’’تم پر میری ایک سٹوڈنٹ کو ہراس کرنے کا الزام ہے معتسیم آفندی!‘‘ سپاٹ لہجے میں وہ دونوں بازو ٹیبل پر ٹکائے اسے گھور رہے تھے جو شریف بچہ بنا سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ اس کے بائیں جانب وہ نم آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔
’’یہ الزام سراسر الزام ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو بس زرا سی اظہارِ محبت کی تھی!‘‘ تڑپ کر سر اٹھائے وہ بولا
’’یونی میں، سب کے سامنے۔۔۔۔۔۔کلاس روم میں؟ سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہوگے کہ کس کردار کی ہوں میں۔‘‘ وہ پرشکوہ لہجے میں بولی تھی۔
’’مطلب تمہیں رشتے سے اعتراض نہیں لوگوں سے ہے؟‘‘ وہ چہک کر بولا
’’سر!‘‘ وہ شکایتی انداز سے سر حمدانی کی جانب مڑی
’’معتسیم آفندی تم میرے سامنے ہی میری سٹوڈنٹ کو ہراساں کررہے ہو اور پھر پوچھتے ہو کہ تم نے کیا کیا؟‘‘
’’سر!‘‘ اب کی بار اس نے انہیں شکایتی انداز میں دیکھا تھا جس پر وہ مسکراہٹ چھپا گئے۔
’’تو ماورا آپ کیا چاہتی ہے بیٹا؟‘‘ انہوں نے محبت سے اس سے پوچھا
’’انہیں کہیے سب سے کہے کہ یہ صرف مزاق تھا اور یہ مجھے بہن مانتے ہیں!‘‘ اس کی بات سن کر معتسیم مزید تڑپ اٹھا تھا۔
’’ہاں تو بھئی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مر جاؤں گا، مٹ جاؤں گا یہ گناہ نہیں کروں گا!‘‘ وہ سر حمدانی کی بات کاٹتا بولا
’’میرا دماغ خراب ہے جو تمہیں اپنی بہن مانوں؟ حد ہے بھئی۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا ان ناکام عاشقوں جیسا سمجھ رکھا ہے جو پہلی محبت نا ملنے پر غمزدہ ہوجائے اور پھر اس کے بچوں کے ماموں بن جائے؟‘‘ وہ کلس کر بولا تھا
’’ویسے ماموں کی جگہ پاپا بن سکتا ہوں اگر تم مان جاؤ!‘‘ اس کی بات پر جہاں ماورا سرخ ہوئی تھی وہی سر حمدانی نے اسے غصے سے گھورا تھا۔ بھلے جتنی مرضی فرینکنیس صحیح مگر ایسی بات انہیں سخت ناگوار گزری تھی۔
’’معتسیم!‘‘ ان کا سخت لہجہ معتسیم کو اس کے بےاختیار لہجے کا احساس دلا گیا تھا۔
’’سس۔۔۔۔۔۔سوری سر۔۔۔۔۔۔۔ مائی مسٹیک آئیندہ سے نہیں ہوگا ایسا!‘‘ وہ سر جھکائے شرمندہ سا بولا۔
’’اس سے پوچھے اسے مسئلہ کس چیز سے ہے میرے پرپوز کرنے سے یا لوگوں سے؟‘‘ وہ دوبارہ ماورا کو دیکھتے بولا تھا
’’دونوں سے!‘‘ وہ نظریں پھیرے بولی
’’دیکھو تم۔۔۔۔۔۔‘‘
’’معتسیم تم باہر جاؤ مجھے بات کرنے دو اس سے!‘‘ سر حمدانی شائد ماورا کی ہچکچاہٹ سمجھ چکے تھے اسی لیے معتسیم کو جانے کو بولا
’’مگر۔۔۔۔۔۔مگر سر!‘‘ معتسیم سے کچھ بولنا چاہا جب سر نے ہاتھ اٹھائے اسے بولنے سے روکا اور باہر جانے کا اشارہ کیا۔
’’اور سنو باہر دروازے پر مت رکنا چلے جانا میں بلا لوں گا تمہیں خود میسج کرکے۔‘‘ اسے دروازے سے باہر جاتے دیکھ وہ بولے تھے۔
’’اوئے کیا بنا؟‘‘ باہر آتے ہی اسے حسان اور حمزہ نے گھیر لیا تھا۔
’’ہراسمنٹ کا الزام لگایا محترمہ نے مجھ پر!‘‘
’’ہیں!!!‘‘ اس کے جواب پر دونوں کے منہ کھل گئے تھے۔
’’ہاں تو اب شریف لڑکی کو یوں سرے عام پھول پیش کرے گا تو وہ گلے تو لگنے سے رہی۔‘‘ حمزہ تڑخ کر بولا تھا
’’آئیڈٰیا کس کا تھا اسے یوں پرپوز کرنے کا؟‘‘ معتسیم نے اسے تیکھی نگاہوں سے گھورا تھا۔
’’بٹ سیریسلی معتسیم میں واقعی تم سے یہ ایکسپیکٹ نہیں کررہا تھا۔۔۔۔۔ مینز کہ تم اور ایسا کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیریسلی انبلیوایبل!‘‘ حسان بھی حیران کن انداز میں بولا تھا۔
کوریڈور کراس کرتے وہ لوگ یونہی اسے چھیڑنے میں مصروف تھے جب اسے سر حمدانی کا میسج آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ماورا بچے اب بتائے کیا پرابلم ہے؟ آپ مجھ پر ٹرسٹ کرسکتی ہے!‘‘ سر حمدانی کے پرشفقت انداز پر اس کی آنکھیں بھیگی تھیں۔
’’میں۔۔۔۔۔۔میں ایک یتیم و مسکین لڑکی ہوں سر، جس کی پرورش اس کے تایا تائی نے بڑی محبت سے کی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے سگی اولاد سے بڑھ کر چاہا ہے، ہمیشہ ان سے آگے رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہیں بچپن سے ہی یہی سنتی پلی بڑھی ہوں کہ بھئی دیکھ لو بھئی پرائی اولاد ہے، پرورش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاچیاں، پھوپھو۔۔۔۔۔ سب خاندان جب تائی اماں سے کہتا کہ غیر اولاد ہے کہی کل کو کوئی غلط قدم نا اٹھالے، نظر رکھا کرو تو جانتے ہیں وہ کیا کرتی؟ وہ مسکراتی اور بولتی۔۔۔۔۔ ماورا تو میری اولاد ہے، اس کی پرورش میں نے کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے اس کی تائی اماں کا سر جھکے، اس کے تایا ابو لوگوں میں مزاق یا طنز کا نشانہ بنے۔۔۔۔۔۔۔ اور آج یہ سب؟ لوگ، خاندان۔۔۔۔۔۔۔ سب انہیں کوسے گے، وہ بےاعتبار ہوجائے گی اور ان کی بےاعتباری نہیں کھوسکتی میں!‘‘ ٹپ ٹپ کرتے آنسو اس کی گود میں موجود ہاتھوں پر گرے تھے۔
سر حمدانی نے ایک لمبی سانس کھینچی تھی۔۔۔۔۔
’’ٹھیک ہے آپ جائے اور فکر مت کرے میں ہوں نا۔۔۔۔۔ آپ کا ٹیچر ہوں بالکل آپ کے باپ کی طرح میں ہینڈل کرلوں گا سب!‘‘ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے وہ دھیما سا مسکرائے تھے۔
’’مگر وہ سب سٹوڈنٹس۔۔۔۔‘‘ اس نے نظریں اٹھائے سوال کیا
’’فلحال تو آپکی کلاس کے تمام سٹوڈنٹس کو آف ہوچکا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کی کلاس کا کوئی بھی سٹوڈنٹ اس وقت کیمپیس میں نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ باقی بعد کی بات تو ویک اینڈ آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ منڈے تک سب ہینڈل ہوجائے گا!‘‘ وہ تحمل سے بولے تھے
’’وعدہ؟‘‘ اس نے بےیقین نگاہوں سے پوچھا
’’وعدہ!!‘‘ ان کی بات پر وہ مسکرائی تھی اور دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
اس کے نکلتے ہی انہوں نے معتسیم کو میسج کیا تھا۔۔۔۔
سیڑھیاں اترتے اس کی نظریں بےساختہ سیڑھیاں چڑھتے معتسیم سے جا ٹکڑائی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کا یہ ٹکڑاؤ، نظریں پھیرے وہ وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کوریڈور سے گزرتے اسے حسان اور حمزہ نظر آئیں تھے۔۔۔۔۔۔ جنہیں دیکھتے ہی اس کے پیر کانپنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں بھی اس کی حالت کا اندازہ لگاتے، بنا کوئی تاثر دیے وہاں سے نکل گئے تھے۔
پرسکون مگر گہری سانس خارج کیے وہ وہاں سے نکل چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو اب بتاؤ برخودار تم کیا کہتے ہو؟‘‘ سر حمدانی اس سے تمام بات ڈسکس کرچکے تھے۔
’’میں کیا بولوں؟ آپ بتائیے کہ اب میں کیا کروں؟ میں تو بیٹھے بٹھائے اسے مشکل میں پھنسا دیا!‘‘ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولا۔
’’ایک تجویز ہے اگر تمہیں پسند آجائے؟‘‘
’’جی ضرور سر کہیے!‘‘ وہ خوش ہوا
’’یہ سب اتنی جلدی اور پھر بابا!!‘‘ وہ پریشان ہوا سر کی تجویز سن کر
’’کیا مطلب؟ کیا تمہارا باپ نہیں جانتے تمہارے حالِ دل کو؟‘‘ ان کے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا
’’تو تمہیں کس بات کی آگ لگی تھی؟ کہی بھاگی جارہی تھی وہ؟‘‘ انہوں نے لطیف سا طنز کیا
’’ماما جانتی ہے‘‘ وہ برا مناتے بولا
’’بڑا احسان لیا لارڈ صاحب نے۔‘‘ ایک اور میٹھا طنز
’’اچھا نا اب سوچے بابا کو کیسے منائے؟ مجھ سے نہیں ہوگا!‘‘ وہ ہاتھ آپس میں مسلتا بولا۔
سر حمدانی نے فقط سر افسوس سے ہلایا تھا۔۔۔۔۔
’’باپ سے بات کرنے کی ہمت نہیں اور چلے ہے موصوف عشق و محبت کے عہد و پیمان نبھانے۔‘‘ ایک اور میٹھا طنز جس پر وہ جی بھر کر بدمزہ ہونے کے ساتھ ساتھ شرمندہ بھی ہوا تھا۔
’’جاؤں میں؟‘‘ اس نے جانا ہی بہتر سمجھا
’’تمہاری آرتی اتارنے سے تو رہا میں۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔‘‘ وہ کلس کر بولے۔
معتسیم نے بھی فلحال جانا ہی بہتر سمجھا۔
’’اور بھئی کیا بنا؟‘‘ اسے کلاس روم کی جانب جاتے دیکھ حمزہ نے بیچ راہ میں جکڑ لیا تھا۔
’’تجھے جاننا کا زیادہ شوق ہے؟‘‘ معتسیم نے مسکرا کر پوچھا
’’ہوں!‘‘ حمزہ نے دانت دکھائے سر ہلایا
’’شٹ اپ!۔۔۔۔۔ کلاس میں بیگ لینے جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ چابی پکڑ اور بائیک نکال۔۔۔۔۔ آیا ابھی۔‘‘ اس کی جانب چابی اچھالتا وہ کلاس کی جانب چلا گیا تھا۔
بیگ میں کتاب رکھتے اس نے زپ لاک کی تھی جب وہ کھٹکے کی آوازپر مڑا اور سامنے کھڑی صوفیہ کو دیکھ حیران ہوا
’’صوفیہ تم اس وقت یہاں؟‘‘ رسٹ واچ پر ٹائم دیکھتا وہ حیران ہوا
فرسٹ سمسٹر کی کلاس کو ختم ہوئے تین گھنٹے ہوچکے تھے۔
اس نے دوبارہ صوفیہ کی جانب دیکھا جس کی آنکھیں سرخ، لال انگارہ ہوئی پڑی تھی۔
’’صوفیہ!‘‘ اس کی حالت دیکھ وہ کچھ پریشانی سے اس کی جانب بڑھا
’’تم ایسا کیسے کرسکتے ہو معتسیم؟ تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو؟۔۔۔۔۔۔کیسے؟‘‘ اس نے خود پر ضبط کیے سوال کیا
’’ایکسکیوز می؟‘‘ معتسیم نے اسے عجیب نگاہوں سے دیکھا
’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔۔۔۔۔۔ یو چیٹ می۔۔۔۔۔۔۔ ہاؤ ڈئیر یو ٹو ڈو دس ود می؟‘‘ اونچی آواز میں چلاتی وہ اسکے گریبان تک جا پہنچی تھی جبکہ معتسیم اس کی اس حرکت پر بھوکلا گیا تھا۔
’’واٹ دا ہیل صوفیہ۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔ بی ان یور لمیٹس!‘‘ اپنا گریبان چھڑواتا وہ دو تین قدم پیچھے ہوا
گہرے سانس بھرتی خود کو پرسکون کیے وہ دوبارہ معتسیم کی جانب متوجہ ہوئی تھی جو اسے ابھی تک بےیقین نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
’’اوکے۔۔۔۔۔۔لسن۔۔۔۔۔پلیز معتسیم!‘‘ دونوں ہاتھ اٹھائے وہ خود کو پرسکون ظاہر کرتی بولی تھی۔
’’آئی۔۔۔۔۔آئی لوو یو معتسیم۔۔۔۔۔۔ آئی رئیلی لوو یوں معتسیم۔۔۔۔۔۔ ناجانے کب سے۔۔۔۔۔ آئی ڈونٹ نو،۔۔۔۔۔۔۔ بٹ آئی رئیلی ڈو۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز معتسیم میرے ساتھ ایسا مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ماورا اس میں کیا ہے معتسیم؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ آئی ایم مچ بیٹر دین ہر۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز اسے چھور ڈو معتسیم۔۔۔۔۔۔۔ آئی لوو یو۔۔۔۔۔ پلیز ڈونٹ ڈو دس ود می۔۔۔۔۔۔۔۔ میں، میں نہیں برداشت کر پاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں اس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ اینڈ آئی نو یو ٹو۔۔۔۔۔۔۔ تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ بس تمہیں ابھی تک احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ماورا وہ محبت نہیں ہے معتسیم۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت نہیں، وہ تو فقط ایک اٹریکشن ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہوجاتی ہے ایسی چھوٹی موٹی اٹریکشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوجاتا ہےکرش، آجاتا ہے پسند کوئی نا کوئی۔۔۔۔۔۔۔ مگر محبت۔۔۔۔۔۔ محبت تو صرف تمہیں مجھ سے کرنی تھی معتسیم مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ماورا۔۔۔۔۔۔ ماورا نہیں۔۔۔۔۔۔ میں معتسیم۔۔۔۔ پلیز اسے چھوڑ دو!۔۔۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح بڑبڑائے جارہی تھی جبکہ معتسیم کی آںکھیں پھیل گئیں تھی اس کی یہ باتیں سن کر
’’انففف صوفیہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بکواس کیے جارہی ہو تب سے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے نہیں ماورا سے محبت کرتا ہوں یہ بات جتنی جلدی ہوسکے اتنی جلدی اپنے دماغ میں بٹھالو۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تک میں تمہیں حسان کی سسٹر کی وجہ سے ٹریٹ کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیندہ سے ایسی فضول گوئی سے پرہیز کرنا۔۔۔۔ اور میرےسامنے آںے سے بھی!‘‘ اسے سپاٹ مگر سخت لہجے میں سمجھاتا وہ اس کی سائڈ سے گزرتا دروازہ پار کرگیا تھا
ٹیبل سے ڈسٹر اٹھائے زور سے زمین پر مارے وہ اونچی آواز میں چلائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ماورا بیٹا کھانا کیوں نہیں کھا رہی ٹھیک سے؟‘‘ اسے کھانے کے ساتھ کھیلتے دیکھ تایا ابو نے پریشانی سے سوال کیا تھا۔
’’کیا ہوا بچے کچھ پریشان لگ رہی ہو؟‘‘ وہ اس کی شکل دیکھ کر بےچین ہوئے
’’نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔کک۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں‘‘ وہ زبردستی مسکرائی اور چاول کا چمچ منہ میں ڈالا
’’بھئی کسی لڑکے وڑکے کا چکر تو نہیں؟‘‘ چچی کی بات پر اسے بری طرح سے کھانسی ہوئی تھی۔
’’بیگم!‘‘ چاچا نے انہیں گھورا تھا
’’بیٹا پانی پیو!‘‘ تائی اماں نے فورا گلاس اس کے آگے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ سامنے بیٹھے تقی نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔
وہ اس کے ماں باپ تھے مگر اس سے زیادہ انہیں اس یتیم کی فکر لگی رہتی تھی۔
’’میری جان آرام سے اور جواد اپنی بیوی کو سمجھا دوں آئیندہ سے میری بیٹی کے بارے میں ایسی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!‘‘ تایا جان کی سخت آواز پر جواد صاحب نے غصے سے اپنی بیوی کو گھورا تھا۔۔۔۔۔۔ جو منہ بناتی کھانے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
’’ایکسکیوز می!‘‘ چچی کی بات پر غمزدہ ہوتی، وہ اجازت لیتی وہاں سے چلی گئی تھی۔
تایا ابو اور تائی امی نے افسوس سے اس کی پشت کو دیکھا تو اور پھر ان لوگوں کو جو اپنے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تائی نے ایک افسردہ نگاہ اس عورت پر ڈالی جو ڈرامے میں موجود یتیم و مسکین پر ہوئے ظلم پر خوب روتی مگر حقیقی میں خود کسی یتیم کے کردار پر کچڑ اچھالنے سے زرا بعض نہ آئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’صوفیہ۔۔۔۔‘‘ حسان اس کے کمرے میں داخل ہوتا، حیران ہوا
پورا کمرہ ٹوٹا بکھرا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں مانو جیسے کوئی طوفان آیا ہو
’’صوفیہ میری جان یہ سب؟‘‘ حسان تڑپ کر اس کی جانب بڑھا جس کے پاس کچھ سفید پاؤڈر گرا ہوا تھا جسے دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا ہے۔
’’صوفیہ ادھر دیکھو میری جان۔۔۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کیا ہوا؟‘‘ اس نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا
’’وہ۔۔۔۔وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے بھائی؟ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ بہت محبت۔۔۔۔۔ مگر وہ۔۔۔۔ اس نے میری قدر نہیں کی، میری محبت کی قدر نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ٹھکڑا دیا اس نے۔۔۔۔۔ وہ اس (گالی) کے لیے۔۔۔۔۔۔ میں چھوڑوں گی نہیں اسے مار ڈالوں گی اسے۔۔۔۔۔جان سے مار ڈالوں گی اسے۔۔۔۔۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گی!‘‘ وہ سرخ انگارہ نگاہوں سے حسان کو گھورتی بولی
’’کون صوفیہ؟ کس سے محبت کرتی ہو؟ کس نے ٹھکڑایا مجھے بتاؤ۔۔۔۔ میں ہوں نا تمہارا بھائی۔۔۔۔۔۔ دیکھنا اسے تمہارے قدموں میں لے آؤں گا!‘‘ حسان اس کی بات سنتا خوفزدہ ہوا تھا۔
’’کیا سچ میں؟‘‘ اس نے پرامید لہجے میں سوال کیا
’’ہاں بالکل میری جان۔۔۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کون ہے وہ۔۔‘‘ حسان وعدہ کرتے بولا تھا
’’معتسیم!!۔۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ چاہیے۔۔۔۔۔۔ مجھے معتسیم چاہیے بھائی۔۔۔۔۔ وہ میرا ہے نا کہ اس ماورا کا۔۔۔۔۔۔۔ اسے مجھے دے دے۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو میں نے اس سے اظہارِ محبت کیا مگر اس نے ٹھکڑا دیا۔۔۔۔ اس نے مجھے۔۔۔۔۔ مجھے ٹھکڑادیا!‘‘ انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتی وہ بولی
’’معتسیم؟‘‘ حسان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔
وہ شخص جس سے اس نے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت کی تھی، اس کی بہن اسی کی عاشق نکلی اور اس نے اسے ٹھکڑا دیا۔۔۔۔۔
حسان کی آنکھوں میں غصہ اترنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ ماورا کو دیکھ کر اسے معتسیم کی پسند پر ہنسی آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایک عام اور سادہ نقوش کی حامل اس لڑکی میں کچھ نہیں تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ حسان کو لگا تھا کہ کل کو وہ معتسیم کے مقابلے میں ایک خوبصورت لڑکی کو ہمسفر کو چن کر اسے نیچے دکھائے گا۔۔۔۔۔۔۔ مگر معتسیم نے اس کی بہن کو ریجیکٹ کرکے بری طرح سے اس کی انا کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
’’میری بہن کو ریجیکٹ کرکے تم نے اچھا نہیں کیا معتسیم۔۔۔۔۔۔ اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ تم صرف میری بہن کا نصیب بنو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا میں۔۔۔۔۔۔ تم صرف صوفیہ کے ہو!‘‘ وہ خود سے عہد کرتا خطرناک انداز میں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہے؟‘‘ کمال صاحب کے پاس بیٹھتے انہوں نے پریشانی سے پوچھا
’’ہوں!! مجھے لگتا ہے یونیورسٹی میں کوئی بات ہوئی ہے۔‘‘ وہ پرسوچ انداز میں بولے
’’مطلب؟‘‘ انہوں نے ناسمجھی سے سوال کیا۔
’’آج ماورا بیٹی کھانے کی ٹیبل پر کافی پریشان سی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے شام میں اس کے ٹیچر کی کال آئی تھی انہوں نے کل مجھے ملنے کو بلوایا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب نجانے کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہت پریشانی ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔ لڑکی ذات کا سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب وسوسے دل میں خیال کیے ہوئے ہیں!‘‘ وہ کچھ پریشانی سے بولے۔
’’آپ فکر مت کرے کمال۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیننا کوئی اور بات ہوگی۔۔۔۔۔ ہماری ماورا کیسی ہے ہم دونوں جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر اس وقت مجھے ماورا کی جگہ تقی کی فکر ستائے جارہی ہے۔‘‘ وہ پریشان لہجے میں بولی
’’مطلب؟‘‘ وہ سیدھے ہوکر بیٹھے۔
ان کے پوچھتے ہی تائی اماں نے ماورا کی بتائی گئی تقی کے حوالے سے تمام باتیں انہیں بتادی تھی۔
کمال صاحب نے پریشانی سے ماتھا مسلا۔۔۔۔۔
’’آپ فکر مت کرے۔۔۔۔۔۔۔ کرتا ہوں اس کا علاج بھی میں۔۔۔۔۔۔۔۔ بس پہلے ماورا کا جو بھی مسئلہ ہے وہ حل ہوجائے۔‘‘ وہ تسلی آمیز لہجے میں بولے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بابا!‘‘ گلا کھنکھارتے اس نے دروازہ ناک کیا تھا
’’ارے معتسیم بچے آؤ!‘‘ وہ جو اپنی فائل میں بری طرح سے غرق تھے، اسے آتا دیکھ مسکرائے۔
’’وہ۔۔۔۔۔۔وہ یہ۔۔۔۔۔۔۔یہ آپ کو دینا تھا۔‘‘ اس نے فورا موبائل ان کی جانب بڑھایا
’’یہ کیا؟‘‘ نگاہ اٹھائے سوال ہوا
’’وہ میرے سر کو آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘ گلا تر کرتا وہ بولا
’’اس وقت؟‘‘ وہ گھڑی کو گیارہ کا ہندسہ پار کرتے دیکھ چونک کر بولے
’’جی ضروری ہے۔‘‘ وہ موؤدب سا بولا
’’ہمم ٹھیک!‘‘ سر اثبات میں ہلائے انہوں نے موبائل تھاما
’’ہمم
اچھا
ٹھیک
چلے صحیح
کل صبح گیارہ بجے؟
چلے جیسا آپ مناسب سمجھے!‘‘
معتسیم کو نگاہوں میں رکھے انہوں نے جواب دیا تھا۔
’’تمہارے ٹیچر نے کل بلایا ہے پیرنٹس ٹیچر میٹنگ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کیوں؟‘‘ انہوں نے کڑی نگاہوں سے اسے گھورتے سوال کیا۔
’’نن۔۔۔۔۔۔۔نہیں!‘‘ وہ سنبھل کر بولا
’’ہمم ٹھیک!‘‘ انہوں نے ہنکارہ بھرا
ان سے موبائل لیے وہ جلدی سے باہر کی جانب بھاگا جبکہ آفندی صاحب دوبارہ سے فائل کی جانب متوجہ ہوگئے۔
’’بابا!‘‘ وہ جاتے جاتے پلٹا
’’ہمم؟‘‘ فائل پر سے نظریں ہٹائے اس کی جانب دیکھا
’’آپ آج کل کچھ پریشان رہتے ہے۔۔۔۔۔۔ کیا سب کچ ٹھیک ہے نا؟‘‘ اس کے پوچھنے پر وہ مسکرا دیے تھے۔
اولاد بھی کیسی انمول شے ہوتی ہے نا۔۔۔۔ ان کے الفاظ ہی فقط ماں باپ کو ایک نئی طاقت دے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ انہیں پھر سے جوان اور مضبوط بنادیتے ہیں۔۔۔
’’نہیں میری جان کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔۔۔۔ تم جاؤ سو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنو۔۔۔۔۔ اب سو جانا موبائل استعمال مت کرنا!‘‘ انہوں نے مسکرا کر تنبیہ کی
’’اوکے ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھیے گا۔۔۔۔۔ جب بھی زندگی میں کوئی پریشانی ہو تو اپنے بیٹے سے ضرور شئیر کیجیئے گا۔۔۔۔۔۔ میں آپ کا سہارا، آپ کا کندھا بننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ بوجھ نہیں!‘‘ اس کے ان چند الفاظوں نے پھر سے آفندی صاحب میں ایک نئی اور تازہ روح پھونک دی تھی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔۔۔۔ سو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ شب بخیر!‘‘ وہ مسکرائے تو وہ بھی مسکراتا سٹڈی کا دروازہ پار کرگیا تھا۔
اس کے جاتے ہی وہ دوبارہ سا سخت و سپاٹ چہرہ لیے فائل کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ گینگ تو دن بدن مضبوط ہوتا چلا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ضرور اس گینگ کی پشت پناہی کوئی بڑا گینگ کررہا تھا۔۔۔
’’چھوڑوں گا تو میں کسی کو بھی نہیں!‘‘ انہوں نے خود سے جیسے عہد کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔