باہر سے آتی آوازوں پر زلیخا نے فوراً سنبھل کر شاہنواز کے منہ پر سے ہاتھ اٹھانا چاہا تھا۔
دوسری طرف وہ جو تھا میجر شاہنواز خان
جس کا دل کچھ دیر پہلے ایک بے ضرر سی خواہش کرتے ہی دھڑکنے لگا تھا ہمکنے لگا تھا تڑپنے لگا تھا
اب قدرت کی طرف سے ملے اس نادر و نایاب موقے کو گنوانا اُسے اُس کے پورے پاگل ہوچکے دل کو بلکل گوارہ نا ہوا جبھی اس نے نرم و نازک سانولا سا ہاتھ بڑی محبت سے بڑی عقیدت سے بڑی ہی چاہت سے تھام کر دھڑکنوں کی صداؤں پر لبیک کہتے ہوئے پاگل دل کی پاگل سی خواہش پورے حق سے پوری کی تھی ۔۔
پہلی خواہش اس کے دل نے کی تھی تو اب کہ دوسری خواہش اس نے خود ہی خود سے کرلی
پھر اسی خود سے کی گئی دوسری خواہش کے زیر اثر میجر شاہنواز خان نے زلیخا شاہنواز خان کے ہاتھ کو اونچا اُٹھاتے کسی مقدس صیحیفے کی سی تعظیم دیتے باری باری دونوں آنکھوں سے مس کیا تھا ۔۔۔۔
زلیخا کا دل رک کر دھڑکا تھا بلکہ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اسکا دل شاہنواز کے ہاتھ میں پکڑے اسکے دائیں ہاتھ میں سمٹ آیا ہو اور زور و شور سے دھڑکنے لگا ہو ۔۔
ایک جھجھک تھی یا حیا زلیخا نے شاہنواز کو کوئی بھی تاثر دیے بغیر اپنا ہاتھ چھڑوا لیا تھا
شاہنواز نے زلیخا کا یہ عجیب سا گریز اور معمولی سی مزاحمت بہت جان سے محسوس کی تھی۔۔
---------------------------
ٹیلیگرام میں شاہنواز کو اسی ہفتے کے آخری میں حاضری دینے کا کہا گیا تھا
اماں نے تو باقاعدہ منع کردیا بابا بھی سن کر پریشان تو ہوئے پر بولے کچھ نہیں ایک فوجی کا باپ چاہے بوڑھا ہو کمزور ہو لیکن وہ خود کو بوڑھا یا کمزور ظاہر نہیں کرتا ایک فرض اسکا شیر جوان بیٹا سرحدوں پر وطن عزیز کی حفاظت کرتے ادا کرتا ہے تو دوجا باپ کو گھر رہ کر نبھانا ہوتا ہے
زلیخا کو اچھا یا برا کچھ بھی فیل نہیں ہوا تھا۔
شاہنواز نے اسے دن میں ہی بتادیا تھا کہ وہ دو دن کے لیے لاہور جائیں گے اسکے بعد شاہنواز واپس اپنی جاب جوائن کرے گا
رات کھانے کے بعد وہ پیکنگ کرنے کے لیے کمرے میں چلی آئی تھی صبح پہلے ٹائم انہیں لاہور کے لیے نکلنا تھا ۔۔۔
--------------------
وہ پیکنگ تقریباً مکمل کرچکی تھی
اب سائیڈ صوفے پر بیٹھے ایک بار پھر سے اپنی گزری اور آنے والی زندگی کہ بارے سوچ رہی تھی ۔۔
وہ جب بھی گزرے واقعات سوچتی سہم سی جاتی پھر جب اگر اور مگر کی لایعنی بحث اسے تھکانے لگتی تو کسی کی سانسوں کی لے پر لہراتی روح پرور سی سریلی دھن اسکے آس پاس بجنے لگتی
وہ دھن اسے پہلے پہل تو رام کرتی سکون دیتی اور اگلے ہی پل کسی آسیب کیطرح اسے ڈرانے لگتی کیوں کہ اس سریلی دھن کے ساتھ ہی بدنامی کے ساز چھڑنے لگتے تھے لفظوں اور آوازوں کے ناگ اپنے پھن پھیلائے اسکی طرف بڑھنے لگتے تھے۔
ٹھیک اس وقت جب سحر سے ڈرتے بدنامی کے سیاہ ناگوں سے وحشت ذدہ ہوتے وہ حواس کھونے لگتی ایک دم سے کوئی مہربان آجاتا اسے خود میں سمو لیتا وہ اس مہربان کے کشادہ سینے میں منہ چھپا لیتی آہستہ آہستہ اس پر سے سارے سحر سارے ڈر اترنے لگتے تھے۔۔۔
اب بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا لیکن فرق اتنا تھا اس بار مہربان کی شبیہہ واضح ہوتی جارہی تھی
پھر اس سے پہلے کہ وہ تصویر واضح ہوتی ایک کھٹکے سے اسکی آنکھ کھلی تھی
شاہنواز کمرے میں آیا تھا پنکھا بند ہونے کی وجہ سے زلیخا کا چہرہ پسینے میں تر بتر ہوگیا تھا۔
ابھی تو میں گیا نہیں اور یہاں لوگوں کی حالت بری ہورہی ہے اگر کبھی فرض کی ادائیگی میں شہید ہوگیا تو؟
نا ں ں ں ایک دن میں دوسری بار تھا جب زلیخا نے بے قراری کی سی کیفیت میں شاہنواز کے منہ پر ہاتھ رکھ کچھ بھی کہنے سے باز رکھا تھا
شاہنواز ایک بار پھر سے ٹرانس کی سی کیفیت میں زلیخا کے سانولے چہرے پر سجی بڑی بڑی شہد رنگ آنکھوں میں کھو چکا تھا جہاں نمی کی زور آور لہریں بند توڑنے کو بے تاب تھیں۔
ایسا نا کہیں پلیز
شاہنواز کو لگا اسکے آس پاس کلیساؤں جیسی بہت سی گھنٹیاں بجی ہوں
اور آپ پلیز رو مت دیجئے گا محترمہ پیچھلے ایک ہفتے میں شب و روز جب بھی میں نے آپکی طرف دیکھا مجھے یہی ڈر تھا کہ آپ اب روئیں کہ تب؟
سو اتنے دن نہیں روئیں تو پلیز آئندہ بھی نہیں روئیے گا۔
شاہنواز بولنے پے آیا تو بولتا چلا گیا۔
ملک کے حالات بہت کشیدگی کی طرف جارہے ہیں زلی اسی لیے اتنی جلدی واپس بلایا ہے ورنہ میری چھٹی دو ماہ کی تھی
اسے لگا تھا شائد زلیخا اسکے واپس جانے کا سن کر اداس ہے اسی لیے پہلے دن سے اب تک قائم جھجھک کو دور کیے کسی گہرے دوست کی طرح بات کر رہا تھا۔۔
زلیخا انجانے سے خوف کے زیر اثر اسکی باتیں سن رہی تھی۔
پتا ہے زلی مجھے ہمیشہ آرمی میں جانے کا شوق تھا اور جنون کی حد تک تھا۔
لیکن اماں نہیں مانتی تھیں کیوں کہ میں اکیلا تھا نا اسی لیے
پھر بابا نے اماں کو سمجھایا تب میں نے آرمی جوائن کی
پتا ہے مجھے شروع سے صرف ایک ڈر رہا ہے کہ میں لاوارث نا رہوں
زلیخا نے چونک کر شاہنواز کی طرف دیکھا۔
لیکن وہ اپنی باتوں میں مگن تھا اس نے زلیخا کا چونکنا نوٹ نہیں کیا ۔
بلکہ بات جاری رکھتے ہوئے اسے بیڈ پر لے آیا ۔
میری تین بڑی بہنیں ہیں جو شادی کے بعد سے دوسرے ملکوں میں رہتی ہیں
اماں بیمار رہتی ہیں اور بابا
ہاہاہاہاہ
میرے بابا دنیا کے سب سے بہادر بابا ہیں جنہوں نے شادی کے بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والے بیٹے کو بخوشی وطن پر قربان ہونے کے لیے اجازت دے دی
وہ پیچھلے تین سال سے ایک کڈنی پر سروائیو کر رہے ہیں انہیں پتا ہے کہ ایک سال سے جہاں میری پوسٹنگ ہے وہاں ہر روز کسی نا کسی کی شہادت کی خوشخبری موصول ہوتی ہے ۔۔
وہ اندر سے بہت ڈرے ہوئے ہیں لیکن فیل نہیں ہونے دیتے پتا ہے کیوں؟
اس نے باتوں کے درمیاں زلیخا سے پوچھا؟؟
زلیخا جو دم سادھے شاہنواز کی مشکل باتیں سنتے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی نے نا میں سر ہلایا ۔۔
کیوں کہ پاک شیر جوانوں کے باپ ببر شیر ہوتے ہیں اور ببر شیروں، کو زیب نہیں دیتا گھبرانا یا ڈرنا ببر شیر بوڑھا بھی ہوچکا ہو
ا!
تو اپنے نام کی لاج رکھنے کو مشکل سے ہی سہی لیکن اپنا سر اونچا رکھ کر اپنے اندر مر چکے وجود کو گھسیٹنا ہوتا ہے۔۔۔
وہ زلیخا کو بولنے دیے بغیر باتیں کیے جا رہا تھا جیسے آج رات ہی ساری باتیں کرلینا چاہتا ہو جیسے کل صبح ہونی ہی نا ہو
زلی مجھے ایک بات کا ڈر رہتا تھا کہ میں، لاوارث نا رہ جاؤں میری بڑی خواہش تھی اگر میں شہید ہو جاؤں تو میری قبر پر دیا جلانے والا کوئی ہو
جو روز مجھ سے ملنے تازہ گلاب کی پتیاں لایا کرے جو
پلیز پلیز بس کر دیں
زلیخا کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا تھاجبھی وہ تقریباً روتے ہوئے بولی تھی
ارے یار پلیز مجھے کہنے دو ہمارے اگلے کچھ دن بہت مصروف گزرنے ہیں کیا پتا پھر موقع ملے نا ملے؟؟
زلیخا کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن چپ کر گئی۔
اب تم جو میری زندگی میں آئی ہو تو ایسا لگتا ہے میں مکمل ہو جاؤں گا جیسے میں لاوارث، نہیں رہوں گا جیسے
پلیز شاہنواز
زلیخا نے روتے ہوئے اسکے آگے ہاتھ باندھ دیے تھے۔
اوووو یار زلی اب بندہ دل کی باتیں بیوی سے نا کرے تو کس سے کرے یار ؟؟
شاہنواز نے زلیخا کو خود سے لگا کر اسکا سر سہلانا شروع کردیا۔
اچھا اب بس کرو زلیخا کو سکون--------------------------
ہلے خواب میں جس مہرباں کی شبیہہ مدھم تھی وہ یہی تو ہے اسکا محرم اسکا مجازی خدا
زلی
وہ کچھ اور سوچتی جب شاہنواز نے اسے مخاطب کیا
جی
ایک وعدہ کرو گی؟
جی
اگر میں شہید ہو گیا تو تم روز میری قبر ہر دیا جلانا مجھ سے ملنے روز آنا ٹھیک ہے؟
زلیخا نے شاہنواز کے سینے پر سے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا
نجانے کیسا شخص تھا شادی کے ایک ہفتہ بعد ہی اپنی نئی نویلی دلہن سے کیسے عجیب و غریب وعدے لے رہا تھا۔
زلیخا کو شاہنواز کی آنکھوں میں عجیب سی کیفیت نظر آئی تھی جسے وہ کوئی نام نہیں دے پارہی تھی پھر تھک اس نے سر اثبات میں ہلایا اور دوبارہ سے اسکے سینے پر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
کھڑکی سے باہر رات بھیگتی رہی آس پاس کو بلکہ چہار سو کو بھیگوتی رہی تھی۔۔
--------------------------
صبح کے شائد چار بجے تھے جب شاہنواز کا فون زور سے چنگھاڑا تھا ۔
زلیخا کا سر بہت احتیاط سے تکیے پر رکھ اس نے فون دیکھا کوئی غیر ملکی نمبر تھا
اسے پہلا خیال علی سبحان کا آیا اسی لیے فورا ً سے کال پک کی لیکن اگلی طرف سے ملنے والی خبر نے اسکے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔۔
وہ اٹھ کر فوراً اپنے اماں بابا کے کمرے کی طرف بھاگا تھا. زلیخا بھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر اٹھ باہر آگئی۔
اماں رو رہی تھیں جبکہ شاہنواز تقریباً رونے والا ہوچکا تھا اسے دیکھتے ہی بولا زلی زلی سوری یار ہم لاہور نہیں جاسکتے مجھے کل کی فلائیٹ سے انگلینڈ جانا ہے علی اور اسکے امی ابو کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔
زلیخا کو بھی اچانک شاک لگا تھا گزرے دنوں میں وہ شاہنواز اور باقی گھر والوں سے علی اور اسکی امی ابو کا ذکر بہت بار سن چکی تھی۔
---------------------------
وہ منہ اندھیرے سٹاپ پر اتر آیا تھا چاچا جان کو اس نے دن اور تاریخ نہیں بتائی تھی وہ ایسے ہی تقلفات میں پڑ جاتے ۔
اب بھی سٹاپ پر اترتے پیدل ہی گھر کی طرف چل دیا تھا اگرچہ ایسا کرنے سے اسکی ٹانگ میں درد اور سوجن ہونے کا خدشہ تھا لیکن وہ یوں اس ویران سٹاپ پر اگلے تین گھنٹے اکیلے بور نہیں ہونا چاہتا تھا
گاؤں کے باہری قبرستان تک پہنچتے اچھا اندھیرا چھٹنے لگا تھا رات بھر چمکتے رہنے کی وجہ سے تھک چکا چاند نے بھی اب اپنے گھر کی راہ لی تھی ۔
قبرستان کی چاردیواری کے پاس سے گزرتے اسکی نظر بے ارادہ ہی اندر کی طرف اٹھ گئی تو وہ ایک دم سے چونکا تھا دور کوئی سیاہ پوش ہیولا ارد گرد سے بے نیاز ایک ہاتھ اونچا کیے جس میں لالٹین پکڑی تھی دوسرے ہاتھ میں پھولوں کا شاپر دبائے قبرستان کے بیچ و بیچ بنی کچی سڑک پر چلا جارہا تھا۔۔
اسے تجسس سا ہوا تھا۔
تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے بھی قبرستان کے گیٹ کا رخ کیا
گیٹ سے اندر داخل ہوتے اسکا دل ایک پل کو لرزا تھا لیکن پھر تھوڑی ہی دور اسے وہ ہیولا کسی کے ساتھ بات کرتا دکھائی دیا.۔۔
وہ شائد گورکن تھا جس نے سیاہ لبادہ میں ملبوس انسان کے سر پر ہاتھ پھیر کر کچھ کہا تھا اتنا اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ کوئی لڑکی ہے؟؟
اس نے مزید متجسس ہوتے انکی طرف قدم بڑھا دیے
پھر گورکن کے پاس پہنچ کر رک گیا نظر اسی سیاہ پوش پر تھی۔
کون ہو بابو کہاں سے آئے ہو کہاں جانا ہے؟
گورکن نے خود ہی اسے تھوڑی دور قبر کے سرہانے بیٹھی لڑکی کو گھورتے دیکھ سختی سے پوچھا
میں ولایت سے آیا ہوں بابا یہاں میرا گھر ہے بس ایک عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے رک گیا تھا۔۔
گورکن بابا کے چہرے کا تاثر پل مین بدل گیا
او اچھا اچھا خدا آپکا بھلا کرے بیٹا اچھے گھر کے معلوم ہوتے ہو آؤ یہیں پاس میری جھونپڑی ہے ناشتہ تیار ہوگا کر کے چلے جانا
بہت شکریہ بابا میں بس جانے ہی والا تھا میرے میزبان راہ دیکھ رہے ہوں گے
چلو بیٹا جیسے آپکی مرضی
اللہ کی امان
گورکن کہہ کر پلٹنے لگا تھا جب وہ بے اختیار بول اٹھا
بابا یہ کون ہے
اور یہاں کون دفن ہے اسکا
اس نے تھوڑی دور بیٹھی لڑکی کے بارے پوچھ ہی لیا جو اب قبر کو اپنی کالی چادر سے صاف کر رہی تھی۔
دن نکل آیا تھا ہر طرف صاف ستھرا نور ہی نور پھیلا معلوم ہوتا تھا ۔
ایسے میں وہ سیاہ لبادہ اوڑھے اپنے ہال سے بے حال لرزتی جھکی پلکوں والی لڑکی اسے اپنی اپنی سی لگی تھی۔
گورکن نے ٹھنڈی آہ بھر کر اسکی طرف دیکھا جو قبر کے پاس پڑے مٹی کے دیے میں تیل ڈال رہی تھی۔۔۔
دکھاں دی ماری ہے جی
کملی ہے جوگن ہے
اسکا گھر والا دفن ہے جی یہاں پر
اب وہ دیا سلائی سلگانے لگی تھی ۔۔
5 سال ہوگئے مجھے یہاں قبرستان میں یہاں سب کچھ بدل گیا جی
نہیں بدلیں تو دو چیزیں
میجر شاہنواز خان بلوچ کی یہ کچی قبر
سلائی نے آگ پکڑی اور اس نے دیا روشن کر دیا اور اسے لگا دیے کی لاٹ کے ساتھ جیسے اسکا وجود ایک بار پھر سے جل اٹھا ہو
اور اس کچی قبر پر روزانہ تازے پھول چڑھاتی دیے جلاتی یہ جوگن