بابا علی سبحان ہی وہ انسان ہیں جنکی وجہ سے شاہنواز مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔
اس وقت علی نے موقع کی مناسبت سے ہسپتال میں خود کو بڑی مشکل سے کمپوز کیا تھا اور زلیخا کو ڈسچارج کروا کر گھر لے آیا تھا۔۔
لیکن اب شام سے آدھی رات ہونے کو آئی تھی وہ کمرے میں اندھیرا کیے لیٹا تھا کھانے کا شام میں ہی اس نے ربنواز صاحب کو منع کردیا تھا جبھی کسی نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا
اور اب آدھی رات کے وقت زلیخا کے لفظوں کی بازگشت اسے عجیب سے احساس جرم میں مبتلا کیے ہوئے تھی اسے خود سے گھن آرہی تھی۔
وہ جو اس کے دل میں اپنی زندگی کو لے کر خوش کن مر چکے جزبے انگڑائی لے کر بے دار ہونے لگے تھے اب اسے منہ چڑھاتے ہوئے حقیقت کا آئینہ دکھا رہے تھے جس میں اسے اپنا آپ بہت بھیانک نظر آتا تھا۔۔
او میرے خدا. !!!!
وہ میری ساری بے وقوفی بھری باتیں جو میں خود سے ہی شاہو کو کہتا تھا
زلیخا بچاری تو جانتی تک نہیں میں کسی وقت میں اسے چاہتا تھا میری سوچ مجھ تک محدود تھی یا شاہو جانتا تھا۔
لیکن ایک غلطی ہوئی مجھ سے میں نے شاہو کو یہ کبھی نہیں کہا کہ میری سوچ یک طرفہ ہے؟؟
شاہنواز کے ساتھ ہوا مکالمہ اسکے کانوں مین گونجنے لگا تھا ۔
شاہو ویرے
مجھے پکا یقین ہے کہ سانولی سلونی سی حسینہ بھی تیرے بھائی پے مرمٹی ہے
ہاں تو میرے میسی بلوچ میں کس چیز کی کمی ہے بھلا
مرنا تو تھا ہی ویچاری نے
شاہنواز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
لیکن یار اک مسئلہ ہے۔
اظہار تو دور کی بات وہ نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔
بس جب میرے آس پاس ہو تو سر جھکائے نیما نیما ہنستی رہتی ہے
ہاہاہاہا علی خان
مجھے لگتا ہے کچھ دن تک تم نے لاعلاج ہوجانا ہے
علی سبحان نے گھور کر اسے دیکھا تھا تو شاہنواز فوراً سے سنبھل کر بولا
او یار سیدھی سی بات ہے اسکی حیا اسکی اچھی تربیت اسے اظہار کرنے سے بے حیاؤں کی طرح نظریں ملانے سے روکے ہوئے ہوگی اور کیا
یہ چیز
یہی تو اسکا ڈھکا چھپا سا انداز ہے جس نے پوری یونی کو چھوڑ کر اس سانولی کا دیوانہ کیا
ورنہ تو کئی حسین ترین چہرے روز تیرے بھائی کی راہوں میں کھڑے ہوتے ہیں
علی سبحان کو اپنے بارے کچھ زیادہ ہی خوش فہمیاں تھیں
بس بس میرا ہاضمہ خراب ہوجانا ہے اور یہاں وزیرستان میں کوئی اچھا گیسٹرو بھی نہیں، ملنا ہاہاہاہاہاہاہا حسین ترین چہرے؟
بیٹا مجھے آنے دے زرا اپنی یونی دیکھوں گا کتنے حسین چہرے تیری راہ میں ٹکیں رہیں گے
فون کی دوسری جانب سے شاہنواز کی زندگی سے بھرپور مسکراتی آواز نے پہلے تو اسے تپ چڑھائی تھی لیکن بات کے اختتام تک وہ خود بھی ہنستے ہوئے گویا ہوا۔
شاہو خان
یار بھائی بن قصائی نا بن خبردار جو یونی آنے کا نام بھی لیا تو ایک تو اٹھائیس سالوں میں پہلی بار کوئی دل کو بھایا ہے جب تک میں اسے نا بھاء جاؤں ؟
میرے آس پاس بھی نا بھٹکنا
کمینے باقی چیزیں تو بعد کی ہیں تیری مسکراہٹ کے ساتھ یہ جو بلیوں جیسے ڈیلے مسکراتے ہیں نا
یہی آدھی یونی قتل کردیں گے۔
باقی آدھی تیری مونچھوں کی کمان اور ابرو کے ہلکے سے اشارے پر مر جانی اور میں؟
میں اب اسے دیکھنے کے بعد مزید کنوارہ نہیں رہ سکتا!!!
معاف کرو میجر صاحب کوئی ہور جگہ ویکھو سانوں معاف کرو
یہ سچ تھا علی سبحان بے شک جتنا بھی اچھی پرسنیلٹی کا مالک تھا لیکن جہاں میجر شاہنواز خان بلوچ کی انٹری ہو جاتی وہاں میسی بلوچ صاحب پانی بھرتے نظر آتے نظر آتے تھے۔۔
چل اوکے پھر تصویر سینڈ کرنا اپنی سانولی حسینہ کی ہم بھی تو دیکھیں کون ہے جس نے ہمارا میسی بلوچ کملا کردیا ہے
ہممم سہی
لیکن وہ سب تو میں شاہو کے سامنے بھرم دکھانے کو کہتا تھا
(( اسے شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے مزہب میں شیخی دکھانے اور جھوٹ بولنے کی ممانعت بلکل سہی کی گئی ہے))
تصویر؟؟
کن تصویروں کا ذکر کر رہی تھی زلیخا؟
تصویروں کے خیال نے اسے حال میں لایا تھا۔
اسکا ذہن ایک بار پھر سے ماضی میں دوڑنے لگا تھا
تو ایک دم سے اسکی نظروں کےعکس منے زلیخا کے ساتھ پہلی ملاقات کا سین گھوم گیا تھا۔
اسے وہم سا ہوا تھا کہ اس دن کافی سٹودنٹس نے انکی پکس لیں تھی ۔
ویسے بھی سٹوڈنٹس کے تصویر بنا لینے کا اسکا وہم ہی تھا کیوں کہ اس بارے کوئی ثبوت نہیں ملا تھا
اور بعد میں علی سبحان کا لہجہ بے لچک رہا تھا
وہ زلیخا کو نظر بھر کر دیکھتا تھا لیکن نظریں بچا کر دیکھتا تھا
پھر کیسے اور کس نے
یہ سوچ بار بار اس پر حملہ آور ہورہی تھی پھر اچانک اسکے ذہن مین جھماکا سا ہوا تھا
او میرے خدا تو کہیں زلیخا کی اس سینیئر نے تو ایسا نہیں کیا تھا؟؟
---------------------
اسے یونی جوائن کیے دو ہفتے ہی ہوئے تھے اور اسے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ بچپن سے لے کر اب تک کی روٹین کے حساب سے آس پاس کے آدھے سے زیادہ لوگ اسکی پرسنیلٹی سے مرعوب ہوئے تھے اس میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسکے شکل مشہور انگلش فٹبالر میسی سے ملتی تھی ۔
بس فرق یہ تھا کہ میسی کی آنکھین براؤن تھی اور علی سبحان خان کی آنکھوں میں مشرق اپنی آب و تاب سے جھلکتا تھا ۔۔
علی سبحان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سیاہ تھا اور آنکھوں کی پتلیاں جس طرف بھی نظر بھر کر دیکھتیں وہیں عجیب سی روشنیاں لٹاتی پھرتی تھیں
جیسے جیسے دور دیس کے کسی گھنے جنگل پر سیاہ آسمان کے درمیان چمکتے چاند کا عکس جو سحر سا کردیتا ہے
یا جیسے کسی کالی اندھیری غار میں پرنور روشنی کی جگمگاتی درزیں جو اندر تک اتر جاتی ہیں۔
ایک دن جب وہ سیکینڈ ائیر کی کلاس کے بعد اپنے آفس میں آیا تو بہت پیارے سے پھولوں کا بکے اسکا منتظر تھا ۔۔
خوش آمدید
کوئی تہہ دل سے آپکو اپنے دل میں خوش آمدید کہتا ہے ۔
بکے کے ساتھ لگے کارڈ کی تحریر نے اسے الجھایا تھا لیکن پھر اگنور کرکے اپنی سیٹ پر آ بیٹھا یہ عام سی بات تھی لیکن کارڈ کی تحریر اسے تھوری آکورڈ لگی تھی۔
پھر اسکے بعد تو جیسے معمول بن گیا اکثر اسکے آفس میں اور گھر میں پھول آنے لگے جنکے کارڈ پر پہلے دن والی تحریر لکھی ہوتی تھی ۔۔
وہ اگنور کرتا تھا لیکن اندر سے الجھتا جارہا تھا کیونکہ اس وقت تک زلیخا اسکی آنکھوں کے راستے دل میں اتر چکی تھی کچھ دن پہلے اسنے اپنے آفس کی ونڈو سے ایک سریلی سی روح کو گرماتی آواز سنی تھی اور اسکا وجدان کہتا تھا کہ یہ جادوئی آواز کی مالک بھی زلیخا ہی ہے ۔۔
لیکن مسئلہ پھول بھیجنے والی کا تھا وہ اسے مسئلہ ہرگز نا گردانتا اور مزید اگنور کردیتا اگر ایک دن اسکے سیل پر آنے والا ٹیکسٹ اسے چونکا نا دیتا تو
""صاحب ہمیں تو یہ زعم تھا کہ جو ہمیں ایک بار دیکھ لے ہمارا ہوجائے لیکن آپکی تو نظر کرم نے اب تک پہچانا ہی نہیں
نجانے اس گہرے رنگ کے چہرے میں ایسے کیا لعل جڑے ہیں جہاں سے آپکی نظر پلٹتی ہی نہیں
کسی کام کی نہیں وہ کالی بلا جو آہستہ آہستہ آپکے حواسوں پے چھانے لگی ہے۔""
علی سبحان چونکنے کے ساتھ ساتھ اچھا بھلا ٹھٹھک گیا تھا
آخر کون ہے وہ جو اتنا سب کچھ جانتا ہے حالانکہ کے اس نے اپنے دل کی خبر خود سے چھپا رکھی تھی
یہ سوچتے اسنے میسج کا ریپلائے کیا اور اس انجان انسان کو ملنے کا کہا
وہ جو سوچ رہا تھا کہ آگے سے ٹال مٹول کی جائے گی لیکن جواب اسکی توقع کے برعکس آیا تھا کیونکہ اسکے میسج کے رئیپلائے میں یک لفظی وقت اور جگہ کا بتایا گیا تھا۔
وہ ٹھیک وقت پر طے کی ہوئی جگہ پر پہنچا تھا اور وہاں موجود ہستی کو دیکھ کر اسے اچھی بھلی تپ چڑھی تھی
یہ سیکنڈ ائیر کی ثانیہ تھی جو کلاس میں اسےالٹی سیدھی باتیں کرکے کافی ٹف ٹائم دیا کرتی تھی اسکے ذہن میں ثانیہ وہ آخری لڑکی بھی نہیں تھی جس سے وہ یہ سب ایکسیپٹ کرتا ۔
جی تو مسٹر علی سبحان خان کیسا گا آپکو سرپرائز؟؟
یقیناً بہت خوبصورت اور بہت جان لیوا نہیں؟
ثانیہ نے ایک ادا سے آنکھ مارنے کے بعد سر جھٹکتے ہوئے کہا تھا وہ اسوقت ریڈ جرسی کی میکسی میں ملبوس تھی جو اسکے جسم کے خدوخال بہت سے زیادہ واضح کررہی تھی
میک ذدہ خوبصورت چہرے کی بدصورتی دیکھ کر علی سبحان کو اس سے کراہت سی آئی تھی۔
پروفیسر علی سبحان یا سر علی سبحان کہیں محترمہ یہ مت بھولیں کہ میں آپکا ٹیچر ہوں
وہ جو کچھ سخت بولنا چاہتا تھا بامشکل خود کو کنٹرول کر کے بولا تھا۔
ہائےئے یہ ادائے دلربانہ یہ انداز شریفانہ یہ لہجہ مہذبانا
پروفیسر صاحب یہی تو انفرادیت ہے آپکی ورنہ کیا رکھا ہے انکی کالی پھیکی آنکھوں میں
اور اس یورپی ایشیائی وجاہت میں؟ ثانیہ اسکے ہاتھ کو ٹچ کرتے ہوئے کہا تھا
ثانیہ اسکے اندازے سے زیادہ چیپ واقع ہوئی تھی جسکا اظہار وہ فوراً کرگیا تھا۔
محترمہ میں تو آپکو بگڑی ہوئی بچی سمجھا تھا مگر آپ تو انتہا سے زیادہ گری ہوئی بھی ہیں ثانیہ کے چہرے کا رنگ ایک دم بدلہ تھا جسے اس نے فوراً سے کمپوز کیا اور مسکراتے ہوئے بولی تھی
چلیں صاحب ایسا ہے تو ایسا سہی اپنےمن کی مراد پانے کے لیے اتنا تو برداشت کیا جاسکتا ہے۔
مس ثانیہ اب ایک اور لفظ مت کہیے گا اور سیدھے سادے مدعے پر آئیں پیچھلے دو ہفتوں سے کیا کھیل شروع کیا ہوا ہے آپ نے اور کیوں اور جو بھی بات کرنی ہے تمیز کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کریں؟؟
علی سبحان کا لہجہ سرد برف جیسا تھا جبھی ثانیہ تھوڑا سنبھل کر بولی تھی
اصل مدعہ یہ ہے کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں مجھے لگتا ہے میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں میرا دل آپکی ہمراہی کے خیال سجانے لگا ہے میری آنکھیں آپکے خواب دیکھنے لگی ہیں اور ایک بار پھر سے ثانیہ نے اسکا ہاتھ چھوا تھا
ثانیہ نے تمیز تمیز میں بھی اچھی خاصی بدتمیزی کردی تھی
غصے کہ شدت سے علی سبحان کے بدن میں چنگاریاں دوڑنے لگیں ۔۔
اچھا اور جو فزکس ڈئپارٹمنٹ کے پروفیسر حسان قاضی کے ساتھ آپکو محبت تھی وہ کیا ہوئی؟
علی سبحان نے یونہی سٹاف میں اڑتی پھرتی خبر سنی تھی کہ فزکس کے حسان قاضی کا انگلش ڈیپارٹمنٹ کہ ثانیہ کے ساتھ افئیر چل رہا ہے
تب تو اسے یقین نہیں آیا تھا لیکن اس وقت اس نے ہوا میں تیر چھوڑا تھا
ثانیہ نے آنکھیں چندھیا کر اسے دیکھا پھرایک قہقہہ لگا کر بولی
ارے صاحب میری نہیں انکی محبت تھی میرے نزدیک تو وہ سب جسٹ ٹائم پاس تھا۔
علی سبحان کو عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی وہ سمجھا تھا ابھی ثانیہ اس بات کو جھٹلا دے گی لیکن اس نے تو بڑی دیدہ دلیری سے سب مان لیا تھا بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے اس تعلق کو ٹائم پاس قرار دیا تھا۔
دیکھیں مس ثانیہ میرے پاس ان فضول گویوں اور ان چیپ باتوں کا بلکل ٹائم نہیں ہے آپکی پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں آ ئندہ کے بعد ایسا کچھ ہوا تو آپکو کلاس سے ایکسپل کروں گا ۔
کیا کمی ہے مجھ میں؟
ثانیہ نے ضبط سے کہا
کمی نہیں آپکے اندر ہر چیز کی زیادتی ہے اور میں ٹہرا مشرقی بندہ مجھے اتنی زیادہ چیزوں کی عادت نہیں ہے۔۔
لیکن؟؟
ثانیہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب علی سبحان نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے منع کردیا؟
پلیز مس ثانیہ کم از کم ایک عورت ہونے کے ناطے اپنی کچھ عزت رہنے دیں میری نظروں میں مزید نا گریں ؟
اور ایک بات مرد ایشائی ہو یا یورپی سب کی ایک بات مشترق ہوتی ہے پتا ہے کیا؟
ثانیہ نے آگ برساتی آنکھوں سے دیکھنے پر اکتفا کیا تھا۔
وہ یہ کہ مرد چاہے کسی بھی خطے کا ہو پکے پھل کی طرح گود میں آگرنے والی عورت کو اپنا آپ تو دیتا ہے مگر دل نہیں دیتا عزت نہیں دیتا
ایسی عورتیں صبح و شام کے ہیر پھیر کی طرح مرد کے دل پر چھڑتی اترتی رہتی ہیں جنہیں خود اپنے عورت ہونے کا احساس تک نا ہو؟
بھگو کر طمانچے مارتا علی سبحان جانے کے لیے پلٹا تھا جب ثانیہ نے بل کھائی ہوئی ناگن کیطرح اسے پیچھے سے للکارا ۔
میں بھی دیکھوں گی وہ بدصورت کالی بلا کب تک پارساء رہتی ہے اسی پارسائی نے دیوانہ کیا نا تمہیں اسکا؟
یہی پارسائی کا ڈراما اسکا جرم نا بنایا تو ثانیہ نام نہیں میرا
ثانیہ کے لہجے پر علی سبحان کو جھرجھری سی آئی تھی لیکن وہ اس وقت کوئی کمزوری نہیں دیکھا سکتا تھا جبھی پلٹے بغیر بولا
تم کس کا ذکر کر رہی ہوں اور کیوں میں نہیں جانتا اور تمہاری کسی بھی نیچ سوچ یا گھٹیا کام کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔
میں کس کا ذکر کر رہی ہوں یہ تم اچھی طرح جانتے ہو ۔
مجھے کچھ بھی نہیں کرنا بس صرف تمہارا ذکر کرنا ہے کیونکہ تمہارا ذکر ہی اسکی پارسائی کا ڈراما چاک کرے گا
علی سبحان نے دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے ایک شانِ بے نیازی سے کندھے تھے
ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار خود ہے اس لیے آئی ڈونٹ کئیر
وہاں سے آنے کے بعد کچھ دن سکون رہا تھا پھر اسکا کلاس ٹور ناردن ایریاز جانے کا پروگرام بنا تو وہ ٹال گیا اور دوستوں کے ساتھ بابوسر ٹاپ کی طرف شکار کے لیے نکل گیا تھا ۔
کیونکہ ٹور پر ثانیہ اور زلیخا بھی جارہیں تھیں اور وہ کم از کم زلیخا کے حوالے سے کوئی بھی ایشو افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔۔
---------------------
تو مطلب اس معصوم کو میرے ذکر نے برباد کیا لیکن میں تو نہیں جانتا تھا نا پھر اتنے سال میں کیوں بے آباد رہا؟؟
اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر
آذانوں کی آواز نے اسے ماضی سے نکالا تھا
منہ پر ہاتھ پھیر کر اس نے آذان کا جواب دیا تو کیا میں ساری رات جاگتا رہا ہوں
اور وہ ثانیہ نامی لڑکی نے اپنا کہا پورا کردیا؟
لیکن میں توکسی کو بھی بتائے بغیر بیچ سے چلا گیا تھا نا؟
پھر کیوں زلیخا سے اسکی کیا دشمنی تھی ؟
یہ وہ سوال تھے جنکا جاننا اب کوئی خاص ضروری نہیں تھا لیکن وہ پریشان تھا نادم تھا اپنے پیارے بھائی اور دوست کے ایک غلط فہمی کو لے کر دنیا سے جانے پر اسکا دل دکھی تھا۔
اس نے اٹھ کر وضو کیا نماز پڑھی دعا مانگتے ہوئے اسے پتا نہیں کیا ہوا کہ آنکھوں سے ایک آوارہ سا آنسو نکلا تھا اور ہونٹوں سے آپ ہی آپ نکلا تھا
زلی
زلیخا علی کریم
پھر اس پر ادراک ہوا کہ وہ آٹھ سالوں میں شاہنواز کے غم کو جس ایک نام سے ذائل کرتا آیا ہے وہ یہی تو اسم دل تھا جسکی گردان وہ ہر دکھ میں کرتا تھا جسکو پانے کے لیے اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے کئی بار مناجات کریں تھیں ۔
ان مناجات کی یاد آتے ہی اسکے رونے ۔میں تیزی آتی گئی کیونکہ اس نے بڑے جذب سے بڑی شدت سے کبھی زلیخا کو مانگا تھا؟
کب؟
جب وہ بستر پر پڑا تھا معذور تھا اور اسے اپنے کسی ریفرنس سے پتا چلا تھا کہ زلیخا علی کریم نامی سٹوڈنٹ کی شادی ہوگئی ہے
تب اسے کسی نے کہا تھا بیماروں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں بشرطِ کہ سچے دل سے مانگی جائیں
اس نے دعا میں زلی کو مانگا تھا اور کسی کے لیے بدعا بھی مانگی تھی لیکن کس کے لئے؟
زلیخا علی کریم کے شوہر کے لیے کہ وہ مر جائے یا زلیخا کو چھوڑ دے
اسکی دعا تو نہیں لیکن بدعائیں دونوں قبول ہوئی تھیں کیونکہ زلیخا کے شوہر نے اسے چھوڑا بھی تھا اور مر بھی گیا تھا
اور زلیخا کا شوہر کون تھا
ایک درد سا اٹھا تھا علی سبحان کے کلیجے ۔میں
اسکا اپنا شاہو
میرا شاہ خان
کپکپاتے لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کرنکلا تھا
شاہو
اتنے سالوں کا گلٹ آج واضح ہوا تھا
بدعا تو کسی کے لیے بھی نہیں کرنی چاہئے اور وہ بدبخت اپنے شاہو کے لیے کرتا رہا تھا بار بار کرتا رہا تھا۔۔
پھر ایک چیخ دبی دبی سی دھاڑ کی صورت اسکے منہ سے نکلی تھی
شاہو
معافی
بھائی معافی
شاہو خان
معافی
-------------------