سب ینگ پارٹی بارات دیکھنے کے لیے چل گئے تھے رملہ دلہا دیکھ کر آگئی تھی اور اب اسکے پاس ہی بیٹھی اسکا ہاتھ دبائے جارہی تھی۔
یار بہت ہینڈسم ہے تمہارا میجر ہائے اور جو صاحب بہادر کے چہرے کی ظالم مسکراہٹ یقین کر زلی اگر میری جگہ کوئی اور ہوتی تو کب کا مر گئی ہوتی۔۔
رملہ نے باقاعدہ دل پرہاتھ رکھ کر اور آنکھ مار کر کہا تھا نتیجتاَ زلیخا اسے صرف گھور ہی سکی۔
ارے یار میں بھی اس لیے بچ گئی کہ وہ تمہارے میجر رملہ نے پھر سے آنکھ مار کر تمہارے میجر کہا تھا۔
شیر علی جی سے تھوڑے کم ہینڈسم ہیں۔۔
اس بات پر زلیخا بے اختیار ہنس دی تھی ۔
پھر اسکی ساس ایک نوکرانی کے ساتھ اندر داخل ہوئی جس نے سر پر اٹھایا جستی صندوق نیچے زمین پر رکھا اور نیگ لے کر باہر چلی گئی ۔
زلیخا کی ساس نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوما پھر رملہ کی مدد سے صندوق کھول کر شگن کا جوڑا نکالا اور پھیلا کر دیکھانے لگیں اور آس پاس بیٹھیں بزرگ خاتون سے بولیں
ماسی بے بے تائی جی آجاؤ تے ویکھ لو کڑی دا شگناں والا جورا ۔
ڈوپٹہ ابھی انکے ہاتھ میں تھا کہ بلکل اچانک ہی باہر دیوار سے کای نچے کا اڑتا ہوا پٹاخا آیا اور ڈوپٹے کے بیچو بیچ گرا تھا
اسے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا پٹاخا پھٹا اور دوپٹے میں سوراخ کرتا چلا گیا۔
بزرگ خواتین میں سے کچھ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کئی ایک نے سر پکڑ لیا تھا۔۔
------------------------------
بارات واپس پہنچ گئی تھی۔
دلہا اور دلہن اتر چکے تھے لیکن ابھی تک گیٹ سے باہر کھڑے تگئی۔
جہ کچھ ابتدائی رسمیں تھیں۔
انکے ہاں کی ایک بڑی اہم رسم تھی کپ دولہا ننگے سر نکاح میں نہیں بیٹھ سکتا تھا اسے نکاح میں لازماَ روائیتی نا سہی پر سر پر پگڑی ضرور باندھنی پڑتی تھی ساتھ مین کندھوں پر لال رنگ کا ڈوپٹہ ڈالا جاتا تھا جو ایک رات دلہن والوں کیطرف سے ہوتا تھا اور جسے مقامی لوگ شگن والی چنی کہتے تھے۔
پھر جب بارات لڑکے کے گھر پہنچتی تو اس کہ چنی یا پگڑی کا سر لڑکی کے سر پر ڈال دیا جاتا تھا پھر یونہی آگے پیچھے وپ لوگ گھر کے اندر قدم رکھتے تھے۔
اس سے لڑکے کو بتانا مقصود ہوتا کہ یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے اور تمہارے ہی توسط سے اس گھر میں داخل ہورہی ہے جبکہ لڑکی کو یہ بتانا مقصود ہوتا تھا کہ لڑکے کی پگ یعنی عزت ہمیشہ کے لیے اسکے سر ہے۔
شاہنواز کی چنی زلیخا کے سر پر ڈالی گئی پھر شاہنوازکو چلنے کا اشارہ کیا گیا جو مسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔
وہ مم اندر کو ملن رت لے دلفریب خیالوں سے سجائے نجانے کس ترنگ میں تھا کہ پیچھے چلتے خوشرنگ روشنی بھرے وجود کا ہر احساس خود پر حاوی کیے ہونے کے باوجود اسی کی کو فراموش کر بیٹھا اور آگے بڑھتا چلا گیا زلیخا جلدی جلدی اسکے قدموں پر چلنے کی کوشش لر رہی تھی پھر ٹھیک دہلیز پر قدم رکھتے شاہنواز کا سایہ اسکی اوڑھائی گئی شگن کی چادر اسکے سر سے پھسلتی چلی گئی
اب کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک پھیلیں تھیں اس سے پہلے کہ کوئی شاہنواز کو روکتا یا شگن کی چنی زلیخا کو بے آسرا کرتی رملہ ہوش میں آتے فوراً آگے بڑھی اور چنی کو سرکتے ہوئے زلیخا کے کندھے پر پکڑ لیا اور بڑی ترنگ سے بولی
شاہ بھائی اللہ کو مانیں پلیز ہماری زلی کو یہیں چھوڑے جارہے ہیں لگتا ہے آپکو ضرورت نہیں اسکی؟؟
کچھ لوگوں کو رملہ کی بات ایک آنکھ نا بھائی تھی لیکن اسے پروا نہیں تھی اس نے اپنے تحت شاہنواز کو احساس دلانے کے لیے ایسا کیا تھا۔
رملہ کی کہی گئی بات کافی سے زیادہ کاری گر ثابت ہوئی تھی کیونکہ شاہنواز چونک پلٹا تھا پھر اپنے نام نہاد رشتہ داروں کے اترے چہرے دیکھے سوائے اسکی اماں اور رملہ کے باقی سب کے چہروں کا تاثر عجیب سا تھا۔
بھئی آپ اگے بھاگے جارہیں ہیں اور آپکی دلہن بیچاری آپکے قدموں پرچلتے چلتے نڈھال ہوئی جارہی ہے۔
شاہنواز شرمندہ سا ہوکر واپس زلیخاکے پاس آیا او سوری سوری جی غلطی ہوگئی۔
لیکن بھاگنے کی کیا ضرورت تھی بندہ ناچیز بے دام غلام ہے ملکہ عالیہ نڈھال ہو گئیں اگر اجازت ہو تو بانہوں میں اٹھالوں
اس نے سوری رملہ سے کیا تھا اور ہلکا سا جھکتے نامحسوس سی سرگوشی زلیخا کے کانوں میں کی تھی ۔
زلیخا نے تو سنی تھی یا نہیں لیکن رملہ چوہدری نے ضرور آہں آہں سے گلہ کھنکارا تھا۔
بدلے میں شاہنواز نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ زلیخا کا حنائی ہاتھ اپنے ہاتھ میں بہت محبت اور مضبوطی کے ساتھ تھاما تھا ۔
زلیخا کے ہمقدم ہوکر گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا۔
------------------------------
مختلف سوچوں کے درمیان وہ گاڑی چلائے جا رہا تھا ۔
کبھی ایک نظر گھڑی پر تو دوسری شاہنواز پر بھی ڈال لیتا جس کے چہرے سے میٹھی سی مسکان جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
پھر جیسے ہی گاڑی گھر کے گیٹ پر رکی شاہنواز نے اسکی طرف دیکھا
کیا ہوا بھائی
اس نے نا میں سر ہلاتے بڑی گہری اور لچھ جتاتی نظروں سے شاہنواز کو دیکھا بدلے شاہنواز کے چہرے کی مسکراہٹ نے اسے نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا اس نے بے اختیار ہی اپنے دوست کی مسکراہٹ صدا قائم رہنے کی دعا کی تھی۔۔
یارا میری فلائیٹ کا ٹائم ہوگیا ہے میں لیٹ ہو جاؤں گا اس لیے مجھے اجازت دو ولیمے پر ملیں گے ۔
علی سبحان نے شاہنواز سے کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا اور شاہنوازسے مل کر باہر نکل آیا اسے تین گھنٹے بعد کی فلائیٹ سے انگلنیڈ جانا تھا۔
---------------------------
وہ کچن میں کام نبٹا رہی تھی جب بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی ۔
اف آج پھر سے ایک تو یہ بن بلائے مہمان بھی چین لینے نہیں دیتے کیا بگڑ آجاتا اگر آج کے دن رک جاتے تو۔؟
وہ جی بھر کر کوفت میں مبتلا ہوئی کیونکہ آج اسے شہر جانا تھا اسی لیے صبح قبرستان سے آکر جلدی جلدی سارے گھر کی صفائی کی تھی۔
اماں بابا کو چائے دیکر وہ ناشتہ بنانے کچن میں آئی ہی تھی کہ یہ بن بلائے مہمان آن وارد ہوئے۔۔۔
اب ان صاحبان نے چین سے کہاں بیٹھنا ہے کن من کرنے لگ جانا ا نکی بلا جانے کہ بعد میں سارا گھر سیلاب ذدہ علاقے کا منظر پیش کرنے لگے گا۔
پھر بیٹھے رہو چار دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نا گلی کا پانی سوکھے نا بندہ کہیں آئے جائے یعنی کہ حد ہوگئی ۔۔
جلدی جلدی ہاتھ چلانے کے ساتھ مسلسل بڑبڑائے جارہی تھی برآمدے میں بیٹھی مہربانو نے افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ آرام کرسی پر اخبار میں گم بیٹھے اپنے مجازی خدا کو دیکھا تھا جنہوں نے زرا کی زرا اخبار سے سر اٹھایا اور اپنی شریک حیات کو آنکھوں سے حوصلہ رکھنے کا اشارہ کیا جبھی وہ ہاتھ میں ٹرے لیے کچن سے نکلی تھی ۔۔
بابا آپکا پراٹھا نہیں بنایا کیونکہ اولیو آئل ختم ہے اور گھی سے آپکو فوراً کھانسی شروع ہوجاتی ہے اسی لیے آج دال کو تڑکا بھی نہیں لگایا بریانی رات کو ہی ختم ہوگئی تھی ۔
مگر جو چکن بچا تھا اسےرات کو میرینیٹ کردیا تھا اب اسکے پیسز سٹیم کر کے ساتھ لائی ہوں پلیز چپ چاپ کرکے کھالیجئے گا۔۔۔
ارے میری دھی تم صرف دال لے آتیں تو وہ بھی چپ کرکے ہی کھاتے میں اسی لیے آج یہاں بیٹھی ہوں زرا بڑے میاں آج زبان سے کسی چیز کا نام تو لیں ۔
کیوں ناشتے میں بھی اتنا تکلف کرتی ہو بچے اور کیا کم کام ہیں تمہاری جان کو ہیں خود کو بھی وقت دیا کرو بیٹا
مہربانو نے شوہر صاحب کو باتیں سناتے اسے بھی نصیحت کی تھی۔
خود کو وقت دینے کی بات پر وہ ایک پل کو ساکت سی ہوئی تھی خود وقت؟
ایک موقع دیا تو تھا اماں لیکن وقت نے ہی مجھے کوئی وقت نہیں دیا لگتا ہے یہ وقت بھی زمانے والوں جیسا ہے چڑھتے سورج کا پرستار یا پھر اسے بھی میرے سیاہ بخت ہونے کا یقین ہوگیا ہے میرے پاس میرے خود کے لیے آتا ہی نہیں
وہ سوچے جارہی تھی اور
ابا جی چپ چاپ بس آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر لیے اسی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہے تھے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو جانچ رہے تھے۔
کیا تھی وہ انکی؟
کچھ بھی نہیں جس کے توسط سے ادھر آئی تھی وہ تو مدتوں پہلے چھوڑ کر چلا گیا تھا پیچھا رہ گیا وہ عام سا دور پار کا تعلق جس کی ڈور تھامے یہ کم نصیب سانولی سی لڑکی ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کو پیچھلے دس سالوں سے سنبھالے ہوئے تھی۔۔
ارے اماں آپکی دوائیں بھی صرف آج کی ہیں آپ نے بتایا کیوں نہیں وہ تو رات میں دیکھ نا لیتی تو مجھے اندازہ ہی نا ہوتا اب یہ جو صاحبان گھیر گھر کر آگئے ہیں انکی گرج مرج سے مجھے نہیں لگتا آج آپکی دوائیں آپائیں گی۔
اب آپ کس سوچ میں پڑ گئے کھانا شروع کریں ٹھنڈا ہورہا ہے ۔
وہ خیالوں سے چانک کر ایک بار پھر سے شروع ہوچکی تھی مہربانو ایک چہرے پر ایک جاندار سی مسکراہٹ بکھر گئی وہ جانتی تھیں کہ یہ ساری کلفت کچھ دیر بعد ہونے والی بارش کی وجہ سے ہے ۔۔
ارے میرا بچہ یہ تو خدا کی رحمت ہے جب برستی ہے تو ہر طرف زندگی بخش دیتی ہے۔
پر بابا میرے لیے تو یہ جب بھی لائی دکھ ہی لائی زحمت ہی بنی
وہ خود سے کہتے واپس مڑ گئی۔
مہر بانو نے افسوس سے شوہر کو دیکھا جو انجانے میں کوئی نا کوئی ایسی بات ضرور کر جاتے تھے جو انکی بہو کے لیے دکھ کا باعث بنتی تھی۔
جبکہ انہوں نے شرمندگی سے سر کھانے کی ٹرے پر جھکا لیا تھا۔
-----------------------
احمد اٹھ جاو بچے لیٹ ہو جاؤ گے سکول سے اماں بابا کو ناشتہ کروانے کے بعد وہ دوسری بار احمد کے پاس آئی تھی ماما پلیز آج بارش ہے اور رات سے پیٹ میں اتنا درد ہے مجھے نہیں جانا
احمد صاحب جن کہ عمر تو محض آٹھ سال تھی لیکن چالاکیاں اور ڈرامہ بازی اس پر ختم تھیں
اللہ اللہ احمد کیوں تنگ کر رہے ہو جلدی اٹھ جاؤ میں ناشتہ لے کر آرہی ہوں آپ مجھے ان سے پہلے تیار ملو ورنہ بہت برا پیش آؤں گی۔
احمد کو وران کرتی وہ کچن کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اندر، کمرے میں بابا جان کا موبائل بجنے لگا وہ کمرے سے موبائل اٹھانے کے لیے جانے لگی جب بادلوں نے برسنا شروع کر دیا ۔
ہوجاؤ خوش بابا ہو جاؤ خوش میں نے کیا بگاڑ لینا تم لوگوں کا جو مزید خون جلاؤں یعنی کے حد ہوگئی بادلوں کو خفگی سے کہتے اس نے موبائل اٹھایا کوئی انجان نمبر تھا سو برآمدے میں آکر بابا کو دیا اور خود کچن میں چلی گئی۔