وہ بہت بے چین تھی جانے کیوں مگر اسکے دل میں ایک ڈر تھا ۔۔ ایک خوف سا تھا اس انسان سے ۔۔ اگر اس نے اسے یہاں بلایا تھا۔۔۔ تو اسکی کوئی نہ کوئی خاص بات تو ضرور ہوگی ۔۔ وہ اس وقت ہوٹل کے اندر داخل ہوئی تھی ۔۔ اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا ۔۔ بہت سے سوال تھے جو اس کے دل و دماغ میں گھوم رہے تھے ۔۔ آخر کون ہوگا وہ ؟ کیا کہے گی وہ اسے؟ وہ کیا کہے گا اسے ؟ کیا وہ سائن کر دے گا ان پیپرز پر ؟ وہ قدم آگے بڑھا رہی تھی۔۔ محد بھی اسکے ساتھ تھا اور اسکا خوف اور ڈر محسوس کر رہا تھا۔۔
’’تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ارسا ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ’’ محد نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا ۔۔ وہ اسے حوصلہ دینا چاہتا تھا۔۔ اب وہ دونوں ریسیپشن پر گئے تھے جہاں ایک لڑکی انکی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
’’ روم نمبر ۲۱۲ کہا ہے؟ ’’ محد نے اس سے پوچھا تھا۔
’’ تھرڈ فلور پر رائیٹ ہینڈ سائیڈ پر ’’ اس لڑکی نے کہا تھا اور اب محد ارسا کا ہاتھ تھامے اسے لفٹ کی جانب لے کر گیا تھا۔۔ وہ دونوں لفٹ کے اندر آئے تھے۔۔ محد نے تھرڑ فلور کا بٹن پریس کیا تھا ۔۔لفٹ اوپر کی جانب چلی تھی۔
’’ محد مجھے ڈر لگ رہا ہے ’’ ارسا کی آواز میں ہی اسکا ڈر واضح تھا۔
’’ میں تمہارے ساتھ ہوں تو تمہیں ڈر کس بات کا ہے ارسا ؟ مجھ پر اعتبار کرو کچھ نہیں ہوگا ’’ محد نے اس سے کہا تھا اور ارسا نے خود کو اس خوف سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔۔ جانے کیا بات تھی کہ اسکا دل خوفزدہ ہورہا تھا ۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ ٹھیک نہیں تھا ۔۔ کچھ ہونے والا تھا ۔۔ کچھ بہت برا ۔۔!
لفٹ کا دروازہ کھلا تھا اور وہ دونوں باہر نکلے تھے۔۔ محد کو روم نمبر ۲۱۲ نظر آگیا تھا۔۔ اب وہ دونوں اس روم کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔ روم کے دروازے کے پاس پہنچ کر محد نے دروازہ ناک کیا تھا ۔۔۔ مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔۔ محد نے ایک اور بار دروازہ ناک کیا ۔۔ مگر اب بھی جواب نہیں آیا تھا۔۔ محد نے چیک کیا ۔۔ دروازہ لاک نہیں تھا اس نے دروازہ کھولا ۔۔ اور وہ دونوں اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔
تھرڈ فلور کی لفٹ میں سے نکلے والے ایک شخص نے اپنے کان میں لگے ائیر فون پر انگلی رکھی تھی۔۔
’’ باس وہ آگئ ہیں مگر وہ اکیلی نہیں ہیں ۔۔ وہ لڑکا بھی ان کے ساتھ ہے اور وہ دونوں روم میں گئے ہیں ’’ اس نے اپنے باس کو اطلاح دی تھی ۔۔ اور اب وہ باس کی کوئی بات سن کر حیران ہوا تھا۔۔
’’ کیا ؟ میرا مطلب ہے باس یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ’’ اسکے باس نے شاید اسے کچھ سخت الفاظ کہے تھے ۔۔وہ ڈر گیا تھا۔
’’ نہیں باس ۔۔ جیس ۔۔جیسا آپ کہیں ’’ وہ ہچکچا رہا تھا۔۔ اسے اپنے باس سے ڈر لگا تھا ۔۔ شاید اس کے باس نے اسے کوئی ایسا کام کرنے کا کہا تھا جو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
ساجد صاحب ٹی وی لاؤنچ میں گم سم بیٹھے تھے گھر کے اندر داخل ہونے والے ساحل نے انہیں کسی سوچ میں گم پایا تھا۔۔۔ وہ انہیں کی طرف آیا تھا۔۔
’’ کیا سوچ رہے ہیں پاپا آپ ؟ ’’ ساحل نے ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ تمہیں ایک بار ارسا کی بات سن لینی چاہئے ساحل ’’ پاپا نے اسکی طرف دیکھتےہوئے کہا تھا۔
’’ میں بات ہی سننے گیا تھا پاپا ۔۔مگر وہ تو اس نامعلوم شخص کے ساتھ چلی گئ تھی ’’ ساحل کا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ہوچکا تھا ۔۔
’’ تمہیں پھر بھی اس سے جواب لینا چاہئے تھا۔ وہ بہن ہے تمہاری ۔۔ تم اسے بچپن سے جانتے ہو ۔۔ تو کیا تم یہ نہیں جانتے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی ؟ ’’ پاپا کی بات پر ساحل خاموش ہوا تھا ْ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا کو جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی۔
’’ میں اس کی بات سنوگا پاپا ۔۔ آپ پریشان مت ہوں ’’ وہ جان گیا تھا کہ جب تک وہ ارسا سے بات نہیں کرلیتا یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا تھا ۔۔
وہ دونوں کمرے کے اندر آئے تھے۔۔ دروازہ دوبارہ بند ہوا تھا ۔۔ انہوں نے سامنے دیکھا تھا اور دونوں حیران رہ گئے تھے ۔۔ نظریں پورے کمرے میں دوڑائی تھیں مگر وہ پورا کمرا خالی تھا ۔۔۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
’’ لگتاہے وہ ابھی تک آیا نہیں ہے ’’ محد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ مجھے ڈر لگ رہا ہے محد کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے ’’ ارسا کو ابھی بھی یہ سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔
’’ افو ایک تو تم ڈرتی بہت ہو بیٹھ جاؤ یہاں۔۔ وہ آتا ہی ہوگا ’’ اس نے سامنے رکھے صوفے کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔
ارسا اس پر بیٹھ گئ تھی اور اب وہ دونوں خاموش تھے ۔۔ اور منتظر تھے۔۔ اسکے آنے کے ۔۔ گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھی ۔۔ مگر کوئی نہیں آیا تھا ۔۔ انہیں انتظار کئے ایک گھنٹہ گزر گیا تھا۔
’’ مجھے نہیں لگتا محد کہ وہ آئے گا ۔۔۔ ہمیں چلنا چایئے ’’ ارسانے کھڑے ہوتے ہوئے کہاتھا۔۔ محد بھی سر ہلا کر کھڑا ہوا تھا ۔۔ ارسا نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی مگر ۔۔۔۔
’’ محد ۔۔۔ دروازہ نہیں کھل رہا ’’ اس نےگھبرائی ہوئی آواز کے ساتھ کہا تھا محد نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا تھا ۔۔ مگر دروازہ تو لاک تھا ۔۔ یہ کب ہوا تھا ؟ انہوں نے تو دروازہ لاک نہیں کیا تھا ۔۔۔ پھر دروازہ کیسے لاک ہوا تھا؟ محد نے اب دروازہ بجانا شروع کیا تھا مگر باہر کوئی ہوتا تو دروازہ کھولتا ۔۔۔ وہ دونوں اب سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے ۔۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر انکے ساتھ ہو کیا رہا ہے ؟
’’ محد ’’ ارسا نے تھوڑی دیر بعد اسے پکارا تھا۔۔ محد نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔
’’ اب کیا ہوگا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔ ایک امید تھی کہ شاید محد کے پاس کوئی حل ہو ؟ مگر اس بار اس کے پاس بھی کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ وہ خاموش تھا ۔۔ اسکے پاس اسکے سوال کا جواب نہیں تھا ۔۔ سوچنے پر بھی وہ نہیں جانتا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا ؟
اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ دروازہ بجا تھا اور وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔۔
’’ کون ہے ؟ دروازہ کھولیں ؟ ’’ ارسا نے کہا تھا ۔۔ باہر موجود لوگ شاید اب کمرے کا لاک کھول رہے تھے ۔۔ وہ دونوں بھی منتظر تھے ۔۔لاک کھل گیا تھا اور کچھ لوگ اندر داخل ہوئے تھے ۔۔ مگر یہ کیا ؟ محد اور ارسا آنے والوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے ۔۔
’’ پولیس ؟ ’’ ارسا کی زبان سے یہ ایک لفظ ہی نکلا تھا اور محد نے دیکھا وہ ۳ پولیس والے تھے جو اسکی طرف بڑھ رہے تھے۔۔ اور ان کے ساتھ ایک لیڈی آفیسر بھی تھیں جوکہ ارسا کی طرف آئی تھی۔
’’ چلو۔۔ لے کر چلو انہیں تھانے ’’ پولیس انسپکٹر کے کہنے پر انکے دونوں ساتھیوں نے محد کو بازؤں سے پکڑا تھا اور اسی لمحے اسے ہوش آیا تھا ۔۔
’’ یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ ؟ کیوں لے کر جارہے ہیں ہمیں ؟ ’’ محد نے ان سے پوچھا تھا۔
’’ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اتنی رات کو ہوٹل کے کمرے میں ماں باپ کی عزت کا تماشا بناکر ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم نے کیا کیا ؟ لے کر چلو دونوں کو تھانے ’’ پولیس کی بات پر وہ دونوں حوالدار اب اسے کھینچ کر لے جارہے تھے۔
’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ ؟ ہمیں یہاں کسی نے بلایا تھا ۔۔ اسکا انتظار کر رہے تھے ہم ’’ ارسا نے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے کہا تھا۔
’’ آدھی رات کو ہوٹل کے کمرے کا دروازہ لاک کر کے تم دونوں یہاں کسی کا اانتظار کررہے تھے ؟ بی بی یہ کہانیاں کسی اور کو سنانا ’’ وہ لیڈی انسپکٹر اب اسے بھی کھینچ کر لے جارہی تھی۔
’’ پلیز میری بات سنیں ۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے یہ روم بھی ہمارا نہیں ہے ’’ محد نے پولیس انسپکٹر سے کہا تھا۔
’’ ہم ایسے ہی نہیں آئے ہیں یہاں ؟ یہ روم بھی ارسا ساجد کے نام سے بک ہے ’’ انسپکٹر کی بات پر ارسا اور محد نے حیران ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا ۔۔ دونوں کی نظروں میں ایک ہی بات تھی ۔۔ سازش ۔۔!!
پولیس اب انکی ہر بات کو اگنور کر کے ان دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر لے جارہی تھی ۔۔ اور پولیس کی گاڑی کو جاتے دیکھ کر سڑک پر موجود ایک شخص نے اپنے کانوں کے ائیر فون پر انگلی رکھ کر اپنے باس سے کہا تھا ۔۔
’’ کام ہوگیا ہے باس ’’ وہ سنجیدہ تھا ۔۔اسکا باس اب اسے کچھ اور بھی کہہ رہا تھا جسے وہ خاموشی سے سن رہا تھا۔
’’ اوک باس ’’ اس نے کہہ کر انگلی ہٹائی تھی اور افسوس سے سر ہلاتے ہوئے وہ سڑک کی دوسری جانب چل پڑا تھا ۔۔
وہ دونوں اس وقت پولیس سٹیشن کے لاک اپ میں موجود تھے ۔۔ انہوں نے انہیں سمجھانے کی پوری کوشش کی تھی مگر کوئی بھی انکی بات سننے کو تیار نہیں تھا ۔۔ارسا مسلسل آنسو بہا رہی تھی جبکہ دوسرے لاک اپ میں موجود محد دائیں بائیں چکر لگا رہا تھا ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حالات اس رخ پر آجائینگے۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی جب ارسا کے لاک اپ کے پاس ایک حولدار آیا تھا ۔۔
’’ بی بی اپنے گھر کا نمبر دو ’’ اس نے سخت لہجے میں ارسا سے کہا تھا۔
’’ گھر ؟ ’’ یہ ایک لفظ ایسا تھا جسے سن کر اسکے آنسو رک گئے تھے وہ جیسے فوراً ہی بیدار ہوئی تھی ۔۔ اگر پاپا اور بھائی کو معلوم ہوگیا تو ۔۔؟؟ اور اس سے آگے کا وہ کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔ یہ سوچ ہی بے حد خوفناک تھی۔
’’ نہیں پلیز میرے گھر والوں کو کچھ مت بتایا ’’ وہ فوراً سے اس حولدار کے سامنے آکر بولی تھی۔
’’ اتنا ہی ڈر تھا تو ایسی حرکتیں ہی نہیں کرنی تھی ۔۔ وہ تو ہوٹل کی انتظامیہ اچھی تھی جنہوں نے ہمیں انفارم کردیا ورنہ تم دونوں تو ناجانے کب تک ماں باپ کی عزتوں کا جنازہ نکالتے رہتے ’’
’’ ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ کیا ثبوت ہے آپکے پاس ان سب باتوں کا ؟ ہمیں پھنسایا گیا ہے۔۔۔ سمجھ نہیں آتی آپ کو یہ بات؟’’ حولدار کی بات پر اس نے اونچی آواز میں کہا تھا۔
’’ آواز آہستہ کر کے بات کرو بی بی ۔۔ یہ تمہارا گھر نہیں ہے ۔۔ یہ تھانہ ہے اور یہاں اونچی آواز کرنے والوں کو بھی سخت سزادی جاتی ہے ’’ اس نے اسے دوسرے الفاظوں میں دھمکی دی تھی۔
’’ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں ۔۔ میں آپکو نمبر نہیں دونگی ’’ ارسا پر اسکی دھمکی کا اتنا ہی اثر ہوا تھا کہ اسکی آواز اب نیچی ہوگئ تھی مگر ڈری تو وہ اب بھی نہیں تھی ۔۔۔ جب انسان حق پر ہو تو اسے کسی سے ڈر نہیں لگتا ۔۔
’’ ٹھیک ہے پھر بیٹھی رہوں یہی پر ’’ وہ اسے کہہ کر واپس جاچکا تھا اور ارسا وہی پر بیٹھ گئ تھی ۔۔ ایک بار پھر آنسوؤں نے رفتار تیز کی تھی ۔۔ گھر والوں کے بارے میں تو وہ سوچنے سے بھی ڈر رہی تھی ۔۔ پہلے ہی کوئی اسکا یقین نہیں کررہا تھا اور اب ۔۔؟؟ اگر کسی کو یہ سب پتہ لگا تو کیا ہوگا ۔۔؟؟ وہ یہی سوچ کر ڈر رہی تھی ۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ یہاں سے تب تک نہیں نکل سکے گی جب تک انکے گھر میں سے کوئی انکی بیل نہیں کروا لیتا ۔۔ محد کے پیرینٹس تو امریکہ میں تھے ۔۔ تو پھر اب کون انکی مدد کرے گا ۔۔؟؟؟ اسے ہر راستہ بند نظر آرہا تھا ۔۔ وہ گٹنوں پر سر رکھے رورہی تھی۔۔ جانے کتنی دیر بعد اس نے سر اٹھا کر دیوار پر لگایا تھا جب اسے سامنے ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ حولدار تھوڑی دیر پہلے کھڑا تھا وہاں کوئی چیز نظر آئی تھی ۔۔۔ وہ چونکی تھی ۔۔ اسکی آنکھوں میں حیرت آئی تھی ۔۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ نے اٹھی اور اس چیز کے پاس آئی ۔۔۔ وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا ۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ کاغذ اٹھایا تھا ۔۔۔ اور کھڑے ہوکر اسے کھولا تھا ۔۔
’’ کہاں تھا کہ اکیلی آنا ؟ ہمت کیسے ہوئی ڈائیوورس پیپر بنانے کی ؟؟ ہمت کیسے ہوئی اپنے اس آدھے منگیتر کے ساتھ ہوٹل جانے کی ؟؟ تم سزا کی حقدار ہو ۔۔ اور یہی تمہاری سزا ہے مائی ڈئیر وائف ۔۔’’
اسکا پورا وجود کانپ گیا تھا ۔۔کاغذ پر لکھی اس تحریر نے اسے اتنا تو بتادیا تھا کہ یہ سب ایک پلیننگ تھی اور اب وہ اس میں پھنس چکی ہے ۔۔ اس نے سامنے دیکھا جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ حولدار آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔ مگر اب وہ وہاں نہیں تھا ۔۔ مگر یہ کاغذ کا ٹکڑا یہاں کیسے پہنچا ؟ اچانک اسکے ذہن نے کام کرنا شروع کیا تھا ۔۔۔ اسکا موبائیل ؟ اسے اپنے موبائیل کا خیال آیا ۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اسے سمجھ آگیا کہ یہ کاغذ یہاں کیسے آیا تھا ۔۔۔ وہ دوبارہ نیچے بیٹھی تھی مگر اب وہ رو نہیں رہی تھی ۔۔ اب وہ آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کر رہی تھی ۔۔۔۔
ساجد صاحب اس وقت عصر کی نماز پڑھ کر آئے تھے جب صائمہ بیگم ان کے لئے چائے لے کر آئیں تھیں ۔۔
’’ آپ نے ساحل سے بات کی ؟ ’’ انہوں نےساجد صاحب کو چائے دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کس بارے میں ؟ ’’ چائے کا کپ سائیڈ پر رکھا تھا ۔۔
’’ ارسا کے بارے میں ؟؟ میری بچی اتنے دنوں سے جانے کہاں اور کیسے رہ رہی ہوگی ۔۔ وہ کچھ کرتا کیوں نہیں ہے ’’ صائمہ بیگم نے نم آنکھوں سے کہا تھا ۔۔
’’ میں نے اس سے بات کی ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ارسا کو جلد لے آئیگا ’’ ساجد صاحب نے انہیں مطمئین کرنا چاہا تھا ۔۔
’’ کب لائیگا ؟ وہ تو اسکی بات تک سننے کو تیار نہیں ہے ’’ وہ بے صبر تھیں۔۔
’’ تھوڑا صبر کرو صائمہ ۔۔ ساحل کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا ہے وہ ارسا سے بات کریگا’’ انہوں نے چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا ۔۔ وہ مطمئین نظر آرہے تھے کیونکہ ساحل مان گیا تھا ۔۔
’’ ناجانے کیسی ہوگی میری بیٹی ؟ ’’ صائمہ بیگم کو اب ارسا کی فکر لگی تھی ۔۔۔
’’ وہ جہاں بھی ہوگی بلکل ٹھیک ہوگی ۔۔ارسا کو اپنی حفاظت کرنی آتی ہے ’’ ایک مان اور ایک یقین تھا انکے لہجے میں ۔۔ صائمہ بیگم مسکرائیں تھیں ۔۔ چلو کسی کو تو ارسا پر اعتبار تھا ۔۔
ابھی وہ چائے ہی پی رہے تھے کہ ساجد صاحب کا موبائیل بجا تھا ۔۔۔ انہوں نے دیکھا کوئی انجان نمبر تھا ۔۔۔ انہوں نے کال ریسیو کرکے کان سےلگایا تھا ۔۔ اسی لمحے ساحل بھی گھر میں داخل ہوا ۔۔وہ انہیں کی طرف آرہا تھا ۔۔
’’ ہیلو ’’ ساجد صاحب نے کال پر کہا تھا ۔۔
’’ جی آپ ارسا ساجد کے والد بات کر رہے ہیں ؟ ’’ کوئی انجان آواز تھی ۔۔ آواز میں سختی بھی تھی ،
’’ جی بات کر رہا ہوں ۔۔ آپ کون ؟ ’’ ساجد صاحب فوراً ہی چوکنا ہوئے تھے ۔
’’ میں پولیس سٹیشن سے انسپکٹر سراج بات کر رہا ہوں ۔۔ آپکی بیٹی کل رات سے تھانے میں ہے ’’ انسپکٹر کی بات پر ساجد صاحب چونکے تھے۔۔
’’ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ ارسا حوالات میں ہے ؟؟؟ ’’ ساجد صاحب کی بات پر صائمہ نے اپنے سینے پر گھبرا کر ہاتھ رکھا تھا اور ساحل فوراً پاپا کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ جی ہاں ارسا ساجد آپ ہی کی بیٹی ہے نا ؟ ’’ انسپکٹر نے کنفرم کرنا چاہا تھا ۔۔
’’ جی مگر اس نے کیا کیا ہے ؟ ’’ ساجد صاحب نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپکی بیٹی کو کل آندھی رات کو ہوٹل کے کمرے سے ایک غیر شخص کے ساتھ پکڑا گیا ہے ۔۔۔ ہمیں ہوٹل کی انتظامیہ نے خبر دی تھی اور ہم اسے اریسٹ کر چکے ہیں آپ آکر ۔۔۔۔ ’’ وہ ابھی آگے بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر کوئی سننے والا تو ہو ۔۔
ساجد صاحب کے ہاتھ سے موبائیل نیچے گِرا تھا ۔۔ ساحل فوراً انکے پاس آیا تھا ۔۔ انکا بازوں تھاما تھا ۔۔ صائمہ بھی پاس آئی تھیں۔۔۔
’’ پاپا ۔۔۔ کیا کہہ رہے تھے وہ؟ کیا ہوا ارسا کو ؟ ’’ ساحل ان سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
’’ ساجد ۔۔ بتائیں ۔۔ کیا ہوا میری بیٹی کو ؟ ’’ صائمہ بھی گھبرائی ہوئی پوچھ رہی تھیں ۔۔۔
مگر وہ کچھ کہہ نہیں رہے تھے ۔۔۔ وہ سب حیران آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔ جن کے چہرے پریشان تھے ۔۔ ایک درد تھا ۔۔ ایک ٹیس تھی ۔۔ جو سینے میں اٹھی تھی ۔۔ وہ بڑھ رہی تھی ۔۔ اور بڑھ رہی تھی ۔۔ برداشت سے باہر ہورہی تھی ۔۔۔ اور جب دل میں اٹھا درد ۔۔ جب دل میں اٹھی ٹیس برداشت سے باہر ہوجائے ۔۔ تو جان نکل جاتی ہے ۔۔ روح فناہ ہوجاتی ہے ۔۔۔ اور جان نکل گئ تھی ۔۔۔ روح آزاد ہوگئ تھی ۔۔ وہ بے جان سے ہوگئے تھے ۔۔ وہ ساحل کے بازؤں میں جھول گئے تھے ۔۔۔
ایک رات اور ایک دن سے وہ پولیس سٹیشن پر موجود تھی مگر کوئی بھی انکی مدد کے لئے نہیں آیا تھا ۔۔۔ اس نےکتنی بار ان سے کہا تھا مگر وہ لوگ انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔۔ وہ جانتئ تھی کہ یہ سزا ہے ۔۔ مگر اس سزا کو ختم کب ہونا ہے؟ یہ وہ نہیں جانتی تھی اور محد بیچارہ بھی اس کے ساتھ پھنس گیا تھا ۔۔ وہ چونکی تھی ۔۔ محد؟ اسے اب محد کا خیال آیا تھا ۔۔ اس کے بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہیں ۔۔ ناجانے وہ لوگ اس کے ساتھ کیا کر رہے ہونگے ؟ اور محد نے اب تک کسی کو بلوایا کیوں نہیں تھا ؟ اب اسے محد کی پریشانی تھی ۔۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر جانے یہ لوگ اسے بات کرنے دیں گے یا نہیں ؟ اب تو ویسے بھی رات کا کھانا ہی دینے کسی نے آنا تھا اور اب وہ رات کے کھانے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔
اور پھر دو گھنٹے بعد کھانا آہی گیا تھا۔ یہ ایک مخصوص آدمی تھا جو اسے کھانا دیتا تھا ۔۔ وہ ابھی کھانا رکھ ہی رہا تھا جب اس نے پوچھا تھا ۔۔۔
’’مجھے انسپکٹر سے بات کرنی ہے ۔۔ انہیں بلائیں ’’ اس آدمی سے آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا اور سر ہلا کر واپس چلا گیا ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کے سامنے تھے ۔۔
’’ بولو ۔۔ کیا اپنی حرکتوں کا اعتراف کرنے کا ارادہ ہے ’’ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا اس کے بلکل سامنے کھڑی تھی ۔۔
’’ مجھے محد سے ملنا ہے ’’ اس نے ہاتھ باندھ کر نہایت ہی نڈر انداز میں کہا تھا ۔۔ اس کے انداز کر وہ پولیس انسپکٹر ہنسا تھا۔
’’ اوہ تو اب پولیس سٹیشن میں بھی ملاقاتیں کرنی ہے میڈم نے ۔۔۔ بات سنو’’ اس نے اسکی طرف انگلی اٹھا کر غصے سے کہا تھا ’’ یہ پولیس سٹیشن ہے ہوٹل کا کمرہ نہیں کہ ۔۔۔ ’’
’’ شیٹ اپ ! ’’ ابھی اسکی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ارسا کی چیخ نے اسے روک دیا تھا ۔۔
’’ خبردار جو آپ نے میرے کردار پر کوئی بات بھی کی ۔۔ یہ میں بھی جانتی ہوں اور آپ بھی کہ میں یہاں اپنی نہیں ۔۔ بلکہ کسی اور کی خواہش پر لائی گئ ہوں ۔۔ اور آپ سب ’’ اب کی بار انگلی اس نے اٹھائی تھی ’’ آپ سب نےیہاں رشوت کھا کر مجھے قید کر رکھا ہے ’’ ایک پل کے لئے ارسا کی دیدہ دلیری نے اسے حیران کیا تھا ۔۔ مگر پھر اسکے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے ۔۔
’’ لڑکی ۔۔ زبان سنبھال کر بات کرو ۔۔ مت بھولو کہ تم یہاں ہمارے رحم و کرم پر ہو ۔۔ ابھی ایک دن ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہیں سالوں یہاں رہنا پڑ جائے ’’ اس کے لہجے میں غصہ اور سختی تھی ۔۔ مگر وہ ڈری نہیں تھی ۔۔ وہ کیسے ڈر سکتی تھی ؟ یہ جاننے کے بعد کہ یہ قید اس کے نامعلوم شوہر نے اسکے لئے چنی ہے۔۔ اب وہ ڈرتی نہیں تھی کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ وہ شخص ہمیشہ اپنے لئے اسے قید کرواتا ہے ۔۔۔ تو کوئی اور اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا ۔۔
’’ انسپکٹر صاحب ’’ وہ کہتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھی تھی ’’ یہ آپ نہیں وہ ڈیسائیڈ کرے گا کہ میں کب تک یہاں رہونگی اور آپ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔۔ اسلئے اسے کہیئے کہ میں نے محد سے بات کرنی ہے ’’ وہ مسکراتی ہوئی انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی اور انسپکٹر اسے غصے سے گھورتے ہوئے پلٹا اور باہر نکل گیا ۔۔
’’ میں انتظار کر رہی ہوں جواب کا ’’ اس نے کہا تھا مگر وہ پلٹا نہیں۔۔ وہ وہاں سے جاچکا تھا
ارسا نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔ دل تھا کہ زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔ یہ صرف وہی جانتی تھی کہ اس نے کس طرح خود کو اسکے سامنے پوز کیا تھا ورنہ اندر سے تو وہ ڈر رہی تھی ۔۔ اس نے خود کو ریلیکس کیا اور اب وہ جواب کا انتظار کرنے لگی تھی ۔۔۔ اسےبلکل بھی آئیڈیا نہیں تھا کہ کیا جواب آئیگا ؟ مگر اسے ایک امید تھی ۔۔ اسے محد کی فکر تھی ۔۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی ۔۔
اس گھرکے لان میں آؤ تو وہ مردوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔ ساحل ایک جانب سفید شلوار قمیض پہنے کھڑا تھا ۔۔ آنکھیں لال اور سوجی ہوئی تھیں شاید یہ رونے کی وجہ سے تھا ۔۔ مردوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا اور سب اس سے گلے مل کر تسلی بھرے الفاظ کہہ رہے تھے ۔۔ وہ سب کی باتوں میں ایک مختصر سا جواب دے دیتا تھا ۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد ساحل اور اسکے ساتھ کچھ مرد گھر کے اندر جارہے تھے اور جب وہ باہر نکلے تو انکے کاندھوں پر کسی کا جنازہ تھا ۔۔ صائمہ بیگم روتی ہوئی باہر آرہی تھی مگر نیشا نے انہیں مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ۔۔ سب کی آنکھیں اشک بار تھیں ۔۔۔ مگر ایک ساحل تھا جو رو نہیں رہا تھا ۔۔ اب اسکی آنکھیں خشک اور ضبط سے لال تھیں۔۔
کچھ وقت بعد وہ ایک قبرستان میں کھڑا تھا ۔۔ سامنے ایک قبر تھی ۔۔ اسکے پاپا کی قبر ۔۔۔ دو تین مرد اسکے پاس کھڑے تھے۔۔ وعا کرنے کے بعد سب ایک ایک کرکے وہاں سے جارہے تھے اور پھر وہ اکیلا رہ گیا تھا ۔۔ اب اسکا ضبط ٹوٹ رہا تھا ۔۔ آنسو خاموشی سے اسکی آنکھوں سے نکلے تھے ۔۔ وہ پاؤں کے بل اپنے پاپا کی قبر کے پاس بیٹھا تھا ۔۔ اس نے قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔۔
’’ آپکو اس سے اتنی محبت تھی پاپا کہ آپ اسکی وجہ سے ہم سب کو چھوڑ گئے ’’ اس نے قبر کی تختی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جہاں اسکے پاپا کا نام لکھا تھا ۔۔
’’ اس نے تو ہمارے پاس کچھ نہیں چھوڑا پاپا ۔۔۔ اس نے آپکو بھی چھین لیا ہم سے ۔۔ میں اسکو کبھی معاف نہیں کرونگا’’ اسکی آنکھوں میں غصے کی لالی آئی تھی ۔۔
’’ اس نے صرف ہمارا مان ، بھروسہ نہیں توڑا ۔۔ بلکہ اس نے ہماری عزت کا تماشہ بنا دیا ’’ وہ غصے سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ اب آنکھوں سے آنسو نہیں نکل رہے تھے ۔۔۔
’’ کتنی بے رحم تھی وہ پاپا ۔۔۔ اس نے آپکی جان لے لی ۔۔ وہ قاتل ہے ۔۔ وہ ہم سب کی قاتل ہے’’ وہ کہہ کر دوبارہ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔ اب وہ ٹوٹا ہوا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
’’ میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگا ۔۔ اس قتل کی سزا وہ پوری زندگی بھکتے گی ۔۔ اللہ حافظ پاپا ’’وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔ وہ اب اس قبر سے دور جاچکا تھا ۔۔
گھر میں مہمان اب بھی موجود تھے ۔۔ مرد تو کافی جاچکے تھے مگر عورتیں اب بھی وہاں موجود تھیں ۔۔
’’ صائمہ بہن ۔۔ یہ ارسا نظر نہیں آرہی ؟ ’’ ایک خاتون نے صائمہ سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں بھی یہی دیکھ رہی تھی ۔۔ باپ کا انتقال ہوگیا اور وہ منہ تک دیکھنے نہیں آئی ۔۔ آخر ہے کہاں وہ ؟ ’’ ایک اور خاتون نے کہا تھا ۔۔
’’ منگنی رک جانے کے بعد وہ واپس ہوسٹل چلی گئ تھی۔۔ شاید وہی ہو ’’ پہلی خاتون نے اندازہ لگایا تھا ۔۔
’’ کیا بات کر رہی ہو ۔۔ اس کے باپ کا انتقال ہوا ہے وہ ہوسٹل میں کیسے ہوسکتی ہے ؟ ’’ دوسری خاتون نے حیرانی سے کہا تھا ۔۔۔
’’ مگر وہ یہاں بھی تو نظر نہیں آرہی ’’ پہلی خاتون نے آس پاس اشارہ کر کے کہا تھا ۔۔
صائمہ بیگم خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھیں ۔۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔۔ پاس بیٹھی نیشا اب ان خواتین کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔
’’ آپ لوگ غلط سمجھ رہی ہیں ۔۔ ارسا ہوسٹل سے آگئ ہے ’’ نیشا کی بات پر صائمہ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ کیا کہہ رہی تھی ؟
’’ اچھا ۔۔ مگر وہ پورا وقت نظر تو نہیں آئی ’’ پہلی خاتون نے حیران ہوکر کہا تھا ۔۔ باقی سب بھی انکی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔
’’ ہاں کیونکہ وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے ’’ نیشا نے پر سکون انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ ہسپتال میں ۔۔؟؟ کیوں کیا ہوا اسے ؟ ’’ دوسری خاتون نے فوراً پریشان ہوتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ پاپا کے انتقال کا سن کر بے ہوش ہوگئ تھی ۔۔۔ اسےبہت زیادہ ڈیپریشن ہو گیا ہے اس لئے ڈاکٹر نے اسے ایڈمٹ کر دیا ہے ’’ نیشا نے بات بنا لی تھی ۔۔ صائمہ بیگم نے مشکور نگاہوں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ اچھا ۔۔ بیچارہ بچی ۔۔ اپنے پاپا کی لاڈلی تھی ۔۔اتناآسان تھوڑی ہے اب اس غم کو برداشت کرنا ’’ پہلی خاتون نے افسوس سے کہا تھا ۔۔
’’ جی بس آپ دعا کیجئے ۔۔ اللہ اسے صبر دے ’’ نیشا کی بات پر سب نے آمین کہا تھا ۔۔ اور سامنے کھڑے ساحل کو لگا کہ نیشا کو سمجھنے میں اس نے بہت بڑی غلطی کردی تھی ۔۔۔ آج نیشا نے ہی اس گھر کی عزت بچائی تھی ۔۔ ورنہ اسکی بہن نے تو کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔ اصولاً تو نیشا کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیئے تھا مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔۔ آج اسے نیشا کی قدر ہورہی تھی ۔۔ اس نے نظروں سے نیشا کا شکرادا کیا تھا ۔۔
کافی دیر سے وہ انتظار کر رہی تھی مگر اب تک کوئی جواب نہیں آیا تھا ۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ منع نہ کردے ؟ محد کو اس نے اس رات کے بعد سے اب تک نہیں دیکھا تھا ۔ اسے اسکی فکر ہورہی تھی ۔۔ کچھ وقت اور گزرا تھا جب ایک حولدار اسکے پاس آیا تھا ۔۔۔
’’چلو’’ لاک کھول کر اس نے کہا تھا ۔۔ اور ارسا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ تو اجازت مل گئ تمہیں ’’ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ اسکے سامنے آئی تھی ۔۔۔
’’ صرف پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس ’’ اسکا طنز اگنور کر کے اس نے کہا تھا۔۔ اب وہ اسے لے کر ایک کمرے میں آیا تھا جہاں ایک میز اور اس کے گرد تین کرسیاں رکھی تھی ۔۔۔ شیشےکی ایک دیوار تھی ۔۔ جس کی دوسری طرف وہی انسپکٹر کھڑا تھا ۔۔۔ ارسا نے ایک مسکراہٹ اس پر اچھالی اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئ تھی ۔۔ وہ جانتی تھی کہ یہ انٹیروگیشن روم ہے۔۔ وہ محد سے جو بھی بات کرے کی وہ ان میں سے کوئی بھی نہیں سن نہیں سکتا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ حولدار محد کو اس روم میں چھوڑ کر گیا تھا ۔۔ ارسا نے پلٹ کر دیکھا محد اسکی طرف آرہا تھا ۔۔ اسکے ہونٹوں کے پاس چوٹ کا نشان تھا۔۔ وہ اسکے سامنے آگر بیٹھا تھا ۔۔
’’تم ٹھیک ہونا ؟؟ ’’ وہ اس کے لئے فکرمند تھا ۔۔
’’ یہاں کون ٹھیک ہوسکتا ہے محد ؟ تم بھی تو نہیں ہو ’’ اس نے اسکے ہونٹوں کے پاس پڑے نشان کو دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ ان لوگوں سے تھوڑی بحث ہوگئ تھی میری ۔۔ اس لئے یہ چوٹ لگ گئ ’’ محد اسکا اشارہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔
’’ دو دن ہونے والے ہیں محد مگر کوئی ہماری مدد کے لئے نہیں آیا ہے ۔۔ ہم کب تک ایسے بیٹھے رہینگے ؟ ’’ ارسا نے تھوڑا آگے کو جھک کر کہا تھا ۔۔۔
’’ یہ لوگ ملے ہوئے ہے ارسا ۔۔۔ یہ مجھے کسی سے رابطہ بھی نہیں کرنے دے رہے ہیں’’ محد نے شیشے کے اس پار کھڑے انسپکٹر کی طرف دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔
’’ جانتی ہوں ۔۔ یہ لوگ ہماری کوئی بات نہیں سنے گیں ۔۔ یہ وہی کرینگے جن کی انکو اجازت دی جائیگی ’’ ارسا کی بات پر محد چونکا تھا۔
’’ اجازت ؟ کس کی اجازت ؟ ’’ محد نے اس سے پوچھا تھا اور ارسا نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ کے اوپر رکھا تھا ۔۔ محد چونکا تھا ۔۔ ارسا کے ہاتھ میں کچھ تھا جو اس نے اسکے ہاتھ میں رکھا تھا ۔۔ محد اپنا ہاتھ میز کے نیچے لے کر گیا تھا اور اب وہ اس کاغذ کوکھول کر پڑھ رہا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کاغذ اپنی جیب میں ڈال کر ارسا کی طرف دیکھا تھا ۔۔ اس کے چہرے پر غصہ تھا مگر وہ اسے ضبط کر رہا تھا ۔۔۔
’’ چپ کیوں ہو ؟ ’’ اسے کافی دیر خاموش دیکھ کر ارسا نے پوچھا تھا۔۔
’’ میں ایک بات تمہیں بتارہا ہوں ارسا ’’ محد آگے کو جھکا تھا ’’ جس دن مجھے یہ انسان ملا ۔۔۔ میں اسکی جان لے لونگا’’ ارسا نے دیکھا۔۔ وہ بہت سنجیدہ تھا ۔ اسکی آنکھوں میں غصہ تھا ۔۔ اسکا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ شخص ابھی سامنے آجائے اور وہ اسے قتل کردے ۔۔
’’ تم پلیز خود کو ریلیکس کرو ’’ ارسا نے نرم لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ کیسے ْ۔۔۔’’ وہ غصے میں تھوڑا تیز بولا تھا پھر فوراً آواز دھیمی کی تھی ’’ ایسے کیسے ریلیکس ہوجاؤ میں ؟ ہم دو دن سے یہاں قید ہیں ۔۔ یہ لوگ ہمارا کسی سے رابطہ ہونے نہیں دے رہے ۔۔ اور اب ہم اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ اس انسان کے حکم کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ ہماری آزادی کا آرڈر دے تو ہم آزاد ہوں ’’ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا نے آج سے پہلے اسکا یہ روپ نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
’’ ہم اور کیا کرسکتے ہیں محد ؟ ہمارے بس میں اور کچھ نہیں ہے ’’ وہ جانتی تھی کہ محد ٹھیک کہہ رہا تھا ۔۔ ان دونوں کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔
’’ ایک منٹ ’’ محد کو کسی بات کا خیال آیا تھا ’’ یہ کاغذ تمہیں کیسے ملا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا اور ارسا نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسکی عقل پر افسوس ہورہا ہو ۔۔۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے محد؟ ان پولیس والوں کے علاوہ اور کون پہنچا سکتا ہے یہ کاغذ مجھ تک؟ ’’
’’ تو پھر تم نے ان سے کچھ کہا نہیں ؟ ’’ محد نے سمجھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ کیاکہتی میں ؟ محد لگتا ہے چوٹ تمہارے سر پر لگ گئ ہے ’’ ارسا نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا تھا ۔۔
’’ اور مجھے لگتا ہے تمہارے دل پر لگ گئ ہے ’’ محد نے بھی حساب برابر کیا تھا ۔۔
’’ میرے دل پر نہیں بلکہ دماغ پر لگی ہے اور ایسی لگی ہے کہ اب وہ پہلے سے زیادہ تیز چلنے لگ گیا ہے ’’ ارسا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں وہ تو نظر آرہا ہے ۔۔ تم مجھے بہت ریلیکس لگ رہی ہو ’’ محد نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ظاہر ہے محد ۔۔۔ اب جب مجھے معلوم ہے کہ یہ سب اس انسان کا کیا دھرا ہے تو میں یہ بھی جان چکی ہوں کہ ہمیں اسکےعلاوہ کوئی یہاں سے نہیں نکال سکتا ۔۔ تو پھر کیا ضرورت ہے مجھے یا تمہیں پریشان ہونے کی ؟ ’’ ارسا نے عام سے انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ ویسے بہت سمجھدار ہوگئ ہو تم ؟ لگتا ہے پولیس سٹیشن کا ماحول راس آگیا ہے تمہیں ’’ محد نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ تھوڑا آگے کو جھک کر کہا تھا ۔۔۔
’’ بلکل آگیا ہے ’’ ارسا بھی اسکی طرف جھکی تھی ’’ اور اب تمہیں بھی آجانا چاہئے ’’ ارسا نے ایک آنکھ دبا پر محد سے کہا تھا۔۔ یہاں سے بہت دور ایک شانداز آفس کے لیپ ٹاپ پر یہ منظر چل رہا تھا ،۔۔۔ اور سامنے بیٹھاشخص ان دونوں کو ایک دوسرے کی طرف جھکا دیکھ رہا تھا۔۔ وہ دونوں پریشان نہیں لگ رہے تھے ۔۔ سامنے بیٹھے شخص نے لیپ ٹاپ فوراً بند کیا تھا ۔۔
سوئم کے بعد مہمان جاچکے تھے ۔۔ ماما بھی اب کافی حد تک سنبھل گئ تھیں کہنے کوتو ساحل بھی نارمل تھا مگر ایک خاموشی تھی جو ان سب کے درمیان آگئ تھی۔۔ کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا ۔۔ جب تک مہمان تھے تب تک تو پھر بھی کسی کام سے بات ہوجاتی تھی مگر اب گھر خالی ہونے کے بعد جیسے وہ سب ایک دوسرے سے بھاگ رہے تھے۔۔اس وقت بھی ساحل قبرستان سےواپس آکر بیٹھا تھا جب نیشا اس کے لئے چائے کا کپ لے کر آئی تھی۔۔
’’ بہت تھک گئے ہیں ؟’’ اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر نیشا نے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ بہت تھک چکا ہوں ’’ عجیب معنی خیز لہجہ تھا ۔
’’ آپ کو آنٹی کے پاس جانا چاہئے ۔۔ وہ بہت خاموش ہوگئ ہیں ’’ نیشا نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یہی تو میں چاہتا ہوں نیشا کہ وہ خاموش رہیں کیونکہ میں جانتا ہوں وہ جب بھی کچھ کہیں گی ۔۔ وہ ہر بات ارسا کے متعلق ہوگی اور میں اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ’’ ساحل نے چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’ مگر ایسا کب تک چلے گا ساحل ؟ ماما وہاں پریشان ہیں اور آپ یہاں ؟ اس طرح تو کوئی بھی اپنی نارمل لائف کی طرف نہیں آسکے گا ’’ نیشا نے اسے سمجھانا چاہا تھا ۔۔ وہ اس گھر کی خاموشی اور اس سوگ سے تنگ آچکی تھی ۔۔ اسے اب اس گھر میں نارمل زندگی چاہئے تھی۔۔
’’ کچھ وقت لگے گا نیشا ۔۔ ہم سب نارمل ہوجائینگے ’’
’’ اور ارسا ؟ اسکے بارے میں کیا سوچا آپ نے ؟ تین دن ہوگئے ہیں اور اب تک آپنے اسکی کوئی خبر نہیں لی ’’ نیشا اب اس کے ارادے جاننا چاہتی تھی۔
’’ میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔۔ اس نے جو گناہ کیا ہے وہ اسکی سزا بھکت رہی ہے اور ابھی تو اس نے بہت سی سزائیں بھکتنی ہیں ’’ ساحل کے لہجے میں غصہ تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ آپ اسکی بیل نہیں کروائینگے ؟ ’’ نیشا کو یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ یہ وہی ساحل تھا جو اپنی بہن پر جان لٹادینے کو تیار رہتا تھا ۔۔
’’ وہ قاتل ہے نیشا ۔۔ہمارے اعتبار کی ، ہمارے مان کی ، ہماری عزت کی اور میرے باپ کی ۔۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگا ’’
’’ اور اگر وہ یہاں آگئ تو ؟ ’’ نیشا نے اب اگلاسوال کیا تھا ۔۔
’’ اگر وہ یہاں آئی تو اسے یہاں سے کچھ نہیں ملے گا سوائے سزا کے ’’ ساحل کہہ کر کھڑا ہوا تھا ۔۔ نیشا نے دیکھا وہ اب ماما کے کمرےکی طرف جارہا تھا ۔
وہ اندر داخل ہوا تھا ۔ سامنے بیڈ پر ماما بیٹھی ہاتھ میں تسبیح لے کر کچھ پڑھ رہی تھیں ۔۔ ساحل انکے پاس جاکر بیٹھا اور انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تھا ۔۔ ماما نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔۔
’’ پاپا چلے گئے ہیں ۔۔ مگر آپ میرے ساتھ ہیں ۔۔ آپ ہیں نا ؟ ’’ ساحل نے نظر اٹھا کر ماما کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔۔ صائمہ بیگم کی آنکھیں نم تھیں ۔۔
’’ ہاں بیٹا ۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔ جب تک میری زندگی ہے ’’ ماما نے اسکا ماتھا چوم کر کہا تھا ۔۔
’’ ارسا کا کچھ پتہ چلا ؟ ’’ تھوڑی دیر بعد ماما نے وہی بات کی تھی جسکا ساحل کو ڈر تھا ۔۔
’’ ہاں۔۔ وہ باہر آچکی ہے ’’ اس نے جھوٹ کہا تھا ۔۔ وہ سچ نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ماما اسے کبھی ارسا کو وہ سزا نہیں دینے دینگی جو وہ دینا چاہتا تھا ۔۔
’’ تو وہ یہاں کیوں نہیں آئی ؟ کیا اسے اپنے پاپا کی موت کا کوئی دکھ نہیں ہے ’’ ماما نے اب دوسرا سوال کیا تھا۔۔
’’ اسے اسکی شرمندگی نے یہاں نہیں آنےدیا ماما ۔۔۔ کیا آپ چاہتی ہے کہ وہ یہاں آئے اور سب کو پتہ لگ جائے کہ اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے ؟ ’’ ساحل نے ان سے پوچھا تھا ۔۔
’’ مجھے یقین نہیں آتا ساحل ۔۔ میری بیٹی تو ایسی نہیں تھی ’’
’’ مگر اب وہ ایسی ہوگئ ہے ماما اور ہمارا اب اس ارسا نے کوئی تعلق نہیں ہے جو وہ بن چکی ہے ۔۔ آج کے بعد آپ اسکے بارے میں سوچ کر خود کو پریشان نہیں کرینگی ۔۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ آپنے اپنی بیٹی کو رخصت کردیا ہے اور اب وہ یہاں کبھی نہیں آئےگی‘‘ ساحل کا لہجہ اٹل تھا ۔۔ صائمہ بیگم سمجھ چکی تھیں کہ اب ساحل کو کوئی اسکے فیصلے سے ہٹا نہیں سکتا ۔۔ وہ اپنا فیصلہ کر چکا تھا اور وہ اب کسی کی نہیں سننے والا تھا ۔۔
’’ ارسا یہ تم نے کیا کردیا ؟ ’’ انہوں نےافسوس سے آنکھیں بند کی تھی ۔۔ ایک آنسو انکی آنکھ سے نکل کر گالوں پر بہہ گیا تھا ۔۔۔
یہ ایک شاندار بلڈنگ کا چوتھا فلور تھا جہاں لفٹ کا دروازہ کھلا اور بلیک پینٹ سوٹ پہنے ایک شخص باہر آیا تھا ۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ رہاتھا جیسے وہ بہت جلدی میں ہو ۔۔ چہرے پر سنجیدگی اور افسوس کے ملے جلے تاثر تھے ۔۔۔ وہ اپنےباس کے آفس کےاندر آیا تھا مگر باس وہاں موجود نہیں تھے ۔۔ وہ واپس پلٹا اور ریسیپشن پر موجود لڑکی کے پاس آیا ۔۔
’’ باس کہاَ ہیں ؟ ’’ اس نے جلدی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ میٹنگ روم میں ہیں اور ۔۔۔ ’’ ابھی اس لڑکی نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ واپس پلٹا تھا اور اب اسکا رخ میٹنگ روم کی طرف تھا ۔۔
’’ اسے کیا ہوگیا ؟ ’’ ریسیپشن پر موجود لڑکی نے کاندھے اچکا کر کہا اور اپنے کام میں لگ گئ ۔۔
اسکا رخ میٹنگ روم کی طرف تھا مگر اسے باہر ہی رکنا پڑا تھا کیونکہ اندر کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی ۔۔ وہ اب میٹینگ روم کے باہر بے چینی سے چکر لگا رہا تھا ۔۔
میٹنگ روم کے اندر ایک بڑی سی ٹیبل موجود تھی جس کے آس پاس کرسیاں، درمیان میں دو گلدان ، پانی کے گلاس اور ہرکرسی کے سامنے ایک فائیل رکھی تھی جس پر کرسی پر بیٹھے لوگ بار بار نظر ڈال رہے تھے۔۔ میز کے بلکل سامنے باس بیٹھے تھے ایک ہاتھ میں پین کو گھماتے ہوئے وہ سامنے کھڑے نوجوان کو سن رہے تھے۔۔ جوسامنے لگی سکرین پر موجود جیولری کے ڈیزائینز کی طرف اشارہ کر کے کچھ کہہ رہا تھا ۔۔سب اس نوجوان کی طرف متوجہ تھے ۔۔ نوجوان کی بات مکمل ہونے کے بعد وہ اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تھا اور اب باس نے بات کا آغاز کیا تھا ۔۔ وقفے وقفے سے سب کوئی نا کوئی رائے دے رہے تھے۔۔ باس کے دائیں جانب کرسی پر بیٹھی لڑکی جوکہ باس کی سیکریٹری تھی وہ بہت تیزی سے اپنا قلم سامنے رکھی فائیل پر چلا رہی تھی ۔۔ کافی دیر کی ڈسکشن کے بعد باس کچھ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے ۔۔ انکے کھڑے ہوتے ہی باقی سب بھی کھڑے ہوئے تھے۔۔ اب باس نے سامنے کھڑے تین لوگوں سے ہاتھ ملایا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد میٹنگ روم کا دروازہ کھلا تھا اور سب سے پہلے باہر نکلنے والے باس تھے ۔۔ وہ شخص فوراً سے باس کی جانب بڑھا تھا ۔۔
’’ باس ایک بہت ضروری بات کرنی ہے ’’ اس نے باس سے کہا تھا ۔۔
’’ میں تھک چکا ہوں ۔بعد میں بات کرینگے۔۔ میرے لئے ایک کپ کافی بھجوا دو ’’ باس کہہ کر آگے بڑھ گئے تھے مگر وہ انکے پیچھے آیا تھا ۔۔
’’ مگر باس بات بہت ضروری ہے ’’ باس نے رک کر ایک سرد نگاہ سامنے کھڑے اس درمیانی عمر کے لڑکے پر ڈالی تھی
’’ بات ضروری نہ ہوتی تو میں کبھی آپکو ڈسٹرب نہیں کرتا ‘’ اس نے دھیمے لہجے میں کہاتھا ۔۔ باس کے غصے سے وہ واقف تھامگر اس وقت اسے باس کے غصے سے زیادہ اپنی بات کی فکر تھی۔۔
’’ اوک ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھے تھے اور وہ انکے پیچھے چل پڑا تھا ۔۔ آفس میں آکر باس جلدی سے اپنی کرسی کے پاس گئے تھے ۔۔ وہ پیچھے ہی انکے آفس میں داخل ہوا تھا ۔۔ باس نے اب اپنا کوٹ اتار کر کرسی کی پشت پر ٹانکا پھر کرسی پر بیٹھ کر ٹیک لگاتے ، ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے سامنے کھڑے اپنے اس مینیجر کی طرف دیکھا جو اس سے بات کرنے کے لئے دروازے کو بند کر کے اب آہستہ آہستہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔ اے سی کی ٹھنڈک کے باوجود بھی اسے پسینے آرہے تھے۔۔ وہ اپنی بات شروع کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا ۔۔جب سامنے بیٹھے اسکے باس نے سخت لہجے میں اس سے کہا تھا :
’’ تو کیااب مجھے تمہارا انتظار کرنا ہوگا حاشر ؟ ’’ باس کی سخت آواز سے وہ مزید گھبرا گیا تھا ۔۔
’’ وہ باس ۔۔ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ ارسا ۔۔۔’’ وہ رک گیا تھا ۔۔ شاید کنفیوز تھا ۔۔ اس نے باس کی طرف دیکھا وہ اسے ہی گھور رہے تھے ۔۔ آنکھوں میں سختی تھی ۔۔۔
’’ چار دن پہلے ان کے والد کا انتقال ہوگیا ہے ’’ کیف نے اپنی بات پوری کر کے سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا تھا ۔۔ جس کے چہرے پر اب حیرانی تھی ۔۔
’’ اور تمہیں یہ چار دن بعد پتہ لگا ہے ؟ ’’ وہ میز پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے چلایا تھا ۔۔ حاشر اندر تک کانپ گیا تھا ۔۔
’’ سر وہ ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہوپارہا تھا۔۔ ایک گھنٹہ پہلے ہی کال آئی تھی میرے پاس اور میں فوراً ۔۔’’ وہ ابھی اپنی بات مکمل کر ہی رہا تھا جب باس نے اسکی بات کاٹی تھی ۔۔
’’ اے ایس پی سے کہو ان دونوں کو ابھی آزاد کرے ’’ وہ تیش میں کہہ کر اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا چلا گیا تھا ۔۔حاشر نے اس دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے وہ گزر کر گیا تھا ۔۔ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور اپنا موبائیل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔
’’ انہیں آزاد کردیں ۔۔ ابھی اور اسی وقت ’’ حاشر نے کہہ کر کال بند کر دی تھی ۔۔
حولدار نے آکر اسکا لاک اپ کھولا تھا ۔۔ وہ چونکی تھی ۔
’’ آپ کی بیل ہوگئ ہے باہر آجائیں ’’ حوالدار نے اسے باہر آنے کا اشارہ کیا تھا اور ارسا گہری سانس لے کر کھڑی ہوئی تھی۔
’’ تو چار دن کی قید تھی یہ ۔۔ مجھے لگا وہ چار سال تک قید رکھے گا ’’ ارسا کہتے ہوئے باہر آئی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ کچھ دونوں کچھ کاغذات میں دستخط کررہے تھے ۔۔ جب پولیس انسپکٹر نے انکے موبائیل انہیں واپس کیے تھے ۔۔
’’ شکریہ انسپکٹر صاحب ۔۔ بہت اچھا وقت گزرا آپکے ساتھ ’’ مسکرا کر کہتے ہوئے ارسا پلٹی تھی اور پھر وہ دونوں پولیس سٹیشن سے باہر آئے تھے ۔۔ اس نے باہر آتے آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔
’’ چار دن ۔۔۔ چار دن قید رہ کر جانتے ہو محد میں نے کیا سیکھا ہے ؟ ’’ اس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ محد اس کے برابر آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ کیا ؟ ’’ اس نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ میں نے سیکھا کہ ہم سب زندگی اور وقت کی اس قید میں ہیں۔۔ جہاں سے نکلنے کا فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔۔ یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔۔ اس لئے اس قید میں اس خدا کے علاوہ کسی اور پر یقین نہیں کرنا چاہئے’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔ محد نے دیکھا آج وہ بہت مختلف لگ رہی تھی ۔
’’ ٹھیک کہہ رہی ہو تم ’’ گاڑی کا دروازہ اسکے لئے کھولتے ہوئے اس نے اسکی بات سے ایگری کیا تھا ۔۔
’’ محد ’’ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا تھا جب ارسا نے اسے پکارا تھا ۔۔
’’ بولو ’’ اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ مجھے گھر جانا ہے ’’ ارسا کی بات پر وہ تھوڑا حیران ہوا تھا ۔۔
’’ مگر ابھی تو ہم باہر آئے ہیں ۔۔ تمہیں تھوڑا ریسٹ کرنا چاہئے اور پھر تم اس وقت انکو کیسے فیس کروگی ؟ ’’ محد اس کے اس وقت وہاں جانے کے خلاف تھا ۔۔
’’ میں اسی فیس کے ساتھ فیس کرونگی محد ۔۔ میں نےکچھ ایسا نہیں کیا کہ مجھے ان سے چھپنا پڑے ‘’
’’ مگر ابھی ریسٹ کرلو ہم کل چلے جائینگے ’’ محد جانتا تھا وہ تین راتوں سے سوئی نہیں تھی ۔۔ اسے آرام کرنے کی ضرورت تھی۔۔
’’ مجھے ریسٹ نہیں سکون چاہئے محد اور وہ مجھے پاپا سے مل کر ملے گا۔۔ ان چار دنوں میں مجھے پاپا بے حد یاد آئے ہیں۔۔ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں ۔۔مجھے صرف ان سے مل کر ہی آرام مل سکتا ہے ’’ ارسا نےباہر دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ محد اسکی بات سمجھ چکا تھا اس نے گاڑی کا رخ اس راستے پر کیا تھا جو ارسا کے گھر کی جانب جاتا تھا۔۔
ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ ارسا کے گھر کے سامنے موجود تھے ۔۔ ارسا گاڑی سے باہر نکلی تھی ۔ محد بھی اس کے ساتھ تھا ۔۔ دونوں نے قدم آگے بڑھائے تھے ۔۔ گیٹ کے باہر بیٹھا گارڈ ان دونوں کو آتا دیکھ کر کھڑا ہوا تھا ۔۔۔مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا تھا ۔۔ ارسا اور محد دروازے کے پاس پہنچے تھے جب اس نے ارسا سے کہا تھا ۔۔
’’ ارسابیٹا۔۔ آپ یہاں ؟ ’’ گارڈ تھوڑا گھبرا گیا تھا ۔۔
’’ یہ میرا گھر ہے انکل مجھے یہاں آنا تھا ۔۔ دروازہ کھول دیں ’’ ارسا نے کہا تھا۔
’’ معاف کریں ارسا بیٹا مگر ساحل صاحب کا آرڈر ہے کہ آپ کے لئے دروازہ نا کھولا جائے ’’ گارڈ کی بات پر ارسا اور محد نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ میں پاپا سے ملنے آئی ہوں۔۔ آپ انہیں کہیں جاکر ’’ ارسا کی بات پر گارڈ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔
’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بیٹا ؟ ساجدصاحب سے اب آپ کیسے مل سکتی ہیں ؟’’ گارڈ کی بات پر محد آگے آیا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب کیسے مل سکتی ہے ؟ بیٹی ہیں انکی ارسا ’’
’’ ٹھیک کہا تم نے ’’ ان دونوں کے پیچھے سے کسی کی آواز آئی تھی ۔۔ ارسا اور محد نے ایک ساتھ پلٹ کر دیکھا تھا ۔۔ سامنے ساحل کھڑا تھا ۔۔
’’ ساحل بھائی ’’ ارسا ساحل کی طرف بڑھی تھی ۔۔
’’ یہ بیٹی تھی انکی ’’ ساحل نے لفظ ’تھی’ پر زور دیا تھا ۔۔ ارسا کے قدم رک گئے تھے ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ ارسا نے رک کر حیرانی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ مطلب یہ ارسا ساجد کہ تم انکی بیٹی تھی۔۔ اور انکے ساتھ ساتھ تمہارا اس گھر کے ساتھ ہر رشتہ ختم ہوچکا ہے ۔۔ تم یہاں سےجاسکتی ہو ’’ ساحل کہہ کر گھر کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟ آپ مجھے پاپا سے ملنے سے نہیں روک سکتے ’’ ارسا کی بات پر ساحل کی قدم رکے تھے ۔۔ اس نے پلٹ کر ارسا کو دیکھا تھا ۔۔
’’ تمہیں پاپا سے ملنا ہے ارسا ؟ ’’ ایک زخمی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ارسا سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں یہاں انہیں کے لئے آئی ہوں ’’
’’ تو جاؤ ۔۔ قبرستان میں جاکر مل لو ’’ ساحل کے منہ سے نکلے یہ الفاظ نہیں تھے۔۔ یہ تیر تھے جو ارسا کے سینے کو چیرتے ہوئے نکلے تھے ۔۔ اسکا وقت رک گیا تھا ۔۔ وہ آنکھیں کھولے سامنے کھڑے ساحل کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جو اب آگے بھی اس سے کچھ کہہ رہا تھا ’’ تم نے ہمارے پاپا کو وہاں پہنچا دیا ارسا جہاں سے وہ لوٹ کر نہیں آسکتے ۔۔۔ تم قاتل ہو ارسا۔۔ ہماری عزت کی ۔۔ ہمارے اعتبار کی ، اور ہمارے پاپا کی ۔۔ جاؤ اور جاکر ملو ان سے ’’ وہ کہہ کر گھر کے اندر جاچکا تھا ۔۔ گیٹ بند ہوگیا تھا ۔۔ ارسا کو لگا اس پر زندگی کے دروازے بند ہوئے تھے ۔۔ اسے لگا کہ اسکی سانس بند ہورہی تھی ۔۔ کچھ کھا جو اسکے گلے میں اٹک رہا تھا ۔۔کچھ تھا جو آنکھوں کے ذریعے باہر نکلنا چاہ رہا تھا مگر وہ نکل نہیں رہا تھا ۔۔ کچھ تھا جس نے اسکے پاؤں جکڑ لئے تھے ۔۔ کچھ تھا جس نے اس سے ہلنے کی طاقت چھین لی تھی ۔۔ کچھ تھا جس نے اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا کر دیا تھا ۔۔۔
محد آگے بڑھا تھا ۔۔ اس نے ارسا کو بازؤں سے تھاما تھا ۔۔ وہ جیسے ہوش میں آئی تھی ۔۔ اس نے پتھریلی نگاہوں سے محد کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ مجھے پاپا کے پاس لے جاؤ ’’ کچھ تھا جس نے ارسا کی آواز بدل دی تھی ۔۔ جس نے ارسا کا انداز بدل لیا تھا ۔۔
کچھ دیر بعد محد اسے قبرستان لے آیا تھا ۔۔ وہ سامنے ایک قبر کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔ جس کی تختی پر اسکے پاپا کا نام لکھا تھا۔۔ اسکی آنکھیں پتھر بن گئ تھیں ۔۔ وہ اس قبر کے پاس آئی تھی ۔۔ وہ بیٹھی تھی ۔۔ محد اسکے پیچھے کھڑا تھا ۔۔ اس نے ایک ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔ قبر کی مٹی کو ایک مٹھی میں لیا تھا ۔۔ اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا ۔۔ مٹھی سے مٹی نکل رہی تھی ۔۔ وہ بس اس مٹی کو دیکھ رہی تھی ۔۔ اور پھر ۔۔۔اور پھر ایک دلخراش آواز ۔۔ ایک چیخ تھی جو ارسا کے حلق سے نکلی تھی ۔۔ ایک اتنی زورآور چیخ جس نے آس پاس کے پورے ماحول کو خوفزدہ کردیا تھا ۔۔ جس نے محد کو ارسا کی جانب تیزی سے بڑھنے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔ جس نے ارسا کو ہوش سے بیگانا کردیا تھا ۔۔
وہ ڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔
’’ اسکی طبیعت سنبھل کیوں نہیں رہی ؟ ’’ محد نے فکر مندی سے ڈاکٹر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ انہیں کوئی بہت بڑا شاک لگا ہے اور وہ اسکو برداشت نہیں کر پارہی ہیں۔۔ آپ کوشش کریں کے وہ اپنے آپ کو سنبھال لیں ’’ ڈاکٹر نے رکتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ میں اسے کیسے سنبھالوں ڈاکٹر ۔۔ چار دن ہوگئے ہیں ۔۔۔ وہ ہوش میں آتی ہے وہ رونا بند نہیں کرتی اور اتنا روتی ہے کہ اسے سلانے کے لئے انجکشن دینا پڑتا ہے ’’ محد بے حد پریشان ہوگیا تھا ۔۔ ارساکو اس حال میں دیکھ کر وہ خود بھی سکون میں نہیں تھا ۔۔
’’ کوئی بات تو ہے محد صاحب کے وہ اس بات کو برداشت نہیں کرپارہی ’’ ڈاکٹر محد سے ڈیٹیل جاننا چاہتا تھا ۔۔
’’ اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے پاپا کی موت کی ذمہ دار ہے ’’ محد نے کمرے کے دروازے کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ جس کے اندر ارسا بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔۔
’’ کیا وہ ہے ؟ ’’ ڈاکٹر نے اس سے سوال پوچھا تھا ۔۔ محد تھوڑی دیر خاموش رہا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ اس میں اسکا کوئی قصور نہیں تھا ۔۔وہ تو خود کسی کی بے رحمی کا نشانہ بنی ہے ’’ محد نے تھوڑی دیر بعد کہا تھا ۔۔
’’ تو پھر اب جب وہ ہوش میں آئیں تو آپ انہیں یاد دلائیں کہ وہ کسی کی بے رحمی کا نشانہ بنی ہیں ’’ ڈاکٹر نے محد کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا ۔۔محد نے بات سمجھ کر سر ہلایا تھا۔۔ ڈاکٹر چلے گئے تو محد نے ایک گہری سانس لے کر کچن کا رخ کیا ۔۔ وہ جانتا تھا ارسا تین چار گھنٹے میں ہوش میں آجائے گی ۔۔ اس لئے اسے اب اسکے لئے کچھ کھانے کو بنانا تھا ۔۔ اب وہ اسے دوبارہ بے ہوش نہیں ہونے دیگا ۔۔۔
اس نے ارسا کی پسند کا کھانا بنایا تھا ۔۔ اتنے عرصے اکیلے رہ کر اسے کھانا بنانا آگیا تھا ۔۔ اسکے بعد اس نے ارسا کے لئے ایک ڈریس کا انتظام کیا تاکہ وہ ہوش میں آکر چینچ کر لے ۔۔تقریباْ تین گھنٹے بعد ارسا کو ہوش آیا تھا ۔۔ وہ ہلی نہیں تھی ۔۔ نظریں چھت کی جانب اور آنکھوں سے آنسو بے آواز نکل رہے تھے ۔۔
محد دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا ۔۔ ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں کافی کے دو کپ تھے ۔۔
’’ اٹھ گئ تم ؟ ’’ محد نارمل سا کہتا ہوا اسکے پاس آکر بیٹھا تھا ۔۔ ارسا آہستہ سے سیدھی ہوکر بیٹھی تھی ۔ محد نے کافی کا کپ اسکی طرف بڑھایا مگر اس نے تھاما نہیں تھا ۔۔ محد نے چائے کا کپ واپس رکھا تھا ۔۔
’’ جانتی ہو ارسا ۔۔ یہ جو تم خاموشی سے بے آواز آنسو بہاتی ہونا ؟ انکی آواز سے سامنے والے کا دل تڑپ جاتا ہے ‘’ محد نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ ارسا نے ہلکا سا چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔ خاموش آنسوؤں کی بھی آواز ہوتی ہے کیا؟ اسکی آنکھوں میں لکھا یہ سوال محد نے پڑھ لیا تھا ۔۔۔
’’ خاموشی سے بہنے والے آنسوؤں کی بھی آواز ہوتی ہے ۔۔ اور اتنی شدید ہوتی ہے کہ سننے والا تڑپ جاتا ہے ۔۔ یہ آواز ہر اس انسان کے دل کر تڑپا دیتی ہے جو آپ سے محبت کرتا ہے ۔۔ اور ہر اس انسان کو بھی تڑپا سکتی ہے ۔۔ جو اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔۔۔ یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اپنے ان آنسوؤں سے کسے تڑپاؤگی ؟ ’’وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا اسکی باتوں کی گہرائی تک جارہی تھی ۔۔ وہ جان رہی تھی کہ اس کے آنسو سامنے بیٹھےاس شخص کے لئے تکلیف کا باعث تھے ۔۔
’’ کیا تم مجھے تڑپاتی رہوگی ؟ یا پھر اسے تڑپاؤگی جو اسکا اصل ذمہ دار ہے ؟ ’’ اس نے سوال کیا تھا ۔۔ ارسا خاموش تھی۔۔ آنسو رکے تھے ۔۔محد نے کافی کا کپ دوبارہ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔ ارسا نے اس کپ کو دیکھا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے تھاما تھا ۔۔ محد کے چہرے پر اطمینان آیا تھا ۔۔
وہ کھڑا ہوا اور الماری کی جانب بڑھا ۔۔ ارسا اسے دیکھتے کافی کا گھونٹ بھر رہی تھی ۔۔ محد نے ایک ڈریس الماری سے نکالا تھا اور ارسا کی جانب پلٹا تھا ۔۔
’’ یہ دیکھو ۔۔ تمہاری لئے لیا ہے میں نے ۔۔ کیسا ہے ؟ ’’ ارسا نے ڈریس کو دیکھا اور ہلکا سا مسکرائی ۔۔ محد بھی مسکرایا تھا ۔۔
’’ جلدی دے کافی ختم کرو پھر ہم کھانا کھائینگے ۔۔ تمہاری وجہ سے میں نے بھی چار دن سےٹھیک سے نہیں کھایا ’’ محد نے ڈریس سامنے رکھے صوفے پر پھیلایا تھا ۔۔
’’ میں ٹیبل لگا رہا ہوں تمہارے پاس دس منٹ ہیں تیار ہونے کے لئے ’’ وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل چکا تھا ۔۔ ارسا نے خاموشی سے اپنی کافی ختم کی اور پھر ڈریس اٹھا کر واشروم کی جانب چلی تھی ۔۔
اس نے کھانے کی ٹیبل لگائی تھی ۔۔ یہ پہلی بار تھا جب وہ اتنا کام کر رہا تھا ۔۔ ورنہ اکیلے رہنے والا انسان تو کبھی اتنا تکلف نہیں کرتا مگر آج وہ ارسا کے لئے یہ سب کر رہا تھا اور دل سے کر رہا تھا ۔۔ دس منٹ بعد ارسا اپنے کمرے سے نکلی اور نیچے آرہی تھی ۔۔ محد نے پلٹ کر دیکھا ۔۔ وہ اسکے لائے ہوئے نیلے رنگ کے سوٹ میں ، گیلے بال کھولے ہوئے ، رونے کی وجہ سےلال ناک اور سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھی حسین لگ رہی تھی ۔۔ جب تک وہ سیڑھیوں سے اتر کر اسکی جانب آئی تھی ۔۔ وہ بس اسے ہی دیکھے جارہا تھا ۔۔ ارسا اسکے سامنے آکر رکی ۔۔ محد خاموش تھا ۔۔
’’ کیا سوچ رہے ہو ؟ ’’ ارسا نے کہا تھا ۔۔۔ چار دن۔۔ چار دن بعد اس نے ارسا کی آواز سنی تھی ۔۔ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ سوچ رہا ہوں تم ان سوجی ہوئی آنکھوں اور لال ناک کے ساتھ بلکل اینابیلا ڈول لگ رہی ہو ’’ محد کہہ کر ہنسا تھا اور ارسا منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ تم بھی کسی جوگر سے کم نہیں ہو ’’ وہ چڑ کر کہتی ہوئی کرسی کی جانب بڑھی تھی ۔۔
’’ پھر بھی تم سے کم ڈراؤنہ ہوں ’’ محد بھی اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تھا ۔۔
ارسا نے جواب نہیں دیا تھا ۔۔ محد نے اسکی پلیٹ میں چائینیز رائس ڈالے تھے ۔۔
’’ یہ تم نے بنائے ہیں ؟ ’’ ارسا نے ایک بائیڈ لیتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ کیسے ہیں ؟ ’’ محد نے اس سے پوچھا تھا ۔۔ اسے اپنی تعریف سننی تھی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ رائس اس نے بہت اچھے بنائے تھے ۔۔۔
’’ کچھ خاص نہیں ۔۔ مگر کھانے کے قابل ہیں ’’ ارسا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔ اس بار منہ کھولنے کی باری محد کی تھی ۔۔
’’ شکریہ بہت بہت ’’ محد نے جلے ہوئے انداز میں کہتے ہوئے اپنی پلیٹ میں رائس ڈالے تھے ۔۔
باقی کا کھانا دونوں نے خاموشی سے کھایا تھا ۔۔ محد نے شکر ادا کیا کہ وہ نارمل ہوئی تھی ۔۔ کھانے سے فارخ ہوکر محد نے چائے بناکر اسے دی ۔۔ وہ دونوں اب ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے تھے ۔۔
’’ محد’’ چائے کا کپ لیتے ہوئے ارسا نے محد سے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں بولو ’’ محد اسکی طرف متوجہ ہوا تھا
’’ مجھے پاپا سے ملنے جانا ہے ’’ ارسا نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ابھی نہیں ارسا ۔۔ تم ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی ہو ۔۔ ہم کچھ دن بعد چلے جائینگے ’’ اسے خوف تھا کہ ارسا دوبارہ وہاں جاکر اپنی حالت پہلی جیسی نہ بنا لے ۔۔
’’ میں ٹھیک ہوں محد ۔۔۔ تمہارے صرف چند الفاظ نےمجھے ٹھیک کر دیا ہے ۔فکر مت کرو مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔۔ پلیز مجھے وہاں لے چلو ’’ ارسا نے اس سے ریکوسٹ کی تھی ۔۔ محد نے اسے دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ اسےاسکی بات ماننی ہوگی۔۔
’’ اوک پر تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا ’’ محد نے اسکی بات مانتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میں ہمت نہیں ہارونگی ۔۔میں نارمل رہونگی اور اب میں ٹوٹونگی نہیں ۔۔ وعدہ ’’ ارسا جانتی تھی کہ وہ اس سے کیا چاہتا ہے اس لئے اس سے پوچھے بناہی اس نے اس سے وعدہ کیا تھا ۔۔ محد مسکرایا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ چائے ختم کرو پھر چلتے ہیں ’’ محد نے چائے کی جانب اشارہ کیا تھا ۔۔ وہ دونوں اب چائے ختم کر رہے تھے ۔۔
چائے ختم کرنے کے بعد وہ دونوں قبرستان کے لئے نکل گئے تھے ۔۔ انکی گاڑی کے وہاں سے جانے کے بعد سڑک کے ایک جانب کھڑے حاشر نے اپنے کان پر لگے ائیر فون پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
’’ باس۔۔ انہیں ہوش آگیا ہے ۔۔ وہ ابھی اسی کے ساتھ باہر گئ ہیں ’’ اس نے باس کو اطلاح کی تھی ۔۔۔۔
وہ اس وقت قبر کے پاس موجود تھی ۔۔ محد اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔ اسے اب بھی ڈر تھا۔۔
ارسا نے قبر کی مٹی پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ کچھ آنسو تھے جو اسکی آنکھوں سے خاموشی سے بہہ رہے تھے ۔۔
’’ تم نے کہا محد کے یہ آنسو خاموش نہیں ہوتے ؟ ’’ ارسا قبر کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔ محد قبر کی دوسری جانب اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔۔
’’ پاپا بھی ان آنسوؤں کا شور سن رہے ہونگے محد ۔۔ اب تو وہ جان گئےہونگے نا کہ میں بے قصور ہوں ؟ ’’ ارسا نے محد سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ارسا وہ جانتے ہیں ۔۔ وہ اسی وقت جان گئے تھے جب تم پہلی بار یہاں ان سے ملنے آئی تھی ’’ محد نے اس سے کہا تھا۔۔
’’ اگر مجھے پتہ ہوتا محد کہ اس دن میں اپنے پاپا کو آخری بار دیکھ رہی ہوں ۔۔ تو میں کبھی بھائی کی بات نامانتی ’’
’’ وقت کو یہی منظور تھا ارسا ۔۔ گزرا ہوا وقت ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔ تمہیں آنے والے وقت اور موجودہ وقت کوٹھیک کرنا ہے’’ محد نے اسے ایک راستہ دکھانے کی کوشش کی تھی ۔۔
’’ جانتے ہو محد ۔۔ پاپا مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔ ماما کے مقابلے میں پاپا نے ہمیشہ مجھے ایک دوست بن کر ٹریٹ کیا۔۔ انہوں نے میری ہر خواہش پوری کی ۔۔میری ہر بات سنتے تھے وہ ۔۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ زندگی میں جینا کیسے ہے ۔۔ انہوں نے مجھے سچ بولنا سکھایا ۔۔ انہیں مجھ پر مان تھا ۔۔ بھائی کے مقابلے پر وہ مجھے زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔۔ پاپا نے ہی مجھے ایک بار بتایا تھا کہ جب انسان کو چوٹ لگے تو اسےآنسو ضرور بہانے چاہئیے مگر ان کے بہہ جانےکے بعد، کھڑے ہوکر اس چوٹ کی دوا کرنی چاہئے۔۔ کیونکہ آنسو صرف دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں ۔۔ زخم تو دوا ہی بھرتے ہیں’’ وہ کہہ رہی تھی اور محد اسے خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔ وہ خوش تھا کہ وہ نارمل ہے اور وہ دکھی تھا کہ وہ اداس ہے ۔۔
’’ تم نے آج مجھے پاپا کی یہ بات یاد دلائی محد ۔۔ آج مجھے معلوم ہوا کہ پاپا تمہیں اتنا پسند کیوں کرتے تھے ’’ ارسا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ بھی مسکرایا تھا ۔۔۔
’’ تم بہادر ہو ارسا ’’ محد نے اسے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ مجھے پاپا نے کہا تھا ایک بار ۔۔۔ انسان وہی بہادر ہوتا ہے جو گِر کر کھڑا ہوجائے ۔۔ جو درد میں بھی مسکرائے ’’ ارسا نے قبر کی تختی پر لکھے اپنے پاپا کے نام کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ لیکن ایک چیز پاپا نے مجھے نہیں سکھائی تھی محد ’’ ارسا کے چہرے کے تعصوراتے بدلے تھے ۔۔ چہرے پر سختی آئی تھی ۔۔ آنسو رک رگئے تھے ۔۔
’’ کیا ؟ ’’ محد نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ انہوں نے مجھے محبت دی ۔۔ اور محبت دینا سکھایا ’’ ارسا نے قبر پر ایک بار پھر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔ مٹی ہاتھوں میں لی تھی۔۔
’’ مگر انہوں نے مجھے نفرت نہیں سکھائی تھی محد ’’ ارسا نے مٹی کو قبر پر چھوڑ دیا تھا ۔۔ محد نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ اب الگ لگ رہی تھی ۔۔
’’ انہوں نے مجھے نفرت کرنا نہیں سکھایا ۔۔مگر ’’ ارسا کھڑی ہوئی تھی ۔۔ محد بھی اسکے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ مگر اس شخص نے مجھے سکھا دیا ۔۔۔ اس نے مجھے نفرت کرنا سکھا دیا محد ‘’ ارسا محد کو دیکھتے کہہ رہی تھی۔۔
’’ اب ارسا ساجد کو نفرت ہے ۔۔ ارسا ساجد کو اس شخص سے نفرت ہے ’’ ارسا کہہ کر پلٹی تھی اور محد وہی کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہ گیا تھا۔۔کچھ تھا جو ارسا ساجد میں بدل گیا تھا ۔۔۔!!