وہ ایک خواب کی سی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اس نے دیکھا اب سکرین پر ارسا کے بنائے ہوئے ڈیزائینز آرہے تھے ۔۔ وہ ایک ایک ڈیزائین کے بارے میں ڈیٹیل بتا رہی تھی ۔۔ ہال میں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔ سوائے ارسا ساجد کے ۔۔ سوائے اس کی آواز کے ۔۔ اور اس کے ڈیزائینز ؟؟
اسے یاد تھا ایک بار اس نے ایک ڈیزائین بنا کر اسے دیا تھا ۔۔ وہ ایسے ڈیزائینس چاہتی تھی جس میں فیلنگز ہوں ۔۔ اور آج اسے ارسا کا ایک ایک ڈیزائین یونیک لگ رہا تھا ۔۔ آج اسکا ایک ایک ڈیزائین وہاں موجود ہر انسان کے دل کو چھو رہا تھا ۔۔ ارسا ساجد کا کام بتا رہا تھا کہ اس نے کتنی محبت سے یہ بنائے تھے ۔۔۔ وہ بس اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ آس پاس کے مہمان اسے کچھ کہہ رہے تھے ۔۔ وہ مسکرا رہا تھا ۔۔ا رسا کے ڈیزائینز سب کو پسند آئے تھے ۔۔ اب ہال کی لائیٹس آن ہوئی تھیں اور تالیوں کی گونج نے پورے ہال کو رونق دی تھی۔۔ ارسا ساجد اب سب کا شکریہ ادا کر رہی تھی ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ وہ سٹیج سے اتر کر مہمانوں سے مل رہی تھی ۔ اس نے دیکھا سب اس سے جاکر ہاتھ ملا رہے تھے۔۔ اسکے ڈیزائینز کی تعریف کر رہے تھے۔۔ وہ اس بھیڑ میں سب کی داد لے رہی تھی ۔۔ آج وہ اسے بہت اوپر دکھائی دے رہی تھی ۔
اسے یاد آیا وہ اسکے آفس میں اسکی سیکریٹری تھی ۔۔ اور آج وہ اس کی کپمنی کی قابل ڈیزائینر تھی۔۔ جس کی بدولت آج اسکی کمپنی عروج پر جارہی تھی ۔۔ وقت بھی کیسے بدلتا ہے ۔۔
اس نے اسکی جانب قدم بڑھائے تھے ۔۔ وہ اب بھی کسی سے بات کر رہی تھی ۔۔ جب وہ اس کے قریب جاکر رکا تھا ۔۔ ارسا نے اسکی جانب دیکھا ۔۔ ایک مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔
’’ ہیلو مس ارسا ۔۔ یہ ہماری کمپنی کے سی۔ای۔او ہیں ۔۔ عفان خالد ’’ منیجر نے انکا انٹروڈکشن کروایا تھا ۔۔
’’ جی میں جانتی ہوں انہیں ’’ اسے دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔۔ آنکھوں میں آشنائی کی چمک تھی ۔۔
’’ آپ نے بہت تنگ کیا ہمیں ’’ منیجر نے اس سے کہا تھا ۔۔ جبکہ وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے ۔۔۔
’’ جی ۔۔ تنگ کرنے کی عادت سی ہوگئ ہے مجھے ’’ وہ معنی خیز انداز میں کہہ رہی تھی ۔۔ اور ان دونوں کے علاوہ اگر اس بات کا مطلب کوئی سمجھ سکتا تھا تو وہ صرف حاشر تھا جو اب انکے پاس آیا تھا ۔۔۔
’’ آپکا اس طرح تنگ کرنا کسی کی جان بھی لے سکتا ہے ’’ یہ پہلی بات تھی جو عفان نے کہی تھی ۔۔ یہ پہلی بات تھی جو ارسا نے سنی تھی ۔۔
’’ جان اتنی نازک نہیں ہے کہ یو ہی چلی جائے ’’ جواب بھی فوراً ہی آیا تھا۔۔
’’ جی آپکی طرح سخت جان ہونا بھی لازم ہے ’’ یہ حاشر تھا جس نے انکی بات کے درمیان میں کہا تھا ۔۔ ارسا نے اب حاشر کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ لازم تو بہت کچھ ہے ۔۔۔ کبھی فرصت میں بتائینگے ’’ وہ آخری بات عفان کی جانب دیکھ کر کہہ گئ تھی ۔۔
’’ کہا جارہی ہو؟ ’’ اسے پلٹ کر جاتے دیکھتے ہی عفان نے بے اختیار پوچھا تھا۔ ۔۔ ارسا نے دیکھا اسکی آنکھوں میں ایک ڈر تھا ۔۔ شاید اس کے دوبارہ سے کہیں چلے جانے کا ۔۔
’’ اپنے ایک خاص مہمان کو لینے ’’ وہ اب دوبارہ پلٹی تھی ۔۔ اس نے دیکھا وہ ہال سے باہر گئ تھی ۔۔
’’ یہ بہت بدل گئیں ہیں ’’ حاشر نے اسکے کان کے قریب کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئ ہے ’’ عفان کی نظر اب بھی وہی تھی جہاں سے ارسا گزری تھی ۔۔
’’ اور خوبصورت بھی ’’ منیجر کی بات پر عفان نے ناگواری سے اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ میرا مطلب ہے کہ انکے ڈیزائینز بہت خوبصورت ہیں ’’ وہ باس کی نظروں سے ہی گڑبڑا گیا تھا ۔۔ جبکہ حاشر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ تم نے بہت کمال کام کیا ہے منیجر ۔۔۔ باس تم سے خوش ہیں بہت ’’ اس نے منیجر کے کان کے قریب ہوکر کہا تھا ۔۔
’’ بس دعا کرو کہ آگے بھی یہ خوش ہی رہیں ’’ منیجر نے اسی کے انداز میں اسے جواب دیا تھا ۔۔
’’ اب تو باس ہر وقت خوش ہی رہنے والے ہیں ’’ اس نے آنکھ دبا کر کہا تھا ۔۔
’’ پر مجھے ایسا نہیں لگتا ’’ منیجر نے ایک جانب اشارہ کیا تھا۔۔ اور پھر حاشر نے دیکھا ارسا ساجد اب دوبارہ ہال میں داخل ہورہی تھیں ۔۔ مگر اس بار وہ اکیلی نہیں تھی ۔۔۔ اس بار کوئی اور بھی تھا جو اسکے ساتھ اندر آیا تھا ۔۔۔
عفان خالد کی نظریں بھی اسی کی جانب تھیں ۔۔ اس نے دیکھا وہ اسی جانب چل کر آرہی تھی ۔۔
’’ ارے محد ۔۔ کیسے ہو تم ؟’’ منیجر اب محد کے گلے مل رہے تھے ۔۔
’’ میں ٹھیک ہوں ولید صاحب آپ کیسے ہیں ’’ وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا ۔۔
’’ بلکل ٹھیک ۔۔ یہ ہمارے باس ہیں عفان خالد اور یہ انکے بہترین ساتھی حاشر ’’ منیجر اب ان دونوں سے اسکا تعارف کررہا تھا ۔۔
’’ اسلام و علیکم عفان صاحب ۔۔ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ وعلیکم اسلام ۔۔ آپ کیسے ہیں ؟ ’’ اس نے بھی فروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا ۔۔
’’ آج تو بہت اچھا ہوں میں ’’ وہ ارسا کی جانب دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا بھی مسکرائی تھی اور یہ منظر عفان خالد کے لئے ناگوار تھا ۔۔
’’ ویسے آپ نے بتایا نہیں کہ یہ کون ہیں ؟ ’’ حاشر نے اب ماحول کو بدلنے کے لئے سوال کیا تھا ۔۔
’’ کیسی بات کر رہے ہیں آپ حاشر صاحب ۔۔ آپ تو بہت اچھے سے جانتے ہیں انہیں ’’ منیجر کے جواب دینے سے پہلے ہی ارسا نے کہا تھا ۔۔ ارسا کی بات پر جہاں حاشر گڑبڑایا تھا ۔۔ وہی عفان بھی مسکرایا تھا ۔۔
’’ جی جی۔۔ وہ میں نے پہچانا نہیں تھا ’’
’’ حیرت ہے ۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔۔ آپ تو کبھی کسی کو نہیں بھولتے ’’ ارسا نے مصنوعی حیرانگی کا اظہار کیا تھا ۔۔
’’ آپ تھوڑی دیر سے آئیں ہیں محد ۔۔۔ اوپننگ مِس کردی آپنے مس ارسا کی ’’ یہ عفان تھا جس نے ان دونوں کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ کہا تھے تم؟ ’’ عفان کے کہنے پر اسے بھی خیال آیا تھا ۔۔
’’ ناراض مت ہو ۔۔ گفٹ لینے گیا تھا میں ’’ محد مکمل اسکی جانب متوجہ تھا ۔۔جبکہ عفان ان دونوں کی۔۔
’’ گفٹ ۔۔ کس کے لئے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آفکورس اپنی وائف کے لئے ’’ محد نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔۔ اور ایک قیامت تھی جو وہاں کھڑے عفان خالد پر ٹوٹی تھی ۔۔ حاشر نے دیکھا ۔۔۔ وہ ایک قدم پیچھے ہوا تھا ۔۔ اسکے قدم ایسے تھے کہ جیسے ان پر بہت بوجھ آن پڑا ہو ۔۔ حاشر نے دیکھا اسکی نظر سامنے کھڑے ان دونوں لوگوں پر تھی ۔۔ جوجانے اب ایک دوسرے سے مسکرا کر کیا بات کر رہے تھے؟ اسے اب کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔۔۔ اسے لگا کہ اچانک ہی منزل بہت دور ہوگئ ہو ۔۔۔ اتنی کے نظروں سے اوجھل ہو ۔۔ اسکے سامنےکا منظر دھندھلانے لگا تھا ۔۔۔ وہ اب تیزی سے ہال سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔
’’ باس ’’ منیجر نے آواز دی تھی ۔۔۔ وہ اسکی طرف آنا چاہتا تھا مگر حاشر نے اسے روک لیا تھا ۔۔
’’ انہیں کیا ہوا ؟ ’’ منیجر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔۔
’’ مسافر کو ایک اور زخم لگا ہے ۔۔ سنبھلنے کا وقت دو ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا ۔۔
وہ اپنی گاڑی کی جانب آیا تھا ۔۔ اس کی آنکھیں اب بھی دھندھلی تھیں ۔۔ جانے کیوں ؟؟ اس نے انہیں دھندھلی آنکھوں سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
اسے محسوس ہوا کہ کوئی گرم سیال اسکی آنکھوں سے نکل کر ایک لکیر کی صورت میں تھوڑی تک آیا تھا ۔۔
دھندھ بھی کم ہوگئ تھی۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔ اور آگے بڑھا تھا ۔۔۔
کوئی تھا جو اسکی گاڑی کے چلے جانے کے بعد ایک جانب سے نکل کر سامنے آیا تھا ۔۔
’’ تمہیں سہنا ہوگا عفان خالد ۔۔۔ تمہیں سہنا ہوگا درد کو ۔۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ درد کے ساتھ جینا کیسا ہوتا ہے’’ یہ ارسا ساجد تھی جو اس سڑک کی جانب دیکھ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔
’’ چلیں ؟ ’’ محد کی آواز آئی تھی ۔۔
’’ چلو ’’ وہ مسکرا کر کہتی اپنی گاڑی کے جانب بڑھی تھی ۔۔
یہ ایک شاندار کمرہ تھا ۔۔۔ شاید ایک فلیٹ کا جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا ۔۔۔ کمرے کے اندر ہر طرف دھوا دھوا تھا ۔۔ ایک وجود تھا جو اس دھوئے کے درمیان بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر نیم بیٹھا تھا ۔۔ اسکے ہاتھ میں سگریٹ تھا۔۔ جسے وہ وقفے وقفے سے اپنے منہ پر لگا رہا تھا ۔۔ منہ سے ہٹانے کے بعد دھوا نکل کر اسی فضا کا حصہ بن رہا تھا ۔۔ پاس رکھی سٹرے میں ایسی کئ سگریٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔ اسکی آنکھیں لال تھی ۔۔ ایک درد تھا ۔۔ ایک کرب تھا جو اسکی آنکھوں سے ظاہر ہورہا تھا ۔۔۔
جانے کتنے گھٹنے گزرے تھے ۔۔۔ جانے رات کا کونسا پہر تھا جب کسی نے اس کمرے کے دروازے کو ناک کیا تھا ۔۔
وہ اب بھی خاموش تھا ۔۔ اسے کوئی آواز نہیں آرہی تھی ۔۔ اس کی نظریں چھت پر ٹکی تھیں ۔۔ ایسے جیسے وہاں کوئی فلم چل رہی ہو ۔۔ جسے وہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اب کوئی مسلسل دروازہ ناک کر رہا تھا ۔۔۔ شاید کوئی اسے آوازیں بھی دے رہا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازے کا لاک توڑا تھا ۔۔۔ اس نے دیکھا پورا کمرہ دھوئے سے بھرا ہوا تھا ۔۔ وہ زمین پر بیٹھا مزید سگریٹ پی رہا تھا ۔۔ وہ بھاگتا ہوا اسکے پاس گیا اور اس کے ہاتھوں سے سگریٹ لے کر دور پھینکا تھا۔۔
’’ باس یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ’’ حاشر نے اسے بازؤں سے جھنجھوڑ کر کہا تھا ۔۔ وہ اب حاشر کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔ اس نے دیکھا کتنی سنسان آنکھیں تھی اسکی۔۔ کیسا کرب تھا ان آنکھوں میں ۔۔ حاشر کو اسکی اس حالت پر تکلیف ہوئی تھی۔۔
’’ ہوش میں آئیں باس ۔۔ ان سب سے کیا حاصل ہوگا ؟ ’’ وہ اسے کہہ رہا تھا ۔۔ اور عفان بس اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔۔
’’ چلیں اٹھیں ’’ وہ اسے اب اٹھنے کا کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور وہ خاموشی سے اٹھا تھا۔۔ حاشر اسے باہر لے کر آیا اور لاؤنچ کے صوفے پر بٹھایا تھا ۔۔
’’ ایسا کیوں کر رہے ہیں باس ۔۔ جانتے ہیں کہ آپکو ایسا دیکھ کر دوسرے کتنا ڈسٹرب ہورہے ہیں ’’ عفان کی یہ حالت اسے پریشان کر رہی تھی ۔۔
’’ وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے ؟ ’’ ایک دھیمی آواز کی جو حاشر کے کانوں تک پہنچی تھی ۔۔۔
’’ اسے ایسا کرنا ہی تھا ’’ اس نے بھی دھیمے لہجے میں جواب دیا تھا ۔۔۔
’’ وہ میری تھی ۔۔۔ کسی اور کی کیسے ہوگئ حاشر ؟ اتنا بڑا ظلم وہ کیسے کر سکتی ہے مجھ پر ؟ ’’ اب کی بار آواز بلند تھی ۔۔ حاشرکو عفان اپنے ہوش میں نہیں لگا تھا ۔۔ یا پھر ،۔۔ آج ہی وہ ہوش میں آیا تھا ؟
’’ آپ اسے چار سال پہلے آزاد کر چکے تھے باس ۔۔ وہ آپکی نہیں رہی تھی ’’ وہ اسے یاد دلانا چاہتا تھا ۔۔
’’ اسے آزاد نہیں کیا تھا ۔۔ محبت میں باندھا تھا میں نے اسے حاشر ۔۔۔ وہ مجھے ان کانٹوں کے سفر پر چلتا چھوڑ کر اپنا راستہ ایسے کیسے بدل سکتی ہے ؟؟ یہ ناممکن ہے ’’ سر دونوں ہاتھوں پر گرائے وہ جھکا بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اسکی حالت پر اس وقت حاشر کو بھی رحم آیا تھا ۔۔ مگر کاش کے اسے بھی آتا ۔۔۔!!
اسے لگا ۔۔ عفان کو اس وقت اکیلا چھوڑنا ہی بہتر تھا ۔۔ وہ اسے وہاں چھوڑ کر جاچکا تھا ۔۔ سگریٹ کے باقی پیکٹ بھی وہ ساتھ لے گیا تھا ۔۔۔ اور عفان خالد نے اسی صوفے پر جاگ کر وہ رات گزاری تھی ۔۔۔
’’ باس نہیں آئے آج ؟ ’’ وہ منیجر کے آفس میں آکر ان سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ نہیں ۔۔ حاشر بتا رہا تھا کہ انکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ’’ منیجر کی بات ہر اسکے چہرے پرپریشانی آئی تھی ۔۔
’’ کیا ہوا ہے انہیں ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ اور اسکی پریشانی منیجر کو حیران کر رہی تھی ۔۔۔
’’ بخار ہے ’’ ایک مختصر سا سوال تھا ۔۔
’’ کتنا ؟ ’’ ایک اور سوال تھا ۔۔
’’ نارمل ہی ہوگا ’’ منیجر نے لاپرواہی سے کہا تھا ۔۔
’’ اچھا ’’ وہ کہہ کر پلٹی تھی ۔۔ منیجر کے آفس سے نکل کر اب وہ حاشر کی جانب آئی تھی ۔۔
’’ کیسے ہیں حاشر صاحب ؟ ’’ مسکرا کر اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ بلکل ٹھیک ہیں ہم ۔۔ آپ بتائیں آپ کے ہسبنٹ کیسے ہیں ؟’’ طنزیہ لہجہ تھا ۔۔
’’ وہ تو بہت اچھے ہیں ۔۔۔ آپ کے باس نظر نہیں آرہے ؟ ’’ اس کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی ۔۔
’’ بخار ہے انہیں۔۔۔ مگر آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔ بہت جلد ٹھیک ہوجائینگے ‘‘
’’ میں پریشان ہو بھی نہیں رہی حاشر صاحب ’’ وہ ایک ادا سے کہتی پلٹی تھی ۔۔
’’ تو پھر ہر ایک سے انکی طبیعت کیوں پوچھی جارہی ہے ؟ ’’ حاشر کی بات پر اسکے بڑھتے قدم رکےتھے ۔۔
وہ کوئی جواب دیئے بنا اپنے آفس میں آئی تھی ۔۔۔ کرسی میں بیٹھ کر اس نے اپنے لیپ ٹاپ کی جانب دیکھا تھا جہاں ایک نئے ڈیزائین کا گراف تھا جو اسے کمپلیٹ کرنا تھا ۔۔۔ اس نے اپنی توجہ اسکی جانب کرنا چاہی تھی مگر وہ چاہ کر بھی کام نہیں کرپارہی تھی ۔۔۔ جانے کیوں ۔۔
اس کا موبائیل بہت دیر سے بج رہا تھا ۔۔۔ موبائیل پر آتی مسلسل کال کی وجہ سے اسکی آنکھ کھلی تھی ۔۔ اس نے دیکھا وہ لاؤنچ کے صوفے ہر لیٹا تھا ۔۔۔ آنکھ کھلتے ہی اسے گزری ہوئی رات یاد آئی تھی ۔۔ آنکھوں میں ایک بار پھر کچھ چبھا تھا ۔۔ موبائیل اب دوبارہ بج رہا تھا ۔۔ اس نے اپنے موبائیل کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا جوکہ وہی زمین پر گرا تھا ۔۔ موبائیل پر کال کرنے والے کا نام پڑھ کر اس نے کال اٹھائی تھی ۔۔ اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔۔۔
’’ بولو منیجر ’’ اس نے بھاری آواز میں کہا تھا۔
’’ آپکی طبیعت کیسی ہے باس اب ؟ ’’ منیجر کو اسکی آواز میں کچھ عجیب لگا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہوں ’’ اپنا سر دباتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھا تھا ۔۔
’’ بخار کم ہوا ؟ ’’
’’ بخار ؟ ’’
’’ جی ۔۔ حاشر نے بتایا آپکو بخار ہے ’’
’’ اوہ ہاں ۔۔۔ اب بہتر ہے تم بتاؤ کیسے کال کی ؟ ’’ وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں بس آپکی طبیعت کا پوچھنا تھا ’’ منیجر سمجھ گیا تھا ۔۔
’’ چلو اوک بائے ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کردی تھی ۔۔
اس نے سامنے گھڑی کی جانب دیکھا ۔۔ دوپہر کے تین بج رہے تھے ۔۔ آج وہ بہت زیادہ دیر تک سویا تھا ۔۔ اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ رات اسے نیند کب آئی تھی ۔۔ ہاں یاد تھی تو بس وہ ایک ہستی جو جس نے اسکی رات خراب کی تھی ۔۔ جس نے اسکا ہر دن خراب کردیا تھا ۔۔۔ اس نے صوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کی تھیں ۔۔ وہ چہرہ پھر سے اسکے سامنے آیا تھا ۔۔ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں تھیں ۔۔ جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہو ۔۔
’’ تم سے ڈر لگنے لگا ہے ارسا’’ وہ سامنے دیکھتے کہہ رہا تھا۔۔۔
’’ تم سامنے مت آنا ۔۔ تم سامنے آؤگی تو ڈر جاؤنگا ’’ وہ ایسے کہہ رہا تھا کہ جیسے وہ اسے سن رہی ہو۔۔ جانے وہ چار سالوں سے ارسا سے اس طرح کتنی باتیں کرتا رہا تھا ؟ ۔۔
دروازے پر بیل ہوئی تھی ۔۔ وہ جیسے ہوش میں آیا تھا ۔۔ جیسے ارسا فوراً ہی نظروں سے غائب ہوئی تھی ۔۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا ۔۔ سامنے ہی حاشر کھڑا تھا۔۔ وہ پلٹ کر دوبارہ اسی جگہ آکر بیٹھا تھا ۔۔۔ حاشر اسے اس حال میں دیکھ کر حیران نہیں ہوا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسی رات والے حلیے میں ہی ہوگا ۔۔۔ وہ فوراً کچن کی جانب گیا تھا ۔۔ عفان وہی بیٹھا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد حاشر کافی کا کپ لے کر اسکے پاس آیاتھا ۔۔
’’ کافی ’’ کپ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔۔
’’ تھینک یو ’’ عفان نے کہہ کر اس کے ہاتھ سے کافی لی تھی ۔۔
’’ یہ اتنے سالوں میں پہلی بار ہے جب آپنے مجھے تھینک یو کہا ہے باس ’’ وہ کہتا ہوا اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔۔
’’ ایسا بہت کچھ ہوتا ہے حاشر جو پہلی بار ہوتا ہے ’’ کافی کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ۔۔ اور آنکھیں رات کی داستان سنا رہی تھیں ۔۔
’’ آپ آفس نہیں آئے آج ؟ ’’ وہ اس سےپوچھ رہا تھا ۔۔ وجہ جاننے کے باوجود ۔۔
’’ بخار جو تھا مجھے ’’ عفان کے جواب پر وہ مسکرایا تھا ۔۔۔
’’ منیجر پوچھ رہا تھا تو اسے یہی بتانا ٹھیک لگا مجھے ۔۔۔ مگر ’’ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی ۔۔
’’ مگر ؟ ’’ اس نے پوچھاتھا ۔۔
’’ مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کچھ لوگ آپکے ہلکے سے بخار سے بھی پریشان ہوجائینگے ’’ وہ مسکراکر کہہ رہا تھا جبکہ عفان کے چہرے پر حیرانی تھی ۔۔
’’ سچ میں ؟ ’’ وہ فوراً آگے کو جھک کو پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ بلکل ۔۔ وہ پہلے منیجر کے پاس گئیں ۔۔ اور پھر آپکی بیماری کا سن کر میرے پاس آئیں ’’ وہ اسے شاید یہی بتانے آیا تھا۔
’’ کیا کہا اس نے ؟ ’’ وہ بے چین ہوا تھا ۔۔
’’ یہ پوچھیں کہ میں نے کیا کہا ؟ ’’ حاشر آگے کو جھکا تھا ۔۔
’’ کیا کہا ؟ ’’
’’ میں نے کہا کہ اور بتائیں آپکے ہسبنٹ کیسے ہیں ؟ ’’ وہ کہہ کر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا ۔۔۔ عفان سنجیدگی سے بس اسے سن رہا تھا ۔۔۔
’’ کہتی ہیں کہ وہ تو بہت اچھے ہیں ۔۔ آپ کے باس نظر نہیں آرہے ’’ حاشر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ وہ واقعی بہت اچھاہے ۔۔۔اس لئے اسے ارسا ساجد ملی ’’ ایک درد تھا جو اسکے چہرے سے عیاں ہوا تھا ۔۔
’’ ہاں وہ بہت اچھا ہے ۔۔ مگر پھر بھی وہ آپکے لئے پریشان ہوئی ۔۔۔ جبکہ وہ جانتی تھیں کہ آپ کیوں نہیں آئے ’’ حاشر جانے اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا ۔۔ مگر عفان خالد کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ انہیں یہاں بلاؤ حاشر۔۔۔ میں چاہتا ہوں کے اپنی ذات سے اسے کوئی خوشی دوں ’’ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد عفان نے کہا تھا ۔۔ اور حاشر سر ہلا کر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ ضرور باس ۔۔ میں کل ہی انہیں بلاتاہوں ۔۔ آپ آفس کب آئینگے ؟’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
’’ انکے آجانے کے بعد ۔۔ میں ابھی اسکے سامنے نہیں جانا چاہتا ’’
’’ ڈر رہے ہیں نا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔۔ اس محبت سے ڈرنا چاہیئے جس پر کسی اور کا حق ہو ’’ یہ صرف وہی جانتا تھا کہ اس نے کس طرح یہ الفاظ ادا کئے تھے ۔۔ حاشر کے اندر کچھ اور کہنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔ وہ عفان خالد کو ٹوٹتا دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ یہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اس لئے خاموشی سے وہاں سے جاچکا تھا ۔۔۔
تین دن گزر گئے تھے مگر عفان آفس نہیں آرہا تھا۔۔ وہ اندر سے بہت بے چین تھی ۔۔ مگر خود کو لاپرواہ ظاہر کر رہی تھی ۔۔ اسے فکر تھی اسکی طبیعت کی ۔۔۔ آج بھی وہ آفس نہیں آیا تھا ۔۔ اور وہ حاشر سے دوبارہ پوچھ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔ مگر اسے آفس سے جو معلومات ملی تھی اس کے مطابق وہ بیمار تھا ۔۔۔ وہ اس وقت اپنے فلیٹ میں آئی تھی جہاں وہ رہ رہی تھی ۔۔ اپنے روم کی لائیٹس آن کر کے وہ فوراً بیڈ پر لیٹ گئ تھی ۔۔۔ سوچوں میں اب بھی عفان ہی تھا ۔۔ جانے اسے کتنی دیر ہوئی تھی جب اسکا موبائیل بجا تھا وہ جانتی تھی کہ کس کی کال ہوگی ۔۔۔
’’ کیا حال ہے محد ’’ کال ریسیو کر کے اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ٹھیک ہوں ۔۔ تم بتاؤ سب ٹھیک ہے نہ کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی ’’ وہ اس کے لئے فکر مند تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ وہ اس دن کے بعد سے آفس ہی نہیں آیا ’’
’’ اسکا مطلب وہ ڈر رہا ہے ارسا ’’ محد کی بات پر وہ الجھی تھی ۔۔۔
’’ کس سے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ تم سے ’’ محد کی بات کر بے اختیار ہی اسے ہنسی آئی تھی ۔۔
’’ کیسی بات کر رہے ہو محد تم ؟ عفان خالد ۔۔۔ارسا ساجد سے ڈرے گا ۔۔ امپاسیبل ’’ وہ ماننے کو تیار نہیں تھی ۔۔
’’ ایسا ہی ہے ۔۔ وہ تم سے ڈرتا ہے ۔۔ اور جانتی ہو اسے ڈرایا بھی تم نے ہی ہے ’’
’’ وہ کیسے ؟ ’’ اسے اسکی بات ذرا بھی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔
’’ محبت کو ڈر تب لگتا ہے جب محبت اسکے سامنے ہوکر بھی اسکی نہ رہے ۔۔۔ تم نے بھی تو یہی کیا ہے اسکے ساتھ ارسا ۔۔۔ پھر کیسے نہ ڈرے وہ تم سے ؟ ’’ محد کی بات پر ارسا خاموش ہوگئ تھی ۔۔
’’ تمہیں اس سے ہمدردی ہورہی ہے محد ؟ ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا تھا ۔۔۔
’’ نہیں ۔۔ مجھے تم سے ہمدردی ہورہی ہے ارسا ’’ اس نے کہا تھا اور ارسا کو لگا کہ جیسے جو اس نے کہا وہ اسکی برداشت سے باہر تھا ۔۔۔ اس نے فوراً ہی کال کاٹ دی تھی ۔۔ اور یہی وقت تھا جب ڈور بیل بجی تھی ۔۔
’’ کون آگیا اب ’’ وہ غصے میں اٹھی تھی ۔۔ اس نے باہر آگر دروازہ کھولا ۔۔۔ اور سامنے کھڑے دو لوگوں کو دیکھ کر اسکے پیروں تلے زمین نکل گئ تھی۔۔۔ وہ پتھر بنی بس ان دو لوگوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جن میں سے ایک نے اب اسکی طرف بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا ۔۔
’’ ارسا ۔۔۔ میری بچی ۔۔ کیسی ہو تم ؟ ’’ یہ وہی آواز تھی ۔۔ ہاں یہ وہی آواز تھی جسے سنے پانچ سال گزر گئے تھے ۔۔ یہ وہی آواز تھی جسے سننے کے لئے اسکے کان ترس گئے تھے ۔۔ ہاں یہ وہی ہستی تھی جس سے ملنے کی اس نے دن رات دعائیں کی تھی ۔۔ یہ وہی ہستی تھی جس کی یاد میں وہ راتوں کو اٹھ کر روتی تھی ۔۔۔ اور آج اچانک وہ ہستی اسکے سامنے آگئ تھی ۔۔ آج وہ اسکے گلے لگ کر رورہی تھیں۔۔۔ آج اتنے سال بات ان کے منہ سے اپنا نام سنا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے ۔۔ اور پھر انکی رفتار تیز ہوگئ تھی ۔۔۔ چہرہ بھیگ رہا تھا ۔۔
’’ ماما ’’ ایک دبی آواز تھی ۔۔ ارسا ان سے لپٹ گئ تھی ۔۔ وہ دونوں رو رہی تھی۔۔ سسکیوں کی آوازیں تھی تو اس ماحول میں حرکت پیدا کر رہی تھی ۔۔
’’ کہاں تھیں آپ ماما ۔۔۔ میں نے کتنا مِس کیا آپکو ’’ یچکیوں کے درمیان اسکی آواز آرہی تھی ۔۔ وہ انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں تھی ۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ خواب نہ ہو۔۔ کہیں ایسا نہ وہ کہ ان سے الگ ہو اور وہ غائب ہوجائیں ۔۔ وہ اب دوبارہ ماما کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
’’ مجھے معاف کردو ارسا ۔۔۔ تمہاری ماں تمہارا ساتھ نہیں دے سکی ’’ یہ اسکی ماما کی آواز تھی جس پر اس نے ماما کو خود سے الگ کر کے انکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔
’’ کس نےکہا کہ آپنے ساتھ نہیں دیا ؟ آپنے دعائیں کی ہیں میرے لئے ماما ۔۔ انہیں کی وجہ سے تو آج میں اس مقام پر ہوں ’’ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔ بھیگی آواز میں وہ کہہ رہی تھی ۔۔
’’ کوئی اور بھی آیا ہے ارسا ’’ ماما نے اسکا دھیان اب اس دوسری ہستی کی جانب کروایا تھا ۔۔اس نے دیکھا سامنے ہی ساحل کھڑا تھا ۔۔ وہ ہچکچائی تھی ۔۔ آگے بڑھنا چاہتی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بھائی کا رویہ اب اسکے ساتھ کیا ہوگا ۔۔
مگر اگلے ہی لمحے جو اس نےدیکھا وہ اسے حیران کر گیا تھا ۔۔ وہ اسکے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے ۔۔
’’ اپنے اس بھائی کو معاف کردو ارسا ’’ انکی آنکھوں سے آنسو گرے تھے ’’ جس نے تمہاری بربادی میں اپنا حصہ ڈالا ۔۔۔ پاپا کو تم نے نہیں مارا تھا ارسا ۔۔۔ پاپا کو میں نے مارا تھا ۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔ اپنے بھائی کو معاف کردو ’’ وہ اب باقاعدہ رونا شروع ہوئے تھے ۔۔ یہ اسکا وہی بھائی تھا جو اسکی ہر خواہش پوری کرتا تھا ۔۔ یہ اسکا وہی بھائی تھا جو اسکی ایک مسکراہٹ کی خاطر اسکی ہر بات مان جاتا تھا ۔۔ آج اسکا وہی بھائی اسکے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔۔ یہ منظر اسکے لئے قابلِ برداشت نہیں تھا ۔۔ وہ تڑپ گئ تھی ۔۔۔
’’ یہ آپ کیا کر رہے ہیں بھائی ’’ اس نے آگےبڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما تھا ’’ مجھے شرمندہ مت کریں ۔۔ میں آپکی بہن ہوں۔۔ وہی بہن کو آپکا فخر تھی ۔۔ میں آپکا فخر ہوں نا بھائی ؟؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ ساحل نے دیکھا۔۔ ایک خوف سے۔۔ ایک ڈر سے ۔۔ اس نے فوراً اسے اپنے سینے سے لگایا تھا ۔۔
’’ تم میرا فخر ہو ارسا ۔۔ تم میرا مان ۔۔ میرا اعتبار ۔۔ میرا غرور ہو ارسا ’’ اور ارسا ساجد کو لگا کہ اس ایک لمحے نے پانچ سال کے زخم مٹا دیئے ہوں ۔۔ اسے لگا کہ ان چند الفاظ نے اسے پھر زندہ کر دیا ہو ۔۔۔ وہ جانے کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے ملتے رہے جانے کتنی دیر انکی آنکھیں بھیگی رہی ۔۔ ارسا نے انکے لئے اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی تھی ۔۔ اور شاید اس نے ہاتھوں سے نہیں اس نے محبت سے بنائی تھی ۔۔
’’ کتنے سال بعد تمہارے ہاتھ کی چائے پینے کو ملی ہے ’’ بھائی نے ایک گھونٹ لے کر کہا تھا ۔۔
’’ اب روز ملا کرے گی ’’ ارسا نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
’’ ویسے آپ لوگ یہاں آئے کیسے ؟ ’’ اسے اب خیال آیا تھا ۔۔ وہ اس ملک میں ۔۔ اس تک کیسے پہنچ گئے ؟
اس کے سوال پر ساحل اور ماما نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جانے اس سوال کا ایسا کونسا جواب تھا جو دیتے ہوئے ہچکچا رہے تھے ۔۔ ارسا کو کچھ عجیب لگا تھا ۔۔
’’ آپ دونوں کو کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں ؟ ’’ اس نے دوبارہ سوال کیا تھا ۔۔ اور ساحل نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔۔
’’ حاشر ’’ ساحل کے جواب پر ارسا چونک گئ تھی ۔۔
’’ حاشر ؟ ’’ اس نے دہرایا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ حاشر نے ہمیں انفارم کیا اور وہی ہمیں یہاں چھوڑ کر گیا ہے ’’ ساحل کی بات پر وہ حیرت زدہ تھی ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اسکے گھر والوں سے رابطے میں ہے ؟ تو کیا وہ انہیں سب بتا چکا تھا ؟
’’ آپ اسے کیسے جانتے ہیں ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ وہ آیا تھا ہمارے پاس ۔۔ چار سال پہلے۔۔۔ عفان خالد کے ساتھ ’’ اور ان الفاظوں نے ارسا کو خاموش کردیا تھا ۔۔ وہ بس بھائی کو دیکھ رہی تھی۔۔ حیرت سے ۔۔ صدمے سے ۔۔
’’ اس نے ہمیں سب بتا دیا ارسا ۔۔۔ وہ ہم سے معافی مانگنے آیا تھا ۔۔ وہ ہمیں سچ بتانے آیا تھا ۔۔ وہ ایک اور راز سے پردہ اٹھانے آیا تھا ’’ ماما نے اس سے کہا تھا ۔۔ اور وہ ایک بار پھر چونکی تھی ۔۔
’’ کونسا راز ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ یہی کہ وہ اکیلا نہیں تھا ۔۔ جس نے تمہیں برباد کیا۔۔۔ ہم سب نے اسکا ساتھ دیا تھا ۔۔۔ اور ہم سب میں کوئی تھا جس نے اسکا ساتھ نبھایا بھی تھا ’’ ساحل خاموش ہوا تھا اور ارسا سے خاموشی برداشت نہیں ہوئی تھی۔۔
’’ کون ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ نیشا ’’ جواب ماما کی جانب سے آیا تھا ۔۔
’’ نیشا بھابھی ؟ ’’ وہ حیرانگی کی انتہا پر تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اس نے عفان سے لاکھوں روپے لئے تھے ۔۔ تمہاری پل پل کی خبر دینے کے لئے۔۔۔ تمہیں گھر سے نکلوانے کے لئے ’’ ماما کہہ رہی تھی اور ساحل سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔ وہ شرمندہ تھا ۔۔ ارسا نے اسکی جانب دیکھا وہ اس سے نظر نہیں ملا رہا تھا ۔۔
’’ بھابھی کہاں ہیں ؟ ’’ اس کے سوال کر ساحل نے سر اٹھایا تھا ۔۔
’’ اپنے گھر ہے وہ ۔۔۔ چار سال سے ’’
’’ چار سال ؟؟ آپ نے ایسا کیوں کیا بھائی ؟ ’’ وہ جانتی تھی کہ اس نے ایسا کیوں کیا مگر وہ ایسا چاہتی نہیں تھی ۔۔
’’ کیونکہ اس نے تمہیں برباد کرنے والوں کا ساتھ دیا ۔۔ وہ ہمارے ساتھ مخلص نہیں تھی ۔۔ اور جو مخلص نہ ہو اسے دور کردینا چاہئے ’’ ساحل نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ مگر وہ آپ سے محبت کرتی ہیں ۔۔۔ اور میں انہیں معاف کر چکی ہوں ۔۔ آپ انہیں واپس لے آئیں ۔۔ ورنہ میں ناراض ہوجاؤنگی ’’ ساحل نے دیکھا وہ اس وقت اسکی وہی بہن لگ رہی تھی جو اپنی ناراضگی کی دھمکی دے کر اسے منالیتی تھی۔۔
’’ میں اسے لے آؤنگا ارسا ۔۔ مگر تب جب تم واپس آؤگی ’’ ساحل کی بات پر ارسا رک گئ تھی ۔۔ کیا وہ واپس جانا چاہتی تھی؟ یہ ایک ایسا سوال تھا کہ جس کے جواب پر دل خاموش تھا ۔۔۔
’’ محد کیسا ہے؟ ’’ اسے مسلسل کسی سوچ میں گم دیکھ کر ماما نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپکے آنے سے پہلے اسی سے بات کر رہی تھی ۔۔ بلکل ٹھیک ہے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ میں بہت خوش تم دونوں کی شادی سے ۔۔ تم نے ایک اچھا فیصلہ کیا ارسا ’’ ماما کی بات پر ارسا کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی ۔۔۔
’’ ہماری شادی ہوچکی ہے ماما ۔۔۔مگر ایک دوسرے سے نہیں ’’ اور ارسا کے جواب نے دونوں کو چونکا دیا تھا۔۔۔۔
وہ آج شام کافی دنوں بعد گھر سے نکلا تھا ۔۔ آج جب حاشر نے بتایا کہ ارسا اپنے گھر والوں سے مل چکی ہے ۔۔ آج جب اس نے بتایا کہ وہ خوش ہے جو اسکے دل کو بھی سکون ملا تھا ۔۔ اسے آج محسوس ہوا تھا کہ سکون کو کسی اور کی خوشی میں ہوتا ہے ۔۔ اور وہ تو پھر ارسا ساجد تھی ۔۔ اسکی زندگی ۔۔۔ وہ زندگی جو اب اسکی نہیں تھی ۔۔۔ دل میں اسی سوچ کے ساتھ ایک ٹیس اٹھی تھی ۔۔۔ اس نے گاڑی ایک ریسٹورانٹ کے آگے روکی تھی ۔۔۔ وہ کافی پینا چاہتا تھا ،۔ اسکے سر میں شدید درد تھا۔۔ آج بھی وہ آفس نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔ وجہ آج بھی وہی تھی ۔۔ وہ ارسا کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔
ریسٹورینٹ کے اندر آکر اس نے دائیں جانب قدم بڑھائے تھے وہ کونے والی میز کی جانب جانا چاہتا تھا ۔۔ مگر اس کے قدم اچانک ہی رک گئے تھے ۔۔ آنکھوں میں حیرانگی آئی تھی ۔۔ اس نے دیکھا سامنے ہی ایک میز پر دہ افرار بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ وہ شاید کوئی کپل تھا ۔۔۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے ۔۔ ان کے چہرے کے تعصورات انکی باتوں کی نوعیت بتا رہے تھے ۔۔ پھر اس نے دیکھا اس لڑکے نے سامنے بیٹھی لڑکی کے ہاتھوں کو تھاما تھا ۔۔۔ وہ اس سے مسکرا کر کچھ کہہ رہا تھا ۔۔ اس لڑکی نے فوراً ہی شرما کر ہاتھ پیچھے کیا تھا ۔۔۔ جانے اس منظر میں ایسا کیا تھا کہ عفان خالد کو اچانک ہی شدید غصہ آیا تھا ۔۔۔ وہ اب اس کپل کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔ اور پھر وہ انکے پاس جاکر رکا تھا ۔۔ دونوں نے چونک کر اسکی جانب دیکھاتھا ْ۔۔
’’ کیسے ہیں آپ محد ؟ ’’ آنکھوں میں غصہ لئے اسے گھورتے ہوئے وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ میں ٹھیک ہوں عفان صاحب آپ بتائیں ۔۔ یہاں کیسے ؟ ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔ اسکی مسکراہٹ پر اسے مزید غصہ آیا تھا۔۔
’’ آیا تو کافی پینے تھا مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ بھی یہاں ہونگے ۔۔۔ ایک غیر لڑکی کے ساتھ ’’ اس نے اب معنی خیز انداز سے اس لڑکی کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ ایکسکیوزمی ؟؟ غیر لڑکی سے کیا مطلب ہے آپکا ؟ میں محد کی بیوی ہوں ’’ اور اس کے جواب نے عفان خالد کے سر پر دھماکہ کیا تھا ۔۔۔
’’ بیوی ؟ ’’ وہ حیرت زدہ کہہ رہا تھا ۔۔
’’ جی عفان خالد ’’ محد اب کھڑا ہوکر اسکے قریب آیا تھا ’’ یہ میری بیوی ہیں ۔۔ ایمان محد ‘’ اور عفان خالد کو لگا کہ یہ کوئی مزاق تھا جو وہ اسکے ساتھ کر رہا تھا ۔۔وہ پتھر بنا حیران نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
’’ مگر ۔۔۔ مگر ارسا ؟؟؟ ’’ اس نے یہ الفاظ ادا کئے تھے ۔۔ محد نے اسے بازو سے تھاما تھا ۔۔ وہ اسے لے کر باہر آیا تھا ۔۔ عفان خاموشی سے اسکے ساتھ آگیا تھا وہ اس وقت جس حالت میں تھا وہ خود بھی نہیں سمجھ رہا تھا اسے ۔۔۔
’’ ارسا ۔۔۔ ’’ محد نے رک کر اسے کہا تھا ۔۔ وہ دونوں کھلے آسمان کے نیچے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ۔۔
’’ وہ ایک عام لڑکی نہیں ہے ۔۔ وہ ارسا ساجد ہے ۔۔’’ محد اسے دیکھتے کہہ رہا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں صاف تھا ایک درد ۔۔ ایک کمی ۔۔۔ عفان خالد دیکھ سکتا تھا ۔۔ عفان خالد اسے محسوس کرسکتا تھا ۔۔ وہ خود بھی تو اسی مقام پر تھا ۔۔
’’ وہ نہ محبت دیکھتی ہے ۔۔ نہ محبت کرنے والے کو۔۔ وہ محبت کا ظرف دیکھتی ہے ۔۔۔ پھر چاہے وہ محبت عفان خالد کی ہو ۔۔۔ یا محد کی ’’ وہ کہہ رہا تھا ۔۔ اور عفان خالد اسے سن رہا تھا ۔۔ بے یقینی سے ۔۔۔ حیرانگی سے ۔۔۔
’’ تمہاری محبت کا ظرف تم سے ڈائیوورس پیپر پر سائن کروا گیا ۔۔۔ اور میری محبت کا ظرف مجھ سے نکاح نامے پر’’ محد کی آنکھوں میں ارسا کی محبت چمک رہی تھی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں اسکا دکھ چمک رہا تھا ۔۔ عفان نے اپنا دل ڈولتا ہوا محسوس کیا تھا ۔۔اسے لگا کہ اسکا اپنا آپ اسکے سامنے کھڑا ہو ۔۔ اسے لگا کہ محد اور وہ ایک ہی ہوں ۔۔
’’ ہم دونوں نے ارسا ساجد سے محبت کی ہے ۔۔۔ ہم دونوں نے برابر کی محبت کی ہے عفان ۔۔ ہم دونوں محبت کی اس آزمائش پر پورے اترے ہیں ۔۔ ہم دونوں ایک ہی جیسے ہیں ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔ عفان کو اسکی مسکراہٹ مصنوعی لگی تھی۔۔ بلکل اپنی طرح ۔۔۔
’’ مگر جانتے ہوں ۔۔ محبت کی اس آزمائش میں ۔۔ محبت کے ظرف میں تم مجھ سے بلند نکلے’’ وہ اب کی بار دل سے مسکرایا تھا ۔۔ اور اب عفان خالد کے چہرے پر الجھن آئی تھی ۔۔ وہ بلند کیسے ہوا ؟ ۔۔
’’ میں نے محبت میں نکاح نامے پر سائن کئے ۔۔۔اور اس سائن نے ارسا ساجد کو ہمیشہ کے لئے پرایا کردیا ۔۔ تم نے محبت میں ڈائیوورس پیپر پر سائن کئے ۔۔ اور اس سائن نے ارسا ساجد کو ہمیشہ کے لئے تمہارا کردیا ’’ یہ وہ کیا کہہ رہا تھا ؟ ارسا ساجد اسکی تھی ؟؟ عفان خالد کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھیں ۔۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ محد نے دیکھا اسکی آنکھوں میں حیرانگی تھی۔۔۔
’’ ہاں عفان خالد۔۔۔ محبت کی اس آزمائش پر ہم دونوں کو ہی صلہ ملا ہے ’’ محد نے اسے بازؤں سے تھاما تھا ۔۔
’’ مجھے ایمان جیسی محبت کرنے والی بیوی ’’ اب کی بار عفان نے دیکھا اسکی مسکراہٹ مصنوعی نہیں تھی ۔، وہ دل سے مسکرایا تھا ۔۔ وہ واقعی خوش تھا ۔۔ اپنی بیوی کے ساتھ ۔۔ اسکی محبت کے ساتھ ۔۔
’’ اور تمہیں ۔۔ ارسا ساجد کی محبت ’’ یہ ایک بجلی ہی تو تھی جو عفان خالد پر گری تھی ۔۔ جس نے عفان خالد کو ہلا دیا تھا ۔۔
’’ محبت ؟ ’’ یہ پہلی بار تھا جب اس نے کچھ کہا تھا ۔۔ اور اسکی حالت پر محد کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی ۔۔
’’ مبارک ہو عفان خالد ۔۔۔ ارسا ساجد کی محبت مبارک ہو ’’ محد نے اسے گلے لگایا تھا ۔۔ اور عفان پتھر بن گیا تھا۔۔ محد اس سے الگ ہوکر اب واپس ریسٹورانٹ کے اندر جاچکا تھا ۔۔ جہاں اسکی بیوی اسکا انتظار کر رہی تھی ۔۔ اور عفان ؟
وہ وہی پتھر بنا کھڑا تھا ۔۔
’’ ارسا کی محبت ؟؟ ’’ اس کے ہونٹوں نے حرکت کی تھی ۔۔
’’ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے ’’ وہ بے یقین سا کہہ رہا تھا ۔۔
’’ وہ میری ہے ’’ وہ اب بھی وہی کھڑا تھا ۔۔
اسے محسوس ہورہا تھا ۔۔ جیسے جسم میں دوڑتے خون کی رفتار تیز ہوگئ ہو ۔۔ اسے محسوس ہورہا تھا۔۔ جیسے دل کی دھڑکن شدید ہو ۔۔ ایسے جیسے سینے سے نکلنے کو ہو ۔۔۔ اسے محسوس ہورہا تھا ۔۔ جیسے جسم میں روح زندہ ہوگئ ہو ۔۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی آواز ہے جو باہر آنے کو بے تاب ہو ۔۔اور پھر ۔۔ وہ تیز آواز میں چینخا تھا ،،
’’ آ آ آ آ ۔۔۔۔۔ ’’ آس پاس کے لوگ اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔۔ اور سب نے دیکھا عفان خالد گٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا ۔۔ اسکا سر جھکا ہوا تھا ۔۔ سانس تیز تھی ۔۔۔ اور پھر سب نے دیکھا ۔۔ اسنے اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھایا تھا ،،
’’ تھینک یو گاڈ ۔۔۔ تھینک یو سو مچ ’’ وہ آسمان کی جانب دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں چمک تھی ،۔ اسکا دل دھڑک رہا تھا ۔۔ تیزی سے ۔۔۔ اس کا چہرہ کھِل گیا تھا ۔۔ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ وہ اب بھی اسی کی جانب متوجہ تھے ۔۔۔ جو اب آسمان کی جانب متوجہ تھا۔۔۔
’’ آئی لویو ۔۔ آئی لویو گاڈ ’’ اسکی آنکھوں سے آنسو کی ایک لکیر نکلی تھی ۔۔وہ مسکرا رہا تھا ۔۔ جانے کتنےسالوں بعد ۔۔۔ عفان خالد مسکرا رہا تھا ۔۔۔ بھرپور مسکرا رہا تھا ۔۔۔