اپنی بانہوں کا سائباں کیے شخص نے زرا کی زرا گردن جھکا کر ترچھی نظر سے دیکھا سے تھا اور وقت
وقت تو جیسے تھم سا گیا تھا۔۔
اسکے ذہن میں گجرے پہنی کلائیوں سے جھانکتی سانولی سی صورت کلک ہوئی تھی ایک پل لگا تھا اسے زلیخا علی کریم کو پہچانے میں اگلے ہی لمحے وقت کئی سال پیچھے چلا گیا تھا۔
علی سبحان کے آس پاس یونی کی وہ سہانی سی صبح روشن ہوگئی تھی جس میں وہ تھا زلیخا تھی بارش تھی اور پھول تھے وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں چلا گیا تھا اسکے دل کو یقین سا ہوا تھا جیسے اسکی برسوں کی تلاش ختم ہوگئی
جیسے اسکے تڑپتے دل کو سکون سا ملا ہو جیسے زندگی کے تپتے صحرا میں بھٹکتے جسم کو جھلستی آنکھوں کو سیراب ہونے کے لیے ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ نظر آیا ہو
وہ آنکھوں کے راستے اس پیاری سی صورت کو تکتے خود کو اپنے دل کو اپنے وجود کو سیراب کرنے لگا اسکے ہونٹ بڑی جان لیوا سی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے ۔۔
اسکے تڑپتے دل کو ابھی ٹھیک طرھ سے قرار بھی نہیں ملا تھا جب ایک ڈری سہمی سی کپکپاتی آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی
کک کک
کون ہیں آپ
اور آپ یہاں گھر کے اندر کیسے آئے
اس سہمی سی آواز نے اسے حقیقت کی دنیا میں لاکر پٹخا تھا اسے فوراً سے اپنے ادھورے پن کا احساس ہوا تھا۔
وہ آج بھی ویسا ہی تھا چھا جانے والا قید کر لینے والا جیت لینے والا گردش دوراں نے اسکی وجاہت میں اضافہ کیا تھا بڑھی داڑھی اور مونچھیں اسکے چہرے پرسجتی تھیں کچھ ایسے کہ اس نے دیار غیر میں اپنے لیے کئی دبی دبی سرگوشیاں سنی تھی
(He is looking like Greek God (Zeus)
The god of sky)
زیوس وہ جو یونانی دیوتا تھا وہ جو آسمان سے اترا تھا اور جو آسمان پے رہتا تھا۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود وہ ادھورا تھا
کیونکہ وہ ہر کسی کو بیٹھا یا ایل جگہ کھڑا ہی دیوتا لگتا تھا جیسے ہی وہ اٹھ کر کھڑا ہوتا یا چلتا ان سب سراہتی نگاہوں میں ترحم جگہ لے لیتا تھا
اپنے ادھورے پن کا احساس نے اسکے وجود کو کند چھری سے کاٹا تھا وہ ایک دم سے لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا ۔۔
اسکے ہٹتے ہی زلیخا جھٹکے سے اٹھی اور بھاگتے قدموں سے اندر کی طرف بڑھ گئی یہ دیکھے بغیر کہ کسی کی پیاسی بے تاب نظریں اسکے قدموں سے لپٹ کر رہ گئیں تھیں۔۔
زلیخا کا علی سبحان سے دور جاتا ہر قدم اسکی مصنوعی ٹانگ میں درد کی شدتوں کو بڑھاتا جاتا تھا۔
زلیخا موڑ مڑ کر اندر جاچکی تھی ۔
اور علی سبحان کو لگا تھا جیسے ٹانگ کا درد دل سے ہوتا پورے وجود میں پھیل گیا ہو
اس سے کھڑے رہنا محال ہوگیا تو وہیں بیٹھتا چلا گیا کچھ دیر پہلے جن پھولوں نے آس پاس کی زمین کو جامنی بنفشی رنگوں سے ڈھک رکھا تھا وہی زمیں علی سبحان کو انگاروں سی دھکتی محسوس ہوئی تھی ۔
اپنی پوری زندگی میں اس نے پہلی بار اللہ سے التجائیہ شکوہ اس وقت کیا تھا جب وہ شاہنواز کی شہادت کی خبر پاکر بھی کچھ نہین کرسکا تھا سوائے رونے تڑپنے کے اور اسکا آخری دیدار کرنے سے محروم رہا تھا۔
آج اسکی نظر دوسری بار آسمان کیطرف اٹھی تھی آج التجاء کی شکوے کی شدت پہلے سے کچھ زیادہ تھی بلکہ بہت زیادہ تھی ۔
کیونکہ پہلی بار کی محرومی تو اسکا دل اسکا جسم سہہ گیا تھا لیکن اب کی بار اسکا دل کہتا تھا یہ محرومی نا تو وہ سہہ پائے گا اور نا ہی اس محرومی کو سہنا اسکے جسم کے اسکی روح کے بس کی بات ہے۔
-------------------------
وہ بے تحاشہ ڈرتے اور رک رک کر دھڑکتے دل کے ساتھ سیدھی اپنے کمرے میں آئی تھی زہن اور دل میں ایک ہی بازگشت گھوم رہی تھی
کون ہے وہ کہاں سے آیا گھر کے اندر کیسے آیا
مجھے بابا کو بتانا چاہئے ؟
ایسا سوچتے اسکا ذہن پھر سے باہر ہوئے حادثے کی طرف چلا گیا تھا بڑھی داڑھی مونچھیں وہ چہرہ جانا پہچانا سا تھا وہ گردن کو زرا کہ زرا دیکھنے کا انداز کسی کا تھا کس کا؟
یہ اسکا ذہن یاد نہیں کر پا رہا تھا اسکے ہونٹوں پر وہ مدھم سی مسکراہٹ بھلا کس کی تھی ایسی مسکراہٹ؟
اور وہ سرخ دہکتی آنکھیں پھر ان آنکھوں کی چمک وہ چمک کچھ شناسائی کے رنگ لیے ہوئے تھی ۔۔
کون تھا وہ ؟
زلیخا زلیخا بچے اس سے پہلے کہ اسکا ذہن جان پاتا یا شناسائی کی مدھم سی رمک کو مجسم حقیقت میں ڈھالتا ربنواز صاحب کی آواز نے اسے متوجہ کیا تھا ۔
جی جی بابا
اسکے جواب دینے تک وہ اندر آچکے تھے
بیٹا تمہاری اماں نظر نہیں آرہیں اور احمد خان زلی او زلی خان کیا ہوا ہے پتر
وہ اسکا ہوائیاں اڑاتا چہرہ دیکھ چکے تھے جبھی فوراً سے پریشان ہوکر اسے ساتھ لگاتے بولے تھے
بابا وہ
وہ گھر میں کوئی ہے بابا میں نے ابھی دیکھا پیچھلے صحن میں؟
وہ گھبرائی ہوئی تو پہلے تھی ربنواز صاحب کے محبت بھرے انداز پر اسکے آنسو نکل آئے؟
گھر کوئی ہے ؟
بچے میں تو صبح سے برآمدے میں بیٹھا ہوں کوئی آیا ہی نہیں سوائے
او اچھا اچھا ہاہاہا انکی سمجھ میں آگیا تھا کہ زلیخا نے علی سبحان کو دیکھا ہوگا اسی لیے مسکراتے ہوئے بولے
زلی پتر علی بیٹا آیا ہے انگلینڈ سے تھوڑی دیر پہلے ہی پہنچا ہے اسی لیے تمہاری اماں کا پوچھ رہا ہوں بچہ لمبے سفر سے آیا ہے بھوکا ہو گا ۔
زلیخا علی نام کا ذکر بہت بار سے زیادہ اس گھر میں سن چکی تھی لیکن باہر ہوئے ٹکراؤ پر اسکے ذہن میں ایک دھندلی سی شبیہہ گھڑی تھی لیکن پھر سر جھٹک کر بولی
بابا اماں تو نسیمہ آنٹی کی طرف گئیں ہیں احمد بھی انکے ساتھ ہے اب موسم کو دیکھتے تو لگ رہا ہے بارش تھوڑی تھمے گی تو آئیں گی
کھانا تو تقریباً تیار ہے ابھی لگوا دوں؟
او جیو میرے شیر بچے بس ابھی چل کر لگوا دو میں دیکھتا ہوں علی نے چینج کرلیا تو بلاتا ہوں.۔
ربنواز صاحب بہت خوش تھے جبھی پیار سے اسکا سر تھپتھپاتے باہر نکل گئے تھے
انکے جاتے ہی زلیخا نے ساری سوچیں ذہن سے جھٹکیں اور کمرے سے باہر چلی گئی اتنے سالوں میں اسکا کوئی پہلا سسرالی رشتے دار آیا تھا اور اسکی کاطر تواضع بھی تو کرنی تھی
--------------------------
اس نے گھر میں آئے لوگوں کے لیے بریانی بنائی تھی اب موسم خراب ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی سرو نہیں کی تھی اسکا خیال یہی تھا بارش رکنے کے بعد ملازمہ کے ہاتھ سب کے گھروں میں کھانا بھجوا دے گی
وہ جلدی سے کچن میں آئی رشیدہ نے بریانی کو ابھی تک دم پے ہی رکھا ہوا تھا ۔
فریزر میں جھانکا رات والا بھنڈی گوشت بچا ہوا تھا وہ نکال کر گرم ہونے کے لیے رکھ دیا اور رشیدہ کو شامی کباب تلنے کا کہہ کر خود سلاد بنانے لگی جب تک اس نے سلاد بنائی رشیدہ شامی کباب اور سالن برتنوں میں نکال کر ٹیبل پر رکھ آئی تھی ۔
اسکے ہاتھ سلاد بھیج کر خود بریانی ٹرے میں نکالی دوسرے چولہے پر توا گرم ہونے کے لیے رکھ دیا باہر جاتے وہ رشیدہ کو جلدی جلدی پھلکے بنانے کا کہہ گئی تھی ۔
ٹیبل پر کھانا لگ چکا تو اس نے سیڑھیوں سے تھوڑا اوپر ہو کر ربنواز صاحب کو آواز دی اور خود کچن میں کچھ میٹھا بنانے چلی گئی
زلی بچے علی کو پنجیری بہت پسند ہے وہ بھی بنوا لینا چائے کے ساتھ
جی بابا بنوا لیتی ہوں
وہ جو جلدی جلدی بننے والے میٹھے کہ بارے میں سوچ رہی تھی پنجیری کا سن کر خوش گئی کیونکہ پنجیری احمد کی بھی پسندیدہ تھی اور زلیخا نے رات ہی اسکے لیے بنا ئی تھی سو وہی نکال کر گرم ہونے رکھ دی
جب ایک بار پھر سے ربنواز صاحب کی آواز آئی زلی بچے آجاؤ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔
زلیخا ایک دم چونک سی گئی وہ کبھی کسی میل مہمان کے سامنے نہیں گئی تھی اسے اندازہ نہیں تھا یا شاید اس نے سوچا نہیں تھا کہ بابا اسے مہمان کے سامنے بلائیں گے
لیکن یہ بات تو اسکی سمجھ میں اچھی طرح آچکی تھی کہ علی شاہنواز کا تایازاد ہے کوئی غیر نہیں اور اسی گھر میں پلا بڑھا ہے سو اسے بغیر کسی حیل و حجت کے جانا پڑے گا ۔
لیکن ان سرخ اندر تک اترتیں جانی پہچانی سی آنکھوں کا سامنا کرنے کا سوچتے ہی اسے وحشت سی ہونے لگی
زلی خان
ربنواز صاحب نے پھر سے آواز دی
جی بابا آئی
اس نے جلدی اے پنجیری برتن میں نکالی رشیدہ کو چائے کا بول کر باہر نکل گئی
آو آو زلی اور ان سے ملو
علی یہ ہے تمہاری بھابھی اور ہماری بیٹی زلیخا شاہنواز خان بلوچ
علی نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک تیز رفتار ٹرین گزری تھی اسکے جسم کے پر خچے اڑے تھے دماغ بھک کر کے اڑا تھا آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو ہوئی تھیں۔۔
ربنواز صاحب اسکی طرف متوجہ نہیں تھے جبھی زلیخا سے بولے
اور زلی پتر یہ ہے شاہو کا یار اسکا بھائی اور ہمارا دوسرا بیٹا علی سبحان خان
زلیخا کے ہاتھ کپکپائے تھے دیسی گھی کی بنی پنجیری جسکو گرم کرنے کی وجہ سے گھی پگھل گیا تھا چھلک کر اسکے ہاتھوں پر گرا تھا
سسسس اور اسکے منہ سے سسکاری نکلی تھی لیکن یہ سسکاری یہ تکلیف ہاتھ جلنے کی نہیں تھی یہ تو وہ درد تھا جو ایک دم سے لہر کی صورت اسکے دل میں اٹھا تھا
اسکا ذہن جس شبیہہ کو گھڑتا تھا جسے وہ پہچان کر بھی جھٹلا رہی تھی اس ایک نام سے سارے پردے چاک ہوگئے تھے اور اسکی آنکھوں کے سامنے شاہنواز کے ساتھ گزری وہ آخری رات آگئی تھی
جب وہ فرشتوں جیسا بندہ سا روتے ہوئے تڑپتے ہوئے کہتا جاتا تھا
((مجھے اکثر انجانے میں بڑی گہری چوٹیں لگ جایا کرتی ہیں ))
آج آٹھ سال بعد زلیخا کو اس چوٹ کا پتا چلا تھا اور اسے اس پیارے سے بندے کے درد کا احساس اپنے دل کی رگوں کو ادھیڑتا محسوس ہوا تھا
((قسمت نے بڑا کاری وار کیا ہے زلی وقت نے مجھے سب کچھ دے کر واپس مانگ لیا اور مجھے واپس دینا پڑے گا۔۔))
اسے چکر سا آیا تھا نظر پھٹ سی گئی تھی وہ روتا کرلاتا اونچا لمبا سا جوان آنکھوں کے سامنے ہی تو تھا اسکے اپنے آنسؤ بے اختیار نکلے تھے اور لب پھڑپھڑائے تھے
دا دا
با با
درد کی شدت سے وہ چیخ پڑی
با با
ربنواز صاحب اسکی طرف متوجہ ہوئے پھر اسے یوں روتا دیکھ کر تڑپ کر اسکی طرف بڑھے تھے
َزلی خان کیا ہوا ہے پتر
او میرا بچہ کیا ہوا بابا کی جان
زلی کے ذہن میں پھر سے ایک روتے ہوئے شخص کی التجاء گونجی تھی
(( نانانا زلی خان ابھی دور نا جاؤ نا یار
پھر پتا نہیں موقع ملے نا ملے.
میں ان لمحوں میں جینا تھا ہوں
مجھے کچھ اور جینا ہے ابھی مجھے کچھ اور جینے دو زلی ابھی مجھے کچھ اور جینے دو))
پنجیری کا دونگا ہاتھ سے گر گیا تھا وہ تیورا کر گری تھی اور ہونٹوں نے کئی بار دھرایا تھا ۔۔
علی سبحان بھی اچانک سے ہوش میں آکر اسکی طرف بھاگا تھا۔
جس کے ہونٹوں پر ایک ہی گردان تھی
نیں شاہ نیں ایسے نہیں شاہ
نیں شاہ ایسے نہیں