کمرے میں موجود وہ تینوں نفوس اس وقت بالکل خاموش تھے۔۔۔۔ جہاں جاوید آفندی گہری سوچ میں مبتلا تھے وہی کمال صاحب کا سر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔ سر حمدانی دونوں کا گہری نگاہوں سے جائزہ لینے میں مصروف تھے۔
’’میری بیٹی اس تمام قصے میں کس حد تک انوالو ہے؟‘‘ کمال صاحب نے بلآخر خاموشی توڑی تھی۔
’’یہ سب یک طرفہ ہے اس کا اس سب قصے میں کوئی عمل دخل نہیں!‘‘ ان کی پریشانی بھانپتے سر حمدانی بولے تھے۔
’’تو بس میری جانب سے انکار سمجھیے۔۔۔۔۔۔ مجھے میری بیٹی کا رشتہ کسی انجان انسان سے نہیں کرنا اور ایسے انسان سے تو بالکل بھی نہیں جو بھرے مجمے میں اس کی عزت کا جنازہ نکال دے فقط اپنی منہ زور خواہشات پر۔۔۔۔۔۔ نجانے کیسی تربیت کی گئی ہے اس کی جسے عورتوں کی عزت کرنا نہیں آتا۔۔۔ میری بچی کو اس کے کردار کو اس نے لوگوں کی گپ شپ کا موضوع بنادیا۔۔۔اور معاف کیجیئے کا میں اپنی بیٹی کو اندھے کنویں میں نہیں دھکیل سکتا!!۔۔۔۔ ویسے بھی ہم نے اس کا رشتہ اس کی پھوپھو کے ہاں طے کردیا ہے۔‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتے کمال صاحب ان کے سروں پر بم پھوڑتے وہاں سے نکل چکے تھے۔
’’اس کو میں چھوڑوں گا نہیں!‘‘ اپنے خیال میں معتسیم کو کوستے جاوید آفندی نے دانت پیسے تھے۔
سر حمدانی گہری سانس بھر کر رہ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بھائی میرے بیٹھ جا سکون سے کیا ہوگیا ہے تجھے؟‘‘ اسے یہاں وہاں چکر لگاتے دیکھ حمزہ چڑ کر بولا تھا۔
’’نجانے کیا ہوا ہوگا؟ کیا بات ہوئی ہوگی؟ بابا تو تب سے مجھے بس گھورے جارہے تھے جب سے سر حمدانی کی کال آئی تھی۔۔۔۔۔۔ اب سر نے معلوم نہیں بات کیسے کی ہوگی۔۔۔۔۔۔ یارر!!‘‘ یہاں سے وہاں چکر کاٹتا وہ خود سے بولتا جھنجھلا اٹھا تھا۔
’’معتسیم یہ لے ڈیو پی!‘‘ اچانک حمزہ نے پاس پڑا سوڈا کا کین اس کی جانب اچھالا تھا۔
’’اس کا کیا کروں؟‘‘ معتسیم نے ابرو اچکایا
’’اپنے اندر کا ڈر ختم کر۔۔۔۔۔کیونکہ کے ڈر کے آگے جیت ہے!‘‘ حمزہ کی اس فضول بات پر معتسیم نے اسے گھورا تھا
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ سو فنی!‘‘معتسیم طنزیہ ہنسا تھا۔
’’تو بھی کچھ بول۔۔۔۔۔۔ کب سے چپ کا روزہ رکھے بیٹھا ہوا ہے!‘‘ اب کی بار وہ حسان کو دیکھ چڑ کر بولا تھا۔
’’میں؟ میں کیا بولوں؟ مجھے تو ابھی تک تمہارے لیے گئے فیصلے کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب کہ دیکھ نا یار۔۔۔۔۔ ابھی تو نے بی۔ایس کمپلیٹ نہیں کیا، اس کے بعد ہائیر ایجوکیشن۔۔۔۔۔ پھر آگے جاب۔۔۔۔ اور ایسے میں یہ نیا جھنجھٹ۔۔۔ مطلب کے دنیا میں کونسا لڑکیوں کی کمی ہیں، یا تمام لڑکیاں ختم ہوگئی ہیں جو تو اس لڑکی کے پیچھے پڑ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری مان تو چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔۔ اپنے فیوچر پر دھیان دے۔۔۔۔۔ ویسے بھی یو ڈیزروو بیٹر۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ اچھی اور خوبصورت لڑکی مل جائے گی تجھے۔۔۔۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ حسان کا انداز بھلے نارمل تھا مگر الفاظ ذومعنی تھے جنہیں سمجھنے سے معتسیم فلحال قاصر تھا
’’یار حسان میں جانتا ہوں کہ تجھے میری فکر ہے مگر میں۔۔۔۔۔۔ میں تجھے وہ فلنگز۔۔۔۔۔۔ تو ان فیلنگز کا اندازہ نہیں لگا سکتا جو اسے دیکھ کر میں نے محسوس کی ہے۔۔۔۔۔۔ میرا دل۔۔۔۔۔ آہ میں کیسے سمجھاؤں تجھے یہ سب۔۔۔۔ تو نہیں سمجھے گا۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں سمجھے گا۔۔۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی فیوچر کی تو میں کونسا ابھی شادی کا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ منگنی۔۔نہیں نہیں نکاح کرلوں گا۔۔۔۔۔۔ رخصتی چند سال بعد صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی مجھے منگنی پر بھروسہ نہیں!‘‘ اس کے جواب پر حسان غصہ اندر دباتا زبردستی کا مسکرایا تھا۔
وہ تینوں ابھی یونہی باتوں میں مصروف تھے جب جاوید آفندی گھر میں داخل ہوئے تھے۔
’السلام علیکم بابا!‘‘ معتسیم نے جھٹ انہیں سلام پیش کیا جو اس نے غصے بھری نگاہوں سے گھورتے بنا جواب دیے اندر چلے گئے تھے۔
’’مجھے کچھ برا ہونے کی بو کیوں آرہی ہے؟‘‘ حمزہ بولا
’’مجھے بھی!‘‘ حسان نے بھی فورا جواب دیا۔
اور بہت جلد وہ برا ان کے سامنے آگیا تھا جب جاوید آفندی نے معتسیم کی اس کے دوستوں کے سامنے اچھی خاصی لعن تعن کی تھی۔
’’جاوید اب بس بھی کردے!‘‘ عظمیٰ آفندی کو یوں اس کے دوستوں کے سامنے ان کا اسے ذلیل کرنا اچھا نہیں لگا تھا۔
’’میں بس کردوں؟ آپ جانتی بھی ہے اس بچی کے تایا نے کیا کیا سنایا ہے مجھے۔۔۔۔۔ نجانے کیسی تربیت کی ہے ہم نے اپنے بیٹے کی جس کو عورتوں کی عزت کرنا نہیں آتا، ان کی بیٹی کے کرادر کو مشکوک کردیا لوگوں میں وجہ موضوع بنادیا۔۔۔۔۔۔ جانتی ہے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی مجھے!‘‘ وہ غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔
’’ہاں کی یا ناں؟‘‘ اتنی عزت افزائی کے باوجود بھی اس نے سوال کرنے کی ہمت کی تھی۔
’’ماشااللہ دیکھ رہی ہے اپنے بیٹے کی غیرت؟ باپ کو اتنا زلیل کروا کر بھی اسے سکون نہیں ملا۔۔۔۔۔ تو سنیے برخودار منہ پر انکار کیا ہے انہوں نے۔۔۔۔۔ ان کا ایک ایک لفظ تمانچے کی صورت بڑا ہے تمہارے باپ کے چہرے پر۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہہ کرگئے ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس کی پھوپھو کے گھر طے کردیا ہے!‘‘ جاوید صاحب کی بات مکمل ہوتے ہی جہاں معتسیم اسٹیچو ہوا تھا وہی حسان کا چہرہ چمک اٹھا تھا۔
’’آپ۔۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے؟ انہوں نے انکار کردیا؟‘‘ معتسیم کے الفاظ کسی سرگوشی سے کم نہیں تھے۔۔۔۔۔ اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دل میں دبائے وہ الٹے قدموں کمرے کی جانب بھاگا تھا۔
’’معتیسم۔۔‘‘
’’آنٹی ہم دیکھتے ہیں!‘‘ انہیں روکتا حمزہ اس کے پیچھے بھاگا تھا جبکہ حسان پرسکون سا باہر نکل گیا تھا۔ جاوید آفندی نے فقط ہنکارا بھرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نی میں لٹ گئی برباد ہوگئی۔۔۔۔۔۔ کہی کی نہیں رہی میں۔۔۔۔ اس بدبخت، بےحیا، بےشرم لڑکی نے مجھے کئی منہ دکھانے قابل نہیں چھوڑا!‘‘ پھوپھو صوفہ پر بیٹھی اپنا سینہ پیٹتی اسے کوسے جارہی تھی جو ایک کونے میں چور سی بنی کھڑی تھی۔
’’آپا بتائیے تو سہی ہوا کیا ہے؟‘‘ جواد چچا نے فکرمندی سے پوچھا
’’ارے مجھ سے کیا پوچھتا ہے اس منحوس ماری سے پوچھ جس نے پورے زمانے میں رسوا کردیا ہمیں۔۔‘‘ ماورا کو گھورتی وہ پھر سے بین ڈالنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ چچا کی گھوری پر ماورا بھی کپکپا گئی تھی۔
’’ارے آپا آپ کب آئی؟‘‘ کمال صاحب جو ابھی ابھی دفتر سے تھکے ہارے لوٹے تھے اپنی بہن کو یوں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’کمال۔۔۔۔۔ ہائے کمال میرا بھائی۔۔۔۔۔۔ دیکھ کیا ہوگیا؟ دیکھ آج پرائی اولاد کو پالنے کا کیا صلہ ملا ہے تجھے۔۔۔۔۔ جس نے زمانے بھر میں تجھے بدنام کردیا۔۔۔۔۔ کالک مل دی۔۔۔۔ نی تو مر کیوں نہیں عشق و معشوقی کا چکر چلانے سے پہلے۔۔۔۔۔۔ میرے سسرال بھر میں مجھے ذلیل کروا کر رکھ دیا۔!!‘‘ پھوپھی کی بات پر ایک لمحے کو سب سکت ہوگئے تھے حتیٰ کہ تائی امی بھی جنہوں نے بےیقین نگاہوں سے ماورا کو دیکھا تھا جو نگاہیں جھکائے لب کچلتی آنسو پینے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
دراصل ماورا کی ہی ایک کلاس فیلو نے معتسیم اور ماورا کے واقع کو مزید چٹ پٹا کرکے اپنی کزن کو سنایا تھا جو ماورا کے متوقع منگیتر اور کزن کی محبوبہ تھی جس نے تمام واقع اسے مزید مسالے لگائے سنایا تھا۔۔۔۔۔ اور بات ہوتی ہوتی پھوپھو تک پہنچ گئی تھی جو فورا گھر آدھمکی تھی۔
’’تم۔۔۔۔۔تمہیں میں مار دوں گا!!‘‘ جواد چچا فورا ماورا کی جانب بڑھے تھے جب کمال تایا نے بیچ میں انہیں روک دیا تھا۔
’’اپنے ہاتھ اپنے تک رکھو جواد۔۔۔۔۔۔ ماورا میری بیٹی ہے اسے سزا دینے کا فیصلہ بھی میرا ہونا چاہیے تمہارا یا کسی اور کا نہیں۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میری بیٹی کا اس تمام قصے میں کوئی عمل دخل نہیں تو اسے سزا دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں!‘‘ کمال صاحب ٹھوس لہجے میں ایک ایک حرف پر زور دیتے بولے تھے۔
’’یہ بھی کمال کہی تم نے کمال۔۔۔۔ خیر یہ تم لوگوں کے گھر کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ میں تو بس یہی بتانے آئی تھی کہ اب اس لڑکی کا رشتہ میں اپنے بیٹے سے نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا معاشرے میں عزت اور غیرت رکھتا ہے۔۔۔۔۔ ایسی لڑکی کو نہیں اپنائے گا!‘‘ پھوپھو مزید الفاظ بولتی، پھوپھاں کرتی وہاں سے چلی گئی تھی۔
’’اب اس گھر میں کوئی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔ اور اگر کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں!‘‘ کمال صاحب سب کو انگلی دکھائے، وارننگ کے انداز میں بولتے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے قسم سے کچھ نہیں کیا تائی اماں۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ان کے گود میں سر رکھے وہ بہتی آنکھوں سے بولی تھی۔
’’میری جان مجھے یقین ہے‘‘ تائی ماں نے پیار سے سر میں ہاتھ پھیرا تھا۔
’’میں قسم۔۔۔۔۔۔۔ قسم۔۔۔۔۔‘‘
’’کوئی قسم کھانے وانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہان نا مجھے یقین ہے۔۔۔۔۔۔۔ چلو بس اب رونا بند کرو۔۔۔۔۔ شاباش!‘‘ پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ۔۔۔۔۔۔ آپ سچ کہہ رہے ہے نا بھائی؟ معتسیم کا اس سے کوئی تعلق نہیں نا؟‘‘ صوفیہ کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا
’’ہاں میری جان بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ ابھی ابھی آیا ہوں اس کے گھر سے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ حسان اپنی بہن کی آنکھوں کی چمک دیکھ مسکرایا تھا۔
’’معتسیم میرا ہے بھائی۔۔۔۔۔ وہ صرف میرا ہے،۔۔۔۔ دیکھیے گا میں اسے کسی کا نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔۔۔ صرف میرا رہے گا وہ!‘‘ اس کا پاگل پن اس کا جنون۔۔۔۔ حسان ایک پل کو تو ششدد رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لو بھئی آگئی ہیر۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ کلاس میں داخل ہوتے ہی ایک اور جملہ اس کے کانوں سے ٹکڑایا تھا۔
خود پر مزید جبر کرتی وہ اپنی جگہ پر جا بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔ زرتاشہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے دلاسہ دیا تھا۔۔۔
’’بس!! اب کسی اور نے ایک اور لفظ میری دوست کے بارے میں بولا تو زبان کھینچ لوں گی تم سب لوگوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ جو تم سب اتنی باتیں کررہے ہو نا اس کے کردار کے بارے میں تو سب کا معلوم ہے مجھے کہ کون کتنے پانی میں ہیں۔۔۔۔۔ ایک اور لفظ اور پھر دیکھنا تم سب کیا کرتی ہوں میں!‘‘ صوفیہ ان سب پر بلآخر چلائی تھی۔۔۔
وجہ ماورا سے دوستی نہیں بلکہ وہ ماورا اور معتسیم کا نام بھی ایک ساتھ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔ اور جب اسے انکار کا علم ہوا تھا تو اسے سو فیصد یقین تھا کہ معتسیم اب اس کی جانب جلد ہی راغب ہوجائے گا!
لوگوں کی زبانوں کو تو سکون آگیا تھا مگر وہ تمسخرانہ نگاہیں۔۔۔۔۔۔ ان آنکھوں کا کیا کرتی وہ؟
تیزی سے کلاس سے باہر نکلتی وہ کوریڈور سے گزرتی سامنے سے حمزہ کے ساتھ آتتے معتسیم سے ٹکڑاتے ٹکڑاتے بچی تھی۔
اپنی غصیلی مگر سرخ نگاہوں سے اسے ایک نظر دیکھتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
معتسیم کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔۔۔۔ بہت جلد تمام سٹوڈنٹس کی باتوں سے دلبرداشتہ ہوتی وہ جلد ہی یونی سے لوٹ آئی تھی مگر گھر آتے ہی اسے تائی اماں کا پریشان چہرہ دیکھنے کو ملا تھا۔
پھوپھو نے بات پورے خاندان میں پھیلا دی تھی اور اب سب کی کالز آئے جارہی تھی۔ نا صرف یہ بلکہ کلاس میں سے کسی نے معتسیم اور ماورا کی پرپوز والی پک کھینچ یونی کے آفیشل پیج پر دے دی تھی۔
ہر طرف سے ہوتی باتوں نے ماورا کا دماغ سن کردیا تھا۔
اپنے چکراتے سر کو تھامتی وہ بند ہوتی آنکھوں سے سب لوگوں کا ہیولا سا دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنی انگلی سے ناک کو چھوا تھا جہاں سے خون نکلا تھا۔
بہت جلد وہ لہرا کر زمین پر گرگئی تھی۔
’’ماروا!!! ماروا!!‘‘ تائی کی چیخ و پکار پورے گھر میں گونج اٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اسے کیا ہوا ڈاکٹر؟‘‘ تایا جان نے ڈاکٹر کے باہر آتے ہی ان سے سوال کیا تھا۔
’’دیکھیے انہوں نے کسی بات کی بہت ٹینشن لی ہے۔۔۔۔۔ انہیں برین ہیمریج ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ کنڈیشن کافی کریٹیکل ہے ان کی!‘‘ ڈاکٹر کی بات پر وہ سن رہ گئے تھے۔
کچھ سوچتے ہوئے، لب بھینچے انہوں نے موبائل نکالے سر حمدانی کو کال کی اور تمام واقع انہیں سنادیا تھا۔
ان کی بات سنتے ہی سر حمدانی نے فورا جاوید آفندی کو کال کرکے تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔
’’اب وہ کیا چاہتے ہیں؟ تم نے پوچھا ان سے؟‘‘ جاوید آفندی جو اپنے کیس میں الجھے ہوئے تھے، انہوں نے گہری سانس لیے پوچھا تھا۔
’’وہ ماورا اور معتسیم کا نکاح چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس دلدل میں وہ پھنس چکی ہے اس میں سے معتسیم اسے نکالے!‘‘
’’اور انہیں ایسا کیوں لگا کہ ان کی بات پر حامی بھری جائے گی؟ کیا وہ بھول گئے اس تذلیل کو جو انہوں نے میری کی تھی؟‘‘ جاوید آفندی کی بات پر سر حمدانی جھنجھلا گئے تھے۔
’’یار جاوید چھوڑ بھی دو اس بات کو۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ سننے کی عادت ہے تمہیں! اور یہاں مسئلہ ضرورت سے زیادہ گھمبیر ہوگیا ہے! وہ بچی ہسپتال میں ہے اس وقت۔۔۔ جو کچھ ان تین چار دنوں میں اس کے ساتھ ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔ تم سمجھو یار!‘‘ سر حمدانی جھنجھلا گئے تھے۔
’’ہمم ٹھیک ہے مجھے منظور ہے مگر صرف اس لیے کہ قصوروار میرا بیٹا ہے اور مجرم کو سزا سنانا میرا پیشہ ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی بچی کو ہوش آئے انفارم کردینا مجھے۔۔۔۔۔ میں آجاؤں گا معتسیم کو لیکر!‘‘ اپنی بات مکمل کرتے ہی انہوں نے کال کاٹ دی تھی۔
’’اللہ خیر کرے!‘‘ سر حمدانی فورا ہسپتال کے لیے نکلے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمال صاحب نے کال تو کردی تھی مگر انہیں اب اس بات کی فکر لاحق تھی کہ کیا معلوم انکار نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت انہیں اپنے کہے گئے ایک ایک لفظ پر غصہ آرہا تھا جو وہ جاوید آفندی کو بول کر آئے تھے۔۔۔۔۔۔ ان کے علم میں بھی نا تھا کہ بات اس حد تک پھیل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ پھوپھو نے خاندان کے بعد کمال صاحب کی سوسائٹی میں بھی بات پھیلا دی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ وہاں شروع سے آباد تھے۔۔۔۔ اور پھوپھو نے ایک ایک گھر میں جاکر رونا رویا تھا۔۔۔۔
سر تھا کہ درد سے پھٹا جارہا تھا۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں سر حمدانی بھی ہسپتال ان سے ملنے چلے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انہوں نے بھی گھر کی راہ لی تھی اور ساتھ ہی ساتھ جاوید آفندی کا فیصلہ سناکر انہیں کافی حد تک پرسکون بھی کردیا تھا۔
ادھر تایا ابا پریشان تھے تو دوسری جانب گھر میں تائی ماں جائے نماز پر بیٹھی دعا میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔ باقی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
بلآخر اڑتالیس گھنٹوں کے لمبے انتظار کے بعد اسے ہوش آہی گیا تھا مگر وہ ابھی بھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔
’’تا۔تایا ابو!‘‘ ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کمزور لہجے میں بولی جب آنسوؤں پلکوں کی باڑ توڑے گالوں پر بہہ گئے۔
’’ممم۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا!‘‘ اس کے الفاظ سن ان کے دل کو تکلیف ہوئی تھی۔
’’میں جانتا ہوں میری جان!‘‘ اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھے وہ محبت سے بولے
وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے وہ اس کی سوچ کو بٹانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے تھے۔
’’ماورا میری بچا ایک بات تو بتاؤ اگر آپ کے تایا ابو آپ کے لیے کوئی فیصلہ لے تو مانو گی؟‘‘ ان کی بات پر اس نے بنا ہچکچائے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’خوش رہو میری جان!‘‘ اس کا ماتھا چومتے وہ باہر نکل گئے تھے۔
سر حمدانی کو کال کرنے کے بعد انہوں نے تائی اماں کو کال کی تھی اور خاموشی سے ہسپتال آنے کو کہاں تھا۔۔۔۔۔۔ فلحال وہ کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتانا چاہتے تھے ورنہ خاندان کے لوگ اس کا جینا مزید حرام کردیتے۔ اس پر لگے الزام کو سچ مان لیا جاتا۔
تائی امی کے آتے ہی تایا ابو نے مختصر تمام بات انہیں بتادی تھی۔
تھوڑی دیر میں انہیں سر حمدانی کے ساتھ جاوید آفندی اور معتسیم آتے نظر آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ نکاح خواں بھی ان کے ساتھ تھا۔
معتسیم کو جاوید آفندی اپنے ساتھ بنا اسے بتائے کہی لیجانے کو لائے تھے۔۔۔۔۔ مگر پہلے نکاح خواں، پھر ہسپتال اور اب سامنے موجود شخص کو دیکھ اسے کچھ غلط ہونے کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
سلام دعا کے بعد کمال تایا انہیں لیے ماورا کے کمرے میں آئے تھے جہاں تائی اماں پہلے ہی اس کے پاس بیٹھی تھی۔
بیڈ پر موجود ماورا کو اس حالت میں دیکھ معتسیم کی آنکھیں پھیلی تھیں اس نے فورا سر حمدانی کو دیکھا جنہوں نے اس کا کندھا تھپتھائے اسے اندر جانے کو بولا تھا۔
’’جی تو نکاح شروع کروایا جائے؟‘‘ نکاح خواں کے پوچھتے ہی جاوید آفندی نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ماورا سے پوچھنے پر اس نے فورا کمال تایا کی جانب دیکھا تھا جنہوں نے آنکھوں کے اشارے سے اسے اقرار کرنے کو بولا تو وہ اپنی کمزور ونجیف آواز میں اقرار کرگئی تھی۔
معتسیم کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سب چاہتا تھا مگر یوں ایسے؟ اس طرح اور ماورا اس حالت میں۔۔۔۔۔ نکاح خواں کے پوچھنے پر لب بھینچے اس نے بھی سر اثبات میں ہلادیا تھا۔
نکاح کے فورا بعد سر حمدانی، جاوید آفندی اور کمال تایا نے اسے گلے لگ کر مبارک باد دی تھی۔۔۔۔۔ تائی نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
وہ سب سے ملتا بس اسے دیکھے جارہا تھا جو نکاح ہوتے ہی آنکھیں موندے بےنیاز سی لیٹی ہوئی تھی۔
’’وہ فلحال دوائیوں کے زیر اثر ہے۔۔۔۔۔۔ غنودگی میں ہے۔۔۔۔۔ فکر مت کرو اس کے ہوش میں آتے ہی مل لینا اس سے!‘‘ معتسیم کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کب وہ تینوں مرد نکاح خواں سمیت وہاں سے چلے گئے اب صرف تائی وہاں موجود تھی جنہوں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھے اسے دلاسہ دیا تھا جس پر وہ زبردستی کا مسکرا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔