گارڈز کی سنگت میں اپنی گاڑی سے باہر نکلے اس نے برقی قمقموں سے سجے اس محل کو دیکھا تھا جہاں ایک وسیع پیمانے پر لڑکیوں کی بولی لگنے والی تھی۔
ایک گہری سانس اندر کھینچے اپنے ساتھیوں کو اشارہ دیتا وہ وہاں داخل ہوا تھا۔
ایک خوبصورت مگر کالے ماسک کے پیچھے اس کا پورا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔
یہ آج کا اسپیشل ڈریس کوڈ تھا۔۔۔۔۔۔۔ اندر موجود چھبیس سے ساٹھ سال۔۔۔۔ تمام عمر کے آدمی اس کی طرح تھری پیس بلیک سوٹ میں ملبوس، چہروں کو ماسک سے ڈھکے شراب اور شباب دونوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
اس سب پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالے وہ ایک کونے والی ٹیبل پر جابیٹھا تھا۔
اب انتظار تھا تو اس گھڑی کا جب وہ اپنی دوستی نبھاتا مان زارون رستم کی محبت کو یہاں سے نکال لے جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر موجود ڈریس پر ایک حقارت بھری نگاہ ڈالے اس نے سامنے موجود خوبصورت چہرے کے پیچھے چھپی بدنما عورت کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا تھا۔
’’تمہارے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے میری جان، جلدی سے تیار ہوجانا نہیں تو آج رات ہی کو اپنے کتے کے آگے پھینک دوں گی تمہیں۔۔۔۔۔۔۔ جو تیرے جسم کو نوچنے کو پل پل انتظار میں مر رہے ہیں!‘‘ اس کے گال پر اپنا ناخن پھیرتی وہ مسکرائی اور کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
پری نے بےبسی سے اس ڈریس کو دیکھا اور سر ہاتھوں میں گرائے وہی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
’’کب آؤ گے مان!‘‘ وہ سسکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مارتھا مم۔۔۔۔میں کیسی لل۔۔۔۔۔لگ رہی ہوں؟‘‘ سرخ گھیر دار سلیولیس فراک پہنے وہ خوشی سے مارتھا کے سامنے گھومتی خود کو پرنسس تصور کررہی تھی۔
مارتھا پھیکا سا مسکرائی تھی اور ان روشن آنکھوں کو دیکھا جو بہت امید سے مارتھا کو تک رہیں تھی۔
’’ویری بیوٹیفل!‘‘ مارتھا کے بولتے ہی وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی جب مرینہ چوہان ہیل کی ٹک ٹک پر اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
اس کی خوبصورتی دیکھ کر ایک پل کو وہ ٹھٹھکی تھی۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے آنکھوں میں نفرت اور دل میں حسد نے جگہ لے لی تھی۔۔۔۔۔۔۔ دل چاہا تھا کہ ابھی اس خوبصورت چہرے پر تیزاب پھینک ڈالے مگر اپنے اس سر پھیرے بیٹے کا کیا کرتی جو اس دوشیزہ کے پیچھے دیوانہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ جیک کے لیے زویا اس کا جنون اس کی ضد بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔ آج بھی اس نے مرینہ چوہان کو کال کرکے انہیں سخت لہجے میں وارن کیا تھا کہ وہ زویا کو آج کی نیلامی میں پیش نہیں کرے گی وہ صرف اس کی ہے اور اس پر سب سے پہلا حق اسی کا ہے۔
اس کی جانب قدم بڑھاتے مرینہ چوہان نے غور سے اس کا جائزہ لیا تھا۔
سرمئی بڑی آنکھیں، سفید رنگ، گلابی ہونٹ اور ویسے ہی گال، سرخ فراک میں وہ واقعی ایک ڈول لگ رہی تھی۔
وہ بالکل ویسی ہے تھی، ہوبہو اس جیسی۔۔۔۔۔ نفرت کی آگ سینے میں مزید بھڑک اٹھی تھی۔
’’مارتھا!!‘‘ یکدم وہ اونچی آواز میں دھاڑی۔۔۔۔۔۔ زویا کا رواں رواں کانپ اٹھا تھا جبکہ مارتھا بھی ہڑبڑا کر ان تک پہنچی تھی۔
’’جج۔۔۔جی؟‘‘
’’اسے آدھے گھنٹے میں نیچے لے آنا۔۔۔۔۔۔!‘‘ اس پر ایک آخری نگاہ ڈالے وہ حکم دیتی اور مڑی تھی۔
’’اور سنو۔۔۔۔۔‘‘ جاتے جاتے وہ پلٹی
’’کسی قسم کی کوئی ہوشیاری نہیں۔‘‘ انگلی دائیں بائیں ہلاتے انہوں نے وارننگ دی تھی جس پر مارتھا نے فورا سر اثبات میں ہلایا جب کہ زویا ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔
اس کے ڈر کو محسوس کرتی وہ مسکراتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔
دل میں اٹھتی انتقام کی آگ کو بجھانے کے لیے وہ فیصلہ لے چکی تھی۔۔۔۔۔ زویا شہباز کو نیلام کرنے کا فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے کی دھمکیاں، وہ سب کچھ بھلا چکی تھی یاد تھا تو بس اپنا انتقام۔۔۔۔۔
’’نہیں نیلم۔۔۔۔۔۔ اس بار نہیں۔۔۔۔۔۔ اس بار میں تمہیں خود سے جیتنے نہیں دوں گی۔۔۔۔۔۔۔ اس بار ہار تمہارا مقدر بنے گی۔۔۔‘‘ خود سے بڑبڑاتی وہ نیلام گھر میں داخل ہوئی تھی جہاں تمام ٹیبلز ارینج کردیے گئے تھے۔
’’پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس نیلامی شروع کرو!‘‘ اس نے اپنے ماتحت کو حکم دیا تھا جو سر اثبات میں ہلائے وہاں سے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندی مندی آنکھیں کھولتی وہ خود کو نرم گرم بستر میں محسوس کرتی مزید لحاف میں گھس گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ اپنے آپ در آئی تھی۔
لیکن۔!! پٹ سے آنکھیں کھولتی وہ سوتے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ آنکھیں ملتے اس نے پورے کمرے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا منہ بھی کھل چکا تھا۔
وہ گور سے اس بڑے، شاندار روم کو دیکھ رہی تھی۔
پیٹ سے آتی آواز اسے یکدم ہوش میں لائی تھی۔ لحاف اپنے اوپر سے سرکائے وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بالوں میں خارش کرتی منہ بنائے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
’’میں یہاں کیسے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ!!۔۔۔۔ کئی اس کالے بڑے دیو ہیکل مجھ پرنسز کو کیڈنیپ تو نہیں کرلیا؟‘‘ خود سے قیاس آرائی کرتی وہ چونکی تھی۔
’’مجھے اس سے چھپ کر یہاں سے بھاگنا ہوگا!‘‘ بڑبڑاتی وہ دروازے تک جا پہنچی تھی۔
آہستہ سے دروازہ کھولے اس نے پہلے منہ باہر نکالا اور آس پاس کا جائزہ لیا تھا۔۔۔۔۔ کسی کو وہاں نہ پاکر وہ ایک قدم باہر نکلاتی تیزی سے دیوار کی اوٹ میں چھپ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ دیوار کے ساتھ لگی وہ خود کو گھسیٹتی سیڑھیوں تک پہنچی تھی۔
سیڑھیوں پر پہنچتی کہنی کے بل جھکتی وہ بچوں کی طرح کرال کرتی نیچے اتری تھی ہاں وہ الگ بات تھی کہ یہ سب کرتے ہوئے اسے کافی درد محسوس ہوا تھا مگر فلحال کالے دیو ہیکل سے بچنے کا یہی طریقہ تھا۔
ڈائنیگ ہال میں داخل ہوتے ہی اسے داخلی دروازہ نظر آگیا تھا۔۔۔۔۔ پورے دانت نکالے وہ اسی جانب بڑھ رہی تھی جب راستے میں آتے کچن پر اس کے قدم رکے اور ساتھ ہی پیٹ میں مزید اونچی آواز آئی۔
’’ششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ہونٹوں پر انگلی رکھے اس نے اپنے پیٹ کو خاموش کروانا چاہا مگر کچن میں نظر آتے سرخ تازہ سیبوں کو دیکھ کر اس کے اپنے منہ میں پانی آگیا تھا۔
بھاگنے کے پلان کو پس پشت ڈالے وہ جلدی سے کچن میں گھسی تھی۔۔۔۔۔ تمام برتن چھانتی، فریج کھنگالے وہ اپنے لیے ڈھیر سارا کھانا اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
دونوں ہاتھوں میں چاروں پلیٹیں فکس کرتی وہ بڑی مشکل سے لاؤنج تک انہیں لے ہی آئی تھی اور اب صوفہ کے سامنے پڑے ٹیبل پر انہیں رکھتی وہ دوبارہ سے کچن میں جوس لینے چلی گئی تھی جب ایک گلاس ہاتھ سے چھوٹتا زمین بوس ہوگیا تھا۔
سر کھجائے اس نے ٹوٹے گلاس کو دیکھا اور پھر کندھے اچکائے پورا کا پورا جگ ہی اٹھا کر لاؤنج میں لے آئی تھی۔
صوفہ کے اوپر چوکڑی مار کر بیٹھتی وہ کھانے پر ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ ایک ساتھ سارا کھانا منہ میں ڈالے جارہی تھی جب معتصیم وہاں آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاؤنج میں آتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ سامنے ہی گندے، میلے کچلے حلیے میں کھانے پر ٹوٹی پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس کو دیکھ یہ بات صاف ظاہر ہورہی تھی کہ جیسے وہ صدیوں کی بھوکی ہو۔
یکدم ذہن میں کئی سوالوں نے جنم لیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ یہاں کیسے؟ کیوں؟ اس کی شادی؟۔۔۔۔۔۔ اور اس حالت میں؟
تمام سوچوں کو پیچھے جھٹکتا وہ خاموشی سے اس کے سامنے آبیٹھا تھا۔
کسی کو محسوس کرتے ماورا نے فورا آنکھیں اوپر اٹھائی اور غور سے معتصیم کو دیکھنے لگ گئی تھی
یہ تو وہ دیو ہیکل نہیں۔۔۔۔۔۔ تو یہ کون تھا؟ اس کے دماغ میں خیال آیا۔
’’تم کون ہو؟" آنکھوں میں مصنوعی غصہ سجائے اسے ڈرانے کی غرض سے اس نے زرا سخت لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔۔۔ اس کا سوال معتصیم کو ایک پل کو چونکا گیا تھا۔۔۔۔۔ اسے ماورا کی ذہنی حالت پر شک سا گزرا
’’معتصیم!" اپنا نام بتاتا وہ پرسکون سا اس کے چہرے کے بدلتے زاویوں کو دیکھ رہا تھا
’’معتصیم؟۔۔۔۔۔۔میرے معتصیم؟" اس کا نام لبوں سے ادا کرتے,ایک دم اس نے پرجوش انداز میں سوال کیا تھا
’’نہیں میں تمہارا نہیں" سر نفی میں ہلائے وہ دوبارہ سکون سے بولا تھا
’’ہاں تم نہیں ہوسکتے۔۔۔۔" چہرہ جھکائے وہ افسردہ لہجے میں بولی تھا
’’میرا معتصیم۔۔۔۔وہ تو گم گیا تم وہ کیسے ہو سکتے ہو؟" آنکھوں میں تعجب لیے وہ بولی۔
’’سنو!!!۔۔۔۔تم اسے ڈھونڈ دو گے؟" کچھ پل کی خاموشی کے بعد اس نے دھیمی آواز میں سوال کیا تھا
کسے؟" معتصیم نے سوال کیا’’
’’معتصیم کو" اس نے جواب دیا
’’وہ نا۔۔۔۔" پلکوں کی جھالر سے آس پاس نگاہیں دوڑائیں وہ کسی کو ناپاکر اس کے زرا قریب ہوئی تھی۔
’’مجھے اسے کچھ بتانا ہے" دھیمی آواز میں وہ بولی
’’کیا بتانا ہے؟" معتصیم نے بھی ویسے ہی سوال کیا
’’نن۔۔۔نہیں وہ سیکریٹ ہے" ماورا نے اپنا چہرہ فورا پیچھے کیا۔
’’کم آن بتا دو مجھے میں بھی تو معتصیم ہوں نا!!" معتصیم نے اسے بچوں کی طرح پچکارا
’’ہو۔۔۔۔۔مگر میرے معتصیم نہیں۔" سر زور سے نفی میں ہلائے وہ دوبارہ سے گود میں موجود کھانے کی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
’’اچھا میں نا اب جارہی ہوں!‘‘ کھانا کھاتے ہی وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔
’’تم یہاں سے کئی نہیں جارہی۔‘‘ یکدم معتصیم نے اس کی کلائی تھامی تھی۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے گھورتے ہوئے سوال کیا
’’تمہیں معتصیم کو نہیں ڈھونڈنا؟‘‘ معتصیم کے سوال پر وہ ایک پل کو سوچ میں پڑگئی تھی۔
’’ہاں ڈھونڈنا ہے!‘‘ اس نے اقرار کیا
’’تو یہی رہو میں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
’’کیا سچ میں؟‘‘ اس نے بےیقینی سے سوال کیا
’’ہاں سچ میں!‘‘ ہونٹوں پر جبری مسکراہٹ سجائے وہ بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فراک کو دونوں ہاتھوں سے تھامتی وہ سہج سہج کر سیڑھیاں اترتی نجانے کتنے چہروں کو اپنی جانب متوجہ کروا گئی تھی۔
لال ماسک کے پیچھے چھپی اس کی سرمئی آنکھوں، جن پر پلکوں کی جھالر گرائے وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
’’واٹ آ بیوٹی!‘‘ سنان شاہ کے ساتھ کھڑا وہ نوجوان آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے بولا تھا۔۔۔۔
لوگوں کی مدبھیڑ میں آتے اس نے ہچکچا کر پورے ہال میں نگاہیں دوڑائی تھی۔ نظریں مارتھا کو ڈھونڈنے میں مصروف تھی جو نجانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔
ان تمام لوگوں کی نظروں سے خائف ہوتی وہ ایک بار کے کارنر میں جاکھڑی ہوئی تھی۔
ایکدم سے پورے ہال کی لائٹس آف ہوگئی تھی اور سپاٹ لائٹ میں اسٹیج پر کھڑا وہ شخص اپنی تقریر جھاڑنے میں مصروف تھا۔۔۔
’’سو لیٹس بگین دس ایوننگ ود ڈانس!‘‘ اس کے لفظوں پر وہاں موجود سب لوگوں نے ہاتھ میں موجود شراب کا گلاس اٹھائے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
چارسو ڈانس کرتے کپلز کو دیکھ اس نے بیزاری سے ایک بار ہال میں نگاہ ڈورائی تھی جب آخرکار مارتھا اسے نظر آہی گئی تھی۔
ہونٹوں پر بڑی سی مسکراہٹ لیے وہ ڈانس کرتے لوگوں کے بیچ سے گزرتی اب ہال کے بیچ و بیچ آگئی تھی۔
اس سے پہلے وہ مزید ایک قدم آگے بڑھائی ایک مردانہ ہاتھ نے اسے بازو سے تھامے اپنی جانب کھینچا تھا
زویا کی پیٹھ اس سے جاٹکڑائی تھی۔
مردانہ، جانی پہچانی کلون کو محسوس کرتی اس کی آنکھیں ابل پڑی تھی۔
’’ہے بیوٹی!! مس می؟‘‘ وہی پراسرار لہجہ
’’جج۔۔۔۔۔جیک۔۔۔۔سس۔۔۔۔سر۔۔۔۔‘‘ وہ اس کی گرفت میں مچلتی سسکی تھی۔
’’اوہوں!!۔۔۔۔۔ نہ جیک، نہ سر۔۔۔۔۔۔صرف جہانگیر۔۔۔۔۔۔ زویا کا جہانگیر۔۔‘‘ مسکراتا اس کی خوشبو اپنے اندر اتارے وہ زویا کا رخ اپنی جانب کرتا اسے اپنی باہوں میں قید کرچکا تھا۔
آنکھیں میچے اس نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر ٹکائے دوری پیدا کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہی۔
I found a love for me
Oh darling, just dive right in and follow my lead
Well, I found a girl, beautiful and sweet
Oh, I never knew you were the someone waiting for me
'Cause we were just kids when we fell in love
Not knowing what it was
I will not give you up this time
But darling, just kiss me slow, your heart is all I own
And in your eyes, you're holding mine
Baby, I'm dancing in the dark with you between my arms
Barefoot on the grass, listening to our favourite song
When you said you looked a mess, I whispered underneath my breath
But you heard it, darling, you look perfect tonight
Well I found a woman, stronger than anyone I know
She shares my dreams, I hope that someday I'll share her home
I found a love, to carry more than just my secrets
To carry love, to carry children of our own
We are still kids, but we're so in love
Fighting against all odds
I know we'll be alright this time
Darling, just hold my hand
Be my girl, I'll be your man
I see my future in your eyes
Baby, I'm dancing in the dark, with you between my arms
Barefoot on the grass, listening to our favorite song
When I saw you in that dress, looking so beautiful
I don't deserve this, darling, you look perfect tonight
Baby, I'm dancing in the dark, with you between my arms
Barefoot on the grass, listening to our favorite song
I have faith in what I see
Now I know I have met an angel in person
And she looks perfect
I don't deserve this
You look perfect tonight
’’کیا تم محسوس کرسکتی ہو وہ جو میں محسوس کررہا ہوں؟‘‘ اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکائے اس نے سرگوشی نما آواز میں سوال کیا
’’نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔‘‘ اس کی آواز کانپتی اور بھیگی ہوئی تھی۔
آنکھیں کھولے جہانگیر نے اس کانپتے وجود کو دیکھ تھا جو پہلے اس کی ضد، پھر اس کا جنون اور اب عشق بن گئی تھی۔
’’لک ایٹ می زویا!‘‘ وہ بھاری مگر مدھم آواز میں بولا
زویا کا سر تیزی سے نفی میں ہلا تھا۔
’’زویا۔‘‘ اس کی سخت آواز پر اس نے خوف سے آنکھیں کھولے اسے دیکھا تھا جو اپنی بھوری آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’مائین۔۔۔۔۔اونلی مائین۔۔۔۔۔‘‘ اسے اپنے سینے میں بھینچے وہ اتنی شدت اختیار کرگیا تھا کہ خوف سے زویا کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
’’چچ۔۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔۔‘‘ اس کے سینے پر مکے مارتی وہ سسکی تھی۔
’’چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ مگر صرف ابھی کے لیے۔۔۔۔۔۔ صرف ایک ہفتہ میری جان۔۔۔ جسٹ ون ویک۔۔۔۔۔۔‘‘ اس اپنی قید سے آزاد کرتے وہ مسکرا کر بولا تھا۔
اس کی بات سنتے ہی وہ تیزی سے مارتھا کی جانب بھاگی تھی۔
’’جیک مائی سن۔۔۔۔۔۔‘‘ مرینہ چوہان اسے وہاں دیکھ کر چونکی تھی۔
وہ جیک کی آمد کو لیکر بالکل لاعلم تھی
’’ان آفس ناؤ۔۔۔۔۔۔ ضروری بات کرنی ہے!‘‘ مرینہ چوہان کی آواز سنتے ہی وہ سپاٹ لہجے میں بولتا دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا
اس کے اس انداز پر وہ کڑھ کر رہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب میں نے منع کیا تھا کہ زویا آج کی نیلامی میں شامل نہیں ہوگی تو پھر وہ اس پارٹی میں کیا کررہی تھی؟‘‘ دونوں ہاتھ ٹیبل پر ٹکائے اس نے غصے سےسوال کیا تھا
’’وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔‘‘
’’وہ، وہ کیا ہاں؟ میری بات ایک دھیان سے، کان کھول کر سن لے اور حفظ کرلے۔۔۔۔۔۔ زویا میری ہے۔۔۔۔۔وہ اپنے سر کی ضد۔۔۔۔۔۔ جیک کا جنون اور اب جہانگیر کا عشق بن چکی ہے۔۔۔۔۔۔ اگر اسے کچھ بھی ہوا تو وہ حشر کروں گا سب کا کہ عبرت کا نشان بن جاؤ گے سب کے سب۔‘‘ اس کی وارننگ پر مرینہ چوہان نے خوف سے تھوک نگلا تھا۔
’’آئی سمجھ؟‘‘ زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے اس نے سوال کیا تھا۔
’’ہہ۔۔۔۔۔ہان!‘‘ مرینہ کا سر تیزی سے اثبات میں ہلا تھا۔
’’گڈ!!۔۔۔۔۔۔۔۔ ناؤ آوٹ!‘‘ انگلی دروازے کی جانب کیے وہ کھڑکی کی جانب رخ کرچکا تھا
غصے سے پیر پٹختی وہ کمرے سے نکل چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مم۔۔۔۔مارتھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مارتھا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔سر۔۔۔‘‘ مارتھا کے گلے لگی وہ سسک رہی تھی۔
’’بب۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچالو۔۔۔۔‘‘ اسے یوں روتے دیکھ مارتھا کو شدید تکلیف ہوئی تھی۔
’’اچھا رونا بند کرے بےبی۔۔۔‘‘ اس کے آنسو صاف کیے مارتھا نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما تھا۔
’’اب میری بات غور سے سنے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلامی کا وقت شروع ہوچکا تھا اور تمام لوگ اس وقت نیلام گھر کی جانب جاچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔
بڑی سے چادر میں اپنے وجود کو چھپاتی۔۔۔۔۔۔ وہ ارد گرد نگاہیں دوڑائیں گیٹ کی جانب آئی تھی۔۔۔۔۔ اس وقت وہاں کوئی بھی گارڈ موجود نہ تھا۔
’’زویا بی بی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زویا بی بی!‘‘ گارڈ جو گیٹ کی جانب آیا تھا چادر میں سے زویا کے فراک کو پہیچانتا اونچی آواز میں چلایا تھا۔
اس کی آواز سن کر زویا کی رفتار مزید تیز ہوگئی تھی۔
’’جیک سر کو بتانا پڑے گا۔‘‘ خود سے بولتا وہ فورا اندر بھاگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارکنگ ایریا میں داخل ہوتے ہی اس نے لمبی لمبی سانسیں لیے خود کو پرسکون کیا تھا۔
خوف اور ڈر سے آس پاس نگاہ دوڑائے وہ گاڑیوں کے بیچ سے چلنے لگی تھی جب اسے دور سے اپنے نام کی پکار سنائی دی تھی۔
’’زویا!‘‘ جہانگیر کی آواز سن کر اس کی آنکھیں پھیلی تھی اور وہ فورا سے وہاں موجود گاڑیوں میں سے ایک کی جانب بڑھی تھی جس کی ڈکی تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی۔
ڈکی میں چھپتی وہ خود کو مکمل طور پر چادر سے چھپا چکی تھی۔
زبان پر ہنوز کلمہ جاری تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔