’’یہ اسائنمنٹ آپ نے بنائی ہے؟‘‘ اسائنمنٹ کو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد سر حمدانی نے چشمے کے پیچھے سے آنکھیں اٹھائے ماورا سے سوال کیا تھا جس پر وہ گڑبڑا گئی تھی۔
’’جج۔۔۔جی!‘‘ کانپتے لہجے میں اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا
’’اکیلے؟‘‘ ایک اور سوال تیار تھا
سر اثبات میں ہلائے اس نے فورا نفی میں ہلایا تھا
’’ہاں یا ناں؟‘‘ سر حمدانی ہلکا سا مسکرائے تھے۔
’’وہ۔۔۔۔۔۔ وہ مدد کی تھی۔‘‘ نظریں جھکائے جواب دیا گیا۔
’’کس نے؟‘‘ جانتے تھے مگر پھر بھی پوچھا
’’وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ موسم جیسا نام ہے ان کا!‘‘ ایک نظر سر حمدانی کو دیکھے وہ پھر سے نظریں جھکا گئی تھی جبکہ حمدانی سر کا دل قہقہہ لگانے کو چاہا تھا۔
’’معتسیم آفندی‘‘ انہوں نے نام درست کیا۔
’’جج۔۔۔۔جی وہی‘‘ ماورا نے ہاں میں ہاں ملائی
’’تو آپ بتانا پسند کرے گی کہ معتسیم صاحب نے کیوں مدد کی آپ کی؟‘‘ اب وہ فراغت سے اس کے چہرے کے تاثرات جانچ رہیں تھے۔
ماورا نے ویسے ہی سر اور نظریں دونوں جھکائے انہیں تمام کہانی سنائی تھی۔
’’اسائنمنٹ گم ہوگئی، انہوں نے پوچھا تو بتادیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے مدد کی۔‘‘ ہاتھ مسلتی وہ ادھر ادھر بھی نگاہ دوڑا رہی تھی جیسے فرار کا راستہ تلاش کررہی ہو۔
’’ٹھیک ہے آپ جائے!‘‘ ان کی اجازت ملتے ہی وہ الٹے قدموں وہاں سے بھاگی تھی
ماورا کے جاتے ہی سر حمدانی نے ڈرا سے ایک اور اسائنمنٹ نکالی تھی
’’صوفیہ راجپوت!‘‘ نام پڑھے انہوں نے سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا
صوفیہ نے نام کا فرنٹ پیج تو چینج کرلیا تھا مگر اسائنمنٹ کے درمیان میں بھی ماورا کا نام لیپ ٹاپ کے ایشو کی وجہ سے دو تین بار کاپی پیسٹ ہوگیا تھا۔ جس سے شائد وہ خود بھی لاعلم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اب آپ کیا کہنا چاہے کی میڈم؟‘‘ عظمیٰ راجپوت کے سامنے ان کی بیٹی کا کارنامہ پھینکے سر حمدانی نے سوال کیا تھا
میم عظمیٰ کا چہرہ خفت کے مارے سرخ ہوگیا تھا۔
’’آپ جانتی ہے میں چاہتا تو آپ کی بیٹی کے خلاف کیس کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے فیل کردیتا مگر میں نے آپ سے بات کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیے میڈم آج کے بچے ایک دوسرے کی اسائنمنٹ کاپی پیسٹ کرتے ہیں، مگر یوں کسی اور کی محنت کو چوری کرنا؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ ایتھکس کے شدید خلاف ہے!‘‘ سر حمدانی نے تحمل سے اپنی بات مکمل کی تھی۔
’’جج۔۔۔۔۔۔۔جی سر آپ فکر مت کرے میں کروں گی بات!‘‘ بامشکل خود پر ضبط کیے وہ وہاں سے اٹھتی تیزی سے کمرے سے نکلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹی کی دھن پر وہ مگن سا گھر میں داخل ہوا تھا جب اس کے ماتھے پر بل ڈالے وہ عظمیٰ بیگم اور جاوید آفندی کی جانب بڑھا تھا جن کے ماتھے پر بل تھیں۔۔۔۔۔۔
جاوید آفندی نے نجانے ایسا کیا کہا تھا کہ عظمیٰ بیگم کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں تھی۔
’’ماما بابا؟ کیا ہوا؟‘‘ اس کی آواز پر وہ دونوں چونکے تھے۔
’’ارے معتسیم تم کب آئے۔۔۔۔۔۔ کھانا لگاؤ؟‘‘ عظمیٰ بیگم نے فورا سے پہلے اپنے تاثرات بدلے تھے۔
’’نہیں کھانا ابھی نہیں کھاؤں گا۔۔۔۔ آپ بتائیے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ اور بابا اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہے؟‘‘ وہ ان کے تاثرات جانچتا بولا
’’ارے صاحبزادے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یہاں آؤ بیٹھو میرے پاس!۔۔۔کبھی ہم سے بھی ہمکلام ہوجایا کرو۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بچوں کی طرح ماں کے پلو سے بندھے رہتے ہو!‘‘ جاوید صاحب برا مناتے بولے تھے جس پر مسکرائے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
عظمیٰ بیگم موقع فرار پاتی چائے بنانے چلی گئی تھی۔
جاوید آفندی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک ایمان دار پولیس آفیسر تھے۔۔۔۔۔ آج کل وہ مافیا گروپ کو پکڑنے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک نیا مگر چھوٹا مافیا گروپ تھا جن کا کام فلحال لوٹ مار، قتل و غارت اور بھتہ خوری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بتاؤ مجھے،،،،،،،، ہاں بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔ کیا اس لیے؟ اس لیے پیسہ لگاتی ہوں تم لوگوں پر کہ تم لوگ ایسی حرکتیں کرتے پھیروں؟‘‘ بیلٹ سے اس کے جسم پر وار کرتی وہ پاگلوں کی طرح اونچا اونچا چلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ صوفیہ کی چیخیں پورے کمرے میں گونج رہیں تھی جبکہ باہر دروازے پر کھڑا حسان دھڑا دھڑ دروازہ بجائے جارہا تھا
’’مام۔۔۔۔۔۔۔ مام پلیز دروازہ کھولے مام۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مر جائے گی!‘‘ اپنی بہن کی چیخیں سنتا وہ چلایا تھا۔
’’تو کمینی بتا مجھے! کیوں لگایا تھا میں نے اتنا پیسہ تجھ پر؟ کیا اس لیے کہ تو میرے منہ پر کالک مل دے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کیا کہا تھا تجھے کہ تو نے ٹاپ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں! یوں ٹاپ کرے گی؟ یوں میرا پیسہ حلال کرے گی حرام خور!!‘‘ پے در پے بیلٹ کے وار نے اس کا جسم چھلنی کردیا تھا۔
بیلٹ ایک جانب پھینکے وہ دروازہ کھولتی حسان پر ایک نگاہ بھی ڈالے بغیر وہاں سے نکل گئی تھی۔
’’صوفیہ۔۔۔۔۔۔ صوفیہ میری جان آنکھیں کھولو!‘‘ اس کا گال تھپتھپائے حسان نے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی مگر بےسود
باہوں میں اسے اٹھائے وہ فورا باہر کی جانب بھاگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک سرد سانس خارج کی تھی۔۔۔۔۔۔ لاؤنج میں ہی طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا تو نجانے پورے گھر کا کیا حشر ہوتا۔۔۔۔
’’ماورا!!‘‘ دس سال کا وہ بندر اچھلتا کودتا اس پر چڑھ گیا تھا۔
’’آہ!! عالیان دور ہٹو مجھ سے!‘‘ ماورا نے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا جو ایک بندر کی طرح اس سے چپک گیا تھا۔
’’میرے لیے کیا لائی ہو؟‘‘ اس نے اس کا بیگ چھیننا چاہا تھا جس پر ماورا نے اسے زبردست گھوری سے نوازہ تھا۔
’’ماورا‘‘ پیچھے سے ہی وہ پریوں جیسا فراک پہنی گڑیا بھی معصومیت سے آکر اس کے پیر سے لپیٹ گئی تھی۔
’’میلے لیے چاکلیٹ لائی؟‘‘ اس نے معصومیت سے سوال کیا تھا۔
ایک اور سانس خارج کیے وہ خود کو گھسیٹتی صوفہ تک لائی تھی کیونکہ یہ تو چپک گئے تھے اس سے۔۔۔۔
’’ماورا آگئی تم؟‘‘ چچی کی آواز پر آنکھیں کھول کر انہیں دیکھ وہ مسکرائی تھی۔
’’جی ابھی آئی ہوں!‘‘
’’اچھا ایسا کروں کھانا بنا دیا ہے وہ کھالینا اور ہاں ریسٹ لیکر پلیز یہ لاؤنج سمیٹ لینا۔۔۔۔ مجھے بازارجانا ہے!‘‘ چچی کی بات پر وہ مسکرا دی تھی۔
’’اوکے آپ جائے کردوں گی میں۔‘‘
’’تو بچوں اگر چاکلیٹ چاہیے تو پہلے یہ بتاؤ کہ تائی جان کہاں ہے؟‘‘
’’کمرے میں!‘‘ ماورا کے پوچھتے ہی وہ دونوں جھٹ بولے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تائی جان میں آجاؤں؟‘‘ دروازہ ناک کیے اس نے اجازات چاہی تھی
’’ارے ماورا میری بچی آؤ!‘‘ کپڑے الماری میں رکھتی تائی اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
’’کب آئی ہو؟‘‘ فارغ ہوتے وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
’’ابھی!‘‘ وہ مسکراتی ہاتھ مسلنے لگی۔
’’کیا ہوا کچھ پریشان ہو؟‘‘ انہوں نے اس کی پریشانی بھانپ لی تھی۔
’’جی وہ بات کرنی ہے آپ سے۔‘‘ بولتے ہی اس نے کھلے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔
’’دروازہ بند کرکے آجاؤ!‘‘ سر اثبات میں ہلائے اس نے دروازہ بند کیا تھا۔
’’اب بولو۔۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘ اس کے جھکے سر کو دیکھتے انہوں نے فورا سوال کیا۔
’’تائی جان وہ تقی۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ پل بھر کو رکی
’’تقی کیا؟‘‘ کسی انہونی کا احساس ہوا تھا انہیں۔
’’تائی جان تقی کا اٹھنا بیٹھنا آج کل غلط لڑکوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے پہلے بھی اسے منع کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ آپ کو اور تایا ابو کو بتا دوں گی مگر اس نے وعدہ کیا کہ چھوڑ دے گا دوستوں کو مگر اب۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اب کیا؟‘‘
’’اس نے سیگریٹ شروع کردی ہے تائی جان۔۔۔۔۔۔ ایک دن اسے میں نے گندی مووی بھی دیکھتے پکڑا اور اب تو اس نے حد کردی،۔۔۔۔۔اس نے، اس نے دو بار چوری کی ہے میرے پرس سے۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی اس نے ایک دن پیسے نکال لیے تھے اور اب آج بھی۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم جانتی ہو ماورا کہ تم کیا بول رہی ہو؟ تم میری اولاد پر الزام لگا رہی ہو۔۔۔۔۔ اور اگر یہ تہمت ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’قسم لے لے تائی جان جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔۔۔۔ یقین کیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے آپ کو نہیں بتایا کیونکہ لگا تھا کہ وہ ہٹ جائے گا، مگر اس سے پہلے وہ ہاتھ سے نکل جائے آپ کو بتادیا۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ آپ خود اس کا نوٹس لے۔۔۔۔۔۔ بہن ہوں اس کی فکر رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ سے جھوٹ بول نہیں سکتی کیونکہ آپ میری تائی کے ساتھ ساتھ ماں بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!‘‘ ان کے دونوں ہاتھ تھامے وہ لحاجت سے بولی تھی۔
’’ٹھیک ہے میری جان تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔ میں بات کروں گی تمہارے تایا ابو۔۔۔۔۔۔۔ بس اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ بات صرف تمہارے اور میرے درمیان رہے۔۔۔۔۔۔۔ سمجھی؟‘‘ ان کی بات پر اس نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ میم عظمیٰ خود کو سمجھتی کیا ہے؟ رزلٹ دیکھا ہے تونے؟ کتنے کم مارکس دیے ہیں اور غلطی بتائی بھی نہیں!‘‘ حمزہ غصے سے بولا تھا
’’چھوڑ نا یار۔۔‘‘ معتسیم نے اس کا غصہ کم کرنا چاہا تھا
’’میم عظمیٰ سے زیادہ تو مجھے حسان کی ٹینشن لگی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتے سے غائب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجانے کدھر ہے اور نمبر بھی بند ہے۔۔۔۔۔‘‘ معتسیم پریشان سا بولا
’’ہاں فکر تو مجھے بھی ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔ میم سے پوچھے؟‘‘ حمزہ نے جھٹ آئیڈیا دیا
’’پاگل ہے تو؟ لاسٹ ٹائم کی عزت افزائی بھول گیا؟‘‘ معتسیم نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا ہو۔
لاسٹ ٹائم بھی حسان ایک بار یونہی پندرہ دنوں کے لیے غائب ہوگیا تھا اور میم کے پوچھنے پر ملا گیا جواب ان کی بولتی بند کروا گیا تھا
’’آپ اس ادارے میں پڑھنے آتے ہیں، دوستیاں یاریاں پالنے نہیں تو اپنے کام سے کام رکھے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ٹکا سا جواب دیےوہ یہ جا وہ جا تھی۔
’’ویسے یار میں پکا کہہ رہا ہوں کہ یہ میم جو ہے نا یہ سر حمدانی کی شہرت سے جلتی ہے۔۔۔۔۔ اور تو جو کہ ان کا فیوریٹ سٹوڈنٹ ہے نا تو تجھ سے بدلا لیتی ہے ان ڈائیریکٹلی۔۔۔۔‘‘
’’پاگل ہے تو؟‘‘ حمزی کی بات پر اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
’’نہیں تو پھر تو بتا کیا ریزن تھی تیرے نمبر کاٹنے کی؟ میں کہہ رہا ہوں یہ سب جلن کی وجہ سے کررہی ہے وہ اور ایک تو ہے جو انہیں کچھ کہتا نہیں ہے۔‘‘ حمزہ کو اب اس پر غصہ آرہا تھا
’’اچھا!! اور کیا کہوں میں انہیں؟ وہ میری ٹیچر ہے حمزہ! روحانی ماں۔۔۔۔۔۔ وہ حسان کی مدر ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور اوپر سے ان کا نام بھی عظمیٰ ہے اور میری ماما کا بھی۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں انہیں برا بھلا کہنا ان ڈائیریکٹلی اپنی ماں کی تربیت کو برا بھلا کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی ایک ہی تو سمسٹر رہ گیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بھی انٹرنشپ آجائے گی۔۔۔۔۔۔ تو چھوڑ چل مار!‘‘ حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ مسکرا کر بولا تھا۔
’’اللہ جانے کس ای۔سی کی گرتی ہے تجھے جو اتنا کول رہتا ہے۔۔۔۔‘‘ حمزہ کے تیکھے لہجے میں کیے گئے طنز پر وہ قہقہہ لگائے ہنسا تھا۔
’’ایکسکیوزمی!‘‘ وہ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے آکھڑی ہوئی تھی اور اسے پکارا تھا۔
’’جی؟‘‘ اس آواز پر تو وہ جی جان سے متوجہ ہوا تھا۔
’’وہ مجھے یہ دینا ہے آپ کو!‘‘ ساتھ ہی اس نے اسائنمنٹ کے پیسے اس کی جانب بڑھائے تھے۔
’’یہ کس لیے؟‘‘ معتسیم نے حیرت سے سوال کیا تھا۔
’’وہ کل آپ نے میری اسائنمنٹ کے پرنٹس نکلوائے تھے تو بس اسی کے ہیں۔۔۔‘‘ وہ پیسے اس کی جانب کیے مزید آگے بڑھی تھی۔
’’ہاں مگر اس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ اچھا نہیں لگتا آپ کا یوں میرے پیسے دینا۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ہمارے مابین ایسا کوئی رشتہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو پلیز یہ لے لیجیئے۔۔‘‘ ایک لمحے میں اس کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا تھا۔
’’لے لے معتسیم۔۔۔۔۔۔۔ نہیں لے گا تو یہ غلط مطلب لے لے گی تیری اس عنایت کا۔۔۔۔۔۔۔ اور سٹوری شروع ہونے سے پہلے ہی ختم!‘‘ حمزہ اس کے کان میں پھسپھسایا تھا۔۔۔۔۔ اسے ایک گھوری سے نوازے معتسیم نے آگے بڑھ کر پیسے لیے تھے۔
ماورا جانے کو فورا مڑی۔
’’سنو!‘‘ معتسیم کی پکار پر مڑتے مڑتے پلٹی۔
’’جی؟‘‘ ایک آبرو اچکائے سوال کیا۔
’’اسے کسی قسم کی عنایت مت سمجھنا۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی نہیں کہ پیسے نہ لیکر کوئی امپریشن بنانا چاہ رہا ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔ کھرا بندہ ہوں ایک دم۔۔۔۔۔ جب بھی کروں گا اظہار کروں گا!‘‘ مسکرا کر بولتا اس کے حیرت زدہ چہرے پر نگاہ ڈالے وہ الٹے قدموں پلٹا تھا۔
’’یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیا تھا؟‘‘ ماورا ہڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا بات ہے کیا سوچ کر مسکرایا جارہا ہے؟ یا میں کہوں کسے سوچ کر؟‘‘ اسے یونہی سوچوں میں گم مسکارتے دیکھ عظمیٰ بیگم اس کے پاس بیٹھی شرارت سے بولی تھی۔
’’بس ہے کوئی۔‘‘ معتسیم نے مسکرا کر کندھے اچکائے تھے۔
’’کیا سچ میں؟‘‘ ان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
’’آپ سے جھوٹ بولوں گا؟‘‘ اس نے سوال کیا
’’فلرٹ تو نہیں کررہے؟‘‘
’’اپنی تربیت پر بھروسہ نہیں؟‘‘ اس نے برا مناتے سوال کیا
’’ایسی بات نہیں ہے بس ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیے بھی اور اس کے لیے بھی۔‘‘ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ بولی
’’ڈر کیسا؟‘‘ معتسیم نے حیرت سے سوال کیا۔
’’عزت کا ڈر!‘‘
’’اچھا یہ سب چھوڑو نام بتاؤ اور یہ بھی کہ کیا کرتی ہے؟‘‘ انہوں نے اشتیاق سے سوال کیا
’’ماورا نام ہے اسکا۔۔۔۔۔۔ جونئیر ہے۔۔۔۔۔۔۔ مطلب کہ کافی جونئیر ہے۔۔۔۔۔۔ فرسٹ سمسٹر!‘‘ ان کی گود میں سر رکھے وہ بولا
’’سیریس ہو؟‘‘
’’بہت زیادہ‘‘
’’محبت کرتے ہو؟‘‘
’’بہت زیادہ‘‘
’’کب سے؟‘‘
’’معلوم نہیں!‘‘
’’شادی بھی کرو گے؟‘‘
’’آپ کروائے گی تو ضرور‘‘
’’اور اگر میں انکار کردوں تو؟‘‘
’’تو؟؟؟؟؟ بھگا لیجاؤ گا۔۔۔۔۔۔ اغوا کرکے آپ سب سے بہت دور!‘‘ وہ شرارت سے بولا تو عظمیٰ بیگم نے محبت سے اس کے چہرے کو ہلکا سا تھپکا
’’بدمعاش!!۔۔۔۔۔ تو رشتہ کب لیجاؤں؟‘‘
’’او ہو مسز جاوید زرا آرام سے پہلے لڑکی تو پٹا میرا مطلب منا لوں!‘‘ عظمیٰ بیگم کی آنکھیں دکھانے پر وہ پڑبڑا کر بولا تھا۔
’’اور کب سرانجام دے گے یہ نیک کام آپ؟‘‘
’’ایک دو دن تک!!‘‘ وہ مسکرا کر بولا
’’کچھ زیادہ ہی جلدی نہیں شہزادے صاحب کو؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر سوال کیا تھا۔
’’دیکھے میں نے نا سب کچھ ڈئیسائڈ کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کل یا پرسوں میں اسے پرپوز کروں گا،۔۔اس کے بعد آپ رشتہ لیکر جائے گی اس کے گھر۔۔۔۔۔ میرا بی۔ایس مکمل ہوتے ہی منگنی ہوگی اور دو سال تک شادی۔۔۔۔۔۔۔ وہ فائنل ائیر اسی گھر میں آکر مکمل کرے گی۔۔۔۔‘‘ اس کی بات سنے عظمیٰ بیگم کا منہ کھل گیا تھا۔
ان کا بیٹا کچھ زیادہ ہی آگے کی تیاری کیے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
’’معتسیم!!‘‘ وہ شاک سے بولی
’’کیا؟‘‘
’’تمہارے باپ کو بتاؤں؟‘‘ انہوں نے آبرو اچکائے سوال کیا
’’اتنی جلدی ہے رشتہ لیجانے کی تو ضرور!‘‘ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔ عظمیٰ بیگم نے سر نفی میں ہلایا
’’شرم!‘‘
’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ اس نے حیرانگی سے آنکھیں پھیلائیں سوال کیا
’’اچھا سب باتیں بعد میں۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے میں خود اس سے ملوں گی اور جانچوں گی۔۔۔۔۔۔۔ اگر لڑکی مجھے پسند آئی تو ہی بات آگے بڑھے گی!‘‘ وہ کچھ سنجیدگی سے بولی
’’اففف!! میں بھی کہوں آپ اتنی جلدی کیسے مان گئی۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھے سے اپنی باتوں میں لپیٹ کر اب صحیح معنوں میں دیسی ماما بنی ہے آپ!‘‘ وہ شرارت سے بولا اور وہ مسکراتی یونہی اس کی باتوں کو سنتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلی پر رکھے سفید پاوڈر کو ناک کے ذریعے اندر کھینچے ان تینوں کو دیکھ مسکرائی تھی۔۔۔۔۔۔ یونیورسٹی کی بیک سائڈ جہاں سٹور روم واقع تھا۔۔۔۔۔ یہاں سٹوڈنٹس کبھی بھی نہیں آیا کرتے تھیں۔
دعا، آئزہ اور زرتاشہ تینوں مسکراتی، مسرور سی اس پاؤڈر کو سونگھ رہی تھی۔
’’کم آن گرلز اٹس ٹائم ٹو لیوو!‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولی
’’یار کانٹ آئی گیٹ اینی مور؟(یار کیا مجھے اور نہیں مل سکتی؟)‘‘ آئزہ نے منہ بسورے سوال کیا
’’منی بیبز(پیسہ میری جان)‘‘ صوفیہ کے جواب پر اس نے ایک گہری سانس کھینچی تھی۔
’’اب جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ حسان چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی نکلے!‘‘ اب کی بار آواز زرا سی سخت ہوئی تھی۔
’’اوکے!‘‘ وہ تینوں بھی منہ بناتی اس کے پیچھے نکل گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو شیور ہے تجھے یہ کرنا ہے؟‘‘ حمزہ نے ایک آخری بار اس سے سوال کیا تھا۔
’’ہاں! اور اب پلیز مجھے ڈرا مت۔۔۔۔‘‘ معتسیم نے اسے آنکھیں دکھائی تھی۔
’’پھر بھی یار سب کے سامنے؟ اگر اس نے انکار کردیا؟ یا تھپڑ مار دیا؟ یھر وہ آلریڈی کہی کمیٹیڈ ہوئی تو؟‘‘ حمزہ نے ایک ساتھ کئی خدشات پیش کیے
’’افف حمزہ بکواس نہ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ حسان کہاں ہے؟‘‘
’’کیا کسی نے مجھے یاد کیا؟‘‘ حسان مسکراتا ان کی جانب بڑھا
’’کہاں رہ گئے تھے تم؟ میں یہاں پینیک ہورہا ہوں اور تو غائب ہے عجیب!‘‘ معتسیم نے گلا کیا
’’اچھا نا لالے اب تو آگیا نا۔۔۔۔۔ وہ مام سے ملنے گیا تھا کام تھا۔۔۔۔۔ ویسے اس کا نام تو بتادے مجھے۔‘‘ حسان اس کے بٹنز کو ٹھیک کرتا بولا
’’سرپرائز!‘‘ معتسیم گہرا مسکرایا
’’اب مجھ سے چھپائے گا؟‘‘ حسان نے برا مناتے بولا
’’چھپا نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر میں جان جائے گا تو بھی۔۔۔۔‘‘ معتسیم نے آنکھ مارے گلاب کا پھول ہاتھ میں اٹھایا اور گہری سانس بھری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میری می!‘‘ اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا پھول اس کی جانب بڑھائے وہ مسکرا کر بولا تھا۔
پوری کلاس آنکھیں اور منہ کھولے اسے دکھ رہی تھی جبکہ ماورا کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
ابھی دس منٹ پہلے ہی وہ تین سینئیرز اس کی کلاس میں آئے تھے۔۔۔۔۔۔ نجانے کیسے سینیرز تھے جنہیں آدھا سمسٹر گزر جانے کے بعد ریگنگ یاد آئی تھی۔ یہ دعا کا کہنا تھا۔
مگر اس کی نظر تو صرف اس پر ٹکی تھی جو اسے کچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔
بلآخر خود کو کمپوز کیے اس نے ماورا کو پکارا تھا جو یوں اپنے پکارے جانے پر گھبرا سی گئی تھی۔
اپنی تمام دوستوں اور کلاس کے سٹوڈنٹس کو دیکھتی وہ شش و پنج کی حالت میں ڈائس کی جانب بڑھی تھی۔
نجانے وہ اسے کیا کرنے کو کہتے۔۔۔۔۔۔ کیا گانا گواتے یا پھر ڈانس؟ ڈانس سوچ کر ہی اس نے جھرجھری لی تھی۔۔۔۔۔۔ گانا تو پھر بہتر تھا۔۔۔
اپنی انہی سوچوں میں غلطاں اس کی آنکھیں معتسیم کو یوں اپنے سامنے بیٹھے دیکھ پھیلی تھی۔
پوری کلاس تو اپنی جگہ شاک مگر صوفیہ نے جس طرح خود کو گرتے گرتے سنبھالا تھا یہ وہی جانتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’مم۔۔۔۔۔میں؟‘‘
’’ماورا تمہارا نام ہی ہے نا؟‘‘ معتسیم نے آبرو اچکایا تھا
ایک نظر تمام کلاس پر ڈالے، ان کی معنی خیز نگاہوں سے کنفیوز ہوتی، وہ نم آنکھوں سے معتسیم کو گھورتی وہاں سے فورا بھاگی تھی۔
’’اب اس میں رونے والی کیا بات تھی؟‘‘ حمزہ نے حسان کے کان میں پوچھا جس نے کندھے اچکائے تھے۔
’’ایکسپیکٹڈ ری۔ایکشن!‘‘ معتسیم کو یہی امید تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔