوا جو آگ کی طرح دھک رہا تھا
اسکے دل کو دھکا لگا احمد کیا ہوا ہے بیٹا احمد وہ پریشانی میں بار بار اسکا چہرہ تھتھپا رہی تھی احمد صاحب نے جھٹکے سے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا جی ماما جی
جی ماما جی کے بچے جلدی سے اٹھ جاؤ ناشتہ ٹھنڈا ہوجانا ہے اور جناب آپکی یہ ایکٹنگ کسی دن پٹوئے گی آپکو مجھ سے اس پہلے ہی انسان بن جاؤ تو بہتر ہے
اس نے احمد کو لاڈ بھری خفگی سے گھورتے ہوئے ڈپٹا کیونکہ اسے یقین تھا کہ صاحب بہادر اب کہ لاکھ سمجھانے پر بھی سکول نہیں جانے والے اسی لیے کمرے کا پھیلاوا سمیٹنے لگی تھی۔
ارے یار ماما اگر آپ بھی اتنے ظالم موسم میں آرام سکون سے چھٹی کرنے دیا کریں تو مجھے ایکٹنگ نا کرنی پڑے سمجھا کریں نا یارا
وہ جو چھ سالہ احمد کے منہ سے اتنا ظلم موسم سن کر ٹھٹھک کر پلٹی تھی یارا کہنے پر تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو ہوگئیں لیکن وہ صاحب اپنی بولے جارہے تھے
اور کچھ نہیں تو کم از کم نگٹس
احمد شاہنواز خان
احمد شاہنواز کو اپنے نام کی صدا پر فرمائشی پروگرام بیچ میں ہی روکنا پڑا تھا کیوں کہ سامنے ہی اسکی ماما جان دونوں ہاتھ کمر پر دھرے اسے ہی گھور رہیں تھیں جبھی انکی گھوری کا اثر کم کرنے کے لیے فوراً بولتے اسکے پاس چلا آیا تھا
جی مسز شاہنواز خان
اس نے احمد کے برابر پوکر کہا ہوگیا آپکا بیٹا جی؟
جی ہوگیا میری ماما جی
کچھ دیر ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھتے رہے پھر ایک قہقہہ لگاتے دونوں ایک دوجے سے لپٹ گئے
بہت شریر ہوتے جارہے ہو آپ ابھی بابا جان سے بات کرتی ہوں ۔
اس نے سوچا تھوڑا بہت بھرم ہی سہی دکھا دینا چاہئے۔
بہت روک ٹوک کرنے لگی ہیں آپ ابھی دادی جان سے بات کرتا ہوں
ایک بار پھر سے دونوں ماں بیٹا کی ہنسی کی گونج گھر کے ساتھ پوری وادی میں پھیلنے لگی تھی۔۔۔
اماں باہر بیٹھی بیٹھی اونگھنے لگیں تھی ہنسی کی آواز پر ایک پل کو فوراً سہم گئیں پھر اندازہ ہوتے ہی خدا کا شکر بجا لائیں تھیں کیونکہ یہ قہقہوں کی گونج صرف احمد علی کے دم سے تھیں ورنہ انکے گھر کے در و دیوار نے بہت دکھ سہے تھے ۔
وہ جو اندر سگنل نا آنے کی وجہ سے فون باہر جاکر سننے گئے تھے یہ گونج ان تک بھی پہنچی تھی انکی آنکھوں سے ایک سجدہ شکر ادا ہوا تھا انہوں فوراً فیصلہ کیا اپنی بہو کی ہنسی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھنے کا آج کہ یہ کال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی
وہ اسے ہمیشہ خوش و خرم دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ وہ صرف انکی بہو نہیں تھی انکے آپس میں اور بھی بہت سے رشتے بنتے تھے ۔۔
--------------------------
وہ انکی شادی کے ایک ہفتہ بعد کی خوبصورت سی صبح تھی جب وہ کچن میں کھڑی بہت تندہی سے ناشتہ بنانے میں مگن تھی۔
اور کوئی تھا جو تھوڑی دور کچن کی باہری کھڑکی سے چھپ کر محبت کے گہرے رنگوں سے مزین اسکے حنائی ہاتھوں کی نرمی میں کھویا چلا جاتا تھا مرا چلا جاتا تھا
پھر جب وہ پراٹھے کو بل دینے لگی
تو وہ جو کوئی کھڑکی میں چپکا کھڑا تھا
اسے لگا پراٹھے کہ ان بلوں میں اسکا دل تہہ در تہہ اس پیاری سی لڑکی جو اب اسکی بیوی تھی کی محبت میں دبتا جارہا ہے
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ صرف ایک ہفتے میں سامنے کام کرتی چھوٹی سی سانولی سلونی سی لڑکی کی محبت کی اتنی تہہیں اوپر نیچے چڑھ ہوکر اسکے دل پر چڑھ چکی ہیں کہ وہ اگر چاہے بھی تو کبھی نہیں جان پائے گا کہ یہ لڑکی اسے کتنی عزیز ہے ۔۔۔
ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے وہ اچانک چونک اٹھا تھا لیکن اسے سمجھ نہیں آخر آئی وہ چونکا کیوں ہے۔
وہ بے آرام سی تھی مگر بھئی؟
وہ اسے میٹھے خاص جزبے لیے دھڑکنوں پر اسکے نام کا ورد کرتے محبت پاش نظروں سے دیکھنے میں اتنا گم تھا بلکہ گم سم تھا کہ فوری طور پر سمجھ نا پایا کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔۔۔
پھر وجہ پتا چل گئی اس نے اپنی کم عقلی پر خود کو سرزنش کی پھر اپنی گم سم سی دیوانگی پر مسکرا اٹھا تھا۔
کیونکہ وجہ تھی اسکے بالوں کی شریر سی لٹ جسے وہ بار بار مصروف سے انداز میں کان کے پیچھے اڑستی اسے اچھی خاصی تپ چڑھ گئی تھی کیونکہ وہ گستاخ لٹ ہر بار بلکہ بار بار جھومتی جھامتی آکر اسکا رخسار چومنے لگتی تھی ۔۔۔
ٹھیک اسی وقت وہ اپنے کسی خیال کے زیر اثر مسکرائی تھی مسکرانے کی وجہ سانولے رخسار پڑنے والا ڈمپل دیکھتے دور کھڑے بندے کی ٹھنڈی ہاہ نکلی اور ہاتھ بے اختیار اپنے دل پر گیا تھا اور منہ نکلی تھی ہائےےےےےے
لیکن ایک منٹ ایک منٹ یہ ہائے کسی ایسے ویسے جذبے کے زیر اثر نہیں بلکہ یہ ہائے تو کندھے پر پڑنے والے سٹک کی وجہ سے تھی اس نے مڑ کر دیکھا ربنواز خان اسے بڑی کینہ توڑ نگاہوں سے دیکھتے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کررہے تھے۔
وہ تلملاتے ہوئے پیچھے ہٹا ابا جی یہ کیا ہے
آواز میں خفگی تھی
میجر صاحب میں بھی یہی پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے بلکہ یہ کہا بیہودگی ہے؟
انہوں نے کچن کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا ۔
وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا
ابا جی آپ بھول رہے ہیں اندر کچن میں ناشتہ بناتی لکڑی میری گھر والی ہے جسے غالباَ آپ ہی کے سنگ جاکر اپنے نام کروا کر لایا ہوں۔۔۔
وہ تھوڑے دھیمے پڑے پھر متبسم لہجے میں بولے یار وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ایک اعلی آفسر ہو بھائی کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ۔
لے شرم حیا والی کون سی بات میری حق حلال کہ بیوی ہے بھئی وہ ابا جی کی بات کاٹ کر جلدی سے بولا تھا اسکا دل چاہ رہا
اس سے پہلے کہ ربنواز خان مزید کچھ کہتے اسکے فون پر کال آنے لگی ابا جی کو ایک منٹ رکنے کا کہہ کر کال اٹینڈ کرتا سائیڈ پر آگیا۔
جی جی میجر شاہنواز بات کر رہا ہوں.۔۔
لیکن آپ کون؟
سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں محترمہ
میں ثانیہ بھٹی بات کر رہی ہوں زلی کی کلاس فیلو اور فرینڈ
------------------------------
وہ کچن میں ناشتہ بنارہی تھی ساتھ ساتھ گزرے سات دنوں کے بارے سوچے بھی جارہی تھی۔
اللہ نے اس پر کتنا کرم کیا تھا اسے شاہنواز جیسا دل والا دلدار عطا کرکے اس ایک ہفتے میں شاہنواز خان نے اسے اتنی عزت دی تھی کہ اسکے دل سے کچھ عرصہ پہلے والے سارے ملال دھل گئے تھے ۔
ان سات دنوں میں میجر شاہنواز نے اسے اتنا اور اس حد تک چاہا تھا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ کیا ہی کسی نے کسی کو چاہا ہوگا ۔
شاہنواز کی بے لوث محبت اور بے بہا چاہت کی بارش میں وہ پوری بھیگ گئی تھی بلکہ اسکا پور پور بھیگ گیا تھا اسے لگتا تھا۔
اسے پرانی باتیں بھولنے لگی تھیں وہ نئے اسکے دل نے نئے سرے سے دھڑکنے پر شاہنواز خان کے نام پر تھرکنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اپنے دل کی اس بدلتی ہوئی حالت پر اسے خوشی بھری حیرانگی ہوئی پھر اسے ایسا لگا کوئی بڑی شدتوں سے بڑی محبتوں سے بڑی فرصت سے اسے دیکھے جارہا ہے۔۔
لیکن اگلے پل اس نے خود کو جھٹلا کر یہ سب دل کی بدلی ہوئی حالت کا شاخسانہ قرار دیا تھا
لیکن کسی اپنے کی بلکہ اپنے محرم کے دل میں اسکی زندگی بلکہ اسکی آنکھوں میں ہونے کا احساس ہی بڑا خوش کن ہوتا ہے اسی احساس کے شیر اثر ایک بڑی موہنی سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آئی تھی ۔
پھر اپنا سر جھٹک کر جلدی جلدی چائے کپوں میں ڈالنے لگی چائے ڈال کر پتیلی اس نے سنک میں رکھی اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی اوپر سلیپ پر پڑا کانچ گلاس گرا گلاس کو کیچ کرتے کرتے اسکے دونوں ہاتھ کچن سلیب سے ٹکرائے تھے اور فضاء میں اسکی گھٹی گھٹی سی چیخ بلند ہوئی کیونکہ اسکے دونوں ہاتھوں میں پہنی سہاگ رنگ کی چوڑیاں چھناکے سے ٹوٹی تھیں۔
وہ ساکت سی ٹوٹی چوڑیاں دیکھنے لگی اسکے آس پاس شاہنواز کی آواز گونجی تھی۔
ارے یار ویسے تو تمہاری منہ دکھائی کہ لیے ڈائمنڈ رنگ خریدی تھی وہ تمہاری طرف کے ڈرار میں پڑی ہے خود نکال کر پہن لینا میری طرف سے منہ دکھائی میں انہیں قبول کیجئے مسز شاہنواز خان
کہتے اس نے باری باری زلیخا کے ہاتھوں میں سرخ کانچ کی چوڑیاں بھر دیں تھیں
مسز شاہنواز خان تمہارے ہاتھوں کی یہ کھن مجھے اپنی زندگی کا پتا دے گی اور یاد رکھنا میرے جیتے جی تمہارے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ پھیکا نہیں پڑنا چاہئے اور نا ہی تمہاری کلائیاں خالی ہوں۔۔۔
زلی زلی بیٹا ناشتہ بن گیا کیا
ساس کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی تھی پھر جب اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو اسکا چہرہ خوف سے پیلا پڑنے لگا تھا کیوں کے اسکے حنا رنگ ہاتھ خون سے سرخ ہو رہے تھے
----------------------