پوری رات وہاں کوئی سویا نہیں تھا ۔۔ سب بے سکون تھے ہاں اگر کوئی سکون میں تھا تو وہ نیشا تھی ۔۔
اس وقت بھی وہ سب ناشتے کے لئے ڈائیننگ ٹیبل پرموجود تھے مگر کوئی ناشتہ کر نہیں رہا تھا ۔۔سب اپنی اپنی سوچ میں گم تھے ۔۔ ایک نیشا ہی تھی جو کہ اس سب کو دیکھتی اور ناشتہ کرتی ۔۔
’’ مجھے میری بیٹی اس گھر میں واپس چاہئے ساحل ’’ ساجد صاحب نے حاکمانہ انداز میں کہا تھا
’’ وہ چاہتی تو واپس آسکتی تھی’’ ساحل نے سر جھکا کر جواب دیا تھا ۔۔ اسے اب احساس ہورہا تھا کہ اس نے جلدبازی کی تھی آخر وہ اسکی اکلوتی بہن تھی ۔۔ اسے اس سے محبت تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک اسکی ہر خواہش پوری کی تھی۔۔ اسے پڑھائی کے لئے خود سے دور بھی بھیجا تھا ۔۔ اسے صرف غصہ تھا کہ اگر وہ کسی کو پسند کرتی تھی ؟ اگر ایسی کوئی بات تھی تو وہ اسے بتا دیتی اس نے کون سا اسے منع کرنا تھا ۔۔ غصے میں اسے گھر سے نکال تو بیٹھا تھا مگر اب اسے افسوس ہورہا تھا ۔۔ اسے اس سے پیار سے پوچھتا چاہئے تھا ۔۔اب اسے پچھتاوا ہورہا تھا آخر وہ اسکی بہن تھی۔ ناجانے وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی ؟ وہ کیوں آگیا نیشا کی باتوں میں؟ اسے خود پر غصہ تھا ۔۔
’’ اور میں چاہتا ہوں کہ تم اسے واپس لاؤ۔۔ آخر وہ بیٹی ہے میری ، بہن ہے تمہاری، تم نے اسے کیسے بے گھر کردیا ؟ میں کل سے کالز کر رہا ہوں۔۔ اسکا نمبر نہیں لگ رہا اگر اس کے ساتھ کچھ برا ہوگیا تو ؟ ’’ پاپا کی بات پر اس نے گھبرا کر انہیں دیکھا تھا۔
’’ وہ کال نہیں اٹھا رہی ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا وہ حقیقتاً پریشان ہوا تھا ۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ ارسا پاپا کی کال ریسیو نہ کرے ؟
’’ نہیں اٹھا رہی وہ کال اور اب تو نمبر لگ ہی نہیں رہا اسکا ’’ پاپا نےاسے گھورتے ہوئے کہا تھا یہ سب ہو بھی تو اسی کے جذباتی فیصلے کی وجہ سے رہا تھا۔۔
’’ ہاں نہیں اٹھا رہی وہ کال ۔۔ میں تمہیں بتا رہی ہوں ساحل ، اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی ’’ ماما اس سے کہہ کر وہاں سے چلی گئ تھی۔
’’ آپ پریشان مت ہوں میں آج ہی جاکر اسے لاؤنگا ’’ وہ کہہ کر اٹھا تھا اور اپنے کمرے میں آیا تھا ۔۔ نیشا بھی اسکے پیچھے پیچھے کمرے میں آئی تھی۔
’’ تو اب آپ اسے لینے جائینگے ؟ ’’ اس نے ساحل کے سامنے کھڑی ہوکر کہا تھا جو اپنی کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا۔
’’ ہاں اور تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ’’ وہ اس وقت نیشا کی کوئی بات نہیں سننا چاہتا تھا۔ پہلے ہی اسکی باتوں میں آکر وہ ایک غلطی کر بیٹھا تھا۔ اب دوسری نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ مجھے کیوں اعتراض ہوگا آپکی بہن ہے وہ ۔ مانا کے اس نے دھوکہ دیا ہے۔۔ ہماری عزت کا مزاق اڑایا ہے۔۔ مگر پھر بھی ہے تو وہ بہن نا؟ ضرور جائیں آپ ’’ وہ بھی طنز کے تیر برسا کر بیڈ پر اپنا موبائیل لے کر بیٹھ چکی تھی جبکہ ساحل اسے اگنور کر کے اب روم سے نکل گیا تھا ۔۔
وہ کب سے لاؤنچ میں دائیں بائیں چکر لگا رہی تھی۔ اسکا سر چکرا رہا تھا۔ عجیب بے چینی تھی ۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکے ساتھ ہوکیا رہا ہے ؟ جانے کتنی دیر ہوئی تھی اسے اس طرح چکراتے ہوئے جب ڈور بیل کی آواز پر اس نے فوراً جاکر دروازہ کھولا تھا سامنے محد تھا ۔۔ وہ اندر آکر صوفے پر بیٹھا جبکہ وہ اسی طرح کھڑی رہی۔۔
‘’ میں بھی تمہاری ہی طرف آنے والا تھا تم نے خود ہی بلا لیا مجھے ۔۔کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھ جاؤ ’’ اس نے اسے کھڑی دیکھ کر کہا تھا ارسا خاموشی سے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ چکی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ؟ تم پریشان ہو ؟ ’’ وہ اسکی بے چینی بھانپ گیا تھا
’’ مجھے سمجھ نہیں آرہا محد کہ وہ کون ہے ؟نمیں سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں ’’ اس نے اپنا تھام کر کہا تھا۔
’’ تم پریشان مت ہو ۔۔ اسکا ایک حل ہے ہمارے پاس ’’ محد کی بات پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
’’ کیسا حل ؟ ’’
’’ میں آج ایک اسلامک سکولر کے پاس گیا تھا تمہارا پورا کیس انہیں سنایا میں نے ’’ وہ رکا تھا
’’ کیا کہا انہوں نے ؟ ’’ ایک امید کے ساتھ اس نے پوچھا تھا۔
’’ تم نے ہاں بھی کہا اور دستخط بھی کئے ۔۔ نکاح تو ہو چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ اگر خلع کی بات کی جائے تو عدالت سے خلع آسانی سے مل سکتی ہے مگر اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ ہے کون اور اسکا نام کیا ہے ؟’’ محد کی بات پر اسکے چہرے پر آئی امید کی کرن دوبارہ بجھی تھی ۔
’’ اور مجھے یہ دونوں باتیں نہیں معلوم ۔۔نکاح کے وقت میں اتنی شاکڈ تھی کہ مجھے یاد ہی نہیں کہ قاضی نے کیا نام لیا تھا؟ ’’ ارسا نے مایوسی سے کہا تھا۔
’’ جانتا ہوں ۔۔ مگر اس کے بعد بھی ایک راستہ ہے۔’’ محد کی بات پر وہ چونکی تھی۔
’’ کیسا راستہ ؟ ’’
’’ انتظار ’’ اس نے آگے کو جھک کر کہا تھا اور ارسا نے اسے ناسمجھی سے دیکھا تھا ’’ انتظار ؟ ’’
’’ ہاں اسلام کے مطابق اگر آپکا شوہر نکاح کے بعد لاپتہ ہوجائے اور اس سے کوئی رابطہ نہ ہو تو تین سال کا انتظار فرض ہوتا ہے اور اسکے بعد عورت دوسری شادی کر سکتئ ہے ’’ اسکی بات پر جہاں وہ چونکی تھی وہی چہرے پر دوبارہ مایوسی چھائی تھی۔
’’ میں تمہارے ساتھ ہوں ارسا ۔۔ اور میں تین سال تک انتظار کر سکتا ہوں پھر ہم شادی کر لیں گے’’ وہ اسے بغور دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔
’’ مگر ایسا تو تب ہوسکتا ہے نا جب شوہر کوئی رابطہ نہ کرے ؟ ’’ ارسا نے پوچھا تھا۔
’’ ہاں ’’ اس کے جواب پر ارسا نے ایک گہری سانس لی تھی اور صوفے سے اٹھ کر کچن کی طرف گئ تھی جہاں اسکا بیگ رکھا تھا
‘’ مگر وہ تو رابطہ کر رہا ہے محد ’’ اس نے ایک کاغذ کا ٹکڑا اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھااور محد حیران ہوا تھا اس نے ارسا کے ہاتھ سے وہ کاغذ لیا تھا اور اب وہ اسے پڑھ رہا تھا ۔۔
ساحل نے گاڑی اسکے ہاسٹل کے سامنے روکی تھی اور ہاسٹل کے اندر آکر اس نے سامنے کھڑی درمیانی عمر کی خاتون جوکہ یہاں کی انچارج تھی ان نے کہا تھا ’’ اسلام و علیکم ، مجھے ارسا ساجد سے ملنا ہے ’’ سامنے کھڑی اس خاتون نے اسے غور سے دیکھا تھا ’’ آپ کیا لگتے ہیں ان کے ؟ ’’
’’ بھائی ہوں میں انکا ’’ اس کے جواب پر وہ تھوڑا حیران ہوئی تھی۔
’’ حیرت ہے وہ آپکی بہن ہے اور آپکو یہ نہیں معلوم کے وہ یہاں سے جاچکی ہیں ’’ اسے واقعی حیرت ہوئی تھی۔
’’ جاچکی ہے ؟ کہاں ؟ ’’ ساحل کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
’’ یہ ہم نہیں جانتے ۔۔ وہ پرسوں آئیں تھیں ایک رات یہاں گزاری اور پھر اگلی صبح اپنے ہسبینڈ کے ساتھ چلی گئیں ’’ اسکی بات نے ساحل کے سر پر بم پھوڑا تھا ’’ ہسبینڈ ؟ ’’ حیرت کی انتہاؤں پر پوچھا گیا تھا۔
’’ جی ہاں انکے ہسبینڈ آئے تھے اور وہ انہیں کے ساتھ گئ ہے آپکو نہیں بتایا کیا ؟ ’’ وہ اب اس سے سوال کر رہی تھی۔
اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا جواب تھے ؟ اسے تو لگا تھا کہ اس نے ارسا کے ساتھ غلط کیا ہے ۔۔ وہ تو یہاں اسے لینے آیا تھا ۔۔ اسکی بات سننے آیا تھا ۔۔ بہن کی محبت اسے یہاں لے آئی تھی اور بہن نے کیا کیا ؟ غصے کی ایک لہر اسکے دماغ پر چڑھی تھی اور وہ بنا کچھ کہے وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔
اس کے جاتے ہی اس خاتون نے اپنا موبائیل نکال کر ایک کال ملائی تھی۔
’’ جی سر آپنے جیسا کہا تھا ویسا ہی کیا میں نے ’’ وہ مسکرائی تھی۔
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ بیچ میں رکھی میز پر ایک کاغذ کا ٹکڑا اور ایک انگوٹھی رکھی تھی۔۔ جس پر لگا نگینہ چمک رہا تھا۔
ارسا سر پکڑے جھک کر بیٹھی تھی جبکہ محد کی نظر اس انگوٹھی پر لگے نگینے پر اٹکی تھی۔۔ جانے کیوں اس پر سے نکلنے والی چمک اس کے دل کو اندھیرا کر رہی تھی ۔۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ اس سے کیا کہے ؟
ایک گہری سانس لے کر اس نے ارسا کی طرف دیکھا تھا جو سر پکڑے بیٹھی تھی۔
’’ وہ جو بھی ہے ارسا تم پر نظر رکھے ہوئے ہے ’’ اس نے کہا تھا اور ارسا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ ایسے جیسے یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جو وہ جانتی نہ ہو۔۔
’’ میں اب کوئی رزق نہیں لے سکتا ہوں۔۔ کل سے تمہیں جہاں بھی جانا ہوگا میں تمہیں لے کر جاؤنگا اور کچھ بھی ہوجائے تم باہر اکیلی نہیں جاؤگی ’’ اس نے انگلی اٹھا کر اسے کہا تھا وہ مسکرائی تھی ۔۔ ایک پھیکی مسکراہٹ !
’’ تم کب تک میرے ساتھ رہوگے محد ؟ ’’ وہ کہہ کر کھڑی ہوئی تھی۔۔
’’ جب تک میں زندہ ہوں۔ میں تمہارے ساتھ رہونگا ارسا ’’ اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ اور میں ؟ میں تمہارا ساتھ کیسے دوں ؟ میں تو خود اپنے ساتھ بھی نہیں ہوں ۔۔ مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ وہ شخص کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہا ہے ؟ اسے شادی کرنی تھی یا کچھ اور مقصد ہے اگر اسکا؟ تو وہ سامنے کیوں نہیں آتا ؟ اس طرح میری زندگی کا مزاق کیوں بنارہا ہے وہ ؟ ’’ کہتے ساتھ ہی کئ آنسو اسکی آنکھوں سے نکلے تھے۔۔ محد کھڑا ہوکر اسکے پاس آیا تھا۔
’’ مجھے بھی نہیں معلوم کہ وہ کون ہے اور کیوں کر رہا ہےایسا ؟ مگر میں ایک بات جانتا ہوں ارسا ’’ اس نے ارسا کے چہرے سے اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ اگر وہ سمجھتا ہے کہ تم اکیلی ہو تو میں اسے غلظ ثابت کرونگا ۔۔ اگر وہ سمجھتا ہےکہ اس طرح وہ تمہیں مجھ سے الگ کر دے گا ؟ تو میں اسے غلط ثابت کرونگا ۔۔اور اب تمہیں بھی اسے غلط ثابت کرنا ہے ’’ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا اور ارسا اسکی باتوں کا مطلب سمجھ رہی تھی ۔۔ اس وقت جب کوئی بھی اسکے ساتھ نہیں ہ۔۔ے تو یہ شخص اسکے ساتھ ہے۔۔ اسے محد کی قدر تھی جو اب مزید کچھ کہہ رہا تھا۔۔
’’ تمیں اسے غلط ثابت کرنا ہے ارسا اور تم جانتی ہو نا کہ یہ تم نے کیسے کرنا ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور ارسا جانتی تھی کہ وہ کیا سننا چاہتا ہے ۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب اکیلی نہیں ہے اور جب محد اسکے ساتھ ہے ۔۔تو پھر اسے کیا ضرورت تھی ڈرنے کی ؟ اسی سوچ کے ساتھ وہ مسکرائی تھی۔
’’ ہاں جانتی ہوں ’’ وہ آگے بڑھی تھی اور میز پر رکھا کاغذ اور انگوٹھی اٹھا کر محد کی طرف پلٹی تھی۔
’’ اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں ڈر جاؤنگی ؟ تو میں اسے غلط ثابت کرونگی’’ وہ ایک اور قدم آگے بڑھی تھی۔
’’ اگر وہ سمجھتا ہے کہ نکاح کر کے مجھے قید کرلے گا ؟ تو میں اسے غلط ثابت کرونگی ’’ وہ ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ محد بس مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔
’’ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ اپنی دولت دکھا کر وہ مجھے خرید سکتاہے ؟ ’’ اس نے انگوٹھی اور کاغذ پکڑا ہاتھ اوپر کیا تھا۔
’’ تو میں اسے غلط ثابت کرونگی ’’ اس نے انگوٹھی اور کاغذ چھوڑ دیا تھا اور وہ دونوں چیزیں نیچے رکھے ڈسٹ بن میں گر گئ تھیں ۔۔ وہ مسکرائی تھی۔
’’ گریٹ ! تو پھر تیار رہنا صبح ہم نے یونیورسٹی جانا ہے ’’ محد نے مسکراتے کہا تھا اور ارسا نے سر ہلایا تھا ۔۔
’’ چلو پھر صبح ملتے ہیں ’’ وہ کہ کر وہاں سے چلا گیا تھا اور ارسا نے ایک نظر اس ڈسٹ بن پر ڈالی تھی اور ایک گہری سانس لے کر اپنے کمرے کی جانب گئ تھی ۔۔ اسے صبح یونیورسٹی جانا تھا اور اسکے لئے اسے جلدی سونا تھا ۔۔
وہ گھر پہنچا تو سب ہی لاؤنچ میں بیٹھے اسکے منتظر تھے ۔ اسے دیکھ کر ماما فوراً اٹھ کر اسکی طرف آئیں تھیں انکی نظر اسکے پیچھے تھی ۔مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا۔۔
’’ ارسا کہاں ہے ؟ ’’ ماما نے اس سے پوچھا تھا اور اس نے سامنے بیٹھے پاپا کی طرف دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
’’ ارسا کہاں ہے ساحل ؟ ’’ اس مرتبہ پاپا نے کھڑے ہوکر اس سے پوچھا تھا ۔نیشا بھی کھڑی ہوئی تھی ۔۔ ساحل کی لال آنکھیں اور تنی ہوئی رگیں بتا رہی تھی کہ وہ اس وقت بہت غصے میں تھا۔
’’ تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ہو؟ کہا ہے میری بیٹی ؟ ’’ ماما نے اسے بازوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔
’’ بھاگ گئ ہے آپکی بیٹی ’’ وہ اونچی آواز میں دھاڑا تھا اور وہاں موجود ہر انسان سناٹے میں چلا گیا تھا۔
’’ یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم ؟ ’’ پاپا نے اس کے سامنے آکر کہا تھا۔
’’ بکواس نہیں کررہا میں ۔۔ آپکی بیٹی ہماری عزت کو لات مار کر ہاسٹل سے اپنے اس نامعلوم شوہر کے ساتھ فرار ہوگئ ہے ۔۔ سنا آپ سب نے ! چلی گئ ہے وہ ۔۔مر گئ ہے وہ ’’ وہ پوری طاقت سے سامنے رکھی کرسی کو لات مارتا ہوا سیڑھی کی طرف بڑھا تھا نیشا فوراً اس کے پیچھے آئی تھی جبکہ ماما پاپا وہی کھڑے رہ گئے تھے ۔۔
’’ یہ ساحل کیا کہہ کر گیا ہے ؟ ’’ پاپا نے ماما کی طرف دیکھ کر بے یقینی سے کہا تھا۔
’’ میں نہیں مان سکتی ساجد کہ میری بیٹی ایسا کر سکتی ہے۔۔ ضرور اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے ’’ ماما روتے ہوئے انہیں یقین دلا رہی تھیں مگر اندر سے وہ خود بھی ڈر گئ تھیں ؟ آخر ارسا کہا جاسکتی ہے ؟
اس نے کمرے میں آکر پوری قوت سے دروازہ بند کیا تھا۔۔ نیشا بھی اسکا تیش دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے سہم گئ تھی۔
’’ میں نے آپ سے کہا تھا کہ۔۔ ’’ ابھی اسکی بات پوری ہی نہیں ہوئی تھی کہ ساحل دھاڑا تھا۔
’’ اپنا منہ بند رکھو ۔۔ کچھ نہیں سننا چاہتا میں ۔۔ جاؤ یہاں سے ’’ اس نے اسے جانے کا کہا تھا مگروہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔
’’ سنا نہیں تم نے ؟ جاؤ ! ’’ وہ اب بار پھر چیخا تھا اور نیشا منہ بناتی ہوئی کمرے سے نکل گئ تھی۔
’’ اپنی بہن سنبھالی نہیں جاتی۔۔ مجھ پر برسنے کاشوق ہے بس ’’ وہ بڑبڑا کر کچن کی طرف گئ تھی۔
وہ اس وقت ناشتہ کر رہی تھی جب اسکا موبائیل بجا تھا اس نے دیکھا محد کی کال تھی۔
’’ ہیلو محد آگئے تم ؟ ’’ ناشتے کی ٹیبل سے کھڑے ہوتے ہوئے اس نے کان سے موبائیل لگا کر پوچھا تھا۔
’’ ہاں آجاؤ تم بھی ۔ میں باہر ہوں ’’ محد کی بات پر اس نے تیزی سے ناشتے کی پلیٹ کچن کے شیلف پر رکھی تھی۔
’’ بس میں دو منٹ میں آئی ’’ کال کٹ کر کے جلدی جلدی اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور لائیٹس آف کر کے دروازاہ لاک کرنے کے بعد وہ تیزی سے نیچے آئی تھی جہاں محد سامنے ہی گاڑی میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا وہ فوراً آگے بڑھی اور فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئ۔
’’ کیسی ہو تم ؟ ’’ محد نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’ ٹھیک ہوں بس ماما پاپا کو بہت مس کر رہی ہوں ’’ اسے واقعی اس وقت سب سے زیادہ خیال ماما اور پاپا کا ہی آرہا تھا جن سے وہ بات تک کرنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔
’’ تمہیں انہیں کال کر لینی چاہئے ارسا ۔۔ اگر وہ ناراض ہیں تو تمہیں انہیں منالینا چاہئے ’’ محد کی بات پر اس نے سر ہلایا تھا۔
’’ میں نے کال کی تھی مگر نمبر کسی نے اٹھایا نہیں ’’ اس نے واقعی کل رات کال کی تھی مگر پاپا اور ماما میں سے کسی نے بھی کال ریسیو نہیں کی تھی۔
’’ تو تم گھر کے نمبر پر ٹرائی کر لو ’’ محد نے اسے ایک اور مشورہ دیا تھا۔
’’ ہاں ۔۔یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے ۔۔ ابھی کرتی ہوں ’’ وہ اب اپنا موبائیل نکالنے لگی تھی۔
’’ ارے ابھی رک جاؤ یونیورسٹی پہنچ کر کر لیا ’’ محد نے اسے روکا تھا۔
’’ اچھاٹھیک ہے ’’ اس نے موبائیل دوبارہ بیگ میں رکھا تھا۔
’’ ویسے اگر اب تم مجھےروز اس طرح لینے اور چھوڑنے آؤگے تو میں اس گاڑی کا کیا کرونگی میں جو تم نے مجھے دی ہے ؟ ’’
’’ وہ تمہارے پاس ہی رہے گی ۔۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ تمہیں کبھی اسکی ضرورت پڑھ جائے ۔ کوئی ایمرجنسی بھی ہوسکتی ہے ’’ محد کی بات پر ارسا نے اسے مسکرا کر دیکھا تھا۔
’’ تم بہت اچھے ہو محد ۔۔ تم نے بہت ساتھ دیا میرا ’’ ارسا نے دل سے کہا تھا۔
’’ تمہارا ساتھ دینا تو مجھ پر فرض ہے ’’ اس نے دل سے اقرار کیا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں یونیورسٹی پہنچ گئے تھے۔۔ محد کا ڈیپارٹمنٹ الگ تھا اس لئے اسے اسکے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے اتار کر وہ آگے بڑھ گیا تھا۔۔ ارسا نے محد کے جاتے ہی موبائیل نکالا تھا ارادہ گھر پر کال کرنے کا تھا ۔۔ اس نےگھر کا نمبر ڈائیل کیا مگر کسی نے بھی ریسیو نہیں کیا تھا ۔۔ وہ مایوس ہوئی تھی ۔۔ شاید اسکے نصیب میں ہی نہیں تھا آج بات کرنا ۔۔ وہ سوچتے ہوئے اپنی کلاس کی جانب بڑھی تھی ۔۔
اس کے ڈیپارٹمنٹ سے تھوڑا دور ایک پیڑ کے نیچے ایک آدمی کھڑا تھا۔۔ جس نے بلیک پینٹ کوڈ پہن رکھا تھا۔۔ آنکھوں پر سن گلاسس لگائے وہ ایک درمیانی عمر کا آدمی تھا ۔۔ ارسا اپنی کلاس کے اندر جاچکی تو اس آدمی نے اپنے کان میں لگے ائیر فون کو انگلی لگا کر کہا تھا۔۔
’’ باس وہ اسی کے ساتھ یونیورسٹی آئی ہیں اور اب کلاس میں ہیں ’’ اب وہ خاموشی سے اپنے باس کی بات سن رہا تھا۔
’’ اوک سر آئی ا نڈرسٹینڈ ’’ اس نے انگلی ائیر فون سے ہٹائی تھی اور اب وہ اس پیڑ کے نیچے سے ہٹ چکا تھا ۔
وہ اس وقت یونیورسٹی کی لائیبریری میں بیٹھی ایک کتاب پڑھ رہی تھی مگر اسکا دھیان اس کتاب کی طرف نہیں تھا۔۔ اسے رہ رہ کر گھر والوں کا خیال آرہا تھا ۔۔ جانے پاپا کی طبیعت کیسی ہوگی ؟ ماما کیسی ہونگی ؟ وہ دونوں اب بھی اس سے ناراض ہونگے ؟ اور بھائی ؟ بھائی کا غصہ کم ہوا ہوگا یا نہیں ؟ اسے یاد آیا بچپن میں جب بھی وہ کوئی غلطی کرتی تھی تو بھائی اس پر بہت غصہ کرتے تھے اور اس سے بات کرنا بھی چھوڑ دیتے تھے مگر غصہ بھی بس ایک دن کا ہی ہوتا تھا اور دوسرے دن ہی بھائی اس سے اپنی ناراضگی ختم کر دیتے تھے۔۔ وہ انکی لاڈلی تھی ۔۔ وہ اس سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتے تھے ۔۔ بس یہی خیال آیا تھا اسے اور اس نے اپنا موبائیل نکالا تھا مگر لائیبریری میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے اپنا سامان وہی چھوڑ کر وہ لائیبریری سے باہر آئی اور گھر کا نمبر ایک بار پھر ڈائیل کیا ۔۔ بیل جارہی تھی اور اسے بے چینی ہو رہی تھی ۔۔ پلیز کوئی کال اٹھا لے ۔۔ وہ دعا کررہی تھی اور اسکی دعا قبول ہوگئ تھی۔
’’ ہیلو ’’ یہ بھائی کی آواز تھی جو اس کے کانوں تک آئی تھی ۔
’’ ہیلو بھائی ؟ ’’ اس نے سہمے انداز میں کیا تھا۔
’’ تم ! تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں کال کرنے کی ؟ ’’ بھائی فوراً اس پر چیخے تھے۔
’’ بھائی مجھے معاف کردیں ۔۔پلیز ایک بار میری بات سن لیں ، میں بے قصور ہوں ’’ اسکی آنکھوں سے کئ آنسو نکلے تھے جنکا اسے خود بھی احساس نہیں ہوا تھا۔
’’ بے قصور ؟ اپنے شوہر کے ساتھ فرار ہوکر تم کہہ رہی ہو کہ تم بے قصور ہو ؟ ’’ بھائی کی بات پر وہ چونکی تھی ۔۔ شوہر؟ کونسا شوہر ؟
’’ بھائی میں کسی کے ساتھ فرار نہیں ہوئی میں سچ کہہ رہی ہوں میں نہیں جانتی اسے ’’
’’ او جسٹ شیٹ اپ ارسا ! اور کتنے جھوٹ بولو گی تم ؟ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس حد تک گر سکتی ہو ؟ تمہیں ذرا بھی خیال نہیں آیا پاپا کا ؟ ’’ بھائی کی بات پر اب اسے پاپا کا خیال آیا تھا۔
’’ پاپا کیسے ہیں بھائی ؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں ؟ ’’
’’ خبردار جو تم نے یہاں آنے کی کوشش کی ۔۔ جس کے ساتھ فرار ہوئی ہو اسی کے ساتھ رہو اب اور میرے پاپا سے بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کرنا۔۔ بہت مشکلوں سے انکی طبیعت سنبھلی ہے۔۔ ورنہ تم نےتو کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی انہیں مارنےمیں ’’
’’ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں بھائی ؟ آپ ایک بار میری بات تو سن لیں ؟ ’’
’’ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی ارسا ۔۔ اب یہاں کسی سے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ’’ انہوں نے اسے وارننگ دے کر کال بند کردی تھی جبکہ ارسا اب اپنے آنسوکنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
وہ کال بند کر کے پلٹا تھا کہ اپنے پیچھےپاپا کو کھڑا دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔
’’ یہ تم اچھا نہیں کر رہے ساحل ۔۔ ہمیں اسکی بات سن لینی چاہئے ’’ پاپانے اسے کہا تھا۔
’’ میں بھی یہی سمجھتا تھا پاپا مگر وہ اپنے اس نامعلوم شوہر کے ساتھ چلی گئ ۔۔ اور اب بھی وہ اس بات سے انکاری ہے۔۔ میں اب اسکی کوئی بات نہیں سننا چاہتا ’’ وہ کہہ کر گھر سے باہر چلا گیا تھا جبکہ ایجاز صاحب اب ٹیلیفون پر وہ لاسٹ کال نمبر دیکھ رہے تھے۔۔ جس سے ساحل نے ارسا سے بات کی تھی مگر انہیں کوئی نمبر نہیں ملا تھا ۔۔ ساحل نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔
وہ واپس لائیبریری آئی تھی اس نے اپنا سامان اٹھایا ۔۔ اور وہ کتاب بھی جسے وہ پڑھ رہی تھی ۔۔ مگر اس کتاب کے نیچے اسے ایک اور کاغذ کا ٹکڑا رکھا ملا تھا ۔۔ اسکے ہاتھ رک گئے تھے ایک پل کے لئے ہی سہی مگروہ خوفزدہ ہوئی تھی۔۔ اس نے آس پاس نظر دوڑائی تھی۔۔ سب اپنی اپنی کتابوں میں جھکےمطالعہ کر رہے تھے۔۔ کوئی بھی اسکی طرف متوجہ نہیں تھا ۔۔ اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر اس کتاب میں رکھا تھا اور اب جلدی سے وہ ریسیپشن پر موجود لائیبریرئین کے پاس گئ تھی۔
’’ ایکسکیوزمی ! ’’ اس کے کہنے پر لائیبریرئین نے نظر اٹھا کر اسے سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا۔
’’ میں ابھی ایک کال کرنے باہر گئ تھی اور واپس آئی ہوں تو میرا ایک پین وہاں نہیں ہے ۔۔ کیا کوئی میری کرسی کے پاس آیا تھا ؟ ’’ وہ اب اسے اصل بات تو نہیں بتا سکتی تھی ۔۔اس لئے یہی بہانا ٹھیک لگا تھا۔۔
’’یہان تو بہت سے سٹوڈینٹس آتے جاتے رہتے ہیں ’’ لائیبریرئین اسے کہہ کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئ تھی۔
’’ مگر کسی نے میرے سامان کو تو نہیں چھیڑا تھا ؟ ’’ اس نے دوبارہ پوچھا تھا۔۔ اس بار لائیبریرئین نے اسے گھورا تھا۔
’’میرے ہوتے ہوئے کوئی کسی کے سامان کو چھیڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ’’ لائیبریرئین کی بات وہ معاذرت کرتی لائیبریری سے نکلی تھی اور آس پاس نظر دوڑائی تھی۔۔ وہاں بہت سے سٹوڈنٹس تھے مگر اسے کوئی بھی مشکوک نہیں لگا تھا۔ اب وہ کیفے ٹیریا کی جانب گئ تھی۔
’’ کام ہوگیا ہے باس ’’ لائیبریری کی کھڑکی کے سامنے کھڑے شخص نے کان پر لگے ائیر فون کو انگلی لگا کر کہا اور آگے بڑھ گیا ۔۔
وہ کیفے ٹیریا میں ایک میز کے گرد رکھی کرسی پر بیٹھی تھی اس نے وہ کتاب بیگ سے نکالی اور اس میں موجود کاغذ کا ٹکڑا کھول کر پڑھنے لگی ۔۔ جیسے ہی اس نے کاغذ پر لکھی وہ تحریر پڑھی تھی اس کے چہرے کے تعصورات میں تبدیلی آئی تھی۔ ۔۔ چہرہ غصے سے لال سرخ ہورہا تھا ۔۔ اسکا دل چاہا کے اس کاغذ کے ٹکڑے کر دے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ اسے محد کا انتظار تھا جو تھوڑی دیر بعد وہاں آگیا تھا۔
’’ کیسا رہا آپکا دن جناب ؟ ’’ وہ اسکے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔
’’ میرے زندگی کے سارے دن اب رات بن چکے ہیں محد ’’ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’ کیا بات ہے ؟ کچھ ہوا ہے کیا ؟ ’’ وہ سمجھ گیا تھا کہ کوئی بات ضرور ہوئی تھی۔
’’ بھائی کو کال کی تھی میں نے وہ اب بھی میری کوئی بات نہیں سن رہے اور پاپا سے بات کرنے سے بھی منع کردیا ہے ۔۔ آخر وہ میری پوری بات سنتے کیوں نہیں ہے ؟ ’’ اسے غصہ آرہا تھا۔
’’ تھوڑا صبر کرو ارسا ۔۔وہ ابھی غصے میں ہیں کچھ ٹائم میں ٹھیک ہوجائینگے ۔۔ اگر تم کہوں تو میں بات کروں ان سے ؟ ’’ محد اسکی پریشانی کو دور کرنا چاہتا تھا ۔۔ مگر وہ اجازت دے تو نا ؟
’’ نہیں تم ان سے کچھ نہیں کہو گے ۔۔ میں نہیں چاہتی وہ خود کو تمہارے سامنے شرمندہ محسوس کریں ’’ وہ پاپا کا سر کسی بھی طرح سے جھکانا نہیں چاہتی تھی ۔۔آخر محد انکا ہونے والا داماد تھا۔۔
’’ اچھا ٹھیک ہے مگر تم پریشان مت ہو ’’
’’ میں کیسے پریشان نا ہوں ؟ وہ شخص میری پریشانی کم نہیں ہونے دیتا ’’
’’ کون شخص ؟ ’’ محد اسکی بات پر چونکا تھا۔
’’ وہی ۔۔ اس نے ایک اور میسیج بھیجا ہے ’’ ارسا نے کاغذ کا ٹکڑا محد کی جانب بڑھا کر کہا تھا جسے محد نے لے کر کھولا اور اس پر لکھی تحریر پڑھنے لگا ۔
’’ سنا ہے تمہیں بہت بے چینی ہے اپنے ہسبنڈ کے بارے میں جاننے کی ۔۔ اسکا نام اور اسے دیکھنے کی ۔۔ تو ڈئیر وائف چلو تمہاری یہ بے چینی دور کر دیتا ہوں ۔۔ کل رات دن بجے اس ہوٹل کے روم نمبر ۲۱۲ پر آجانا ۔۔ تمہارا ہسبنڈ تمہارا ویٹ کرے گا ۔۔ اور ہاں ۔۔ اکیلی آنا سوئیٹ ہارڈ ’’
کاغذ پر لکھی تحریر پڑھ کر محد کا خون کھول رہا تھا۔۔ اس نے اس کاغذ کو اپنی سخت مٹھی میں بند کردیا تھا۔۔
’’ نہایت ہی گھٹیا انسان ہے یہ ’’ اس نے مٹھی میز پر زور سے ماری تھی۔۔ جس سے ایک آواز نکلی تھی۔ جس نے آس پاس بیٹھے سٹوڈنٹس کو انکی طرف دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔
’’ ریلیکس محد سب دیکھ رہے ہیں ’’ ارسا نے اسے احساس دلایا تھا مگر وہ اس وقت شدید غصے میں تھا۔
’’ میں تمہیں کہہ رہا ہوں ۔۔ وہاں جانے کا سوچنا بھی مت ’’ اس نے انگلی اٹھا کر ارسا سے کہا تھا۔
’’ میں جانا بھی نہیں چاہتی محد ۔۔ مگر ’’ وہ رکی تھی اور محد نے اسے حیرانگی سے دیکھا تھا ’’ مگر کیا ؟ ’’
’’ مگر یہ واحد چانس ہےاس انسان کے بارے میں پتہ لگانے کا ’’ ارسا نے اسکے غصے سے لال چہرہ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے ؟ تم جانتی ہو یہ کتنا ڈینجر ہے ؟ ’’ محد نے آگے جھک کر اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
’’ میں تمہیں وہاں نہیں جانے دونگا اور اگر جانا ضروری ہے تو میں ساتھ جاؤنگا ’’ محد نے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔
’’ تو میں نے کب کہا کہ میں اکیلی جاؤنگی ؟ آفکورس ہم دونوں جائینگے ’’ ارسا نے اسکی بات مانتے ہوئے کہا تھا اور اب وہ خاموش رہا تھا۔
’‘ اچھا اب مجھے بھوک لگ رہی ہے کچھ کھلاؤگے یا پھر بھوکے پیٹ اگلی کلاس اٹینڈ کرنی ہوگی مجھے ؟ ’’ اس نے محد کا موڈ بحال کرنے کے لئے کہا تھا ۔
’’ کرتا ہوں کچھ آرڈر ’’ محد نے سامنے کھڑے ایک لڑکے کو اشارہ کیا تھا۔
’’ اگر اس موڈ کے ساتھ کرنا ہے تو رہنے دو ۔۔ نہیں کھانا میں نے کچھ ’’ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر اس نے کہا تھا۔
’’ کیا کروں میں اب ؟ اسکی حرکت پر غصہ آرہا ہے مجھے ’’ وہ خود کو روک نہیں پارہا تھا۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس شخص کو ڈھونڈ کر اسکی دھلائی کر دے۔۔
’’ اب تم اسکی اس چیپ حرکت کی وجہ سے ہمارا یہ مومنٹ کیوں خراب کر رہے ہو ؟ غصہ تو مجھے بھی ہے مگر میں اس انسان کی وجہ سے اب اپنا موڈ نہیں خراب کرنا چاہتی ’’ اسکی بات پر محد مسکرایا تھا۔
’’ اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتے موڈ خراب ۔۔ ویسے بھی کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے ہمیں جلدی سے کچھ لے لینا چاہئے ’’ اس نے اب کافی اور ساتھ کچھ سنیکس منگوائے تھے ۔۔ جس سے فری ہوکر وہ دونوں اپنی اپنی کلاسس کی طرف چل دیئے تھے ۔۔
وہ اس وقت اپنے کمرے کے بیڈ پر نیم دراز تھا جب نیشا اسکےپاس آکر بیٹھی تھی ۔
’’ پریشان ہیں ؟’’ اسکی بات پر ساحل نے اسکی طرف دیکھا تھا۔
’’ ظاہر ہے اب اس کے علاوہ اور رہ ہی کیا گیا ہے ؟ ’’ چھت پر نظر ڈالتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
’’ آپ کیوں خود کو سوچ سوچ کو پریشان کر رہے ہیں ؟ جس نے یہ سب کیا ہے اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ’’ نیشا نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا تھا۔
’’ اسے فرق پڑنا چایئے تھا ۔۔۔ اسے کیوں نہیں پڑا فرق ؟ مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا کہ وہ ایسا کر سکتی ہے ’’ وہ بے یقین تھا ۔۔اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ارسا ایسا کر سکتی ہے؟ مگر جو کچھ سامنے تھا ۔۔وہ ارسا کے خلاف جارہا تھا۔ اگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا تو پھر وہ ہوسٹل سے اس شخص کے ساتھ کیوں گئ ؟ یہیں آکر وہ ارسا سے بدگمان ہورہا تھا۔
’’ وہ ایسی ہی تھی۔۔ میں نے تو کبھی آپکو کچھ کہا نہیں مگر مجھے تو پہلے ہی شک تھا ۔۔یہ ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیاں بری صحبت میں پڑھ جاتی ہیں۔۔۔ میں تو پہلے ہی خلاف تھی اسکے اکیلے اتنا دور جانے سے ، مگر آپ کے ڈر کی وجہ سے میں چپ رہی ’’ نیشا کو تو موقع مل گیا تھا اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا اور وہ ان حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔۔
’’ مجھے اپنی بہن پر اب بھی یقین ہے نیشا۔۔ اس نے غلطی ضرور کی ہے مگر وہ کوئی گناہ نہیں کر سکتی ، اسکا کردار صاف تھا اور رہے گا ’’ اسے نیشا کے منہ سے ارسا کے لئے ایسے الفاظ سن کر برا لگا تھا۔۔ چاہے جتنا بھی غصہ سہی مگر وہ ارسا کے کردار کے بارے میں کچھ غلط نہیں سوچ سکتا تھا۔۔۔ اسے اپنی بہن پر یقین تھا ۔۔
’’ حیرت ہے آپکو اب بھی اس پر یقین ہے آپ کی جگہ کوئی اور بھائی ہوتا تو اب تک تو آنکھیں کھل چکی ہوتی اسکی ’’ نیشا نے ایک اور طنز کیا تھا۔
’’ میری آنکھیں اور دماغ دونوں کھلے ہیں۔۔ تمہیں میری اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔سوجاؤ ’’ وہ کہہ کر بیڈ پر لیٹ چکا تھا اور نیشا منہ بناتی ہوئی لائیٹ بند کر کے دوسری طرف لیٹی تھی ۔۔
وہ اس وقت شام کی چائے بنارہی تھی جب محد آیا تھا۔ ۔ اس نے محد کے لئے بھی چائے چولہے پر چڑھا دی تھی۔
’’ کیسا رہا تمہارا آج کا دن ؟ ’’ وہ کچن کے شیلف کے پاس رکھی چئیر پر بیٹھ کر بولا تھا۔
’’ اچھا تھا اور بہت بزی بھی ’’ کیبلیٹس سے چائے کے دو کپ نکال کر ٹرے میں رکھے تھے۔
’’ گھر والوں سے کوئی رابطہ ہوا ؟ ’’ محد نےاسے کام کرتے دیکھ کر پوچھا تھا۔
’’نہیں ۔۔ میں نے سوچا کہ کل رات تو ویسے بھی ہماری اس انسان سے ملاقات ہونے والی ہے۔ تو پھر اس مسئلے کو حل کر کے ہی گھر والوں کے پاس جاؤنگی میں ’’ وہ اب چائے کپوں میں ڈال رہی تھی۔
’’ یہ بھی ٹھیک کہا تم نے اور دیکھو میں نے تو تیاری بھی کرلی پوری ’’ محد نے ایک لفافہ کچن کی شیلف پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے چائے کی ٹرے محد کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’ خود دیکھ لو ’’ کپ ٹرے سے اٹھا کر اپنے آگے رکھتے ہوئے وہ بولا تھا۔۔ ارسا بھی اسکے ساتھ رکھی چئیر پر بیٹھ گئ تھی اور لفافہ ہاتھ میں اٹھا کر اسے کھولا تھا ۔۔ اور اندر موجود پیپرز کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے محد سے پوچھا تھا۔
’’جو تم دیکھ رہی ہو ’’ محد نے بے فکری سے کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا تھا۔
’’ تمہیں لگتا ہے یہ اتنا آسان ہے ؟ وہ شخص ہماری بات مان لے گا ؟ ’’ اسے یقین تھا کہ محد جو چاہ رہا ہے وہ اتنی آسانی سے نہیں ہوسکتا تھا ۔۔
’’ اسے بات ماننی ہوگی اور اگر نہیں بھی مانا تو ہم کورٹ چلے جائینگے ’’ محد ایسا ہی بے فکر تھا۔۔۔ اسے یہ سب واقعی آسان لگ رہا تھا۔۔
’’ اور وہ ہمیں اتنی آسانی سے کورٹ جانے دے گا کیا ؟ تمہیں کیا لگتا ہے محد وہ کوئی عام انسان ہوگا ؟ جس کے سامنے ہم یہ ڈائیورس پیپر رکھے گیں اور وہ سائن کر دے گا ؟ وہ ایسا کبھی نہیں کریگا ۔۔ اگر اس نے ایسا کرنا ہوتا تو وہ یہ سب نہ کرتا۔۔ وہ ہر وقت مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے اسے تو اب یہ بھی معلوم ہوگا کہ تم نے ڈائیورس پیپرز بنوائے ہیں ۔۔ اب کیا وہ آئے گا ؟ ’’ اسے اسی بات کا خدشہ تھا۔۔
’’ وہ آئےگا ۔۔ جب تم یہ جانتی ہو کہ وہ اتنی آسانی سے مانے گا نہیں اور وہ یہ جان چکا ہوگا کہ میں نے یہ پیپرز تیار کروائے ہیں ’’ محد نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ’’ تو ارسا میڈم تم یہ بھی جان لو کہ جو شخص تمہیں اغواہ کروا کر نکاح کر سکتا ہے ۔۔۔وہ تمہارے ان ڈائیورس پیپر سے ڈر کر بھاگے گا نہیں ’’ محد کہہ کر دوبارہ چائے کہ طرف متوجہ ہوچکا تھا اور ارسا اسے دیکھتی رہ گئ تھی ۔۔