وہ آٹھ سال کا تھا جب اس نے جرم کی دنیا میں قدم رکھا تھا ۔ اس کا باپ نشے کا عادی تھا۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے دال روٹی کا بندوست کرتی تھی۔ باپ نشے کی لت کی وجہ سے جلد ھی موت کی سرحد پار کر گیا اور ماں بھی حالات کی ستم ظریفیوں سے لڑتے لڑتے چل بسی۔ وہ جیب تراشی سے شروع ھوا اور پھر ہر طرح کے جرائم کا حصہ بنتا گیا ۔ اسنے جب پہلی بار حنا کو دیکھا تو اسے عجیب سا احساس ہوا۔
اسے زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکی اتنی اچھی لگی تھی ۔ وہ معصوم سا چہرہ ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔ اور کوئی کام بھی دھیان سے نہ کر پاتا تھا ۔ وہ اس سے باقاعدہ شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کے ماں باپ سے اس کا ہاتھ مانگنا چاہتا تھا ۔ لیکن اسے معلوم ہوا کہ اسکے ماں باپ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ وہ اپنے چچا چچی ساتھ رہتی ھے ۔ اور اس کے اپنے ہی چچا نے محض جائیداد کی خاطر اپنے بھائی کی گاڑی کے بریک فیل کروائے تھے ۔
لیکن ان کی بدقسمتی کہ حنا اس دن اپنے ماں باپ ساتھ نہیں تھی ۔ اور ان کے مرنے کے بعد ساری جائیداد حنا کی ہو گئ تھی ۔ اس لئے اس کے چچا نے اسے پالا تھا ۔ چچی اس سب ساری سازش سے انجان تھی ۔ اس کے چچا نے چند دن پہلے ہی اس سے ساری جائیداد اپنے نام کروا لی تھی ۔
اس لئے انہیں اب اسکی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ اس لئے جبار نے اسے جب کالج کے باہر سے اُٹھوا کر اپنے پاس قید کر لیا تو اس کے چچا نے اس کی گمشدگی کو اس کے گھر چھوڑ کے بھاگ جانے کا نام دے کر اس کی چچی کا منہ بند کروا دیا تھا اور حنا کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہ کی تھی ۔ اور حنا اس بات سے بے خبر ان کی منتظر تھی کہ وہ آ کے اسے اس جانور سے چھڑوا لیں گے۔
جبار اسے اپنا بنانا چاہتا تھا لیکن وہ اسے ہر بار نہ میں ہی جواب دے رہی تھی ۔ اس لئے اس نے طیش میں آکر یہ انتہائی قدم اٹھا لیا تھا ۔
____________________
چچی کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی انہیں اپنی پھول جیسی بیٹی پر یقین تھا کہ وہ کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی ۔ وہ تو ہر بات ان سے شئیر کرتی تھی تو اتنی بڑی بات وہ ان سے کیسے چھپا سکتی تھی ۔ انہیں یہ ہی غم ستائے جا رہا تھا کہ ان کی بیٹی کہاں اور کس حال میں ہو گی۔ اور صدیق صاحب کو یہ کیا ہو گیا ہے وہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر کیسے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ ان کی جوان لڑکی کو گھر سے غائب ہوئے کتنے دن ہو گئے تھے ۔ ان کو اس کی فکر ستائے جا رہی تھی کہ وہ کیسے اس کا پتہ کروائے ۔ کیونکہ حنا کی کوئی دوست بھی نہیں تھی جس سے وہ کچھ معلومات حاصل کر لیتیں ۔ ان کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ان کا ٹینشن کی وجہ سے بلڈ پریشر بہت کم ھو رہا تھا انہیں لگ رہا تھا کہ ابھی ان کا دل بند ھو جائے گا ۔ انہیں اپنی سانسیں بند ھوتی محسوس ھو رہی تھیں۔ انہوں نے صدیق صاحب اور ماہ رُخ کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن ان کی آواز ان کے حلق میں اٹک گئی تھی جیسے۔ ۔ صدیق صاحب اس سب سے غافل اپنی جیت کا جشن منا رہے تھے ۔۔
_______________________
ماہ رخ کی عادت تھی صبح دیر سے اٹھنا اور فریش ہو کر اپنی ماما کے ہاتھوں کا بنا ہوا ناشتہ کرنا ۔ آج بھی وہ فریش ہو کر کچن میں آئی تو اسے یہاں کوئی بھی نظر نہ آیا ۔ اس نے منظوراں کو آواز دی لیکن وہ بھی کہیں نظر نہ آئی ۔ یہ ماما ، بابا نے نوکروں کو کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھایا ہوا۔ وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی اپنی ماما کے کمرے میں چلی گئی ۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی تو اندر کامنظر دیکھ کر بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ نکل گئ ۔ اس کی ماما کا جسم بیڈ سے نیچے ایسے جھکا ھوا تھا کہ ان سر زمین کو چھُو رہا تھا۔ اس نے جلدی سے ان کو سہارا دے کر بیڈ پہ لٹایا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ اس نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے لیکن کوئی فائدہ نہ ھوا۔۔۔
وہ سسکیوں میں رو رہی تھی۔ اس نے ہمت کر کے اپنے بابا کو فون کیا اور انہیں جلدی سے گھر آنے کو کہا۔۔۔
______________________
ایک دھندلا سا چہرہ اس کے سامنے آ رہا تھا جس کی جھلک سے ہی وہ اسے پہچان چکی تھی ۔
چچی۔۔۔ اس نے خوشی اور کرب کے ملے جلے تاثرات سے ان کو پکارا ۔
وہ اپنی آنکھوں میں ڈبڈباتی خوشی کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہیں تھیں ۔
حنا میری بچی !! ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ۔ میں تمہیں ان اندھیروں سے نہیں بچا پائی ۔ میں تمہیں اس دنیا سے نہیں بچا پائی ۔
وہ رو دی تھیں ۔
ان کے قدم پھر سے تاریکی کی طرف بڑھ رہے تھے اور وہ اندھیروں میں گم ہو گئیں ۔وہ انہیں پکارتی ہی رہ گئ ۔
جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی اس نے خود کو اسی کمرے میں موجود پایا ۔ یہ کیسا خواب تھا ؟؟؟
وہ سوچتی ہی رہ گئ ۔
چچی آپ ٹھیک تو ہیں ؟؟ وہ خود سے سوال کرتی رہ گئ ۔ کیونکہ یہاں اس کا جواب دینا والا کوئی بھی نہ تھا ۔
روتے روتے اس کی دوبارہ آنکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہ چلا ۔
اسے اپنے چہرے پر کسی کا لمس محسوس ہوا تو وہ جلدی سے اٹھ گئ
__________________
صدیق صاحب کے نمبر پر گھر سے مسلسل کال آ رہی تھی ۔لیکن وہ اس سب سے بےخبر اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ جبکہ پی اے نے ان کو گھر سے مسلسل آنے والی کال کے بارے میں دو تین بار آگاہ بھی کیا۔ لیکن اس نے کان نہ دھرے ۔
آخر تھک کر پی اے نے خود فون اٹھا لیا ۔ جبکہ اس کو اس بات کی اجازت نہ تھی ۔ ۔ فون اٹھانے کے بعد ماہ رخ کی روتی ھوئی آواز سن کر اس نے جلدی سے صدیق صاحب کو آگاہ کیا۔
"بڑے صاحب وہ چھوٹی بی بی رو رہی ہیں "
انہوں نے جھپٹ کر فون پکڑ کر کان کو لگایا دوسری طرف سے ماہ رخ نے جو بتایا وہ سنتے ہی انہیں لگا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئ ہو ۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر کی طرف دوڑے ۔ راستے سے انہوں نے ڈاکٹر کو بھی ساتھ لے لیا۔ جیسے ہی وہ گھر داخل ہوئے اس کی بیٹی اس کے سینے سے لگ کر زاروقطار رونے لگی ۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ھوئے کہا کہ صدیق صاحب! بہت دیر ھو گئی۔
ماہ رُخ تو جیسے اپنے حواس کھو بیٹھی تھی وہ چیخ چیخ کر حنا کو کوس رہی تھی۔
بابا میں اس کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی ۔ آپ نے اسے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا اور وہ ماما کی اور آپ کی عزت کو اپنے پیروں تلے روند کے چلی گئ ۔ آج اس کی وجہ سے میری مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئیں ۔ میں اسے کبھی بھی معاف نہیں کروں گی بابا میں اکیلی رہ گئ بابا ۔ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں بابا ۔
"نہیں چھوڑوں گی میں اسے ۔ نہیں معاف کروں گی "
روتے روتے وہ بے ہوش ہو گئ ۔ انہوں نے اسے بانہوں میں سنبھال لیا۔۔
ان کی بیٹی یہ کیا کہہ گئ تھی ؟؟؟ غلط انہوں نے کیا اس کے ساتھ یا حنا نے ؟؟؟ کیا یہ ان کے گناہوں کی سزا ان کی جان سے پیاری بیوی کو ملی ہے ؟؟؟ وہ کس حال میں ہو گی؟؟؟ آج انہیں صحیح معنوں میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا ۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ وہ انہیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں ۔ جبکہ حنا کے بارے میں انہیں کچھ بھی معلوم نہ تھا ۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے ۔ یہ ان سے کیا ہو گیا تھا ۔ وہ تین جانیں لے چکے تھے اور ایک معصوم سی جان لاپتہ تھی ۔ وہ خود کو اپنی بیوی کی موت کا قصوروار سمجھتے تھے ۔ لیکن وقت کا کام ہے چلتے رہنا ۔گزرا ہوا وقت کبھی بھی واپس نہیں آتا ۔ انہونی کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا ۔آج ان کا ضمیر ان کو جھنجھوڑ رہا تھا ۔ ان کو ملامت کر رہا تھا ۔ وہ بے بس اور لاچار ہو چکے تھے ۔ کسی کو کچھ بھی نہیں بتا سکتے تھے ۔کسی کونہیں کہہ سکتے تھے کہ ان کی بیٹی کہاں ہے ؟؟ وہ ایک ہارے ہوئے انسان تھے ۔ تھوڑی دیر پہلے منایا گیا جشن ان کی خوشیاں کھا گیا تھا ۔۔ ۔ ۔ ۔۔