چار سال بعد :
وہ اس وقت اپنے آفس میں موجود تھا جب کسی نے دروازہ نوک کیا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ لیپ ٹاپ پر نظرجماتے ہوئے اس نے اندر آنےکی اجازت دی تھی ۔۔ دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا ۔۔ شاید وہ آنے والے کو جانتا تھا اس لئے نظر ہٹا کر اسکی جانب دیکھنے کی توفیق نہیں کی تھی ۔۔
’’ باس اس فائیل کر سائن چاہئے تھے ’’ ایک فائیل اسکی جانب بڑھائی گئ تھی ۔۔
’’ یہی رکھ دو ’’ اس نے اپنے مخصوص اندان میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ باس ایک اور بات کرنی تھی ’’ ہچکچاتے ہوئے کہاگیا تھا ۔۔
’’ بولو ’’ وہ نارمل تھا ۔
’’ دبئی کی برانچ میں نئے جیولری ڈیزائینر کے لئے انٹرویوں اور کچھ ٹیسٹ لئے تھے ۔۔ ان میں سے کچھ ڈیزائینرز کے سیمپلز سیلیکٹ کئے ہیں ۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ایک بار انہیں دیکھ کر اپنی رائے دے دیں ’’ وہ اپنی بات مکمل کر کے سامنے بیٹھے باس کے جواب کا منتظر تھا ۔۔
’’ انہیں جو ڈیزائینر بیسٹ لگتا ہے اسے اپائینٹ کرلیں ۔۔ مجھے اور بھی بہت کام ہے ’’ وہ سنجیدگی سے جواب دیتا اپنے کام میں مگن تھا ۔۔
’’ مگر باس انہیں جو ڈیزائینر اچھا لگا ہے۔۔ اس نے امریکہ کی بہترین یونیورسٹی سے ۳ سال کی ڈیزائینگ کا ڈپلومہ لیا ہے۔ اسکے بعد اسی یونیورسٹی میں کام بھی کیاہے ایک سال مگر ہماری کمپنی کی پالیسی کے مطابق ہم ۵ سال کے ایکسپیرینس والے کو ہی اپائینٹ کرتے ہیں تو ۔۔۔ ’’ ابھی اسکی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ بات باس نے کاٹ دی تھی۔۔
’’ ہماری کمپنی کی یہ پالیسی ہم کچھ سال پہلے ختم کرچکے ہیں حاشر ۔۔ اب ہم ان ایکسپیرئینس پرسنز کو بھی اپائینٹ کرتے ہیں ۔۔ اس لئے انہیں کہو انہیں جسکے ڈیزائینز یونیک لگتے ہیں اسے اسکی پسند کی سیلری میں اپائینٹ کرلیں ’’ باس کے جواب پر حاشر نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔
’’ اوک باس ’’ وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔عفان خالد کی یہ سنجیدگی وہ چار سالوں سے دیکھ رہا تھا ۔۔ چار سال ہوگئے تھے اور عفان خالد ان چار سالوں میں اگر کہیں گیا تھا ۔۔ تو وہ اسکی کمپنی اور اسکا گھر تھا ۔۔ اس نے کہیں آنا جانا بھی چھوڑ دیا تھا ۔۔ وہ اپنی دبئ سالی برانچ سے بھی بلکل لاپرواہ ہوگیا تھا۔۔ یہ تو حاشر خود تھا کہ جو وہاں پھر ہر سال ایک چکر لگا کر ساری رپورٹ لیتا تھا رونہ عفان خالد نے تو خود کو اتنا محدود کردیا تھا کہ وہ کہیں اور کی بات بھی سننا گوارا نہیں کرتا تھا ۔۔۔ جانے ایسا کیوں تھا۔۔ وہ دکھنے میں بلکل نارمل تھا مگر یہ صرف حاشر ہی جانتا تھا کہ اس میں کچھ بھی نارمل نہیں تھا ۔۔ سب بدل گیا تھا ۔۔ عفان خالد کی سوچ ، اسکی زندگی ، اور وہ خود بھی ۔۔ اسکے اندر کا غرور ۔۔ اسکی مسکراہٹ ۔۔ سب جانے کہا چلا گیا تھا ۔۔ کوئی تھا ۔۔ کوئی تھا جو سب ساتھ لے گیا تھا ۔۔
’’ کیسی ہیں دادو ؟ ’’ وہ کمپنی سے فوراً دادو کی طرف آیا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہوں ۔۔ تم بتاؤ کیسا رہا تمہارا آج کا دن ؟ ’’ اسکا چہرہ غور سے دیکھتے انہوں نے پوچھا تھا ۔۔
’’ بس روز جیسا ہی ’’ اسکے چہرے پر تھکن نہیں تھی ۔۔ جانے وہ تھکتا کیوں نہیں تھا ؟ یا پھر وہ اپنی تھکن چھپانا جان چکا تھا ؟
’’ ایسا کب تک چلے گا عفان ؟ ’’ دادو نے اس سے وہی روز والا سوال کیا تھا ۔۔ پچھلے چار سالوں میں یہ ایسا سوال تھا جسے سننے کی عفان کو عادت ہوگئ تھی ۔۔
’’ جب تک سفر جاری ہے ’’ چار سال تک روزانہ دینے والا جواب آج بھی اس نے دیا تھا ۔۔
’’ تھکتے نہیں ہو ؟ ’’ دادو نے اس سے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ میں ابھی بہت دور ہوں دادو ابھی کیسے تھک سکتا ہوں ’’ وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا ۔۔ کتنی مصنوعی مسکراہٹ تھی یہ ۔۔
’’ تھکن ہمیشہ منزل کے قریب پہنچ کر ہوتی ہے’’ اس نے اپنی بات مکمل کی تھی ۔۔
’’ کیا تم منزل جانتے ہو ؟ ’’ دادو کے سوال پر بھی اسکے تعصورات نہیں بدلے تھے ۔۔
’’ نہیں ۔۔ میں نہیں جانتا ۔۔ مگر جانےکیوں دل کہتا ہے کہ منزل اچانک ہی کسی موڑ پر مل جائیگی ’’ وہ دل کی بات کر رہا تھا ۔۔ وہ اندر سے ٹوٹا ہوا تھا ۔۔ مگر اسکا دل جانے کیوں اسے یہ احساس دلاتا تھا کہ منزل اب بھی ہے ۔۔۔
’’ یہ یک طرفہ سفر رائیگاں ہوگا عفان ،۔۔ اس سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔۔ تم آخر شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ ’’ دادو وہی بات اس سے کہہ رہی تھیں جو وہ چار سالوں سے سن رہا تھا ۔۔
’’ آپکی قسم دادو ۔۔ جس دن محسوس ہوا کہ یہ سفر رائیگاں ہے ۔۔ جس دن دل نے کہا کہ کچھ حصول نہیں۔۔ میں اسی دن شادی کرلونگا ’’ وہ کہہ کر اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔ دادو اسکے لئے دعا ہی کرتی رہ گئیں تھیں۔۔ وہ اتنے سالوں میں بھی اسے سمجھا نہیں سکیں تھیں ۔۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے کھڑکی سے پردہ ہٹایا تو ایک ٹھنڈے ہوا کے جھونکے نے اسکے چہرے کوچھوا تھا ۔۔ بے اختیار اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔ وہ اب ٹیرس میں آیا تھا ۔۔ یہ نومبر کا مہینہ تھا ۔۔۔اس لئے ہوا ٹھنڈی تھی ،،مگر اسےاس وقت ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی ۔۔ وہ تو کسی یاد میں گم تھا ۔۔ وہ کسی یاد کو تازہ کرنے آیا تھا ۔۔
آج پاپا کی برسی تھی ۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ صبح صبح پاپا کے سے ملنے بھی گیا تھا ۔۔ مگر وہ صرف پاپا کی سے ملنے نہیں گیا تھا ۔۔ وہ سامنے موجود اس قبر کے پاس بھی گیا تھا جو شاید اسی کی بنائی ہوئی تھی ۔۔ اور اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے دن بھی آئینگے کہ وہ اس قبر پر پھول ڈالے گا ۔۔ مگر ایسا وہ پچھلے چار سال سے کر رہا تھا ۔۔ اور اسے اس میں سکون بھی مل رہا تھا ۔۔
اب رات کے اس پہر جب وہ اس کھلے آسمان تلے موجود تھا تو اسے چار سال پہلے اسی دن کا ، یہی وقت یاد آرہا تھا ۔
آج اسکی سالگرہ تھی ۔۔ اور ان چار سالوں میں کسی نے اسکی سالگرہ کی مبارک باد نہیں دی تھی ۔۔سب جانتے تھے کہ الفاظ اسکے زخم ہرے کر دیتے تھے مگر زخم پرانے کب ہوئے تھے ؟؟ وہ رات کے اس پہر آسمان کی جانب نظر ٹکائے اسے سوچ رہا تھا ۔۔ وہی جو آج کے دن اسکے لئے تیار ہوئی تھی۔۔وہی جو جس نے اسکی سالگرہ یادگار بنائی تھی ۔۔ یہ آج ہی کا دن تو تھا ۔۔۔
’’ کہاں ہو تم ؟؟ ’’ زبان خاموش تھی مگر عفان کی آنکھیں یہ سوال پوچھ رہی تھیں ۔۔ جانے کس سے ؟
’’ مجھ سے الگ ہوگئ تھی تو اتنا دور کیوں چلی گئ ؟ آخر کس بات کا ڈر تھا تمہیں مجھ سے ارسا ساجد ؟ ’’ یہ وہ سوال تھا جو کئ سال سے وہ کر رہا تھا ۔۔ مگر اس سوال کا جواب کوئی بھی دینے سے قاصر تھا ۔۔ اور جس کے پاس اس سوال کا جواب تھا ۔۔ اسکی اسے کوئی خبر نہیں تھی ۔۔ جانے ارسا ساجد کہا چلی گئ تھی ۔۔اسے اس سفر میں اکیلا چھوڑ کر ۔۔ اس نے اسے ڈھونڈا تھا ۔ مگر جب اسے خبر ملی کہ وہ محد کے ساتھ گئ ہے تو وہ رک گیا تھا ۔۔ اس نے ارسا کی تلاش روک لی تھی ۔۔ اسے ڈر تھا کہ وہ اسے محد کے ساتھ دیکھے گا تو یہ جو منزل کی اک امید دل نے دے رکھی ہے ۔۔ وہ ختم ہوجائیگی ۔وہ اس امید کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ وہ اسی امید کے حوصلے آگے بڑھنا چاہتا تھا ۔۔۔ ایک گہری سانس لے کر وہ اپنے کمرے میں واپس آیا تھا۔۔ بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ایک میڈیسنز کی ڈبیہ اٹھائی تھی ۔۔ اسے کھول کر اس میں سے ایک گولی نکال کر اس نے پانی کے ساتھ لی تھی ۔۔ یہ کوئی بھی دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ وہ کس چیز کی گولی تھی۔۔ عفان خالد کو اب اس گولی کے بنا نیند نہیں آتی تھی ۔۔ اسے صرف یہی گولی سلا سکتی تھی ۔۔ اور وہ سوبھی گیا تھا۔
وہ ایک میٹنگ اٹینڈ کر کے باہر نکلا تھا جب حاشر اسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا تھا ۔۔
’’ باس ایک بات کرنی تھی ’’ وہ اسکے ساتھ چلتا ہوا بولا تھا ۔۔
’’ کہو ’’ اپنے آفس کے اندر آکر اس نے کرسی میں بیٹھنے کا اشاری دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ دبئ کے برانچ مینیجر نے نیو ائیر ڈیزائینز کی اوپننگ بڑے پیمانے میں کرنے کا پلان کیا ہے ۔ کلائینٹس کے علاوہ ہمارے پاس دوسرے ممالک سے بھی کچھ مہمان اور ڈیزائینرز آرہے ہیں ۔۔ اگر یہ اوپننگ کامیاب رہی تو ہماری کمپنی کو بہت فائدہ ہوگا ۔۔ ڈئیزائینز دوسرے ممالک میں بھی جائینگے اور ہمیں مزید کلائینٹس بھی مل سکتے ہیں ۔۔ مشہوری کے ساتھ ساتھ ہمیں اچھا خاصہ پرافٹ ہوگا ’’ وہ اسے فروفیشنل انداز میں بتا رہا تھا ۔۔
’’ مگر اس بار اتنی بڑی اوپننگ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ ابھی ہم نے ایک نیو ڈئیزائینر کو اپائینٹ کیا ہے ۔۔ اگر اسکے ڈیزائینز پسند نہیں کئے گئے تو کمپنی کو اس سے دگنا نقصان ہوگا ۔۔ وہ اتنا بڑا رزق کیوں لے رہا ہے ؟ ’’ اسے منیجر کا فیصلہ بیوقوفانہ لگا تھا ۔۔
’’ میں نے بھی ان سے یہی کہا تھا ۔۔ مگر انہوں نے کہا کہ یہ اوپننگ وہ اسی ڈیزائینر کے مشورے پر کر رہے ہیں اور اسکے ڈئیزانز بہترین ہیں ۔۔ انہیں پورا یقین ہے کہ اس بار یہ ڈئیزائنز دھوم مچا دیں گے ‘’ حاشر نے ایک ایک لفظ اسکے سامنے دہرایا تھا ۔۔
’’ تو اسے اپنے کام پر اتنا اعتبار ہے ؟ ’’ عفان کو یہ بات کچھ حیران کر رہی تھی۔۔
’’ صرف اسے نہیں، مینیجر اور پوری کمپنی کو ۔۔اور سچ بتاؤ تو میں نے بھی اسکے کچھ ڈیزائینز کی پکچر دیکھی ہے ۔۔ بہت مختلف اور یونیک ہیں ’’
’’ مگر یہ بہت بڑا رزق ہے حاشر ۔۔ میں مانتا ہوں کے اسکے ڈئیزائینز بہت اچھے ہونگے مگر انٹرنیشنل لیول پر اوپننگ کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔۔ اگر ہم ناکام ہوئے یا اسکے ڈئیزائینز ؟ تو کمپنی کو بہت بڑا نقصان ہوگا ۔۔۔مینیجر سے کہو کہ پہلے وہ اس پوائینٹ کو کلئیر کرے کہ نقصان کی صورت میں ہم کیا کرینگے ؟ ’’ عفان کی بات بھی اپنی جگہ بلکل ٹھیک تھی ۔۔ حاشر جانتا تھا کہ یہ ایک رزق تھا جو کامیاب اور ناکام دونوں میں سے کوئی بھی نتیجہ دے سکتا تھا ۔۔
’’ اوک باس ۔۔ میں ان سے بات کرتا ہوں ۔۔ اور آپ کو اسکے ڈیزائینز بھی بھیج دیتا ہوں آپ بھی دیکھ لیں ’’ حاشر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اسکی ضرورت نہیں ہے ۔۔مجھے تم پر یقین ہے ‘’ وہ ہمیشہ کی طرح یہی کہہ رہا تھا ۔۔ پچھلے چار سالوں سے عفان خالد حاشر کو ہی آگے کر رہا تھا ۔۔ وہ اپنی رائے یا اپنی پسند کا اظہار کرنا چھوڑ چکاتھا ۔۔ اسے تو اب یہ بھی یاد نہیں تھا کہ آخری بار عفان نے اپنی پسند اسے کب بتائی تھی ۔۔۔ شاید چار سال پہلے ؟؟ وہ ایک گہری سانس لے کر اس کے آفس سے نکلا تھا ۔۔۔ اسے اب اسکی عادت ہوچکی تھی ۔۔۔
وہ نماز پڑھ کر باہر نکلی تھیں ۔۔ سیڑھیاں اتر کر انہوں نے کچن کا رخ کیا جہاں ملازمہ کھانا بنارہی تھی۔۔
’’ ساحل آگیا ؟ ’’ انہوں نے ملازمہ سے پوچھا تھا ۔۔
’’ جی بیگم صاحبہ وہ اپنے کمرے میں ہیں ’’ ملازمہ کے جواب پر وہ سر ہلا کر دائیں جانب مڑی تھیں ۔۔ ساحل کے کمرے کے پاس پہنچ کو انہوں نے دستک دی تھی۔۔
’’ آجائیں ماما ’’ ساحل کے جواب کر وہ دروازہ کھول کر اندر آئیں تھیں ۔۔وہ بیڈ پر نیم دراز بیٹھا تھا۔۔ صائمہ بیگم اس کے پاس جاکر بیٹھی تھیں ۔۔
’’ تھک گئے ہو ؟ ’’ ساحل کے چہرے پر تھکن کے آثار وہ صاف صاف دیکھ سکتی تھیں ۔۔
’’ جی بس آفس میں کام بہت ہے آج کل ’’ وہ انہیں مسکرا کر جواب دے رہا تھا ۔۔
’’ بہو کو کب لارہے ہو ؟ ’’ ماما کے سوال پر ساحل کے تعصورات بدلے تھے ۔۔
’’ آپ جانتی ہیں کہ میں اسے کب لاؤنگا ’’ وہ اس سوال کا کئ مرتبہ جواب دے چکا تھا ۔۔
’’ اور اریب ؟ اسکو کیوں دور کرکے رکھا ہے خود سے ؟ ’’ وہ اپنے پوتے کے لئے بے چین تھیں ۔۔
’’ آپ نے ہی تو کہا تھا کہ اسے اسکی ماں سے دور مت کرو ۔۔ میں نے تو آپکی بات مانی ہے ورنہ میں تو اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا ’’ وہ یہ قصور بھی انکے حصے میں ڈال رہا تھا ۔۔
’’ چار سال گزر گئے ہیں ساحل ۔۔ آخر تم اسے معاف کیوں نہیں کردیتے ۔۔۔ اتنی سزا بہت ہے اسکے لئے ’’
’’ پانچ سال گزر گئے ہیں ماما ۔۔ پانچ سال سے ہمیں اسکی کوئی خبر نہیں ہے ۔۔ ہم نہیں جانتے وہ کہاں ہے کس حال میں ہے ۔۔ اس نے ہمیں برباد کرنے والوں کا ساتھ دیا تھا۔۔ یہ سزا بہت کم ہے ماما ’’ وہ کہہ کر خاموش ہوا تھا ۔۔ ہمیشہ کی طرح صائمہ بیگم اسکے آگے خاموش ہوگئ تھیں ۔۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب آئیں تھی ۔۔
’’ پانچ سال گزر گئے ہیں تمہیں دیکھے ارسا ۔۔۔ واپس آجاؤ بیٹا ۔۔ تمہارے بغیر یہ گھر کچھ بھی نہیں ہے ۔۔ ہمیں تمہاری ضرورت ہے ’’ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔۔ مگر سننے والا صرف خدا تھا۔۔۔۔ ارسا انہیں سن نہیں سکتی تھی۔۔۔
وہ اپنے آفس میں مووجود کچھ فائیلز کو پڑھ رہا تھا جب دروازہ ناک ہوا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔۔ حاشر اندر آکر اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔۔
’’ مینیجر سے بات ہوئی تھی باس ’’ وہ اسکے مسکرا ہر کہہ رہا تھا ۔۔ عفان اسکی مسکراہٹ دیکھ کر اسکی جانب مکمل متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ لگتا ہے بہت انٹرسٹنگ بات ہوئی ہے کوئی ’’ وہ اسکی مسکراہٹ دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔۔۔
’’بلکل بات تو بہت انٹرسٹنگ ہے ‘’ وہ اسکی جانب جھک کر بولا تھا ۔۔
’’ بتاؤ پھر ’’ عفان بھی اب کرسی سے ٹیک لگائے اسے سننے کے لئے تیار تھا ۔۔
’’ ہمارے ڈیزائینر نے کہا ہے کہ اگر وہ یہ اوپننگ فیل ہوئی تو وہ تین سال تک کمپنی کو فری میں ڈیزائینز بنا کر دیگا اور اسکے علادہ وہ کمپنی کا نقصان بھی بھریں گیں ’’ حاشر کی بات پر عفان حیران ہوا تھا ۔
’’ اسکے پاس اتنے پیسے ہیں ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ یہ تو ہم نہیں جانتے مگر منیجر کہہ رہا تھا کہ اس نے یونیورسٹی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی جس پر اسے انعام ملا تھا اور امریکن کمپنی میں ایک سال ایک اچھی پوسٹ پر جاب کر کے شاید اس نے کچھ فیونگ کی ہو۔۔ کیونکہ رہائش تو اسکی ایک عام سے فلیٹ میں ہے ’’ حاشر نے اسے وہ ساری ڈیٹیل بتائی تھی جوکہ منیجر نے اسے پرووائیڈ کی تھی۔۔
’’ اور اگر یہ اوپننگ اچھی کامیاب ہوئی تو ؟؟ ’’ وہ جانتا تھا کہ کوئی اتنا بڑا رزق ایسے ہی نہیں لیتا ۔۔ ضرور کوئی خاص بات تھی اس میں۔۔۔
’’ اگر اوپننگ کامیاب ہوتی ہے تو پھر ہم اسے اسکی تین سال کی سیلری کی رقم کا چیک دیں گے ۔۔۔ پرافٹ میں ’’ حاشر کی اگلی بات پر عفان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ ایک فرافیشل مسکراہٹ ۔۔
’’ تین سال کی سیلری کا چیک یعنی کئ کروڑ ’’ عفان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ جی ہاں ۔۔ تقریباً ۱۰کروڑ ’’ وہ اسے اپنا اندازہ بتا رہا تھا۔۔
’’ اوک ڈن ۔۔ اس نیو ائیر کی اوپننگ بلکل ویسی ہی ہوگی جیسی منیجر چاہتا ہے ’’ عفان نے فوراً ہی اپنا فیصلہ سنایا تھا ۔۔
’’ مگر باس پہلے آپ اس ڈیزائینر کے ڈیزائینز تو دیکھ لیں ۔۔ ایک بار خود اس سے بات کر لیں ۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آپکو وہاں جانا چاہئے ’’ حاشر اس جلد بازی کے فیصلے کے خلاف تھا ۔۔
’’ میں وہاں ضرور جاؤنگا مگر نیوائیر اوپننگ میں ۔۔ یہ دیکھنے کے آخر اسکے ڈئیزائنز اسے اور ہماری کمپنی کو کہاں پہنچاتے ہیں’’ وہ اپنی بات مکمل کرکے دوبارہ فائیل کی جانب جھک گیا تھا ۔۔ جسکا صاف مطلب تھا کہ اب مزید بات نہیں ہوگی ۔۔
’’ اوک باس ۔۔ میں منیجر کو بتا دیتا ہوں ’’ وہ کہہ کر آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائیل نکالا اور منیجر کو کال کی تھی۔۔
’’ باس نے اجازت دے دی ہے آپ اوپننگ کی تیاری کریں ’’ اس نے منیجر سے کہا تھا ۔۔ اور پھر اسکا جواب سن کر کال کٹ کر دی تھی ۔۔
وہ آج دیر تک آفس میں کام کرتا رہا تھا ۔۔ کام میں اتنا مگن تھا کہ اسے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔
حاشر نے اسکے آفس میں آکر اسے ہوش دلایا تھا ۔۔
’’ بارہ بج گئے ہیں باس ۔۔ دادو کی بھی کال آئی تھی ۔۔ آپ نے گھر نہیں جانا آج ؟ ’’ اس کے سامنے کھڑےہوکر وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ تم نے آنے سے پہلے ناک نہیں کیا ’’ عفان نے اسے اسکی غلطی بتائی تھی ۔۔
’’ سوری مگر میری جاب ٹائیمنگ ختم ہوچکی ہے اس لئے مجھے اب اجازت کی ضرورت نہیں ’’ کرسی پر اسکے سامنے بیٹھتے ہوئےاس نے کہا تھا ۔۔
’’ تم گھر چلے جاؤ ۔۔ مجھے کچھ کام کرنا ہے ’’ وہ لیپ ٹال میں نظر جمائے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ کام صبح بھی ہوسکتا ہے’’ وہ اسے لے کر جانا چاہتا تھا ۔
’’ مگر مجھےابھی کرنا ہے ’’ ضد تھی ۔۔
’’ کام اپنے وقت پر ہی اچھے لگتے ہیں باس ۔۔ وقت سے پہلے بھی نقصان دیتے ہیں اور وقت کے بعد بھی ’’ وہ اسے غور سے دیکھتے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہےکہ وقت سے پہلے اور وقت کے گزر جانے کے بعد انسان کو ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے’’ کرسی سے ٹیک لگائے وہ اسکی جانب متوجہ ہوکر کہہ رہا تھا ۔۔
’’ تو پھر صحیح وقت کا انتظار کیوں نہیں کرتے آپ ؟ وقت ائیگا تو کام بھی نپٹا لینا ۔۔ اس طرح خود سے بھاگنے کے لئے خود کو نقصان دینا اچھا تو نہیں ’’ وہ اسے سمجھانا چاہتا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ عفان کیوں خود کو اتنا مصروف رکھتا ہے ۔۔
’’ خود سے بھاگنا بھی مشکل ہے حاشر اور خود کا سامنا کرنا تو اس سے زیادہ مشکل ہے ۔۔ میرا اپنا آپ مجھے کوستا ہے ۔ پاؤں میں زخم ہیں ۔۔ دل میں درد ہے ۔۔ وماغ میں بے چینی ہے اور روح ۔۔ وہ تو محسوس ہی نہیں ہوتی ۔۔ ایسا لگتا ہے کسی مشین کا بوجھ لے کر پھر رہا ہوں ۔۔میں خود کو زندہ محسوس نہیں کر پاتا ’’ ایک وہی تو تھا جس کے سامنے عفان اپنے آپ کو کھول دیتا تھا ۔۔ یہ وہی شخص تھا جس نے اس کے ہر اچھے اور ہر برے کام میں اسکا ساتھ دیا تھا ۔۔۔
’’ جس سفر میں آپ ہیں وہ سفر چین لینے بھی نہیں دیگا باس ۔۔ ایک ایسا سفر جس میں کوئی منزل ہی نا ہو ۔۔ اس سفر میں انسان تھک کر چور بھی ہوجاتا ہے ۔۔ یہاں تک کے زندگی کا سفر ختم ہونے کو آجائے تب بھی وہ ختم نہیں ہوتا ۔۔ محبت کا یہ سفر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔۔۔ آپکی محبت نے آپکو بہت کڑی سزا دی ہے باس ’’ اسے عفان سے ہمدردی تھی۔۔
’’ میں نے اسکے ساتھ جو کچھ کیا تھا یہ اسکے سامنے کچھ بھی نہیں ہے حاشر ۔۔۔ میں نے اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔ اور بدلے میں اس نے مجھ سے کیا لیا ؟؟ صرف میرا دل ۔۔ ’’ وہ آج بھی اسکی سزا سے تھکا نہیں تھا وہ آج بھی ارسا ساجد کی سزا کو کم سمجھتا تھا ۔۔
’’ یہ دل کبھی ‘صرف’ نہیں ہوتا ۔۔۔ انسان کی سب سے قیمتی چیز ہی یہ دل ہوتا ہے ۔۔ کوئی اسے لے جائے تو سمجھو جسم سے روح چلی گئ ہے ۔۔ وہ آپسے آپکی روح لے کر کہیں بہت دور چلی گئ ہے باس ۔۔ اس نے آپ ایسا انتقام لیا ہے جو آپکو نا زندہ رہنے دیتا ہے نا مرنے دیتا ہے ’’ وہ اسے حقیقت بتا رہا تھا ۔۔ایسی حقیقت جو خود عفان بھی جانتا تھا ۔۔
’’ تو پھر دعا کرو حاشر کہ مجھے میرا دل ۔۔ میری روح واپس مل جائے ۔۔ کیونکہ بس وہی ہے جو مجھے زندہ کر سکتی ہے‘’ عفان خالد نے کرسی سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔ ایک چہرہ تھا جو اسکی نظروں کے سامنے آیا تھا۔۔
’’ اور اسکا دل ؟؟ اسکی روح ؟؟ کیا آپ زندہ ہو جائینگے جب اسکا دل ۔۔ اسکی روح کسی اور کے پاس ہوگی ؟ ’’ جانے اس سوال میں کیسی چبھن تھی کہ عفان خالد نے تڑپ کر آنکھیں کھولی تھیں۔۔ وہ چہرہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ چکا تھا ۔۔ حاشر نے دیکھا اسکی آنکھوں میں ایک خوف تھا ۔۔ ایک ڈر تھا کہ جیسے اس نے کوئی بہت بھیانک چیز دیکھ لی ہو ۔۔ کہ جیسے اس نے کچھ بہت بھیانک سن لیا ہو ۔۔۔ اس نے جواب نہیں دیا تھا ۔۔ وہ جواب دینے سے قاصر تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ارسا کو آزاد کر چکا ہے ۔۔ وہ جانتا تھا کہ اس دونوں کے درمیان کا ہر تعلق ختم ہوچکا ہے ۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ جاتے جاتے اسے محبت کے راستے پر چلا کر گئ ہے ۔۔۔ وہ آج تک اسی راستے کا مسافر تھا ۔۔ جانے کس امید سے ؟ جانے دل کیا سوچ کر اسے اس راستے پر چلا رہا تھا ۔۔ جب کہ وہ جانتا تھا کہ ارسا ساجد اب کبھی اسکی منزل نہیں بن سکتی تھی۔
ایک مہینے بعد :
وہ اس وقت دادو کے کمرے میں آیا تھا مگر انہیں نماز میں مشغول دیکھ کروہی بیٹھ گیا تھا ۔۔ دادو اب دعا کر رہی تھیں ۔۔
نماز سے فارغ ہوکر دادو اسکے پاس آئیں تھیں ۔۔
’’ جارہے ہو پھر ؟ ’’ وہ اس کے پاس بیٹھ کر پوچھ رہیں تھیں۔۔
’’ جی ۔۔ بس دو دن کا کام ہے میں پرسوں رات ہی شاید آجاؤں ’’ انکا ہاتھ پکڑ کر اس نے کہا تھا۔
’’ اپنا خیال رکھنا ۔۔ اور کام میں خود کو اتنا مگن نہ کر لینا کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہے ’’ وہ اس کےلئے فکر مند تھیں۔۔ جانتی تھیں کہ جب کام میں گم ہوتا تھا تو کھانے پینے کی پرواہ نہیں کرتا تھا وہ ۔۔
’’ آپ فکر نہ کریں ۔۔ اور ویسے بھی اس حاشر کو آپنے لگا تو رکھا ہے میرے پیچھے ۔۔ وہ نہیں ہونے دیگا گم مجھے ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ بہت اچھا بچہ ہے وہ ۔۔ اسکی وجہ سے ہی تو میں تمہاری طرف سے مطمئن رہتی ہوں ’’
’’ جی بہت اچھا ہے جو میری ایک ایک خبر آپکو دیتا ہے’’ اس نے دادو کو چھیڑا تھا ۔۔
’’ جب میرا اپنا پوتا مجھے کچھ نہیں بتائے گا تو کسی اور سے تو کروانا ہی ہوگا یہ کام ’’
’’ چلیں ٹھیک ہے ۔۔ آپ بھی اپنا خیال رکھنا اور میرے جانے کے بعد بیمار مت ہوجائیے گا ’’ اس نے دادو کا ہاتھ چھومتے ہوئے کہا تھا۔۔
‘’ جاؤ ۔۔ اللہ اپنے امان میں رکھے ’’ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے دعا دی تھی ۔۔ وہ دادو کےکمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔ اب اسکا رخ نیچے کی جانب تھا جہاں باہر حاشر گاڑی کے پاس کھڑا اسکا انتظار کررہا تھا ۔۔
’’ آجائیں باس ’’ گاڑی کا بیک ڈور کھول کر اس نے کہا تھا ۔
وہ گاڑی میں بیٹھا اور اس کے ساتھ ہی حاشر بھی آگے بیٹھ چکا تھا ۔۔ گاڑی اب اسلام آباد کے ائیر پورٹ کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔
وہ تقریباً تین گھنٹےبعد دبئ میں موجود تھا ۔ اس وقت وہ اپنی برانچ میں کے میٹنگ روم میں موجود تھا ۔۔ جہاں اسکا پورا سٹاف اور مینیجر کے ساتھ ساتھ حاشر بھی موجود تھا۔۔ اس نے کل رات ہونے والی اوپننگ کی ساری تیاری اور گیسٹ کی لسٹ اور جگہ کی ڈیٹیل ڈسکس کی تھی ۔۔۔ میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ باہر نکلا اور سیدھا اپنے آفس میں آیا تھا ۔۔ حاشر بھی اسکے ساتھ موجود تھا ۔۔
’’ آپ نے ڈیزائینز کیوں نہیں دیکھے باس ؟ ’’ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ عفان وہ نئے ڈیزائینز کیوں نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔
’’ ڈئیزائینز میں ڈیزائینر کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔ منیجر کہو اپنے ڈیزائینر سے کہے کے مجھ سے آکر ملے ’’ وہ ایک فائیل کھول کر مصروف انداز میں بولا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ میں ابھی کہتا ہوں ’’ وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ عفان نے پھر سے کہنا شروع کیا تھا ۔۔
’’ مجھے اس ایونٹ کی ساری ڈیٹیل اور بجٹ کا پورا حساب چاہئے ایک گھنٹے میں ’’
’’ اوک ’’ وہ اس کی بات سن کر باہر نکلا تھا ۔۔ اسے سامنے ہی منیجر ایک ورکر سے بات کرتے ہوئے نظر آیا تھا ۔۔
’’ ولید صاحب باس کو ایک گھنٹے میں اس اوپننگ کے پورے بجٹ کی ڈیٹیل چاہئے ’’ حاشر نے اسکے پاس پہنچ کر کہا تھا۔۔
’’ ضرور حاشر ۔۔ تم بتاؤ کیا حال ہیں ؟ ’’ وہ اس سے مسکرا کر پوچھ رہے تھے ۔۔
’’ حالات تو کچھ اچھے ہی ہیں ۔۔ ویسے ہمارے ڈیزائینر کہاں ہے ؟ ’’ وہ آس پاس نظر دوڑا کر ان سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ وہ یہاں نہیں ہیں ’’ منیجر کی بات پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا ۔۔
’’تو کہاں ہیں ؟؟ ’’
’’ معلوم نہیں شاید انہیں کوئی ایمرجنسی آگئ ہے تو انہیں کہیں جانا پڑا ۔۔ آج صبح ہی انکا مسیج ریسیو ہوا مجھے ’’
’’ باس ان سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔ انکے ڈیزائینز دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔آپ جانتے ہیں کہ اس اہم موقع پر ڈیزائینر کی غیر موجودگی پر انہیں بہت غصہ آئیگا’’ اسے واقعی عفان کے غصے سے ڈر لگا تھا۔۔ وہ کام کے معاملے میں لاپرواہی برداشت نہیں کرتا تھا ۔۔
’’ میں انہیں کال کر کے کہتا ہوں ‘’ منیجر اپنا فون نکال کر ایک سائیڈ پر گیا تھا جبکہ حاشر اب دوبارہ عفان کے آفس کی جانب آیا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ اور منیجر دونوں عفان کے سامنے موجود تھے ،۔۔
’’ تو اب تمہارے اس ڈیزائینر کے اتنے پر نکل آئے ہیں کہ وہ اپنے سی۔ای۔او کے آرڈر کو اگنور کر رہا ہے ’’ عفان اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا ۔۔ اسے آج تک کسی نے انتظار نہیں کروایا تھا ۔۔ سوائے ایک ہستی ہے۔۔
’’ باس انہیں ایک ایمرجنسی کام آگیاہے اس لئے وہ نہیں آسکتے ۔۔۔ آپ کہیں تو میں انکے ڈیزائینز آپکو لاکر دکھا دیتا ہوں ’’ وہ عفان کے غصے کو کم کرنا چاہتا تھا ۔۔
’’ ضرور ۔۔ میں بھی تو دیکھوں آخر ایسی کیا خاصیت ہے اسکے ڈئیزائینز میں کہ وہ مجھے انتظار کروا رہا ہے ’’ عفان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا ۔۔ اور منیجر وہی سے الٹے پاؤں واپس ہوا تھا ۔۔
’’ مجھے لگا اب تک آپکو دوسروں کا انتظار کرنے کی عادت ہوگئ ہوگی ’’ منیجر کے جانے کے بعد حاشر نے اس سے کہا تھا ۔۔ انداز سنجیدہ تھا مگر بات ذومعنی تھی ۔۔
’’ مجھے دوسروں کو انتظار کرنا نہیں آتا ۔۔ نہ ہی میں انتظار کرتا ہوں ۔۔۔ میں صرف اپنوں کا انتظار کرتا ہوں ’’ وہ اپنے اسے انداز میں اسے جواب دے رہا تھا ۔۔ اور اس جواب کے بعد دوبارہ حاشر کچھ کہہ نہیں سکا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد منیجر دوبارہ عفان کے سامنے موجود تھا ۔۔ وہ سر جھکائے کھڑا تھا جانے کیا کہنے کی ہمت جمع کررہا تھا ۔۔
’’ ڈئیزائینز کہاں ہیں؟ ’’ عفان نے اسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ باس ۔۔۔،’’ اس میں ہمت نہیں تھی باس کو جواب دینے کی ۔۔
’’ کیا مجھے اپنا سوال دوبارہ کرنا ہوگا ؟ ’’ اس نے اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں کہا تھا ۔۔ حاشر نے ایک نظر منیجر پر ڈالی تھی جو اب گھبرا گیا تھا ۔۔۔
’’ باس وہ ۔۔۔ وہ ڈیزائینز اسکے پاس ہیں ’’ اس نے ہلکی آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ کوئی بات نہیں ۔۔ آپ کاپی لے آئیں ’’ حاشر نے اسکی مشکل آسان کرنے کے لئے کہا تھا ۔۔
’’ وہ ۔۔ کاپی بھی وہ ساتھ لے گئے ہیں ’’ اس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا تھا ۔۔
’’ تو پھر آپ باس کو میل کر دیں گراف ’’ حاشر نے عفان کے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ وہ ۔۔ وہ سب کچھ ساتھ لے گئے ہیں ’’
’’ واٹ! ’’ عفان میز پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے وہ کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ آپ کہہ رہے ہیں کہ کل ہماری اوپننگ ہے اور ہمارا ڈئیزائینر اس کمپنی سے اپنے ڈیزائینز ،، اسکی کاپی یہاں تک کے لیپ ٹاپ سے گراف تک لے کر چلا گیا ہے ۔۔ آر یو آوٹ آف یور مائینڈ ؟ ’’ وہ ان پر چیخا تھا ۔۔ اسکی آواز آفس کے باہر موجود تمام سٹاف کے کانوں تک پہنچی تھی ۔۔ سب کی سانسیں رک گئ تھی ۔۔ عفان کو اتنے غصے میں پہلے کسی نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔
’’ باس آپ پریشان مت ہوں ۔۔ کل ’’ اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی گئ تھی ۔۔
’’ کل ہماری کمپنی تمہارے اس ڈیزائینر کی وجہ سے تباہ ہونے والی ہے ’’ اس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ منیجر دو قدم پیچھے ہوا تھا ۔۔ وہ اب اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ ایک بات یاد رکھنا ۔۔ اگر کل اس کمپنی کو ایک روپے کا بھی نقصان ہوا ۔۔’’ وہ شعلہ برساتی آنکھوں سے اسے غور کر کہہ رہا تھا ۔۔ حاشر خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کہہ بھی سکتا ۔۔
’’ تو میں تمہیں اس سے بڑا نقصان پہنچاؤنگا ’’ وہ کہہ کر آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔ پورا سٹاف اسے باہر آتا دیکھ کر اپنے کاموں میں مگن ہوگیا تھا ۔۔ ایک سناٹہ ہوگیا تھا۔۔منیجر نے نظر اٹھا کر بھی اسکی جانب نہیں دیکھا تھا جبکہ حاشر افسوس سے سر ہلا رہا تھا ۔۔
’’ کیا کردیا تم نے منیجر ؟ یہ کمپنی بہت محنت سے انہوں نے یہاں تک پہنچائی ہے ۔۔ اگر اسے کوئی نقصان ہوا تو وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں ’’ اس کی بات پر منیجر نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔
’’ تمہیں کیوں ۔۔ یہ آئیڈیا تو میرا تھا ’’ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس سے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آئیڈیا تمہارا تھا مگر تمہیں یہاں لانے والا بھی تو میں ہی ہوں ’’ اسے اب اپنی فکر لگ گئ تھی ۔۔
’’ تم پریشان مت ہو ۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔ میں جانتا ہوں کل کا ایونٹ بہت شاندار ہونے والا ہے ’’ اس نے مسکراتے ہوئے حاشر سے کہا تھا ۔۔ اب وہ قدرے بہتر لگ رہا تھا۔۔
’’ تمہیں اتنا یقین کیسے ہے ؟ ’’ وہ اس کے اعتماد پر حیران تھا ۔۔
’’ تمہیں معلوم ہوجائیگا ’’ وہ مسکراتا ہوا کہہ کر آفس سے باہر آیا تھا ۔۔ سارا سٹاف اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
’’ اگر مجھے دیکھ لیا ہے تو اب اپنا کام کر سکتے ہیں آپ لوگ ’’ سختی سے سارے سٹاف سے کہا تھا اور پھر سب اپنے کاموں میں مگن ہوگئے تھے ۔۔
وہ پوری رات ٹینشن میں تھا ۔۔ اس نے اپنی کمپنی کی امیج داؤ پر لگا دی تھی۔۔ آج شام اوپنگ تھی اور ابھی تک اسکا ڈیزائینر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا ۔۔ ابھی بھی وہ اس جگہ موجود شام کے ایونٹ کی تیاری دیکھ رہا تھا جب حاشر اسکے پاس آکر کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ ڈیزائینر سے کوئی رابطہ ہوا ؟ ’’ اسکی آنکھیں اسکی پریشانی کو ثبوت تھیں ۔۔
’’ نہیں ’’ اس نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اور ڈیزائینز ؟ ’’ ایک امید سے اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ وہ ہر جگہ سے غائب ہیں ۔۔ ناجانے اس نے کب ڈیزائینز کا پورا ریکارڈ غائب کردیا ’’ حاشر بھی اب پریشان دکھائی دے رہا تھا ۔۔
’’ یہ میری عمر بھر کی محنت تھی حاشر ’’ وہ اب ناامید دکھنے لگا تھا ۔۔
’’ سوچا بھی نہیں تھا کہ صرف چند منٹوں میں میری ساری محنت دھوا بن جائے گی ’’ حاشر کو لگا کہ ایک بار پھر قسمت اسے آزمانے والی تھی ۔۔
’’ ابھی چند گھنٹے باقی ہیں باس ۔۔ ہوسکتا ہے کہ ۔۔’’ وہ ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ عفان نے اسکی بات کاٹی تھی۔۔
’’ ہاں ۔۔ ابھی چند گھنٹے باقی ہیں ۔۔ میری سزا کے ایک اور موڑ کے شروع ہونے میں ،۔۔ ابھی چند گھنٹے باقی ہیں حاشر ۔۔ مجھے لگا تھا کہ محبت کی آزمائش ہی سزا ہے میری ۔۔ مگر نہیں ۔۔ مجھے اب ایک اور آزمائش کا سامنا کرنا ہوگا ’’ وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔۔
’’ اتنے ناامید مت ہوں باس ’’ اس نے کہا تھا مگر اسے سنے بنا جاچکا تھا ۔۔ ایک گہری سانس لےکر وہ اب آس پاس دیکھ رہا تھا ۔ جہاں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔
وہ اپنے آفس میں بیٹھا تھا ۔۔ دونوں ہاتھوں پر سر گرائے وہ انتہائی پریشان لگ رہا تھا ج ب دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا ۔۔ اس نے دیکھا منیجر اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔ وہ سر جھکائے ہوئے تھا ۔۔
’’ کیا اس سے رابطہ ہوا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ میں پوری کوشش کررہا ہوں باس ’’ اس نے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ تمہارا قصور نہیں ہے ۔۔ یہ سب میرا قصور ہے ۔۔ سب میرا قصور ہے ’’ وہ دوبارہ ہاتھوں پر سرگرائے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ باس آپ ٹھیک ہیں ؟ ’’ اسے عفان کی حالت کچھ خراب لگی تھی ۔۔
’’ جاؤ یہاں سے’’ اسکی آواز عجیب ہورہی تھی ۔۔
’’ باس آپ ۔۔ ’’ وہ کچھ کہتے آگے بڑھا تھا
’’ میں نے کہا جاؤ یہاں سے ’’ اس بار اسکی آواز اونچی تھی ۔۔ آواز میں موجود سختی اسے آگے بڑھنے سے روک چکی تھی ۔۔ وہ اب آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔۔
جانے کتنا وقت گزرا تھا جب اسکا موبائل بجا تھا ۔۔ اس نے دیکھا دادو کی کال تھی ،۔۔
’’ سلام دادو ’’ اس نے کال ریسیو کی تھی ۔۔
’’ وعلیکم اسلام ۔۔ کیسے ہو تم ؟ ’’ دادو نے اسکی آواز سے ہی اسکی پریشانی بھانپ لی تھی ۔۔
’’ ٹھیک نہیں ہوں دادو ۔۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ’’ اس وقت اسے لگا کہ ایک دادو ہی تھیں جن سے وہ اپنا حالِ دل کہہ سکتا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ہے ۔۔ وہاں سب ٹھیک ہے نہ ؟؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ ’’ وہ اسکے لئے پریشان ہوئی تھیں۔۔
’’ میں ٹھیک ہوں دادو ۔۔ مگر میری عمر بھر کی محنت۔۔ میرے پاپا کا خواب ۔۔ سب ختم ہونے والا ہے ۔۔ میں کیا کروں دادو ؟؟ ’’ وہ ٹوٹ رہا تھا ۔۔ اور ٹوٹنے کا درد وہ محسوس کرنے لگا تھا ۔۔
’’ ایسے مت کہو میرے بچے ۔۔ خدا پر یقین رکھو وہ تمہیں ٹوٹنے نہیں دیگا ’’
’’ وہ مجھے توڑ نہیں رہا دادو ۔۔ وہ مجھے آزما رہا ہے ۔۔ اور جانے وہ اور کتنے انداز سے مجھے آزمائے گا ’’
’’ وہ تمہیں آزما رہا ہے تو صلہ بھی دیگا ۔۔ اس وقت یقین رکھو ۔۔ اور دیکھو وہ تمہیں کیسا صلہ دیتا ہے ’’ دادو کی بات پر اسے کچھ یاد آیا تھا ۔۔ صلہ ۔۔۔ اس صلے کا ہی تو اسے انتظار تھا ۔۔
’’ میں آپ سے بعد میں بعد کرتا ہوں دادو ’’ اس نے کہہ کر کال کاٹی تھی ۔۔
’’ ارسا ساجد ۔۔ یہ سفر بہت مشکل ہوتا جارہا ہے ۔۔ کانٹے پاؤں زخمی کر چکے ہیں ۔۔ خون بہہ چکا ہے اور اب ۔۔ اب چلنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔۔۔ تم دعا کرو ۔۔ تم دعا کرو گی تو وہ درد کم کردے گا ۔۔ تم دعا کیوں نہیں کرتی ارسا ساجد ؟’’ وہ کہہ رہا تھا ۔۔ ایسے جیسے ارسا ساجد اسکے سامنے کھڑی ہو ۔۔ ایسے جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہو ۔۔ ایسے جیسے وہ اسے سن رہی ہو ۔۔۔
اور شام ہوگئ تھی ۔۔ اس نے دیکھا ساری تیاریاں مکمل تھیں ۔۔
یہ ایک بہت بڑا ہال تھا ۔۔ جہاں بے شمار کرسیاں ترتیب سے رکھی گئیں تھیں ۔۔ سب سے آگے صوفے جوکہ خاص مہمانوں کے لئے رکھے گئے تھے ۔۔ سامنے ہی ایک بہت بڑا سٹیج بنا تھا ۔۔ جہاں وائیٹ سکرین تھی جس نے پوری دیوار کو ڈھکا ہوا تھا ۔۔ سٹیج کے اوپر مختلف لائیٹس لگی تھیں ۔۔ اس نے دیکھا یہ لائیٹس چاروں جانب لگی تھیں ۔۔ یہ ہال بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔۔
’’ ہمیں یہ اوپننگ کینسل کروا دینی چاہئے تھی ’’ حاشر نے ایک نگاہ چاروں جانب ڈال کر کہا تھا ۔۔وہ اس وقت بلیک سوٹ میں ملبوس تھا مہمانوں کی آمد کو دیکھ رہا تھا جو آہستہ آہستہ آکر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ رہے تھے ۔۔
’’ مجھے اب بھی یقین ہے کہ ہمیں دھوکہ نہیں دیا گیا ’’ منیجر نے جس پرسکون انداز میں جواب دیا تھا حاشر نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے دھوکہ ڈیزائینر نہیں تم دے رہے ہو ’’ وہ اسے مشکوک لگ رہا تھا ۔۔
’’ ایسی باتیں مت کرو ۔۔ میں تمہارے ساتھ مخلص ہوں’’ وہ مسکرا کر کہہ رہے تھے ۔۔
’’ مگر تمہارا یہ اطمینان تو کچھ اور ہی بتا رہا ہے ۔۔ دیکھو منیجر ایک بات یاد رکھنا میرے لئے باس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے ۔۔ میں نے تم پر اعتبار ضرور کیا ہے لیکن اگر آج باس کو تمہاری وجہ سے کوئی بھی نقصان ہوا تو میں تمہیں چھوڑونگا نہیں’’ اس نے باقاعدہ انگلی اٹھا کر اسے دھمکایہ تھا ۔۔
’’ ضرور کرنا ۔۔ مگر ابھی سامنے دیکھو ۔۔ تمہارے پیارے باس آگئے ہیں ‘’اس نے سامنے دیکھا تھا ۔۔ جہاں عفان اسے اندر داخل ہوتے نظر آیا تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی پرکشش لگ رہا تھا ۔۔وہ اب چلتا ہوا اسی کی جانب آرہا تھا۔۔
’’ کیا بنا ؟ ’’ چہرے پر مکمل سنجیدگی تھی۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ اللہ کا ہی آسرا ہےاب’’ اس نے منیجر کی جانب دیکھ کر کہا تھا جو اب سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔
’’ اللہ کی ہی آزمائش ہے حاشر۔۔۔ میرے لئے دعا کرنا ‘‘ وہ کہہ کر آگے کی جانب بڑھا تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ ان صوفوں کے پاس گیا تھا ۔۔جہاں ان کے خاص مہمان بیٹھے تھے ۔۔ وہ سارے غیر ملکی تھے۔۔ عفان خالد اب ان سے ہاتھ ملا کر کچھ بات کر رہاتھا ۔۔ وہ یہاں سے بھی اسکی یہ مصنوعی مسکراہٹ دیکھ سکتا تھا ۔۔یہاں سے بھی اسکی آنکھوں میں بے چینی وہ صاف دیکھ سکتا تھا ۔۔ وقت گزر رہا تھا ۔۔ سب مہمان آچکے تھے ۔۔ عفان خالد بھی سب سے آگے اپنے مہمانوں کے ہمراہ بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ سب کو انتظار تھا ۔۔۔ نئ جیولری ڈیزاینز کا ۔۔۔
’’ منیجر ۔۔ ’’ حاشر انتہائی غصے میں اسکی جانب بڑھا تھا ۔۔
’’ میں نے تم پر اعتبار کیا تھا ۔۔۔ اور تم نے ۔۔ تم نے آج باس کو اس حال میں پہنچا دیا ’’ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر بول رہا تھا ۔۔۔ وہ دونوں بیک سٹیج پر تھے ۔۔ باہر ہال کی لائیٹس آف ہوچکی تھی ۔۔ اب سٹیج پر سب منیجر کے آنے کا انتظار کررہے تھے ۔۔۔ سٹیج پر موجود کپمنی کی امپلائی اب سب کو انٹروڈکشن دے رہی تھی ۔۔۔ اور سب میں موجود عفان خالد خوفزدہ نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا ۔۔ اے۔سی میں بھی اسے پسینے آرہے تھے ۔۔
’’ یہ تم کیا کر رہے ہو حاشر ۔۔ چھوڑو مجھے ’’ منیجر نے اپنا گریبان چھڑوانےکی کوشش کی تھی مگر حاشر کی گرفت زیادہ مضبوط تھی ۔۔
’’ تمہیں چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا منیجر ۔۔ باہر بیٹھا میرا باس اپنی تباہی کا انتظار کر رہا ہے ۔۔ اور تم کہتے ہو میں تمہیں چھوڑ دوں ’’ اس نے ایک جھٹکئ سے اسکا گریبان چھوڑا تھا ۔۔ منیجر لڑکھڑایا تھا ۔۔
’’ میں نے کہا حاشر مجھے یقین ہے ہمارےساتھ دھوکہ نہیں ہوا ’’ وہ اب اپنی پرانی بات دہرا رہا تھا ۔۔
’’ دھوکہ نہیں ہوا ؟؟؟ ’’ حاشر دھاڑا تھا ۔۔
’’ باہر بیٹھے لوگ ہمارے ڈیزائینز کے شو ہونےکاویٹ کر رہے ہیں ۔۔ اور ہماری ساری جیولری ۔۔ سارے ڈیزائنز تمہارا وہ ڈیزائینر لے کر بھاگ گیا ۔۔ اور تم کہتے ہو کہ دھوکہ نہیں ہوا ’’ اسے منیجر پر شدید غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ کس نے کہا کہ میرا ڈیزائینر بھاگ گیا ہے ؟ ’’ منیجر اب اسکے سامنے کھڑا مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔ اس کے اس انداز پر حاشر چونکا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ ہمارا ذیزائینر تمہارے پیچھے کھڑا ہے حاشر ’’ وہ مسکراتا کہہ رہا تھا ۔۔ اور حاشر نے پلٹ کر دیکھا ۔۔ سامنے کوئی کھڑا تھا ۔۔۔ جانے سامنے کھڑے شخص میں ایسی کیا بات تھی کہ حاشر سکتے میں آگیا تھا ۔۔
’’ بہت تنگ کیا تم نے ۔۔ چلو میں چلتا ہوں تم اپنی تیاری مکمل رکھو ’’ منیجر مسکراتا ہوا اس ڈیزائینر سے کہہ رہا تھا ۔۔
اب منیجر سٹیج کی جانب جارہا تھا ۔۔ اور حاشر اسی سکتے کی حالت میں کھڑا تھا۔۔ اس میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں رہی تھی ۔۔
’’ میں نے کہا تھا نا۔۔ ہمارےساتھ دھوکہ نہیں ہوا ’’ منیجر اسکے کان کے قریب کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا ۔۔ جبکہ حاشر وہی پتھر بنا کھڑ اتھا ۔۔
’’ تم ؟ ’’ اسکی آواز نہایت ہلکی ہونے کے باوجود سامنے کھڑا ڈیزئینر کے کانوں تک پہنچ چکی تھی ۔۔ اور اس نے کچھ کہا نہیں تھا ۔۔ بس اپنے کاندھے اچکائے تھے ۔۔۔
اس نے دیکھا اب منیجر سٹیج پر آیا تھا ۔۔ مائیک کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے عفان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو اب آنکھیں بند کر چکا تھا وہ اپنی بربادی دیکھنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔۔ منیجر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ اور اس نے اب انگریزی میں کہنا شروع کیا تھا ۔۔ جو وہاں موجود ہر انسان سن رہا تھا ۔۔
’’ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں آج اس نیو یئر کی نائیٹ ہم اپنی کمپنی کے نیو ڈیزائینز شو کرنے جارہے ہیں۔۔ اتنے بڑے پیمانے پر آج اپنے ڈیزائینز کی اوپننگ کرنے کا مقصد آپ سب کے سامنے ایک ایسے ٹیلیٹ کو ظاہر کرنا ہے جس کے ڈیزائینز آپ سب کو حیران کر دیں گے ۔۔ ہم سے بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم نے اپنے ڈیزائینر کا نام اتنا سیکریٹ کیوں رکھا ہے ؟ ’’ اس نے اب رک کر سامنے بیٹھے عفان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جس نے اب آنکھ کھولی تھی ۔۔
’’ ڈیزائینر کا نام تو اسے بھی نہیں معلوم تھا ۔۔ اور اس نے یہ محسوس ہی نہیں کیا کہ منیجر نے اب تک اسے ڈیزائینر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔ بلکہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا ’’ عفان نے پر سوچ نگاہوں سے سامنے کھڑی منیجر کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔
’’ آخر وہ کیا کرنے جارہا تھا ؟ ’’ عفان کچھ بھی جاننے سے قاصر تھا ۔۔
’’ تو یہ ہم نے ہمارے ڈیزائینر کی خواہش پر کیا ۔۔ وہ چاہتے تھے کہ آج یہ وقت آنے سے پہلے کوئی بھی انکا نام جانتا نہ ہو۔۔ اور انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔۔ یہ ہم انہیں کی زبانی سنیں گے۔۔۔ اور اب میں اپنے ڈیزائینر سے کہوں گا کہ وہ آپ سب کے سامنے آئیں ۔۔ اپنا نام ۔۔ اور اپنے ڈیزائینز آپ سب کے سامنے شو کریں ’’ اس نےاپنی بات ختم کی تھی۔۔ پورے ہال میں موجود لوگ ایک دوسرے کے کانوں میں کچھ کہہ رہے تھے ۔۔ شاید انہیں یہ سب عجیب لگا تھا ۔۔
عفان خالد نے منیجر کی جانب دیکھا وہ پر سکون سا ایک جانب کھڑ ڈیزائینر کی آمد کا منتظر تھا۔۔ عفان خالد سمیت سب اسکے منتظر تھے ۔۔
اور پھر ہال کی تمام لائیٹس آف ہوئی تھیں ۔۔ سٹیج پر ایک گول دائرے کی صورت میں روشنی بنی تھی۔۔۔ اور پھر سٹیج کے بائیں جانب سے کوئی آیا تھا ۔۔ عفان خالد نے دیکھا وہ ایک نسوانی وجود تھا ۔۔ روشنی کا گول دائرہ اب اسکی جانب آیا تھا ۔۔ اور پھر سب نے دیکھا ۔۔ وہ ڈیزائینر چلتا ہوا سٹیج کے بیچ آکر رکا تھا ۔۔
عفان خالد ایک خواب کی سی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ بلیک کلر کے سکرٹ میں ،، کاندھوں تک آتے بال کھولے،، کانوں میں قیمتی نگینوں کے ہلکے ٹاپس پہنے ۔۔ دائیں کلائی میں ایک نازک سا بریسلیٹ ۔۔ہائی ہیلز ۔۔ چہرے پر نفاست سے کیا گیا میک اپ ۔۔ گلابی ہونٹ ۔۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ وہ اسے دنیا کی حسین ترین لڑکی لگی تھی ۔۔ اسکی سانس تھم چکی تھیں ۔۔ وہ بس یک ٹک اسے دیکھے جاریا تھا ۔۔۔ اسے لگا جیسے آسمان سے کوئی حور اسکے سامنے آکھڑی ہو ۔۔ اسے لگا جیسے اسکا دل اندر سے نکلنے کو بے تاب ہو ۔۔ اسے لگا کہ جیسے اسکے لئے سانس لینا دشوار ہو ۔۔ اسے لگا کہ اس حسن سے اسکی آنکھیں بھی چمک رہیں ہوں ۔۔ اسے لگا جیسے زندگی کی تمام تر خوبصورتی سامنے کھڑی ہو ۔۔
اس نے دیکھا وہ مائیک منیجر کے ہاتھ سے لے رہی تھی ۔۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
اسے لگا کہ ایسی مسکراہٹ اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ اسے لگاکہ اس مسکراہٹ پر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو ۔۔ اسے لگا کہ اس مسکراہٹ نے اسے مار دیا ہو ۔۔۔
’’ اسلام و علیکم ایوری ون ’’ اسکی آواز سے ہال گونجا تھا ۔۔
اسے لگا کہ اس سے زیادہ میٹھی آواز اس نے آج تک نہ سنی ہو ۔۔
’’ آئی ایم ارسا ساجد ۔۔۔۔ نیو ڈیزائینر آف اے۔کے جویلز ’’ اس نے کہتے ساتھ اسکی جانب دیکھا تھا۔۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں تھیں ۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔۔
اور اسے لگا کہ وقت رک گیا ہو ۔۔۔ اسے لگا منزل اچانک ہی ۔۔ کسی موڑ پر سامنے آگئ ہو ۔۔۔