وہ اس وقت آفس سےگھر آیا اور سیدھا اپنی دادو کے کمرے کی جانب گیا تھا ۔ دادو اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹھی تھیں ۔۔
’’ آگئ تمہیں اپنی دادو کی یاد ؟ ’’دادو نےاسے کمرے کے اندر آتے دیکھ کر کہا تھا۔
’’ آپ کی نہیں تو اور کس کی یاد آئے گی ’’ مسکرا کر کہتا وہ دادو کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔
’’ پانچ دن بعد شکل دکھائی ہے ۔۔ پانچ دن تک کس کی یادوں میں گم تھے ’’ دادو نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ میں نےکس کی یادوں میں گم ہونا ہے دادو ۔۔ بس کام کا برڈن بہت زیادہ تھا ’’ صوفے پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر اس نے کہا تھا ۔۔ دادو نے دیکھا وہ واقعی بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔۔
’’ اتنا کام مت کیا کرو ۔۔ اپنی صحت کا خیال بھی رکھا کرو ’’ دادو اسکے پاس آکر بیٹھی ، ہاتھ اسکے بالوں پر پھیرا تھا جو اسکے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔
’’ محنت تو کرنی ہوتی ہے نا دادو ، کامیابی بنامحنت کے تھوڑی ملتی ’’ اس نے ہلکی آواز میں کہا تھا ۔۔ اسے شاید نیند آرہی تھی۔۔
’’ مگر تم نے تو خود کو ایک مشین بنارکھا ہے ۔۔ جب سے تمہارے بابا کا انتقال ہوا ہے تم دن رات کمپنی میں لگا دیتے ہو۔۔ اپناکوئی خیال ہی نہیں ہے ’’ دادو کو اس سے ہمیشہ یہی شکوہ رہتا تھا ۔۔ وہ ساتھ رہتے تھے مگر اس کے باوجود اس سے انکی ملاقات دو تین دن بعد ہوتی تھی ۔۔
’’ مجھے اس کمپنی کو بہت بلندی تک لے کر جانا ہے دادو ۔۔ یہ بابا کی خواہش تھی ’’ اس نے بند آنکھوں کے ساتھ کی کہا تھا ۔۔
’’ تمہارے بابا کی خواہشوں میں ایک خواہش تمہاری خوشی بھی تھی ۔۔ تم وہ پوری کیوں نہیں کرتے ہو ؟ ’’ دادو اب ہمیشہ کی طرح وہی بات کر آرہی تھیں جو وہ اکثر اس سے کہا کرتی تھیں ۔۔
’’ دادو پلیز ۔۔اب دوبارہ وہ بات شروع مت کیجئےگا ’’ اس نے آنکھیں کھول کر سیدھے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔
’’ تم میری باتوں سے بھاگتے ہو مگر میں تمہاری جان تب تک نہیں چھوڑونگی جب تک تم میری خواہش پوری نہیں کرتے ۔۔۔ بھئ میں بور ہوجاتی ہوں پورا دن اس گھر میں اکیلی ۔۔ کوئی مجھ سے بات کرنے والا نہیں ہے ’’
’’ آپ فکر مت کریں آپکا دل بہلانے کے لئے میں کسی کو رکھ لونگا ’’ اس نے جیسے مسئلہ حل کیا تھا ۔۔
’’ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہاری شادی کی بات کر رہی ہوں ’’ دادو نے اب اسے گھورا تھا۔
’’ اور آپ بھی جانتی ہیں کہ میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ’’ وہ کہہ کر فوراً کھڑا ہوا تھا ۔
’’ آپ آرام کریں ۔۔ میں بھی اپنے کمرے میں جارہا ہوں ’’ وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا اور دادو اسے افسوس سے جاتا دیکھ کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئیں تھیں ۔۔
آج کافی دنوں بعد وہ یونیورسٹی آئی تھی ۔۔ محد اسے ڈراپ کرکے چلا گیا تھا ۔۔
اس وقت وہ اپنی فرسٹ کلاس لے کر باہر نکلی تھی جب اسکے گروپ کی تین لڑکیاں اسکے پاس آئیں تھیں ۔۔
’’ ارسا ’’ انہوں نے اسےپکارا تھا ۔۔ ارسا نے پلٹ کر انہیں دیکھا اور رک گئ ۔۔
’’ خیریت ہے ؟ تم کافی دنوں بعد آئی یونیورسٹی ؟ ’’ ایک لڑکی نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں بس کچھ پرسنل اشوز ہوگئے تھے ’’ ارسا نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
’’ اچھا ۔۔ اب سب ٹھیک ہے نا ؟ ’’ ایک اور لڑکی نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں اللہ کا شکر ’’ آنکھوں میں اداسی تھی ۔۔ وہ جانتی تھی کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے مگر وہ کسی کو بھی اپنا مسئلہ نہیں بتا سکتی تھی ۔۔
’’ چلو اچھا ہے وہ ایکچولی ہم نے تمہیں بتانا تھا کہ اس سیمیسٹر کی فیس جمع کروانی ہے ۔۔ اور پرسوں لاسٹ ڈیٹ ہے ’’ ایک لڑکی نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ پرسوں ؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھی اور پریشان بھی ۔۔ سیمیسٹر کی تیاری تو دور وہ تو بھول ہی گئ تھی کہ امتحان شروع ہونے والے تھے ۔۔
’’ ہاں ۔۔ لیکن تم پریشان مت ہو کل یا پرسوں جمع کروا دینا ’’
’’ تھینک یو فار اسفارمیشن ’’
’’ یور ویلکم ’’ وہ مسکرا کر کہتی اب آگے بڑھ گئ تھی اور ارسا کو اب ایک نئی ٹینشن لگ گئ تھی ۔۔ اس کے پاس تو پیسے کم ہی رہ گئے تھے اور پھر اب سیمسٹر کی فیس ؟ اسے بینک جانا تھا۔۔
محد کو اس نے مسیج کر کے بتا دیا تھا کہ وہ یونیورسٹی سے کسی کام سے کہیں جارہی تھی اس لئے وہ اسے لینے نا آئے ۔۔ محد کوئی اندازہ نہیں لگا پارہا تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے ۔۔ مگر اسکے ڈیپارٹمنٹ پر آکر اسے یہ ضرور معلوم ہوگیا تھا کہ اس نے سیمیسٹر کی فیس جمع کروانی ہے ۔۔ اس نےارسا کو کال کی مگر اس نے اسکی کال ریسیو نہیں کی تھی ۔۔ اس لئے اب وہ بس انتظار کر رہا تھا اسکی واپسی کا ۔۔
ارسا اپنی کلاسس اٹینڈ کرنے کے فوراً بعد بینک آئی تھی مگر وہاں بے حد رش تھی ۔۔ وہ اب لوگوں کی بھیڑ میں اپنے نمبر کا انتظار کررہی تھی ۔۔ رش کی وجہ سے اسکا نمبر ایک گھنٹے بعد آیا تھا ۔۔ وہ اپنا چیک اٹھا کر کاونٹر پر گئ تھی ۔۔
’’ مجھے یہ کیش کرواناہے ’’ اس نے کاونٹر پر موجود شخص سے کہا جس نے اس سے چیک لیا اور اب وہ اپنے کمپیوٹر پر کچھ چیک کر رہا تھا ۔۔
’’ آپکا اکاونٹ تو خالی ہے مس ارسا ’’ کاونٹر پر موجود شخص نے اس سے کہا تھا اور ارسا چونک گئ تھی ۔۔
’’ خالی ہے ؟ ’’ اس نے دوبارہ پوچھا تھا اسے لگا شاید اسے سننےمیں کوئی غلطی ہوئی ہے ۔۔
’’ جی مس آپکے اکاونٹ میں صرف پانچ ہزار روپے موجود ہیں ’’
’’ ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔ آپ دوبارہ چیک کریں پلیز ’’ ارسا نے اس شخص سے کہا تھا ۔۔ وہ اس وقت صدمے کی حالت میں تھی ۔۔۔
’’ میڈم میں چیک کر چکا ہوں ۔۔ آپکے اکاونٹ میں اماونٹ نہیں ہے ’’ اس شخص نے دوبارہ اس سے وہی بات کی اور چیک اسکی طرف واپس بڑھایا تھا ۔۔ اس نے وہ چیک واپس لیا اور پلٹی ۔۔
اسکا ایک ایک قدم اسکے لئے بے حد بھاری ہورہا تھا ۔۔ اسے اچھے سے یاد تھا کہ اکاونٹ میں بھائی ہمیشہ اسکی تعلیم اور باقی خرچے کے لئے پیسے بھجواتے تھے اور یہ بھائی اور اسکا جوانٹ اکاونٹ تھا ۔۔ ایک بات نے اسے چونکایا تھا ۔۔ وہ حیرانگی کی انتہاہ پر تھی ۔۔ وہ صدمے ، پریشانی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں تھی اور اسی کیفیت میں اس نے واپسی کا سفر کیا تھا ۔۔۔
وہ بے حد غصے کی حالت میں تھا ۔۔ اپنے کمرے میں پہنچ کراس نے چاروں طرف دیکھا تھامگر نیشا اسے کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔۔ اب اس نے کچن کا رخ کیا اور اسے نیشا وہاں مل گئ تھی ۔۔ اس نے نیشا کو بازو سے پکڑا اور اپنے کمرے کی جانب لے جانے لگا ۔۔۔
’’ کیا ہوا ساحل؟ بازو چھوڑیں میرا ’’ نیشا نے کہا مگر وہ اسکی سن نہیں رہا تھا ۔۔ اسے کمرے میں لاکر اسنے دروازہ بند کیا تھا اور شعلہ برساتی نظروں سے اسے دیکھ رہاتھا ۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ نیشا اسے اس قدر غصے میں دیکھ کر گھبرا گئ تھی۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ ساحل نے اسکے سامنے ایک پیپر لہرایا تھا ۔۔ نیشا نے دیکھا وہ اسکے اے۔ٹی۔ایم کی سلپ تھی ۔۔ نیشا کی آنکھیں کھلی رہ گئ تھیں ۔۔
’’ یہ ان کے ہاتھ کیسے لگ گئ ؟ ’’ نیشا نے سوچا تھا مگر وہ اس سے پوچھ نہیں سکتی تھی ۔۔
’’ کیا ہے یہ ؟ ’’ نیشا نے گھبراتےہوئے کہا تھا ۔۔
’’ زیادہ معصوم مت بنو نیشا ۔۔۔ کہاں سے آئے تمہارےپاس اتنے پیسے ؟ ’’ ساحل نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ساحل یہ ۔۔۔ وہ ’’ نیشا کو فوراً کوئی بہانہ نہیں سوجھ رہا تھا ۔۔
’’ کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ؟ بتاؤ مجھے کس نے دیئے ہیں تمہیں اتنے پیسے ’’ ساحل اب اس پر چلایا تھا ۔۔
’’ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ساحل ۔۔ مجھے کون دیگا پیسے ؟ ’’ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تو پھر یہ پیسے کیا جنات نے جمع کروائے ہیں تمہارے اکاؤنٹ میں ؟ ’’
’’ ایسی بات نہیں ہے ۔۔ یہ میرے پیسے نہیں ہیں ۔۔ میری ایک دوست نے امانت رکھوائی ہے ’’ نیشا کو اس وقت جو بھی سمجھ آرہا تھا وہ کہہ رہی تھی ۔۔
’’ اچھا ۔۔ اور ایسی کونسی دوست ہے جو اتنی امیر ہے کہ اس نے تمہیں پانچ لاکھ روپے انعام میں دیئے ہیں ؟’’ ساحل نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ اب آپ میری ہر دوست کو تھوڑی جانتے ہیں ساحل ۔۔ وہ شہر سے باہر گئ ہے تو اس نے میرے پاس پیسے رکھوادیئے ’’ نیشا نے اب خود کو نارمل ظاہر کر کے کہا تھا ۔۔
’’ ایک بات یاد رکھنا نیشا ’’ ساحل نے ایک قدم اسکی طرف بڑھایا تھا ۔
’’ اگر مجھے کبھی یہ معلوم ہوا کہ تم نے کچھ ایسا کیا ہے جو تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا ۔۔ تو میں تمہیں چھوڑونگا نہیں’’ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ساحل نے کہا تھا ۔۔
’’ جی ’’ نظریں جھکا کر اس نے بس اتنا ہی کہا تھا ۔۔ اسے ساحل کی نظروں سے ڈر لگ رہاتھا ۔۔ اسے اس سے خوف آرہا تھا ۔۔ ساحل کمرے سے گیا تو اس نے ایک لمبی سانس لی تھی ۔۔
’’ کیا ضرورت تھی مجھے بینک میں پیسے رکھنے کی ۔۔ اچھا ہوتا کے امی کو بھجوا دیتی ’’ اس نے اپنے آپ کو کوسا تھا۔۔ مگر اسے سکون بھی تھا کہ ساحل نے اسکی بات پر یقین کرلیا ہے ۔۔۔
اسکا ارسا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔۔ صبح سے دوپہر اور اب دوپہر سے شام ہوگئ تھی مگر ارسا اسکا فون نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔ وہ اب پریشان ہوکر اسکے فلیٹ آیا تھا ۔۔ اس نے بیل کی تھی ۔۔ اور پھر تیسری بیل پر ارسا نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ اس نے دیکھا اسکی آنکھوں میں کچھ تھا ۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ غور کرتا ۔۔ ارسا پلٹ کر اندر چلی گئ تھی ۔۔ وہ اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے ارسا کی جانب آیا۔۔ جو اب ٹی وی لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔۔ اسکی نظریں سامنے ٹی وی پر تھیں ۔۔ مگر وہ ٹی وی دیکھ نہیں رہی تھی ۔۔ وہ بہت خاموش تھی ۔۔ اسے یہ خاموشی اشارہ دے رہی تھی۔۔ کسی اور طوفان کا ۔۔۔ اس نے ارسا کے پاس جانے کے بجائے کچن کا رخ کیا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آیا تو اسکے ہاتھ میں ٹرے اور اس میں چائے کے دو کپ تھے ۔۔ اس نے ٹرے ارسا کے سامنے رکھی اور چائے کا کپ اسکی طرف بڑھایا ۔۔ ارسا نے کپ لے لیا تھا ۔۔ محد نے سکون کا سانس لیا۔
’’ اسکا مطلب کہ طوفان کی شدت کم ہے ’’ محد نے مسکرا کر کہتے ہوئے اپنا چائے کا کپ اٹھایا اور اسکے سامنے بیٹھ گیا ۔۔
’’ طوفان تو طوفان ہوتا ہے محد ۔۔ چاہے اسکی کتنی ہی شدت ہو ۔۔ اس سے کیا فرق پڑھتا ہے ’’ ارسا نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔ محد اسکی بات پر ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔
’’ ایسا نہیں ہے ارسا ۔۔ طوفان تو طوفان ہوتا ہے مگر اسکی شدت ہی اسے خطرناک بناتی ہے ۔۔ اگر زندگی میں آئے طوفان کی شدت زیادہ ہو تو انسان زندہ ہوکر بھی زندہ نہیں رہ پاتا’’ محد کے چائے کا ایک گھونٹ بھرا تھا ۔۔
’’ اور اگر کم ہو تو ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ اگر شدت کم ہو تو انسان کو سنبھلنے میں صرف چند لمحے لگتے ہیں ’’
’’ اور یہ کیسے معلوم ہوگا کہ زندگی میں آیا طوفان کتنی شدت لے کر آیا ہے ؟ ’’
’’ زندگی میں آنے والے وہ طوفان جو آپکو زخمی کرکے آپکو پہلے سے زیادہ مضبوط بنا لیتے ہیں ۔۔ان میں اتنی شدت نہیں ہوتی ۔۔۔ شدت تو صرف ان طوفانوں میں ہوتی ہے جو آپکی روح کو زخمی کر دیں کیونکہ روح کے زخم انسان کو کبھی سنبھلنے نہیں دیتے ’’ محد نے اسکی آنکھوں مین دیکھتے کہہ رہا تھا ۔۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ ارسا کی آنکھوں میں صرف خاموشی تھی ۔۔
’’ اور اگر کبھی روح کو زخم لگ جائے تو کیا کریں ؟ ’’
’’ تو پھر روح بنانے والے اور اسے آپکو سونپنے والے سے فریاد کریں ۔۔ کیونکہ وہی ہے جو روح کے زخم بھر سکتا ہے’’ محد نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔۔ اور ارسا کے چہرے پر بھی ایک ہلکی سے مسکراہٹ ابھری تھی ۔۔
’’ تم ایسی باتیں کیسے کر لیتے ہو محد ؟ ’’ ارسا نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ تمہاری وجہ سے ’’ محد نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ میری وجہ سے ؟ ’’ اس نے حیران ہوکر پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں کیونکہ زندگی کی باتیں صرف زندگی کے ساتھ ہی کی جاسکتی ہیں ’’ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا ۔۔ ارسا نے مسکرا کر چائے کا کپ سامنے رکھی میز پر رکھا تھا ۔۔
’’ آج میں بینک گئ تھی ’’ ارسا نے اسکی بات کو نظر انداز کرکے کہا تھا ۔۔
’’ اچھا ۔۔ پھر ؟ ’’ محد نے بھی اپنا کپ سامنے رکھا تھا ۔۔
’’ بھائی نے میرے اکاؤنٹ سے سارے پیسے نکال دیئے ہیں اور اب اس میں صرف پانچ ہزار رکھے ہیں’’ ارسا کی بات پر محد چونکا تھا ۔۔
’’ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ تو تمہارا اکاؤنٹ ہے پھر ساحل بھائی کیسے نکال سکتے ہیں سارے پیسے ؟ ’‘
’’ وہ میرا اور بھائی کا جوانٹ اکاؤنٹ تھا محد ‘’ ارسا نے عام سے انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ مجھے یقین نہیں آرہا ارسا ۔۔ وہ تمہارے بھائی ہیں ۔۔ وہ اپنی بہن کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ ’’ محد اس بات کو ماننے سے انکاری تھا ۔۔
’’ وہ ایسا کر چکے ہیں محد اور وہ مجھے یہ بتا چکے ہیں کہ اب میرے لئے انکی زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔۔ وہ مجھ سے سارے تعلق ختم کر چکے ہیں ’’ ارسا نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا تھا ۔۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی ۔۔ وہ رو رو کر تھک چکی تھی ۔۔ اب اسے بہادر بننا تھا ۔۔
’’ آئی کانٹ بیلیودس‘’ محد نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے ۔۔
’’ پرسوں سیمسٹر کی فیس کی لاسٹ ڈیٹ ہے ۔۔ میں کیا کرونگی ؟ ’’ ارسا کو اب ایک نئ ٹینشن لگ گئ تھی۔۔
’’ تم فکر مت کرو ارسا ۔۔۔ فیس کا مسئلہ حل ہوجائے گا ’’ محد کے لئےیہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا ۔۔
’’ میں جانتی ہوں محد کہ تم میری مدد کے لئے ہمیشہ حاضر رہوگے ۔۔ مگر یہ کوئی وقتی مسئلہ نہیں ہے ۔۔ پرسوں تو تم فیس جمع کروا دوگے مگر میں آگے کیاکرونگی ؟ پڑھائی اور اسکے علاوہ کی باقی ضروریات بھی تو میں نے پوری کرنی ہیں ’’ ارسا نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔ وہ بہت آگے کا سوچ رہی تھی ۔۔ وہ جانتی تھی محد اسکے لئے سب کر سکتا ہے مگر وہ خود اپنے مسئلے حل کرنا چاہتی تھی ۔۔
’’ تم پریشان مت ہو ۔۔ ہم دونوں کوئی حل نکال لیں گے ’’ محد نے اس سے کہا تھا ۔
’’ ہاں ۔۔مجھے یقین ہے کہ کوئی حل ضرور نکل جائیگا ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ محد نے دیکھا اور وہ نارمل لگ رہی تھی ۔۔۔
وہ اس وقت ایک فائیل پر جھکا تھا ۔۔ بار بار اسکی نظر اپنے پاس رکھے موبائیل پر جارہی تھی ۔۔ شاید اسے کسی کی کال انتظار تھا مگر موبائیل تھا کہ خاموش تھا ۔۔ اس نے اکتا کر فائیل بند کی اور اب وہ کرسی پر ٹیک لگائے چھت کوگھور رہا تھا ۔۔۔ کافی دیر گزر گئ مگر کوئی کال نہ آئی تو اس نے غصے سے انٹرکام اٹھایا تھا ۔۔
’’ حاشر کو آفس میں بھیجو ’’ اس نے کہہ کر انٹرکام واپس رکھا تھا اور اب وہ کرسی سے اٹھ کر شیشے کی اس دیوار کے پاس جاکر کھڑا ہوا تھا ۔۔ جہاں سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد آفس کے دروازے پر ناک ہوا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے کہا تھا اور حاشر اندر آیا تھا ۔۔
’’ سر آپنےبلایا ؟ ’’ حاشر اسے باس کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔ جو اس سے پیٹھ پھیرے باہر کا نظارہ کر رہے تھے۔
’’ تمہیں کچھ کام دیئے گئے ہیں حاشر ۔۔ لگتا ہے تم تھک گئے ہو اپنی جاب سے ’’ اس نے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔ پلٹا وہ اب بھی نہیں تھا ۔۔
’’ سوری سر میں بس آپکو کال ہی کرنے والا تھا ’’ حاشر نے فوراً گھبرا کر کہا تھا ۔۔
’’ مجھے باتیں کرنے والے لوگ نہیں پسند ۔۔ مجھ صرف وہ لوگ پسند ہیں جو بنا کہے بڑے بڑے کام کر دکھائیں ’’ باس نے ایک اور بات سنجیدگی سے کہی تھی ۔۔۔
’’ سوری باس ۔۔ آئیندہ ایسا نہیں ہوگا ’’ حاشر نے سر جھکا کر کہا تھا ۔۔ باس کا غصہ برداشت کرنا بھی آسان نہیں تھا ۔۔
’’ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم آئیندہ زندہ رہوگے ؟’’ باس نے پلٹ کر اس سے پوچھا تھا ۔۔ اور حاشر نے چونک کر سر اٹھایا تھا ۔۔
’’ جی ؟ ’’
’’ میں نے پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ تم آئیندہ زندہ رہوگے ؟ ’’ باس نے ایک بار پھر اپنی بات سخت لہجے میں دہرائی تھی ۔۔
’’ جی ۔۔ نہیں ’’ حاشر نے کنفیوز ہوکر کہا تھا ’’ یہ باس آخر کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ ’’ اس نے سوچا تھا ۔۔
’’ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ آئندہ غلطی ٹھیک کرنے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انکے اگلے پل کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔۔۔تو پھر وہ حال میں کیوں سیدھے نہیں ہوجاتے ؟ ’’ باس کا غصہ کم ہونے نہیں ولا تھا ۔۔
’’ سوری باس۔۔ وہ انہوں نے یونیورسٹی جانا شروع کر دیا ہے۔۔ انکے امتحان بھی شروع ہونے والے ہیں مگر ایک مسئلہ آگیا ہے ’’ حاشر جان گیا تھا کہ باس کے سامنے اپنے حق میں کوئی بھی بات کہنے کا فائدہ نہیں تھا اس لئے اب وہ اصل بات کی طرف آیا تھا ۔۔۔ ایک یہی طریقہ تھا باس کا موڈ بدلنے کا ۔۔
’’ اب مسئلہ تم کتنے منٹ کے وقفے کے بعد بتاؤگے ؟ ’’ باس کی ایک اور گرجتی آواز آئی تھی ۔۔
’’ وہ سر۔۔۔ انکے بھائی نے انکے اکاؤنٹ میں سے پیسے نکال دیئے ہیں اور اب انکے پاس پیسے بلکل بھی نہیں ہیں ۔۔ فیس تو شاید انکے دوست پے کر لینگے مگر اسکے بعد انہیں بہت مشکل ہوجانی ہے ’’ اب کی بار حاشر نے ریڈیو کی طرح بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔
’’ گریٹ ’’ باس کی چہکتی ہوئی آواز پر اس نے حیران ہوکر سر اٹھایا تھا ۔۔۔ اور وہ خود بھی حیران رہ گیا ۔۔ باس کی گہری مسکراہٹ دیکھ کر ۔۔۔
’’ بہت اچھی خبر سنائی ہے تم نے حاشر۔۔ اس پر تمہیں بونس ملے گا ’’ باس کی بات کر اسکا منہ کھل گیا تھا ۔۔
’’ جی؟ ’’ اس نے حیران ہوکر کہا تھا ۔۔
’’ بلکل ۔۔ سب ویسا ہی ہورہا ہے جیسے میں نے سوچا تھا ۔۔’’ باس نے مسکرا کر کہتے ہوئے دوبارہ اس مرر وال کی طرف رخ کیا تھا ۔۔ جہاں سے باہر کا منظر اور آسمان صاف نظر آرہا تھا ۔۔
’’ اوک باس ’’ حاشر کہہ کر جانے کے لئے پلٹا تھا ۔۔
’’ اور ہاں ’’ باس کی دوبارہ سے آئی سنجیدہ آواز نے اسکے قدم روک دیئے تھے۔۔۔ مگر وہ پلٹا نہیں تھا ۔۔
’’ آئیندہ یہ لفظ ’’ انکے دوست ’’ استعمال مت کرنا ‘’ باس کی سنجیدہ آواز پر وہ حیران ہوکر پلٹا تھا ۔۔ وہ باس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ وہ منہ موڑ کر کھڑے تھے ۔ مگر وہ یہ جان گیا تھا کہ یہ بات انہوں نے کتنی سنجیدگی سے کہی ہے ۔۔۔ وہ آج تک سمجھ نہیں پایا تھا کہ آخر باس یہ سب کیا کر رہے ہیں ؟ اور آخر وہ چاہتے کیا تھے؟ مگر اسے انتظار تھا ۔۔ اس راز کے کھلنے کا ۔۔۔
’’ اب باہر جانے کے لئے تمہیں الگ سے آرڈر دینا ہوگا ’’ باس کی ایک اور جھاڑ اسے ہوش میں لائی تھی اور وہ آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔۔
محد نے اسکے سیمیسٹر کی فیس پے کر لی تھی ۔۔ مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں تھا ۔۔ وہ اب بھی پریشان تھی ۔۔ اسکے پاس صرف پانچ ہزار تھے اور ان پانچ ہزار میں وہ پانچ دن بھی نہیں گزار سکتی تھی ۔۔ اس نے بہت سوچا تھا اور سوچنے کے بعد صرف ایک حل تھا جو اسے سمجھ آیا تھا ۔۔۔ مگر یہ بھی اسکی قسمت پر منحصر تھا جوکہ آج کل اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔۔
محد اسے اس شام کھانے کے لئے باہر لایا تھا۔۔ جب اس نے محد سے بات کی تھی ۔۔
’’ میں نے کچھ سوچا ہے ’’ اس نے محد کی طرف دیکھتے ہوئےکہا تھا۔۔
’’ کیا ؟ ’’ محد اسکی طرف متوجہ تھا ۔۔۔
’’ مجھے جاب کرنی ہوگی ’’ ارسا نے آرام سے کہا تھا اور محد نے حیران ہوکر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ تم جاب کروگی ؟ ’’
’’ ہاں ۔۔ کیوں نہیں کر سکتی کیا ؟ ’’ ارسا نے اس کے اس طرح حیران ہونے پر پوچھاتھا ۔۔
’’ کر سکتی ہو مگر اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ’’ محد نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ’’ ارسا نے پوچھا تھا ۔۔
’’ کیونکہ تمہارے پاس نہ تو ایکسپیرینس ہے اور نہ ہی ڈگری ۔۔پڑھائی بھی ابھی کنٹینیو ہے۔۔ تمہیں کوئی اچھی جاب ملنا بہت مشکل ہے ’’ محد نے اسےایک اور مسئلہ بتایا تھا ۔۔
’’ جانتی ہوں ۔۔ اس لئے سوچ رہی ہوں کہ میں دو جابز کرلوں ’’
’’ تمہارا دماغ خراب ہے ؟ انسان ہو تم،مشین نہیں ہو ۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں آتی جب میں ہو تمہارے پاس تو تمہیں کیا ضرورت ہے ڈبل جابز کرنے کی ’’ محد کو اب اسکی بات پر غصہ آیا تھا ۔۔
’’ تم کیا چاہتے ہو محد ۔۔ میں خود کچھ نہ کرو ؟ تم چاہتے تھے کہ میں بہادر بن کر سب کچھ فیس کروں اور اب جب میں سب کچھ خود فیس کرنا چاہتی ہوں تو تم چاہتے ہو کہ میں آرام سے بیٹھی رہوں اور تم پر ڈیپینڈ کرتی رہوں ’’ ارسا نے نہایت سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ میرا یہ مطلب نہیں ہے ارسا ۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنا فیوچر بناؤ اور اسکے لئے پڑھائی بہت ضروری ہے ۔۔ اگر تم ڈبل ڈبل جابز کروگی تو پڑھائی کیسے کروگی ؟ میں تمہیں ڈبل جابز نہیں کرنے دونگا ‘’ محد نے اٹل انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ اچھا ٹھیک ہے ۔۔ میں دو نہیں ایک جاب کرونگی ’’ ارسا نے اسکی بات کو سمجھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یعنی کہ تم جاب ضرور کروگی ؟ ’’ محد نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آفکورس ۔۔ اور میں کل صبح سےہی اس مہم پر شروع ہونے والی ہوں ’’ ارسا نے ایکسائیٹڈ ہوکرکہا تھا ۔۔
’’ ضرور ہوجاؤ شروع ۔۔ ویسے بھی کل شروع ہوگی تو جاکر تین چار مہینے میں جاب ملنی تمہیں ’’ محد نے اسے چھیڑا تھا۔۔
’’ کیا مطلب ہے تمہارا ؟ ’’ ارسا نے فوراً سے کہا تھا ۔۔
’’ مطلب یہ کہ اب تمہیں کوئی رکھنے والا تو ہے نہیں ۔۔ اس لئے تین چار مہینے تو لگ ہی جانے ہیں جاب ملنے میں ’’ محد نے معصومیت سے کہا تھا
’’ اور میں تمہیں ایک مہینے میں جاب حاصل کر کے بتاؤنگی ’’ ارسا نے ایک انگلی اسکی طرف اٹھا کر چیلینجنگ انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ ہاہا ۔۔ بلی کے خواب میں چھیچڑے ’’ محد نے اسکا مزاق اڑایا تھا ۔۔۔
’’ لگی شرط ۔۔ ’’ ارسا نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا تھا ۔۔
’’ لگ گئ ’’ محد نے اسکے ہاتھ کو تھاما تھا ۔۔ اور اس پل کو کسی نے اپنے کیمرے میں سیو کیا تھا ۔۔۔
اگلی صبح وہ آفس میں موجود اپنے لیپ ٹاپ پر ای میلز پڑھنے میں مصروف تھا جب کسی نے دروازہ ناک کیا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائے بغیر کہا تھا ۔۔ دروازہ کھول کر حاشر اندر آیا اور باس کے سامنے کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ باس وہ دونوں رات میں ڈنر کر نے ایک ریسٹورینٹ گئے تھے ’’ حاشر نے باس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں تھی ۔۔ تم کال پر بھی بتا سکتے تھے ’’ باس اب ابھی لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھے۔
’’ جی باس مگر مجھے آپکو یہ دینی تھیں ’’ اس نے ایک خاکی لفافہ باس کے سامنے رکھا تھا ۔۔ باس نے لفافے پر ایک نظر ڈالی اور پھر لیپ ٹاپ کو سائیڈ پر رکھ کر وہ لفافہ اٹھا کر اس کے اندر موجود تصویر باہر نکالی تھی ۔۔
محد اور ارسا کی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئی اس تصویر نے باس کے چہرے کے تعصورات بدلے تھے۔۔
‘’ کیا بات کر رہے تھے یہ دونوں ؟ ’’ باس نے سخت لہجے میں پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ جاب کرنا چاہتی ہیں اور شاید آج سے جاب کی تلاش بھی شروع کردی ہے ’’
’’ تو وہ جاب ڈھونڈ رہی ہے ؟ گریٹ ’’ باس کے چہرے کے تعصورات بدلے تھے ۔۔ ایک بار پھر بنا کسی خاص بات کے اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ تھی ۔۔ حاشر باس کے ان بدلتے تعصورات کو دیکھ رہا تھا ۔۔ اسے تو جیسے عادت ہوگئ تھی ۔۔۔
’’ ایک کام کرو ذرا ’’ باس نے ہاتھ میں پکڑا پین گھماتے ہوئے ۔۔ کرسی پر جھولتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ جی باس کہیں ’’ وہ باس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر جان گیا تھا کہ باس اب پھر اسکے لئے کوئی نئ پریشانی پیدا کرنے والے تھے ۔۔
’’ اسے جہاں سے بھی انٹرویوں کال آئے ۔۔ اسے وہاں جاب نہیں ملنی چاہئے ’’ آنکھوں میں چمک لئے اس نے سامنے کھڑے حاشر سے کہا تھا ۔۔ جسے اس وقت اپنے باس کی یہ بات اور مسکراہٹ بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔۔
’’ جی باس ’’ وہ کہہ کر خاموشی سے چلا گیا تھا ۔۔ اس کے جانے کے بعد باس نے ایک بار اس تصویر کو اٹھا کر دیکھا ۔۔ اس بار غصہ نہیں آیا تھا ۔۔ اس بار مسکراہٹ گہری تھی ۔۔