"لڑکی کہاں ہے؟"
وہ ابھی ابھی شبیر زبیری کے ساتھ سارا پلان ڈسکس کرکے آرہا تھا جب اس نے راستے میں اپنے ایک آدمی سے پوچھا تھا جس کو اس نے ماورا پر نگرانی کرنے کے لیے معمور کیا تھا
"کمرے میں ہے" اس نے آنکھ کے اشارے سے کمرے کی جانب اشارہ کیا تھا، فہام جونیجو کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
سر ہلائے وہ سامنے موجود کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
"سر!" آواز پر وہ رکا اور پلٹا تھا۔
"معتصیم آفندی آگیا ہے" فہام جونیجو ایک بار پھر کل کر مسکرایا تھا۔
"اب آئے گا نا مزہ۔۔۔۔ سنو لڑکی کو لے آؤ" حکم دیتا وہ دوسرے آدمی کو اشارہ کرتا باہر کو نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے کھڑا وہ اس بلنڈنگ کو گھور رہا تھا جہاں اس کی بیوی کو بندی بناکر رکھا گیا تھا۔
"ویلکم ویلکم معتصیم آفندی۔۔۔۔۔۔۔فائنلی تم آہی گئے!" فہام جونیجو تالیاں بجاتا اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
"میری بیوی کہاں ہے جونیجو؟" معتصیم نے سخت لہجے میں سوال کیا تھا۔
فہام جونیجو نے انگلی کے اشارے سے پیچھے کھڑے آدمی کو اشارہ کیا تھا جو بیہوش ماورا کو باہوں میں جکڑے آگے آیا تھا۔
اس نے ماورا کو دونوں بازؤں سے تھاما ہوا تھا جس کے بال اس کے چہرے کو ڈھکے ہوئے تھے اور سر نیچے کو گرا ہوا تھا۔
"ماورا!" اس کی یہ حالت دیکھ معتصیم نے قدم آگے بڑھائے تھے جب فہام جونیجو نے اسے گن دکھائے وہی روک دیا تھا۔
"آخر تم چاہتے کیا ہو؟۔۔۔۔ کیوں میری بیوی کے پیچھے پڑے ہو؟" وہ چلایا تھا
"تمہاری بیوی نے میرا جو نقصان کیا تھا کیا اسے بھلانا اتنا آسان ہے؟" فہام جونیجو کی بات سن اس نے مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"تمہارا نقصان میں پورا کردوں گا، جتنی قیمت چاہیے بتاؤ مگر اسے چھوڑ دو" وہ ماورا پر نگاہیں جمائے بولا تھا
"او کم آن معتصیم مجھے معلوم ہے تم نقصان بھر دو گے۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے تمہاری بیوی کو اپنے پاس رکھنے کی کیا وہ آٹھ سال پرانی وجہ ہے؟" فہام کی بات سن معتصیم نے لب بھینچے تھے یہ بات تو وہ بھی جانتا تھا کہ وجہ کچھ اور تھی۔
"کیا چاہیے تمہیں؟ اگر تو ارحام شاہ کی جگہ چاہیے تو لے لو کیونکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں بس میری بیوی میرے حوالے کردو!" اس نے دوبارہ ماورا کو دیکھا تھا جو ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔
"میں جانتا ہوں معتصیم کہ تمہیں ارحام شاہ کی کرسی سے کوئی لگاؤ نہیں اور میں بھی ارحام شاہ کی بات نہیں کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ اور چاہیے معتصیم!" فہام جونیجو کی آنکھیں پل بھر میں ساکت ہوئی تھی۔
"کیا چاہیے تمہیں؟" معتصیم نے حیرانگی سے سوال کیا۔۔۔ آخر وہ کیا چاہتا تھا؟
"اتنے انجان مت بنو معتصیم، میں جانتا ہوں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے کیا چاہیے۔۔۔۔۔ وہ چپ!۔۔۔۔۔۔ وہ چپ میرے حوالے کردو معتصیم۔۔۔۔۔۔ نہیں تو اپنے ماں باپ کی طرح اپنی بیوی کو بھی کھو دو گے"
"میرے پاس نہیں ہے چپ!" معتصیم فوراً بولا
"جھوٹ نہیں معتصیم چپ مجھے دے دو ورنہ۔۔۔۔۔" اچانک گن نکالے اس نے ماورا کا نشانہ لیا تھا۔
"نہیں!۔۔۔۔ اسے کچھ مت کرنا!۔۔ میں، میں دیتا ہوں وہ چپ تمہیں"
شرٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اس نے ایک چھوٹا نیل کٹر نکالا تھا جس کے درمیان میں چپ کو اچھے سے فکس کیا گیا تھا۔
وہ چپ نکالے اس نے فہام جونیجو کے سامنے لہرائی تھی۔۔۔ فہام جونیجو مسکرایا تھا
"لاؤ چپ دو"
"نہیں پہلے میری بیوی" معتصیم انکاری ہوا
"تم اس وقت کسی بھی قسم کی ڈیمانڈ کی پوزیشن میں نہیں ہو معتصیم مجھے میری چپ دو نہیں تو۔۔۔۔۔۔" گن لوڈ کیے اس نے ایک بار پھر سے ماورا کا نشانہ لیا تھا۔
"دیتا ہوں۔۔۔۔ دیتا ہوں" آگے بڑھ کر اس نے چپ فہام جونیجو کے آدمی کے حوالے کی تھی اور نظریں ماورا پر ہی تھی۔
"چھوڑ دو اس کی بیوی کو" اس کے اشارے پر اس آدمی نے بیہوش ماورا کو زور سے زمین پر دھکا دیا تھا
معتصیم بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور اسے باہوں میں بھرا تھا۔
"سوئیٹ ری-یونین!" ان پر طنز کرتا وہ اپنے ساتھیوں کو اشارہ کرتے وہاں سے مڑا تھا جب اچانک اس کے قدم رکے
"یو نو واٹ معتصیم تم نے مجھے یہ چپ دے کر مجھے ایک نئی زندگی دی بدلے میں میں بھی تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اور جانتے ہو وہ کیا ہے؟ موت!" مسکرائے اس نے گن سے معتصیم کے سر کا نشانہ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ یہاں بیٹھے کیا کررہے ہیں جائیے اور بچائے انہیں!" اسپیکر کے ذریعے ان کی تمام باتیں سنتی ماورا اپنے ساتھ بیٹھے ارحام شاہ سے بولی تھی۔
"ہمم" ہنکارہ بھرے انہوں نے کریم کو اشارہ کیا تھا۔
"دنیا کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے معتصیم!" ایک بار پھر سے فہام جونیجو کی آواز ابھری تھی ماورا کے رونگتے کھڑے ہوئے تھے۔
"اتنی بھی کیا جلدی ہے فہام جونیجو؟" اس سے پہلے وہ گولی چلا پاتا ارحام شاہ نے اس کے ہاتھ کا نشانہ لیا تھا۔
گن دور جا گری تھی جبکہ اپنے زخمی ہاتھ کو تھامےفہام جونیجو پھٹی آنکھوں سے ارحام شاہ کو دیکھا رہا تھا۔
"کسی کو زور کا جھٹکا کافی زوروں سے لگا ہے!" کریم ہنس کر بولا تھا۔
"تم!۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو؟" فہام جونیجو کو جیسے اپنی آنکھوں اور لفظوں پر یقین نہ آیا تھا۔
"کوئی شک؟"
"یہ؟۔۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے؟" فہام جونیجو کی زبان لڑکھڑائی تھی۔
"بالکل ویسے ہی جیسے یہ ہوگیا!" اب کی بار آواز پیچھے سے آئی تھی جہاں سامنے ہی ماورا گن پکڑے اس کا نشانہ لیے کھڑی تھی۔
"تم؟ تو پھر یہ؟" اس نے معتصیم کی جانب دیکھا تو اب کھڑا ہوتا کپڑے جھاڑ رہا تھا جب اس کے ساتھ کھڑا وجود اپنے بالوں سے وگ اتارے مسکرایا تھا۔
"کیسے؟" فہام جونیجو کو سمجھ نہیں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معتصیم فہام جونیجو کے پہلے حملے سے ہی جان چکا تھا کہ اس کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں جب جازل نے انہیں شبیر زبیری اور فہام جونیجو کی آپسی ملاقات کا بتایا تو معتصیم پہلے سے ہی چوکنا ہوچکا تھا۔
بہت جلد اس کے ایک جاسوس نے اسے فہام جونیجو کے پلان سے آگاہ کیا تھا اور یہ بھی کہ وہ یہ سب کسی چِپ کے لیے کررہا ہے۔
"چِپ؟ کونسا چِپ ہوسکتا ہے؟" وہ انہی سوچو میں گم تھا جب اس کا دماغ اچانک کام کیا تھا۔
کچھ دن پہلے ہی وہ اپنے باپ کے ایک خاص آدمی سے ملا تھا جو آٹھ سال پہلے آفندی صاحب کے ساتھ ہوتا تھا۔۔۔۔۔ اسی آدمی نے معتصیم کو وہ چپ دی تھی اور دو دن بعد ہی اس کی ایک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔
تب معتصیم اتنا الجھا ہوا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی مگر اب دماغ کام کررہا تھا۔
بہت کچھ ایسا تھا جو اس کی نظروں کے سامنے تھا مگر وہ اس سے انجان رہا۔۔۔ اس چپ نے وہ تمام راز کھول دیے تھے۔
مان کی شادی پر آنے کا مقصد بھی باقی سب کو اس چپ کے متعلق آگاہ کرنا تھا۔
جس دن زویا اور شزا کو اغواہ کیا گیا تھا اس سے ایک رات پہلے ہی ماورا خفیہ طریقے سے کریم کے ساتھ معتصیم کے پاس آچکی تھی جبکہ پیچھے رہ گیا تھا تقی جس کا قد کاٹھ اور شکل ماورا سے اس حد تک ملتی تھی کہ اگر اس پر تھوڑی سی بھی محنت کی جاتی تو وہ ماورا ہی لگتا باقی رہی سہی کسر اس کے ٹیلنٹ نے پوری کردی تھی۔
تقی محتلف آوازیں نکالنے میں ماہر تھا وہ با آسانی لڑکیوں کی آواز میں بول سکتا تھا اور یہی اس کے ٹیلنٹ کو استعمال کیا گیا تھا۔
ویسے بھی ماورا کو گھر کی لائٹس آف کرکے اغواہ کیا گیا تھا اسے لیے اندھیرے میں بھی وہ لوگ بامشکل ہی فرق کر پائے تھے۔
فہام جونیجو کا دماغ تو اس قدر پلاننگ پر گھومنے لگ گیا تھا۔
وہ لوگ انہیں ڈبل کراس کرگئے تھے۔
"شٹ!'' اسے اس وقت شبیر زبیری پر سخت تاؤ آرہا تھا۔
"جو تحفہ تم میرے شوہر کو دینے والے تھے وہ اب میں تمہیں دیتی ہوں فہام جونیجو" ماورا اونچی آواز میں بولی تھی۔
"حملہ کرو ان پر!" وہ اپنے ساتھیوں سے بولا جن میں سے کسی نے بھی قدم آگے نہیں بڑھائے تھے۔
"کوئی فائدہ نہیں فہام تم ہار چکے ہو!" معتصیم نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"نہیں اتنی جلدی نہیں" فہام نے غصے سے سر نفی میں جھٹکا تھا۔
"سے گڈ بائے جونیجو" ساتھ ہی فضا میں گولی چلنے کی آواز گونجی تھی جو سیدھی اس کی پیٹھ پر جالگی تھی بالکل وہی جہاں ماورا کو لگی تھی۔
وہ تکلیف سے زمین پر گرا تھا جب معتصیم اس کے سر پہنچتا اس کے چہرے کو کئی مکوں سے لہولہان کرگیا تھا۔
آج وہ ان سب تکلیفوں کا مداوا کرنے والا تھا جو اس نے فہام جونیجو کی وجہ سے اٹھائی تھی۔
"جہنم میں جاؤ" گن اس کے منہ میں ڈالے معتصیم نے ٹریگر دبایا تھا۔
فہام جونیجو کا بےجان جسم ایک جانب کو ڈھلک گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھیل ابھی ختم نہیں ہوا سلطانز۔۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں میں سے کسی نے ہوشیاری دکھائی تو یہ دیکھ رہے ہو ایک بٹن کی مار ہے تمہاری بیوی سنان!۔۔۔۔۔" شبیری زبیری نے ہنستے ہوئے اس کے سنان کی نظروں کے سامنے ایک چھوٹا سا ریمورٹ لہرایا تھا جس کے ذریعے وہ اپنے آدمی کو سگنل دے سکتے تھے جو ان کے گھر کے باہر ہی کھڑا حملے کے لیے تیار تھا۔
"اچھاااا؟ ایسا کیا؟ چلو ٹھیک مار دو!" اس نے مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
شبیر زبیری کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
"تمہیں مجھے یہاں بھی دھوکا دیا جازل!" انہوں نے غصے سے جازل کو گھورا جب زچ کردینےوالی مسکراہٹ مسکرایا تھا۔
زور سے انہوں نے ریمورٹ زمین پر دے مارا تھا مگر ایک بار پھر ان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
وہ جو اسے نکلی سمجھ رہے تھے وہ اصلی ریمورٹ ہی نکلا تھا یعنی کے انہیں ایک بار پھر بیوقوف بنایا گیا تھا۔
"میرے خیال سے اب ہمیں کھیل کا دی اینڈ کردینا چاہیے!" ارحام شاہ کی بات پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
موت کو اتنے قریب اور اتنے سامنے دیکھ ان دونوں کے ہاتھ پیر پھولے تھے مگر انہیں کوئی بھی دوسرا موقع دیے بنا ان پر گولیاں برسانی شروع کردی گئی تھی۔
شزا جازل اور وائے۔زی کی گولیوں کا نشانہ شبیر زبیری جبکہ مرینہ چوہان کریم اور سنان کی گولیوں کا نشانہ بنی تھی۔
زویا خوف سے ماورا سے لپٹ گئی تھی۔
"خس کم جہاں پاک!۔۔۔۔۔ چلے تھے مجھے مارنے" ارحام شاہ ان کے بےجان وجود زمین پر گرتے دیکھ ہنس کر بولتے مڑا ہی تھا کہ معتصیم کی گن سے نکلتی گولی اس کے سر پر جالگی تھی۔
وہ شخص جو ایک سیکنڈ پہلے ہنس رہا تھا وہ بھی اب ایک بےجان وجود بن گیا تھا۔
"سوری شزا مگر یہ شخص ڈیزروو کرتا تھا!" وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا
"مجھے فرق نہیں پڑتا!" شزا نے کندھے اچکائے تھے۔
اس کے وجود کو دیکھ معتصیم کی آنکھوں میں غصے کے ساتھ ساتھ نمی بھی اتر آئی تھی۔
کچھ دیر پہلے:
"تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں معتصیم؟۔۔۔ سوچا مرنے سے پہلے ایک نیک کام کرتا جاؤں۔۔۔۔ تمہارے ماں باپ کا قاتل میں اکیلا نہیں!۔۔۔۔۔۔۔ ارحام شاہ میرے ساتھ تھا!" وہ ہنسا تھا
"اب ایک راز تمہیں میں بتاؤں؟ مجھے معلوم ہے۔۔۔۔ اور تم جہنم میں جاؤ" اسے کے بےجان وجود کو پرے دھکیلتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
اسے ارحام شاہ پر شک تو بہت پہلے ہی ہوگیا تھا مگر یقین تب ہوا جب اس نے چپ میں موجود انفارمیشن دیکھی تھی۔
اس وقت معتصیم نے ہوشیاری سے صرف فہام جونیجو کے خلاف ثبوت ایک دوسری چپ میں منتقل کیے ارحام شاہ کو دکھائیں تھے۔
ارحام شاہ ایک واقعی شاطر کھلاڑی تھا ، آٹھ سال پہلے وہ فہام جونیجو نامی ایک چھوٹے موٹے غنڈے کے ذریعے اپنے کام کرواتا تھا جب آفندی صاحب کو ان پر شک ہوا تھا اور وہ ثبوت اکٹھے کرنے میں جت گئے تھے۔۔۔۔۔۔ ڈیپارٹمنٹ میں سے ہی ارحام شاہ کے کسی بندے نے مخبری کی تھی جس کی وجہ سے انہیں دھمکی بھری کالز موصول ہوتی تھی۔
جب ارحام شاہ نے انہیں پیچھے ہٹتے نا دیکھا تو ان کا ارادہ ان کے بیٹے کو نشانہ بنانے کا تھا مگر معتصیم پر جب ہراسمنٹ کا الزام لگا تو اس سچوئیشن کو انہوں نے بہت اچھے سے استعمال کیا تھا۔
معتصیم کے ماں باپ کو مار کر وہ اسے اپنے گھر میں جگہ دیکر اس کے لیے ایک فرشتہ بن گئے تھے۔۔۔۔۔
ماں باپ کو قتل کردیا مگر چپ انہیں تب بھی نہ ملی تھی۔ ملا تو ایک ٹوٹا بکھرا وجود جنہیں انہوں نے اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا تھا۔
"واؤ!" تقی پہلی بار بولا اور بس اتنا ہی بولا تھا۔
وہاں موجود آدمیوں کو آرڈر دیے سنان نے بوڈیز کو اٹھوانے کو کہا تھا۔۔۔ ارحام شاہ کے وجود کو دیکھ اس نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"چلے؟" اس نے کریم کا کندھا ہلایا جو مرینہ چوہان کو دیکھ رہا تھا
"ہوں!" سر ہلائے وہ مڑا تھا۔
"گھر چلے بھائی؟۔۔۔۔ انہیں آپ کی ضرورت ہے وہ آج بھی آپ کو یاد کرکے روتی ہے!" وائے۔زی کے سامنے کھڑے ہوئے جازل بولا تھا۔
"میں جانتا ہوں جازل مگر کوئی اور بھی ہے جسے اس وقت میری زیادہ ضرورت ہے" اس نے شزا کو دیکھا تھا۔
"وہ آپ کے لیے نہیں ہے بھائی، آپ جانتے ہے!" جازل کو افسوس ہوا تھا۔
"جانتا ہوں، مگر محبت کا مطلب ہمیشہ پالینا تھوڑی نہ ہوتا ہے!۔۔ کھودینے کے احساس کو بھی محبت ہی کہتے ہے!" مسکرائے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
"شبیر زبیری کی باڈی لندن لے جانی ہے یا نہیں اب یہ تم پر ہے! میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔ انہیں بتا دینا ان کا یمر بہت جلد ہی ان سے ملنے آئے گا!" وہ مسکرایا تھا۔
"بھائی!۔۔۔ جلدی آئیے گا!" اس کے گلے جازل کی آواز بھاری ہوئی تھی۔
وائے۔زی نے مسکرا کر اس کا سر تھپتھپایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبیر زبیری نے اپنے ہی بھائی کی ایکسیڈینٹ میں جان لے لی تھی کیونکہ وہ شبیر زبیری کے خلاف تھے اور دھمکی دی تھی کہ اگر شبیر زبیری بعض نہ آئے تو وہ ان کے خلاف کوئی ایکشن لے گے مگر شبیر زبیری نے اپنے ہی بھائی کو مارنے میں عافیت جانی تھی۔
اسے لیے انہوں نے اپنے بھائی منیب اور یمر کا ایکسیڈینٹ پلان کیا تھا۔
اس رات منیب اور یمر کے ساتھ ساتھ یمر کا ایک دوست بھی ان کے ساتھ ہی واپس آرہا تھا۔
اس کے کوئی رشتے دار نہیں تھے اور ماں باپ کو مرے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا جب منیب زبیری نے اس کی ذمہ داری اٹھا لی تھی۔
وہ وائے۔زی کا جمپر پہنے آگے والی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ وائے۔زی پچھلی سیٹ پر موجود تھا۔
جب ایکسیڈینٹ ہوا تو یمر قریبی گاؤں سے مدد مانگنے کو بھاگا تھا مگر اس کے پیچھےہی آگ کا ایک بھڑکتا شعلہ پوری گاڑی کو جلا کر راکھ کرگیا تھا
یمر تو گاؤں پہنچتا ہی بیہوش ہوگیا تھا اس کی خود کی حالت کافی خراب تھی۔۔۔۔ ان لوگوں نے یمر کو ہر دیسی طریقے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایک ہفتے بعد یمر کی آنکھ کھلی تھی، مگر اس وقت اس کا دماغ بالکل خالی تھی۔۔۔۔
اسے شورٹ ٹرم میمری لاس ہوا تھا۔
وہ ان گاؤں کے لوگوں میں ہی رچ بس گیا تھا جب ارحام شاہ اس تک جا پہنچے تھے۔
سنان اور معتصیم کی طرح وائے۔زی بھی ان کے لیے ایک پتلا بن گیا تھا۔
آہستہ آہستہ اس نے اپنی میموری بھی ریکور کرلی تھی۔ پہلے پہل تو اسے ارحام شاہ پر یقین نہ آیا مگر بہت جلد اس نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ اس کے باپ کا قاتل اس کے باپ کا اپنا سگا بھائی تھا۔
حماد کے نکاح پر بھی جانے کی وجہ صرف شزا نہیں بلکہ اس کا بھائی اوراس کی ماں تھے جو اسے پہچان نہ سکے۔۔۔۔۔۔۔
شزا کی سچائی بھی وہ بہت پہلے جان چکا تھا مگر چپ رہا۔
پھر جب حماد پر حملہ ہوا تب اس نے جازل سے کانٹیکٹ کیا تھا، جازل کو اس پر شک ہی تھا مگر ڈی۔این۔اے جازل کو غلط ثابت کردیا۔
جازل کو شبیر زبیری کے حوالے سے کسی بات پر کوئی یقین نہیں آیا تھا، اس کے نزدیک یمر کی اچھی خاصی برین واشنگ کی گئی تھی۔
مگر حماد کے مر جانے کے بعد بہت سے سچ ان دونوں بھائیوں کے سامنے کھل کر آئیں تھے۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے ان دونوں ایک جٹ کردیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاؤنج میں بیٹھے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے جب زویا ایکسکیوز کرتی سنان کے پیچھے گئی تھی۔
"بھائی!" اس کی پکار پر سنان پلٹا
"ہمم؟"
"بھائی وہ مرینہ نے بتایا تھا کہ جیک۔۔۔۔ میرا مطلب وہ ایکسیڈینٹ۔۔۔۔۔۔" زویا کو قید میں مرینہ بتا چکی تھی جیک کے بارے میں اور یہ بھی کہ وہ بدلا لیکر رہے گی۔
"جیک اب نہیں رہا زویا!۔۔۔۔۔۔ اب تمہیں کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں میری جان!۔۔۔۔۔۔۔ جو انہوں نے کہاں وہ سچ تھا!" وہ بولا تو زویا مسکرا دی تھی۔
"جی بھائی" مسکراتی وہ ایک بار پھر سب میں آبیٹھی تھی۔
مشعل اور عبداللہ تو شزا سے چمٹے ہوئے تھے جیسے وہ اب اسے کہی نہیں جانے دے گے۔۔۔۔۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی ہلکی ہلکی لال تھی یقیناً وہ اپنی ماں کو یاد کرتے بہت روئے تھے۔
"ویسے ماننا پڑے گے تقی۔۔۔ لڑکی تم کافی ہاٹ ہو!" وائے۔زی نے شرارت سے اس کی وگ ہوا میں لہرائی تھی جس پر سب ہنس دیے تھے۔
"بھائی نا کرے!" وہ شرمندہ سا بولا اور معتصیم کو گھورا جو ماورا کو بازو کے حلقے میںلیے کندھے اچکا گیا تھا۔
"ویسے زی بھائی آج تو اپنے نام کا مطلب بتادے!" زویا کی بات پر اس نے زبان چڑائی تھی۔
"بتادو وائے۔زی" درخواست شزا نے کی تھی
محبت کچھ مانگے اور محبوب دے نہ۔۔۔۔۔۔ ناممکن!
"یمر۔۔۔۔ یمر زبیری" وہ مسکرا کر بولا تھا۔
"شبیر زبیری کے؟" زویا نے آنکھیں پھیلائے سوال کیا
"شبیر زبیری کا بھتیجا یمر زبیری" اس نے بات مکمل کی۔
لاؤنج میں ایک پل کو سناٹا چھایا تھا جسے مشعل نے توڑا جو اب وائے۔زی کے پاس جانے کو مچل رہی تھی جس کی آنکھیں خوف سے پھیلی تھی۔
ایک بار پھر سب کے قہقے گونجے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سو اب؟" کریم اور سنان دونوں اس وقت گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے تھے۔
"اب سے کیا مراد؟۔۔۔۔۔ دو سال دے رہا ہوں تمہاری بہن کو دو ماہ بعد نکاح چاہیے اور دو سال بعد رخصتی۔۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں کرسکتا کچھ بھی اب میں"
"وہ تم سے خوف کھاتی ہے ڈرتی ہے!" سنان نے جیسے یاد دلایا
"جس سے ڈرتی تھی وہ جیک تھا جو نہیں رہا میں کریم ہوں جو زندہ ہے اس سے محبت بھی کرے گی اور زندگی بھی گزارے گی!'' کریم کی بات پر مسکراتے ہوئے سنان نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
آج سے ایک سال پہلے وہ صرف پری کو ہی وہاں سے نکالنے نہیں گیا تھا مقصد زویا کو بھی بچانا تھا جس میں جیک عرف کریم نے اس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
جیک نے جب زویا کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی اس کے دوسرے کی دن وہ اپنی اس حرکت پر بہت نادم تھا۔۔۔۔۔ وہ واقعی میں زویا کو حقیقت میں پسند کرتا تھا۔
اس کا ارادہ مرینہ چوہان سے بات کرنے کا تھا مگر ان کے روم سے آتی آوازیں سن اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگ گئے تھے۔
اس کی ماں اس حد تک گرسکتی ہے اس نے سوچا نہیں تھا، پھر اسی دن وہ پاکستان چلا آیا تھا۔
بہت مشکلوں سے وہ سنان سے ملا تھا، پہلے پہل تو سنان نے اس پر زرا بھروسہ نہیں کیا تھا اسے وہ شخص فراڈ لگا تھا مگر جب اس زویا کی تصویر دکھائی تو سنان کچھ حد تک مان گیا تھا، اس کے علاوہ وہ میری سے کہہ کر زویا کے ناخن بھی لے آیا تھا تاکہ ڈی۔این۔اے کروایا جاسکے۔
دو سال لگے تھے اسے سنان کا اعتبار جیتنے میں اور زویا کو وہاں سے نکالنے کی پلاننگ کرنے میں۔
آخر دو سال بعد وہ لوگ کامیاب ہو ہی گئے تھے۔
اور پھر وہ جو دو سال اس سے دور رہا تھا مزید دوری برداشت نہ کرتے ہوئے کریم بن کر یہی آبسا تھا۔
جیک کی جگہ موجود انسان بھی ان کا ہی ایک دشمن تھا جنہیں انہوں نے استعمال کیا تھا۔
زویا کی سالگرہ والے دن اس کے کمرے میں آنے والا بھی جیک ہی تھا جو کھڑکی کی مدد سے اس کے کمرے سے غائب ہوتا اپنے کمرے میں آگیا تھا
مگر جیک اب کہی نا تھا، جیک ختم ہوچکا تھا جو تھا وہ صرف کریم تھا۔
"اور ویلیم؟" سنان نے اس کے باپ کے بارے میں سوال کیا
"پولیس!" اس نے کندھے اچکائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ بعد:
پورے گھر میں آج ہلچل مچی ہوئی تھی زویا کا نکاح جو ہوا تھا۔۔۔۔۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم تھا۔
نکاح ہوچکا تھا اور اب لوگ رخصت ہورہے تھے جلد ہی صرف گھر کے افراد رہ گئے تھے۔
ایک بار پھر لاؤنج میں محفل سج گئی تھی۔
ایک جانب معتصیم ماورا کو آرام کی تلقین کررہا تھا جو امید سے تھی جو دوسری جانب سنان کچن میں صبغہ کے ساتھ چائے بنوا رہا تھا، وہی تیسری جانب زویا اور کریم ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور کریم زویا کے کان میں نجانے کیا کیا بول رہا تھا جس پر وہ مسکرا رہی تھی۔
شزا نے ایک پھیکی مسکراہٹ لیے ان سب کو دیکھا تھا، دل میں آج پھر ایک درد سا جگا تھا۔
کاش آج وہ یہاں ہوتا۔۔۔۔۔ دنیا کے سامنے وہ بالکل ٹھیک تھی مگر نجانے کتنی ہی راتیں اس نے رو رو کر گزاری تھی۔۔۔۔ کتنی ہی راتیں اس کی تکلیف میں گزری تھی۔
"شزا!" اپنے نام کی پکار پر وہ مسکرائی، اب تو عادت ہوگئی تھی اسے سننے کی
"شزا!" اب کی بار وہ چونکی تھی، آواز کی سمت نگاہیں اٹھائے اس نے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں ایک کمزور، لاغر، صدیوں کا بیمار اور تھکا وجود کھڑا تھا۔
"حماد" شزا کے منہ سے یہ نام سن باقی سب کی بھی آنکھیں بےیقینی سے پھیلی تھی۔
ان سب نے حماد کی تصویر دیکھی تھی وہ ایسا تو نہیں تھا۔
"تم نے مجھے پہچان لیا!" جازل کے سہارے کھڑا وہ وجود مسکرایا تھا۔
"حماد!" اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی، قدم اٹھاتی وہ اس کے سامنے آکھڑی ہوئی اور ہاتھ لگائے اس کے چہرے کو چھوا تھا جیسے اس کے ہونے کا یقین کررہی ہو!
اور ہاں وہ سچ تھا، خواب نہیں تھا وہ۔۔۔۔۔۔ وہ حقیقت تھی۔
"تم، تم میرے حماد ہو نا!۔۔۔۔۔ تم سچ میں ہو نا!۔۔۔۔ دیکھو سب حماد، میرا، میرا حماد!۔۔۔۔ حماد!" اس کے شانے پر سر ٹکائے وہ اونچا رونا شروع ہوگئی تھی۔
باقی سب کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھی۔
"دیکھو سب میرا حماد!" بار بار اس کے سینے کو چومتی وہ بولی تھی۔
اس کا یہ دیوانہ پن دیکھ حماد کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں نکل آئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہمیں بتانا پسند کرو گے اب سچ؟" سنان نے جازل اور وائے۔زی کی کلاس لگائی تھی جبکہ صبغہ کی گود میں موجود مشعل غور سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کے شانے پر اس کی ماں نے سر رکھا ہوا تھا۔
حماد کو جب گولیاں لگی تو اسے ہسپتال لیجانے والا جازل تھا۔۔۔۔۔ حماد بچ تو گیا تھا مگر وہ کوما میں جاچکا تھا۔
جازل ارحام شاہ جبکہ وائے۔زی شبیر زبیری پر الزام لگارہا تھا اسی لیے دونوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک حماد ٹھیک نہیں ہوجاتا اس کی جھوٹی موت کی خبر پھیلادی جائے۔
وائے۔زی حماد کو اسی گاؤں چھوڑ آیا تھا جہاں کے لوگوں نے اس کا علاج کیا تھا
وہاں ڈاکٹرز کی ایک بیسٹ ٹیم ہر وقت اس کے علاج کے لیے موجود تھی۔
حماد کو کوئی ماہ بعد ہوش آیا تھا اور اس نے ریکوری میں بھی ٹائم لیا تھا مگر اس تمام عرصے میں وہ اسے نہیں بھولا تھا، وہ اپنی شزا کو نہیں بھولا تھا۔
تب وائے۔زی نے اس کی اور اپنی محبت کا موازنہ کیا تھا اور حماد کا پلڑہ بےشک بھاری تھا۔
"ڈاکٹرز کے مطابق حماد اب ٹریول کرسکتا تھا تو میں نے یہی ٹھیک سمجھا!" جازل کی بات سمجھتے سب نے ان دونوں کی جانب دیکھا تھا
آج کتنے ماہ بعد شزا کے چہرے پر کچھ ایسا تھا جو پہلے کبھی نہ تھا۔۔۔ وہ تھی محبت۔۔۔۔۔۔ محبت جھلک رہی تھی اس کے چہرے سے
"تو اس لیے تونے نکاح سے انکار کیا تھا!" وائے۔زی کے کان میں بولا تھا معتصیم جس پر اس نے معتصیم کو گھورا تھا۔
ایک دم ہی مشعل کا باجا بجنا شروع ہوا تھا جو مچل کر وائے۔زی کے پاس جانے کو بیتاب تھی۔
"ہماری بیٹی؟" حماد کے لہجے میں موجود حسرت کو سب نے محسوس کیا تھا جب وائے۔زی مشعل کو تھامے حماد کی گود میں ڈال چکا تھا
کانپتے ہاتھوں سے حماد نے اسے اپنے سینے میں بھینچا تھا اور خوب پیار لٹایا تھا۔
مشعل رونا بھول اس انسان کو دیکھا رہی تھی جس کی آنکھوں سے اشک رواں تھا۔
اچانک ہی وہ قلقاریاں مارتی ہنس دی تھی جس پر حماد بھی دھیما سا ہنسا، شائد اسے اس شخص کا رونا پسند نہیں آیا تھا اور اب اسے ہنسانے کے چکر میں تھی۔
"میری بیٹی میری جان!" وہ ایک بار پھر اسے سینے میں بھینچ چکا تھا۔
یہ سب دیکھ عبداللہ صاحب بھی مچل کر ماں کے پاس جانے کو تیار تھے اور شزا کی گود میں آتے ہی اس نے دم لیا تھا
اب اپنی معصوم آنکھیں بڑی کیے وہ حماد کی جانب دیکھ رہا تھا، مطلب کے مجھے بھی ویسے ہی پیار دو
حماد اس کی آنکھوں کا مفہوم پڑھتا ہنسا تھا اورہلکے سے سر جھکا کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے جس پر کھل کر مسکرایا تھا۔
اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کم از کم اس نے اپنی بہن سے ٹکر تو لے لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسی پر بیٹھی وہ باہر کے نظاروں پر ایک نگاہ ڈالے ایک بار پھر سے ایلبم کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
کتنے برس بیت گئے تھے مگر بیٹے اور شوہر کا غم تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کتنی دعا کی تھی نا کہ آج بھی وہ دونوں کہی سے نکل آئے۔۔۔
حلیمہ زبیری کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوئی تھی۔
"ماما!" ان کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھے اس نے ہاتھ بڑھائے ان کے آنسوؤں صاف کیے تھے
حلیمہ زبیری نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
"یمر؟" انہیں جیسے یقین نہ آیا
"جی ماما آپ کا یمر! آپ کا وائے۔زی!" ان کے ہاتھ کو چومے اس نے اقرار کیا تھا۔
"میرا، میرا یمر؟۔۔۔۔۔ جازل میرا یمر!" انہوں نے پاس کھڑے جازل کو بتایا جس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا
"اتنی دیر کیوں لگا دی؟" وہ اس کے شانے پر سر رکھے رو دی تھی۔
"بس ماما تھا کوئی اور جس آپ سے زیادہ میری ضرورت تھی" وہ نم آنکھوں سے بولا
"اب، اب کہی نہیں جانے دوں گی!۔۔۔۔ کہی بھی نہیں یہی رہو گے میرے پاس، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے" انہوں نے زور سے اسے سینے میں بھینچا تھا
"ہمیشہ آپ کے پاس رہوں گا میں!" اس نے وعدہ کیا
کچھ محبتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خالص ہوتے ہوئے بھی ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں ہر سچی محبت کا اختتام نکاح ہی ہو؟۔۔۔۔۔ بہت سی محبت کا انجام قربانی ہی ہوتا ہے۔۔۔
اور محبت تو نام ہی قربانی کا ہے
وائے۔زی کی محبت بھی ایسی ہی تھی۔۔۔ جو خالص تو تھی مگر وہ اسے پا نہ سکا تھا۔۔۔۔ بلکہ اس نے قربان کردیا تھا، خود کو، اپنی محبت اپنے محبوب پر۔۔۔۔۔۔ اس کی خوشی پر ۔۔۔۔ اس کی خواہشات پر
وہ آج خوش تھی اس کے ساتھ جس سے وہ محبت کرتی تھی تو وہ کیوں نا خوش ہوتا وہ بھی تو اس کی خوشی سے خوش تھا!
ویسے بھی وہ حماد اور بچوں کے ساتھ مسز زبیری کے پاس شفٹ ہوگئی تھی جو حماد کو زندہ دیکھ حیران تھی، مگر بیٹے کو زندہ دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ ان سب دکھوں پر حاوی تھی جو انہیں سچ سن کر ملے تھے۔
سنان اور صبغہ بھی اپنی زندگی میں پرسکون تھے۔۔۔۔ زویا اب کمپیوٹر کلاسز لے رہی تھی ساتھ ہی ساتھ وہ بزنس کی کلاسز بھی اٹینڈ کررہی تھی۔
کریم اپنا تمام لیگل بزنس لندن سے پاکستان شفٹ کرواچکا تھا
وہ سب اپنی زندگیوں میں مطمئن تھے اور جہاں تک بات رہی ارحام شاہ کی کرسی کی تو وہ کس کے پاس تھی کسی کو کوئی سروکار نہ تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماورا کتنی بار کہاں ہے آرام سے چلا کرو سمجھتی کیوں نہیں ہو؟" معتصیم نے اسے ڈانٹا تھا جو ابھی بےاحتیاطی کی وجہ سی گرتے گرتے بچی تھی۔
"ابھی اگر کوئی نقصان ہوجاتا تم دونوں کو تو؟" معتصیم کی بات پر اس نے منہ پھیلایا تھا جب کے معتصیم اسے سہارا دیے صوفے کی جانب لایا تھا۔
"نہیں ہوتا مجھے کچھ۔۔۔۔ اور ویسے بھی مجھے کچھ ہونے دو گے تم؟" اس نے سوال کیا جبکہ معتصیم نے اب اس کے پیروں سے ہیلز نکالی تھی۔
"بالکل نہیں میرے ہوتے ہوئے تمہیں کبھی کچھ نہیں ہوگا!" اس کا ہاتھ تھامے معتصیم نے وعدہ کیا تھا۔
"میں بھی تو وہی کہہ رہی ہوں کہ کچھ نہیں ہوگا مجھے۔۔۔ ویسے بھی تم ساتھ ہو جب اپنے تو کیسا غم؟" اس نے دونوں بھنویں اچکائی تھی۔
"سدھر جاؤ تم!" اس کے ماتھے پر انگلی مارتے وہ بولا تھا جبکہ ماورا ہنس دی تھی۔
تم ساتھ ہو جب اپنے دنیا کو دکھا دے گے
ہم موت کو جی لے گے، انداز سکھا دے گے
مانا کہ اندھیروں کے گہرے ہیں بہت سائے
پر غم ہے یہاں کس کو؟ آتی ہے تو رات آئے
ہم رات کے سینے میں ایک شمع جلادے گے
تم ساتھ ہو جب اپنے دنیا کو دکھا دے گے
ہم موت کو جی لے گے، انداز سکھا دے گے
اختتام!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔