’’تم نے نکاح کرلیا!!‘‘ اس کی بات سنتے وہ دونوں چلا اٹھے تھے۔
’’گائز!!‘‘ آس پاس موجود لوگوں کو اپنی جانب متوجہ پاکر معتسیم نے انہیں گھرکا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ پہلے ہی پریشان تھا۔۔۔۔
نکاح کا یوں اتنی جلدی میں ہونا؟ پہلے اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔مگر بعد میں جاوید آفندی کے انکشاف پر وہ کمال صاحب اور ان کی بیوی سے نظریں ملانے کے قابل نہ رہا تھا۔
بات اس حد تک پہنچ جائے گی اس نے سوچا تک نہ تھا۔
’’مگر یہ سب اتنی جلدی۔۔۔۔۔ معتسیم۔۔۔۔‘‘ حسان کی تو زبان نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
’’بتا تو رہا ہوں اس وقت کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر ماروا۔۔۔۔ اس کی حالت کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع نہ ملا۔‘‘
’’اچھا چل کوئی نہ ٹینشن نہ لے۔۔۔۔اللہ بہتر کرے گا!‘‘ حمزہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا تھا۔
معتسیم نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا۔۔۔۔ حسان زبردستی کا مسکرایا تھا، اس وقت اسے صوفیہ کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔۔۔۔ اگر اسے معلوم ہوگیا تو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آہ!!!‘‘ چیختی چلاتی وہ تمام کمرہ تہس نہس کرچکی تھی۔
آج ہی زرتاشہ ماورا سے ملنے ہسپتال گئی تھی جہاں اسے ماورا کے نکاح کا علم ہوا تھا۔
اس نے یہ بات ان تینوں سے بھی شئیر کی تھی۔۔۔ جہاں عائزہ اور دعا نے اس نیوز کو نارملی لیا وہی صوفیہ کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین پر گرگیا تھا۔
’’تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو معتسیم؟ کیسے۔۔۔۔۔۔۔ تم میرے ہو صرف میرے۔۔۔۔۔ وہ ماروا!!!۔۔۔۔۔م کیسے اپنا سکتے ہو اسے۔۔۔۔۔۔۔ میں مار ڈالوں گی سب کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم کردوں گی سب۔۔۔۔۔۔۔ نہیں چھوڑو گی ماورا کو۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔‘‘ سفید پاوڈر کا پیکیٹ نکالے وہ خود کو پرسکون کرنے لگ گئی تھی، مگر بہت جلد ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی وہ زمین پر گرگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
رش ڈرائیونگ کرتا وہ گھر پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے ملازمہ کی کال آئی تھی جس نے اسے صوفیہ کی حالت کے بارے میں بتایا تھا۔۔۔۔۔۔ اس وقت وہ دوڑتا ہوا اس کے کمرے کی جانب آیا تھا اور زور زو سے دروازہ بجارہا تھا۔
عظمیٰ ایک کانفرینس کے لیے آؤٹ آف سٹی گئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
کوئی جواب نہ پاکر اس نے دروازہ توڑ ڈالا تھا جب وہ اسے سامنے زمین پر بےہوش نظر آئی تھی۔۔۔
اسے باہوں میں اٹھائے حسان فورا باہر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔۔
ہسپتال آتے ہی اسے فورا آئی۔سی۔یو میں لیجایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ حسان پریشان سا ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں لال انگارہ ہوگئی تھیں۔
گھنٹے بعد نرس نے حسان کو آکر ڈاکٹر کے کیبین جانے کی اطلاع دی تھی۔
’’مسٹر حسان آپ کی بہن نے بہت ہیوی اماؤنٹ میں ڈرگز لی ہیں۔۔۔۔ ان کی حالت فلحال بہت تشوتش ناک ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پہلے بھی آپ کو وارن کیا تھا مگر لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بہن کی فکر نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر یونہی چلتا رہا تو بہت جلد وہ کسی بڑی مشکل میں پڑ جائے گی۔۔۔۔۔ اور آپ کچھ بھی نہیں کرسکے گے۔‘‘ ڈاکٹر کے سخت الفاظ پر حسان نے لب بھینچ لیے تھے۔
’’میں۔۔۔۔۔میں آئیندہ سے خیال رکھوں گا!‘‘ اس سے زیادہ وہ کچھ بول نہیں سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکے ہارے قدموں سمیت وہ روم میں داخل ہوا تھا جہاں بیڈ پر وہ گم صم سی بیٹھی تھی۔
’’تم نے ایسا کیوں کیا صوفیہ؟‘‘ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے حسان نے تکلیف دہ لہجے میں سوال کیا تھا۔
’’میں جھوٹے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتی‘‘ اپنے ہاتھ کھینچتی وہ تلخی سے بولی تھی۔
’’صوفیہ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آپ نے کہاں تھا وہ میرا ہے، وہ مجھے ملے گا۔۔۔۔۔۔ اسے میرا ہونا تھا تو وہ اس ماورا کا کیسے ہوگیا ؟ اور تم!! تم نے ہونے دیا ایسا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔جھوٹے ہو تم۔۔۔۔۔۔ سب جھوٹے ہیں۔۔۔۔۔ تم نے جھوٹ بولا کہ معتسیم میرا ہے مگر وہ اس ماورا کا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹے ہو تم۔۔۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو!‘‘ اسے دھیکیلتی وہ غصے سے بولی تھی۔
’’صوفیہ‘‘ حسان آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تھا۔
’’معتسیم!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں، میں مرجاؤں گی اس کے بنا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ چاہیے۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے اسے دے دو۔۔۔۔۔۔۔ وہ، وہ میرا ہے۔۔۔۔۔۔ اس ماورا کا نہیں۔۔۔۔۔ میں مرجاؤں گی۔‘‘ وہ اس کے سینے سے لگی رو رہی تھی۔
حسان کے پاس اسے دلاسہ دینے کو الفاظ تک نہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آرام سے میری جان۔۔۔۔۔۔ادھر آؤ بیٹھو!‘‘ اسے احتیاط سے بیڈ پر بٹھاتی وہ بولی تھی۔
’’ماما مجھے میری گرین شرٹ پریس کردے۔۔۔۔۔۔ دوستوں کے ساتھ جانا ہے۔‘‘ تقی کمرے میں داخل ہوا اسے اگنور کرتا تائی کی جانب دیکھ کر بولا تھا۔
’’تقی بیٹا بہن سے اس کا حال نہیں پوچھو گے؟ ہسپتال سے آئی ہے وہ۔‘‘ تائی جان نے اسے آنکھوں سے اشارہ کیا تھا۔
’’تو؟ مری تھوڑی نہ ہے۔۔۔۔۔۔ اچھی بھلی ہے۔۔۔۔ میرے حال چال پوچھنے سے کیا ہوجانا ہے۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اب جب اپنی کرتوتوں کے باعث ہسپتال پہنچے گی تو کہاں کا حال اور کونسی فکر۔‘‘ تائی اماں تو اس کی زبان کے جوہر دیکھ سن رہ گئی تھی جبکہ ماورا آنسوؤں روکتی سر جھکا گئی تھی۔
’’تقی۔۔۔۔۔۔‘‘ تائی اماں کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
’’ماما پلیز لیٹ ہورہا ہوں شرٹ دے دے۔‘‘ وہ کوفت سے بولا
’’تائی اماں اسے دے دے وہ لیٹ ہورہا ہے۔‘‘ ماورا نقاہت بھری آواز میں بولی تھی۔
ایک پل کو تو تقی کو تکلیف ہوئی تھی مگر اگلے ہی لمحے وہ لب بھینچ گیا تھا۔
تائی اماں اپنی اولاد پر افسردہ نگاہ ڈالتی کمرے سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ان کے قدموں پر چلتا وہ بھی ان کے پیچھے چلا گیا تھا۔
ایک دم سے آنسوؤں روانی سے اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔ اس وقت اسے شدت سے معتسیم سے نفرت محسوس ہورہی تھی جس کی وجہ سے وہ آج اس حال تک پہنچ گئی تھی۔
’’کبھی معاف نہیں کروں گی میں تمہیں۔۔۔۔۔ بدلا ضرور لوں گی تم سے‘‘ وہ بےدردی سے آنسو صاف کرتی بڑبڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ ہوگیا تھا مگر وہ یونی نہیں آرہی تھی۔۔۔۔۔۔ فائنلز سر پر کھڑے تھے مگر معتسیم کو اس کی فکر کھائے جارہی تھی۔ سر حمدانی کے بقول وہ ڈسچارج ہوکر گھر چلی گئی تھی اور اب پہلے سے بہت بہتر بھی تھی مگر وہ کیوں نہیں آرہی تھی۔
جاوید آفندی اور عظمیٰ بیگم دونوں مل آئے تھے اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔ کمال صاحب نے گھر میں ان کا تعارف ایک دوست کی حیثیت سے کروایا تھا۔۔۔۔۔۔ فلحال انہوں نے نکاح کو سب سے چھپانا ہی بہتر سمجھا تھا۔۔۔۔۔۔ ورنہ یوں بیٹی کا نکاح۔۔۔۔۔۔ وہ مزید ماورا کی ذات کو لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’معتسیم آفندی؟‘‘ ایک سٹوڈنٹ نے آکر اس سے سوال کیا تھا
’’یس؟‘‘ معتسیم اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
’’وہ سر دانش نے آپ کو بلایا ہے روم نمبر ۱۰ میں۔۔۔۔۔ پروجیکٹر مسئلہ کررہا ہے۔۔۔۔ آپ آکر دیکھ لے!‘‘ اس کی بات سنتا وہ سر اثبات میں ہلائے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔
وہ کلاس روم میں اینٹر ہوا تھا تو روم خالی دیکھ کر چونکا تھا۔۔۔۔۔۔ اس سے ہہلے وہ باہر نکلتا صوفیہ روم کو لاک کرچکی تھی۔
معتسیم نے تعجب سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
سرخ لپ اسٹک لگائے۔۔۔۔۔۔ فٹنگ والے کپڑے پہنے۔۔۔۔۔ وہ معتسیم کو دیکھ کر ایک ادا سے مسکرائی تھی۔
’’تو تم نے ماورا سے نکاح کرلیا؟‘‘ اس نے آبرو اچکائے سوال کیا تھا
’’ہاں!‘‘ خود کو پرسکون کرتے معتسیم نے جواب دیا تھا اور اس کے پاس سے گزر کر باہر جانے کی راہ لی جب وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔
’’اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایک نگاہ کرم مجھے پر بھی ڈال لو۔۔۔آج خاص تمہارے لیے اتنا تیار ہوکر آئی پو۔۔۔۔۔۔ اتنی بےرخی بھی اچھی نہیں!‘‘ اس کے گال پر انگلی پھیرتی وہ سرگوشانہ لہجے میں بولی تھی۔
معتسیم نے نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
’’افف ایک تو یہ آنکھیں!‘‘ اس نے دل پر ہاتھ رکھا۔
’’آج میں تمہیں یہاں سے کہی نہیں جانے دوں گی معتسیم۔۔۔۔۔۔ بلکہ تمہیں اس بات کا احساس دلاؤں گی کہ تم نے ہیرے کو چھوڑ کر کس کوئلے کو اپنا لیا۔۔۔۔۔۔ آج تم یہاں سے میرے بن کر ہی نکلو گے۔‘‘ اس پیچھے کی جانب دکھا دیتی وہ مسکرا کر بولی تھی۔
اسے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھ معتسیم کی آنکھیں پھیلی تھی۔
’’کیا کوئی لڑکی اس حد تک بھی گر سکتی ہے؟‘‘ معتسیم کو یقین نہیں آرہا تھا۔
’’ٹوڈے یو آر گوئنگ ٹو بی مائین معتسیم۔‘‘ اس سے پہلے وہ ہر حد پار کردیتی معتسیم کا بھاری ہاتھ اس کے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا۔
صوفیہ نے بےیقینی سے معتسیم کو دیکھا جیسے ابھی تک یقین نہ آرہا ہو اسے۔
’’تم ایک انتہائی گھٹیا اور گری ہوئی لڑکی ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تم جیسی بےشرم اور بےحیا لڑکی اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔۔۔۔۔ تم میں زرا شرم زرا حیا نہیں ہے کہ کیا کرنے چلی تھی تم؟ اگر میری جگہ کوئی اور مرد ہوتا تو تم سے فائدہ بھی حاصل کرتا اور اپناتا بھی نہ۔۔۔۔۔۔ مگر تم جیسی لڑکیوں کو یہ بات کہاں سمجھ آتی ہے۔۔۔۔۔۔ تف ہے تم پر صوفیہ۔۔۔۔۔ تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ افسوس سے سر نفی میں ہلائے وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا
’’اور ہاں ایک آخری بات۔۔۔۔۔۔ میں نے ماورا کو کیوں چنا۔۔۔۔۔۔ تو بھلے وہ تم جتنی خوبصوت نہ ہو، مگر کردار تم سے اعلیٰ ہے اس کا۔۔۔۔۔ تم خود کو ہیرا اور اس کو کوئلہ سمجھتی ہو مگر اصل میں کوئلہ تو تم ہو۔۔۔۔۔۔ آج کے بعد میری نگاہوں کے سامنے نہ آنا۔۔۔۔۔ اور ہاں یہ بات بھی اپنے پلے باندھ لو کہ تم جیسی عورتوں سے مرد صرف دل لگی کرتا ہے جو خود اپنے آپ کو سامنے پیش کردے۔۔۔۔ تم اس قابل نہیں کہ تم سے محبت کی جائے یا گھر بسایا جائے!‘‘ اس پر حقارت بھری نگاہ ڈالے وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔
صوفیہ تو ابھی تک اپنے گال پر ہاتھ رکھے بےیقین کھڑی تھی۔
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا معتسیم۔۔۔۔۔ مجھے دھتکار کر بالکل اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ بہت برا ہوگا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔ چھوڑو گی نہیں تمہیں میں!‘‘ وہ پاگلوں کی طرح بڑبڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ کافی دنوں بعد یونی آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سر جھکائے وہ سب کو اگنور کیے اپنی کلاس کی جانب بڑھی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جسے سب اسے ہی دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔ اس نے کسی سے بھی نظریں ملانے کے کوشش نہیں کی تھی۔
’’ماورا!‘‘ زرتاشہ کے پکارنے پر وہ چونکی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس کے سوال پر اس نے تمام کلاس کو دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
’’کچھ نہیں‘‘ اس کے جواب پر زرتاشہ نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’ان کی جانب دھیان نہ دو۔۔۔۔۔ جتنا سوچو گی اتنی ہی تمہیں تکلیف ہوگی۔‘‘ زرتاشہ کی بات پر اس نے محض سر ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرتاشہ کے ہمت دلانے پر وہ ان کے ساتھ کینٹین میں آگئی تھی اس کے پیر راستے میں رک گئے تھے جب سامنے ہی وہ ٹیبل پر بیٹھا حمزہ سے کوئی اہم بات کررہا تھا۔۔۔۔
اس کے ماتھے پر لکیریں واضع تھیں۔
کسی احساس کے تحت معتسیم نے سر اٹھائے سامنے دیکھا جہاں وہ کھڑی آنکھیں پھیلائیں اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
’’ماورا‘‘ وہ فورا اس کی جانب بڑھا تھا جبکہ سر نفی میں ہلائے وہ الٹے قدموں وہاں سےبھاگی تھی۔
معتسیم بھی اس کے پیچھے ہی بھاگا تھا۔۔۔۔۔۔ یہی صحیح وقت تھا اس کے تمام گلے شکوے مٹانے کا کیونکہ اس کے بعد اسے ہاتھ نہیں آنا تھا۔۔۔۔۔
بھاگتی ہوئی وہ پھولی سانسوں سمیت وہ یونی کی بیک پر موجود سٹور روم کی جانب آگئی تھی۔
وہاں موجود ایک بینچ پر بیٹھی لمبے لمبے سانس بھرتی رونے میں مصروف تھی جب معتسیم بھاگتا ہوا اس کی جانب آیا تھا
’’ماورا۔۔۔۔‘‘ اس کی پکار وہ غصے سے منہ پھیر گئی تھی۔۔۔۔۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا تمتمانے لگ گیا تھا۔
’’ہے لسن ٹو می پلیز۔۔‘‘ اس سے پہلےوہ اس کے ہاتھ تھامتا ماورا نے غصے سے اس کے ہاتھوں کو جھٹکا تھا۔
’’اللہ اللہ اتنا غصہ؟‘‘ وہ مصنوعی حیرانگی سے بولا جبکہ آنکھوں میں شرارت واضع ناچ رہی تھی۔
’’تم بدتمیز، گھٹیا انسان۔۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے صرف تمہاری وجہ سے مجھے اتنا کچھ برداشت کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔ سب لوگوں نے مجھے برا بھلا کہا۔۔۔۔۔ مجھ پر ہنسے۔۔۔۔۔۔ پھوپھو، چاچا، چچیاں سب لوگ مجھے نفرت اور حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ سب سٹوڈنٹ مجھ پر باتیں کرتے ہیں اور تم۔۔۔۔۔۔۔ تم یہاں کھڑے مجھ پر ہنس رہے ہو۔۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو۔۔۔۔ سنا تم نے آئی ہیٹ یو۔۔‘‘ اسے پیچھے کو دھکا دیے وہ زور زور سے چلاتی رو دی تھی۔
معتسیم بھی اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ اس نے افسوس سے ماورا کو دیکھا تھا جو سر جھکائے رو رہی تھی۔
ایک آخری شکایتی نگاہ اس پر ڈالتے اس نے چند قدم آگے لیے تھے جب چکر آنے کی وجہ سے وہ لڑکھڑا گئی تھی۔
’’ماورا!‘‘ معتسیم نے جلدی آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا اور اسے بینچ پر بٹھایا تھا۔
’’کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔۔ کچھ کھایا تم نے؟‘‘ اس کے سوال کو ماورا نے برے سے نظرانداز کردیا تھا
’’میں نے کچھ پوچھا ہے ماورا کچھ کھایا تم نے؟‘‘ معتسیم کو اب اس پر غصہ آنے لگ گیا تھا۔۔۔۔۔ اسی لیے زرا سخت لہجے میں سوال کیا مگر پھر سے خاموشی۔
’’ماورا۔‘‘ اب کی بات اس نے دانت پیسے تھے۔۔۔۔۔۔ ماورا نے نگاہ اٹھائے اسے دیکھا تھا جو اب غصے سے اسے گھور رہا تھا۔
خفگی سے اسے گھورے اس نے سر جھکائے نفی میں ہلایا تھا۔۔۔۔۔۔ معتسیم نے گہری سانس خارج کی تھی۔
پینٹ کی جیب کو ٹٹولے اس نے بسکٹ کا پیکٹ نکالا تھا۔۔۔۔ پیک میں سے ایک بسکٹ نکالے اس کے لبوں کی جانب لے گیا تھا جس پر ماورا لب بھینچ گئی تھی۔
’’کھاؤ‘‘ اس نے آنکھیں دکھائی
’’نہیں کھاؤ گی۔۔۔۔۔ بالکل بھی کھاؤ گی اور تمہارے ہاتھوں سے تو کبھی بھی نہیں‘‘ وہ روتی ہوئی تڑخ کر بولی تھی۔
’’میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہیں کھاؤ گی۔۔۔۔۔ تمہارے تو نخرے ہی ختم نہیں ہورہے‘‘ اس کے چہرے کو جبڑے سے تھامے اسے نے زبردستی بسکٹ اس کے منہ میں ڈالا تھا۔
’’آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ تم، تم بہت برے ہو۔۔۔۔۔۔نہیں چھوڑو گی تمہیں۔۔۔۔۔۔ دیکھنا ضرور بدلا لوں گی تم سے میں‘‘ وہ غصے کی شدت سے چلائی تھی۔
’’تو چھوڑنے کو کون کافر کہہ رہا ہے؟‘‘ وہ اپنی مطلب کی بات نکالتا لب دبائے بولا تھا۔
’’تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔ جاؤ، چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے ہاتھوں کو جھٹکتی وہ مزید آگ بگولا ہوئی تھی۔
’’ہے اتنا غصہ؟ اچھا نہیں میری جان۔۔۔۔۔ ابھی ابھی تو بیماری سے اٹھی ہو۔۔۔۔۔ دوبارہ بیمار ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ اسے اپنے گھیرے میں لیے معتسیم نے دونوں ابرو اچکائے سوال کیا تھا۔
’’تم، تم کتنے گھٹیا ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں نے اتنی اذیت، اتنی تکلیف سہی مگر تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔۔۔۔۔۔ تم کتنے بےحس ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ رونے کی وجہ سے اس کی تھوڑی ہلنے لگ گئی تھی۔
’’تم نے مجھے حاصل کرنا تھا نا؟ مگر ایک بات سن لو غور سے تم مجھے پاکر بھی کبھی پا نہیں سکو گے۔۔۔۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو معتسیم۔۔۔۔۔۔ اور تم سے بدلا ضرور لوں گی میں۔۔۔۔۔ تم میری ہر اذیت کا حساب چکاؤ گے۔۔۔۔ جیسے میں روئی ہوں دیکھنا تم بھی روؤں گے!‘‘ غصے سے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچے وہ چیخی تھی۔
’’میں انتظار کروں گا جانِ معتسیم!‘‘ اس کے کان میں سرگوشی کرتا، اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے وہ اسے ساکن کرگیا تھا۔
’’چچ۔۔۔۔چھوڑو مجھے‘‘ غصہ ایک پل میں ہوا ہوا تھا۔
’’ویسے ایک بار پھر بولو نا!‘‘ وہ مسکراہٹ دبائے بولا
’’کک۔۔۔کیا؟‘‘ ماورا گڑبڑائی
’’میرا نام۔۔۔۔۔ سن کر اچھا لگا۔۔۔۔۔لو نا!‘‘ اس کی بات سن کر ماورا نے مزید اس کی پناہوں میں سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔
آخر کار ہنستے ہوئے معتسیم نے اسے آزاد کردیا تھا۔
’’اللہ!! میری معصوم بلی!‘‘ ایک آخری بار اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتا وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔
ماورا نے غصے سے اس کی پشت کو تکا اور بینچ پر بیٹھتے زور سے وہاں ہاتھ مارا تھا۔
مگر وہ اکیلی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ وہاں موجود ایک اور وجود نے بھی سلگتی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔۔
کافی دیر بعد جب وہ پرسکون ہوگئی تھی تو بیگ اٹھاتی غصے سے وہاں سے واک آؤٹ کرگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلتی وہ رونے کے در پر پہنچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ آج اسے سر حمدانی کی فائنل اسائنمنٹ جمع کروانی تو جو پھر سے غائب تھی۔
’’ایک تو نجانے سر حمدانی کے لیکچر میں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ غصے سے سوچتے اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے تھے۔
’’ماورا؟ تم یہاں؟ کیا سب ٹھیک ہے؟‘‘ حمزہ جو کلاس کے لیے لیٹ ہوگیا تھا اسے گراؤنڈ میں یہاں سے وہاں چکر لگاتے دیکھ اس کی جانب آیا تھا۔
’’نہیں کچھ ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔ اور میری لائف سب ٹھیک کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ وہ بھی تب، جب آپ کا منہوس دوست میری زندگی میں زبردستی شامل ہوگیا ہے!‘‘ وہ چڑ کر بولی تھی۔
’’او۔۔۔او۔۔۔ کے‘‘ حمزہ اس کے غصے سے گھبراتا کچھ قدم پیچھے ہوا تھا اور ساتھ ہی معتسیم کو کال ملائی تھی۔
تھوڑی دیر میں معتسیم بھاگتا ہوا وہاں آیا تھا۔
’’کیا ہوا اینی پرابلم؟‘‘
’’مجھ سے کیا پوچھ رہا ہے اپنی بیوی سے پوچھ‘‘ حمزہ کی بات پر اس نے ماورا کو دیکھا جو پھر سے رو رہی تھی۔
’’میں جارہا ہوں کلاس میں اپنی بیوی کو اب خود سنبھال!‘‘ حمزہ بولتا وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا تھا۔
’’ایک تو لڑکیاں معلوم نہیں اتنا رو کیسے لیتی ہیں؟‘‘ بڑبڑاتا وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘ اس کے پاس بیٹھے معتسیم نے سوال کیا
’’سر حمدانی کی اسائنمنٹ اتنی محنت سے بنائی تھی۔۔۔۔‘‘
’’پھر سے گما دی؟‘‘ معتسیم کی بات پر ماورا نے اسے گھورا تھا۔
’’میں نے گمائی۔۔۔۔۔وہ، وہ خود گم گئی!‘‘ سر جھکائے اس نے جرم کا اعتراف کیا
’’واللہ خود گم گئی۔۔۔۔۔ ماشااللہ‘‘ معتسیم نے اسے داد دی
’’مدد نہیں کرنی تو مت کرو۔۔۔۔۔۔ یوں طعنہ بھی مت دو‘‘ وہ چڑ کر بولی
’’اچھا آخری بار کہاں تھی کلاس سے پہلے؟ کچھ یاد ہے؟‘‘ معتسیم کی بات پر اس نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا
’’یونی کی بیک پر۔۔۔‘‘ وہ اسے گھورتی سر جھکا گئی تھی جبکہ معتسیم کے لبوں پر خوبصورت سی مسکان آٹھہری تھی۔
’’اچھا تم یہی رکو میں وہاں سے دیکھ کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ اوکے!‘‘ معتسیم کی بات پر اس نے پہلے دن کی طرح سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’اور ہاں زیادہ ٹینشن مت لیا کرو‘‘ اس کے ماتھے پر انگلی مارتا وہ مسکرایا تھا۔
’’بدتمیز‘‘ ماتھا مسلتی وہ بڑبڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہے صوفیہ اٹس انفف۔۔۔۔۔ بس کردو اور کتنی ڈوز لو گی تم!‘‘ زرتاشہ نے اسے پریشانی سے دیکھا تھا جس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں تھی۔۔۔۔ اب اس نے سیگریٹ سلگائی تھی اور اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کی کوشش میں تھی۔۔
نظروں کے سامنے بار بار معتسیم کی والہانہ نگاہیں گھوم رہی تھی جو کسی اور کے لیے تھے۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں پانی سے بھرگئیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کہاں رکھ دی ہوگی اس نے فائل،۔۔۔۔۔ارے یہ رہی‘‘ فائل ڈھنوڈتے اس نے زرا سا رخ موڑا تو بینچ کی سائڈ پر گری ملی
’’یہ لڑکی بھی نہ۔۔۔۔۔۔ دھمکیاں دیکھو اور کام دیکھو‘‘ اس کی فائل اٹھائے اس نے سر افسوس سے نفی میں ہلایا ۔
اس سے پہلے وہ وہاں سے نکلتا کچھ آوازیں اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
’’یہاں کون ہوسکتا ہے؟‘‘ متجسس سا وہ سٹور روم کی جانب بڑھا تھا جس کے ساتھ ہی ایک تنگ گلی تھی۔
مگر وہاں پہنچتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی جہاں سامنے ہی وہ چاروں ڈرگز لینے میں مصروف تھی۔
’’یہ۔۔۔۔یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ معتسیم کی آواز پر وہ تینوں اپنی جگہ سے اچھلی تھی۔۔۔۔ جبکہ صوفیہ دوبارہ سیگریٹ پینے لگ گئی تھی۔
’’تم لوگ۔۔۔۔۔ تم لوگ ڈرگز لے رہیں تھی؟‘‘ اس کی آواز میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔
’’معتسیم۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس سے پہلے زرتاشہ کچھ بولتی معتسیم نے اسے بولنے سے روک دیا تھا۔
’’مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننتی زرتاشہ اب جو بات بھی ہوگی وہ ایچ۔او۔ڈی اور باقی سٹاف لے سامنے ہوگی۔‘‘ ان سب کو غضب ناک نگاہوں سے گھورتا وہ فورا وہاں سے پلٹا تھا
’’معتسیم!‘‘ دعا، عائزہ اور زرتاشہ ان تینوں کے چہروں کا رنگ بدل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہمیں، ہمیں اسے روکنا ہوگا!‘‘ اس وقت وہ چاروں صوفیہ کے گھر اس کے روم میں موجود تھیں۔
زرتاشہ ادھر سے ادھر چکر کاٹتی بولی تھی۔
’’مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے!‘‘ دعا پریشانی سے بولی تھی۔
’’ریلیکس گائز وہ کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔ اس نے صرف ہمیں ڈرگز لیتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔ اس کے پاس کوئی پروف نہیں۔۔۔۔ تو اس کے دیکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ صوفیہ نے مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
’’فرق پڑتا ہے صوفیہ۔۔۔۔ وہ معتسیم۔۔۔۔۔ پورا ڈیپارٹمنٹ اس کی سچائی اور ایمانداری کے گن گاتا ہیں۔۔۔۔ اور اگر اس نے یہ بات ایچ۔او۔ڈی سے کردی تو جانتی ہو کیا ہوگا؟ ایک کمیٹی بیٹھے گی اور ہمارا میڈیکل ہوگا۔۔۔۔۔۔ اور میڈیکل اس بات کو کلئیر کردے گا کہ ہم ڈرگز لیتے ہیں!‘‘ زرتاشہ کی بات پر اب صوفیہ بھی پریشان ہورہی تھی۔
’’اففف وہ معتسیم نجانے کیا کرے گا وہ!‘‘ عائزہ ہاتھ مڑوڑتی بولی تھی۔
’’وہ کچھ کرے اس سے پہلے ہم کچھ ایسا کردے گے کہ وہ شخص ہمیں زرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا پائے گا!‘‘ صوفیہ کچھ سوچتی یکدم مسکرائی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ زرتاشہ کے چونک کر پوچھنے پر صوفیہ مسکرائی تھی۔۔۔۔ ایک عجیب مسکراہٹ۔۔۔
’’نننن۔۔۔۔۔۔۔نہیں، نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ صوفیہ یہ غلط ہے۔‘‘ زرتاشہ نے اس کی بات سن کر سر زور سے نفی میں ہلایا تھا۔
’’اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ دیکھو زرتاشہ وہ مرد ہے، آج لوگ اسے گالیاں نکالے گے تو کل کو بھول جائے گے جب کہ ہم لڑکیاں۔۔۔۔۔ ہمیں تاعمر، مرتے دم تک طعنے ملتے رہیں گے۔۔۔۔۔ اب تم خود سمجھدار ہو!‘‘ صوفیہ نے بات نہایت خوبصورت انداز میں گھمائی تھی۔
’’مگر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نو نو صوفیہ ٹھیک کہہ رہی زرتاشہ۔۔۔۔۔ یہ ہم سب کے فیوچر کا سوال ہے۔۔۔۔۔ اس کا کیا اگر سائکائٹرسٹ نہ بھی بنا تو اس کا باپ پولیس میں ہے سفارش پر لگوا دے گا نوکری پر مگر ہم۔۔۔۔ نہیں میں اپنا فیوچر برباد نہیں ہونے دے سکتی۔۔۔۔۔۔ پلیز زرتاشہ!‘‘ عائزہ باقاعدہ رونے لگ گئی تھی۔
زرتاشہ نے لب کچلتے ان تینوں کی جانب دیکھا اور آخر کار ہار مان لی۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ ان کا اٹھایا یہ قدم نجانے کتنی زندگیوں کو نگل لے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اچھا تو کب واپس آئے گا تو؟‘‘ معتسیم نے حمزہ نے سوال کیا تھا جس نے آج ہی اسے اپنے یورپ جانے کے بارے میں بتایا تھا۔
’’یار آجاؤں گا ایک ہفتے تک۔۔۔۔۔۔ فائنلز سے پہلے پہلے آجاؤں گا میں!‘‘ حمزہ نے اسے جواب دیا۔
سر اثبات میں ہلائے معتسیم پھر سے شیک کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔
’’کیا ہوا معتسیم تو کچھ پریشان لگ رہا ہے؟‘‘ حمزہ نے اس کی پریشانی بھانپ لی تھی۔
’’یار معلوم نہیں۔۔۔۔۔ ماما، بابا وہ کچھ پریشان ہے آج کل۔۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں جب کوئی کال آتی ہے تو ماما مجھے منع کردیتی ہے اٹینڈ کرنے سے۔۔۔۔۔۔۔ ہر وقت ٹینشن میں رہتے ہیں وہ دونوں!‘‘ معتسیم گہری سانس خارج کرتے بولا۔
’’اچھا فکر مت کر سب ٹھیک ہوجائے گا!‘‘ حمزہ نے اسے دلاسہ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’صوفیہ۔۔۔۔ صوفیہ میری جان کیا ہوا؟‘‘ اسے یوں روتے دیکھ حسان پریشان ہوا تھا۔
’’بھائی۔۔۔۔بھائی وہ مع۔۔۔۔معتسیم۔۔۔۔۔۔ بھائی!‘‘ وہ بری طرح سے رو دی تھی
’’معتسیم کیا؟ کیا کیا اس نے؟‘‘ حسان جلدی سے اس کے پاس بیٹھا تھا۔
’’بھائی وہ یہ۔۔۔۔‘‘ صوفیہ نے اپنا موبائل اس کے آگے کیا تھا۔۔۔۔ حسان کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ۔۔۔۔۔۔یہ سب کیا ہے؟‘‘ ماورا کو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
’’یہ۔۔۔یہ سچ ہے ماورا!‘‘ زرتاشہ نے نظریں چرائی۔
’’نن۔۔۔۔۔۔نہیں ایسا، ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگیا تھا۔۔۔۔
آنکھوں میں نمی لیے وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی۔
زرتاشہ نے تکلیف سے لب کچلے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں اسے چھوڑوں گا نہیں قتل کردوں گا میں اس کا!‘‘ حسان پاگل سا ہوکر چلایا تھا۔
’’نہیں بھائی آپ ایسا کچھ نہیں کرے گے! اب جو بھی کروں گی وہ میں کروں گی۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو بس میرا ساتھ دینا ہے! دے گے نا؟‘‘ صوفیہ کے پوچھتے ہی حسان نے اسے گلے لگایا تھا۔
’’تم نے مجھے ٹھکڑا کر اچھا نہیں کیا معتسیم آفندی اب وقت آگیا ہے کہ تم سزا بھگتو!‘‘ وہ من ہی من بولتی مسکرائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ڈسگسٹنگ!!‘‘ بال پوائنٹ کو زور سے شیشے کی ٹیبل پر پٹخے میم عظمیٰ نے پہلے معتسیم کو گھورا جو گویا پتھر ہوچکا تھا اور ایک افسردہ سی نگاہ ان چار چہروں پر ڈالی جن کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔
’’ایسا کب تک چلے گا سر حمدانی۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں ہوتا کہ ہماری یونی ایسے کردار کے گرے ہوئے لوگوں کو سپانسر کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار چار۔۔۔۔۔۔ چار چار لڑکیوں کو ہراساں کیا ہے آپ کے اس ہونہار، ہوشیار، باادب اور باتہذیب سٹوڈنٹ نے۔۔۔۔۔۔۔ جس کے گن گا گا آپ تھکتے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔ تو آج دیکھ لیجیئے اس کی اصلیت۔۔۔۔۔۔‘‘ میم عظمیٰ یکدم پھٹ پڑی تھی۔
’’میم پلیز تحمل۔۔۔۔۔۔‘‘ سر حمدانی مدھم آواز میں بولے تھے۔
’’تحمل؟ لائیک سیریسلی؟ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ نے اسے ابھی تک یہاں رکھا کیوں ہوا ہے؟ نکال باہر پھینکے اس گندے اور گھٹیا انسان کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے اس شخص کو تو پولیس کے حوالے کردینا چاہیے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ مجھے تحمل سے کام لینے کو بول رہے ہیں؟‘‘ اپنی چئیر سے ایک جھٹکے سے اٹھتی وہ اونچی آواز میں چلائی تھی۔
سر حمدانی نے پریشانی نے ماتھا مسلا تھا اور ایک نگاہ اس پر ڈالی جس کا پورا وجود جامد ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ گویا اس کے اعصاب صلب کرلیے گئے ہو۔
ہاتھ میں موجود موبائل پر میسجیز کو پڑھ کر ڈین کے چہرے کا رنگ بھی بدلا تھا۔۔۔
’’میم عظمیٰ پلیز۔۔۔۔۔۔ کول ڈاؤن!!‘‘ اب کی بار ڈین کا مہذب اور سخت لہجہ انہیں ڈین کی جانب متوجہ کرگیا تھا۔
’’مگر سر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میم!!‘‘ ڈین کا اٹل لہجہ انہیں خاموش کروا گیا تھا۔
’’حمدانی صاحب آپ کچھ کہنا چاہے گے اپنے سٹوڈنٹ کے ڈیفینس میں؟‘‘ ڈین اب سر حمدانی کی جانب متوجہ ہوئے تھے جو بس اسے تکے جارہے تھے۔
’’مجھے یقین نہیں!‘‘ سر حمدانی کا سر نفی میں ہلا تھا۔
’’سرئیسلی؟‘‘ میم عظمیٰ پھر سے بھڑک اٹھی۔
’’میم عظمیٰ‘‘ ڈین نے اب کی بار درشت لہجے میں انہیں ٹوکا تھا۔
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔ میں، میں بہت اچھے سے جانتا ہوں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شفاف کردار ہے اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکل ایک صاف بہتے جھرنے کی طرح!!‘‘ اس وجود کو دیکھتے وہ اپنے لہجے میں ہلکی نمی لیے بولے تھے۔
’’اچھا!! شفاف کردار؟ تو آپ کیا کہنا چاہتے ہے کہ یہ سب میری سٹوڈنٹس کا کیا دھرا ہے؟ انہوں نے خود اپنے کردار پر کیچڑ اچھالا ہے؟ آپ بتائے سر کیا کوئی لڑکی؟ کوئی عورت کیا ایسا کرسکتی ہے؟‘‘ میم عظمیٰ ڈین کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
ڈین نے ایک نگاہ سر حمدانی اور دوسری اس وجود پر ڈالی تھی اور پھر ان چاروں کو دیکھا جن کے سر جھکے ہوئے تھے اور ایک آخری نگاہ غصے سے بھری میم عظمیٰ پر۔۔۔۔۔۔۔
’’سر حمدانی میں آخری بار آپ سے پوچھ رہا ہوں کیا آپ کے پاس اپنے سٹوڈنٹ کو انوسینٹ ڈکلئیر کرنے کے لیے کوئی ثبوت ہے؟‘‘ ڈین سر حمدانی کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’نہیں مگر اس کا کردار۔۔۔۔۔۔‘‘
’’فار گاڈ سیک سر حمدانی۔۔۔۔۔۔۔ کردار، کردار، کردار۔۔۔۔۔۔ اس کردار کی گردان کر دینے سے آپ کا سٹوڈنٹ گلٹی ہونے سے بچ نہیں جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کے سٹوڈنٹ کے پاس اپنی انوسینس کا کوئی پرووف ہے؟ اگر نہیں تو آئی ایم سوری مگر مجھے ایک سخت قدم اٹھانا ہوگا۔۔۔۔۔ میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتا!! ان بچیوں نے جو ایلیگیشن (الزام) لگایا اس کا پروف ہے ان کے پاس، مگر آپ کے سٹوڈنٹ نے ابھی تک اپنے ڈیفینس میں ایک لفظ تک نہیں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری ٹو سے سر حمدانی مگر اس اٹیٹیوڈ کے بعد میں آپ کے اس انمول رتن کو اپنی یونی میں نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔‘‘ ڈین کے سخت الفاظ ان دونوں نفوس کا دل چیر گئے تھے۔
میم عظمیٰ گردن اکڑائے اپنی سٹوڈنٹس کو مسکرا کر دیکھا تھا انہوں نے بھی مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’سر حمدانی اب مجھے ایک فیصلہ لینا ہوگا!!‘‘ ڈین ایک ایک لفظ پر زور دیے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے نکلتے ہی اس کے قدم ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند تھے۔۔۔۔۔ سن ہوتے دماغ اور جامد وجود کو گھسیٹتا وہ آفس کی حدود سے نکلتا حال میں داخل ہوا تھا۔۔
اسے یونی سے نکال دیا گیا تھا بلکہ اب وہ کسی بھی یونی میں ایڈمیشن نہیں لے سکتا تھا۔۔۔۔۔ اس کے خلاف ہراسمنٹ کیس پر لیگل ایکشن لیا گیا تھا۔
’’چچچ!!‘‘ آواز پر اس نے نگاہیں اٹھائے سامنے دیکھا جہاں چہرے پر فتح مند مسکراہٹ سجائے وہ اسے دیکھ کر ہنسی تھیں۔ اوپر دل جلا دینی والی مسکراہٹ۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھی۔۔۔ ان پر ایک آخری نگاہ ڈالتا وہ گراؤنڈ میں آیا تھا جہاں پوری یونی اکٹھی تھی۔
’’وہ دیکھو وہ رہا!!‘‘ حسان زور سے چلایا تھا۔
اس سے پہلے وہ سمجھ سکتا اس کے پورے منہ پر کالا رنگ مل دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کی قمیض پھاڑ دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس پر پتھروں سے بارش کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ زمین پر گرا اس کا خونی وجود مدھم سانسیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کے خون آلود وجود کو ہاکی سے پیٹا جارہا تھا۔
ایسے میں ایک چاہا، من پسند احساس محسوس کیے اس نے بامشکل پلکیں وا کی تھی۔۔۔
وہ وہی تھی اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔ اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسے یوں روتے دیکھ کر اس تمام عرصے میں پہلی بار اس کے لبوں سے سسکی نکلی تھی۔
’’مم۔۔۔۔۔ماورا!!‘‘ کپکپاتے لہجے میں اس کا نام ادا کیے اس نے اپنا ہاتھ بامشکل اس کی جانب بڑھایا تھا۔
آنکھوں میں نفرت، حقارت لیے وہ سر کو نفی میں ہلائے الٹے قدموں وہاں سے بھاگی تھی۔
’’مم۔۔۔۔ماورا!!‘‘ نقاہت زدہ لہجے میں پکارا گیا وہ نام۔۔۔۔۔۔ اس کا ہاتھ وہی ڈھہہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسسوؤں مسلسل بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔ خون اور گرد میں لپٹا وہ وجود اب ناکارہ ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔