شاہ بھائی
معافی
شاہو یار معافی
اسے شاہنواز کے ساتھ گزرا وقت اسکی باتیں ایک ایک کرکے یاد آرہی تھیں اور وہ مسلسل روئے جارہا تھا جسکی وجہ سے. آواز کافی بھاری ہوگئی تھی ایسا لگتا تھا اسکے ندامت بھرے آنسؤ سیلاب لا کر رہیں گے ۔۔۔
اتنا رونے کے بوجود بھی دل تھا کہ شاہنواز کی ہر بات پر ہر یاد پر پہلے سے زیادہ تڑپتا پہلے سے زیادہ دکھتا اور علی سبحان کی رگوں میں درد بڑھ جاتا تھا۔
کمرے کے دروازے پر کھٹکا ہوا تھا پھر کوئی تھکے تھکے سے قدموں، سے اندر داخل ہوا تھا علی سبحان ہر چیز سے بے نیاز اپنی کم عقلی میں کی گئی غلطیوں کی ندامت میں ڈوبا رو رہا تھا۔۔
میں غلط شاہو
میں جھوٹا شاہو
میں گندہ شاہو
معافی میرے ویر
وہ زارو زار. خود کوغلط کہتا شاہنواز سے مخاطب تھا جب اس کو جھکے کندھوں سے کسی نے تھاما تھا۔
--------------------------
زلیخا کی حالت بہت سے زیادہ بہتر ہوگئی تھی وجہ ربنواز صاحب کی تسلیاں اور دلاسے تھے جو وہ رات بھر اسکے سرہانے بیٹھ کر دیتے رہے تھے ۔
جب تک زلیخا سو نہیں گئی وہ اسے سمجھاتے رہے کہ جو کچھ بھی ہوا ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ یہی طے تھا اس لیے خود کو شاہنواز کو یا علی سبحان جو الزام دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔
انہوں نے زلیخا سے یہ بھی کہا تھا کہ علی سبحان ہر بات سے لاعلم ہے وہ تو شاید تمہیں، پہچانا بھی نا ہو اس لیے اسکو کسی بھی طرح سے قصوروار نہیں سمجھا جاسکتا
اور سچ بھی یہی تھا انہیں اتنے عرصے میں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ علی سبحان زلیخا اور اسکے وجود سے قطعی لاعلم ہے اگر اسے کچھ پتا ہوتا یا اسکے دل میں چور ہوتا تو وہ کبھی بھی ربنواز صاحب کہ کہنے پر نا آتا ۔۔
انکا دل یہ ماننے سے انکاری تھا کہ علی سبحان خان
شاہو کا میسی بلوچ
اپنے شاہ بھائی کو اپنے شاہو کو دکھ دے سکتا ہے یا اسکی اذیت کا باعث بن سکتا ہے
ربنواز صاحب کمرے میں آئے تو احمد اپنی دادی کی گود ۔میں سو رہا تھا جبکہ وہ خود خلاؤں میں گھورنے لگی ہوئی تھیں انہیں دیکھ کر چونکی آنکھوں میں شکوہ سا تھا لیکن پھر ان دیکھے سے آنسو پونچھتے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
میں آج زلی کے پاس سو جاتی ہوں آپ احمد کا خیال رکھئیے گا ۔
وہ دروازہ تک پہنچ چکی تھیں جب ربنواز صاحب کی بھاری سی آواز نے انکے قدم برف ہوئے تھے۔
شاہو کہتا تھا بابا میری اماں دنیا کی سب سے اچھی اور ہمت والی اماں ہیں جیسے ایک فوجی کی ماں کو ہونا چاہئے آپکو انکی ہمت کی داد دینی چاہیے یارا
ایک درد کا بھالہ تھا جو شاہنواز کی اماں کے کلیجے میں اترا تھا ۔۔۔
لیکن حقیقت کا بے اعتباری کا مان ٹوٹنے کا زخم زیادہ گہرا تھا جبھی انہوں نے روتے ہوئے دل کے باوجود جانے کے لیے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
میں نہیں چاہتا تھا اکلوتا بیٹا کھو کر غلط فہمی کے ہاتھوں بیٹیوں جیسی بہو کو بھی کھو دیں
وہ دروازہ کھول چکی تھیں ۔۔
اگر تم بیٹے کی محبت میں زلی کو گنہگار سمجھ لیتیں تو احمد خان کا کیا ہوتا؟؟
انہوں نے بغیر کسی تاثر کے دل میں اٹھتے درد کو چھپائے قدم باہر نکالا تھا جب انکے قدم ڈگمگائے تھے
تمہارے دکھوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا یار
شاہو کہتا تھا میری اماں کو تنگ نا کیا کریں
انکے ہونٹوں سے ایک
آہ
نکلی اور لرزتے قدموں سے وہ وہیں چوکھٹ میں بیٹھتی چلی گئیں تھیں
ربنواز صاحب تڑپ کر انکے پاس آئے تھے اور ساتھ بیٹھتے انہیں اپنے ساتھ لگا لیا تھا جو بے آواز رو رہی تھیں
تم تکلیف میں ہوتی ہو تو میرا شاہو خوش نہیں ہوتا جب وہ خوش نہیں ہوتا تو میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں
ربنواز صاحب نے انکے گرد بازوں، لپٹا کر صفائی دینا چاہی تھی اور انہوں نے روتے ہوئے انکے سینے میں سر چھپا لیا تھا
جو بھی تھا اس عمر میں بھی انکا مضبوط ترین سہارا سائبان ربنواز صاحب ہی تھے ۔
ایک عورت کے لیے باپ کے بعد شوہر ہی ہوتا ہے جو خود گرمی سردی سہہ کر محنت مزدوری کرکے انہیں شہزادی بنا کر رکھتا ہے اسے دل سے لگا کر رکھتا ہے اپنی جان سے بڑھ کر اسکی حفاظت کرتا ہے
پھر وہ کیسے نا مانتیں ربنواز صاحب صرف انکے سائبان ہی نہیں انکی محبت بھی تھے
یہ بھی سچ ہے کہ عورت کو زندگی میں جو چیز سب سے مہنگی پتی ہے وہ محبت ہے اور جس چیز کے نام پر سب سے سستی بکتی ہے وہ بھی یہی کمبخت محبت ہے
انہوں نے بھی کوئی گلہ کوئی شکوہ نہیں کیا بس سر کو ربنواز صاحب کے سینے میں چھپائے بے آواز روتی رہیں تھیں
ربنواز صاحب انکا سر سہلاتے رہے اور ایک ایک کرکے ماضی کی ساری باتیں بتاتے چلے گئے تھے۔
آخر میں ربنواز صاحب نے التجائیہ لہجے میں ان سے کہا تھا۔
بیگم صاحبہ شاہو زلی کو بہت چاہتا تھا اس نے اپنے دل سے زیادہ زلیخا کی خوشی کو مقدم جانا تھا اور یہی وہ غلطی کرگیا تھا
(پتا نہیں کیوں نفرت میں تو ہوتا ہی ہے لیکن ہم شدید محبت میں بھی ہمیشہ اپنے دل کی سنتے ہیں صرف اسی کی تسکین چاہتے ہیں
دل نے کہا دیکھنا ہے
تو جی بھر کر فرصت سے دیکھ کیا
دل نے کہا چاہنا ہے
تو ہر حد تک جا کر چاہ لیا
دل نے کہا اسکی خوشی کے لیے نا دیکھو
تو آنکھین پھوڑ لیں
دل نے کہا اسکی خوشی کے لیے چھوڑ دو
تو ایک لمحہ لگایا اور خود کو بنجر دل کو بے آباد کر لیا
کاش ہم چاہت کے جنون میں محبوب کو خوش رکھنے کی لگن میں اپنے دل کی بجائے اسکے دل کی سنیں
بھئی یہ بھی تو ہوسکتا ہے نا کہ ٹھیک اس وقت جب ہم اپنے دل کی مان کر انہیں دیکھنا چھوڑیں
انکے دل کو انہیں ہماری آنکھوں کا دیکھنا اچھا لگنے لگا ہو؟؟
پھر جب پا لینے کے بعد کسی عام سے احساس کے تحت ہم اپنے دل کی مانتے انہیں خوش رکھنے کے لیے خود کو بے آباد کرنے کی سوچتے ہیں
کاش ایک پل کو یہ بھی سوچ لین کہ کیا خبر ہماری چند دنوں کی قربت محبت چاہت انکے وجود میں صدیوں کے لیے ڈیرے ڈال چکی ہوں اور ہم اپنے ساتھ ساتھ انہیں بھی صحرا میں دھکیلنے کا ارادہ کیے ہوئے ہوں؟ )
زلی کو خوشیاں دینا ہمارا فرض ہے اور یہی شاہو کی خواہش بھی تھی وعدہ کریں آپ اس خواہش کی تکمیل میں میرا ساتھ دیں گی
انہوں نے سر اٹھا کر اپنے مجازی خدا کو دیکھا تھا
علی سبحان کو میں نے بلوایا تھا میرا ارادہ تھا کہ زلی کی کسی اچھی جگہ شادی کرکے ہم دونوں علی کے ساتھ رہیں گے ۔۔۔
لیکن اب مجھے لگتا ہے علی میرے بلانے پر نہیں بلکہ قدرت کے طے کیے گئے ارادے پر آیا ہے ۔
مجھے لگتا ہے زلی کی خوشیاں کسی اچھی جگہ نہیں بلکہ علی سبحان خان سے جڑی ہیں۔۔
لیکن لوگ کہا کہیں گے؟
اور زلی یا علی؟
انہوں نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا
ہمیں اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے لوگوں کی رائے کی ضرورت نہیں جو مرضی کہیں
علی خان سے میں بات کروں گا امید ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اور زلیخا بڑی پیاری بیٹی ہے وہ اپنے اماں بابا کے فیصلے کے خلاف کبھی نہیں جائے گی ربنواز صاحب نے بات مکمل کی تھی جب دور کہیں آذان کی صدا گونجی تو وہ دونوں چونکے تھے
رب کی رحمت کا بلاوا تھا اسکی نعمتوں کا اشارہ تھا
وہ جو دکھوں والی اندھیری رات تھی اسکے کٹنے کا وقت ہوا چاہتا تھا اور ربنواز صاحب کو یقین تھا کہ آنیوالا نیا دن بہت خوبصورت ہونے والا ہے انکے لیے علی سبحان کے لیے اور سب سے بڑھ کر انکے زلی خان کے لیے
--------------------------
وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو ربنواز صاحب واک پر جانے کے لیے تیار تھے انہیں دیکھ کر مسکرا دیے
کیوں ہنس رہے ہیں؟
بس یار وہ ایک اپنے زمانے کا شعر یاد آرہا ہے ربنواز صاحب پر دن کے اجالے نے نیک دل فیصلے نے اور ہمسفر کی رضامندی نے کافی مثبت اثر کیا تھا جبھی رات والے غمگین ماحول کا شائبہ تک نہیں تھا۔
اب اس عمر میں کون سا شعر یاد آگیا خان صاحب؟
جس طرح ایک غیرت مند اور محبت کرنے والے محبوب شوہر کا فرض ہوتا اپنی بیوی کی ہر جائز خواہش کو بوقت ضرورت پورا کرے خود موسموں کی شدید سرد گرم سہہ کر بھی گھروالی کو اپنے وجود کی سکھ بھری چھاؤں اور محبت کہ گرمی مہیہ کرے
ٹھیک اسی طرح ایک اچھی پیار کرنے والی محبوب بیوی کا فرض ہوتا ہے اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھنا اسکے مطابق ڈھلنا اسکی خوشی میں اپنے بے ضرر غموں کو پس پشت ڈال کر خوش ہونا
وہ بھی گزری باتوں پرمٹی ڈال کر رب کے حضور پیش ہوکر کافی ہلکی پھلکی ہوگئی تھیں جبھی جائے نماز لپیٹتے انکے پاس آگئیں ۔۔
ساری رات کہ جاگی آنکھیں
کالج میں کیا پڑھتی ہوںگی
ربنواز صاحب کا لہک کر شعر پڑھنا تھا تو دوسری جانب بیگم صاحبہ کا منہ کھل گیا تھا
اللہ اللہ یہ مزاج کہ تیزی
خان صاحب خدا کا خوف کریں یہ عمر اللہ اللہ کرنے کی ہے نا کے ایسے سستے شعر پڑھنے کی وہ تو اچھی خاصی تپ گئیں تھیں
ہاہاہاہاہ ربنواز صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا
کہاں لکھا ہے اللہ اللہ کرنے والی عمر میں بیوی سے پیار بھری باتیں نہیں کی جاسکتیں؟
وہ اٹھ کر باہر جانے لگیں تاکہ زلیخا کا پتا کر سکیں۔
اور عمر کو کیا ہوا ہے بھلا؟
ابھی تو آتش جوان ہے
اچھا بھلا ہینڈسم ہوں ویسے بھی دل جوان ہونا چاہئے بیگم صاحبہ
وہ دروازے تک جاتے جاتے پلٹی اور ایک کہر آلود نظروں سے انہیں دیکھا تھا
آتش صاحب آسمانوں کہ سیر سے واپس آتے ہوئے دھی لے کر آئیے گا بچے نے رات بھی کھانا نہیں کھایا لسی بنا دوں گی اسے
اور ربنواز صاھب کہ منہ سے اتنی بے تکی بات پر
لاحولا ولا نکلا تھا
بس بیگم صاحبہ ثابت ہوا بیویاں ہر دور میں شوہروں کے معصوم جذبوں کاقتل کرتی آئی ہیں
کبھی سبزی انڈے دودھ
تو کبھی دھی پیمپر اور ڈائپر کے لیے
ہاہاہایاہاہا جہاں بات کے آخر تک وہ خودہنسے وہیں وہ بھی ہنستی باہر نکل گئیں
یہ شاہنواز کے جانے کے بعد پہلی صبح تھی جب صبح کا آغاز ربنواز صاحب کے چٹکلوں اور انکی بیگم کہ دبی دبی ہنسی سے ہوا تھا ورنہ یہ سب احمد خان کے اٹھنے کے بعد ہوتا تھا۔
----------------------------
وہ رات بھر دوائیوں کے زیر اثر سکون سے سوئی تھی اب بھی اسکی آنکھ آذان کی آواز سے کھلی تھی چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی روم میں، اکیلی تھی مطلب احمد اماں بابا کے پاس تھا اور شاید اماں اسکے پاس رکی ہوں رات بھر اور اب نماز پڑھنے گئی ہوں
اپنے سوالوں کا خود ہی جواب دیتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی وضو کیا اور نماز پڑھ کر باہر نکل آئی اسکا رخ اماں بابا کے روم کی طرف تھا
لیکن روم تک جاتے اسکے پیر ٹھٹکے تھے کسی کی سسکیوں کی آواز نے اسکو منجمد کردیا تھا ایک زمانہ ہوا تھا احمد کے وجود نے اس گھر سے سسکیوں اور آہوں کی نحوست کو دور کردیا تھا پہلے تو وہ اور اماں کبھی کبھی شاہنوازکو یاد کرتے رو بھی لیا کرتے تھے لیکن احمد کے بڑے ہونے پر انہیں سمجھ آگئی تھی کہ رب کے دیے پر ہی خوش اور شکر گزار رہنا چاہئے جبھی تو وہ اور نوازتا ہے
سسکیوں کہ آواز مدھم سی تھی لیکن انکا جذب انکی شدت زلیخا کو خود بخود کھینچتی چلی جارہی تھیں
چلتے چلتے وہ علی سبحان کے کمرے تک آئی دل کی حالت بدلی تھی عجیب سی نفرت محسوس ہوئی تھی اسے جب ربنواز صاحب کی آواز اسکے کانوں مین گونجی
زلی پتر وہ بے قصور ہے اسے کچھ نہیں پتا ہم کسی بے گناہ کو بے حسی اور اپنے برے برتاؤ نفرت بھرے رویے سے سزا نہیں دے سکتے ویسے بھی جو ہم نہیں جانتے وہ اللہ جانتا ہے ۔
اس نے سکون سے کھڑے ہوکر خود کو اطمینان دلایا کے علی کو کچھ نہیں پتا لیکن پھر وہ رو کیوں رہا ہے
خود کو کمپوز کرتی وہ پلٹ گئی تاکہ بابا یا اماںکو بھیج سکے لیکن جیسے ہی وہ انکے کمرے تک پہنچی
اسے لگا مدتوں سے روٹھی باہر انکے آنگن میں اتر آئی ہے بابا ایک عرصے بعد مسکرا رہے تھے اسکے اندر بے پناہ سکون سا اترا خود کو پرسکون پاتے وہ کسی کا دکھ بھول ہی گئی تھی۔
ٹھیک اسی وقت اماں کمرے سے نکلی تھیں
زلی میری جان کیا ہوا
اماں نے تشویش سے پوچھا بابا بھی فوراً باہر آگئے تھے
زلی خان کیا ہوا پتر
پہلے اماں اور اب بابا کے لہجے پر زلیخا کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں کچھ نہیں بابا وہ میں احمد
آنسوؤں کو پیچھے دھکیلتے وہ بامشکل کہہ پائی
بابا اسکی بات پر مسکراتے اسے اندر جانے کا کہہ کر خود باہر کی طرف چل دیے جب کہ اماں نے اسے کمرے میں بیٹھنے کا کہا تھا تاکہ وہ اسکے لیے کچھ کھانے کو لے آئیں
پھر جب اماں اسکے لیے کھانے کو ساگودنے کی کھیر بنا کر لائیں
وہ احمد کے ساتھ پھر سے پرسکون ہوکر سو چکی تھی۔
----------------------------
وہ باہر جاتے جاتے چونک کر رکے تھے علی سبحان کے کمرے سے رونے کی آوازین آرہی تھیں
وہ کچھ دیر سنتے رہے پھر آرام سے دروازہ کھولتے اندر کہ طرف بڑھ گئے
وہ جائے نماز پر جھکاروئے جارہا تھا
انکے دل کو کچھ ہوا انہیں اپنے اس پیارے بھتجے پر ترس آیا تھا
کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر آہستہ سے اگے بڑھے اور اسکے جھکے کندھے پر ہاتھ رکھا
علی سبحان کا لرزتے جسم ساکت سا ہوا تھا پھر کچھ پل بعد اس نے سر اٹھا کر دیکھا. اور تڑپ کر بولا
تای
تایا با با
انہیں اس وقت وہ چونتیس پینیس سال کا جوان چھوٹا سا بچہ لگا تھا
تایا بابا
میں نے کچھ بھی نہیں کیا شاہو کو دھوکا نہیں دیا شاہو چلا گیا اسے کون بتائے میں ڈاکو نہیں ہوں؟
وہ تو میرا شاہو بھائی ہے نا
میں نے کچھ نہیں کہا تایابابا
ربنواز صاحب کو لگا انہیں کسی کندھ چھری نے کاٹ دیا ہوا
پھر گنگ زبان کے ساتھ بولے تھے
نانا علی خان
نا میرے پتر
مجھے پتا ہے تو محافظ ہے تو رہزن نہیں
یہ بات شاہو بھی جانتا تھا
ربنواز صاحب کے کہنے پر اس نے اچانک سے در اُٹھایا کر ربنواز صاحب کی طرف دیکھا
انہوں نے اسے آنکھوں میں بھرے نرم تاثر کے ساتھ دیکھتے سر ہلایا
علی خان شاہو جانتا تھا تھا تو محافظ ہے جبھی تو تمہیں اپنی من چاہی چیزوں کی حفاظت پر معمور کر کے گیا میرے بچے
علی انہیں حیرت سے دیکھ رہا تھا پھر بولا تو بس اتنا
آپ سے کہا تھا شاہو نے ؟
ربنواز صاحب نے دکھتے دل کے ساتھ سر ہاں میں ہلایا تھا۔
کیا کہا تھا شاہو نے؟
شاہو نے کہا تھا بابا اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میرا میسی آپ لوگوں، کا خیال رکھے گا
اور زلی کا
علی پتا نہیں کس ترنگ میں بولا تھا۔
یا شاید دل میں کہیں دور چھپی محبت کا عنصر تھا۔
زلی کا بھی
اس نے ہم سب کا کہا تھا پتر ربنواز صاحب کو جھوٹ بولتے تکلیف تو ہوئی تھی لیکن وہ علی سبحان کو اسکے گلٹ سے نکالنا چاہتے تھے
انکا خیال تھا اتنے سالوں بعد کم از کم علی کی زلیخا کہ زندگی کچھ بہتر ہوجائے
وہ سوچتے تھے اگر شاہ نواز کو غلط فہمی ہوئی بھی تھی تو وہ ان دونوں کی خوشیاں ہی تو چاہتا تھا
اور اب اگر ان کو خوشیاں پہنچانے کے لیے میں جھوٹ بول بھی لوں تو میرا شاہ جوان اللہ سائیں کے پاس بیٹھا خوش ہورہا ہوگا
انکے چہرے پر کرب بھری مسکان آئی تھی پھر علی سبحان سے بولے
اب تیرا تایابابا. بوڑھا ہوگیا ہے علی خان
شاہو نے جو ذمہ داری تجھے سونپی تھی اب اسے پورا کردے میرے بچے؟
علی سبحان نے اچھنبے سے انکی طرف دیکھا تھا۔
شاہو کی من چاہی چیزوں کا محافظ بن جا علی
زلیخا سے شادی کر لے
علی سبحان کو ایک جھٹکا لگا تھا
جب کہ باہر ربنواز صاحب کو چائے کے لیے بلانے آئی زلیخا نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔