آج کتنے عرصے بعد انہیں اپنا آپ بلکل اکیلا محسوس ہوا تھا ۔۔۔
جبھی وہ سٹڈی میں چلے آئے تھے اور پرانی فوٹو البم نکال کر دیکھنے لگے۔
عمر رفتہ نے انہیں واقع اکیلا کر چھوڑا تھا ورنہ وہ خاندان کے کھاتے پیتے اور معزز ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
پھر جب زلیخا کے بابا بیمار ہوئے تو آہستہ آہستہ ان کا سب کچھ بکتا چلا گیا رشتہ داروں کی اصلیت کھلتی چلی گئی لیکن انہوں نے ہر حال میں شکر کرنا سیکھا تھا وہ ہر حال میں رب کی مرضی میں راضی ہوتے ہوئے شکر کرتے چلے گئے۔۔
وہ تب بھی راضی رہے جب انکی بوڑھی آنکھوں نے نوجوان بیٹے کو مرتا دیکھا انکے ناتواں کندھوں نے جوان بیٹے کا لاشہ اٹھایا
وہ تب بھی راضی رہے جب انکی بہوں کچھ ہی عرصے بعد اپنے مجازی خدا کے پیچھے چل دی اور ننھی زلیخا کی ذمہ داری ان پر آن پڑی تھی۔
وہ تب بھی خدا کہ رضا میں راضی رہے جب بینک نے انکے گھر کو نیلام کیا اور وہ چپ چاپ اپنے بیٹے کی نشانی زلیخا کو سینے سے لگائے یہاں اپنے آبائی گاؤں آگئے یہاں آکر انہوں نے اپنی نئی زندگی شروع کی لیکن آج ان سے شکر صبر نہیں ہوا تھا
آج انکا شکر گزار دل درد کی شدت سے پھٹا جارہا تھا۔
انکی معصوم بچی کیا عمر تھی اسکی محض اٹھارہ سال کیا بگاڑا تھا اس نے کسی کا اتنا بڑا داغ؟
اللہ انہوں نے شدت سے کراہتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ کو پکارا تھا ۔۔
میرے بعد کیا ہوگا زلی کا
آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ انہوں نے دوبارہ نیچے دیکھا پھر البم بند کرنا چاہتے تھے کہ انکی نظر ایک تصویر پر پڑی۔۔
(یہ میرا سب سے چھوٹا اور پیارا بھائی ہے دیکھیئے گا جب اسے پتا چلے گا تو یہ ماں بابا کا منا لے گا)
انکے کانوں میں اپنی بیوی کی آواز گونجی تھی۔
چالیس سال ہوگئےانہوں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر لو میرج کی تھی پھر بہت عرصہ اپنے والدین کو مناتے رہے تھے علی کریم کے گھر والے تو تھوڑے عرصے میں مان گئے تھے لیکن انکی بیوی آسیہ بیگم کے گھر والے بدنامی کے ڈر سے سب کچھ بیچ کر دیار غیر جابسے تھے۔۔۔
وقت گزرتا رہا آسیہ بیگم کے گھر والے کچھ راضی ہوئے ٹیلی فونک رابطے بحال ہوگئے لیکن نا یہ لوگ وہاں گئے نا ان میں سے کوئی آیا۔۔
آسیہ بیگم کی وفات کے وقت انکا بڑا بھائی کھڑے کھڑے آیا تھا پھر اسکے بعد کسی نے کوئی رابطہ نا رکھا ۔
علی کریم صاحب نے فوٹو البم میں ایک اور تصویر دیکھی جو ربنواز کی ہی تھی انہوں نے وہ نکالی پھر کچھ دیر غور سے اس نوجوان کی تصویر دیکھتے رہے جس نے ایک پیارے سے بچے کو اٹھا رکھا تھا ۔
یہ تصویر آسیہ بیگم کے انتقال سے کوئی ایک سال پہلے انہیں موصول ہوئی تھی۔۔
دیکھیں کریم صاحب ربنواز کا کہنا ہے میرا بیٹا آپکے گھر کا داماد بنے گا۔
شریر کہیں کا ہی ہی ہی آسیہ بیگم ہنسنے لگیں تھیں
ایک دکھی یاد نے انکے چہرے پر مسکراہٹ بکھرائی تھی۔
فوٹو البم میں ڈالنے لگے تھے جب انکے ہاتھ اسے چھوٹ کر نیچے گرپڑی وہ جھک کر اٹھانے لگے تھے جب فوٹو کے پیچھے لکھے فون نمبرز اور ای میل ایڈریس نے انہیں ٹھٹکا دیا تھا۔۔
ایک موہوم سی امید کے تحت انہوں نے پاس پڑا لیپ ٹاپ آن کیا اور میل لکھنے لگے۔
----------------------------
دو دن بعد میل کا جواب آگیا تھا علی کریم صاحب سے فون نمبر اور ایڈریس کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔
انہوں نے تھوڑا جھجک کر فون نمبر اور گھر کا ایڈریس دے دیا۔
ٹھیک ایک ہفتے بعد جب وہ فجر پڑھ کر بیٹھے تھے
زلیخا تھوڑی دیر پہلے انکے لیے چائے رکھ کر گئی تھی۔
جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔
اس وقت کون آگیا زلی بچے یہ چائے ٹھنڈی ہوگئی یار گرم کر دو زرا
اونچی آواز میں زلیخا سے کہتے دروازے تک آئے اور دروازہ کھولا
سامنے پچپن ساٹھ کے پیٹے کا خوش شکل سا آدمی کھڑا تھا اسکے ساتھ ہی ایک سوبر سی خاتون اور ایک تیس بتیس سال کا خوبرو نوجوان کھڑا تھا
اسلام وعلیکم کیا یہ علی کریم صاحب کا گھر ہے؟
وعلیکم سلام جی بلکل میں ہی ہوں علی کریم بتائیں کیا کام ہے آپکو
علی کریم صاحب نے بہت عاجزی سے جواب دیا۔
بھائی جان میں ربنواز ہوں یہ میری بیوی اور یہ میرا بیٹا ہے شاہنواز
اجنبی کا اتنا کہنا تھا کہ علی کریم صاحب پت کپکپی طاری ہوگئی انکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ربنواز صاحب آگے بڑھے اور اس ناتواں بوڑھے وجود کو اپنے مضبوط بازوؤں میں بھر لیا ۔
نہیں بھائی جان پلیز ایسے نہیں اب میں آیا ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا آپ پلیز صبر کریں وہ انہیں دلاسہ دیتے بازوؤں کے گھیرے میں اندر لے آئے تھے
اور علی کریم صاحب وہ انہیں کیا بتاتے کہ یہ آنسو خوشی کے ہیں اللہ پاک نے انہیں ناامید نہیں کیا تھا۔
یہ کپکپاہٹ اللہ کے خوف کی ہے انہوں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ اللہ انہیں تنہا چھوڑ دے گا۔
دادا میری بات سنیں میں اب کوئی نہیں گرم کر کے دینی بھائی یہ بھی کوئی بات
وہ کچن سے ہی بولتی آئی تھی اور یہاں دادا کے ساتھ اجنبی لوگوں کو دیکھ کر رل گئی پھر جلدی سے سلام کیا شاہنواز کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا تھا۔
پھر آگے کے معاملے بہت تیزی سے طے ہوئے چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا
زلیخا خوش نہیں تھی تو دکھی ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی اس کے پاس بس ایک ہلکی سی خلش تھی اپنی کم مائیگی کی اپنے کردار پر لگے داغ کی اس نے سوچ کیا تھا بلکہ خود سے عہد کیا تھا کہ زندگی میں جب کبھی وہ جادوگر اسے ملے گا اسکا گریبان پکڑ کر ضرور پوچھے گی کہ مرد ہوکر ایسی بزدلی کیوں کی؟
کیوں تم وہاں میری پاکدامنی کی گواہی دینے موجود نہیں تھے۔۔
---------------------------
شادی سے ایک رات پہلے داد اسکے پاس آئے تھے۔
زلیخا چپ تھی بلکل چپ اسے خوشی یا غمی کا کوئی احساس نہیں تھا اس نے خود کو وقت کے سپرد کر دیا تھا اس وقت بھی وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ۔
اسکی مہندی کا رنگ بہت گہرا آیا تھا لیکن مہندی لگاتے ہوئے اسکی ہتھیلی میں پن چبھ گئی تھی جسکی وجہ سے خون بہنے لگا تھا کئی بڑی بوڑھیوں نے ہاتھ سینے پر رکھ کر روہانسی آواز میں اسے دعا دی تھی
سدا سہاگن رہنے کی نجانے کیوں
وہ اسی بارے سوچ رہی تھی
زلی خان علی کریم صاحب نے اسے مخاطب کیا تھا
جی دادا.۔۔
زلیخا نے رخ پھیر کر انہیں دیکھا تھا۔
دادا کی جان کیوں اداس ہو بیٹا؟
شاہنواز بہت اچھا ہے پتری دیکھنا وہ میرے زلی بلوچ کو بہت خوش رکھے گا
علی کریم صاحب نے اسکا سر اپنے سینے کے ساتھ لگا کر تھپتھاپاتے ہوئے کہا تھا
میں تو آپکی وجہ سے اداس ہوں دادا آپ کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں میں زلیخا کی آواز بھرا گئی
تبھی اسکی ساس اندر آئی تھیں ڈونٹ وری بچے بھائی صاحب کو ہم اپنے ساتھ ہی لے کر جائیں گے انہوں نے وعدہ کیا ہے شادی کے بعد عمرہ کرکے سیدھا ہمارے پاس آئیں گے پھر وہیں رہیں گے۔
آپ ایسا کرو یہ پرسوں پہننے والا ڈریس چیک کر لو اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے تو میں صبح واپس لے جاؤں گی پھر پرسوں ہم لوگ سہی کروا کر اپنے ساتھ لے کر آئیں۔
زلیخا نے علی کریم صاحب کو دیکھا انہوں نے آنکھیں بند کرکے ہاں میں سر ہلایا تو وہ لہنگا پہن کر چیک کرنے کے لیے اٹھ گئی۔
-----------------------
کلیاں گزاراں کیویں راتاں کالیاں
گانے والی رملہ تھی
ڈنگدیاں مینوں رتاں پیار والیاں
تھی۔
نے زلیخا کو زوردار آنکھ ماری
زلیخا نے بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھا و
کوئی دیکھ لیتا تو فوراً اس رملہ چوہدری پر بے حیائی کا ٹھپا لگ جانا تھا۔
تیرے باجہوں جی نہیں لگدا میں تے مر گئی تھاں ں ں ں
اس بار رملہ نے اپنی ہتھیلی زلیخا کے سامنے لہرائی تھی جس پر بڑا سا شیر علی لکھا تھا۔
گھر آجا سوہنیااااااا
اس نے ہھتیلی چومی
وے توں گھر آجا سوہنیاااااا
آج زلیخا کی بارات تھی۔
موسم جھوم کر آیا تھا چہار طرف بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔
ایسے لگتا تھا اس دہلیز، پر زلیخا علی کریم کو اپنا کر لیجانے آنیوالا بہاروں کا پیام لے کر آرہا ہے ۔
ایسے میں لڑکیاں بالیاں ملن رت کے برسات راتوں کی روشن ساعتوں کے گیت گارہی تھیں اور رملہ بے سری سب سے آگے تھی کئی خواتین کے منہ کے زاویے بگڑے ہوئے تھے ۔
پر وہاں پروا کسے تھی رملہ چوہدری شمع محفل بنی اونچی اونچی بانگیں دینے میں مگن سی تھی۔
ہان دیاں اب کڑیاں مینوں طعنے دیندیاں
ہاسے ہاسے دے وچ مینوں کملی کہندیاں
ہووووووووو
اس ہووو پر کچھ نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسیں تھیں زلیخا کی ہنسی نکل گئی
تیرے باجہوں جی نی لگدا میں تے مر گئی تھاں ں ں
اس بار گانے والی لہرا کر ایک طرف کو گری تھی۔
نی پرے مر جا کے مرجانی نا ہوؤے تے
مسلیاً دا پیپاں پتا نئی کتھوں آگیا اے
اسکی بدقسمتی کہ ایک بڑی بی پر جا گری صلواتوں کے ساتھ دھموکا بھی کھا بیٹھی۔
ایک پل کو برا سا منہ بنایا پھر لہرا کر اٹھ کھڑی ہوئی
گھر آجا سوہنیااس وے توں گھر آجا سوہنیا
پھر اچانک دور سے ڈھول تاشوں کی آواز بلند ہوئی بارات آگئی بارات آگئی کا شور بلند ہونے لگا۔
انکے ہاں رواج تھا کہ دلہن دلہے اور بارات کے استقبال گانا گا کر کرتی ہے۔
آس پڑوس کی عورتوں نے اور کچھ برادری والیوں نے اسکی ایک نا چلنے دی اس نے حیرانی سے دادا کی طرف دیکھا خلاف معمول وہ ان سب چیزوں سے چڑھتے تھے لیکن آج وہ بھی مسکرا کر بارات کا استقبال کرنے کے لیے باہر نکل گئے تھے ۔۔۔
زلیخا سوچ میں تھی کہ کون سا گانا گائے
تبھی ایک دو بارش کے قطرے صحن میں گرے پھر بارات کے استقبال کے لیے پھولوں کی پلیٹ تھامے کوئی بچی تیزی سے باہر کی طرف بھاگی تھی جس نے اپنی عمر سے زیادہ بڑا نیٹ کا ڈوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جب وہ زلیخا کے پاس سے گزری تو اسکا ڈوپٹہ ہوا سے اڑا تھا او زلیخا کے چہرے پر سایہ سا بناتا گزرا تھا ۔
بھاگنے کی وجہ سے پیپر پلیٹ میں موجود پھولوں کی چند پتیاں نیٹ کے ڈوپٹے کے اوپر سے زلیخا پر برسی تھیں
وہ ساکت سی ہوگئی تھی
اسکی آنکھوں کے سامنے تقریباً سال پہلے یونی کا پہلا دن گزر گیا تھا
اسکے خیالوں میں سر میسی کی شکل ابھری تھی سر میسی کاسب سے نظر بچا کر خود کو بڑی فرصت سے گھورنا بھی اسے یاد آگیا تھا جو وہ کافی عرصے سے بھولی ہوئی تھی۔
اسے رملہ نے جھنجھوڑا چلو بھئی سنا بھی دو لتا منگیشکر کی کاربن کاپی صاحبہ
زلیخا نے اپنے بے وقت کے خیالوں اور فضول سوچوں کو جھٹک کر گانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب بانسری کی سریلی سی لہہ اسکے کانوں میں پڑی
بادل برف تتلیاں خوشبو اور ایسی ہی کوئی آواز وہ نجانے کیا گانا چاہتی تھی جب اس نے تان اٹھائی تو لفظ خود بخود ادا ہوئے تھے
پپلاں دی چھاں وےےے ہائے
کدی بہہ جاں وےےےے ہائے
جند تیرے ناں لاواں
فیر پاویں مر جاواں ڈھولااا