شاہنواز کو بہت کوشش کے بعد بھی کل رات کی ٹکٹ ملی تھی گزری رات اس گھر کے مکینوں پربہت بھاری تھی ۔
زلیخا بظاہر علی اور اسکی فیملی سے نہیں ملی تھی پھر بھی گھر والوں کی پریشانی میں وہ سب کی ہر ممکن دلجوئی کر رہی تھی ۔
اس وقت دن کے دو بج رہے تھے جب دروازے پے بیل ہوئی ۔
وہ کچن میں بابا جان کے لیے سوپ بنا رہی تھی شاہنواز کسی کام سے باہر تک گیا تھا۔
بیل دوسری بار ہوئی وہ چولہا آہستہ کرتے دروازے تک آئی کورئیر کمپنی کا نمائندہ تھا ۔
شاہنواز کے نام لاہور سے پارسل آیا تھا زلیخا نے دستخط کرکے پارسل وصول کیا پھر دروازہ بند کرکے اندر آئی اندر آتے آتے اس نے پارسل کو الٹ پلٹ کر بھیجنے والے کا نام پتا پڑھنے کی کوشش کی پارسل پر بھیجنے والے کا نام پتا نہیں لکھا تھا پارسل کو سٹڈی ٹیبل پر رکھتے وہ اوپس کچن میں چلی آئی
پھع جب تک اس نے کھانا لگایا شاہنواز واپس آچکا تھا کھانے کے دوران اسے نے شاہنواز کو پارسل کا بتایا باقی کھانے کے دوران کوئی بات نہیں ہوئی تھی سوائے اسکے کہ علی کے والدین کی موقع ہر ڈیتھ ہوگئی ہے علی آئی سی یو میں ہے اور ڈاکٹر اسکی زندگی کے کیے بھی پر امید نہیں ہیں۔
کھانے کے بعد علی اٹھ کر کمرے میں چلا گیا اماں کو اس نے سہارا دے کر لاونج میں ہی بٹھا دیا اور خود کچن سمیٹنے لگی
وہ برتن دھو رہی تھی جب اسے کمرے میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی سنک کا نل بند کرتے جلدی سے کمرے کی طرف بڑھی
شاہنواز کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا ساتھ کانچ کا گلاس ٹوٹا پڑا تھا۔
اف اللہ یہ یہ چوٹ؟
یہ چوٹ کیسے لگی آپ کو
وہ گھبرا کر کہتے آگے بڑھی اور اپنے دوپٹے سے خون صاف کرنا چاہا تاکہ زخم کا اندازہ کر سکے۔۔
پتا نہیں
شاہنواز نے عجیب سے لہجے میں یک لفظی جواب دیا
کیا مطلب ہتا نہیں حد ہے اتنا خون نکل رہا ہے چوٹ لگوا لی اور پتا نہیں
آج زلیخا کے رنگ ڈنگ ہی الگ تھے
مجھے اکثر انجانے میں بہت گہری چوٹیں لگ جایا کرتی ہیں۔
شاہنواز کے جواب پر زلیخا نے چونک کر اسکی طرف دیکھا جن آنکھوں میں اتنے دن اسے صرف اور صرف پیار محبت جانثاری نظر آئی تھی آج وہ آنکھیں لال انگاروں کی طرح دھک رہی تھیں اسے لگا آج ان آنکھوں میں آگ ہے صرف آگ
زلیخا کو اس آگ سے اپنا آپ روح سمیت جلتا محسوس ہوا تھا اس فوراً سر جھکا کر زخم صاف کرنا شروع کردیا
شاہنواز رخ پھیرنا چاہتا تھا ہاتھ کھینچنا چاہتا تھا ۔
لیکن بے حس و حرکت رہا زلیخا نے اسکا ہاتھ صاف کیا پھر فرسٹ ایڈ باکس لا کر بینڈیج کی
زلیخا کیا آپ ہماری شادی سے خوش تھیں؟
وہ سامان باکس میں واپس رکھ رہی تھی جب شاہنواز کی سلگتی ہوئی آواز اسکے کانوں میں پڑی
زلی سے فوراً زلیخا پر اسکا چونکنا بنتا تھا لیکن وہ گھبرا گئی تھی رخ دوسری طرف ہونے کی وجہ سے شاہنواز اسکے چہرے کا بدلتا رنگ نہیں دیکھ سکا تھا ۔
وہ اس سوال کو نظر انداز کرنا چاہتی تھی لیکن شاہنواز اسے اپنے پیچھے کھڑا محسوس ہوا اسکی سانس رک سی گئی۔
بولیں زلیخا کیا آپ ہماری شادی سے خوش تھیں؟
سخت سے ہاتھوں نے پیچھے سے اسکے کندھوں کو تھاما تھا
جی جی ہاں نا خوش ہونے کی وجہ بھی کوئی نہیں تھی
زلیخا نے اپنی طرف سے منمناتے ہوئے بھی تسلی آمیز جواب دیا
ہاتھوں کی سختی نرم سی ہوگئی تھی پھر اس نے زلیخا کا رخ اپنی طرف پلٹایا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا
زلیخا دم سادھے شاہنواز کے ساتھ لگی کھڑی رہی کچھ دیر بعد اسے اپنے سر پر نمی کا احساس ہوا جیسے بوندیں گر رہی ہوں
اس احساس کے ہوتے ہی فوراً چونکی اپنا سر ہٹانا چاہا لیکن شاہنواز نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا اور گویا ہوا
نا نا زلیخا
ابھی دور نا جاؤ یار پھر نجانے موقع ملے نا ملے میں تمہیں پوری طرح سے خود میں سمانا چاہتا ہوں۔۔
شاہنواز کی آواز بھیگی ہوئی تھی زلیخا کا اندازہ سچ تھا وہ رو رہا تھا مگر کیوں؟؟
َزلیخا کا دل بھی بھر آیا وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہیں پا رہی تھی اس نے ایک بار پھر سے شاہنواز کے سینے پر سے سر اٹھانا چاہا تاکہ اسے دیکھ سکے اس سے پوچھ سکے۔
نا نا نا زلیخا
پلیز ابھی میں ان لمحوں میں جینا چاہتا ہوں
مجھے جینے دو زلی
پلیز مجھے کچھ اور جینے دو
زلیخا کے آنسوؤں اس درد مند سے شخص کے درد پر پلکوں کی باڑ پھلانگتے بہہ نکلے تھے ۔۔۔
شاہنواز نے اسے خود میں بھینچنا شروع کردیا جیسے کسی چھوٹے سے بچے سے اسکی من پسند چیز مانگی جائے تو وہ اس من پسند چیز کو خود سے لگا کر بھینچنا شروع کردیتا ہے خود میں چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسے سے اسکی من پسند چیز کوئی چھین نا سکے کچھ ایسا ہی شاہنواز بھی کر رہا تھا۔
وقت نے بہت بُرا کیا میرے ساتھ زلی
مجھے سب کچھ دے کر اب واپس مانگ لیا ہے ظالم وقت نے
قسمت نے بڑا کاری وار کیا مجھ پر زلی
مجھے سب کچھ واپس کرنا ہوگا
اور محرومی کوئی سی بھی موت ہوتی ہے زلی بس اس وقت مجھے جینے دو یار
مجھے کچھ اور جینے دو
وہ اونچا لمبا سا فوجی جوان سسک ہی تو پڑا تھا۔
وہ پوری شاہنواز نے سوتی جاگتی کیفیت میں زلیخا کو خود سے لگائے گزار دی تھی
صبح فجر کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کے بعد وہ بنا زلیخا کی طرف دیکھے سامان اٹھا کر باہر نکلتا چلا گیا تھا۔۔
-----------------------
گورکن کی بات سنتے ہی اس کا پورا وجود بھڑ بھڑ کر کے جلنے لگا تھا
لیکن با با یہ یہ کیسے یہ تو اتنی کم عمر سی ہے اور میجر شاہنواز کا تو بیٹا بھی ہے نو دس سال کا
اس نے ذہن میں کلبلاتا سوال فوراً سے پوچھا تھا؟
پتا نہیں بابو وہ سب تو میں نہیں جانتا مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ یہ میجر شاہنواز خان کی بیوہ ہے ۔
گورکن بات مکمل کر کے اپنی جھونپڑی کی طرف چلا گیا
سیاہ لبادے والی لڑکی اب چادر کی بکل مارے واپسی کے سفر پرگامزن تھی۔
علی سبحان بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا لیکن گھر سے تھوڑی دور رک گیا
لڑکی گھر میں داخل ہوئی تو وہ کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور خود کو اس حقیقیت کا یقین دلاتا رہا کہ واقع میجر شاہنواز کی بیوہ اور ایک بیٹے کی ماں اتنی کم عمر ای ہوسکتی ہے؟
تمہارے ذکر نے مارا
قسط نمبر 12 پارٹ 2
از میرب علی بلوچ
----------------------------
برائے مہربانی بغیر اجازت کاپی پیسٹ کرنا منع ہے اور گروپ رولز کے خلاف بھی
---------------------------
( وقت نے بہت برا کیا میرے ساتھ زلی سب دے کر سب واپس مانگ لیا )
نہیں نہیں وہ صرف سر ہلا پائی
(قسمت نے بڑا کاری وار کیا ہے مجھ پر )
نہیں پلیز ایسی باتیں نا کریں آپ شاہ
اس بار بھی وہ اس پیارے سے شخص کےانجانے درد پر صرف کرلا ہی سکی تھی۔
نا نا نا زلی
ابھی دور نا جاؤ میں ان لمحوں میں جینا چاہتا ہوں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں
مجھے جینے دو زلی
مجھے کچھ اور جینے دو
آہ ہ ہ ہ
زلیخا نے ایک جھٹکے سے کراہتے ہوئے آنکھ کھولی تھی او خدا تو آج پھر وہ خواب دیکھ رہی تھی؟
اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اچھے بھلے موسم میں بھی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا اور شائد وہ خواب میں روتی بھی رہی تھی۔
کیا تھا شاہنواز کے لہجے میں کیا ڈر تھا کس بات کا دکھ تھا زلیخا کو اب تک سمجھ نہیں آئی تھی
آج شاہنواز کو گئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا اس سارے عرصے میں اس نے زلیخا سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
َزلیخا کے وجود پر شاہنواز کے جانے والے دن سے اب تک مردنی سی چھائی تھی اسکا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا بات بات پر آنکھیں بھر آتی تھیں
وہ آخری رات وہ آخری ملاقات شاہنواز کا بے تاب محبت بھرا آخری لمس اسکی التجاء اسکے لفظ زلیخا کو سونے نہیں دیتے تھے ۔۔
آج بھی وہ دن کے سارے کام نبٹا کر کمر سیدھی کرنے لیٹی تھی اور شاہنواز کی سرگوشیوں نے ایک بار پھر اسے جگا دیا تھا۔
وہ شاہنواز کے بارے ہی سوچ رہی تھی جب ربنواز صاحب کمرے میں داخل ہوئے بیٹا شاہو سے بات ہوئی آپکی؟
نا نہیں بابا جان انہوں نے جانے کے بعد مجھ سے اب تک رابطہ نہیں کیا میں تو انتظار کر رہی تھی
نا چاہتے ہوئے بھی زلیخا کے لہجے میں ناراضگی در آئی جس کے اظہار پر وہ خود سے حیران ہوئی تھی ۔
او ہاہاہاہاہا. اچھا تو ہمارا زلی خان ناراض ہے میجر صاحب سے
ربنواز خان زلیخا کے انداز پر مسکرائے تھے
زلیخا شرمندہ سی ہوئی
نا نا نہیں بابا میں تو بس ویسے ہی
اٹس اوکے بیٹا جانی میرا شیر جوان پتر ہے ہی اتنا اچھا
انکے لہجے میں بے پناہ محبت تھی۔
لفظ ہے ہی اتنا اچھا پر زلیخا کا دل رک ل
کر دھڑکا تھا۔
اور مجھے بھی آپکو یہ بتانا تھا کہ شاہو کا فون آیا تھا صبح جب میں مارکیٹ گیا تھا کہہ رہا تھا علی کی سرجریز میں اتنا ٹینس تھا کہ کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔
آج علی کی حالت کو ڈاکٹرز نے خطرے سے باہر قرار دیا تو ریلیکس ہوکر فون کر رہا ہوں اب کل ایک اور سرجری ہے اسکے بعد وہ سیدھا پاکستان آکر اپنی ڈیوٹی جوائن کرے گا اور ان شاء اللہ اگلے ماہ گھر آئے گا
ربنواز صاحب اسے ساری حقیقت بتا رہے تھے ۔
اور بیٹا جی اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ زلی کو الگ سے فون کرے گا سو انتظارکرو اب بیٹھ کر میجر صاحب کے فون کا
وہ بچوں کے سے شریر انداز میں اسکا سر تھپتھپاتے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
زلی بچے
وہ جاتے جاتے ایک پل کو رک کر پلٹے اور زلیخا کو مخاطب کیا
وہ جو انکی باتیں سمجھنے کہ کوشش کر رہی تھی چونکی
جی جی بابا جان
بابا کی جان میرے شاہو سے ناراض مت ہونا پتر
انکے لہجے میں ایک بہت محبت کرنے والے باپ کی سی شفقت بول رہی تھی۔
زلیخا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا
زلی علی شاہنواز کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے بیٹا یوں سمجھو علی میں اسکی جان بستی ہے ۔
بچپن میں جب تمہاری اماں جان کو ڈاکٹرز نے یہ کہا کہ وہ مزید اولاد پیدا نہیں کر سکتیں تو ہم بہت پریشان ہوئے تھے ۔
لیکن صبر کیا پھر اسکے کچھ عرصہ بعد ہی علی پیدا ہوا علی کی ماما بیمار تھیں تو علی کی ساری ذمہ داری تمہاری اماں جان نے لے لی شاہنواز اس وقت تین سال کا تھا جب تک بھائی لوگ باہر نہیں شفٹ ہوگئے علی زیادہ تر ہمارے پاس ہی رہا شاہنواز نے علی کے ساتھ ہمیشہ بڑا بھائی بن کر برتاؤ کیا۔۔
اسی لیے اب تم علی کے معاملے میں شاہو کو تھوڑی سی رعایت دینا بیٹا
وہ تفصیل سے ساری بات بتاتے اسکے سر پر دوبارہ سے ہاتھ پھیرتے باہر نکل گئے
جبکہ زلیخا کو کچھ خاص فیل نہیں ہوا ہاں یہ بات سچ تھی کہ وہ شاہنواز کو مس کر رہی تھی شاہنواز کے ساتھ گزرا ایک ہفتہ اپنے ہر ہر پہلو سے اسے یاد آیا تھا لیکن ان سارے خوشنما خوبصورت لمحات کے اختتام کی اذیت اسے بے چین کیے ہوئے تھی ۔
وہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسی کون سی بات تھی جو شاہنواز کو ایسا ری ایکٹ کرنے پرمجبور کر رہی تھی۔
-------------------------------
وہ کچھ دیر کھڑا اپنے آپ کو سمجھاتا رہا تھا ۔۔
پھر نجانے اسے کیا سوجھی پلٹ کر قبرستان چلا آیا اور شاہنواز کہ قبر پر آکر چپ چاپ گم سم سا بیٹھ گیا۔۔
اسکے آس پاس زندگی سے بھرپور چہکتی ہوئی آواز گونجی تھی۔
سبحی او میرے یار میرے دلدار
یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے سوہنے
وہ مکمل ڈس ایبل تھا اپنی زندگی سے تقریباً ہمت ہار چکا تھا اماں بابا کی موت نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا جبھی کسی سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا سب بہن بھائی اسکا ہر ممکن خیال کر رہے تھے لیکن اس پر ایک ہی چپ طاری تھی۔۔۔
ایسے میں ایک دن انگلینڈ کے ہسپتال کے اس پرائیویٹ روم میں وہ چپکے سے چلا آیا تھا ۔
میجر شاہنواز خان شاہو جو اسکا ہمراز تھا اسکا دوست تھا بھائی تھا۔
علی سبحان نے خاموش سی نظروں سے اسے دیکھا ۔
او تینوں کہہ رہا ہوں یارا
کیا مریض بن کر بیٹھا ہے او میرا مطلب لیٹا ہے
جانی تیرے لیے اپنیایک ہفتے کی نئی نویلی بیوی کو چھوڑ کر آیا ہوں ویکھ تے سہی؟
شاہنواز نے اپنے لہجے کو ہر درجہ خوشگوار بنا کر کہا تھا۔۔
علی کی آنکھوں میں نم سا تاثر جاگا ۔
او میری جان اب اٹھے گا نہیں تو تیری وہ سانولی سلونی سی حسینہ کیسے ڈھونڈیں گے یار
یہ بات کہتے شاہنواز کی آنکھوں نے اسکے لہجے کا ساتھ نہیں دیا تھا
علی کی آنکھیں ہلکی سی نرمی لیے بے تاثر ہی رہیں۔۔
علی سبحان خان مجھے بڑا بھائی بننے پر مجبور نا کرو بچے
اس بار شاہنواز کے لہجے میں پتا نہیں ایسا کیا تھا کہ علی سبحان کی آنکھوں میں ایک دکھ سا جھلملایا تھا۔
تایا تائی کی کمی پوری نہیں ہوسکتی یار لیکن یوں بھی زندگی نہیں گزرنی پتر ہوش کر ہمت کر میری جان
شاہنواز کا لہجہ دکھی ہوا تھا
یہاں کسی کو من چاہا نہیں ملتا پھر جو چیز اللہ پاک کی تھی اس نے لے لی صبر کرنے والوں کے لیے انعام ہے سبحی صبر کر
ایک آنسو علی کی آنکھوں سے نکلا تھا پھر بچوں کی سی معصومیت سے بولا تھا
شاہو
جی کرے شاہو
شاہنواز نے ہر بار کی طرح جی بسم اللہ کی تھی۔
میں ہی کیوں شاہو میری ٹانگ میرے ہاتھ
آآ ں نا نا نا
علی سبحان خان وہ جو سب دیتا ہے جب کچھ واپس مانگ لے تو شکوہ نہیں کیا جاتا شاہنواز کی آنکھیں نجانے کیوں بھیگ سی گئیں تھیں۔
جب وہ ہمیں ہماری اوقات سے زیادہ نوازتا ہے کیا تب ہم نے کبھی کہا کہ میں ہی کیوں؟؟
علی نے صرف اسے دیکھا بولا کچھ نہیں
اسوقت ہم یہ نہیں کہتے بلکہ اپنا حق سمجھ کر زندگی سے ہر خوشی وصول کرتے چلے جاتے ہیں تو زرا سے دکھ پر تھوڑے سے درد پر واویلا کم ظرفوں کا شیوہ ہے میرے یار ۔
علی کو کچھ سکون سا ملا تھا لیکن آنکھیں اتنے عرصے میں پہلی بار نم ہوئی تھیں
اسے شاہنواز کی ایک ایک بات یاد آئی تھی
اس نے فاتحہ پڑھی اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
پھر جب اس نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو ایک بار پھر سے شاہنواز کی آواز اسکے آس پاس گونجی
سبحی یہ جسم کے درد کچھ نہیں ہوتے یار اصل درد تو روحوں کے ہوتے جینا مشکل تو دلوں کے درد کرتے ہیں
جو جیتے جی ہمیں سولی پر لٹکائے رکھتے سکون نہیں لینے دیتے
شاہو کا لہجہ بہت سادہ تھا لیکن آنکھوں سے لگتا تھا جیسے خون رسنا چاہتا ہو۔
اور پتا ہے سبحی دل کے درد میں ہمیں بغیر کسی سے کچھ کہے دل کو اسکے ارمانوں کو مارنا پڑتا ہے اس اذیت میں ہم روز مرتے ہیں پھر بھی نہیں مرتے یارا
اس لیے میری جان ان چند زخموں کو آڑ بنا کر اسکی ناشکری نا کر ویرے
ہمت کر آج نہیں تو کل تم ٹھیک ہوجاؤ گے پھر میں اپنے یار کے دل کا سکون ڈھونڈ لاؤں گا اسکے لیے سریلی آواز والی وہ سلونی لڑکی ڈھونڈ لاؤں گا۔۔
علی سبحان کی آنکھیں برسنے لگی تھیں
جب اس نے تڑپ کر پکارا تھا
شاہ
شاہو
لیکن اس بار مٹی کے ڈھیر سے
جی کرے شاہ
جی کرے شاہو کی صدا نہیں آئی تھی
علی سبحان خان آج پورے آٹھ سالوں بعد اپنے شاہو سے ملا تھا اور اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد آج پہلی بار بچوں کے سے آنسوؤں کے ساتھ رویا تھا۔
کیا درد تھا شاہ بھائی بولے کیوں نہیں کون سا گھاؤ تھا بتایا کیوں نہیں اپنے سبحی کو تو بتاتے نا سبحی ساری اذیت سمیٹ لیتا اپنے شاہو کی ساری خواہشیں پوری کرتا کسی خواہش کو مارنے نا دیتا
شاہو
میرے کان آٹھ سالوں سے ترس گئے یار کوئی میری صدا پر جی کرے میں کہوں
شاہو
تم کہو جی کرے شاہو
اسکی باتیں بین کی صورت اختیار کر گئی تھیں
گورکن کسی کے رونے کی آواز پر اپنی جھونپڑی سے نکلا تھا پھر صبح نظر آنے والے شہری بابو کو میجر شاہنواز خان کی قبر پر روتا دیکھ اسکے ہونٹوں سے بڑی آسودہ سی آہ نکلی تھی
بڑی ہی کوئی نیک روح تھا میجر صاحب لگتا ہے بڑا ہی بیبا بندہ تھا
یہاں لوگ دفنا کر کل بھول جاتے ہیں اس کے لیے آج بھی لوگ تڑپ کر روتے ہیں۔۔۔