اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائےتھے۔۔ مگر وہ سوچوں کی دنیا میں گم تھی ۔۔ قدم آگے بڑھ رہے تھے مگر وہ قدموں کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔۔ وہ کہیں اور تھی۔۔ لاؤنچ میں داخل ہوکر اس نے دیکھا ۔۔ باس سیڑھیاں اتر کر اسکی طرف آرہے تھے ۔۔ وہ پتھریلی نگاہوں سے انہیں اپنی جانب آتا دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ کیسی ہیں مس ارسا آپ ؟ ’’ باس نے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ اس سےپوچھا تھا ۔۔ مگر اس وقت وہ انکی نگاہوں پر غور نہیں کررہی تھی ۔۔
’’ مس ارسا ؟ ’’ اسے مسلسل خود کو دیکھتے پاکر عفان نے اسے پکارا تھا ۔۔ وہ جیسے ہوش میں آئی تھی ۔ مگرمکمل نہیں ۔۔
’’ ایک منٹ سر ’’ وہ کہہ کر پلٹئ اور ایک دو قدم اٹھانے کے بعد اس نے کسی کو کال ملا کر موبائیل کان سے لگایا تھا۔
’’ ہیلو محد ’’ ایسی تڑپتی آواز ۔۔؟ عفان خالد اس کے اس انداز پر چونکا تھا ۔۔
’’ کیسے ہو تم ؟ ٹھیک سے گھر پہنچ گئے نا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ اسکے انداز میں محد کے لئے فکرمندی تھی۔۔ اتنی فکر ؟ عفان کے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے ۔۔ تھوڑی دیر پہلےوالی مسکراہٹ اب غائب تھی ۔۔
’’ میں ٹھیک ہوں ارسا۔۔ کیا ہوا تم اتنی پریشان کیوں ہو ؟ ’’ محد اسکے انداز پر حیران ہوا تھا ۔۔
’’ نہیں بس ایسے ہی ۔۔ تم اپنا خیال رکھنا پلیز ’’ وہ اس سے کہہ رہی تھی ۔۔ کتنئ محبت تھی اسکی آواز میں ۔۔ کتنی پرواہ تھی ۔۔ محد کے ہونٹ مسکرائےتھے ۔۔ جبکہ عفان خالد کا ضبط جواب دے رہا تھا ۔۔ اس نے آگے بڑھ کر ارسا کے ہاتھ سے موبائیل کھینچا اور کال بند کردی ۔۔ْ
’’ یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ ’’ اس اچانک آفتاد پر ارسا ڈرگئ تھی ۔۔
’’ یہ آپکا ڈیوٹی ٹائم ہے مس ارسا۔۔ اپنے پرسنل میٹرز گھر پر چھوڑ کر آیا کریں ’’ اس نے ارسا کا ہاتھ تھام کر موبائیل اسکے ہاتھ میں تیزی سے رکھا اور مڑ گیا ۔۔
’’ ایک تویہ انسان بھی نا ’’ اسے عفان خالد پر غصہ آرہا تھا۔۔،
’’ اب آپ آئینگی یا اٹھا کر لاؤں ؟ ’’ سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے عفان نے گرجدار آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ آرہی ہوں ’’ ارسا فوراً اسکے پیچھے آئی تھی ۔۔ وہ اسے لے کر دادو کے کمرے میں آیا تھا۔۔۔ جہاں حاشر دادو کے پاس بیٹھا تھا ۔۔ اسے دیکھ کر فوراً کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ گڈ مارننگ مس ارسا ’’ حاشر نے ارسا سے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ گڈ مارننگ ’’ وہ جواب دے کر اسکے ساتھ کھڑی ہوگئ تھی ۔۔
’’ دادو یہ ارسا ساجد ہیں ۔۔ میری سیکریٹری ۔۔ آج سے یہ آپکے پاس رہینگی ’’ عفان نے ارسا کی جانب اشارہ کر کے کہا تھا ۔۔ دادو بہت غور سے اپنے سامنے کھڑی اس معصوم لڑکی کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔
’’ اسلام و علیکم ۔۔ کیسی ہیں آپ ؟ ’’ ارسا نے دادو سے کہا تھا ۔۔
’’ یہاں آؤ ۔’’ دادو نے اسے اپنےپاس بلایا تھا وہ تھوڑی سی یچکچاتی ہوئی دادو کے پاس جاکر بیٹھی تھی ۔۔دادو نے اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔
’’ تم آگئ ہونا ۔۔ اب میں بلکل ٹھیک ہوں ’’ دادو کے لہجے میں محبت اور اپنائیت تھی ۔۔ارسا کے آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔ جبکہ عفان نے اس سے نظر پھیر لی تھی ۔۔
’’ ارے رو کیوں رہی ہے میری بیٹی ؟ ’’ دادو نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئےکہا تھا ۔۔
’’ ماما کی یاد آگئ تھی ’’ سر جھکاتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔ حاشر کو اسکی حالت پر ترس آیا تھا جبکہ عفان کے اندر اتنا حوصلہ بھی نہیں تھا کہ وہ اسکی جانب دیکھ سکے ۔۔
’’ ماما پاس نہیں ہیں تو کیا ہوا ؟ دادو ہیں نہ تمہارے پاس ۔۔ آج سے مجھے ہی اپنی ماما سمجھو ’’ دادو نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔ دادو کا یہ انداز عفان خالد کے لئے خطرہ تھا اس نے ایک سخت نگاہ سامنے کھڑے حاشر پر ڈالی تھی ۔۔ جس نے اسے دیکھتے ہی سر جھکا لیا تھا ۔۔ عفان خالد جان گیا تھا کہ دادو اب کسی بات سے انجان نہیں تھیں ْ۔۔
’’ آئیں مس ارسا میں آپکو آپکا روم دکھا دو ’’ حاشر نے ارسا سے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں جاؤ اپنا سامان سیٹ کرو پھر ہم ایک ساتھ کھانا کھائینگے ’’ دادو نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ جی ۔۔ اور کھانا میں خود بناؤنگی آپکے لئے ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا اور حاشر کے ساتھ کمرے سے باہر آگئ تھی ۔۔
’’ آپکو یہاں بہت احتیاط سے رہنا ہوگا مس ارسا ’’ حاشر نے ارسا کے ساتھ چلتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ’’ ارسا نے ناسمجھی سے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ یہ آپکو جلد پتہ چل جائیگا ’’ حاشر نےکہہ کر ایک روم کا دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ ارسا نے دیکھا یہ ایک شاندار کمرہ تھا جس کے فرنیچر اور والز کاکلر کامبنیشن گرے اور وائیٹ تھا ۔۔۔ ضرورت کی ہر چیز اس کمرے میں موجود تھی ۔۔
’’ آپ اپنا سامان سیٹ کر لیں میں کسی کو آپکی مدد کے لئے بھیج دیتا ہوں ’’ حاشر کہہ کر پلٹا تھا ۔۔
’’ مجھے کسی کی نیڈ نہیں ہے ۔۔ میں بس دس منٹ میں آجاؤنگی ’’ ارسا نے کہہ کر اپنا بیگ بیڈ پر رکھا تھا ۔۔ حاشر سر ہلا کر چلا گیا ۔۔
حاشر اور ارسا کے جانے بعد دادو نے اسے سخت نظروں سے دیکھا تھا ۔۔ وہ سر جھکا کر دادو کے سامنے بیٹھا تھا ۔۔۔
’’ تم سے یہ امید نہیں تھی مجھے عفان ’’ دادو اسے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ زندگی میں کبھی کچھ امید کے مطابق نہیں ہوتا ۔۔نا میرے ساتھ ہوا اور نا میں کسی اور کے ساتھ کرونگا ’’ اس نے سر اٹھا کر دادو سے کہا تھا ۔۔وہ اسکی آنکھوں میں صاف دیکھ سکتی تھیں ۔۔ انتقام کی چنگاری اسکی آنکھوں کو روشن کر رہی تھی۔۔
’’ دوسروں کی امیدوں کو توڑنے والے اپنی امیدوں سے بھی ہار جاتے ہیں ۔۔ اور یہ بات تمہیں جلد سمجھ آجائیگی ’’ دادو نے کہہ کر ناراضگی سے منہ پھیر لیا تھا ۔۔
’’ میں آفس جارہا ہوں ’’ وہ کہہ کر اٹھا اور دادو کے روم سے باہر نکلا تھا ۔۔ سامنے ہی اسے حاشر اسی طرف آتا دکھائی دیا تھا۔۔
’’ تمہیں اب آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا جبکہ حاشر اب اسکی طرف دوڑا تھا ۔۔
’’ باس پلیز ۔۔ میری بات تو سنیں ۔۔۔ دیکھیں آپ جانتے ہیں کہ میں دادو سے جھوٹ نہیں بول سکتا ’’ حاشر اسکے ساتھ چلتا ہوا کہ رہا تھا ۔۔ عفان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور فوراً ہی بھاگتے ہوئے حاشر نے بھی دوسرا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا ۔۔
’’ باہر نکلو یہاں سے ’’ عفان نے گرجتی آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ آپکو ایک اہم خبر دینی ہے ۔۔ ارسا کے گھر والوں کے بارے میں ’’ حاشر نے کہہ کر سامنے دیکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا سے متعلق ہر خبر اسکے لئے بہت اہم تھی ۔۔
’’ کیسی خبر ؟ ’’ عفان نےسامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ گاڑی آفس کے راستوں پر چل رہی تھی ۔۔
’’ آفس جانے کے بعد بتاؤنگا ’’ حاشر نے کاندھے اچکا کر کہا تھا ۔۔
’’ یہ تمہارے پر دادو سے ملنے کے بعد زیادہ نہیں نکل گئے ؟ ’’ عفان کو اس کے اس انداز پر مزید غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ آفکورس دادو کی محبت پر نکال دیتی ہے ’’ اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ آفس چلو پھر بتاتا ہوں تمہیں ’’ عفان نے دانت پیس کر کہا تھا ۔۔
’’ سوری سر بٹ پرسنل اور فروفیشنل باتوں کو مکس کرنا ہماری کمپنی کی پالیسی کے خلاف ہے ’’ حاشر نے کہتے ہوئے اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف موڑ دیا تھا ۔۔عفان خالد کو صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنی ہنسی دبانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔۔
اس نے دادو کے لئے کم مصالحوں والا کھانا بنایا تھا ۔۔ وہ ٹرے لےکر دادو کے روم کی طرف جانے لگی تھی جب گھر کی ملازمہ نے اسے دادو کےنیچے آنے کا بتایا تھا ۔۔
’’ اچھا تم کھانا لگاؤ میں دادو کو دیکھ کر آتی ہوں ’’ وہ کہہ کر دادو کے پاس گئی تھی جوکہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف آرہی تھیں ۔
’’ آپ کیوں نیچے آگئیں ؟ میں اوپر لارہی تھی نا آپکا کھانا ’’ ارسانے انہیں بازوں سے پکڑتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میری بیٹی آگئ ہے اب مجھے کیا ضرورت ہے کمرے میں بیٹھے رہنے کی؟ ’’ دادو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔ ارسا انہیں لے کر ڈائننگ ٹیبل تک آئی تھی ۔۔ دادو کو بٹھانے کے بعد اس نے ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانا لگایا اور تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کھانا کھا رہے تھے جب ارسا کو موبائیل بجا تھا ۔۔
’’ دادو کیا کر رہیں ہیں ؟ ’’ کال ریسیو کرتے ہی عفان کی آواز اسکے کانوں تک آئی تھی ۔۔
’’ کھانا کھا رہیں ہیں ’’ اس نے دادو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جو سمجھ گئیں تھیں کہ کس کی کال ہے ۔۔
’’ میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں میرا لنچ ریڈی ہو ’’ عفان نے کہہ کر کال کٹ کر دی تھی جنکہ ارسا کا منہ کھل گیا تھا ۔
’’ واٹ ؟ ’’ وہ حیران ہوکر بولی تھی ۔۔ دادو نے اسے سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا ۔۔
’’ انہوں نے کہا کہ وہ کھانا کھانے آرہے ہیں اور میں لنچ ریڈی کروں ؟ ’’ اس نے اس طرح خود کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا جیسے کہ اسےیقین نہ آرہا ہوں اپنے کانوں پر ۔۔
’’ حیرت ہے وہ آج سے پہلے کبھی کھانا کھانے گھر نہیں آیا ’’ دادو نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ اسکا مطلب یہ کہ انہوں نے واقعی مجھے سکون سے نہیں رہنے دینا ’’ ارسا نے چڑ کر کہا تھا جبکہ دادو مسکراہٹ دباتی ہوئی اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوگئ تھیں ۔۔ کھانے سے فارغ ہوکر اس نے عفان کے لئے دادو سے پوچھ کر کڑاہی بنائی تھی۔۔
عفان آکر فوراً پہلے دادو سے ملنے گیا تھا ۔۔ اسکے بعد وہ نیچے ڈائیننگ پر آیا ۔۔ جہاں ملازمہ کھانا لگا رہی تھی ۔۔ ارسا کو وہاں نہ دیکھ کر عفان کو مایوسی ہوئی تھی ۔۔ جانے کیوں اسے لگا تھاکہ ارسا اسکے لئے کھانا لگائے گی ۔۔
’’ سمجھ رہے تھے کہ میں کھانا لگاؤنگی ۔۔ ہو ’’ اوپر کھڑی ارسا نے عفان کو کھانا کھاتے دیکھ کر کہا اور اپنے روم کی طرف پلٹی تھی ۔۔ وہ ایک ایک روم کو دیکھتے ہوئے جارہی تھی ۔۔ وہ یہ تو جانتی تھی کہ اس کے ساتھ والا روم عفان کا تھا ۔۔ اسکے علاوہ ایک اور روم جو کہ کارنر پر تھا ۔۔ وہ روم کس کا تھا ؟ ایک فطری تجسس تھا جوکہ ارسا کے اندر پیدا ہوا تھا ۔۔۔ اس کے قدم خود ہی اس کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے ۔۔ اس نے اس کمرے کے لاک پر ہاتھ رکھ کر اسے گمایا تھا ۔۔ دروازہ کھلا اور ارسا نے اندر دیکھا ۔۔ وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔ مگر کچھ تھا جس نے ارسا خالد کو چونکایا تھا ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ یہ کمرہ بھی نہایت خوبصورت تھا ۔۔ اس کمرے کا وال اور فرنیچر کلر بلو اور بلیک تھا ۔۔ ارسا ساجد اس کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ وہ کتنی قیمتی ہے مگر یہ وہ چیزیں نہیں تھیں جس نے ارسا ساجد کو چونکایا تھا ۔۔ بلکہ اصل چیز تو بیڈ کے پاس رکھے ٹیبل کے اوپر رکھی تھی ۔۔ جس کی طرف ارسا ساجد کے قدم بڑھ رہے تھے ۔۔ وہ اس چیز کے پاس پہنچی تھی ۔۔ وہ ایک فریم تھا ۔۔ جس میں ایک ہنستا ہوا بچہ جسے اس کے پاپا نے گلے سے لگا رکھا تھا اور اسکی ماما اسکے گالوں پر کِس کر رہیں تھی ۔۔ کتنی خوشی تھی ان سب کے چہروں پر ۔۔۔اور اس بچے کی معصومیت ۔۔؟ ارسا ساجد نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے تھے ۔۔ اس فریم کو اٹھانے ہی لگی تھی کہ کسی نے اسے بازؤں سے پکڑ کر تیزی سے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔ وہ فوراً کسی کے چوڑے بازؤں سے جالگی تھی ۔۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔
وہ عفان خالد کے سینے سے لگی تھی ۔۔ اسکا ایک بازو اسکے ہاتھوں کی گرفت میں تھا ۔۔ وہ اپنے ہواسوں میں واپس آئی تو فوراً ہی اس سے دور ہوئی تھی ۔۔مگر وہ زیادہ دور نہیں ہوسکی ۔۔ْ کیونکہ عفان خالد نے اسکا بازو اب بھی نہیں چھوڑا تھا ۔۔ گرفت سخت تھی ۔۔ اسے تکلیف ہورہی تھی ۔۔
’’ میرا بازو چھوڑیں ’’ اس نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئےکہا تھا ۔۔
’’ کس سے پوچھ کر تم اس کمرے میں آئی ؟ ’’ ایک گرجتی آواز تھی جس پر چونک کر ارسا نے عفان کی جانب غور سے دیکھا تھا ۔۔ ایسی تپش تھی اسکی آنکھوں میں جیسے جلا کر راکھ کر دے تھا ۔۔
’’ وہ میں۔۔۔ میں ’’ وہ اسکے غصے اور اسکی گرفت پر اتنی ڈر گئ تھی کہ اسکی زبان تک الفاظ ادا نہیں کر پارہی تھی ۔۔
’’ کیا میں میں ؟ ’’ اس نے اسے پیچھے کی جانب دھکیلا تھا ۔۔وہ دیوار سے لگی تھی بازو اب بھی عفان کی گرفت میں تھا۔۔ وہ اس کےقریب تھا ۔۔ بے حد قریب۔۔ ارسا نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کی جانب دیکھا تھا اسکی آنکھیں لال ہورہی تھی ۔۔ وہ کانپ گئ تھی ۔۔
’’ تمہیں اس گھر میں دادو کی وجہ سےلایا گیا ہے۔۔۔ اپنے آپ کو اپنے اور دادو کے کمرے تک محدود رکھو ۔۔ یہ مت بھولوکہ تم یہاں ایک ملازمہ بن کر آئی ہو۔۔ اپنے آپ کو اس گھر کی مالکن سمجھنے کی غلطی مت کرنا ۔۔ آئیندہ اگر تم مجھے اپنے اس گھر کے کسی بھی کونے میں گھومتی ہوئی نظر آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ’’ اس نے ارسا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا ۔۔ ارسا اپنی جگہ جم سی گئ تھی ۔۔ ایک خوف تھا جو اس وقت اسے اس شخص سے محسوس ہورہا تھا ۔۔ عفان نے ایک جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا تھا وہ گرتی گرتی سنبھلی تھی ۔۔ خود کو سنبھال کر وہ فوراً دوڑی تھی ۔۔ اسے لگا جیسے وہ شخص اسکے پیچھے آرہا ہو ۔۔ اسے لگا جیسے اگر وہ اس شخص سے دور ناہوئی تو ختم ہوجائیگی ۔۔ وہ اپنے کمرے میں آئی تھی ۔۔ اس نے فوراً دروازہ لاک کیا اور اسی دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئ ۔۔ اسکا دل زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔اسے زندگی میں پہلی بار کسی شخص سے خوف محسوس ہوا تھا ۔۔ اس کے کانوں میں حاشر کی آواز گونجی تھی ۔۔
’’ آپکو یہاں بہت احتیاط سے رہنا ہوگا مس ارسا ’’ اسے اب سمجھ آیا تھا کہ حاشر نے اس سے یہ بات کیوں کی تھی ۔۔
وہ اس نئے گھر میں آگئیں تھی ۔۔ یہ انکی مجبوری تھی ۔۔ ماں جب بوڑھی ہوجاتی ہے تو وہ اولاد کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ۔۔ اور آج صائمہ بیگم بھی اپنی اولاد کے رحم و کرم پر تھیں ۔۔۔ یہاں سب نارمل تھے ۔۔ نیشا اپنے ماں باپ کے شہر میں واپس آگئ تھی ۔۔ اس لئے ساحل کے چلے جانے کے بعد وہ اپنے میکے چلی جاتی تھی۔۔ پیچھے صائمہ بیگم اکیلی رہتی تھی ۔۔ زندگی بس اسی طرح چل رہی تھی ۔۔ وہ تنہا اس پورے گھر میں بیٹھیں ارسا کے متعلق ہی سوچا کرتی تھیں۔۔پہلے تو ایک امید تھی کہ وہ ارسا کو دیکھ سکے ۔۔شاید کہیں اس سے مل سکے ۔۔ مگر اب ؟ وہ شہر چھوڑ دینے کے بعد ؟ ارسا سے ملنے کی امید کم ہوگئ تھی ۔۔
اس وقت بھی وہ نماز پڑھنے کے بعد دعا کر رہی تھیں ۔۔ انکی دعاؤں کا مرکز صرف اور صرف ارسا تھی ۔۔ وہ اس سے ملنے کی وعائیں کر رہیں تھی ۔۔ ساتھ ہی اپنی خطاؤں کی معافی بھی ۔۔
ضروری نہیں کہ آپکی زندگی میں آنے والےمسائل آزمائش ہی ہوں ۔۔ کبھی کبھی پچھلی خطاؤں کی سزا بھی ان تکالیف کی
صورت میں ملتی ہے ۔۔ مگر انسان یہ بات سمجھ نہیں پاتا ۔۔ اور جب انسان کو خود اپنی خطاؤں کا احساس نہیں ہوتا تو پھر قدرت اسے احساس دلاتی ہے ۔۔ اور جب قدرت احساس دلاتی ہے تو یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔۔
آج وہ بھی اسی تکلیف سے گزر رہیں تھیں ۔۔ آج انہیں بھی کچھ خطائیں یاد آرہی تھیں ۔۔
شام ہوگئ تھی اور ارسا اب تک اپنے کمرے میں بند تھی ۔۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ جب تک وہ شخص یہاں سے جاتا نہیں وہ تب تک کمرے سے باہر نہیں نکلے گی ۔۔ اب بھی وہ آٹھ بجے کمرے سے باہر نکلی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عفان کی فلائیٹ آٹھ بجے کی تھی تو اب تک تو وہ جاچکا ہوگا ۔۔ باہر آتے ہی اس نے ملازمہ سے عفان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ جاچکے ہیں ۔۔ ارسا نے ایک سکون کا گہرا سانس لیا اور دادو کے کمرے کی جانب گئ ۔۔
’’ میں اندر آجاؤں ؟ ’’ اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر دادو سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آجاؤ ۔۔ تمہیں اندر آنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے ’’ دادو نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ضرورت تو ہے دادو ۔۔ آخر میں ہوں تو ایک آؤٹ سائیڈر نہ’’ ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے دادو سے کہا اور انکے پاس آگر بیٹھ گئ ۔۔ دادو نے بہت غور سے اسکی جانب دیکھا تھا جیسے وہ اسکا چہرہ پڑھنا چاہ رہیں ہوں اور جاننا چاہ رہی ہوں کہ آخر اسکی اس بات کا مطلب کیا تھا ؟
’’ تمہاری بات ہوئی عفان سے ؟ ’’ دادو نے اسکی جانب دیکھتے پوچھا تھا ۔۔
’’ کس بارے میں ؟ ’’ ارسا دادو کی بات کا مطلب نہیں سمجھی تھی ۔۔
’’ مطلب وہ جاچکا ہے تو کیا تمہاری ملاقات نہیں ہوئی اس سے جانے سے پہلے۔۔ دوپہر کو کھانا تم نے ہی بنایا تھا نہ اس کے لئے ؟ ’’ دادو نے عام سے انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ جی میری ملاقات ہوئی تھی ۔۔ دوپہر میں ان سے ’’ ارسا کو اب دوپہر والی بات یاد آئی تھی ۔۔ اس کے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے ۔۔ اس نے اپنی گردن جھکا لی تھی ۔۔
’’ پھر کیا کہا اس نے تم سے ؟ ’’ دادو نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ کچھ خاص نہیں ’’ ارسا انہیں اب کیا بتاتی ؟
’’ دیکھو ارسا ’’ دادو نےا سکا ہاتھ تھاما تھا ’’ میں نے تمہیں بیٹی کہا نہیں ہے ،، میں تمہیں بیٹی مانتی ہوں۔۔ اور اگر اب تم مجھے دادو کہہ رہی ہوتو تمہیں اپنی اس دادو سے کچھ نہیں چھپانا چاہئے ۔۔۔ جس طرح میں اس کی دادو ہوں اسی طرح تمہاری بھی ہوں’’ دادو کی بات پر ارسا کو حوصلہ ملا تھا ۔۔ اور اس نے سر جھکا کر دوپہر کو ہونے والی ساری بات دادو کو بتادی تھی۔۔
’’ مجھے سمجھ نہیں آیا دادو ۔۔ انہیں اتنا غصہ کس بات پر آیا تھا ؟ ’’ ارسا نے دادو کو دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ آؤ میرے ساتھ ’’ دادو نے کھڑے ہوتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ کہاں ؟ ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ ابھی معلوم ہوجائیگا ’’ دادو اب اپنے کمرے سے نکل کر دائیں جانب مڑی تھیں ۔۔ ارسا بھی انکے پیچھے پیچھے آئی تھی۔۔ اس نے دیکھا کہ دادو اسی کمرے کی جانب جارہی تھیں ۔۔ ارسا کے قدم رک گئے تھے ۔۔
’’ میں وہاں نہیں جاؤنگی ’’ اسکی آواز میں خوف تھا ۔۔ دادو نے اسے پلٹ کر دیکھا ۔۔
’’ تم وہاں جانہیں رہی ارسا ۔۔ تمہیں میں لے کر جارہی ہوں ’’ دادو نے کہہ کر دوبارہ اس کمرے کی جانب قدم بڑھائے تھے ،، اب کی بار ارسا انکے پیچھے آئی تھی ۔۔۔ کمرے کا دروازہ دادو نے کھولا اور اندر آگئ ارسا بھی انکے پیچھے اس کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔
’’ یہ کس کا کمرہ ہے ؟ ’’ ارسا نے ایک اور مرتبہ اس کمرے کو چاروں اور سے دیکھ کر پوچھا تھا ۔
’’ عفان کے والدین کا ’’ دادو کی بات پر اس نےچونک کر انکی جانب دیکھا تھا جو اب اسی فریم کو اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئیں تھیں ۔۔
’’ انکے والدین ؟ ’’ ارسا پوچھنا چاہتی تھی مگر اسے الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے یہ پوچھنا چاہئے یا نہیں ۔۔ آخر کچھ بھی ہو وہ اس گھر میں صرف اپنی جاب کے لئے آئی تھی ۔۔
’’ عفان کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے ’’ دادو نے اسکے ادھورے سوال کا جواب دیا تھا ۔۔
’’ کب ؟ ’’ وہ دادو کے پاس نہیں آئی تھی ۔۔ وہ وہی کھڑی تھی ۔۔ شاید کہیں نا کہیں اب بھی اندر سے وہ ڈری ہوئی تھی۔۔
’’ جب وہ بارہ سال کا تھا ۔۔ اسکے والدین کی ڈیتھ کا اس نے بہت اثر لیا تھا ۔۔ جانتی ہو وہ پورے ایک سال تک ڈیپریشن میں رہا تھا ۔۔ بلکل خاموش ۔۔ اکیلا رہنے والا ۔۔ اسے کسی سے ملنا ۔۔ یا کسی سے بات کرنا پسند نہیں تھا ۔ اس نے اپنے تمام دوستوں کو بھی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ اور اس نے آج تک کسی کو اپنا دوست نہیں بنایا ۔۔ وہ آج تک اکیلا ہے ’’ دادو اس فریم کر ہاتھ پھیرتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔۔ آنسو انکی آنکھوں سے گررہے تھے ۔۔ ارسا نے دادو کی جانب قدم بڑھائے اور انکے پاس آکر بیٹھی تھی ۔۔
’’ میں سمجھ سکتی ہوں۔۔ ماں باپ کا اس طرح ہمیشہ کے لئے دور چلے جانا کسی اولاد کو توڑ سکتا ہے ’’ ارسا نے دادو کے ہاتھ سے فریم لے کر واپس اسکی جگہ پر رکھا تھا ۔۔
’’ مگر وقت کہ ساتھ ساتھ وہ اولاد آگے بھی تو بڑھ جاتی ہے ۔، مگر عفان آج بھی وہی ہے ۔۔ وہ وہی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں اس کے باپ کی موت ہوئی تھی ۔۔ وہ آج تک آگےنہیں بڑھا ’’ دادو نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئےکہا تھا ۔۔
’’ انکے والدین کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی دادو ؟ ’’ ارسا نے ایک سوال کیا تھا ۔۔ دادو خاموش ہوگئ تھیں ۔۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ارسا کو اسکا کیا جواب دیں ۔۔ سچ کہیں یا نہیں ۔۔
ارسا نے کافی دیر دادو کے جواب کا انتطار کیا تھا مگر دادو کی طرف سے مسلسل خاموشی کے بعد وہ سمجھ گئ تھی کہ دادو اسے اس بارے میں بتانا نہیں چاہتیں ۔۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے وہ دادو سے مزید سوال نہیں کر سکتی تھی ۔۔ اس نے دادو کا ہاتھ پکڑا تھا ۔۔
’’ چلیں اپنے کمرے میں چلیں ۔۔ پھر کھانا کھاتے ہیں ’’ ارسا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں چلو ’’ دادو نے اپنے آنسو صاف کر کے کہا اور پھر وہ دادو کو انکے کمرے میں چھوڑ کر کچن میں انکے لئے کھانا لینے آگئ ۔۔ ابھی وہ کھانا ٹرے لگا کر دادو کے کمرے کی جانب جارہی تھی کہ حاشر اس کے سامنے آیا تھا ۔۔
’’ آپ آج کہاں تھیں مس ارسا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ۔۔ میں صبح آپکے سامنے تو یہاں آئی تھی ’’ ارسا کو حاشر کے سوال کا مقصد سمجھ نہیں آیا تھا ۔
’’ آپ جانتی تھیں کہ باس نےجانا ہے تو آپ کیوں نہیں آئیں نیچے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور ارسا کو اب غصہ آیا تھا ۔۔ بھلا اسکا آنا اتنا کیوں ضروری تھا کہ پہلے دادو اور اب حاشر اس سے یہی بات پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ میرا آنا اتنا ضروری تو نہیں تھا مسٹر حاشر ۔۔ میں مصروف بھی ہوسکتی ہوں ’’ اس کے دوٹوک جواب پر حاشر چونکا تھا ۔۔
’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر باس آپکا انتظار کر رہے تھے ’’ حاشر کی بات پر ارسا کو حیرانگی ہوئی تھی ۔۔
’’انہیں اسکی ضرورت نہیں تھی ’’ اسے جواب دے کر وہ دادو کے کمرے کی جانب چل پڑی تھی ۔ حاشر نے اسے پلٹ کر جاتے دیکھا تھا ۔۔
’’ لگتا ہے باس نے پھر کوئی کارنامہ کیا ہے ’’ اپنے آپ سے کہہ کر حاشر سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا ۔۔
جانے رات کاکون سا پہر تھا جب اسکا موبائیل بجا تھا ۔۔وہ گہری نیند میں تھی ۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر کال کٹ کی تھی ،، مگر اگلے ہی پل اسکا موبائیل دوبارہ بجا تھا ۔۔ اس اسے غصہ آیا تھا ۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ محد کو بتا چکی تھی کہ وہ ٹھیک ہے پھر اب وہ کیوں اسے کال کر رہا ہے ؟
’’ کیا ہے محد ۔۔ سونے دو مجھے ’’ اس نے بنا دیکھے کال ریسیو کرکے موبائیل کانوں سے لگایا تھا ۔۔
’’ تو آپکو نیند میں بھی محد کے خیال آتے ہیں ‘‘ ایک سنجیدہ اور کاٹتی ہوئی آواز تھی ۔۔ اور ارسا ساجد اس آواز کو پہچانتی تھی۔۔ صرف دوسیکینڈ لگے تھے ارسا کی نیند اڑنے میں ۔۔
’’ سر ۔۔ آ ۔۔ آپ ؟ ’’ وہ حیران تھی،، اس نے سامنے دیکھا رات کے دو بج رہے تھے ۔۔
’’ جی میں ۔۔ اور مجھے آج معلوم ہوا کہ آپکو اس ٹائم میرے علادہ بھی کوئی کالز کر سکتا ہے ’’ عفان کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ غصے میں تھا ۔۔ایک تو یہ لڑکی جس کی وجہ سے وہ پورا دن پریشان رہا تھا ۔۔ یہ سوچ سوچ کر کہ اس نے ارسا کےساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا ۔۔اسے خود پر افسوس ہورہا تھا ۔۔ اور پھر جانے کے آخری لمحے تک وہ اسکا روم سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا پر وہ نہیں نکلی تھی ۔۔ اسے لگا کہ وہ اس سے بے حد ناراض ہے ۔۔۔ پورا دن وہ اس کے لئے پریشان رہا اور دبئی پہنچ کر اس نے سب سے پہلی کال اس لڑکی کو کی جو اس وقت بھی محد کو یاد کر رہی تھی ۔۔ عفان کو دماغ گھومنے لگا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ میں سمجھی نہیں ’’ ارسا کو واقعی اسکی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔
’’ مطلب یہ کہ وہ محد تمہیں اتنی رات کو کیوں کالز کرتا ہے ؟ ’’ وہ فوراً ہی آپ سے تم پر آیا تھا ۔۔
’’ وہ نہیں کرتا ۔۔ یہ کام صرف آپ کرتے ہیں ۔۔ ویسے بھی وہ ایک سمجھدار انسان ہے اور اسے اچھے سے معلوم ہے کہ اس ٹائم کسی بھی لیڈی کو کال نہیں کی جاتی ’’وہ بھی ارسا ساجد تھی ۔۔
’’ ہاں اس ٹائم صرف اپنی لیڈی کو کال کی جاتی ہے ’’ عفان خالد نے بھی ایک بہترین جواب دیا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ ارسا ساجد اسکی اس بات کا کوئی بھی صحیح یا غلط مطلب نہیں نکال سکی تھی ۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ تم کہاں تھی سارا دن ؟ سی آف کرنے کا بھی خیال نہیں آیا ’’ اسے اب اپنی ناراضگی کا خیال آیا تھا۔
’’ مجھے کسی نے کہا تھا کہ میں خود کو اپنے کمرے تک محدود رکھو۔۔۔ تو میں وہی کر رہی تھی عفان سر ’’ ارسا کا طنز عفان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لایا تھا ۔۔
’’ تو آپ اتنی فرمانبردار ہیں اس کسی کی ’’ وہ تھکا ہوا تھا مگر اب ارسا سے بات کر کے اسکی ساری تھکان جیسے دور ہورہی تھی۔۔
’’ مجبوری ہے ’’ ارسا نے کاندھے اچکا کر کہا تھا ۔۔ اس شخص پر اسے غصہ تھا مگر دادو سے بات کرنے کے بعد اس کے دل میں عفان کے لئے نرمی پیدا ہوگئ تھی ۔۔
’’ اور ایسی مجبوریاں تمہیں ساری زندگی رہیں گیں ’’
’’ صرف ایک سال رہے گی ۔۔۔ اور اس میں سے ایک مہینہ گزر چکا ہے ’’ ارسا نے اسے یاد دلایا تھا ۔۔
’’ گیارہ مہینے باقی ہیں اور کسے پتہ کہ یہ گیارہ مہینے کبھی ختم ہی نہ ہوں ؟ ’’ عفان خالد نے معنی خیز انداز میں کہا تھا اور اس بار ارسا ساجد اسکی بات کا مطلب سمجھ رہی تھی ۔۔
’’ اور کسے پتہ کہ یہ گیارہ مہینے گیارہ ہفتوں میں ختم ہوجائیں ’’ ارسا نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ’’ عفان کو جیسے یقین تھا ۔۔
’’ کیوں نہیں ہوسکتا ؟ ’’
’’ کیونکہ عفان خالد کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ’’ اسکے لہجے میں غرور تھا ۔۔
’’ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا سر ۔۔ کبھی کبھی وہ ہوجاتا ہے جو آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا ’’ ارسا کی بات پر وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ اسلئے تو میں سوچتا نہیں ہوں ۔۔ جوچاہتا ہوں وہ کر گزرتا ہوں’’
’’ اور اس لئے آپ بعد میں پچھتاتے بھی ہیں’’ ارسا کی بات پرعفان خالد کے چہرے پر الجھن آئی تھی ۔۔
’’ میں نہیں پچھتاتا’’ اسے خود اپنے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ اچھا ۔۔۔ مجھے ایسا نہیں لگتا ’’ ارسا نے مسکراہٹ دباتے ہوئےکہا تھا ۔۔
’’ آپ کو کچھ زیادہ ہی لگ رہا ہے ۔۔ سوجائیں آپ ’’ اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی ۔۔ اسے ارسا ساجد کا انداز آج کچھ بدلا سا لگ رہا تھا ۔۔ وہ اس سے اس طرح تو بات نہیں کرتی تھی ۔۔۔ پھر آج وہ اس سے ایسے کیسے بات کر رہی تھی کہ جیسے وہ اسے بہت اچھے سے جانتی ہو ؟
’’ نہیں ارسا ساجد ۔۔ تم مجھے کبھی نہیں جان سکتی ۔۔ عفان خالد کبھی نہیں پچھتایا ۔۔ عفان خالد کبھی نہیں پچھتائے گا’’ عفان نے کہہ کر کمرے کی لائیٹ آف کی تھی ۔۔ وہ پورے دن کی روٹین سے تھک گیا تھا ۔۔ اب وہ سونا چاہتا تھا۔۔ اب وہ سکون سے سونے لگا تھا ۔۔ مگر سکون ؟ وہ سونے سے کہاں ملتا ہے ؟ اور عفان خالد کو آج کے بعد سکون نہیں ملنے والا تھا ۔۔وہ ناچاہتے ہوئے بھی سوچتے لگا تھا ۔۔ ارسا ساجد کے بارے میں ۔۔ اس کے ساتھ کئے گئے سلوک کے بارے میں ۔۔ عفان خالد نے بے سکونی سےت آنکھیں بند کی تھیں ۔۔
عفان کی کال کٹ کر دینے کےبعد ارسا نے مسکرا کر اپنا موبائیل سائیڈ پر رکھا تھا ۔۔ اسکی نیند اڑ گئ تھی ۔۔ مگر وہ بے سکون نہیں تھی ۔۔ وہ سکون سے لیٹی اب اپنے س باس کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔ جو آج ناجانے کیوں اسے اچھا لگا تھا ۔۔ آج دادو سے بات کرنے کے بعد عفان خالد پر آنے والا غصہ ۔۔ وہ ناراضگی ۔۔سب ختم ہوگئ تھی ۔۔ اور اب ۔۔ اب ارسا ساجد کو عفان خالد کو سمجھنا ۔۔ اسے جاننا اور اسے سوچنا سب سے اہم کام لگ رہا تھا ۔۔ اسے عفان خالد کا اصل جاننا تھا ۔۔ وہ سکون سے لیٹی اسی بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔ اس نے بھی اپنے پاپا کو کھویا تھا ۔۔ وہ بھی اپنی ماں سے دور تھی ۔۔ وہ عفان خالد کا احسان سمجھ سکتی تھی ۔،۔ وہ سمجھ رہی تھی ۔۔ اور اسی سمجھ میں اسے اس شخص سے ہمدردی ہورہی تھی ۔۔ ارسا ساجد اسکی ہمدرد بننے جارہی تھی ۔۔ا رسا ساجد اسے اس غم کو بھلانے میں مدد دینے جارہی تھی ۔۔ اور کہتےہیں کہ ہمدردی محبت کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے ۔۔ تو کیا ارسا ساجد محبت کرنے جارہی تھی ؟؟؟ اس نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔