وہ شام کو تیار ہورہی تھی جب محد اسکے پاس آیا تھا ۔۔
’’ چلیں؟ ’’ اس نے ارسا کی جانب دیکھ کر کہا تھا جو کہ ابھی روم سے تیار ہوکر نکلی تھی ۔۔تھوڑی دیر کے لئے ہی صحیح مگر محد اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔۔ سفید رنگ کی لمبی فراک ، چوڑی دار پجامہ ، گلے میں دوپٹہ ، کھلے ہوئے بال جوکہ دائیں طرف سے آگے اور باقی پیچھے تھے ،، کانوں میں سفید نگوں والے سادے سے ٹاپس اور گلے میں اسکے ساتھ کا لاکٹ ۔۔ میک اپ کے نام پر آنکھوں میں کاجل ۔۔ مسکارہ اور ہونٹوں پر گلابی رنگ کہ لپ سٹک لگائے ۔۔ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی ۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ اسے مسلسل خود کو گھورتے پاکر ارسا نے پوچھا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں۔۔ چلیں ۔۔ تمہارے باس تمہارہ انتظار کر رہے ہونگے ’’ اس نے ارسا کے لئے فلیٹ کا دروازہ کھولا تھا ۔۔
’’ ہاں اور تم دادو اور حاشر کو لے کر آجانا ۔۔ ہمارے آنے سے پہلے ’’ باہر نکل کر چلتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ جی میڈم یاد ہے مجھے ۔۔’’ گاڑی میں بیٹھتے اس نے کہا تھا ارسا بس مسکرا دی تھی ۔۔
اس نے ارسا کو اسکے آفس کے سامنے اتارا تھا اور خود عفان خالد کے گھر دادو کو پک کرنے چلا گیا ۔۔۔
اس نےعفان کو کال کر کے نیچے آنے کا کہا تھا ۔۔ عفان کی عادت تھی وہ دیر رات تک آفس میں ہی ہوتا تھا ۔۔ خود کو آفس کے کاموں میں بزی رکھنا اسکا سب سے پسندیدہ کام تھا ۔۔ یا شاید اسے عادت تھی ۔۔ اس نے ارسا کی کال سننے کے بعد اپنی فائیلز کو بند کیا اور ایک نظر آئینے میں خود پر ڈال کر نیچے آیا تھا ۔۔۔ اسے دور سے ہی ایک لڑکی اپنی گاڑی کے پاس کھڑی نظر آئی تھی ۔۔ اس کے قدموں کی رفتار سست ہوئی تھی ۔۔ وہ آج کوئی پری لگ رہی تھی جوکہ سفید لباس پہنے اس کے انتظار میں کھڑی تھی ۔۔ پل بھر کے لئے عفان خالد کا دل زور سے دھڑکہ تھا ۔۔جانے کیوں اسے وہ آج بہت اچھی لگ رہی تھی ۔۔ اپنے دل کے بہت قریب ۔۔
’’ تھینک یو آنے کے لئے ’’ اس کے پاس آتے ہی ارسا نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ یور ویلکم ۔۔ کیا ہم کسی پارٹی میں جارہے ہیں ؟ ’’ عفان نے اسکی تیاری کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔
’’ بلکل ۔۔ چلیں ’’ ارسا نے مسکرا کر کہتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا ۔۔
’’ گاڑی میں چلاؤنگی ’’ ارسا نے ہاتھ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ضرور ’’عفان نے مسکرا کر گاڑی کی چابی اسکے ہاتھ میں رکھی اور خود دوسری جانب آکر بیٹھ گیا تھا ۔۔
’’ کہاں جارہے ہیں ہم ؟ ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد اس سے پوچھا تھا ۔۔۔
’’ سرپرائیز ہے ۔۔ بٹ آپکو اپنا پرامس یاد ہے نا ؟ ’’ ارسا نے دوبارہ اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کونسا پرامس ؟ ’’ اسے واقعی بھول گیا تھا ۔۔
’’ یہی کہ میں جو مانگونگی آپ مجھے دیں گے ’’
’’ اوہ ہاں ۔۔ یاد ہے ’’ اس نےکہتے ساتھ اپنے ساتھ بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔جو جانے آج اسے کیا سرپرائیز دینے لگی تھی۔۔ مگر وہ جانتی نہیں تھی کہ وہ تو پہلے دن سے ہی اسے سرپرائیز دے رہی تھی ۔۔
کچھ دیر کی ڈرائیو کے بعد ارسا نے ایک بنگلے کے اندر آکر گاڑی روکی تھی ۔۔۔
’’ یہ کس کا گھر ہے ؟ ’’ عفان نے اس بنگلے کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ چلیں بتاتی ہوں ’’ وہ کہہ کر گاڑی سے نکلی تھی ۔۔ عفان بھی گاڑی سے باہر نکلا تھا ۔۔۔
ارسا اسے لے کر اندر آئی تھی ۔۔ لاؤنچ پورا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔
’’ یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے ـ؟ عفان نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ میں لائیٹ آن کرتی ہوں ’’ ارسا نے آگے بڑھ کر لائیٹ آن کی تھی ۔۔ اور عفان کی نظر جیسے ہی سامنے پڑی ۔،۔ وہ ساکت ہوگیا تھا ۔۔ سامنے کی وال پر ہیپی برتھ ڈے عفان لکھا تھا ۔۔پورا لاؤنج ربنز اور غباروں سے سجایا گیا تھا ۔۔ ٖصوفوں کے درمیان رکھے میز پر ایک کیک رکھا تھا جس کے آس پاس کھانے کے دیگر سامان کے ساتھ ساتھ ۔۔ موم بتیاں بھی رکھی تھیں ۔۔اس نے ایک حیران نظر ارسا پر ڈالی تھی جو اس کے تعصورات کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ میں چاہتی ہوں کہ آج آپ اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ کریں ۔۔۔ آپ نے وعدہ کیا تھا آپ مجھ سے ’’ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی ۔۔ جانے وہ اب کیا رسپانس دے گا ۔۔
’’ تمہیں کیسے پتا چلا ؟ ’’ اس نے ارسا سے پوچھا تھا ۔۔ وہ کیسے اس کے بارے میں اتنا جان جاتی تھی ۔۔
’’ بس لگ گیا پتا ۔۔۔ آپکو برا لگا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔ اور عفان خالد نے اسکی جانب دیکھا۔۔ اسے کیسے برا لگ سکتا تھا ۔۔ ارسا نے پہلی بار اسکے لئے کچھ کیا تھا ۔۔۔دل کو خوشی ہوئی تھی ۔۔
’’ نہیں ۔۔ تھینک یو ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ گریٹ ۔۔ آجائیں سب ’’ ارسا نے اونچی آواز میں پکارا اور عفان نے دیکھا کہ کچن سے حاشر ۔۔ دادو اور محد نکل کر آئے تھے ۔۔
’’ سالگرہ مبارک ہو بیٹا ’’ دادو نے آکر اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا ۔۔
’’ تو یہ آپکی پلیننگ تھی ؟ ’’ عفان نے دادو سے کہا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ مجھے تو خود کچھ معلوم نہیں تھا ۔۔ وہ تو بس محد بیٹا آیا لینے تو مجھے معلوم ہوا ’’ دادو نے سامنےکھڑی محد کی جانب دیکھ کر کہا تو عفان بھی اس کی جانب متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ ہیپی برتھ ڈے مسٹر عفان ’’ محد نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس سے کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو ’’ اس نے محد کا ہاتھ تھاما تھا ۔۔
’’ چلیں اب کیک کاٹتے ہیں ’’ ارسا نے ان تینوں سے کہا اور پھر تینوں کی تالیوں کی آوازوں کے بیچ عفان خالد نے کیک کٹ کیا تھا ۔۔ سب کچھ بہت اچھا رہا تھا ۔۔ دادو کو آج سچ میں خوشی ہوئی تھی ۔ انہوں نے ایک پیار بھری نگاہ ارسا پر ڈالی تھی ۔۔ جو کہ محد کے ساتھ ایک طرف جارہی تھی ۔۔ وہ اس لڑکی کی شکرگزار تھیں ۔۔ انجانے میں ہی سہی مگر عفان نے ایک بہترین لڑکی کا انتخاب کیا تھا ۔۔
وہ چاروں اور دیکھ رہا تھا مگر اسے ارسا کہیں نظر نہیں آرہی تھی ۔۔ اس نے اب کچن کی جانب قدم بڑھائے تھے اور اسےارسا وہاں مل بھی گئ تھی مگر وہ اکیلی نہیں تھی ۔۔ اس کے ساتھ محد بھی تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ ارسا کے بے حد قریب کھڑا تھا ۔۔ ارسا آگے جانے لگی تھی اور اسی وقت اسکا پیر مڑا تھا ۔۔ وہ لڑکھڑائی تھی مگر محد نے اسے کاندھوں سے تھام لیا تھا ۔۔ اور یہ ایک ایسا لمحہ تھا کہ جب عفان کا خون کھولا تھا اور اس نے غصے سے ارسا کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔ جسے اب بھی محد نے پکڑ رکھا تھا ۔۔ اس نے ارسا کے پاس پہنچ کر اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔
’’ سر کیا ہوا ؟ ’’ وہ اس طرح اچانک اسکے آجانے سے گھبرا گئ تھی ۔۔
’’ مجھے بات کرنی ہے ۔۔ چلو ’’ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر لے جارہا تھا محد نے اسے روکنےکے لئے قدم آگے بڑھائے تھے مگر ارسا نے اشارہ کر کے سے روک لیا تھا ۔۔ عفان اسے لے کر ایک کمرے میں آیا اور کمرے کا دروازہ لاک کر کے اسکی جانب شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا تھا ۔۔
’’ یہ سب کیا تھا ؟ ’’ عفان اسکے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا ۔۔
’’ کیا تھا ؟ ’’ وہ واقعی سمجھ نہیں پائی تھی ۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو سب ٹھیک تھا ۔۔ پھر اب انہیں کیا ہوگیا ؟
’’ اس محد کے ساتھ اتنا قریب ہوکر اکیلے میں کیا باتیں ہورہی تھیں ؟’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔ لہجے کی کاٹ کو ارسا نے محسوس کیا تھا ۔۔ اور جب اسے اسکی بات کا مطلب سمجھ آیا تو اسے بھی غصہ آیا تھا ۔۔
’’ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں ؟ ’’ اس نے عفان کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ یہی کہ تم اسکے اتنے قریب کیوں تھی ؟ اور کیا بات کر رہی تھی ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ؟ مگر کس حق سے ؟
’’ آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے پوچھنے والے ؟؟ میں جو بھی کرو ۔۔ ’’ اس نے عفان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا ۔۔ اب وہ وہاں سے جانے کے لئے دروازے کی جانب مڑی تھی ۔۔ مگر عفان نے اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے ؟ یہ سب کر کے تم میرا ماضی میرے خیالوں ، میری یادوں سے مٹا سکتی ہو ؟ ’’ اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔ ارسا ساجد بلکل سن اسکی بات سن رہی تھی۔۔۔
’’ غلط فہمی ہے تمہاری۔۔ عفان خالد کبھی کچھ نہیں بھول سکتا ۔۔ اور عفان خالد کو سب یاد تم دلاتی ہو ارسا ساجد ۔۔ میں آگے نہیں بڑھونگا ۔۔ جب تک تم ہو۔۔۔ میں آگے نہیں بڑھ سکتا ’’ وہ اس سے یہ کیا کہہ رہا تھا ؟ وہ کیسے اسے آگے بڑھنے سے روک رہی تھی ؟ وہ کیسے اسے اسکا ماضی یاد دلا رہی تھی ؟ اسکا اسکے ماضی سے کیا تعلق ؟ ارسا کے دماغ میں بے شمار سوال آرہے تھے ۔۔ مگر جواب ایک بھی نہیں ۔۔
’’ تم کہتی ہوکہ غلطی وقت کی ہے ؟؟ قسمت کی ہے ؟ نہیں ارسا ساجد ۔۔ اسکی غلطی تھی ۔۔ بلکہ گناہ تھا ۔۔ اور میں یہ گناہ معاف نہیں کرونگا ۔۔۔ میرے پاپا کو موت نے نہیں بلایا تھا۔۔۔ اس نے انہیں موت دی تھی۔۔ وہ قاتل ہے ۔۔ اور میں اسکا قتل معاف نہیں کرونگا ۔۔ سمجھی تم ۔۔ میں کسی کو معاف نہیں کرونگا ’’ جانے اسے کیا ہوا تھا ۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا ۔۔ ارسا ساجد خود کو سنبھال نہیں سکی تھی ۔۔ وہ ایک میز کی جانب گری تھی ۔۔ اسکا سر میز کے کونے پر لگا تھا ۔۔ سر پر چوٹ آئی تھی مگر عفان خالد نے اسے نہیں دیکھا تھا ۔۔ وہ وہاں سے جاچکا تھا ۔۔ اور اب صرف ارسا ساجد تھی جو اس کمرے میں موجود تھی ۔۔ اسکے کانوں میں عفان کے الفاظ گونج رہے تھے ،، اسے اپنے سر پر لگی چوٹ کے درد کا احساس نہیں ہورہا تھا ۔۔ اسے بس عفان خالد کا احساس ہورہا تھا ۔۔ تو عفان خالد کے والد قتل ہوا تھا ؟ ۔۔ مگر کس نے کیا وہ قتل ؟
وہ بنا کچھ کہے وہاں سے جاچکی تھی ۔۔ اس نے محد کو ایک مسیج کر کے اپنے جانے کا بتادیا تھا ۔۔ وہ اکیلے رہنا چاہتی تھی ۔۔ اسکے دماغ میں بہت سی سوچیں تھیں ۔۔ْ جنہیں اسے سوچنا تھا ۔۔ اسے عفان خالد کو سوچنا تھا ۔۔
وہ دو دن سے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھی ۔۔ اس دن کے بعد سے اب تک اسکی عفان سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور ناہی اس نے اس سے کوئی رابطہ کیا تھا ۔۔ آج بھی شام کی چائے لے کر وہ اپنی کتاب لے کر بیٹھی تھی جب ڈور بیل بجی تھی۔۔ ارسا نے جاکر دروازہ کھولا ۔۔ سامنے حاشر کو دیکھ کو وہ حیران ہوئی تھی۔۔
’’ آپ یہاں ؟ کیسے ؟ ’’ اس نے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپکو لینے آیا ہوں ’’ حاشر نے باہر کھڑے ہی کہا تھا ۔۔
’’ کہا جانا ہے ؟ ’’
’’ دادو سے ملنے ۔۔ آپ شاید بھول گئ ہیں کہ آپ نے روز ان سے ملنے کا وعدہ کیا تھا ’’ حاشر نےعفان کی بتائی ہوئی لائن کہی تھی ۔۔
’’ اوہ ہاں ’’ اسے افسوس ہوا ۔۔ اس دن ہونے والی بات کی وجہ سے وہ دادو سے متعلق بھی بھول گئ تھی ۔۔
’’ چلیں ؟ ’’ حاشر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ جی ۔۔ آپ چلیں میں بیگ لے کر آتی ہوں ’’ وہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب گئ تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ عفان کے گھر میں دادو کے سامنے موجود تھی ۔۔
’’ تم تو بھول ہی گئ تھی اپنی دادو کو ’’ دادو نے اس سے شکوہ کیا تھا ۔
’’ ایسی بات نہیں ہے دادو ۔۔ آپ جانتی ہیں کہ میرے امتحان ہورہے ہیں ۔۔ بس اسی کی تیاری میں مصروف تھی ۔۔ ورنہ آپکو کیسے بھول سکتی ہوں میں ’’ اس نے مسکرا کر دادو سے کہا تھا ۔۔
’’ تمہارے اور عفان کے بیچ کچھ ہوا ہے کیا ؟ ’’ دادو نے تھوڑی دیر بعد اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔۔ کچھ نہیں ’’ اس نے عام انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ مجھے سچ سچ بتاؤ ارسا ۔۔ میں دو دن سے دیکھ رہی ہوں وہ کچھ پریشان ہے اور تم بھی نہیں آئی ’’ دادو نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ایسا کچھ نہیں ہے دادو ۔۔ میں تو پڑھائی میں بزی تھی اور انکا مجھے معلوم نہیں ’’ ارسا اب دادو کو نہیں بتاسکتی تھی۔۔ وہ بتانا چاہتی بھی نہیں تھی ۔۔
’’ ایک بات پوچھوں آپ سے ؟ ’’ چائے کے دوران اس نے دادو سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔ کہوں’’
’’ سرکے پاپا کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی ؟ ’’ ارسا کے اس سوال پر دادو چونکی تھی ۔۔
’’ تو کیا عفان نے اسے کچھ بتایا ہے ؟ ’’ ایک یہی سوچ تھی جو اس وقت دادو کے دماغ میں چل رہی تھی ۔۔
’’ کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا انکا ’’ دادو نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا یا پھر کسی نے کیا تھا ؟ ’’ ارسا کے اگلے سوال نے دادو کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ عفان نے اسے سب بتادیا ہے ۔۔ مگر عفان نے کتنا بتایا ہے یہ وہ نہیں جانتی تھیں ۔۔
’’ تمہیں عفان نے بتایا ؟ ’’ دادو نے پوچھا تھا۔۔
’’ جی ۔۔ میں جاننا چاہتی ہوں دادو کہ اس وقت کیا ہوا تھا ۔۔ پلیز آپ مجھے بتائیں ’’ اس نے دادو کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا ۔۔ اور دادو کو لگا کہ اسے سب بتانا ہی ٹھیک تھا ۔۔ ویسے بھی عفان نے اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔
’’ عفان کے پاپا نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر جیولری کا بزنس شروع کیا تھا ۔۔ ان دونوں نے پارٹنرشپ کی تھی ۔۔ عفان کے پاپا ایک جیولری ڈیزائینر تھے اور وہ بھی انہیں کے ساتھ کام کرتا تھا ۔۔ دونوں نے آدھی آدھی رقم ملا کر ایک شاندار شاپ کھولی تھی ۔۔ جہاں وہ سونے اور آرٹیفیشل جیولری ڈیزائین کرتے تھے ۔۔ خالد کے دوست کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے ۔۔وہ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس لئے خالد نےاس شاپ پر اس سے کئ زیادہ پیسہ لگایا تھا ۔وہ اس شاپ کو ایک کپمنی میں تبدیل کرنےکا خواب دیکھ رہا تھا ۔۔ اور پھر اللہ نے انکی شاپ کو ترقی بھی دی تھی۔۔ اس شاپ کے ڈیزائینز بہت پسند کئے جانے لگے تھے ۔۔ اور اس طرح انکے پاس بہت سے آرڈرز آنے لگے تھے ۔۔ مگر پھر خالد کے دوست کی نیت بدل گئ تھی ۔۔ اس نے خالد سے زیادہ پرافٹ کی ڈیمانڈ کی تھی ۔۔۔ مگر خالد نے اسے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اس نے اس کاروبار میں کم پیسہ لگایا تھا اس لئے اسکا پرافٹ بھی اس کے حساب سے ملے گا ۔۔ مگر خالد کے دوست نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور پھر ہر آئے دن ان دونوں کے درمیان جھگڑا ہونا شروع ہوگیا تھا ۔۔ خالد روز روز کے اس جھگڑے سے تنگ آگیا تھا تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس پارٹنرشپ کو ختم کر دیگا اور اپنے دوست کو اس کا حصہ دے دے گا ۔۔ مگر یہ فیصلہ بھی کارآمد نہیں رہا ۔ خالد کے دوست نے جب اسکا یہ فیصلہ سنا تو وہ بھڑک گیا ۔۔ اسکا ماننا تھا کہ اسکا حساب زیادہ بنتا ہے ۔۔ اس جھگڑے کے بعد خالد کا دوست کئ دن اسکے پاس نہیں آیا تھا ۔۔ اور پھر ایک دن دکان پر سے سارے زیورات ، سونا اور پیسے غائب ہوگئے تھے ۔۔ خالد ایک دن میں ہی عرش سے فرش پر آگیا تھا ۔۔ تمام کلائینڈز نے اسے تنگ کرنا شروع کردیا تھا ۔۔ اسے لاکھوں کا نقصان ہوا۔۔ مگر وہ جانتا تھا کہ ان سب کے پیچھے وہی تھا ۔۔ اس لئے خالد نے اسے کال کر کے کہا کہ اگر اس نے تمام زیورات اور پیسے واپس نہیں کئے تو وہ پولیس کو اطلاع دے دیگا ۔۔ خالد کی یہ دھمکی کام آگئ تھی ۔۔ اور اس دن اسکے دوست نے اسے کال کر کے کہا کہ وہ اسے سارا کچھ واپس دیگا تو خالد نے اسے بتایا کہ وہ عفان کا کیک لینے جارہا ہے وہ وہی آجائے ۔۔ اور پھر خالد نے بیکری کے سامنے کار روکی تھی ۔۔ وہ عفان کو لے کر باہر نکلا مگر عفان کو سڑک کی دوسری جانب کی ایک شاپ پر مرر وال کی وجہ سے ایک کیک نظر آیا اور وہ سڑک کی دوسری جانب اس شاپ کی طرف گیا ۔۔ خالد بھی سڑک پار کر کے عفان کی جانب جارہا تھا ۔۔۔ مگر اسی لمحے ایک کار نے آکر خالد کو زور سے ہٹ کیا تھا ۔۔۔ عفان نے پلٹ کر دیکھا ۔۔ اسکےپاپا کا سر پچھلے سائیڈ سے فٹ پاتھ پر لگا تھا سر سے بہت خون نکلا تھا ۔۔ وہ فوراً خالد کی جانب بھاگا تھا ۔ پھر اس نے دیکھا کہ جس گاڑی نے اسے مارا تھا وہ آگے جاکر رکی اور خالد کا دوست اس میں سے باہر نکلا تھا ۔۔
’’ انکل پلیز پاپا کو ہسپتال لے کر چلیں ’’ عفان نے اس شخص سے روتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔ اسکا باپ خون سے لت پت پڑا تھا ۔۔
’’ سوری بیٹا ۔۔ اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ’’ اس شخص نے عفان کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور اس سے پہلے کہ لوگ اسے دیکھتے وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا ۔۔۔ خالد کو آدھے گھنٹے بعد وہاں کے لوگوں نے ہسپتال پہنچایا تھا مگر وہ پہلے ہی دم توڑ گیا تھا ۔۔۔ چھوٹا سا بچہ اپنے باپ کو کھو چکا تھا ’’ دادو کی آنکھوں سے آنسوآئے تھے ۔۔
’’ کیا اس شخص کو پکڑا گیا ؟ ’’ ارسا نے سوال کیا تھا ۔۔
’’ نہیں وہ اپنی فیلمی کے ساتھ کہیں فرار ہوگیا تھا’’ دادو نے آنسو صاف کرنے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ انکی والدہ ؟ ’’ ارسا نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ خالد کی موت کا اس نے بہت صدمہ لے لیا تھا اور وہ ڈپریشن میں چلی گئ تھی اور پھر ایک مہینے بعد وہ بھی چلی گئ۔۔ عفان کو چھوڑ کر ’’ دادو کے کہہ دینے کے بعد ان دونوں کے درمیان کافی دیر تک خاموشی رہی تھی ۔۔
’’ میں چلتی ہوں ’’ ارسا کہتی ہوئی کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ پھر کب آؤگی ؟ ’’ دادو نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ایک دو دن بعد آجاؤنگی ۔۔ آپ اپنا خیال رکھنا ’’ اس نے دادو سے کہا تھا ۔۔
وہ دادو کے کمرے سے نکل کر نیچے جانے لگی تھی جب اسکی نظر عفان کے کمرے پر پڑی تھی ۔۔ جانے کیوں مگر اسکے قدم اسی کمرے کی جانب بڑھنے لگے تھے ۔۔ اس نے کمرے کے پاس پہنچ کر دروازہ ناک کیا تھا ۔۔ اندر سے عفان کی آواز آئی تھی ۔۔
’’ آجائیں ’’ اس کے کہنے پر ارسا نے دروازہ کھولا اور وہ اس کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی ۔۔ اس نے دیکھا عفان کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ ارسا کی جانب اسکی پشت تھی ۔۔ وہ قدم بڑھا کر اسکی جانب گئ اور اسکے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔،۔۔عفان نے کن انکھیوں سے اسے دیکھ لیا تھا مگر ظاہر یہ کیا کہ وہ باہر دیکھ رہا ہے ۔۔
’’ کیسے ہیں آپ؟ ’’ اس نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہوں ۔۔ تم ؟ ’’ وہ بے حد سنجیدہ تھا ۔۔
’’ میں بھی ٹھیک ہوں ’’اس نے جواب دے کر باہر دیکھا تھا ۔۔۔
’’ آپ نے اس دن جو بھی کہا ۔۔۔ ’’ ارسا کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی گئ تھی ۔۔
’’ میں نے جو کچھ کہا وہ سچ تھا ۔۔ اور مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہے ’’ عفان کا لہجہ بتارہا تھا کہ اب تک اسکا غصہ کم نہیں ہوا تھا ۔۔
’’ میں بھی یہی کہنےوالی تھی ۔۔ آپنے جو کچھ کہا وہ بلکل ٹھیک تھا۔۔اگر میں ہوتی تو میں بھی ایسے ہی کہتی ’’ اسکی بات پر عفان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ تم میری جگہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی تم کچھ سمجھ سکتی ہو ’’
’’ ایسا آپکو لگتا ہے عفان سر ۔۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ نے کمزوری دکھائی ’’ ارسا کی بات پر عفان نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ آپکے پاپا کو ایک شخص نے قتل کردیا ۔۔ اور آپنے کیا کیا ؟؟ اپنے آپکو سزا دی ۔۔ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی آپ آج تک خود کو سزا دے رہے ہیں ۔۔آپ مضبوط تو نہیں ہوئے ۔ آپ تو ایک کمزور انسان ہیں جو وقت کے ایک ستم پر ڈھے گیا ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ تمہیں لگتا ہے میں خود کو سزا دے رہا ہوں ؟؟؟ نہیں ارسا ساجد میں انتقام لے رہا ہوں ۔۔ میں نے اس سے انتقام لیا ہے ۔۔ اس نے مجھ سے میرے ماما اور پاپا کو چھین لیا ۔۔ میں نے اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا ۔۔ میں نے اس شخص پر زندگی اتنی تنگ کر دی کہ وہ اسے ہار گیا ’’ ارسا نے عفان خالد کی آنکھوں میں انتقام کا شعلہ دیکھا تھا ۔۔
’’ تو آپنے اپنا انتقام لے لیا عفان سر ؟ ’’ ارسا نے اس سے پوچھا تھا ۔۔ عفان نے اسکی جانب دیکھا ۔۔وہ اسے کیسے بتاتا کہ اسکا انتقام تو اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ لے لیا میں نے انتقام ’’ اس نے ارسا پر سے نظریں ہٹا کر دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا سکون مل گیا ؟؟؟ ’’ ایک اور سوال تھا ۔۔ اور عفان خالد اس سوال کر رک گیا تھا ۔۔۔ اس نے ارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ بتائیں ۔۔ انتقام لینے کے بعد ۔۔ کیا سکون مل گیا ؟ ’’ اس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تھا ۔۔ عفان خالد اس سوال کا جواب دینا چاہا تھا مگر وہ نہیں دے سکا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب وہ ابھی تک اپنے اندر ڈھونڈ رہا تھا ۔۔ اور جو جواب اسے دل دے رہا تھا ۔۔ عفان خالد اسے ماننا نہیں چاہتا تھا ۔۔ یا پھر ارسا ساجد کے سامنے ماننا مشکل تھا ۔۔
وہ خاموش تھا ۔ ارسا اس کے بولنے کا انتطار کررہی تھی ۔۔۔ اور پھر جب اسکی جانب سے جواب نہ ملا تو وہ سمجھ گئ تھی کہ عفان خالد الجھن میں ہے ۔۔ وہ خاموشی سے پلٹی تھی ۔۔ عفان نے اسےروکا نہیں تھا ۔۔ وہ اسے جاتا دیکھ رہا تھا ۔۔ کمرے کے دروازے کے پاس پہنچ کر ارسا ایک بار پھر رکی تھی۔۔۔ مگر وہ پلٹی نہیں تھی۔۔
’’ آپ نے کہا میں کچھ سمجھ نہیں سکتی سر ۔۔ مگر مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔۔ میرے پاپا کا بھی قتل ہوا ہے اور میں بھی اس قاتل سے شدید نفرت کرتی ہوں ۔۔ ہم ایک جیسی صورتحال سے گزرے ہیں سر ۔۔مگر جانتے ہیں فرق کیا ہے؟’’ اس نے پلٹ کر عفان سے پوچھا تھا جو اسے حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔۔ ارسا کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح اسے لگے تھے ۔۔۔ عفان کے دل میں کسی جگہ ایک ٹیس اٹھی تھی ۔۔
’’ فرق یہ ہے کہ میں سکون میں ہوں ’’ ارسا ساجد نے ایک عجیب بات کہی تھی ۔۔ اور کہتے ساتھ وہ پلٹ کر اس کمرے سے چلی گئ تھی ۔۔ مگر عفان کو لگا کہ جیسےوہ اب بھی یہی موجود ہے ۔۔ اسے لگا کہ جیسے اب بھی وہ اس سے کہہ رہی ہے ۔’’ میں اس قاتل سے شدید نفرت کرتی ہوں ’’
’’ تو یعنی ارساساجد کو اس سے نفرت تھی ’’ اس کے آس پاس بس یہی آواز گونج رہی تھی ۔۔ اسکا دل چیخ چیخ کر بس ایک ہی بات اس سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ تم بے سکون ہو عفان خالد ’’ آوازیں اب بھی اسکے کانوں میں آرہی تھی ۔۔ اور پھر عفان خالد نے اپنا سر تھاما اور صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا ۔۔۔
’’ ناجانے اسے ارسا کی نفرت اتنی تکلیف کیوں دے رہی تھی ؟؟ ’’
وہ اس وقت یونیورسٹی نے نکلا تھا ۔۔ارادہ ارسا کی طرف جانے کا تھا ۔۔ جب سے اسکے امتحان شروع ہوئے تھے وہ اس سے ملا نہیں تھا ۔۔ وہ چاہتا تھا کہ ارسا اپنے پیپرز کی تیاری بہت اچھی طرح کرے ۔۔ ارسا تو آگے کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ چاہتا تھا کہ وہ اسے منائے ۔۔ ابھی اسکی گاڑی کا رخ ارسا کے فلیٹ کی جانب تھا جب ایک خالی سڑک پر تین بائیکس نے اسکے آگے آکر اسے گاڑی روکنے پر مجبور کیا تھا ۔۔ وہ غصے سے گاڑی سے باہر نکلا تھا ۔۔ بائیک پر موجود لڑکے بھی بائیک روک کر اترے اور اسکی جانب آئے تھے ۔۔
’’ یہ کیا طریقہ ہے ؟ دیکھ کر نہیں چلا سکتے ’’ محد نے ان لڑکوں کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ دیکھنے ہی تو آئے ہیں ’’ وہ لڑکے اسکی جانب آرہے تھے ۔۔ ان ہی میں سے ایک لڑکے نے مسکرا کر اس سے کہا تھا۔۔
’’ بائیک ہٹاؤ سامنے سے ’’ محد نے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں بائیک ہٹانے کا کہا تھا ۔۔
’’ کام ختم ہوجانے کے بعد ہٹا دیں گے ’’ ان میں سےایک لڑکے نے کہتے ساتھ ہی اسکے پیٹ پر لات ماری تھی ۔۔ محد اسکے لئے تیار نہیں تھا وہ فوراً زمین پر گرا تھا جبکے وہ سارے لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے تھے ۔۔۔
وہ جب سےدادو سے عفان کے بارے میں سب سن کر آئی تھی ۔۔ ایک بے چینی تھی جو اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔۔ اسے اس بے چینی کا حل صرف محد سے بات کرنے میں نظر آیا تھا ۔۔ اس نے محد کو کال کی تھی ۔۔ وہ اسے بلانا چاہتی تھی مگر محد نے اسکی کال ریسیو نہیں کی ۔۔ اس نے ٹائم دیکھا ۔۔ اسکی یونیورسٹی کا ٹائم تو ختم ہوگیا تھا ۔۔ اس نے ایک اور مرتبہ اسے کال کی تھی۔۔ اور اس بار کال ریسیو ہوگئ تھی مگر کال ریسیو کرنے والا محد نہیں تھا ۔۔
’’ کون بات کر رہا ہے ؟ ’’ انجان آواز سن کر اسنے پوچھا تھا ۔۔ اور جانے آگے سے کیا جواب آیا تھا کہ ارسا ساجد کے چہرے کے تعصورات فوراً بدلے تھے ۔۔
’’ کون سے ہاسپٹل میں ؟؟ ’’ اس نے کسی ہاسپٹل کا نام پوچھا تھا اور پھر وہ کال کٹ کرکے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب گئ تھی ۔۔ اسنے بیگ اور گاڑی کی چابی اٹھائی تھی ۔۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہسپتال کے کمرے میں موجود تھی۔
’’ کیسے ہوا یہ سب ؟ ’’ اس نے سامنے لیٹے زخمی محد کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جس کے سر اور ہاتھوں پر پٹی باندھی گئ تھی اس کے علاوہ اسکے چہرے پر پاؤں پر خراش کے نشان بھی تھے ۔۔
’’ کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہومیں ’’ محد نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ تم چپ کرو ۔۔ آپ بتائیں ڈاکٹر کوئی سیریس چوٹ تو نہیں لگی نا ؟ ’’ اس نے محد کو جس انداز میں ڈانٹا تھا محد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ نہیں زیادہ سیریس نہیں ہیں۔۔ بس کچھ دن میں ٹھیک ہوجائینگے ’’ ڈاکٹر نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ یہ سب ہوا کیسے ؟ ’’ اس نے اب محد سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کچھ لڑکوں نے انہیں مارا ہے ’’ محد کے بجائے ڈاکٹر نے جواب دیا تھا ۔۔
’’ کون لڑکے ؟ تم نے کسی سے لڑائی کی ہے محد ؟ ’’ اس نے فکرمندی سے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ تم جانتی ہوں میں ایسےکام نہیں کرتا ۔۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم وہ کون تھے ’’ محد واقعی انہیں نہیں جانتا تھا ۔۔
’’ مگر پھر انہوں نے تمہیں اتنی بری طرح کیوں مارا ؟ ’’ ارسا کو یہ بات عجیب لگی تھی ۔۔
’’ معلوم نہیں ۔۔ وہ اچانک میری گاڑی کے سامنے آئے اور پھر جب میں نے ان سے بات کی تو وہ مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ آئے ہی اسی لئے تھے ’’ محد کی آخری بات پر ارسا چونکی تھی ۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ۔۔۔ ارسا کی سوچ اسی کی جانب جارہی تھی ۔۔ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اس نے اسے دھمکی دی تھی ۔۔
’’ تم آرام کرو۔۔ میں تمہاری میڈیسنز لے کر آتی ہوں’’ اس نے محد سے کہہ کر ڈاکٹر سے اسکی دوائیوں کا پیپر لیا اور باہر آگئ۔۔ محد کی دوائیاں کے کر وہ تھوڑی دیر بعد واپس لوٹی تھی کہ اسکا موبائیل بجا۔۔ ارسا نے دیکھا کسی عجیب نمبر سے مسیج آیا تھا ۔۔
’’ یہ تو صرف ٹریلر تھا ڈئیر وائف ۔۔ اگر اب تم اسکے قریب نظر آئی تو اگلی بار وہ تمہیں ہوش میں نہیں ملے گا ’’ ارسا جانتی تھی کہ مسیج کس کا ہے ۔۔ اور ارسا ساجد کا شک صحیح ثابت ہوا تھا ۔۔ یہ اسی نے کروایا تھا ۔۔ اور ارسا یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اسے صرف دھمکی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ محد کا حال اسکے سامنے تھا ۔۔ وہ محد کے لئے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
’’ تمہاری میڈیسن کا ٹائم ہوگیا ہے ’’ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ یہاں سے ڈسچارج کب کرینگے مجھے ’’ محد نے اسکے ہاتھ سے میڈیسن لیتے ہوئے پوچھا تھا ،۔
’’ شام کو ‘’ ارسا اسےجواب دیتے ہوئے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔
’’ تم گھر چلی جاؤ ۔۔ میں ٹھیک ہوں ’’ اس نے ارسا کو بیٹھتے دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ شام کو تمہیں ساتھ لے کر جاؤنگی ’’
’’ کل پیپر ہے تمہارا تمہیں پڑھنا چاہئے ’’ محد کو اب اسکے پیپر کا خیال آیا تھا ۔۔
’’ تم پریشان مت ہو میری تیاری اچھی ہے ۔۔ اور باقی رات ہے میرے پاس پڑھنے کے لئے ’’ ارسا نے اسے مسکر اکر جواب دیا تھا ۔۔۔
’’ راتوں کو اتنا مت جاگا کرو ۔۔ اپنا خیال رکھا کرو ’’ محد نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ میرے نصیب میں آرام نہیں ہے محد ۔۔ ایسا لگتا ہےکہ آنے والا وقت اور مشکل ہوگا ’’ وہ جانے کس سوچ میں گم کہہ رہی تھی ۔۔
’’ آنے والا وقت کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو ارسا ۔۔ ہم دونوں اسے مل کر فیس کرینگے ’’
’’ نہیں محد ۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے اکیلے ہی سب فیس کرنا چاہئے ۔۔ اور تمہیں نہیں لگتا کہ مجھ میں اتنی ہمت ہونی چاہئے کہ میں کسی سہارےکے بنا رہ سکوں ؟ ’’ ارسا نے اس سے ایک سوال کیا تھا ۔۔ ایک ایسا سوال کہ جس کا جواب اسکے اپنے حق میں بہتر نہیں تھا ۔۔
’’ تم اکیلی رہنا چاہتی ہو ؟ ’’ محد نے اسکا سوال اگنور کرکے اس سے اپنا سوال کیا تھا ۔۔
’’ نہیں۔۔۔ میں اکیلی نہیں رہنا چاہتی ۔مجھے تمہاری ضرورت ہے ۔۔ مگر میں اب اپنے مسئلے خود حل کرنا چاہتی ہوں ’’ ارسا نے جس انداز میں کہا تھا محد کو اس پر شک ہوگیا تھا ۔۔
’’ کچھ ہوا ہے ارسا ؟؟ ’’
’’ نہیں۔۔۔کچھ نہیں ہوا ۔۔ بس یہ احساس ہوا ہے کہ یہ تو ساری زندگی کی کہانی ہے پھر مجھے اب خود کو مضبوط بنالینا چاہئے ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ تم جو بھی چاہتی ہو ۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں اور رہونگا ’’ محد نے مسکرا کر اس سے کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو ۔۔ بس اب جلدی سے ڈسچارج ہوجاؤ تاکہ میں جاکراپنی پڑھائی کروں ’’ ارسا کی بات پر محد نے مسکرا کر سر ہلایا تھا اور پھر وہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا ۔۔۔ جبکہ ارسا اب کسی سوچ میں گم تھی ۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب محد کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیگی مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ محد کے بغیر کچھ نہیں تھی ۔۔ اب اسکی سوچوں کا رخ عفان خالد کی جانب مڑا تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائیل نکال کر حاشر کا نمبر ڈائیل کیا تھا ۔۔
’’ ہیلو حاشر آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں ؟ ’’
’’ جی مس ارسا کہیں ’’ حاشر جوکہ عفان کے آفس کی طرف جارہا تھا ارسا کی کال پر رکا تھا ۔۔
’’ ایک نمبر ہے ۔۔ بہت عجیب ہے آپ پلیز بتا سکتے ہیں کہ یہ کہاں کا نمبر ہے ؟ ’’ ارسا نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔ وہ یہ بات محد کو نہیں بتانا چاہتی تھی اسلئے وہ یہ بات حاشر سے کر رہی تھی ۔۔
’’ جی ضرور ۔۔ آپ مجھے سینڈ کر دیں میں کچھ دیر بعد آپکو بتاتا ہوں ’’ حاشر تھوڑا حیران ہوا تھا کہ ارسا نے یہ کام اسے کیوں کہاں ؟
’’ اوک میں سینڈ کرتی ہوں۔۔ آپ پلیز باس کو اس بارے میں مت بتائیےگا ’’ ارسا نے اس سے ریکوسٹ کی تھی۔۔
’’ آپ بے فکر رہیں ۔۔ ’’ حاشر نے کہہ کر کال کٹ کی اور پھر کال کٹ ہونےکے تین سکینڈ بعد ارسا نے اسے وہ نمبر سینڈ کردیا تھا ۔۔ ایک عجیب مسکراہٹ تھی جو حاشر کے ہونٹوں پر آئی تھی ،، اس نے اپنے رکے ہوئے قدم عفان کے آفس کی جانب بڑھائے تھے ۔۔
’’ کم ان ’’ عفان نے اپنے سامنے رکھی فائیل کو بند کرتے ہوئے حاشر کو اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔۔ حاشر چلتا ہوا اسکے سامنے آیا تھا ۔۔
’’ کیا بات ہے باس ؟ آپ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے ؟ ’’ اس نے عفان کی لال آنکھوں کی جانب دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔ جوصاف بتارہی تھیں کہ وہ پوری رات کا جاگا ہواہے ۔۔
’’ کچھ ٹھیک نہیں ہے حاشر ’’ عفان نے سر تھام کر کہا تھا۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ حاشر نے اسے اس طرح ہاراہوا دیکھا تھا۔۔ حاشر کرسی کھینچ کر اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔۔ وہ عفان کے لئے فکر مند تھا ۔۔
’’ کیا ہوا باس ؟ ’’ اس نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے حاشر ’’ عفان نے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ آپکو انکی نفرت تکلیف دے رہی ہے ؟ ’’ حاشر جانتا تھا وہ کس کی بات کر رہا ہے ۔۔
’’ ہاں۔۔ مجھے اسکی نفرت تکلیف دے رہی ہے ’’ عفان نے اقرار کیا تھا ۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ جب اس نے کھل کر حاشر کے سامنے اقرار کیا تھا ۔۔تو یعنی عفان خالد دل سے ہار گیا تھا ۔۔ اسکا مطلب تھا کہ پوری رات جاگ کر بھی وہ خود کو بہلا نہیں سکا تھا ۔۔
’’ آپ یہ بات شروع سے جانتےتھے سر کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اسکے بعد وہ آپ سے نفرت کرے گی ۔۔ تو پھر اب اتنا دکھ کیوں ؟ ’’ اسےعفان پر غصہ تھا ۔۔ وہ تو شروع سےہی اسے سمجھانا چاہتا تھا مگر وہ ایسا کر نہیں سکا تھا ۔۔
’’ میں یہ تو نہیں جانتا تھا نا حاشر کے جب اسے مجھ سے نفرت ہوجائیگی تب میں اس سے محبت کر بیٹھونگا’’ یہ ایک دھماکہ تھا جو عفان نے حاشر کے سر پر کیا تھا ۔۔ وہ اپنی جگہ چونک گیا تھا ۔۔۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ’’ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا تھا ۔۔
’’ میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی اس بات کا اقرار کرونگا ۔۔۔مگر میں مجبور ہوگیا ہوں حاشر ۔۔ یہ انکشاف مجھ پر کل ہوا جب میں نے اسکی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھی تھی’’ وہ کھڑا ہوکر کھڑکی کی جانب گیا تھا ۔۔ اب اسکی حاشر کی طرف پیٹ تھی ۔۔
’’ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے سکون مل گیا ؟؟؟ میں پوری رات اسکے اس سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا حاشر اور جانتے ہو مجھے کیا جواب ملا ؟ ’’ وہ خاموش ہوا تھا۔۔ مگر حاشر نے اس سے پوچھا نہیں تھا ۔۔ وہ اس وقت بے یقینی کی حالت میں تھا۔۔
’’ مجھے جواب ملا ۔۔نہیں ۔۔ مجھے سکون نہیں ملا حاشر ۔۔ میں بے سکون ہوں ۔۔ اور اس بے سکونی کی وجہ ارسا ہے ۔۔اس نے مجھے مزید بے سکون کیا ہے ’’ وہ کہہ کر خاموش ہوا تھا ۔۔۔ حاشر نے ایک گہری سانس لی اور پھر کھڑا ہوکر اس کے پاس آیا ۔۔
’’ بہت دیرنہیں کردی آپنے باس ؟ ’’ اسے افسوس ہوا تھا ۔۔
’’ کس چیز میں ؟ ’’عفان نے اسے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ اس اقرار میں ۔۔ حالانکہ دادو شروع سے یہ جانتی تھیں مگر مجھے اس بات پر یقین نہیں تھا ۔۔میں سوچتا تھا کہ اگر آپکو ان سے واقعی محبت ہوتی تو آپ ان کے ساتھ یہ سب نہ کرتے ۔۔ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ ان سے نفرت کرتے ہیں ’’ حاشر کی بات پر عفان نے ایک بار پھر باہر کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ تم ٹھیک سوچتے تھے ۔ْ میں اگر اس سے محبت کرتا تو کبھی بھی اسکے ساتھ ایسا نہ کرتا ۔۔ مگر میں اس وقت اس سے محبت نہیں کرتا تھا حاشر ۔۔ مجھے صرف انتقام لینا تھا ۔۔ محبت تو اس انتقام کے پورے ہوجانے کے بعد ہوئی ’’ اس کے جواب پر ایک مسکراہٹ حاشر کے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔
’’ آپ سمجھتے تھے کہ انتقام کے بعد آپکو سکون مل جائیگا ۔۔۔مگر ا انتقام نے تو آپکا بچاکچا سکون بھی چھین لیا ۔۔ اب آپکے پاس کچھ نہیں ہے سر ۔۔ ارسا ساجد کی نفرت کے سوا ’’ اس نے عفان کو حقیقت بتائی تھی ۔۔۔
’’ میں اسکی نفرت کو محبت میں بدل دونگا ’’ عفان نے ایک جذبے سے کہا تھا ۔۔
’’ بلکل آپ ایسا کر دینگے اور شاید آپ اس میں کامیاب ہوجائینگے ۔۔ مگر اس دن کیا ہوگا؟ جب ارسا کو آپکی حقیقت معلوم ہوگی ؟؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ اس دن اسے کیسے فیس کرینگے ؟ ’’ حاشر کے سوالوں نے عفان کو مزید پریشان کر دیا تھا ۔۔
’’ میں اس بارے میں نہیں سوچنا چاہتا حاشر ۔۔ اب مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ مجھے ارسا ساجد کو منانا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے جب اسے مجھ سے محبت ہوجائیگی ۔۔ تب وہ مجھے معاف کر دیگی ’’ عفان نے کہہ کر دوبارہ اپنی کرسی کا رخ کیا اور اس پر بیٹھ گیا ۔۔ حاشر ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ آپ نے جو کام دیا تھا وہ ہوگیا ’’ اس نے عفان کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’کونسا کام ؟ ’’ عفان سمجھا نہیں تھا ۔۔
’’ محد کو ٹھکانے لگانے والا ’’
’’ اوہ ۔۔۔ تو کیا کیا تم نے ؟ ’’ عفان کو یاد آیا تھا ۔۔
’’زیادہ کچھ نہیں ۔۔ ابھی تو بس کچھ لڑکوں سے پٹوایا ہے اور مس ارسا کو ڈرایا ہے ’’ حاشر نے کاندھے اچکا کر کہا تھا ۔۔
’’ آئیندہ ایسا مت کرنا ’’ عفان نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ کیسا ؟ ’’ حاشر سمجھا نہیں تھا ۔۔
’’ ارسا کو ڈرانے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔ میں اب اسے اس طرح ڈیل نہیں کرنا چاہتا ’’ عفان کی بات پر حاشر نے سر ہلایا تھا ۔۔ پھر اسے ارسا کی کال یاد آئی تھی ۔۔
’’مس ارسا نے اس نمبر کے بارے میں معلوم کرنے کا کہا ہے جس سے ہم نے مسیج کیا تھا ’’ حاشر کی بات پر عفان کے چہرے پر تھوڑی حیرانی آئی تھی ۔۔
’’ اس نے تمہیں کہا ؟ ’’
’’ہاں ۔۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ محد کو مزید تنگ نہیں کرنا چاہتیں ’’ حاشر کے جواب پر عفان نے سر ہلایا تھا۔۔
’’ میں انہیں کیا جواب دوں ؟ ’’ حاشر نے اس سےپوچھا تھا ۔۔
’’ سچ بتاؤ۔۔ کہو کہ یہ مسیج گوگل سے کیاگیا ہے ’’ اس نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اور اگر انہوں نے مجھے مزید انوسٹگیٹ کرنے کا کہا تو ؟ ’’
’’ وہ نہیں کہے گی ۔۔ وہ جانتی ہے کہ مسیج کرنے والا کون ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ وہ اس تک ایسے نہیں پہنچ سکتی’’ اس نے مطمئن ہوکر کہا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ میں چلتا ہوں ’’ وہ کہہ کر دروازے کی جانب چند قدم ہی چلا تھا جب عفان نے اسے روکا تھا ۔۔
’’ اب اس پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے حاشر ۔۔ میں اسکا یقین جیتنا چاہتا ہوں جس کے لئے مجھے خود کوشش کرنی ہے ۔۔ اس لئے اب تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔ سمجھو کہ تمہاری یہ جاب ختم ’’ عفان کی بات پر حاشر مسکرا کر پلٹا تھا ۔۔
’’ تو پھر آپ اس پر ایک اور ظلم کرنے جارہے ہیں باس ؟ ’’ حاشر کی بات پر عفان نے الجھ کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ کیسا ظلم ؟ ’’
’’ پہلےکسی کی محبت اور اعتبار حاصل کرنا ۔۔اور پھر اپنی حقیقت دکھا کر اسے توڑ دینا ۔۔ اس سے بڑا ظلم کسی انسان پر اور کیا ہوگا ؟ ’’ حاشر کہہ کر آفس سے جاچکا تھا ۔۔ جبکہ عفان خالد اسکے الفاظ پر سناٹے میں آگیا تھا ۔۔