محد کے ٹھیک ہوجانے کے بعد ارسا نے پورا دھیان اپنے امتحانات پر دیا تھا ۔۔ اس دوران اس نے ایک دو مرتبہ دادو کی جانب بھی چکر لگایا تھا مگر عفان سے اسکا سامنا نہیں ہوا تھا ۔۔ وہ جاتی ہی اس ٹائم تھی جب وہ آفس میں ہوتا تھا ۔۔۔مگر اس دوران ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ عفان اسے ہر پیپر سے پہلے میسیج کر کے بیسٹ آف لک کہتا تھا اور ارسا کے لئے اسکا یہ مسیج ہی بہت اہمیت رکھتا تھا ۔۔ آج اسکا لاسٹ پیپر تھا فائینلی وہ گریجویشن کے امتحان سے فارغ ہوگئ تھی ۔۔ وہ اس وقت پیپر دے کر یونیورسٹی سے باہر نکلی تھی جب اس نے سامنے کھڑے عفان کو دیکھا تھا ۔۔ ارسا ساجد اسکی جانب بڑھی تھی مگر اسکی آنکھوں میں حیرانی تھی ۔۔ عفان خالد سن گلاسس لگائے اپنی کار سے ٹیک لگائے اسے اپنی جانب آتا دیکھ رہا تھا ۔۔ اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔۔
’’ آپ یہاں کیسے ؟ ’’ ارسا نے اسکے قریب آکر پوچھا تھا ۔۔
’’ تمہیں لینے آیا ہوں ’’ اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے عفان نے کہا تھا ۔۔
وہ اسی حیرانی میں گاڑی میں بیٹھ گئ تھی ۔۔ عفان بھی اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا تھا ۔۔
’’ تمہارے پیپرز کیسے ہوئے ؟ ’’ اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئےارسا سے پوچھا تھا ۔۔
’’ بہت اچھے ہوئے ہیں ’’ ارسا نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔
’’ ریزیلٹ بھی اچھا آئیگا انشااللہ ’’ عفان نے اس کے لئے دعا کی تھی ۔۔
’’ آمین ۔۔۔ دادو کیسی ہیں ؟ ’’ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ دادو تو بلکل ٹھیک ہیں ۔۔ اب تمہیں دیکھ کر مزید ٹھیک ہوجائینگی ’’ عفان کے اس انداز نے ارسا کو ایک بار پھر چونکادیاتھا ۔۔
’’ آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ؟ ’’ ارسا نے حیران سے انداز میں اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ تمہیں دیکھ کر اور اچھی ہوگئ ہے ’’ عفان نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ وہ جانتاتھا کہ ارسا ساجد کو اسکا انداز حیران کر رہا ہے اور سچ تو یہ تھا کہ وہ خود بھی اپنے انداز پر حیران تھا ۔۔ ارسا کو دیکھ کر اب دل خوش ہوجاتا تھا ۔۔
’’ ہم کہاں جارہے ہیں ؟ ’’ ارسا نے گھر کی طرف گاڑی نہ جاتے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ لنچ کرنے ’’ اس کی بات پر ارسا نے کھڑکی کی جانب دیکھ کر اپنا سر جھٹکا تھا ۔۔۔
’’ لگتا ہے انکے سر پر چوٹ لگی ہے ’’ اس نے سوچتے ہوئے باہر دیکھا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد عفان نے گاڑی ایک شاندار ریسٹورانٹ کے سامنے روکی تھی ۔۔ ارسا خاموشی سے باہر نکلی اور پھر عفان کے ہمراہ وہ اس ریسٹورانٹ کے اندر آئی تھی ۔۔ وہ ایک کارنر پر رکھی ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے ۔۔
’’ تو پھر تم آفس کب آرہی ہو؟ ’’ اس نے آرڈر دینے کے بعد اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آج تو پیپر ختم ہوئے ہیں ۔۔ پرسوں سے آؤنگی ’’
’’ مگر میں چاہتا ہوں کہ تم کل سے آؤ ’’ وہ اس سے پوچھ نہیں رہا تھا ۔۔ وہ اسے بتا رہا تھا ۔۔ ارسا کو عفان میں واقعی کچھ گڑبڑ لگی تھی ۔۔
’’ لیکن میں پرسوں آنا چاہتی ہوں ’’ اس نے اپنی بات کہی تھی ۔۔
’’ چلوں جیسی تمہاری مرضی مگر پھر تمہیں آج رات دادو کے ساتھ رہنا ہوگا ’’ وہ دوبارہ اپنے پرانے انداز میں بولا تھا۔۔
’’ دادو کے ساتھ ؟؟ کیوں ؟؟ ’’
’’ وہ تمہیں یاد کر رہیں ہیں ۔۔ اور میرے خیال سے انکے پاس رکنے میں کوئی حرج نہیں ہے تم پہلے بھی رک چکی ہو ’’وہ اسے یاد دلا رہا تھا ۔۔
’’ جی مگر میں ابھی ریسٹ کرنا چاہتی ہوں ۔۔ دادو سے ملنے میں صبح آجاؤنگی ’’ اسے دادو کے ساتھ رہنے پر مسئلہ نہیں تھا ۔۔ مگر عفان کی موجودگی میں اس گھر میں رہنا ۔۔ اسے یہ بہت خطرناک لگ رہا تھا ۔۔ ویسے بھی وہ اب تک پچھلا واقعہ بھولی نہیں تھی ۔۔
’’ ٹھیک ہے پھر میں دادو سے کہہ دونگا ۔۔ مجھے یقین تھا کہ تم دادو کے لئے آؤگی اس لئے میں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا۔۔ مگر اب انہیں مایوسی ہوگی ’’ عفان نے مایوسی چہرے پر سجا کر کہا تھا ۔۔
’’ آپ نے دادو سے وعدہ کیوں کیا ؟ ’’ ارسا کو اسکے یقین پر حیرانی تھی ۔۔
’’ کیونکہ دادو نے بتایا تھا کہ تم انہیں اپنی دادو بھی مانتی ہو۔۔ اس لئے مجھے لگا تم اپنی دادو کو اداس نہیں کروگی ’’
’’ اچھا ٹھیک ہے میں آج آجاؤنگی مگر پلیز آئیندہ مجھ سے پوچھے بنادادو سے کچھ مت کہئیے گا ’’ اس کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔
’’ تھینک یو ۔۔ دادو خوش ہوجائینگی ’’ اپنی مسکراہٹ دباتے عفان نے اس سے کہا تھا ۔۔
لنچ کے بعد وہ اسے گھر چھوڑ کر اپنے آفس جاچکا تھا ۔۔ ارسا اب دادو کے پاس آئی تھی،۔۔
’’ کیسے ہوئے تمہارے امتحان ؟ ’’ دادو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ اچھے ہوئے ہیں دادو بس آپکی دعاؤں کی ضرورت ہے ‘’ دادو کے کاندھے پر سر رکھ کر اس نے کہا تھا ۔۔
’’ اللہ تمہیں کامیاب کرے ’’ دادو نے اسکا ماتھا چوما تھا ۔۔
’’ آج میں آپکے پاس رہونگی ’’
’’ ہاں عفان نے کہا تھا مجھ سے کہ وہ تمہیں آج یہی روکے گا ’’ دادو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ جی ۔۔۔ آج انکا موڈ کچھ اچھا لگ رہا تھا ۔۔ کوئی بات ہوئی ہے کیا ؟ ‘’ ارسا کو جو بات حیران کر رہی تھی اس نے دادو سے پوچھ لی تھی ۔۔
’’ یہ تو میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی ’’ دادو کی بات پر اس نے سر اٹھا کر دادو کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ مجھ سے ؟ کیوں ؟ ’’ اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ دادو کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔۔
’’ تم نے ہی کوئی جادو کیا ہے کہ اسکا موڈ بھی اچھا ہوگیا ہے اور وہ تمہارے بارے میں بات بھی کرتا ہے ’’ دادو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میرے بارے میں کیا بات کرتے ہیں ؟ ’’
’’ یہی کہ تمہاری بات ہوتی ہے مجھ سے یا نہیں ۔۔ اور آج تو صبح سے ہی وہ تیار بیٹھا تھا تمہیں لے کر آنے کے لئے ۔۔ مجھ سے بھی کہہ کر گیا تھا کہ تمہیں یہاں رکنے پر مجبور کردے گا ’’ دادو کی بات پر ارسا اچھل پڑی تھی ۔۔
’’ مطلب کہ آپ نے ان سے وعدہ نہیں لیا تھا ؟ ’’ وہ حیرت سے دادو سے پوچھ رہی تھی ۔۔ اسکی بات پر دادو ساری بات سمجھتی ہوئی ہنسی تھیں ۔۔
’’ ارے میں کیوں وعدہ لونگی ۔۔۔ مجھے معلوم تھاکہ آج آخر پیپر دیا ہے تم نے تھک گئ ہوگی ۔۔ مگر عفان نے کہا کہ تمہیں زیادہ آرام یہی ملےگا ’’
’’ مگر انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ ’’ ارسا اس بات کا مقصد سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔
’’کیونکہ وہ تمہیں مس کررہا تھا ’’ دادو کی بات پر وہ بلکل خاموش ہوئی تھی ۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ اسکے دل کو اتنی خوشی کس بات کی تھی ۔۔۔مگر وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اسے یہ اچھا لگا تھا ۔۔ عفان کا بدلہ انداز ارسا ساجد کو بھارہا تھا۔۔
’’ جاؤ اب تم آرام کرو جاکر ۔۔ شام کو ملاقات ہوتی ہے ’’ دادو نے اسکی تھکن کے باعث اس سے کہا تھا ۔۔ وہ سر ہلا کر دادو کےکمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آئی تھی ۔۔ اسکی سوچ صرف اور صرف عفان خالد کی جانب تھی ۔۔ محد کو اپنے یہاں رکنے کا مسیج کر کے وہ بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔ اورپھر کچھ دیر بعد وہ سوبھی گئ تھی ۔۔۔
شام وہ گھر آگر سیدھا دادو کی کمرے میں گیا تھا مگر جسے وہ وہاں دیکھنا چاہتا تھا وہ وہاں موجود نہیں تھی ۔۔
’’ سلام دادو ’’ دادو کے آگے جھکتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ واعلیکم سلام ۔۔ آج جلدی آگئے ؟ ’’ دادو نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ جی بس کام جلدی ختم ہوگیا تو آگیا ’’ اس نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کام جلدی ختم ہوگیا یا پھر کسی کی موجودگی نے جلدی آنے پر مجبور کردیا ’’ اسکی تلاش میں گومتی ہوئی نظروں کو دادو نوٹ کر چکی تھیں۔
’’ نہ ۔۔ نہیں تو ۔۔مجھے کوئی مجبور نہیں کرسکتا ’’ اس نے ہاتھ سر پر پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ دادو سے چھپانا چاہتے ہو ۔۔ مگر تمہاری آنکھیں تو کچھ اور کہہ رہی ہیں ’’ دادو کی بات پر اس نے مسکرا کر سر اٹھایا تھا۔۔
’’ اب آپکو معلوم ہی ہے تو بتا بھی دیں۔۔ کہا ہے وہ ؟ ’’ اس نے اقرار کیا تھا ۔۔
’’ اپنےکمرے میں سورہی ہے ۔۔ بہت تھک گئ تھی اور تم اسے یہاں لے آئے میرے نام سے’’
’’ آپکا نام استعمال کرنا پڑا ۔۔ مجبوری تھی ‘’ صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے اس نے فخریہ انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ تو پھر تم اسے سچائی کب بتا رہے ہو ؟ ’’ دادو نے اسکی جانب غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ آپ چاہتی ہیں کہ میں اسے بتاؤ ؟ ’’ وہ اب سنجیدہ ہوا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ تمہیں اسے بتادینا چاہئے ۔۔ اب جب تم اس سے محبت کرنے لگے ہو تو تمہیں مزید دیر نہیں کرنی چاہئے’’ دادو کی بات پر اس نے چونک کر دادو کو دیکھا تھا۔۔
’’ آپکو کیسے پتا ؟ ’’ وہ حیران تھا ،، وہ اسکے دل کی بات کیسے جانتی تھیں ؟
’’ تمہاری دادو سے کچھ نہیں چھپ سکتا ’’ دادو نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ’’ عفان نے سر جھکا کر کہا تھا ۔۔ جانے جب جب اسے ارسا کی نفرت کا خیال آتا تھا ۔۔ اسکا سر کیوں جھک جاتا تھا؟
’’ نہیں۔۔ وہ تم سے نہیں ۔۔ اس شخص نے نفرت کرتی ہے ’’ دادو کی بات پر اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔۔
’’ اور وہ شخص میں ہوں دادو ’’ اس نے جیسے دادو کو آگاہ کیا تھا ۔۔
’’ ہاں وہ شخص تم ہو مگر مجھے یقین ہے اگر تم خود جاکر اسے سچ بتاؤگے تو وہ تمہیں معاف کردے گی ’’ دادو کو یقین تھا۔
’’ آپکو ایسا کیوں لگتا ہے ؟ وہ سمجھتی ہے کہ میں اسکے باپ کی موت کا ذمہ دار ہوں ۔۔ وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی’’ اسے دادو کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا ساجد کواگر اسکی سچائی معلوم ہوئی تو وہ اس کے ساتھ نہیں رہے گی ۔۔
’’ میں اس کی آنکھوں میں تمہارے لئے محبت دیکھی ہے عفان ۔۔ وہ تمہاری پریشانی کا سن کر پریشان ہوتی ہے ۔۔ تمہارے لئے وہ سوچتی ہے ۔۔اور اس نے تمہاری تکلیف محسوس کی ہے وہ آگے بھی محسوس کرے گی۔۔ اگر تم اسے خود جاکر سچ بتا دوگے تو وہ تمہاری سچائی سے پگھل جائے گی ۔۔ تم اسے منالوگے ۔۔ اپنی محبت کا یقین دلا کر ’’ دادو نے اسے ایک ایسا راستہ بتایا تھا جو مشکل تھا ۔۔
’’ میں اسے یقین دلانے کے بعد خود سب سچ بتاؤنگا ۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ’’ عفان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ تم اسے اٹھانے جارہے ہو؟ ’’ دادو نے کھڑے ہوتے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ آپ ہی تو کہتی ہیں کہ مغرب کے ٹائم سونا نہیں چاہئے ’’ عفان مسکرا کر کہتا کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔اور دادو اسے جاتا دیکھ کر مسکرائیں تھی۔۔
وہ سیدھا ارسا کے کمرے کی جانب آیا تھا مگر کمرہ لاک تھا ۔۔ اس نے کمرے کو ناک کرنا شروع کیا تھا ۔۔
کوئی تھا جو مسلسل اسکے کمرے کا دروازہ ناک کر رہاتھا ۔۔ وہ نیند سے جاگی تھی ۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔ سائیڈ پر رکھا دوپٹہ اوڑھ کر وہ دروازے کی جانب آئی اور دروازہ کھولا ۔۔ سامنے عفان خالد کھڑا تھا جو اسے اس حلیے میں دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔
’’ آپ ؟؟ ’’ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی ۔ْ۔
’’ کیا میں اپنے ہی گھر میں نہیں ہوسکتا ؟ ’’ عفان نے کمرے کے اندر قدم بڑھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ وہ اس کے اس طرح کمرے میں آجانے سے حیران ہوئی تھی ۔۔
’’ جلدی سے تیار ہوجائیں ہم نے جاناہے ’’ وہ چاروں طرف سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئےکہہ رہا تھا ۔۔ اسے آج ارسا کی موجودگی میں یہ کمرہ الگ ہی لگ رہا تھا ۔۔
’’ کہاں ؟ ’’ اس نے عفان کی دکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ باہر ۔۔ ایک خاص جگہ ’‘’ اس نے پلٹ کر اسے کہا تھا ۔۔
’’ میں ڈنر دادو کے ساتھ کرونگی ’’ ارسا کو لگا شاید وہ اسے ڈنر پر لے جانا چاہتا تھا ۔۔
’’ جی بلکل ہم ڈنر دادو کے ساتھ ہی کرینگے ۔۔ اب آپ جلدی سے تیا ر ہوکر نیچے آجائیں ’’ وہ کہہ کر کمرے سے چلا گیا تھا ۔۔ اور ارسا اپنی الماری سے اپنا ڈریس نکال کر واشروم کی جانب گئ تھی ،۔۔
تقریباً بیس منٹ بعد وہ تیار ہوکر نیچے آئی تھی ۔۔ اس نے پنک کلر کی ٹاپ ، بلیک کلر کا پجامہ اور بال کھلے رکھے تھے۔۔ وہ سیدھا دادو کے کمرے میں آئی تھی جہاں عفان پہلے سے موجود اسکا انتظار کر رہا تھا ۔۔
’’ چلیں پھر ہم چلتے ہیں ’’ اسے آتا دیکھ کر وہ فوراً کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ جاؤ اور جلدی آجانا ’’ دادو نے دونوں کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ چلیں ’’ عفان نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا جو اسکی بات پر سر ہلا کر آگے چلنے لگی تھی ۔۔ وہ دونوں ساتھ ہی وہاں سے نکلے تھے ۔۔ ارسا نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ کہاں جارہے ہیں مگر عفان نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔ کچھ دیر بعد عفان نے گاڑی روکی تھی ۔۔ اس نے دیکھا وہ ایک قبرستان تھا ۔۔۔ وہی قبرستان جس کے کسی ایک کونےمیں اسکےپاپا بھی موجود تھے ۔۔ اس نے حیرت سے عفان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو گاڑی کا دروازہ کھول کر اب اسکے باہر آنےکاانتظار کررہاتھا ۔۔۔ وہ حیرت زدہ انسان میں باہر آئی تھی ۔۔
’’ آپ مجھے یہاں کیوں لائیں ہیں ؟ ’’ اس نے عفان سےپوچھا تھا جو اب خاموشی سے قبرستان کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔
’’ پلیز چلیں یہاں سے ۔۔’’ ارسا گھبرا رہی تھی ۔۔ اسے قبرستان سے ڈر نہیں لگ رہا تھا اسے اپنے پاپا کے سامنے جانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔۔ اسے عفان خالد سے ڈر لگ رہا تھا ۔۔عفان رکا نہیں تھا وہ اسے ان سناکرکے آگے بڑھ رہا تھا مجبوراً ارسا کو بھی اسکے پیچھے آنا پڑا تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ کچھ قبروں سےگزر کر ایک قبر کے پاس آیا تھا ۔۔ ارسا ساجد نے دیکھا اس قبر پر ’’ خالد بنت حمید ’’ لکھا تھا ۔۔ اور ارسا سمجھ گئ تھی کہ یہ اسکے پاپا کی قبر تھی ۔۔ اس کے قدم رک گئے تھے ۔۔ ارسا اس قبر کے پاس کھڑی تھی جبکہ عفان اب اس قبر کے پاس بیٹھا تھا ۔۔ اس نے قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔
کتنا ملتا لجتا منظر تھا ۔۔ کچھ عرصے پہلے اسی قبرستان میں اپنے پاپا کی قبر کے آگے ارسا ساجد بیٹھی قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔ اور محد اسکے پاس کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اور آج اسی قبرستان میں اپنے پاپا کی قبر پر عفان خالد اس قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر رہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد اسکے پاس کھڑی تھی ۔۔۔ ارسا ساجد کو عفان میں اپنا عکس نظر آیا تھا ۔۔
’’ تم نے کہا تھا کہ تم پرسکون ہو ارسا ۔۔۔ ’’ عفان نے تھوڑی دیر بعد کہا تھا ۔۔ اسکی نظریں اسکے پاپا کی قبر پر تھیں۔۔
’’ تمہارے پاپا کو بھی تو کسی نے قتل کیا تھا ۔۔ تم اس سے نفرت بھی کرتی ہو۔۔ پھر تم پرسکون کیسے ہو ارسا؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔ اور اس بار عفان نے اسکی جانب دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔ ارسا نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی ۔۔ ایک درد تھا جو آج عفان خالد کی آنکھوں میں تھا ۔۔ ایسا ہی ایک درد ارسا کے اندر بھی تھا جسے وہ چھپاتی پھرتی تھی۔۔
’’ ہاں ۔۔مجھے اس شخص سے نفرت ہے جس کی وجہ سے میرے پاپا یہاں آگئے ’’ اس نے ایک جانب دیکھ کر کہا تھا۔۔ عفان جانتا تھا کہ اس جانب کیا تھا ؟ یہ ایک اتفاق ہی تو تھا کہ دونوں قبریں ایک دوسرے کے بلکل مقابل تھیں ۔۔
’’ مگر میں پرسکون ہوں ۔۔کیونکہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔۔ نا اپنے ساتھ اور نا ہی اسکے ساتھ کر پائی’’ اس نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا ۔۔
’’ اور اگر وہ کبھی تمہارے سامنے آگیا ۔۔ تو کیا تم اپنا انتقام لوگی ؟ ’’ ایک ڈر تھا جو عفان خالد کے اس سوال میں تھا ۔۔ ارسا نے مسکرا کر عفان کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ نہیں۔۔۔ میں اس سے انتقام کبھی نہیں لونگی ’’ ارسا کے جواب پر عفان حیران رہ گیا تھا ۔۔
’’ کیوں؟؟ وہ تمہارے پاپا کی موت کا ذمہ دار ہے ۔۔ تم اس سے انتقام نہیں لوگی ؟ ’’ اس نے اپنا سوال دہرایا تھا
’’ نہیں۔۔ کیونکہ انتقام میں سکون نہیں ملتا سر ۔۔ میں اسکے ساتھ وہ کرونگی جس میں مجھےسکون ملے گا ’’ ارسا نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ کیا کروگی اسکےساتھ ؟ ’’ وہ ناجانے کیا جاننا چاہتا تھا ۔۔
’’ اللہ سے کہہ کر اسے سزا دلواؤنگی ۔۔اور سزا اللہ چنےگا اور مجھے یقین ہے وہ اسے ویسی ہی سزا دیگا جیسی مجھے مطمئن کرسکے۔۔۔ اور آپکو بھی یہی کرناچاہئے تھا ’’ اس نے عفان سے کہا تھا ۔۔ اور وہ اپنی جگہ حیران رہ گیا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ اپنے پاپا کی موت کا سن کر وہ کتنے دن تک بےہوش رہی تھی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا سب سے زیادہ محبت اپنے پاپا سے کرتی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ نفرت بھی اس سے کئ بہتر انداز سے کرتی تھی ۔۔
’’ کاش میں بھی یہی کرتا ارسا ۔۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا ۔۔ میں نے اس شخص سے انتقام لیا ۔۔ ایسا کہ جس کا نقصان اسکے اسکی پوری فیملی کو بھکتنا پڑا ’’ وہ کہہ رہا تھا
’’ تو آپکے انتقام نے آپکو کیا دیا سر ؟ ’’ ارسا نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ محبت ’’ اس نے بے اختیار کہا تھا ۔۔
’’ محبت ؟ ’’ عفان کا جواب اسکے لئے عجیب تھا ۔۔ انتقام محبت کیسے دلوا سکتی ہے ؟
’’ ہاں ۔۔ مجھے اس انتقام نے محبت دے دی ارسا۔۔اور جانتی ہو وہ محبت کس روپ میں میرے سامنے آئی ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔ اور جانے کیوں مگر ارسا ساجد کے دل میں ایک ڈر آیا تھا ۔۔
’’ کس روپ میں؟ ’’ وہ پوچھ رہی تھی۔۔
’’ تمہارے روپ میں’’ عفان نے اسکےسامنے کھڑے ہوکر کہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد اسکی بات پر پتھر ہوگئ تھی ۔۔۔
’’ یہ وہ جگہ ہے ارسا جہاں کئ سال پہلے اپنی نفرت کا اقرار کرنے آیا تھا ’’ اس نے قبر کی جانب دیکھ کر کہاتھا ۔ ارسا اسے سن رہی تھی ۔۔ مگر وہ جو سن رہی تھی وہ اسے حیران کر رہاتھا۔۔
’’ اور آج سی جگہ میں اپنی محبت کا اقرار کرتا ہوں ’’ اس نے ارسا کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ وہ پتھر بنی اسے سن رہی تھی۔۔ اسے اپنے پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ عفان خالد اس سے اقرار کر رہا تھا ۔۔ اپنی محبت کا ۔ ارسا کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑی تھی ۔۔ مگر ایسی لہر کبھی محد کے اقرار پر تو محسوس نہیں ہوئی تھی ۔۔۔
’’ تم صحیح کہہ رہی تھی ۔۔میں بےسکون ہوں ۔ مجھے انتقام نے بے سکون کردیا ہے اور مجھے سکون صرف محبت دے سکتی ہے ارسا ۔۔ نفرت سکون نہیں دیتی میں یہ جان چکا ہوں ۔۔ اب محبت چاہئے ’’ اس نے ہاتھ بڑھا کر ارسا کا ہاتھ تھاما تھا۔۔ وہ آج ارسا کو حیران کر رہا تھا ۔۔
’’کیا تم مجھے محبت دوگی ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔ یہ کیسا سوال تھا کہ جس کے جواب نے ارسا کو خود بھی حیران کیا تھا ۔۔ وہ اسے جواب دینا چاہتی تھی ۔۔ مگر کیا جواب ؟ اس نے اپنے دل سے پوچھا تھا اور اس اسکا دل اس سے جو کہہ رہا تھا وہ اسکے لئے نیا تھا ۔۔ وہ اپنے ہی دل کے فیصلے پر حیران ہوتی ہے ۔۔ کبھی کبھی انسان کا اپنا دل بھی اسے اتناحیران کر دیتا ہے کہ وہ کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہتا ۔۔ وہ بس دل کے اشارے پر چلتا ہے ۔ اور چلتاچلا جاتا ہے ۔۔
’’ جواب دو ارسا ؟ ’’ وہ اسکی خاموشی سے گھبرا رہا تھا ۔۔ اسے ارسا کا جواب چاہئے تھا ۔۔ وہ ارسا کا جواب سننا چاہتا تھا ۔۔
’’ ارسا ؟ ’’ اس نے اسے دوبارہ پکارا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد اس دوران اپنے دل کا فیصلہ جان چکی تھی ۔۔ وہ اقرار کے بدلے اقرار کرنے جارہی تھی ۔۔ مگر اچانک ہی دماغ نے اسے کچھ کہا تھا ۔۔ دماغ نے کچھ تصاویر روشن کی تھیں ۔۔ اور ارسا ساجد کو دل کے راستے پر چلنے سے پہلے دماغ کو منانا تھا ۔۔ وہ اس جنگ کے ساتھ نہیں چلنا چاہتی تھی ۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ عفان کے ہاتھوں سے نکالا تھا ۔۔ عفان نے اسکی اس حرکت پر اسے چونک کر دیکھا تھا ۔۔ تو کیا اسکا ڈر ٹھیک نکلاتھا ؟ تو کیا ارسا ساجد کے دل میں عفان کے لئے کچھ نہیں تھا ؟ کیا وہ انکار کرنے لگی تھی ؟
’’ میرے ساتھ آئیں ’’ وہ کہہ کر ایک جانب مڑی تھی ۔۔ عفان جانتا تھا کہ ارسا ساجد اسے کس قبر کے پاس لے کر جارہی تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد ارسا ایک قبر کے پاس رکی تھی جو اسکے پاپا کی تھی ۔۔ وہ اس دن کے بعد پہلی بار اس قبر کے پاس آئی تھی ۔۔ فرق اتنا تھا کہ اس وقت وہ محد کے ساتھ تھی اور آج وہ عفان کے ساتھ تھی ۔۔
’’ جانتے ہیں ۔۔ کچھ مہینے پہلے میں یہاں آئی تھی اور اس دن میں نے زندگی میں پہلی بار جانا کہ میں کسی نے نفرت بھی کر سکتی ہوں ۔۔ اس دن مجھے میرے دل نے بتایا کہ مجھےاس شخص سے نفرت ہے ۔۔ شدید نفرت ۔۔’’ ارسا کی آنکھیں لال ہوئی تھیں ۔۔ عفان نے دیکھا ۔ اسکی آنکھوں میں نفرت تھی ۔۔ اور افسوس کہ یہ نفرت عفان خالد کے لئے تھی ۔۔اسکے دل میں ایک ٹیس اٹھی تھی ۔۔ وہ محبت اور نفرت کا مسافر تھا اسے ارسا ساجد کی نفرت تو حاصل ہوگئ تھی ۔۔ مگر محبت ؟؟؟ اسے اسکا جواب معلوم نہیں تھا ۔۔
’’ اس دن کے بعد میں آج اس جگہ آئی ہوں ۔۔ اور آج میں نے جانا کہ میں محبت بھی کرسکتی ہوں۔۔ آج میرے دل نے مجھے بتایا کہ مجھے کسی سے محبت بھی ہوسکتی ہے ’’ اس نے ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ عفان کی جانب دیکھ کرکہا تھا۔۔
وہ رک گیا تھا ۔۔ تو ارسا ساجد کو اس سے محبت تھی ؟؟ تو وہ کامیاب ہوگیا تھا ؟؟ اسکے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑی تھی۔۔ عفان کو لگا کہ اسے اندر تک سکون مل گیا ہو ۔۔
’’مگر عجیب بات ہے نہ عفان ؟’’ یہ پہلی بار تھا کہ ارسانے اسکا نام لیا تھا ۔۔ کتنا اچھا لگتا تھا اسے منہ سے اپنا نام؟ عفان نے سوچا تھا ۔۔
’’ کہ محبت تو میں کرسکتی ہوں ۔۔مگر محبت کی نہیں جاتی ۔۔ مجھے اس سے نفرت ہوگئ تھی ۔۔ اور مجھے محبت بھی ہوجاتی اگر میں ان حالات میں نہ ہوتی ’’ ارسا کی بات نے عفان کو پھر سے ڈرایا تھا ۔۔
’’ میں آپ سے کچھ نہیں چھپانا چاہتی ۔۔ آئی ایم سوری بٹ آئی ایم میریڈ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور عفان کو لگا کہ اسے ایک اور تیر لگا تھا ۔۔
’’ وہ کون ہے ؟ میں نہیں جانتی ۔۔ مگر میں یہ جانتی ہوں کہ میں اسکے نکاح میں ہوں۔۔ اسلئے میں آپکو کوئی امید نہیں دے سکتی ۔۔ جب تک وہ مجھے مل نہیں جاتا ۔۔ جب تک میں خود کو اس سے آزاد نہیں کرلیتی ۔۔ میں اپنے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی ’’ اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور وہ وہاں سے جاچکی تھی ۔۔ جب کہ عفان وہی کھڑا رہ گیا تھا ۔۔ ضمیر نے ایک اور دھکا دیا تھا ۔۔ اسے لگا کہ ارسا اس سے بہت اوپر تھی ۔۔ اور ارسا کے آگے وہ کچھ نہیں تھا ۔۔ اتنی دولت ہونے کے باوجود وہ ارسا ساجد کے سامنے ایک چھوٹا انسان بن چکا تھا ۔۔ اور ایک چھوٹا انسان وہ ہوتا ہے جسکا قد تو اونچا ہو مگر ظرف کامعیار نیچے ہو ۔۔۔ اور آج ارسا ساجد اسے اپنا ظرف دکھا کر گئ تھی ۔۔وہ چھوٹا پڑگیا تھا ۔۔
واپسی کا راستہ دونوں نے خاموشی سے گزارا تھا ۔۔ وہ گھر پہنچے تو دادو انکے انتظار میں تھی ۔۔ مگر دونوں میں سے کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا ۔ وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں بند ہوگئے تھے ۔۔ اور کہیں نا کہیں دادو جانتی تھیں کہ ان دونوں کے بیچ کیا ہوا ہوگا،۔۔ اس لئے انہوں نے بھی انہیں روکا نہیں تھا ۔۔
عجیب رات تھی ۔۔ محبت کا اقرار کر کے بھی وہ اسی جگہ کھڑا تھا ۔۔وہ آگے بڑھ بھی نہیں سکا تھا ۔۔ ایک دیوار تھی جو دونوں کے درمیان آئی تھی۔۔ کہتے نکاح محبت کی منزل ہوتا ہے۔۔ مگر یہ پہلی بار تھا کہ نکاح ہی اس محبت کی دیوار بن چکا تھا ۔۔ عفان خالد اتنی ہمت جمع نہیں کرپارہا تھا کہ وہ اس نکاح کااقرار کر سکے اور ارسا ساجد اس نکاح سے چاہ کر بھی آزاد نہیں ہوپارہی تھی ۔۔دونوں اپنی اپنی جگہ مجبور تھے اور دونوں ایک دوسرے کی مجبوری بھی بن چکے تھے۔
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑی تھی ۔۔ دل اور دماغ کی عجیب جنگ تھی جو شروع ہوچکی تھی ۔۔ محبت ہوئی نہیں تھی وہ یہ جانتی تھی ۔۔ مگر محبت سےانکار بھی وہ کر نہیں پارہی تھی ۔۔ لیکن یہاں جنگ اس بات کی تو تھی ہی نہیں ۔۔ جنگ تو نکاح اور نفرت کی تھی ۔۔ کتنی عجیب بات تھی تھا ۔۔ نکاح اور نفرت ’’ ن ’’ سے شروع ہونے والے یہ لفظ ارساساجد کی زندگی کا نور لے گئے تھے ۔۔ اور وہ نور محبت کا تھا ۔۔ جسے ارسا چاہ کر بھی حاصل نہیں کرپارہی تھی۔۔
صبح عفان کے کمرے میں آیا تھا جب ارسا جانے کے لئے تیار تھی ۔۔
’’ میں آنے ہی والی تھی نیچے ۔۔ آپ کیوں آگئے ؟ ’’ اس نے عفان کو آتے دیکھ کر کہا تھا ۔۔ ۔
’’ میں نے سوچا ہم دونوں ساتھ آفس جاتے ہیں ’‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہے ’’ وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا۔
’’ تم سے کچھ کہنا ہے ’’ عفان نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ اس نے پوری رات گزار کر بھی خود میں اتنی ہمت پیدا نہیں کی تھی کہ وہ اس سے سچ کہ سکتا مگر عفان نے ایک حل نکال لیا تھا ۔۔
’’ جی کہیں ’’ وہ جانتی تھی کہ وہ کس بارے میں بات کرنے والا ہے ۔۔
’’ میں تم سے کچھ نہیں پوچھونگا۔۔ مگر میں تم سے اتنا ضرور کہنا چاہونگا کہ میں تمہارا انتظار کرونگا ’’
’’ انتظار؟ ’’ وہ اسکی بات کا مطلب نہیں سمجھی تھی ۔۔
’’ ہاں۔۔ میں انتظار کرونگا جب تم اس سے آزاد ہوجاؤگی ’’ تو یہی وہ حل تھا جو عفان خالد نے نکالا تھا۔ْ۔وہ تین سال گزارنے کو تیار تھا ۔۔
’’ اور اگر اس نے مجھے آزاد نہ کیا تو ؟ ’’ ارسا اسے سمجھانا چاہتی کہ انتظار لاحاصل ہے ۔۔
’’ مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں قید بھی نہیں رہنے دے گا ’’ وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔ جبکہ ارسا حیران کھڑی رہ گئ تھی ۔ عفان کی باتوں کا مطلب اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔ مگر وہ پریشان تھی ۔۔ اور پریشانی کی وجہ عفان نہیں تھا۔۔ پریشانی کی وجہ محد تھا ۔۔ وہ بھی تو اسکے انتظار میں تھا ؟؟؟ تو اب ارسا کسے چننے والی تھی ؟؟؟
آفس کا پورا وقت کام بھی ہی گزرا تھا ۔ وہ کافی دنوں بعد آفس آئی تھی تو اسے بہت کچھ کرنا تھا ۔۔ عفان بھی اس دوران بزی تھا ۔۔ ان دونوں کے درمیان بات صرف کام کے معاملےمیں ہی ہوئی تھی ۔۔ شام ہوئی تو ارسا نے کام سے فارغ ہوکر اپنا بیگ اٹھایا تھا ۔۔ اس نے سامنے دیکھا تو عفان اب بھی کسی فائیل پر جھکا تھا ۔۔ وہ بیگ اٹھا کر عفان کے آفس میں گئ تھی ۔۔
’’ آپ نے جانا نہیں ہے ؟ ’’ اس نے عفان کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا ۔۔
’’ بس تمہارا کا ختم ہونے کا نتظار کررہا تھا ’’ مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میرا انتظار کیوں ؟’’ وہ اسکے انتظار کو مقصد سمجھی نہیں تھی ۔۔۔
’’ کیونکہ میں تمہیں گھر چھوڑنے جارہا ہوں ’’ عفان نے فائیل بند کر کے کھڑے ہوتے ہوئے کہاتھا ۔۔۔
’’ مگر سر میں تو گھر نہیں جارہی ’’
’’تو کہاں جانا ہے ؟ ’’ گاڑی کی چابی اور وائیلٹ اٹھا کر آگے بڑھتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ محد سے ملنے ’’ ارسا کے جواب پر ایک پل کے لئے عفان کے قدم رکے تھے ۔۔
’’ محد تمہارے لئے بہت اہم ہے نا ارسا ؟ ’’ اس نے آگےبڑھتے ہوئے کہا تھا ۔۔قدموں کی رفتار اب سست تھی۔۔
’’ ہاں ۔۔ بہت زیادہ ’’ اس نے دل سے اقرار کیا تھا ۔۔ اور اسکا یہ اقرار عفان کو برا لگا تھا ۔۔
’’ کیا تم اس سے محبت کرتی ہو ؟؟ ’’ ایک سوال تھا جو بے اختیار اس نے پوچھ لیا تھا ۔
’’ میں نہیں جانتی ۔۔ مگر میں اتنا جانتی ہوں کہ وہ میرے لئے بہت اہم ہے ’’ ارسا کے جواب پر عفان کو مایوسی ہوئی تھی ۔۔ اگر اس سے اقرار نہیں کیا تھا تو یہ انکار بھی نہیں تھا ۔۔
اس نے ارسا کو محد کے گھر ڈراب کیا تھا ۔ وہ اندر آئی تو محد اس وقت اسی کے انتظار میں بیٹھا نظر آیا تھا ۔
’’ خیال آگیا آپکو میڈم ؟؟ پورا آدھا گھنٹہ لیٹ ہیں آپ؟ ’’ اس نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں بس کام ختم کرنے میں وقت کا پتہ نہیں چلا ’’ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے محد سے کہا تھا۔۔
’’ چلو شکر ہے ختم ہوگیا ۔۔ کیا پیوگی ؟ ’’
’’ کافی ’’
’’ ابھی بنا کر لاتا ہوں ’’ وہ کہہ کر فوراً کچن کی جانب گیا تھا جبکہ ارسا وہی آنکھ بند کر کے بیٹھ گئ تھی ۔۔ پورا دن آفس میں گزارنے کے بعد وہ اب بہت تھک چکی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد محد کافی کے دو کپ لے کر آیا تو اسے انکھیں بند کر کے بیٹھے دیکھ کر کافی سامنے رکھی میز پر رکھ دی۔
’’ تھک گئ ہو؟’’ اس نے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ارسا نے آنکھیں کھول کراسے دیکھا تھا ،،
’’ نہیں ۔۔ ابھی سے تھک گئ تو اتنا لمبا سفر کیسے کرونگی ’’ ارسا نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ ہاں سفر بہت لمبا ہے۔۔اور اس سفر میں، میں تمہیں تھکنے نہیں دونگا’’ کافی کا کپ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔ ارسا نے کافی کا کپ اسکے ہاتھ سے تھاما تھا ۔۔
’’ اتنے لمبے سفر پر تم کب تک میرے ساتھ رہوگے محد ؟ ’’ اس نے ایک سوال کیا تھا ۔۔ جانے کیوں عفان کےآنے کے بعد اسے لگتا تھا کہ وہ محد کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی ۔۔
’’ منزل کے حصول تک ؟ ’’ محد نے مسکراکر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اور منزل کیا ہے ؟ ’’ وہ جاننا چاہتی تھی ۔۔ منزل کا تو اسے بھی نہیں معلوم تھا ۔۔
’’ محبت ’’ جواب بھی فوراً آیا تھا ۔۔ مگر یہ جواب ارسا ساجد کو سن کر گیا تھا ؟
’’ کیا محبت منزل ہوتی ہے ؟’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ نہیں ۔۔ محبت تو خود ایک سفر ہے۔۔منزل تو کسی کی محبت کاحصول ہے ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ اور تمہاری منزل کیا ہے؟ ’’
’’ تمہاری محبت کا حصول ’’ اسکا جواب ارسا کا سر جھکا گیا تھا ۔۔ اس کے سامنے وہ شخص بیٹھا تھا جس نے زندگی کے ہر موڑ پر اسکا ساتھ دیا تھا ۔۔ وہ جو تب ساتھ تھا جب سب اسے چھوڑ چکے تھے ۔۔ وہ اسکے ساتھ کا طلبگار تھا ۔۔ وہ اسکا منتظر تھا ۔۔ اور ارسا ساجد ؟؟ وہ کس کے ساتھ ہی طلبگارتھی ؟ دل کا جواب ارسا کو شرمندہ کر رہا تھا ۔۔ اس وقت پہلی مرتبہ ارس کو لگا کہ کاش اس نے اس جانب پر اپلائی نہ کیا ہوتا ۔۔ پہلی بار ارسا کے دل نے کہا کہ کاش عفان خالد اسکی زندگی میں نا آیا ہوتا تو آج اسے محد کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑتا ۔۔
’’کیا ہوا ؟ ’’ اسے کسی گہری سوچ میں گم دیکھ کر عفان نے پوچھا تھا ۔۔
’’ تم بہت اچھے ہو محد ’’ ارسا نے مسکرا کر دل سے کہا تھا ۔۔ اسکی بات نے محد کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ لائی تھی۔
’’ تم بھی بہت اچھی ہو ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ مگر ارسا کو لگا کہ اسے ایسا کہنا نہیں چاہیئے تھا۔،وہ اتنئ اچھی نہیں تھی۔۔
آج عفان آفس نہیں آیا تھا ۔۔ ارسا اسکی غیر موجودگی سے پریشان ہوگئ تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ عفان کبھی آفس سے ااف نہیں کرتا پھر جانے کیوں وہ آج نہیں آیا تھا ۔۔
’’ حاشر صاحب کہاں ہیں ؟ ’’ ارسا نے ریسپشن پر موجود لڑکی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ آگئے ’’ اس نے پلٹ کر دیکھا حاشر اسی طرف آرہا تھا ۔۔
’’ ہیلو حاشرصاحب کیسے ہیں آپ ؟ ’’
’’ آئی ایم فائین ۔۔ آپ بتائیں ’’ حاشر نے مسکرا کر اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ میں بھی ۔۔ وہ آج باس نہیں آئے ۔۔خیریت ہے ؟ ’’ اس نے اب حاشر سے وہ سوال کیا تھا جو وہ پوچھنا چاہتی تھی،،
’’ وہ دادو کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی ۔۔ اس لئے وہ آج نہیں آسکے ’’ حاشر کی بات پر ارسا کو حیرانی ہوئی تھی ۔۔
’’ کیا ہوا دادو کو ؟ ’’ وہ دادو کے لئے پریشان تھی ۔۔
’’ وہی بی پی کا ایشو۔۔ اچھا مجھے کچھ کام ہے میں چلتا ہو ’’حاشرکو شاید کہیں جانے کی جلدی تھی اس لئے وہ فوراً وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔ جبکہ ارسا اب پلٹ کر وہاں سے باہر نکلی تھی ۔،۔ اسے دادو سے پاس جانا تھا ۔۔۔
وہ پھولوں کی دکان کے پاس رکی تھی ۔۔ اب خالی ہاتھ تو جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا سوچا پھول ہی لیتے چلے ۔۔ اس نے وائیٹ روسز لئے تھے ۔۔ کہتے ہیں وائیٹ روسز نفرت کی علامت ہوتے ہیں ،، مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہی روسز دوستی کی نشانی بھی ہوتے ہیں اب یہ دینے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ جس نیت سے دے رہا ہے ۔۔
وہ اپنی گاڑی سے اتر کر اس گھر کے اندر آئی تھی ۔۔ آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں آئی تھی ۔۔ ورنہ آج سے پہلے تو اسے کوئی نہ کوئی مجبوری ہی یہاں لائی تھی ،۔۔ اس نے دیکھا ایک ملازمہ کچن سے نکل کر اسکی جانب آرہی تھی ۔۔
’’ دادو کہا ہیں ؟ ’’ اس نے ایک بےتکا سوال کیا تھا ۔۔ اب وہ ڈائیریکٹ عفان کے بارے میں تو نہیں پوچھ سکتی تھی،
’’ وہ اپنے روم میں ہیں ’’ ملازمہ نے اسے جواب دیا تھا۔۔ اب وہ ان سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی جہاں سے کچھ آگے جاکر پانچواں کمرہ دادو کا تھا ۔۔اسکے قدم بڑھ رہے تھے ۔۔ آج وہ عفان کے لئے بھی یہاں آئی تھی ۔۔ دادو کے کمرے سے کچھ باتوں کی آواز آرہی تھی جس سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اندر عفان موجود ہے ۔۔ ایک مسکراہٹ تھی جو ارسا کے ہونٹوں پر آئی تھی۔۔ اس نے دروازے کے پاس آکر اسے کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا مگر وہ رک گئ ۔۔ اندر سے آتے آواز اور ان الفاظ نے اسے روک دیا تھا ۔۔
’’ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ۔۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے پتالگ گیا کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی دادو’’ یہ عفان خالد کی آواز تھی ۔۔۔ مگر وہ کس کے بارے میں بات کر رہا تھا ؟؟ کون تھا جو اس سے نفرت کرتا تھا ؟؟ ارسا ساجد رک گئ تھی ۔۔
’’ تم اس سے چھپا کر ٹھیک نہیں کر رہے ہو ۔۔ جس دن اسے سب معلوم ہوگا اسکی نفرت مزید بڑھ جائے گی‘‘ دادو کی آواز تھی ۔۔
’’ میں فلحال اسکی محبت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔۔ مجھے یقین ہے جب اسے مجھ سے محبت ہوجائیگی تو وہ مجھے معاف بھی کردے گی ’’ وہ کس کی محبت حاصل کرنا چاہتا ہے ؟؟؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اس نے ارسا سے اقرار کیا تھا ؟ پھر یہ کون تھی ؟؟ ارسا ساجد الجھ رہی تھی ۔
’’ محبت تو اسے تم سے ہوگئ ہے عفان مگر اعتبار کے بنامحبت خالی ہوتی ہے ’’ دادو اسے سمجھانا چاہتی تھی ۔۔
’’ میں اسے سچ نہیں بتا سکتا دادو ْ۔۔۔ میں اسے نہیں بتا سکتا کہ اسکے باپ کا قاتل میں ہوں ۔۔ میں اسے نہیں بتا سکتا کہ اسے بربار کرنے والا میں ہوں ۔۔ میں اسے کبھی نہیں بتاؤنگا کہ اسکی نفرت میں ہوں ’’ عفان نے کہہ کر سر دادو کی گود میں رکھا تھا ۔۔ جبکہ باہر کھڑی ارسا کے سر پر بجلیاں گری تھیں ۔۔ اس نے ایک قدم پیچھے کیا تھا ۔۔ اس کے کانوں میں عفان خالد کے الفاظ گونج رہے تھے ۔۔
’’ اسکے باپ کا قاتل میں ہوں ’’ اس نے ایک قدم اور پیچھے کیا تھا ۔۔
’’وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ’’ اسے لگا یہ الفاظ اسکے لئے تھے ۔۔
’’ اسے بربار کرنے والا میں ہوں ’’ اسے لگا اسکی بربادی کی بات ہورہی تھی ۔۔ وہ شاک کے عالم میں تھی ۔۔
’’ نہیں ۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا ’’ ایک دھیمی سی آواز تھی جو اسے سنائی دی تھی ۔۔ اسے لگا وہ خود کو تسلی دینا چاہتی ہے۔
’’ ضرور کسی اور کے بارے میں بات ہورہی ہوگی ۔ وہ تمہارے ساتھا ایسا نہیں کرسکتا ارسا ’’ دل کچھ کہہ رہا تھا ۔۔ دل اسے بہلا رہا تھا ۔۔ مگر دماغ ؟؟
’’ تمہارے علاوہ اور کون ہے کہ جسے اپنے باپ کے قاتل سے نفرت ہے ؟؟ ’’ دماغ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔ اسکے قدم سست ہوئے تھے ۔۔وہ آگے بڑھ رہی تھی ۔۔ کسی اور کمرے کی جانب ۔۔
’’ مگر اس نے تمہارا نام تو نہیں لیا ۔۔ اور اگر تم ہوتی تو دادو تمہیں ضرور بتاتیں ’’ دل نے ایک اور دلیل دی تھی ۔۔
’’ نام تو کسی اور کا بھی نہیں لیا اس نے ۔۔ چلو پھر خود ہی دیکھ لو کہ وہ کس کی بات کر رہا تھا ’’ دماغ نے اسے ایک مشورہ دیا تھا ۔۔ پھول اب بھی ارسا ساجد کے ہاتھوں میں نہیں تھے ۔۔ وہ تو پیچھے دادو کے کمرے کے سامنے ہی گر چکے تھے۔ وہ اب عفان خالد کےکمرے تک آئی تھی ۔۔وہ ایک بار پہلے بھی اس کمرے میں آئی تھی ۔۔ اس وقت اسکا دل اسے یہاں تک لایا تھا ۔۔ مگر آج اسکا دماغ اسے یہاں تک لایا تھا ۔۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ روم سپرے کی مہکتی خوشبوں نے اسکا استقبال کیا تھا ۔۔ وہ اندر کی جانب بڑھی تھی ۔۔ قدم بے جان تھے ۔۔ اس نے خالی آنکھوں سے چاروں اور اس نے اس شاندار کمرے کو دیکھا تھا جو عفان خالد کا تھا ۔۔ جہاں کی ہر چیز قیمتی تھی ۔۔۔
’’ جب اسے مجھ سے محبت ہو جائیگی تو وہ مجھے معاف کردیگی ‘‘ اچانک کی اسکے قدموں میں تیزی آئی تھی ۔۔ اب اس نے ایک ایک کرکے سارے درازوں کو چھاننا شروع کیا تھا ۔۔ ایک دو تین ۔۔ وہ بیڈ کے پاس رکھے سارے ڈراز کو چیک کر رہی تھی ۔۔ جانے اسے کس چیز کی تلاش تھی ۔۔ وہاں کچھ نہ پاکر ڈریسنگ کے دراز چیک کرنے لگی تھی ۔۔ اس کے ہاتھوں میں تیزی تھی ۔۔ ایک دو ۔۔ اور پھر تیسرے دراز پر اسے ایک تصویر ملی تھی ۔۔ اس نے دیکھا وہ ٹرن ہوئی تھی ۔۔ ارسا نے اس تصویر کو باہر نکالا تھا ۔۔ جانے کیا بات تھی اسے اس تصویر سے ڈر لگ رہا تھا جسے اب تک اس نے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔اس نے تصویر کو سیدھا کیا تھا ۔۔ اور اسکی آنکھیں کھل گئ تھی۔۔ صدمہ ، حیرت اور جانے کیا کیا تھا جو اس وقت ارسا ساجد کی آنکھوں میں ۔۔ اچانک ہی اسکی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔ تو تصویر اسے دھندھلی لگنے لگی تھی ۔۔ اسے لگا کہ کچھ ہے جس نے اسکی بینائی کم کردی تھی ۔۔ جانے ایسا کیا تھا ؟؟؟
اچانک ہی جیسے کسی چیز کے اسے ہوش میں لایا تھا ۔۔ وہ اب الماری کی جانب بڑھی تھی ۔۔ اس نے ایک ایک کرکے المارے کی دراز چیک کئے تھے مگر اسے کچھ نہیں ملا تھا ۔۔ اب وہ کپڑوں کے نیچے کچھ ڈھونڈ رہی تھی ۔۔ اور پھر جب بے چینی بڑھی تو اس نے کپڑے باہر نکالنے شروع کئے تھے ۔۔ اور پھر ایک شرٹ کے ساتھ ہی ایک خاکی لفافہ نیچے گرا تھا ۔۔ ارساساجد وہی رک گئ تھی ۔۔ اسے لگا کہ یہی وہ چیز ہے جس کی اسے تلاش تھی۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ جھک کر وہ لفافہ اٹھایا تھا ۔۔ دل زورسے دھڑک رہا تھا ۔۔ایسے جیسے یہ لفافہ اسکی زندگی کا سب سے بڑا خطرہ تھا ۔۔
اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے وہ لفافہ کھولا تھا ۔۔ ایک کاغذ تھا جو اس لفافے کے اندر موجود تھا ۔۔۔ یہ لمحہ تھا جب اسکےہاتھ ہی کپکپاہٹ بڑھ گئ تھی ۔۔ اس نے وہ کاغذ باہر نکالا تھا ۔۔ اور پھر اس نے جو دیکھا شاید وہ کبھی دیکھنا نہیں چاہتئ تھی ۔۔
وہ ایک نکاح نامہ تھا ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ اس پر اسکا نام لکھا تھا ۔۔ اور دولہے کا نام ؟؟؟
اس نے دولہے کا نام پڑھا تھا ۔۔’’ عفان خالد ’’
آج اسے لگا کہ وہ ایک بار پھر ٹوٹ گئ تھی ۔۔ اسے لگا کہ آج اسے ایک بار پھر برباد کیا گیا تھا ۔۔۔ اسے لگا کہ آج وہ وہی آکھڑی ہوئی تھی جہاں سے اس نے چلنا شروع کیا تھا ۔۔۔ اس نے باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے ۔۔ اس کے دماغ پر ایک فلم چل رہی تھی ۔۔
اسکی آنکھوں پر پٹی باندھی گئ تھی ۔۔ اس کے ہاتھ ایک رسی سے باندھے گئے تھے ’’ وہ یہ کاغذ پکڑے سیڑھیوں سے اتررہی تھی۔۔ اسے لگا آنکھوں پر باندھی گئ وہ پٹی آج کھلی تھی ۔۔۔ اسے لگا کہ رسی سے باندھے گئے اسکے ہاتھ آج آزاد ہوئے تھے۔۔
’’ اس نے لیپ ٹاپ پر سیکریٹری کی نیڈ کا ایڈ پڑھا تھا ’’ اسے آج پتہ لگا کہ وہ ایڈ اس کے لئے تھا ۔۔
وہ اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔۔ اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیسے چل رہی تھی ۔۔اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی،، وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں تھی ۔۔
’’ وہ اسے اپنے پاپا کی قبر کے پاس لے کر گیا تھا ’’ اسے آج معلوم ہوا کہ وہ اپنے انتقام کو قبرستان لے کر گیا تھا۔۔
وہ ایک سڑک پر جارہی تھی ،، وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہے ۔۔ جانتی تھی تو بس اتنا کہ وہ کہیں دور جانا چاہتی تھی ۔۔ بہت دور ۔۔۔
’’ وہ اپنے پاپا کی قبر کے سامنے اسے کچھ کہہ رہی تھی ’’ اسے لگا کہ وہ اس دن اپنے پاپا کے قاتل کے ساتھ کھڑی تھی۔
اسے احساس نہیں تھا کہ وہ بہت تیزی سے جارہی تھی۔۔ گاڑی کی سپیڈ بڑھ رہی تھی ۔۔ اسکی آنکھوں کے آگے دھند تھی۔۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ایک گرم سیال اسکے چہرے کو بھگو رہا تھا ۔۔
’’ اسے یاد آیا ۔۔ وہ اس سے اظہار کر رہا تھا ’’ اس اب احساس ہوا کہ وہ ایک اور انتقام کی شروعات کررہا تھا ۔۔
وہ گاڑی آگے بڑھا رہی تھی ۔۔ اسکا موبائیل بج رہا تھا ۔۔ فون پر محد کا نام چمک رہا تھا ۔۔ اس نے دھندلی آنکھوں سے موبائیل اٹینڈ کیا تھا ۔۔
’’ ہیلو ارسا کہا ہو ؟ ’’ محد کی آواز سپیکر پر گھونجی تھی ۔۔
ارسا نے موبائیل سامنے رکھا تھا ۔۔
’’ میں جہنم میں ہو ۔۔ میرے آس پاس آگ لگی ہے محد ۔۔ میں جل رہی ہوں ۔۔ ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ اسکی آواز بھیگی ہوئی تھی ۔۔ کئ آنسو تھے جو اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔ محد اسکی آواز سن کر پریشان ہوگیا تھا۔۔۔
’’ تم کہاں ہو ارسا ؟؟ ’’ وہ اب اسکے پاس پہنچنا چاہتا تھا ۔۔۔
’’ آگ میں ہوں محد۔۔۔ مجھے بچاؤ ۔۔ مجھے بچاؤ مح۔۔۔۔۔۔۔’’ وہ محد کا نام پورا نہیں لے سکی تھی ۔۔ اچانک ہی ایک دھماکہ ہوا تھا ۔۔ ارسا کی گاڑی ایک گاڑی سے تیزی سے ٹکرائی تھی ۔۔
’’ ارسا ۔۔۔ کیا ہوا تمہیں ’’ موبائیل پر سے محد کی آواز آئی تھی ۔۔۔مگر وہاں سننے والا کوئی نہیں تھا ۔۔ بہت سے لوگ تھے جوکہ اس گاڑی کے آس پاس جمع ہونا شروع ہوئے تھے ۔۔۔
کچھ دیر بعد ایمبولینس کی آواز اس سڑک کر گونج رہی تھی ۔۔۔۔
وہ دادو سے کے کمرے سے باہر نکلا تھا مگر اسے چونکنا پڑا ۔۔ باہر سفید رنگ کے روسز گرے ہوئے تھے ۔۔
’’ یہ کس نے یہاں گرائے ہیں ؟؟ ’’ اس نے ان پھولوں کو دیکھا تھا ۔۔ وہ فوراً نیچے آیا جہاں ملازمہ لاؤنچ میں رکھی میز صاف کر رہی تھی ۔۔۔
’’ یہ پھول کیوں بکھرے ہوئے ہیں اوپر ؟ ’’ اس نے اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ کونسے پھول صاحب؟؟ ’’ ملاازمہ نے کھڑے ہوکر پوچھا تھا ۔۔
’’ اوپر دادو کے کمرے کے باہر پھول گرے ہوئے ہیں ۔۔کس نے گرائے ہیں ؟؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ پھول تو نہیں تھے صاحب پہلے ۔۔مگر ۔۔ ہاں ’’ اسے اچانک کچھ یاد آیا تھا ۔۔
’’ ارسا میڈم آئیں تھیں ۔۔ میں نے انکے ہاتھوں میں دیکھے تھے پھول ؟؟ ’’ ملازمہ کے بتانے کی دیر تھی اور عفان فوراً سیڑھیوں کے جانب بھاگا تھا ۔۔ اس نے دادو کے کمرے کے پاس جاکر وہ پھول اٹھائے تھے ۔۔
’’ وہ اندر کیوں نہیں آئی ؟؟ کہیں ۔۔۔۔ ؟؟ ’’ اسے ایک ڈرلگا تھا وہ فوراً ہی اپنے کمرے کی جانب بھاگا تھا ۔۔
کمرے کے اندر داخل ہوکر اس نے جو منظر دیکھا ۔۔ وہ اسے حیران کرگیا تھا ۔،۔ اس کے کپڑے الماری دے باہر گرے تھے ۔۔
اس نے آگے بڑھ کر دیکھا ،۔۔ ایک تصویر تھی جو وہی گری تھی ،،
اس نے وہ تصویر اٹھائی تھی ۔۔ وہ اسکے پاپا اور انکے پارٹنر کی تصویر تھی ۔۔ جب انہوں نے پارٹنر شپ کی تھی ۔۔
یہ وہ تصویر تھی جس سے عفان کے انتقام کی شروعات ہوئی تھی ۔۔ اور آج اسی تصویر نے سب کچھ ختم کردیا تھا۔۔
وہ الماری کی جانب بڑھا تھا۔ اس نے وہ جگہ دیکھی جہاں اس نے نکاح نامہ رکھا تھا ۔۔ مگر اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ وہ ٹھہر گیا تھا ۔۔ جس بات کا اسے ڈر تھا وہی ہوا تھا ۔۔ سر تھامے وہ وہی زمین پر بیٹھ گیا تھا ۔۔
آج سب ختم ہوگیا تھا ۔۔ جس نفرت سے وہ بچنا چاہتا تھا ۔۔ وہی نفرت اب اسکا مقدر بننے والی تھی ۔۔
نفرت سے شروع ہوئی یہ کہانی ۔۔۔ نفرت پر ہی ختم ہونے جارہی تھی ۔۔